محمد بہاول خان دوم

ریاست بہاولپور کے چوتھے نواب

نواب محمد بہاول خان دوم (1752 تا 1809ء) ریاست بہاولپور کے چوتھے نواب ہیں۔ انھوں نے ریاست پر 37 سال حکمرانی کی۔ ان سالوں میں زیادہ تر وقت بیرونی حملوں کا مقابلہ کرنے میں گزارا۔ بالآخر ان سالوں میں ریاست کو وسعت بھی ملی۔ نواب بہاول خان دوم نے اپنے پیچھے سات بیٹے چھوڑے جس میں دوسرے بیٹے عبد اللہ خان (نواب صادق محمد خان دوم) جانشین منتخب ہوئے۔

محمد بہاول خان دوم
مناصب
نواب ریاست بہاولپور (4  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
4 جون 1772  – 13 اگست 1809 
مبارک خان دوم  
صادق محمد خان دوم  
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1752ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1809ء (56–57 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت ترمیم

نواب محمد بہاول خان دوم کی ولادت 1752ء میں ہوئی۔ [1] نواب محمد بہاول خان دوم کا اصل نام جفعر خان ہے۔ آپ کے والد کا نام فتح خان تھا جو نواب صادق خان اول کے بیٹے تھے۔ نواب بہاول خان دوم عین اسی روز پیدا ہوئے جب نواب مبارک خان کے سب سے بڑے دشمن نورمحمد کلہوڑا کی موت کی خبر ریاست میں پہنچی ۔ اس اتفاق کی وجہ سے اس کی پیدائش کو مبارک خیال کیا گیا اور نواب نے اسے گود میں لے لیا اور اس کی پرورش کی۔ [2]

سلسلہ نسب ترمیم

نواب آف بہاولپور حضرت عباس بن عبد المطلب کے خاندان سے ہیں ان کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے محمد بہاول خان دوم بن نواب فتح خان اول بن نواب صادق محمد خان اول بن نواب مبارک خان اول بن بہادر خان دوم بن فیروز یا پیروج خان بن امیر محمد خان دوم بن بھکھر خان دوم بن بہادر خان بن بھکھر خان بن ہیبت خان بن امیر صالح خان بن امیر چندر خان بن داؤد خان دوم بن بن محمد خان بن محمود خان بن داؤد خان بن امیر چنی خان بن بہاءاللہ عرف بھلا خان بن امیر فتح اللہ خان بن سکندر خان بن عبد القدر یا قاہر خان بن امیر اِبان خان بن سلطان احمد ثانی بن شاہ مزمل بن شاہ عقیل بن سلطان سہیل بن سلطان یاسین بن احمد المستنصر باللہ الثانی بن الظاہر بامر اللہ بن الناصر لدین اللہ بن ابو محمد الحسن المستضی بامر اللہ بن المستنجد باللہ بن المقتفی لامر اللہ بن المستظہر باللہ بن المقتدی بامر اللہ بن القائم بامر اللہ بن القادر باللہ بن المقتدر باللہ بن المعتضد باللہ بن الموفق باللہ بن المتوکل علی اللہ بن المعتصم باللہ بن ہارون الرشید بن المہدی باللہ بن ابو جعفر المنصور بن محمد بن علی بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) بن عباس بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ)۔ [3]

دستار بندی ترمیم

نواب مبارک خان دوم کی وفات کے بعد نواب کے بھائی فتح خان کے بیٹے جعفر خان کو حکمرانی کے لیے نامزد کیا گیا۔ آپ کی دستار بندی مورخہ 4 ربیع الثانی 1186ھ بمطابق 1772ء میں ہوئی اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی اور اس نے محمد بہاول خان دوم کا لقب اختیار کیا۔

ملتان فتح کرنے کی کوشش ترمیم

1771ء میں جھنڈا سنگھ نے ملتان کو فتح کرنے کی کوشش کی اور جب صوبہ دار حاجی شریف بیگ تگلو نے بہاولپور سے مدد مانگی تو داؤد پوترا افواج ملتان کی طرف بڑھیں اور سکھوں کو روکا۔ تاہم اگلے سال (1772ء) جھنڈا سنگھ بھنگی نے حاجی شریف سے ملتان چھین لیا اور پانچ برس بعد شجاع آباد کے حاکم شجاع خان نے اس کی بازیابی کے لیے نواب کی مدد چاہی۔ چنانچہ نواب ایک فوج لے کر شجاع آباد گیا، جہاں سے شجاع خان کے ہمراہ پیش قدمی کر کے ملتان کومحاصرے میں لیا (1777ء)۔ 23 روز کے محاصرے کے بعد اتحادی 8 ذوالحج کو قلعے میں داخل ہوئے، تمام جنگیوں کو تہ تیغ کیا اور شہر کولوٹا۔ تب داود پوترا افواج واپس بہاولپور آ گئیں لیکن جلد ہی بھنگیوں کو لاہور سے کمک آ جانے کے باعث نواب ملتان کا قبضہ برقرار نہ رکھ سکا۔

شہنشاہ دہلی سے خطاب ترمیم

1195ھ بمطابق 1760ء میں شہنشاہ دہلی شاہ عالم ثانی نے سید کاظم علی خان بارا کو ایک فرمان دے کر نواب کے پاس بھیجا جس میں اسے کچی کا انتظام چلانے کا اختیار تفویض کیا گیا۔ اس کے علاوہ گراں بہا خلعتیں بھی بیجھیں۔ شہنشاہ نے اسے رکن الدولہ نصرت جنگ حافظ الملک کا خطاب عطا کیا۔

ریاست میں وسعت ترمیم

نواب شادی کے ذریعے رشتے قائم کر کے اپنے علاقوں میں وسعت دینے کے قابل تھا۔ اس لیے اس نے 1780ء میں خیر محمد خان پیر جانی کی بیٹی کے ساتھ خیر پور - نورنگا (نورنگا واہ سمیت ) اور 1782ء میں احمد خان پیر جانی کے بیٹے محبت خان کی بیٹی کے جہیز میں احمد پور ایسٹ / شرقیہ (قطب واہ سمیت) حاصل کیا۔ اس نے پرگنہ جتوئی (جواب ضلع مظفر گڑھ میں ہے) پر قبضہ جما لیا اور سہراب خان مہر کو اس کا کاردار تعینات کیا۔ 1790ء تک دریائے سندھ اُچ کے مقام پر چناب سے ملتا تھا۔ اس نے دریائے سندھ کا رخ مغرب کی طرف موڑا اور تب سے یہ اپنے موجودہ راستے میں بہہ رہا ہے۔ اس تبدیلی کے باعث موجودہ ضلع مظفر گڑھ کا جنوبی حصہ نواب کی جارحیت کی زد میں آ گیا اور وہ سیت پور کے مخدوموں سے علی پور، شہر سلطان ، سیت پور اور خیر پور دیہات چھینے کے قابل ہو گیا۔ 1784ء میں اس نے حامی اختیار خان سے شیدانی گاؤں (اب خان بیلہ پیش کاری میں) فتح کیا۔ نواب نے 1790ء اور 1800ء کے درمیان آرائیں ، کنجهر ، کوران ، مہرا ، اسیری اور تر نڈ تعلقے (موجودہ مظفر گڑھ تحصیل جنوب مغربی حصہ) بھی ڈیرہ غازی خان کے حاکم سے فتح کیے۔ تحصیل علی پور علاقہ کے ساتھ وہ کچی جنوبی کے نام سے جانے جاتے تھے، جبکہ شمالی حصہ شمالی کچی کہلاتا تھا جس پر تھل کے نوابوں کا قبضہ تھا۔

قلعوں کی مرمت ترمیم

1198ھ بمطابق 1783ء میں نواب نے قلعہ ونجھروٹ جسے اب قلعہ بجنوٹ کہتے ہیں کی مرمت و توسیع کروائی اور اسی برس دراوڑ سے 24 کوس جنوب میں ایک قلعہ تعمیر کروایا جس کا نام قلعہ خان گڑھ رکھا اور حکم دیا کہ مال تجارت (جو موج گڑھ کے راستے ریاست سے برآمد کیا جا تا تھا) اب کے بعد براستہ خان گڑھ بھیجا جائے گا۔

شہنشاہ کابل تیمور شاہ کے حملے ترمیم

1200ھ بمطابق 1785ء میں تیمور شاہ نے سردار مددخان درانی کو سندھ فتح کرنے بھیجا لیکن عبدالنبی کلہوڑا، نور محمد خان معروفانی ، خدا بخش خان اور خیر پور کے دیگر رئیسوں نے اسے ترغیب دلائی کہ بہاولپور پرفوج کشی کرے۔ چنانچہ نواب نے دراوڑ میں فوج تعینات کی اور ارلانیوں ، گھنورانیوں اور دیگر داؤد پوتروں کی مدد سے چولستان کے قلعوں کو مستحکم بنایا۔ بہاولپور پہنچنے پر مددخان نے شہر کولوٹا اور عمارتوں کو زمین کے برابر کر دیا۔ تب اس نے دراوڑ کے خلاف ایک فوج روانہ کی لیکن نواب نے فضل علی خان ہالانی کی زیر قیادت ایک دستہ دے کر بھیجا اور اسے شکست فاش دی ۔ اس شکست سے برانگیختہ مددخان بذات خود دراوڑ کی طرف بڑھا لیکن پیچھے ہٹنے پرمجبور ہوا اور سندھ چلا گیا۔ تین سال بعد تیمورشاه نفس نفیس خان گڑھ گیا تا کہ سندھ میں معاملات کو قابو میں لا سکے ۔ مندھانی اور معروفانی داؤد پوتروں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے نواب کے خلاف بھڑکایا اور بہاولپور پر قبضہ کرنے کی تحریک دلائی۔ طاقت ور درانی حکمرانی کا مقابلہ کرنے کی قابلیت نہ رکھنے والے نواب نے دوبارہ بہاولپور چھوڑ کر دراوڑ پناہ لے لی۔ تیمور شاہ نے جب دراوڑ پر قبضہ جما لیا تو نواب سردار گڑھ اور ونجھروٹ چلا گیا۔ تیمور شاہ نے شاہ محمد خان بدوزئی کی زیر قیادت ایک ارجمنٹ دراوڑ میں تعینات کر دی لیکن تورانیوں نے کابل میں شورش بپا کر دی تھی ، لہذا تیمور شاہ جلد از جلد وہاں جانے پر مجبور ہوا۔ ابھی وہ ڈیرہ غازی خان سے زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اسے پتہ چلا کہ نواب بہاول خان دوم نے دراوڑ والے دستے کو زیر کر کے بہاولپور واپس حاصل کر لیا۔ کابل واپس آنے پر تیمور شاہ نے صاحب زادہ مبارک خان کو بطور یرغمال اپنے ساتھ لے لیا تھا اور دراوڑ قلعے کی شکست کی خبر سننے پر نہ صرف اسے کوئی نقصان پہنچانے سے اجتناب کیا بلکہ سربلند خان کے خطاب سے بھی نوازا اور عنایات کی بارش کر دی، نیز ایک فرمان کے ذریعے ریاست بہاولپور جاگیر میں دیدی۔ اس پالیسی کے ذریعے تیمور شاہ شہزادے کو اس کے باپ کے خلاف کرنا اور عباسی طاقت کو کمزور بنانا چاہتا تھا لیکن نواب نے شہزادے کی واپسی پر از راه احتیاط اسے قیدی بنا لیا اور پھر پنجند پار کر کے ڈیرہ غازی خان پر حملہ کیا اور ملتان کے صوبہ دار کے ماتحت علانے کا بہت بڑا حصہ قبضے میں لے لیا۔ اس نے قلعہ ڈیرہ غازی خان کا محاصرہ بھی کیا، ان داؤد پوتروں کو بچایا جنہیں تیمور شاہ نے وہاں قید کر رکھا تھا اور بہاولپور سے اس کی لائی ہوئی توپ واپس حاصل کی۔

مخدوم حامد گنج بخش کے حملے ترمیم

اُچ گیلانی کا مخدوم حامد گنج بخش نے نواب کے خلاف کلہوڑوں کی اشتعال انگیزی میں آ کر مندھانی اور معروفانی قبائل کے شورش پسند سرداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا اور نواب کے علاقوں میں امن برباد کرنے کی کوششوں کا ارادہ باندھا، نیز ڈاکوؤں کے ذریع احمد پور ایسٹ اشرقیہ کے علاقہ میں لوٹ مار کروائی ۔ تا ہم ، وہ اس کے بعد کی کارروائیوں سے پاگل معلوم ہوتا ہے۔1797ء میں اپنے رشتہ داروں کی رضامندی سے نواب نے اسے قید کرنے کا تہیہ کر لیا۔ اس نیت کی خبر ملنے پرمخدوم بھاگ کر گڑھی اختیار خان چلا گیا اور بیکانیر کے راجا سورت سنگھ ، صوبہ دار ملتان نواب مظفر خان اور شاہ کابل زمان شاه سے مدد مانگی۔ تاہم، اگلے برس نواب نے اسے پکڑ کر اس کے ہی دیوان خانہ میں قید کر دیا لیکن وہ جلد ہی فرار ہو گیا اور رام کلی کے قلعے (اچ اور گوٹھ چنی کے درمیان) میں پناہ لی۔ وہاں سے وہ احمد پور ایسٹ کے نواح میں لوٹ مار کی کارروائیاں کرنے لگا۔ جب مخدوم حامد بخش نواب کے خلاف جنگ آزما تھا تو خدا بخش خان نے بغاوت کر دی۔ اس نے کہرانی ، جمانی ، طیبانی ، حسنانی ، ارسلانی اور معروفانی داود پوتروں کے ساتھ مل کر سازش کی اور بیکانیر کے راجا صورت سنگھ کو بھی ریاست پر حملہ کرنے پر مائل کیا۔ 1799ء میں وہ شہزادہ مبارک خان کو دراوڑ سے نکالنے میں کامیاب ہوئے اور اسے اپنے ساتھ بغاوت میں ملایا اور 20 جمادی الثانی کو بہاولپور کا حکمران ہونے کا دعوی کر کے اپنی دستار بندی کروائی۔ تب اس نے کرم خان اربانی اور حاجی خان مندهانی سے رابطہ کیا اور انھوں نے نواب پر حملے میں ساتھ دہنے کا وعدہ کر لیا۔ خدابخش خان ، شہزادہ مبارک خان، داؤد پوترا اور بیکانیر کی افواج کے ساتھ، نے جلد ہی بہاولپور سے دومیل دور مسیتاں باغ میں پڑاؤ ڈالا اور تب مخدوم حامد گنج بخش بھی ان کے ساتھ آ ملا۔ نواب نے صاحب زادہ عبد اللہ خان (نواب صادق محمد خان دوم ) کو باغیوں کے خلاف بھیجا اور 19 رمضان کو انھیں شکست دی۔ خدا بخش خان اور شاہزادہ مبارک خان بچ کر بیکانیر چلے گئے اور مخدوم و داؤد پوترا خوانین بھی بھاگ گئے۔ تاہم، اگلے برس خدا بخش خان اور صورت سنگھ نے دوبارہ بہاولپور پر دھاوا بولا ۔ انھوں نے 1801ء میں ولھر قلعہ لیا اور پھولرا، میر گڑھ، موج گڑھ اور مروت جلد ہی یکے بعد دیگر را جا کے مطیع ہو گئے ۔ وہ اور خدا بخش خیر پور کی جانب بڑھے اور نواب نے عبدالله خان کو ان کے خلاف روانہ کیا لیکن دونوں طرف کے خیر خواہوں نے مداخلت کی اور صورت سنگھ جنگ میں اپنے اخراجات کا زرتلافی وصول کرنے کے بعد واپس چلا گیا۔

سکوں کا اجرا ترمیم

1217ھ بمطابق 1802ء میں نواب نے کابل کے شاہ محمود ( جس نے اسے گراں بہا خلعتیں اورمخلص الدولہ کا خطاب بھیجا) کی اجازت سے بہاولپور میں ایک ٹکسال کھولی اور سونے، چاندی و تا نبے کے سکے ڈھالے جن پر یہ عبارت کندہ تھی ہمایوں شاہ محمود اور دارالسرور بہاولپور اس سے قبل ریاست کا اپنا کوئی سکہ نہیں تھا۔

حاجی خان مندهانی کی بغاوت جنرل احمد خان نورزئی کا یلغار ترمیم

1217ھ بمطابق 1803ء میں گڑھی اختیار خان کے رئیس حاجی خان مندهانی نے گڑ بڑ پیدا کی اور شجاع الملک نے احمد خان نورزئی کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ احمد خان نورزئی نے دریائے سندھ پار کیا اور ساہنووالا و نوشہرہ کے قلعوں پرقبضہ کیا۔ اگرچہ حاجی خان نے اظہار اطاعت کر دیا لیکن نواب احمد خان نورزئی نے اس کے ماتحت علاقوں کا الحاق کر لیا اور صرف اس کے علاقے کا غیر مفتوحہ حصہ ہی چھوڑا۔ 1804ء میں تیمور شاہ کا پانچواں بیٹا شاه شجاع الملک ڈیرہ جانے کے امور سلجھانے کے لیے دریائے سنده کی جانب بڑھا اور مخدوم حامد بخش ، فضل علی خان ہالانی، اسلام خان کہرائی اور حاجی خان مندهانی نواب احمد خان نورزئی کے خلاف شکایات کے ساتھ راجن پور میں اس کے منتظر تھے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ ان کے مفتوح علاقے نواب سے واپس لیے جائیں ۔ شجاع الملک نے احمد خان نورزئی کو ان علاقوں کا نواب بنایا اور ڈھاکا کا علاقہ احمد خان نورزئی کے حوالے کیا لیکن احمد خان نورزئی جلد ہی کابل واپس آیا اور حاجی خان کو اپنی بے وفائی کا خمیازہ بھگتنا پڑا، کیونکہ احمد خان نورزئی نے ڈھاکا پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور گڑھی اختیار خان کا محاصرہ کرنے کے لیے ایک دستہ روانہ کیا۔ محاصرے سے ہیبت زدہ حاجی خان مندهانی نے رضامندی دے دی کہ اختیار واہ سے مشرق کی طرف اس کے علاوہ علاقہ نواب احمد خان نورزئی کی اقلیم میں شامل کر دیا جائے گا اور صرف مغربی طرف کا علاقہ اس کے پاس رہے گا۔ بایں ہمہ 1806ء میں حاجی خان نے فضل علی خان ہالانی اور قادر بخش خان کہرانی نے دوبارہ بغاوت کر دی اور 14 محرم کو سردارگڑھ پر قبضہ کر لیا، جس پرنواب احمد خان نورزئی نے ناصر خان گوریج اور فتح محمد خان غوری کی زیر قیادت ایک فوج بھیجی تا کہ گڑھی اختیار خان پر حملہ کیا جا سکے۔ 21 محرم کو ہونے والی لڑائی میں باغیوں نے خود کو قلعے میں بند کر لیا۔ طویل محاصرے کے بعد نواب کے کمانڈروں نے گڑھی اختیار خان کے بالمقابل ایک قلعہ تعمیر کیا اور اس کا نام فتح گڑھ رکھا۔ 20 ربیع الثانی کو اس قلعے سے توپوں نے گڑھی اختیار خان پر اس قدر زبردست گولہ باری کی کہ محصورین صلح کی بات چیت کرنے پر مان گئے اور نواب نے ان پر درج ذیل شرائط عائد کیں

  1. حاجی خان مندهانی ، اس کے بیٹے اور بھائی پیش ہو کر اظہار اطاعت کریں گے۔
  2. گڑھی اختیار خان کے قلعے کی ایک دیوار بالکل مسمار کر دی جائے گی
  3. حاجی خان جنگ کے زرتلافی کے طور پر دو لاکھ روپے ادا کرے گا۔
  4. اس کے بیٹوں میں سے ایک نواب کے دربار میں بطور یرغمال رہے گا۔
  5. گڑھی اختیار خان کا کاردار تعینات کرنے کا اختیار نواب کے پاس رہے گا اور اس کے حصولات مساوی تقسیم ہوں گے۔

حاجی خان نے شروع میں تو ان شرائط کومسترد کر دیا لیکن انجام کار ناصرخان نے اسے پکڑ کر فتح گڑھ کے قلع میں قید کر دیا۔ فضل علی خان ہالانی اور دیگر سرداروں نے میدان جنگ چھوڑ دیا اور 29 رمضان کو ناصر خان نے گڑھی اختیار کے قلعے کو زمین کے برابر کیا اور پھر احمد پور ایسٹ / اشرقیہ احمد خان نورزئی کے نام کر دیا اور واپس آ گیا۔ یوں گڑھی اختیار کا علاقہ نواب احمد خان نورزئی کی اقلیم میں شامل ہو گیا۔

برطانوی سلطنت سے ابتدائی تعلق ترمیم

1808ء میں مسٹر الفنسٹن کابل جاتے ہوئے ریاست سے گذرا اور نواب نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بہاولپور اور برطانوی حکومت کے درمیان پہلا معاہدہ کیا۔

وفات ترمیم

نواب محمد بہاول خان دوم نے یکم رجب 1224ھ بمطابق 1809ء میں وفات پائی۔ اس وقت نواب کی عمر 57 سال تھی اور اس نے 37 برس خوش حال دورحکومت دیکھا۔

اولاد ترمیم

  1. واحد بخش خان ( مبارک خان)
  2. عبد الله خان (نواب صادق محمد خان دوم)
  3. خدایار خان
  4. ناصر خان
  5. فیض محمد خان
  6. قادر بخش خان
  7. حاجی خان

ان میں سے نواب صادق محمد خان باپ کے جانشین ہوئے۔ [4]

حوالہ جات ترمیم

  1. http://www.mybahawalpur.com/nawabs-of-bahawalpur/
  2. گزیٹر آف ریاست بہاولپور 1904ء مولف محمد دین اردو مترجم یاسر جواد صفحہ 75
  3. گزیٹر آف ریاست بہاولپور 1904ء مولف محمد دین اردو مترجم یاسر جواد صفحہ 231
  4. گزیٹر آف ریاست بہاولپور 1904ء مولف محمد دین اردو مترجم یاسر جواد صفحہ 75 تا 80