طریقۂ محمدیہ سلاسل تصوف میں سے ایک سلسلہ ہے جس کے مؤسس بھارت کے مشہور مصلح و مجاہد سید احمد بریلوی ہیں۔[1] اس طریقہ میں عبادات میں ایمان و احتساب کو زیادہ توجہ دی گئی ہے۔

طریقۂ محمدیہ کی تاسیس

ترمیم

سید احمد بریلوی نے دین کے جن شعبوں میں تجدید کی اور ان کو زندگی، قوت اور رواج بخشا، ان میں ایک ایمان و احتساب بھی ہے جو پورے دینی نظام کی روح رواں ہے، یعنی زندگی کے تمام اعمال و اشغال میں صرف رضائے الہی کی نیت، نیت کے استحضار اور موعود اجر و ثواب کی طمع میں انجام دیا جائے، اس سلسلے میں سید صاحب کی شروع سے ہی ایسی تربیت ہوئی تھی کہ یہ ایمان و احتساب شروع سے ان کا مزاج اور فطرت بن گیا تھا، اپنے متعلق فرماتے تھے:

میں نے مدۃ العمر آنے جانے، لینے دینے، اٹھنے بیٹھنے، حرکت و سکون، غصہ و بردباری، قہر و مہر، کھانے پینے، پہننے اور سوار ہونے کا کوئی کام نہیں کیا جس میں رضائے الہی کی نیت نہ ہو اور کوئی کام میں نے نفس کے تقاضے اور خواہش سے نہیں کیا۔[2]

سید صاحب نے اس ایمان و احتساب کو مکمل سلوک بنا دیا تھا اور چاروں طرق کے ساتھ اس میں بھی بیعت لیا کرتے تھے اور اس کو طریقۂ محمدیہ کے نام سے موسوم کرتے، جمعدار مرتضی خان رامپوری لکھتے ہیں:

رامپور میں حکیم غلام حسین نائب والی ریاست کے بڑے بھائی حکیم عطاء اللہ اور میاں محمد مقیم نے ایک روز بڑے ادب سے عرض کیاکہ جناب والا، پہلے طریقہ چشتیہ،قادریہ، نقشبندیہ اور مجددیہ میں بیعت لیتے ہیں، اس کے بعد طریقہ محمدیہ میں داخل فرماتے ہیں، اس کا سبب سمجھ میں نہیں آیا، اگر یہ سب طرق طریقۂ محمدیہ ہی ہیں، تو ان طرق کے بعد طریقہ محمدیہ میں بیعت لینے کی کیا ضرورت ہے؟

آپ نے فرمایا کہ اس کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ اصحاب طرق نے اپنے اپنے طریقہ کے مطابق اشغال کی تعیم کی ہے، مثلاً طریقہ چشتیہ اور قادریہ کے شیوخ یہ بتاتے ہیں کہ ذکر جہر اس طرح کیا جائے اور ضرب اس طرح لگائی جائے، نقشبندی اورمجددی طرق کے شیوخ بتاتے ہیں کہ ذکر خفی کریں اور یہ لطیفہ قلب ہے اور وہ لطیفہ روح اور یہ لطیفہ نفس ہے اور وہ لطیفہ سر، لطیفہ خفی یہ ہے اور لطیفہ اخفی فلاں اور اسی طرح وہ تمام لوازم جو ہم اور تمام پیران طریقت اپنے مریدوں کو تعلیم کرتے ہیں، ان طرق کی نسبت آنحضرت ﷺ سے باطنی ہے، لیکن ہم طریقۂ محمدیہ کے اشغال کی تعلیم اس طرح کرتے ہیں کہ کھانا اس نیت سے کھایا جائے، کپڑا اس نیت سے پہنا جائے، نکاح اس نیت سے کیا جائے، سونے کی نیت یہ ہے، کپڑا پہننے کی نیت یہ ہو، زراعت، تجارت، ملازمت کی نیت یہ ہونی چاہیے، اس طریقے کی نسبت آنحضرت ﷺ سے ظاہری ہے۔[3]

طریقۂ محمدیہ کے وجہ تسمیہ کے بارے میں سید احمد بریلوی کے نامور خلیفہ کرامت علی جونپوری - جن کے ہاتھوں نواب بہادر یار جنگ کے بقول دو کروڑ لوگوں کو ہدایت ہوئی[4] -اپنی کتاب زاد التقوی میں لکھتے ہیں:

سو اس کی وجہ یہ ہے کہ بعضے بعضے اولیاء بعضے بعضے نبی کے قدم پر ہوتے ہیں جیسا کہ آٹھویں فصل میں نظر بر قدم کے بیان سے معلوم ہوا، سو مرشد بر حق محمد رسول اللہ ﷺ کے قدم پر تھے اس واسطے اپنے طریقہ کا نام محمدیہ رکھا۔[5]

طریقۂ محمدیہ کے اشغال

ترمیم

اس میں در حقیقت قدیم طریقوں کے اشغال کو اپنے حال پر رکھ کر اس میں کچھ ایسے مراقبے مندرج کیے ہیں کہ اس سے طریقت کا سلوک آسان ہو گیا ہے اور مطلب جلد ہی ملتا ہے اور انتہا کا اثر ابتدا میں ظاہر ہوتا ہے۔[6] اس طریقہ کے اوراد و اشغال سید احمد بریلوی کے مجموعۂ ملفوظات "صراط مستقیم" میں اور کرامت علی جونپوری کی کتاب "زاد التقوی" اور "نور علی نور" میں مفصل بیان کیے گئے ہیں۔

طریقۂ محمدیہ کے مشائخ

ترمیم

طریقۂ محمدیہ کے مشائخ حسب ذیل ہیں:

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. عبد الباطن جون پوری : سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، مرکز طالب العلوم، جونپور، صفحہ 125۔
  2. وصایائے وزیری از نواب وزیر الدولہ بحوالہ سیرت سید احمد شہید، جلد دوم، مؤلفہ سید ابو الحسن علی ندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ، 2011ء، صفحہ 546۔
  3. کتاب دافع الفساد و نافع العباد از جمعدار مرتضی خان رامپوری بحوالہ سیرت سید احمد شہید، جلد دوم، مؤلفہ سید ابو الحسن علی ندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ، 2011ء، صفحہ 546-547۔
  4. ابو الحسن علی ندوی: تحقیق و انصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ، 1979ء، صفحہ 62
  5. کرامت علی جونپوری: زاد التقوی، صفحہ 129
  6. تفصیل کے لیے دیکھیں : سید احمد شہید: صراط مستقیم۔
  7. دیکھیے: سید ابو الحسن علی ندوی: کاروان ایمان و عزیمت، سید احمد شہید اکیڈمی، لاہور۔