مکلی قبرستان
مکلی قبرستان یا شہر خموشاں مکلی[و 1] ضلع ٹھٹہ کے قصبہ مکلی میں واقع ہے،[و 2][و 3] جو عالمی سطح پر اپنی ممتاز حیثیت کی وجہ سے زبان زد خلائق ہے۔[و 4] یہ قبرستان، جس میں لاکھوں قبور ہیں تقریباً دس یا بارہ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔[و 5][و 6][و 7][و 8] مکلی قبرستان دنیا بھر کے وسیع قبرستانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے،[و 9] جس میں چودہویں صدی عیسوی سے لے کر سترہویں یا اٹھارہویں[و 9] صدی عیسوی کے حکمران خاندان اور جنگجو مدفون ہیں۔[و 10] یہاں کے مقابر چار ادوار کی تہذیب و تمدن اور تعمیراتی حسن کو بیان کرتے ہیں، پہلا دور سمہ خاندان (1340ء – 1520ء)، دوسرا دور ارغون خاندان (1520ء – 1555ء)، تیسرا دور ترخان خاندان (1555ء – 1592ء) اور چوتھا دور مغل صوبہ داروں (1592ء – 1793ء) تک رہا۔[و 11][و 12][و 13] یہاں اندازاً چار[و 14] یا پانچ لاکھ سے زائد قبریں اور مقبرے موجود ہیں، جن میں اولیا اور شہدا بھی شامل ہیں۔[و 15] اس قبرستان میں 33 بادشاہ، 17 گورنر، ایک لاکھ سے زائد اولیا اور بہتیرے ادبا، شعرا، دانشور، اہلِ علم اور عام آدمی سپرد خاک ہیں۔[و 16][و 14] یہ ایشیا کا سب سے بڑا[و 14][و 13][و 11] اور مسلم دنیا کا دوسرا بڑا[1] قبرستان ہے جسے سنہ 1981ء میں اقوام متحدہ کے ادارے برائے تعلیم، سائنس و ثقافت نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔[و 10][و 17] یہ قبرستان پہاڑی سلسلہ پر واقع ہے اسے کوہِ مکلی (سندھی: مڪلي جي ٽڪري) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔[2]
مکلی قبرستان کوہِ مکلی | |
---|---|
مکلی کے شہر خموشاں میں چودہویں اور اٹھارہویں صدیوں کے درمیان کی کئی یادگار قبور موجود ہیں۔ | |
تفصیلات | |
مقام | |
ملک | پاکستان |
متناقسات | 24°45′36″N 67°54′07″E / 24.760°N 67.902°E |
قسم | صوفی |
حجم | 12 مربع کلومیٹر |
تعدادِ قبور | 500،000–1،000،000+ |
رسمی نام | مکلی، ٹھٹہ میں تاریخی قبرستان اور یادگاریں |
قسم | ثقافتی |
معیار | iii |
نامزد | 1981 (پانچواں اجلاس) |
حوالہ نمبر | 143 |
خطہ | ایشیا بحر الکاہل |
محل وقوع
مکلی تقریباً 50 فٹ بلند ایک پہاڑی اور اس کے اطراف کے علاقے کے نام ہے جو ٹھٹہ شہر سے مغربی طرف ہے۔ یہ قبرستان پہاڑی پر واقع ہے۔ ٹھٹہ شہر سے کراچی جانے والی قومی شاہراہ اس پہاڑی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ جنوبی حصہ میں محمد ہاشم ٹھٹوی، ابو القاسم نقشبندی، آدم نقشبندی کے مرقد مشہور ہیں جبکہ شمالی حصہ میں عبد اللہ شاہ اصحابی، شاہ مراد شیرازی، شیخ جیہ چراغ مکلی اور شکر اللہ سید قاضی کی درگاہیں مشہور ہیں۔[و 18][و 19]
نام
مکلی نام کے بارے میں مورخ، علی احمد بروہی کی رائے ہے کہ یہ ماں کالی سے بگڑ کر مکلی ہوگیا، وہ اپنی کتاب ہسٹری آن ٹامب اسٹونس سندھ اینڈ بلوچستان میں لکھتے ہیں: «حقیقت میں مکلی نام سے لگتا ہے کہ مہا کالی (ماں کالی) کا مندر تھا۔ جس سے نام مکلی لیا گیا ہے۔ مکلی کے نام کے بارے میں بہت سے نظریے یا خیالات پیش کیے گئے ہیں جن میں سے کوئی بھی قبول کرنے کے قابل نہیں لگتا۔»[3]
تاریخ
قدیم زمانہ میں یہاں سہسہ لنگ کے تالاب پر عظیم الشان محلات بنے ہوئے تھے، جو اب ناپید ہوچکے ہیں۔[4]
711ء سے پہلے یہاں ایک ہندو برہمن خاندان کی حکومت تھی۔ محمد بن قاسم کی آمد سے یہاں کی حکومت عربوں کو ملی۔[5]
اموی عہد کا اختتام ہوا تو یہاں کی حکومت عباسیوں کو ملی اور عباسیوں کے بعد ان کے ما تحت ہباریوں کو۔ ہباریوں کے بعد یہاں محمود غزنوی کی حکومت رہی۔[و 20][و 21]
اس کے بعد سومرہ خاندان ٹھٹہ پر قابض ہوا جن سے فیروز تغلق کے عہد میں سمہ خاندان کے ایک سردار جام اُنڑ بن بابینہ نے 1351ء کے قریب اقتدار حاصل کیا۔ انھوں نے کوہ مکلی پر ساموئی میں اپنا صدر مقام بنایا جو ٹھٹہ سے تین میل شمال مشرق میں تھا۔ انھیں کی عہد سے مکلی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی۔[6]
سمہ عہد میں جام جونہ کے زمانہ میں جب حماد جمالی ابن رشید الدین نے مکلی پر ساموئی کے زیریں حصے میں عبادت کے لیے خانقاه قائم کی جو بالآخر سلوک و معرفت اور علوم ظاہری کی تعلیم کا مرکز بن گئی۔ جب جام تماچی کو سندھ کی حکومت ملی تو وہ ایک کثیر رقم بطور نذر لے کر حماد جمالی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی التماس کی۔ انھوں نے کہا کہ اس رقم سے میری خانقاہ کے متصل ایک مسجد تعمیر کرا دیجیے۔ اس نے مسجد تعمیر کروائی جو مسجد مکلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اور مشہور ہے کہ بعد میں تمام پہاڑی بھی اسی نام سے موسوم ہوئی۔[7]
حماد جمالی نے تعمیر مسجد کے بعد سموں سے کہا کہ آئنده سے جو لوگ فوت ہوں ان کی قبریں اس مسجد کے آس پاس ہی بنوائیں، چنانچہ سلاطینِ سمہ اور دوسرے لوگ یہاں دفن ہونے لگے، ورنہ اس سے پہلے سموں کا قبرستان پیرآر (پیر پَٹھو) تھا۔ مسجد کی چار دیواری جام نظام الدین دوم عرف جام نندہ کے مقبرے کے سامنے خستہ حالت میں موجود ہے۔[8] اعجاز الحق قدوسی نے مسجد مکلی کا سال تعمیر 792ھ - 793ھ / 1389ء - 1390ء بتایا ہے۔[9] حماد جمالی جب فوت ہوئے تو ان کا مقبرہ بھی وہیں بنا جہاں ان کی خانقاہ تھی ان کا مقبرہ مکلی میں جام نند کے مقبرے کے قریب اور مسجد مکلی کے برابر نہایت خستہ حالت میں نظر آتا ہے[10] ليكن تحفۃ الکرام میں درج ہے کہ حماد جمالی سے پہلے میاں لال جو لعل شہباز قلندر کے سگے یا چچیرے بھائی تھے، یہاں دفن ہو چکے تھے۔ ان کی قبر شیخ جیو کے مزار کے مشرق میں ہے۔[11]
سمہ حکمرانوں کا عہدِ سلطنت 751ھ - 926ھ / 1350ء - 1519ء تک رہا اور اگر اس میں فیروز شاه بن نظام الدین جام نندہ کا وہ زمانہ بھی شامل کر لیا جائے جو انھوں نے شاہ بیگ ارغون کے ماتحت گزارا تو پھر یہ عہد سلطنت شوال 928ھ / 1322ء تک رہا۔[12] ایک سو سستر سال کے اس عرصے میں بعض نامور اولیا اس قبرستان میں دفن ہوئے۔[13]
سنہ 1770ء میں کلہوڑہ عہد میں کلمتیوں اور جوکھیوں کے بیچ مکلی کی پہلی جنگ لڑی گئی۔[14] انیس سال بعد سنہ 1789ء میں تالپور عہد میں کلمتیوں اور جوکھیوں کے بیچ مکلی کی دوسری جنگ لڑی گئی۔[15]
سنہ 1981ء میں اقوام متحدہ کے اداره برائے تعلیم، سائنس و ثقافت کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے پانچویں اجلاس میں مکلی کے اس شہرِ خاموشاں کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔[و 22]
سنہ 2010ء کی بارشوں میں مکلی کے باسیوں کو اس گورستان میں خیمہ لگا کر ٹھہرایا گیا تھا،[و 23] جس کے نتیجہ میں اس گورستان کو کافی ضرر پہنچا۔[و 24]
مکلی قبرستان کو سنہ 2010ء میں وفاقی حکومت سے صوبہ سندھ کو منتقل کر دیا گیا تھا، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ حکومت کے لیے مکلی کے حفاظت، بقا اور بچاؤ کے لیے کوئی فنڈ منظور نہیں کیے گئے۔[و 25]
سنہ 2005ء میں عالمی ثقافتی ورثہ کے مرکز نے اس قبرستان کی حالت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو) کے مانیٹرنگ مشن نے مکلی کو عالمی ثقافتی ورثہ کو فہرست سے خارج کرنے کی تنبیہ دی تھی،[و 26] سندھ کے وزیرِ ثقافت سید سردار علی شاہ نے مکلی کی بطور عالمی ثقافتی ورثہ حیثیت کو بحال رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔[و 25]
سنہ 2014ء میں امریکی سفیر رچرڈ جی اولسن نے اعلان کیا کہ میر سلطان ابراہیم بن عیسی ترخان (1556ء-1592ء) اور امیر سلطان محمد (وفات: 1556ء) کے 400 سالہ قدیم مقبروں کے تحفظ کے لیے 260000 امریکی ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔[و 27]
جولائی 2016ء میں ترکی کے شہر استنبول میں یونیسکو کا دس روزہ 40واں اجلاس منعقد ہوا۔ شہر خموشاں کی حفاظت، بچاؤ اور استقرار کے حوالے سے پاکستانی نمائندگان کے دلائل سننے کے بعد اس کے بچاؤ اور استقرار کے لیے ایک سال کا وقت دیا اور بعد ازاں اسے مزید ایک سال کے لیے بڑھا دیا۔[و 25]
یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے 41ویں اجلاس میں، جو سنہ 2017ء میں پولینڈ کے شہر کراکوف میں منعقد ہوا، وزیرِ ثقافت سندھ سید سردار علی شاہ نے اس مقدمہ کا بخوبی دفاع کیا اور مکلی شہر خموشاں کے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست سے مٹنے کا خطرہ ٹل گیا۔[و 25] دسمبر سنہ 2017ء میں امریکی قونصل جنرل گریس شیلٹن نے مکلی قبرستان کا دورہ کیا اور امریکی سفیر کے فنڈ برائے ثقافتی تحفظ کے تحت سلطان ابراہیم اور امیر سلطان محمد کے مقبروں کو محفوظ کرنے کے منصوبہ کی تکمیل پر منعقدہ تقریب میں شرکت کی۔[و 28]
جنوری سنہ 2018ء میں محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات سندھ کی جانب سے مکلی کی تاریخ پر پہلی عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔[و 14]
مئی سنہ 2018ء میں سندھ سرکار نے مکلی قبرستان میں تدفین اور قبرستان کے اندر کاروں کے داخلہ پر پابندی عائد کردی۔[و 29]
سنہ 2019ء میں باکو میں یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے 43ویں اجلاس میں مکلی کو خطرہ کی فہرست سے نکال کر دوبارہ بحال کردیا۔[و 30] جنوری سنہ 2019ء میں، یونیسکو کے دو رکنی ریایکٹو مشن نے ڈیجیٹل کریک مانیٹر اور شہر خموشاں میں نصب موسمی رسد گاہوں کے کام پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔[و 25]
جنوری سنہ 2021ء میں محکمہ ثقافت، سیاحت، نوادرات و آرکائیو سندھ نے مکلی قبرستان میں تدفین پر پابندی کا اعلامیہ جاری کیا اور قبرستان کی چار دیواری کے ساتھ تدفین کی پابندی کے بورڈ نصب کر دیے۔[و 31]
فن تعمیر
اس قبرستان میں موجود قبور اسلامی فن تعمیر کی یکتا نظیر ہیں اور یہاں ایرانی، عثمانی، مغلیہ، گجراتی، ہندی فن تعمیر کا امتزاج نطر آتا ہے۔ یہ یاد گار اینٹوں، پتھر اور ٹائلوں سے بنائی گئی ہیں۔ سطح پر عموماً سرخ رنگ کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں اور ٹائلیں زیادہ تر سفید اور نیلے رنگ کے ہلکے گہرے شیڈ میں استعمال کی گئی ہیں۔ یہاں موجود ایک مقبرہ کی تعمیر میں ایک لاکھ اسی ہزار ٹائلیں استعمال کی گئی ہیں جن میں ہر ایک کا ڈیزائن سے جداگانہ اور منفرد ہے۔ قبور اور مقابر کی ترتیب کے لحاظ سے شمال سے جنوب کی طرف ان یاد گاروں کے تین بنیادی گروہ ہیں: ایک گروہ مغلیہ دور (1592ء – 1739ء) کی یاد گار ہے جس میں جانی بیگ ترخان، غازی بیگ ترخان، باقی بیگ ازبک، طغرل بیگ، محمد عیسیٰ خان ترخان دوم، جان بابا، دیوان شرفاء خان اور نواب امیر خان ابوالبقاء کے خاندان کی قبریں شامل ہیں۔ دوسرے گروہ کا تعلق ترخان اور ارغون دور (1520ء – 1592ء) سے ہے جس میں محمد عیسی خان ترخان اول، باقی بیگ ترخان، اہنسا بائی، سلطان ابراہیم، میر سلیمان اور دوسرے لوگوں کی قبریں شامل ہیں۔ تیسرے گروہ میں سمہ دور (1351ء – 1520ء) کی مشہور شخصیات کے مدفن ہیں جن میں جام نظام الدین ثانی، مبارک خان، ملک راجپال اور دیگر بہتیرے افراد شامل ہیں۔[16][و 32]
مکلی قبرستان کے مقبروں میں مقدس قرآنی آیات کے نوشتہ جات موجود ہیں۔ مردوں کی قبریں پتھر کے پیچیدہ نقش و نگار سے آراستہ ہیں جن میں ہتھیاروں، خنجروں اور تلواروں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کے برعکس، خواتین کی قبروں کو زیورارت کے نقوش اور چوبی نقش (بلاک پرنٹنگ) سے مُزیّن کیا گیا ہے۔[و 33]
یہ جگہ بنیادی طور پر مقابر پر مشتمل قبرستان ہے، ان یادگاروں کا تعلق حکمرانوں، سرداروں، گورنروں اور چار ادوار کے حکمران خاندانوں سے ہے۔ ان مقابر کی تعمیر 400 سال تک جاری رہی جب ٹھٹہ دار السلطنت ہوا کرتا تھا۔ طرزِ عمارت اور موادِ تعمیر کے لحاظ سے یادگاروں کو حسب ذیل زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
- مقابر: زیادہ تر چوکور حُجروں پر مشتمل ہیں جن کے اندر قبریں موجود ہیں اور اوپر ایک گنبد ہے جسے ٹائلوں کی سجاوٹ کے ساتھ یا اس کے بغیر پتھر کی چُنائی اور اینٹوں سے بنایا گیا ہے۔
- چھترے: چھ یا آٹھ پہلوؤں والے "چھتری" نما ڈھانچے جن کے اطراف کُھلے ہوئے ہیں اور زیادہ تر پتھر کی چُنائی سے بنے ہوئے ہیں اور ان کے اوپر گنبد ہے۔
- احاطے: بند جگہ سے باہر احاطے جن کے اندر قبریں موجود ہیں، پتھر کی چنائی یا اینٹوں سے بنے ہوئے ہیں اور بظاہر چہار گوشہ ہیں۔ زیادہ تر ایک ہی خاندان کے افراد چو بندیوں کے اندر دفن ہیں۔
- قبور: بند جگہ سے باہر اور انتہائی زیبا ہیں، یہ پورے قبرستان میں پھیلی ہوئی ہیں جن پر سنگ تراشی کے بہترین نمونے کندہ ہیں۔ یہ پتھر تراشی ہوئی قبریں نہ صرف مکلی بلکہ پورے سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ کراچی کے چوکنڈی قبرستان میں بھی پتھروں سے تراشی گئی زیبا قبور موجود ہیں۔
مندرجہ بالا جائے قبور کے بڑے ڈھانچے ہیں کوہِ مکلی پر دیگر عمارتوں کی اقسام بھی ہیں،
- مسجد: مکلی مسجد پہاڑی پر موجود واحد مسجد ہے اور یہ ایک جامع مسجد ہے جو اینٹوں سے بنی ہوئی ہے جس میں قوس دار ڈھانچہ ہے۔
- خانقاہیں: سیکھنے کی جگہیں جہاں خدا رسیدہ حضرات اپنے شاگردوں اور پیروکاروں کو تعلیم دیتے اور تبلیغ دین کام کرتے تھے۔ کوہ مکلی پر زیادہ تر شیخ حماد جمالی اور عیسیٰ لنگوٹی اور دیگر بزرگ شخصیات کی خانقاہیں سمہ دور کی ہیں۔
مقابر
مرزا عیسیٰ خان ترخان ثانی کا مقبرہ
مرزا عیسیٰ خان ترخان ثانی کو سنہ 1627ء میں صوبہ ٹھٹہ کا صوبہ دار مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی وفات سنہ 1664ء میں ہوئی۔ انھوں نے خود سنہ 1627ء میں اپنے مقبرے کی تعمیر شروع کروائی، جو 18 سال بعد مکمل ہوئی۔ مقبرہ مکلی قبرستان میں واقع ہے اور اپنی عظمت اور تعمیراتی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے۔ مقبرے کا طرز تعمیر گجراتی، اسلامی اور خالص مغلیہ طرز کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی تعمیر میں آٹھ فٹ لمبے پتھروں پر خوبصورت آیات اور نقش و نگار کندہ کیے گئے ہیں۔ مقبرے کے دروازے کا انداز کسی قلعے کے دروازے جیسا ہے، جو اس کی شان و شوکت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔[و 34]
عید گاہ
روایتی طور پر مکلی کی عید گاہ ایک اہم مقام تھا۔ یہ بہت بڑا میدان تھا جو دو دن عید الفطر اور عید الاضحٰی کی نمازوں کے سوا پورے سال کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا۔ عید گاہ کی عمارت میں قبلہ کی جانب والی دیوار پر ایک کتبہ موجود ہے۔ سنہ 1043ھ (ت 1633ء) میں مغلیہ عہد میں اس عید گاہ کو تیار کیا گیا تھا۔ بعد میں دو سو چالیس سال کے بعد تالپور عہد میں سنہ 1281ھ (ت 1864ء) میں عیدگاہ کی بڑی حد تک مرمت اور بحالی کا کام کیا گیا۔[17]
اس عید گاہ کو آج بھی نماز عید کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔[و 35]
فارسی ادب
مکلی قبرستان میں فارسی نثر اور شعر کے نقوش کنندہ ہیں۔ یونیسکو کی سنہ 1972ء کی رپورٹ کے مطابق یہاں کم از کم سترہ ہزار قبریں ایسی ہیں جو پتھر کی بنی ہوئی، ایک طرح اور ایک ہی انداز کی تعمیر ہوئی ہیں اور ان پر بیش و کم ایک ہی لہجے کے فارسی و عربی اشعار اور نثری عبارات نیز آیات کلام مجیدہ کندہ ہیں۔ مکلی کے قبرستان میں کثرت سے فارسی کتبے پائے جاتے ہیں۔ ایک بڑے احاطہ میں موجود قبور پر سیمنٹ پوت دیا گیا جن پر ایک مقامی فارسی دان اور ضعیف العمر مکلی آشنا کے بقول دیوان حافظ کے منتخب اشعار موجود تھے۔[18]
مکلی کے ایک مقبرہ پر لکھا ایک نامعلوم شاعر کا شعر:
زدست چرخ کج رفتار غدار | دلاتا چند از غم خسته گردی؟ | |
به کوهستان مکلی شو دل زار | که از دنیای دون وارسته گردی |
ترجمہ: «اے دل، کب تک اس فلک کج رفتار اور آسمان غدار کے ہاتھوں غموں سے نڈھال ہوتا رہے گا؟ تو اب اس پست دنیا سے منہ پھیر چکا ہے تو بس اب مکلی کے اس کوہستان کا رخ کرلے، یعنی موت کو گلے لگالے»۔[19]
پر اسراریت
مکلی کے بعض مقامی لوگوں کا دعوی ہے کہ جب اندھیرا چھانے لگتا ہے تو بہت سی قبریں گرم ہونے لگتی ہیں اور آوازیں آنے لگتی ہیں۔[و 36][و 37]
حوالہ جات
فہرست حوالہ جات
- مآخذ
- ↑ کاظمی (2020)، ص. 1.
- ↑ محمد شفیع (2004)، ص. 472.
- ↑ بروہی (1986)، ص. 53-54.
- ↑ قانع ٹھٹوی (2006)، ص. 655.
- ↑ محمد شفیع (2004)، ص. 472.
- ↑ محمد شفیع (2004)، ص. 472.
- ↑ محمد شفیع (2004)، ص. 472.
- ↑ محمد شفیع (2004)، ص. 473.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 2، ص. 319.
- ↑ محمد شفیع (2004)، ص. 473.
- ↑ قانع ٹھٹوی (2006)، ص. 752.
- ↑ معصوم بکھری (1959)، ص. 463 - 465.
- ↑ محمد شفیع (2004)، ص. 473.
- ↑ بلوچ (1984)، ص. 89.
- ↑ بلوچ (1984)، ص. 259.
- ↑ قاسم (2014)، ص. 57-58.
- ↑ کاظمی (2020)، ص. 11.
- ↑ کاظمی (2020)، ص. 11.
- ↑ کاظمی (2020)، ص. 12.
- ویب حوالہ جات
- ↑ کاظم رضا بیگ، مرزا (17 دسمبر 2019)۔ "مائی مکلی دنیا کا عظیم تاریخی ورثہ اور گیارہواں بڑا قبرستان"۔ روزنامہ جنگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-29
- ↑ "مکلی: تاریخی قبرستان کی تباہی"۔ وائس آف امریکا اُردو۔ 20 دسمبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-29
- ↑ سعدیہ، امین؛ ظفر، فیصل (18 اپریل 2017)۔ "عالمی ثقافتی ورثے میں پاکستان کے 6 شاہکار"۔ ڈان نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-29
- ↑ "مکلی کے تاریخی قبرستان کو عالمی ورثے سے نکالنے کا خطرہ ٹل گیا"۔ وائس آف امریکا اُردو۔ 8 جولائی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-29
- ↑ صدیقی، محمد سعید احمد (26 اپریل 2023)۔ "ٹھٹھہ سے ذرا پہلے مکلی کا عظیم قبرستان آتا ہے، ہزاروں کی تعداد میں قبریں اور مقبرے اتنے خوبصورت تھے کہ انسانی عقل سنگ تراشی پر دنگ رہ جاتی تھی"۔ روزنامہ پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-30
- ↑ کلہوڑو, ذو الفقار علی (13 ستمبر 2019). "Makli - Jewel of Sindh" [مکلی - سندھ کا گوہر]. دی فرائیڈے ٹائمز (انگریزی میں). Retrieved 2024-11-30.
- ↑ تسنیم, شازیہ (26 دسمبر 2021). "Makli: Our own city of silence" [مکلی: ہمارا اپنا شہر خاموشی]. دی ایکسپریس ٹریبیون (انگریزی میں). Retrieved 2024-11-30.
- ↑ ناز, حُمیرا (16 جولائی 2017). "Makli, once a resplendent city now stands in dire need of preservation" [مکلی، جو کبھی ایک شاندار شہر ہوا کرتا تھا، اب اسے تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔]. ڈان (انگریزی میں). Retrieved 2024-11-30.
- ^ ا ب گُرِڑو، امر (21 ستمبر 2022)۔ "سیلاب سے سندھ بھر میں تباہی مگر مکلی قبرستان میں ہریالی"۔ دی انڈیپنڈنٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-28
- ^ ا ب سہیل، ریاض (18 اکتوبر 2017)۔ "مکلی کا عالمی ورثہ تجاوزات اور قبضے کے نرغے میں"۔ بی بی سی اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-28
- ^ ا ب کاشف، محمد (9 جنوری 2022)۔ "بھنبھور، مکلی، شاہ جہانی مسجد، کیجھر جھیل"۔ روزنامہ جنگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-28
- ↑ فراز، شبینہ (22 فروری 2021)۔ "مکلی قبرستان: جام نظام کا 'سانس لیتا' مقبرہ، 'جہاں کیل لگانا ممنوع ہے وہاں پہاڑ توڑنے کا آلہ استعمال ہوا'"۔ بی بی سی اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-28
- ^ ا ب "مکلی کا قبرستان"۔ مجلہ ہلال۔ آئی ایس پی آر۔ ستمبر 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-28
- ^ ا ب پ ت فیروزی، مزمل (21 جنوری 2018)۔ "مکلی کی تاریخ پر پہلی عالمی کانفرنس"۔ ایکسپریس نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-29
- ↑ جاہ، آصف محمود (10 مئی 2017)۔ "ٹھٹھہ کا مکلی قبرستان اور شاہ جہانی مسجد"۔ روزنامہ دنیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-29
- ↑ "حضرت بابا عبداللہ شاہ اصحابیؒ"۔ روزنامہ نوائے وقت۔ 5 مئی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-29
- ↑ صدیقی، شاداب احمد (16 جولائی 2019)۔ "تاریخی شہر ٹھٹھہ سترہویں صدی میں علم و ادب کا عظیم مرکز"۔ روزنامہ جنگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-29
- ↑ جاوید، محمد سعید (6 فروری 2016)۔ "ٹھٹھہ تاریخ کا ایک ورق"۔ روزنامہ دنیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-30
- ↑ "مکلی شہرِ خاموشاں"۔ روزنامہ دنیا۔ 18 اپریل 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-30
- ↑ بیگ، مرزا کاظم رضا (26 اکتوبر 2019)۔ "سلطان محمود غزنوی کی سندھ آمد"۔ روزنامہ جنگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-4
- ↑ گوہر، حبیب (14 نومبر 2016)۔ "مکلی، جہاں پتھر کلام کرتے ہیں"۔ دنیا نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-4
- ↑ اطہر، حمیرا (11 فروری 2018)۔ "ایک سفر، شہرِ ناپُرساں، کراچی سے مکلی کے شہرِ خموشاں تک"۔ جسارت سنڈے میگزین۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-1
- ↑ سہیل، ریاض (31 اگست 2010)۔ "مکلی کا قبرستان سیلاب زدگان کا ٹھکانہ"۔ بی بی سی اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-1
- ↑ ہمدانی، رضا (24 نومبر 2024)۔ "مکلی کو نقلی بننے سے روکنے کی ضرورت"۔ دی انڈیپنڈنٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-1
- ^ ا ب پ ت ٹ فیروزی, مزمل (14 مئی 2020). "The ancient Makli shines again" [قدیم مکلی پھر چمک اُٹھا]. ڈیلی ٹائمز (انگریزی میں). Retrieved 2024-12-1.
- ↑ آفتاب، عرفان (15 جنوری 2018)۔ "'مکلی کے قبرستان کو ثقافتی ورثے سے نکالے جانے کا خطرہ موجود'"۔ ڈوئچے ویلے اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-1
- ↑ "امریکہ مکلی کے قبرستان کے تحفظ کے لئے فنڈ فراہم کرے گا"۔ ٹی آر ٹی اُردو۔ 18 ستمبر 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-1
- ↑ "سندھ کا تاریخی مکلی قبرستان محفوظ"۔ روزنامہ جنگ۔ 4 دسمبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-1
- ↑ "ٹھٹھہ کے تاریخی قبرستان مکلی میں تدفین پر پابندی لگادی"۔ روزنامہ پاکستان۔ 26 مئی 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-4
- ↑ فیروزی، مزمل (20 مئی 2020)۔ "اصل کی طرف گامزن مکلی"۔ ایکسپریس نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-1
- ↑ "مکلی کے تاریخی قبرستان میں تدفین پر پابندی عائد"۔ روزنامہ جنگ۔ 15 جنوری 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-4
- ↑ "مکلی کا قبرستان"۔ روزنامہ دنیا۔ 15 اپریل 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-7
- ↑ حسن، سید کمیل (3 جولائی 2016)۔ "مکلی: دنیا کے ایک بڑے قبرستان کی تصویری کہانی"۔ ڈان نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-30
- ↑ "ٹھٹھہ کے گورنر مرزا عیسیٰ خان ترخان کا پرشکوہ مقبرہ"۔ ہم نیوز۔ 10 جون 2018
- ↑ "مختلف شہروں میں عید الاضحی عقیدت واحترام سے منائی گئی، سنت ابراہیمی کی پیروی میں جانوروں کی قربانی"۔ روزنامہ جنگ۔ 25 اگست 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-4
- ↑ "پاکستان کے 5 پراسرار ترین مقامات"۔ ایکسپریس نیوز۔ 8 دسمبر 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-5
- ↑ جان، راحت (14 اکتوبر 2022)۔ "جنات دیکھنے کا شوق جان نگل گیا"۔ روزنامہ امت۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-24
کتابیات (بلحاظ سالِ نشر)
- قانع ٹھٹوی، میر علی شیر (2006)۔ تحفۃ الکرام۔ ترجمہ از رضوی، اختر۔ بہ تصحیح و حواشی: مخدوم امیر احمد، نبی بخش بلوچ (تیسرا ایڈیشن)۔ جامشورو: سندھی ادبی بورڈ
- قدوسی، اعجاز الحق (2004)۔ تاریخ سندھ (چھٹا ایڈیشن)۔ لاہور: اردو سائنس بورڈ
- بروہی, علی احمد (1986). History On Tombstones: Sind And Baluchistan (انگریزی میں). جامشورو: سندھی ادبی بورڈ.
- معصوم بکھری، میر محمد (1959)۔ تاریخ معصومی۔ ترجمہ از رضوی، اختر۔ مع تصحیح و حواشی: نبی بخش بلوچ (پہلا ایڈیشن)۔ کراچی: سندھی ادبی بورڈ
- محمد شفیع، مولوی (2004)۔ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ۔ زیرِ اہتمام: دانش گاہِ پنجاب (دوسرا ایڈیشن)۔ لاہور: جامعہ پنجاب۔ ج 17
- کاظمی، سید اسد علی (2020)۔ "مکلی کا قبرستان، ایک اہم ثقافتی، ادبی ورثہ"۔ سہ ماہی سماجی و دینی تحقیقی مجلہ نورِ معرفت۔ اسلام آباد: نور الہدیٰ ٹرست۔ ج 11 شمارہ 2۔ ISSN:2221-1659
- بلوچ, نبی بخش (1984). جنگناما (سندھی میں) (پہلا ed.). جامشورو: سندھی ادبی بورڈ.
- قاسم, قاسم علی (2014). "MAKLI HILL MONUMENTS THATTA: HISTORY, ARCHITECTURE, CONSERVATION" (PDF). Journal of Research in Architecture and Planning (انگریزی میں). کراچی: شعبہ تعمیرات اور منصوبہ بندی، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی. 16 (1). ISSN:1728-7715.
- جونیجو، رابیلا (2012)۔ ARCHITECTURAL PERMEABILITY:STYLISTIC ENCOUNTERS IN THE ARCHITECTURE OF THE MAKLI NECROPOLIS(14TH – 16TH CENTURIES) (PDF) (Thesis)۔ مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی