1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ

(عرب اسرائیل جنگ 1948ء سے رجوع مکرر)

1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عرب اور اسرائیلی میں پہلی بار ایک دوسرے سے ٹکرائے اور اس ٹکراؤ کو عرب اسرائیل جنگ 1948ء کا نام دیا گیا جبکہ اسرائیلی اسے "جنگ آزادی" کہتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین پر قابض ہوتے ہی علاقے کی عرب اقلیت پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے جس کی وجہ سے عربوں کو مجبوراً اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ بے خانماں عربوں کی تعداد جلد ہی 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ عرب پوری طرح مسلح یہودی دستوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور 15 مئی 1948ء تک اندرون فلسطین عربوں کی مزاحمت ختم ہو گئی۔ 14 اور 15 مئی کی درمیانی شب 12 بجے یہودیوں نے تل ابیب میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔

عرب اسرائیل جنگ 1948ء
بسلسلۂ: عرب اسرائیل جنگیں
عمومی معلومات
آغاز 15 مئی 1948  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 10 مارچ 1949  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک فلسطین   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ اختتام عرب اور مسلم ممالک سے یہودی ہجرت   ویکی ڈیٹا پر (P1542) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام جزیرہ نما سینا ،  سدرن لبنان ،  فلسطین   ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
مصر
شام
 اردن
 لبنان
 سعودی عرب
 عراق
جیش الجہاد المقدس
عرب لبریشن آرمی
 اسرائیل
قائد
گلب پاشا
عبدالقادر الحسینی
حسن سلامہ
فوزی القاؤقجی
یاکوو ڈوری
یگائل یاڈن
قوت
مصر:10 تا 20 ہزار
عراق: 5 تا 81 ہزار
شام: ڈھائی تا 5 ہزار
اردن:6 تا 12 ہزار
لبنان: ایک تا دو ہزار
سعودی عرب:800 سے 1200
عرب لبریشن آرمی:3 ہزار 500 تا 6 ہزار
ابتدائی طور پر 29 ہزار 677، مارچ 1949ء تک 115،000
نقصانات
نامعلوم (5 سے 15 ہزار کے درمیان) 6 ہزار 373 ہلاکتیں (4 ہزار فوجی اور 2 ہزار 400 شہری)
عرب اسرائیل تنازع
عرب اسرائیل جنگ 1948سوئز بحران6 روزہ جنگجنگ استنزافجنگ یوم کپورجنوبی لبنان تنازع 1978جنگ لبنان 1982جنوبی لبنان تنازع 1982-2000انتفاضہ اولجنگ خلیجالاقصی انتفاضہ2006 اسرائیل لبنان تنازع

عربوں نے اس ریاست کو تسلیم کرنے انکار سے کر دیا اور مصر، شام، اردن، لبنان اور عراق کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ 1949ء کے امن معاہدوں کے تحت ختم ہو گئی۔

پس منظر

ترمیم

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد جمعیت الاقوام نے موجودہ ترکی کے جنوب کے اضلاع فرانس اور برطانیہ کے قبضے میں دے دیے۔ دونوں قوتوں نے ان علاقوں کو سرحدوں میں تقسیم کرتے ہوئے عراق، شام اور لبنان تشکیل دیے جو آج بھی قائم ہیں۔ چوتھا علاقہ فلسطین کا تھا اور دریائے اردن کے ایک جانب فلسطین اور دوسری جانب اردن تھا۔

مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میک موہن نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوئے ایک خفیہ معاہدہ "سائیکس پِیکٹ" کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا۔

واقعات جنگ

ترمیم

چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوئے انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ جمعیت الاقوام (لیگ آف نیشنز) نے 25 اپریل 1920ء کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی۔ اس طرح 14 مئی کو ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ کیونکہ عربوں کی مزاحمت ختم ہو چکی تھی اس لیے 15 مئی کی صبح مصر، اردن اور عراق کی فوجیں عربوں کے مفاد کے تحفظ میں فلسطین میں داخل ہونا شروع ہوگئیں۔ بعد میں سعودی عرب ایک دستہ بھی مصری فوج سے آن ملا لیکن عربوں کی اس متحدہ فوج کو بھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ شام اور لبنان جو ایک سال قبل آزاد ہوئے تھے ان کے حملے بھی قطعی بے اثر رہے۔ مصری فوج غزہ شہر اور اس سے متصل مختصر علاقے کے علاوہ اور کسی علاقے پر قبضہ نہیں کرسکی۔ تاہم اردن کے عرب لیجن نے وسطی فلسطین کے بیشتر حصے اور بیت المقدس کے قدیم شہر کو یہودیوں کے قبضے میں جانے سے بچالیا۔ اس جنگ میں پاکستان کی پاک فضائیہ (پاکستان ائیر فورس) نے بھی حصہ لیا۔ 6 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کے ہوا بازوں (پائلٹوں) نے بھی حصہ لیا۔ پاکستانی ہوا باز اردن، مصر اور عراق کی فضائیہ کی جانب سے لڑے اور اسرائیلی فضائیہ کے 3 جہازوں کو مار گرایا جبکہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا اسرائیلی پیش قدمی رکنے کی سب سے بڑی وجہ قرار پائے۔ اس کے علاوہ جنگ یوم کپور کے موقع پر اس جنگ کے دوران پاکستان نے مصر اور شام کی مدد کے لیے 16 ہوا باز مشرق وسطی بھیجے لیکن ان کے پہنچنے تک مصر نے پہلے ہی جنگ بندی کردی تاہم شام اب بھی اسرائیل سے حالت جنگ میں تھا۔ اس لیے 8 پاکستانی ہوا بازوں نے شام کی جانب سے جنگ میں حصہ لیا اور مگ-21 طیاروں میں پروازیں کیں۔ پاکستان کے فلائٹ لیفٹیننٹ اے ستار علوی یوم کپور جنگ میں پاکستان کے پہلے ہوا باز تھے جنھوں نے اسرائیل کے ایک میراج طیارے کو مار گرایا۔ انھیں شامی حکومت کی جانب سے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ ان کے علاوہ پاکستانی ہوا بازوں نے 4 ایف 4 فینٹم طیارے تباہ کیے جبکہ پاکستان کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ یہ پاکستانی ہوا باز 1976ء تک شام میں موجود رہے اور شام کے ہوا بازوں کو جنگی تربیت دیتے رہے۔

اس دوران سلامتی کونسل کے حکم پر 11 جون 1948ء کو طرفین نے جنگ بندی کردی۔ اس کے بعد جنگ شروع اور بند ہوتی رہی یہاں تک کہ 1949ء میں عرب ملکوں کو اسرائیل سے علاحدہ علاحدہ جنگ بندی کے معاہدے کرنا پڑے اور اسرائیل کے وجود کو عملا تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ 11 مئی 1949ء کو اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن بنالیا گیا۔

اس جنگ میں اسرائیل کے 6 ہزار 373 باشندے مارے گئے جن میں 4 ہزار فوجی اور باقی شہری تھے۔ عربوں کے جانی نقصان کے حتمی اعداد و شمار آج تک معلوم نہیں ہو سکے تاہم یہ تعداد 5 سے 15 ہزار کے درمیان ہے۔


  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔