محمد بہاول خان سوم
نواب محمد بہاول خان سوم (پیدائش 1797ء وفات 1852ء) ریاست بہاولپور کے چھٹے نواب تھے۔ انھوں نے 27 سال تک حکمرانی کی۔
محمد بہاول خان سوم | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
نواب ریاست بہاولپور (6 ) | |||||||
برسر عہدہ 17 اپریل 1826 – 19 اکتوبر 1852 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
تاریخ پیدائش | سنہ 1797ء | ||||||
تاریخ وفات | 19 اکتوبر 1852ء (54–55 سال) | ||||||
شہریت | برطانوی ہند | ||||||
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمصاحبزادہ رحیم یار خان کی پیدائش 1797ء میں ہوئی۔ آپ نواب صادق محمد خان دوم کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ [1]
سلسلہ نسب
ترمیمنواب آف بہاولپور حضرت عباس بن عبد المطلب کے خاندان سے ہیں ان کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے
- نواب محمد بہاول خان سوم بن صادق محمد خان دوم بن محمد بہاول خان دوم بن نواب فتح خان اول بن نواب صادق محمد خان اول بن نواب مبارک خان اول بن بہادر خان دوم بن فیروز یا پیروج خان بن امیر محمد خان دوم بن بھکھر خان دوم بن بہادر خان بن بھکھر خان بن ہیبت خان بن امیر صالح خان بن امیر چندر خان بن داؤد خان دوم بن بن محمد خان بن محمود خان بن داؤد خان بن امیر چنی خان بن بہاءاللہ عرف بھلا خان بن امیر فتح اللہ خان بن سکندر خان بن عبد القدر یا قاہر خان بن امیر اِبان خان بن سلطان احمد ثانی بن شاہ مزمل بن شاہ عقیل بن سلطان سہیل بن سلطان یاسین بن احمد المستنصر باللہ الثانی بن الظاہر بامر اللہ بن الناصر لدین اللہ بن ابو محمد الحسن المستضی بامر اللہ بن المستنجد باللہ بن المقتفی لامر اللہ بن المستظہر باللہ بن المقتدی بامر اللہ بن القائم بامر اللہ بن القادر باللہ بن المقتدر باللہ بن المعتضد باللہ بن الموفق باللہ بن المتوکل علی اللہ بن المعتصم باللہ بن ہارون الرشید بن المہدی باللہ بن ابو جعفر المنصور بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب۔ [2]
دستار بندی
ترمیمدستار بندی مورخہ 9 رمضان 1241ھ بمطابق 1825ء میں صادق محمد خان دوم کی وفات پر اس کے بیٹے رحیم یار خان اس کی جگہ جانشین ہوئے اور نواب محمد بہاول خان سوم کا نام اپنایا۔ اس نے دراوڑ کو پایہ تخت بنایا۔ نواب نے تخت نشینی کے بعد 18 ذو الحجہ 1241ھ بمطابق 1825ء کو مہا راجا رانجیت سنگھ کو تحائف بھجوائے اور مہا راجا رانجیت سنگھ نے بھی جواب میں مبارک اور تحائف سے نوازا۔
کابینہ
ترمیمدستار بندی کے بعد نواب محمد بہاول خان سوم نے درج ذیل کابینہ بنائی
- وزیر : محمد یعقوب بخشی
- فوج کا بخشی : موتی رام
- میر مُنشی : مول رام
- پرنسپل آفیسرز : شیخ مقبول محمد ، شیخ نور محمد
- غیر ملکی درباروں میں سفیر : سید غلام مصطفٰی شاہ، عزت رائے اور غلام حسن
- توشہ خانہ کا انچارج : سلامت رائے
- مصاحبین دیوان : سلطان احمد اور خواجہ زین العابدین
- ڈیرہ غازی خان کا حاکم : محمد قائم
سپاہیوں کی بغاوت
ترمیمنواب محمد بہاول خان سوم نے دستار بندی کے بعد محمد یعقوب بخشی کی خدمات کے اعتراف میں اسے وزیر تعینات کیا۔ وہ ایک زبردست سپاہی تھا لیکن اس میں وزیر والی خوبیوں کا فقدان تھا اور اس کی انتظامیہ سنگین ناراضگیوں پر منتج ہوئی۔ روہیلہ سپاہیوں نے بغاوت کردی اور تنخواہ کے لیے شور مچانے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ رنجیت سنگھ ڈیرہ غازی خان ضلع کے لیے واجب الادا نذرانہ کے حوالے سے دباؤ ڈالنے لگا۔ نواب نے وزیر کی سرزنش کی لیکن جواب میں اس نے محض دعا مانگنے اور مراقبہ کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ دریں اثنا روہیلہ بغاوت سنگین صورت اختیار کرگئی اور اس کی سرکوبی کی خاطر سپاہیوں کو اُچ بھیجنا پڑا لیکن باغیوں نے شیر شاہ سید جلال کی خانقاہ میں بند ہو کر نواب کے سپاہیوں پر فائز کیے جنھوں نے جواب کارروائی میں نصف خانقاہ کو تباہ کر ڈالا۔ تاہم انھوں نے رحم کی درخواست کی اور انھیں واجبات ادا کر کے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہدہ امن
ترمیمچونکہ ضلع ڈیرہ غازی خان کے پٹے کی واجب الادا رقم کئی سالوں سے ادا نہیں کی گئی تھی الہذا رنجیت سنگھ نے نواب کے حکام کو ضلع سے نکالنے کے لیے جزل وینٹورا کے ماتحت ایک دستہ روانہ کیا۔ جزل وینٹورا نے موجودہ ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ اور ملتان اضلاع کے علاقوں پر قبضہ کیا اور یوں وہ ریاست کے دائرہ حکومت سے نکل گئے۔ نواب محمد بہاول خان سوم اس نقصان پر شدید ناراض تھا۔ پڑوسی ریاستوں سندھ، بیکانیر یا جیسلمیر کے ساتھ اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی بہاولپور کے خلاف دشمنی کے جذبات رکھتی تھیں اور ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔ چونکہ ریاست کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ پرانا معاہدہ بھی تھا اور ان حالات کی وجہ سے کمپنی سے رابطہ کی ضرورت پیش آئی کیونکہ مہا راجا رنجیت سنگھ نے شام سنگھ اٹاری والا کو ایک بہت بڑی فوج دے کر کہروڑ بھیجا اور ہدایت کی کہ کسی بھی بہانے سے ریاست پر حملہ کرے۔ اس پر نواب نے شملہ میں گورنر جزل کی طرف ایک ایلچی بھیجا تا کہ اس سے درخواست کی جائے کہ آگے بڑھے اور رنجیت سنگھ کو ستلج پار کرنے سے روکے اور اس بات کی بھی درخواست کی گئی کہ ریاست بہاولپور میں ایک برطانوی ایجنٹ کی تقرری کی جائے۔ ان درخواستوں کے جواب میں لارڈ ولیم بینٹنک نے رضامندی ظاہر کی اور رنجیت سنگھ کو حکم دیا کہ ستلج پار نہ کرے۔
معاہدہ امن
ترمیملدھیانہ میں پولیٹکل ایجنٹ کیپٹن Wade کو بہاولپور بھیجا گیا تا کہ معاہدہ امن کے لیے بات چیت کی جا سکے اور لیفٹیننٹ Mackeson اس کے ہمراہ تھا۔ کیپٹن Wade نے ریاست کی تجارت کو ترقی دینے کی خواہش پر زور دیا اور نواب کو یہ مشورہ بھی دیا کہ بہاولپور کا علاقہ بھی دوبارہ اپنے اختیار میں لائے جہاں کے گھنے جنگلوں میں رنجیت سنگھ کے علاقوں سے بھاگے ہوئے جرائم پیشہ افراد پناہ لیتے تھے اور مہاراجا کو ریاست کے خلاف شکایت کی جائز وجہ تھی ۔ دوسری طرف، جیسا کہ نواب نے بتایا، شہر فرید خطے کے سرکش افراد اکثر بہاولپور میں جرائم کرتے اور پھر سکھ علاقوں میں پناہ لے لیتے تھے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں 22 فروری 1833ء کو معاہدہ امن طے پایا جس کی شق 4 کے تحت لیفٹینٹ Mackeson بہاولپور میں پولٹیکل ایجنٹ تعینات ہو گیا۔ ایک ضمنی معاہدے پر 5 مارچ 1835 کو دستخط کیے گئے، جبکہ 1838 ،1840 ء اور 1843ء میں دیگر معاہدے قرار پائے۔ ان معاہدوں کے تحت دریائے سندھ کے ذریعے لائے جانے جانے والے مال تجارت پر ٹول میں کافی کمی کر دی گئی اور براستہ زمین پہنچائے جانے والے مال تجارت پر ڈیوٹیز کا تعین کیا گیا۔ آخر کار 1847ء میں نواب تمام ڈیوٹی ختم کرنے پر مان گیا۔ 1838ء میں جب شاہ شجاع کابل سے معزول ہو گیا اور محمود شاہ تخت پر بیٹھا تو 1833ء والے معاہدے کی تجد ید ہوئی اور نواب نے افغان جنگ کی وجہ سے افواج کو گزرنے میں سہولت فراہم کی اور ریاست میں ایک عسکری سڑک بنوائی۔ شاہ شجاع الملک سرڈبلیو Macnaughten اور جزل Nott کے ماتحت افواج کے ہمراہ 22 دسمبر 1838 کو بہاولپور پہنچا اور بیش قیمت تحائف کا تبادلہ ہوا۔ پیش قدمی کا سلسلہ 26 دسمبر کو دوبارہ شروع ہوا۔ نواب نے 100 سوار جمعدار غلام حسن خان بابی اور جہان خان گنڈا پور کی زیر سرکردگی برطانوی فوج کے ساتھ روانہ کیے۔ 17 نومبر 1839 کوکابل پر قبضے کی خبر ملی تو بہاولپور اور احمد پور میں چراغاں کیا گیا۔ 1839ء میں نواب نے احمد پور ایسٹ اور دراوڑ کے درمیان میں دہری کے مقام پر وسیع وعریض عمارات بنوائیں اور پچاس ہزار روپے کی لاگت سے اورنگا یا نورنگا نہر کی کھدائی بھی دوبارہ کروائی۔ 1842ء میں کوٹ سبزل اور بھونگ بھارا کے پرگنے جو 1807ء میں ریاست کے ہاتھ سے نکل گئے تھے ایسٹ انڈیا کمپنی نے سندھ کے امیروں سے واپس لیے اور سر چارلس نیپئر نے برطانوی حکومت کی خصوصی عنایت کے طور پر ریاست بہاولپور کو واپس کر دیے۔ وہ ریاست کے زرخیز ترین علاقوں میں شامل تھے اور حیدر آبادی کرنسی میں بیاسی ہزار پانچ سو روپے مالیت رکھتے تھے۔
امیر علی اکبر خان کا خط
ترمیم25 جولائی 1842ء کو نواب محمد بہاول خان سوم کو کابل کے امیر دوست محمد کے بیٹے امیر علی خان سے درج ذیل خط وصول ہوا۔
- ہم نے سر الیگزینڈر برنز کو قتل کر دیا ہے اور برطانوی حکومت کا سارا سامان ہمارے قبضے میں آ گیا ہے۔ برطانوی خزانے کی بدولت شہر کے گداگر امیر ہو گئے ہیں۔ یہ ملک کی صورت حال ہے اور اب تمھیں چاہیے کہ دو مسلم ریاستوں کے درمیان میں دوستی کا نصب الیعن آگے بڑھانے کے لیے کر باندھ لو۔
نواب نے یہ خط مقامی پولیٹکل ایجنٹ کو دے دیا اور ساتھ ہی ایک پروانہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھا کہ
- رمضان خان افغان نامی شخص اس کے ساتھ 100 پستول ،ایک دوربین ، ایک بندوق اور قطب نما بھی لایا تھا۔
پولیٹکل ایجنٹ کی جانب سے حکم ملا کہ
- آدمی کو دریا کے پار نکال دیا جائے اور اس کے لائے ہوئے تحائف واپس کر دیے جائیں۔
گورنر جنرل نے اس وفاداری پر نواب کا شکریہ ادا کیا۔ مئی 1843ء میں نواب کو امیر علی اکبر کی جانب سے دوسرا خط موصول ہوا جو نواب نے ایک مرتبہ پھر برطانوی حکومت کے حوالے کر دیا۔
سنجرانہ تھانہ کا قیام == نومبر 1843ء میں سرسا کے مجسٹریٹ مسٹر رابنسن نے بہاول گڑھ کے دورے پر آئے ہوئے نواب کو بتایا کہ آصف والا، مدوٹ اور ابوھر میں جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری تھا کہ سنجرانہ خطے کو زیر کاشت لایا جائے اور وہاں ریاست اور برطانوی حکومت کے مشترکہ خرچ سے ایک پولیس چوکی قائم کی جائے۔ نواب نے اس رائے سے اتفاق کیا لیکن چوکی کی تعمیر کا تمام خرچ خود برداشت کرنے کو ترجیح دی اور اسے ریاستی سواروں کے ایک مضبوط دستے کی زیر نگرانی رکھا۔ اس چوکی کا نام نواب کے بیٹے کے نام پر سعادت گڑھ رکھا گیا۔
ریاست کی سرحدوں کا تعین
ترمیم11 ستمبر 1843ء کے معاہدے کو نافذ کرنے کی خاطر گورنر جزل (کرنل ہیملٹن ) کا ایجنٹ میجر Mackeson اور کیپٹن موریسن جنوری 1844ء میں بہاولپور پہنچے۔ آصف والا تعلقہ ( جو علاقے کے ایک بڑے حصے پر مشتمل تھا) کی سپردگی کے بارے میں نواب کی رائے حاصل کی اور یوں برطانوی علاقے ابوھر کی سرحدوں کوگھارا یا ستلج کے کنارے تک توسیع دی گئی۔ سرحد میں سپرد کیے گئے دیہات کی تفصیلات مورخہ 7 فروری 1844ء کے خریطہ میں لکھی گئیں۔ ان کا حصول پچیس ہزار روپے تھا اور ان میں سعادت گڑھ چوکی بھی شامل تھی۔ 1845ء میں لیفٹیننٹ جزل کے اسسٹنٹ ایجنٹ لیفٹینٹ کننگھم نے ریاست بہاولپور اور ریاست بیکانیر کے درمیان میں سرحد متعین کی۔ نومبر 1849ء میں کیپٹن بیچر (جسے بہاولپور، بیکانیر اور جیسلمیر ریاستوں کے درمیان میں سرحدی تنازعات حل کرنے کے لیے مامور کیا گیا تھا) بہاولپور پہنچا اور بیکانیر کے شمال مغرب اور جیسلمیر کے شمال کی طرف سرحدوں کی نشان دہی کا کام شروع کیا۔ اس نے رکن پور، اسلام گڑھ، بہاولپور اور دیگر مقامات پر ستون بنوائے جو بعد میں کارداریوں کے ذریعے پکی اینٹ کے ستون تعمیر کروائے گئے۔
ملتان کی مہم
ترمیمجب ملتان میں مول راج کی بغاوت پھوٹی تو مسٹر Vans Agnew نے ایک خط بھیجا جو 21 اپریل 1848ء کو پولیٹکل ایجنٹ پیرابراہیم خان تک پہنچا۔ اس میں بغاوت اور کیپٹن اینڈ رسن کے زخمی ہونے کے متعلق بتایا گیا تھا اور درخواست کی گئی کہ توپ خانے اور رسد کے ہمراہ ایک دستہ ریاست کی طرف سے ملتان بھیجا جائے۔ 22 اپریل کو درستہ روانہ ہونے والا تھا کہ Vans Agnew کا ملازم یہ خبر لے کر پہنچا کہ کیپٹن اینڈرسن اور Agnew کو قتل کر دیا گیا تھا لہذا کوچ کا حکم واپس لے لیا گیا۔ 27 اپریل کونواب کو لاہور کے ریذیڈنٹ کی جانب سے پیغام ملا کہ کسی قابل کمانڈر کی زیر قیادت ایک طاقت ور دستہ ملتان روانہ کیا جائے اور 29 اپریل کو دوسرے پیغام میں کہا گیا کہ مول راج کی تمام جائداد ریاست سے منسلک کر دی جائے اور اس کے وکیل کو بہاولپور سے نکال دیا جائے۔ دریں اثنا مول راج نے بھاری معاوضے پر نئے آدمی بھرتی کرنے کی خاطر دو آدمیوں کو بہاولپور بھیجا تھا۔ ان آدمیوں کوریاست سے نکال دیا گیا۔ 17 مئی کو نواب کو لاہور میں اپنے وکیلوں سے خبرملی کہ ریذیڈنٹ کی خواہش ہے کہ بہاولپور کی افواج ستلج پار کریں اور امام الدین اور راجا شیر سنگھ کی مدد کریں۔ نواب نے جواب میں کہا کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔ پھر نواب کو ریذیڈنٹ سے ایک اور پیغام آیا کہ زیادہ سے زیادہ علاقہ اپنے قبضے میں رکھا جائے اور خبر دار کیا کہ اس کی فوج برطانوی فوج کے آجانے تک لوگوں کو تحفظ دینے، ربیع کا محصول جمع کرنے اور ملک کے عمومی امن کی ذمہ دار ہو گی۔ نواب سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ وہ ستلج میں چلنے والی کشتیاں اپنے قبضے میں لے لے۔ 25 مئی کولیفٹیننٹ ایڈ ورڈز نے درخواست کی کہ فوج کا ایک دستہ غلام علی خان خاکوانی کی مدد کے لیے کورٹ کموں بھیجنا چاہیے جس نے دیوان مول راج کے خلاف علم بلند کیا تھا۔ اس نے لکھا کہ باغی لیہ پر حملے کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور دریائے سندھ پار کر کے ڈیرہ اسمعیل خان پر دھاوا بولنے والے تھے۔ اس کا تدارک کرنے کی خاطر اس نے نواب سے کہا کہ اپنی فوج دریا کے پار ملتان بھیجے تا کہ دیوان لیہ کے متعلق اپنے منصوبے ترک کرنے پرمجبور ہو جائے۔ چند دن بعد ایڈورڈ نے نواب کو (جسے لاہور کے ریذیڈنٹ نے کہا تھا کہ وہ ستلج میں موجود فیریز سے لے کر ملتان کے بھاٹکوں تک سارے ملک کے لیے زمہ دار تھا) بتایا کہ بہتر ہوگا اگر وہ جلالپور فیری عبور کر کے براست شجاع آباد ملتان کی طرف بڑھے بشرطیکہ اس کے خیال میں یہ حرکت دیوان کو ہربھگوان (جو ڈیرہ غازی خان کے لیے خطرہ بنا ہوا تھا) کو واپس بلانے پرمجبور کر دے گی وگرنہ نواب کو چاہیے کہ خان گڑھ کے مقام پر دمروالا فیری کو پار کرے اور اس کے ساتھ آن ملے۔ نواب نے شجاع آباد کی طرف بڑھنا بہتر خیال کیا۔ اس نے ریاست میں فریز کے ذریعے سے ملتان کی طرف اسلحہ، پانی وغیرہ بھیجے جانے کا بھی تدارک کر دیا اور کوٹلی عادل میں 500 گھوڑ سوار اور 100 پیدل سپاہی تعینات کیے تا کہ اسے دیوان کے افسروں کی دست درازیوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ 27 مئی کو مقامی ایجنٹ پیر ابراہیم خان نے ریذیڈنٹ کے حکم پر نواب سے درخواست کی کہ ملتان کی تسخیر کے لیے ایک دستہ بجھوائے۔ 28 مئی کو دو رجمنٹیں، 200 کیولری اور 5000 جاگیردار لیویز 9 توپوں اور 100 بارود کی دیگنوں کے ساتھ فتح محمد خان غوری کی زیر قیادت احمد پور سے کوچ کر گئیں۔ 31 مئی کو جل پور سے گذر کر 2 جون کو بلوچاں اور 3 کوجلالپور سعادت والا پہنچی۔ اس کی روانگی کی خبرلیفٹینٹ ایڈ ورڈز کوبھجوائی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ پندرہ سو آدمی معزالدین کی زیر قیادت سیت پور بھیجے گئے تھے اور جھارکنڈ مل کی زیر قیادت 400 سردار واہ نالہ کی جانب بھجوائے گئے تھے تا کہ ان علاقوں میں امن یقینی بنایا جا سکے۔ 31 مئی کو ریذیڈنٹ کی جانب سے موصول ہونے خط میں اس سے کہا گیا کہ ملتان میں مول راج کا محاصرہ کرے۔ جب معزالدین اور دین محمد شاہ کی زیر قیادت فوج على پور پہنچی تو مول راج کا ڈپٹی جواہر مل حیران رہ گیا۔ وہ 100 گھوڑ سواروں اور 100 پیدل سپاہیوں کے ساتھ محصول جمع کرنے میں مشغول تھا۔ نتیجتاً ہونے والی لڑائی میں جواہر مل کو شکست ہوئی اور 100 آدمی مارے گئے اور وہ بقیہ کے ساتھ بھاگ گیا۔ اب لاہور سے موصولہ ہدایات کی روشنی میں تہیہ کیا گیا کہ بہاولپور کی فوج شجاع آباد کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ایڈورڈز کے لیویز سے مل جائے۔ چنانچہ 12 جون کوفوج نے فتح محمد خان کی زیر قیادت گوبن کی طرف مارچ کیا۔ ایڈورڈز بھی اس جگہ پر پہنچا جہاں اس کی درخواست پر نواب نے لیویز کو چناب پار کروانے کے لیے کشتیاں فراہم کی تھیں اور پھر وہاں سے خان گڑھ روانہ ہوا۔ یہاں اس نے 14 جون کولکھا کہ وہ بہاولپور کی فوج سے ملنے کے لیے بڑھ رہا تھا اور یہ کہ اسے خبر ملی کی کہ مول راج ریاست کی افواج اس کے ساتھ ملنے سے پہلے ہی ان پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ چنانچہ ریاستی دستوں نے 17 جون کو بسوری میں مورچے بنا لیے۔ دریں اثنا ایڈورڈز خان گڑھ میں جزل Van Cortlandt کے پہنچنے کا منتظر تھا۔ 18 جون کو افواج نے گھیاں والا فیری نزد کنبیری کی طرف پیش قدمی کی تا کہ قریب آ چکے دشمن کو قابو میں رکھا جا سکے۔ ایڈورڈز کے لیویز کی تعداد دو ہزار گھوڑ سوار اور پیدل تھے اور اس کی مدد کے لیے بھیجی کئی بہاولپوری افواج کی کل تعداد 7129 انفنڑی، 2449 کیولری، 14 ہارس آرٹلری اور 108 اونٹ سوار تھے۔ اس کے بعد ریاستی افواج نے ردان نزد بسوری کی طرف مارچ کیا جس پر مول راج کی فوج کنبیری سے نونار کی طرف بڑھی اور ان پر حملہ کر دیا لیکن وہ بہادری اور استقامت سے لڑے جب ایڈورز بھی پہنچ گیا اور ان کے حالات دیکھ کر Van Cortlandt سے 6 توپوں اور ریگولر انفنٹری کی دو رجمنٹوں کا ایک دستہ لیا اور لڑائی میں شریک ہو گیا۔ یہ صبح 8 سے شام 5 بجے تک جاری رہنے والے ایک حملے کے بعد دشمن نے پسپائی اختیار کی۔ ریاستی لیویز نے 6 توپیں اپنے قبضے میں لیں جبکہ ایڈورڈز نے دو توپوں اور رسد کی کافی مقدار پر قبضہ کیا۔ ریاستی افواج کے 34 گھوڑ سوار اور 14 پیدل سپاہی مارے گئے۔ 19 جون کو Van Cortlandt نے اتحادی افواج کے ساتھ مل کرجنکشن بنایا اور ایڈورڈز کے حکم پر بہاولپور کی فوج نونار سے شجاع آباد کے تین میل اندر تک پہنچ گئی۔ ایڈورڈز 20 جون کو ان کے پڑاؤ میں پہنچا۔ اس نے پیر ابراہیم خان اور فتح محمد خان کو قلعے پر حملہ کرنے کی ہدایت کی لیکن ہندو مکھیے اور چودھری ایڈورڈز اور پیر ابراہیم کے نام درخواستیں لے کر آئے جن میں غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینکنے کی پیش کش کی گئی۔ چنانچہ شہر پر قبضہ کر کے فوج تعینات کر دی گئی۔ 2 جون کو ایڈرورڈز اور Van Cortlandt بقیہ ریاستی افواج کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔ 26 جون کو اتحادی افواج نے سکندر آباد کی طرف مارچ کیا جہاں دشمن فوج کا چھوٹا سا دستہ تعینات تھا، لیکن انھوں نے سر تسلیم خم کر لیا اور وہ مقام بلا مدافعت قبضے میں آ گیا۔ اگلے روز افواج ادھی والا پہنچیں اور 27 جون کو سورج کنڈ ۔ یہاں 28 جون کو لیفٹیننٹ لیک بطور پولیٹکل ایجنٹ ریاستی فوج سے ملا۔ اس نے 26 جون کو احمد پور میں نواب سے ملا قا ت کی تھی۔ 29 جون کو اتحادی کایان پور اور یکم جولائی کو عربی پنچے۔ دوپہر کے وقت مول راج ان پر حملہ کرنے کے لیے ملتان سے باہر فیض باغ میں آیا لیکن کانٹے دار مقابلے کے بعد اسے واپس دھکیل دیا گیا اور قلعے میں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ چند سپاہی اس کے ساتھ تھے جنھوں نے سدوحسام میں درختوں کے پیچھے مورچے بنا رکھے تھے۔ معرکے میں 2 توپیں اور 30 قیدی ہاتھ لگے اور ریاستی افواج میک فرسن سے محروم ہوئیں، اس کے 14 آدمی کام آئے اور 4 زخمی ہوئے۔ اتحادی فوج 2 جولائی کو حامد شاہ باغ کی طرف بڑھی۔ 26 تاریخ کو باغی ولی محمد کے قریب پہنچے تاکہ ان کی پانی کی فراہمی منقطع کی جا سکے لیکن بہاولپوری افواج اور ایڈورڈز کی فوج کے ایک جھن آموہانے کھودڈالے اور چناب سے پانی ایک نالے میں لائے جو ان کے پڑاو کے قریب سے گزرتا تھا۔ یکم ستمبر کو لیک اور ایڈورڈز سورج کنڈ سے باغ کٹا بیراگی چلے گئے اور جب دشمن نے جوگ مایا سے گولہ باری شروع کی تو بہاولپور افواج نے لیک کی زیر قیادت اس مقام کو بھی نشانہ بنایا اور دشمن شیدی لال ٹیلے پر پیچھے ہٹ گیا۔ ریاستی افواج کی 11ہلاکتیں ہوئیں اور 25 زخمی ہوئے۔ لیک نے ان کے طرزعمل کو ناجائز طور پر بہت سراہا ۔ 12 ستمبر کو لیک نے اتحادی افواج کے ہمراہ اوکھارا گوپال داس پر عمل کر کے سکھوں کو شکست دی جن کے 800 آدمی مارے گئے۔ لیک اس لڑائی میں خود بھی زخمی ہوا۔ اس کے بعد 3 اکتوبر تک غیر مسلسل لڑائی جاری رہی۔ لیک نے محاصرے میں خدمات پیش کرنے پر ہر بہاولپوری توپچی کو ایک سو روپے کا انعام دیا۔ 7 اکتوبر کو مول راج اور شیر سنگھ نے 18 توپیں جوگ مایا کے قریب نصب کیں اور اتحادی ولی محمد نہر مورچہ زن ہو گئے اور حملہ آوروں کو بھگایا۔ کٹا بیراگی پر حملے کی ایک اور کوشش 31 اکتوبر کو ناکام بنائی گئی اور یکم تا 5 نومبر تک مختلف مقامات پرحملوں کو روزانہ نا کام بنایا گیا۔ 6 نومبرکولیک کی زیر قیادت ریاستی افواج پر ایک بہادرانہ یلغار کی گئی مگر کوئی کامیابی نہیں ملی۔ یکم سے 6 نومبر تک ان کے نقصانات صرف 2 ہلاک اور 15 زخمی تھے۔ 7 نومبر کو جنرل whish نے دو ہزر آدمی منتخب کیے جن میں نصف بہاولپوری فوج کے اور نصف ایڈورڈز کے لیویز سے تا کہ دشمن کے مورچوں پر حملہ کیا جا سکے لیکن Van Cortlandt کی زیر قیادت سپاہیوں کی چار کمپنیوں نے بغاوت کر دی اور امام الدین اور ایک بہاولپوری رجمنٹ پر دھاوا بولا۔ اگرچہ باغیوں کو جلد ہی منتشر کر دیا گیا لیکن کافی گڑ بڑ پیدا ہوئی۔ بایں ہمہ لیک ریاستی افواج کی مدد سے دشمن کے مورچوں کوتباہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس روز ان کے 5 آدمی ہلاک اور 38 زخمی ہوئے۔ 20 جنوری تک ملتان قلعے کے آس پاس لڑائی جاری رہی۔ آخر کار مول راج نے مزید مدافعت بیکارخیال کر کے جزل Whish کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ 8 نومبر سے لے کر مہم کے اختتام تک ریاستی افواج کے کل 24 آدمی مارے گئے اور 2 زخمی ہوئے۔ 29 جنوری کو لیک نے بہاولپور کمانڈرنٹ کو ایک طلائی کڑا، ایک موتیوں کا ہار اور بیش قیمت تلوار پیش کی۔ جنوری 1851ء میں چیمبرلین نے بورڈ آف ایڈمنسٹریشن کی جانب سے 49 افسروں کو انعامات دیے۔ نواب کی خدمات کے اعتراف میں لارڈ ڈلہوزی نے نواب محمد بہاول خان سوم کے لیے تا حیات ایک لاکھ روپے سالانہ وظیفہ جاری کیا اور نواب کے علاقے اور اس کی فوج کی خدمات کے لیے آٹھ لاکھ روپے نقد انعام دیا۔
ولی عہد کا تعین
ترمیمبورڈ آف کنٹرول کے ارکان مسٹر Hansel اور مسٹر جان لارنس کی دعوت پر نواب محمد بہاول خان سوم، صاحب زادہ سعادت یار خان، مبارک خان، محمد خان اور ریاست کے دیگر امرا کے ہمراہ (1100 پیدل، 400 سواروں اور 2 توپوں سمیت ) ملتان کے دورے پر آیا۔ 31 دسمبر 1851ء کو لارڈ ڈلہوزی سے ملاقات کی جس میں ملتان مہم میں خدمات انجام دینے پر نواب محمد بہاول خان سوم کا شکریہ ادا کیا گیا۔ اس ملاقات میں نواب نے ایک خریطہ پیش کیا جس میں چار درخواستیں کی گئی تھیں
- صاحبزادہ حاجی خان کی بجائے سعادت یار خان کو اس کا وارث تسلیم کیا جائے
- نواب محمد بہاول خان سوم کو ایک لاکھ روپے سالانہ وظیفے کی بجائے زمین بطور جاگیر دی جائے
- قبل ازیں انواب محمد بہاول خان سوم کو رنجیت سنگھ سے اجارہ میں ملنے والے علاقے (دریاؤں کے پار) اسے پٹے پر دیے جائیں ۔
- نواب محمد بہاول خان سوم کو عطا کردہ کوٹ سبزل علاقے کو روہڑی تک توسیع دی جائے گی جیسا کہ جزل نیپیر نے وعدہ کیا تھا۔
18 جنوری کو لارڈ ڈلہوزی نے اپنے جواب میں سعادت یار خان کو ولی عہد مان لیا اور اسے 21 خلعتوں سے نوازا۔
دہلی کا دورہ
ترمیمنواب محمد بہاول خان سوم کو اپنے روحانی قائد خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی آف تونسہ شریف کی وفات (7 صفر 1266ھ) نے شدید دکھ سے دو چار کیا اور تب کے بعد نواب نے بالوں میں رنگ لگانا چھوڑ دیا۔ اس نے دہلی اور اجمیر میں چشتی خواجگان کے مقبروں کی زیارت کرنے کا بھی عہد کیا۔ ممدوٹ میں اس کا پرتپاک استقبال کیا گیا جہاں لاہور کے سراج الدین فقیر اور شاہ نواز الدين فقیر نے اس سے ملاقا ت کی۔ اس ملاقات کے بعد ریاست میں اس خاندان کا اثر ورسوخ تبھی سے شروع ہوا۔
پولیٹکل ایجنٹ
ترمیمنواب محمد بہاول خان سوم کے دور میں برطانوی حکام کی جانب سے درج ذیل پولیٹکل ایجنٹ ریاست بہاولپور میں تعینات کیے گئے۔
- 22 فروری 1833ء کو ریاست بہاولپور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہدہ امن طے پایا تو سب سے پہلے پولیٹکل ایجنٹ لیفٹینٹ Mackeson تعینات ہوئے۔
- لیفٹینٹ Mackeson کے بعد پولیٹکل ایجنٹ ڈاکٹر گورڈن بنے۔
- ڈاکٹر گورڈن کی جگہ کیپٹن تھامس جولائی 1840ء میں پولیٹکل ایجنٹ بنے۔
- کیپٹن تھامس کی جگہ کیپٹن چارلس گراہم 23 ستمبر 1843 کو پولیٹکل ایجنٹ بنا لیکن وہ اسی سال 3 دسمبر کو انگلینڈ روانہ ہونے پر مجبور ہو گیا۔
- کیپٹن چارلس کے بعد پیر ابراہیم خان پولیٹکل ایجنٹ تعینات ہوئے۔
- پیرابراہیم خان کے انگلینڈ جانے کی وجہ سے نومبر (1850ء تا 1852ء) پیر احمد خان نے ریاست میں مقامی پولیٹکل ایجنٹ کے فرائض انجام دیے۔
وفات
ترمیمنواب محمد بہاول خان سوم کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد 5 محرم 1269ھ بمطابق 19 اکتوبر 1852ء کو بمقام دراوڑ وفات پائی۔ آپ کی تدفین دراوڑ میں شاہی قبرستان میں کی گئی۔ [3]
اولاد
ترمیمنواب محمد بہاول خان سوم نے اپنے پیچھے چھ بیٹے چھوڑے
- صاحبزادہ حاجی خان (نواب فتح محمد خان)
- صاحبزادہ محمد خان
- صاحبزادہ سعادت یار خان (نواب صادق محمد خان سوم)
- صاحبزادہ مبارک خان
- صاحبزادہ گل محمد خان
- صاحبزادہ عبد اللہ خان [4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ http://www.mybahawalpur.com/nawabs-of-bahawalpur/
- ↑ گزیٹر آف ریاست بہاولپور 1904ء مولف محمد دین اردو مترجم یاسر جواد صفحہ 231
- ↑ گزیٹر آف ریاست بہاولپور 1904ء مولف محمد دین اردو مترجم یاسر جواد صفحہ 86 تا 94
- ↑ گزیٹر آف ریاست بہاولپور 1904ء مولف محمد دین اردو مترجم یاسر جواد صفحہ 232