مقداد بن عمرو
مقداد بن اسود الکندی (عربی: المقداد بن الأسود الكندي) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب میں سے تھے۔ ان کا شجرہ یوں ہے: مقداد بن عمرو بن ثعلبہ بن مالک بن ربیعہ بن عامر۔ ان کا تعلق قبیلہ کندہ سے تھا جو نواحِ یمن میں حضرموت میں رہتے تھے۔ مقداد اپنے قبیلہ سے نکل کر مکہ میں رہائش پزیر ہو گئے تھے جہاں اسود نامی شخص کے ساتھ منسلک رہے یا انہیں اسود نامی شخص نے پالا چنانچہ انہیں ابن الاسود کہا جانے لگا۔ مقداد نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مکہ و مدینہ میں گزارا۔
مقداد بن عمرو | |
---|---|
(عربی میں: المقداد بن الأسود) | |
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 590 |
وفات | سنہ 652 (61–62 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | سائنس دان |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غازی، اسلامی فتح شام، اسلامی فتح مصر |
درستی - ترمیم ![]() |
نام ،نسب ترمیم
مقداد نام،ابوالاسود کنیت، عمروکندی کے لخت جگر تھے، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: مقداد بن عمروبن ثعلبہ بن مالک بن ربیعہ بن ثمامہ بن مطر دوالنہرنی حضرت مقداد ؓ دراصل بہراء کے رہنے والے تھے، چونکہ ان کے خاندان کے ایک ممبر نے کسی ہمسایہ قبیلہ میں خونریزی کی تھی، اس لیے انتقام کے خوف سے کندہ چلے آئے تھے،لیکن یہاں بھی یہی مصیبت پیش آئی، بالآخر مکہ آکر آباد ہوئے اوراسود بن عبد یغوث کے خاندان سے حلیفانہ تعلق پیدا کرلیا جس نے محبت سے ان کو اپنا متبنی کرلیا تھا، چنانچہ عمرو کے بجائے اسود ہی کے انتساب سے مشہور ہوئے۔ [1]
اسلام ترمیم
وہ مکہ میں ابھی اچھی طرح تو طن گزین بھی نہ ہونے پائے تھے کہ صدائے توحید کانوں میں آئی اور رسالت مآبﷺ کی دعوت و تبلیغ نے ان کو اسلام کا شیدائی بنادیا، یہ وہ پر آشوب زمانہ تھا کہ علانیہ ایک کو ایک کہنا قلمروشرک میں شدید ترین جرم خیال کیا جاتا تھا، لیکن حضرت مقدادؓ نے اپنی بے بسی و غریب الوطنی کے باوجود اخفائے حق گوارانہ کیا، چنانچہ وہ ان سات بزرگوں کی صف میں نظر آتے ہیں جنہوں نے ابتداء ہی میں اپنے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ [2]
ہجرت ترمیم
اس حق پسندی کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ طرح طرح کے مصائب اورگونا گوں مظالم کانشانہ بنالیے گئے،یہاں تک کہ پیمانہ صبر وتحمل لبریز ہوگیا اورمکہ چھوڑ کر عازم حبش ہوئے۔ [3] کچھ دنوں کے بعد سرزمین حبش سے واپس آئے تو مدینہ کی طرف ہجرت کی تیاریاں ہورہی تھیں، لیکن وہ ایک عرصہ تک اپنی بعض دشواریوں کے باعث مدینہ جانے سے مجبور رہے، یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺبھی تشریف لے گئے اور کفر و اسلام میں فوجی چھیڑ چھاڑ کا آغاز ہوا، تو یہ اورحضرت عتبہ بن غزوان ؓ ایک قریشی متجسس دستۂ فوج کے ہمراہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ،عکرمہ بن ابی جہل اس کا امیر عسکر تھا، راہ میں مجاہدین اسلام کی ایک جماعت سے مڈ بھیڑ ہوئی، حضرت عبیدہ بن الحارث اس کے افسر تھے، یہ دونوں موقع پاکر مسلمانوں سے مل گئے اورمدینہ پہنچ کر حضرت کلثوم بن ہدم ؓ کے مہمان ہوئے۔ [4] رسول اللہ ﷺنے ان کو بنی عدیلہ کے محلہ میں مستقل سکونت کے لیے زمین مرحمت فرمائی،کیونکہ حضرت ابی بن کعب ؓ کی دعوت پر انہوں نے اس حصہ میں رہنا پسند کیا تھا۔ [5]
غزوات ترمیم
۲ھ سے شرک وتوحید میں باقاعدہ معرکہ آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اورمشرکین قریش کا ایک خوفناک سیلاب میدانِ بدر کی طرف امنڈ آیا، چونکہ جان نثارانِ رسول ﷺ کے لیے یہ اولین آزمائش تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے پہلے مشورہ طلب کرکے اس قلیل لیکن اولو العزم جماعت کا امتحان لینا چاہا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے اپنی صداقت شعاری کا جوہر دکھایا، پھر ان کے بعد حضرت عمرؓ نے ایک تقریر میں اپنے خلوص ووفاشعاری کا اظہار کیا، لیکن حضرت مقداد ؓ نے جس جوش ووارفتگی کے ساتھ اپنی فدویت وجان نثاری کا ثبوت دیا، اس نے یکا یک تمام فدائیوں کے جذبہ سرفروشی میں ہیجان پیدا کردیا، انہوں نے عرض کیا ہم قومِ موسیٰ کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تو اور تیرا خدا جاکر لڑے، بلکہ ہم آپ کے داہنے، بائیں آگے اورپیچھے اپنی جانبازی کے جوہر دکھائیں گے، [6] قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اگر آپ ہم کو برک غماد تک لے چلیں گے تو ہم آپ کے ساتھ جا کر لڑیں گے ،[7] اس سادہ لیکن پرجوش اظہار فدیت سے آنحضرت ﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ فرط انبساط سے چہرۂ مبارک چمک اٹھا۔ [8]
حضرت مقداد ؓ تیر اندازی ،نیزہ بازی اورشہسواری میں کمال رکھتے تھے، جنگ بدر میں صرف یہی یکہ و تنہا شہسوار تھے جو اپنے سجہ صبا رفتار کو مہمیز کررہے تھے، محدثین واصحاب سیر کا عام طورپر اتفاق ہے کہ اس جنگ میں ان کے سوا اورکسی کے پاس گھوڑا نہ تھا، غزوۂ بدر کے علاوہ احد، خندق اورتمام دوسرے مشہور معرکوں میں پامردی و جانبازی کے ساتھ شریک کا رزار تھے۔ [9]
فتح مصر ترمیم
۲۰ھ میں جب مصر پر فوج کشی ہوئی اورحضرت عمروبن العاص ؓ امیر عسکر نے دربار خلافت سے مزید کمک طلب کی توحضرت عمرؓ نے دس ہزار سپاہی اورچار افسر جن میں سے ایک حضرت مقداد ؓ بھی تھے ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا اور لکھا کہ ان افسروں میں سے ہر ایک دشمن کے ایک ہزار سپاہیوں کے برابر ہے، چنانچہ درحقیقت اس کمک کے پہنچتے ہی جنگ کی حالت بدل گئی اورنہایت قلیل عرصہ میں تمام سرزمینِ فراعنہ فرزندانِ توحید کا ورثہ بن گئی۔ [10]
وفات ترمیم
حضرت مقدادؓ عظیم البطن تھے، ایام پیری میں یہ مرض زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا تو ان کے ایک رومی غلام نے اس پر عمل جراحی کیا، جو غلطی سے ناکام رہا،بالآخر وہ خوف وندامت کے باعث روپوش ہوگیا اورانہوں نے اسی حالت میں مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام جرف میں داعیِ جنت کو لبیک کہا، یہ ۳۳ھ میں خلیفہ ثالث کا عہد تھا، خود امیر المومنینؓ نے جنازہ کی نمازپڑھائی، اورلاش مدینہ لاکر بقیع کے گورِ غریباں میں دفن کی گئی، انہوں نے کم و بیش ستر برس کی عمر پائی۔ [11]
اخلاق ترمیم
حضرت مقدادؓ گوناگون محاسنِ اخلاق کے مظہراتم تھے، انہوں نے غزوۂ بدر کے موقع پر جس جوشِ فدویت کا اظہار کیا وہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے لیے باعثِ رشک تھا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرمایا کرتے تھے کاش میں اس وقت جنگ میں شریک ہونے کے لائق ہوتا اور یہ جملے میری زبان سے ادا ہوتے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں جنگ بدر میں مقداد بن اسود ؓ کے ساتھ تھا، حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس جنگ میں ان کے ساتھ ہونا اس قدر محبوب ہے کہ تمام دنیا اس کے آگے ہیچ ہے۔ [12]
سپاہیانہ سادگی،صاف گوئی اورملنساری کے ساتھ زندہ دلی اورحاضر جوابی نے ان کی صحبت کو نہایت دلچسپ بنادیا تھا،ایک دفعہ وہ کسی صراف کی دکان پر بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے ان کے بلغمی تن و توش پر طعنہ زن ہوکر کہا"ابوالاسود! خدانے تم کو جہاد میں شریک ہونے سے معاف کردیا ہے، برجستہ بولے، نہیں! "انفرواخفا وثقالا" کا حکم اس سے منکر ہے۔ ([13] وہ نہایت صاف گو اور سادہ مزاج تھے،ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے ان سے کہا کہ تم شادی کیوں نہیں کرتے ؟ سادگی کے ساتھ بولے، تم اپنی لڑکی سے بیاہ دو؛ حضرت عبدالرحمن اس بیباکی وصفا گوئی پر سخت برہم ہوئے اوربُرا بھلا کہنے لگے، حضرت مقدادؓ نے ان کی اس برہمی کی شکایت دربارِ نبوت میں پیش کی تو ارشاد ہوا، اگر کسی کو انکار ہے تو ہونے دو میں تم کو اپنی بنتِ عم سے بیاہ دوں گا، چنانچہ اس کے بعد ہی حضرت ضباعہ بنت زبیرؓ بن عبدالمطلب ان کے عقدِ نکاح میں آئیں۔ [14] آغازِ اسلام کی عسرت وناداری نے ان کو حددرجہ جفاکش وقانع بنادیا تھا فرماتے ہیں کہ :جب میں ہجرت کرکے مدینہ آیا تو یہاں میرے رہنے سہنے اورکھانے پینے کا کوئی سہارانہ تھا،بھوک سے حالت تباہ تھی،بالآخر رسول اللہ ﷺنے مجھ کو اور میرے دونوں ساتھیوں کو اپنے میزبان کلثوم بن ہدم ؓ کے گھر میں جگہ دی، آپ کے پاس اس وقت صرف چاربکریاں تھیں، جن کے دودھ پر ہم لوگوں کا گذارا تھا، ایک دفعہ رات کے وقت آپ ﷺ باہر تشریف لے گئے اور دیر تک تشریف نہ لائے، میں نے خیال کیا کہ آج کسی انصاری نے دعوت دی ہوگی اورآپ آسودہ ہوکر تشریف لائیں گے، اس خیال کے آتے ہی میں نے اُٹھ کر آنحضرت ﷺکے حصہ کا دودھ بھی پی لیا، لیکن پھر خیال آیا کہ اگر یہ قیاس غلط ثابت ہوا تو بڑی ندامت ہوگی، غرض میں اس شش وپنج میں تھا کہ آنحضرت ﷺتشریف لائے اوردودھ کی طرف بڑھے، دیکھا تو پیالہ خالی تھا، مجھے اپنی غلطی پر سخت ندامت ہوئی، خصوصا ًجب کہ آپﷺ نے کچھ کہنے کے لیے دونوں ہاتھ اٹھائے تو میرے خوف وہراس کی کوئی انتہا نہ تھی اور اندیشہ ہوا کہ عنقریب آنحضرت ﷺکی بددعاء سے ہماری دنیا وآخرت تباہ ہو جائے گی ؛لیکن آپ نے فرمایا: "اللھم اطعمہ من اطعمنی واسق من سقانی" یعنی خدایا جو مجھے کھلائے اس کو کھلا اور جو مجھے سیراب کرے اس کو سیراب کر اس دعاء سے کچھ ہمت بڑھی، اُٹھ کر بکریوں کے پاس گیا کہ شاید کچھ دودھ نکل آئے،لیکن خداکی قدرت جس تھن پر ہاتھ پڑا وہ دودھ سے لبریز نظر آیا،غرض کافی مقدار میں دودھ نکال کر خدمت بابرکت میں پیش کیا، آپ ﷺنے پوچھا، کیا تم لوگ پی چکے ہو؟ عرض کیا یارسول اللہ! آپ پہلے نوش فرمالیں تو پھر مفصل واقعہ عرض کروں، آنحضرت ﷺ نے خوب سیر ہوکر نوش فرمالیا تو مجھے اپنی گذشتہ غلطی وندامت پر بے اختیار ہنسی آگئی،آپ نے پوچھا ابوالاسود! یہ کیا ہے؟ میں نے تمام واقعہ بیان کیا تو ارشاد ہوا: "یہ خدا کی رحمت تھی،تم نے اپنے دونوں ساتھیوں کو کیوں بیدار نہ کردیا کہ وہ بھی اس سے مستفیض ہوتے۔ [15] خوشامدانہ مداحی سے سخت متنفر تھے، ایک مرتبہ حضرت عثمان ؓ کے دربار میں چند آدمیوں نے ان کے روبرو تعریف وتوصیف شروع کی، حضرت مقدادؓ اس تعلق اورچاپلوسی پر اس قدر برہم ہوئے کہ ان کے منہ پر خاک ڈالنے لگے، حضرت عثمانؓ نے فرمایا مقداد! یہ کیا ہے؟ بولے رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ خوشامدیوں کے منہ میں خاک بھردو۔ [16] ایک دفعہ ایک تابعی نے ان کے پاس آکر کہا،مبارک ہیں آپ کی آنکھیں ،جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے، کاش میں بھی اس زمانہ میں ہوتا، حضرت مقدادؓ ان پر سخت برہم ہوئے،لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ برہمی کی کیا بات تھی، بولے،حاضر کو غائب کی تمنا عبث ہے، جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا ہے، ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کو ایمان نہ لانے کے باعث خدا نے جہنم واصل کردیا، اس کو کیا معلوم کہ وہ اس وقت کس گروہ میں ہوتا؟ تم لوگوں کو خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ بغیر امتحان وآزمائش رسول اللہ ﷺکی تعلیم سے مستفیض ہوئے۔ [17] کسی شخص کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کرنے میں نہایت محتاط تھے، فرمایا کرتے تھے کہ میں صرف نتائج پر نظر رکھتا ہوں، خصوصاً جب سے رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ انسان کا دل نہایت تغیر پذیر ہے۔ [18]
جاگیروذریعۂ معاش ترمیم
تجارت اصلی ذریعہ ٔمعاش تھی،رسول اللہ ﷺ نے ان کو خیبر میں جاگیر بھی مرحمت فرمائی تھی، جس کو حضرت امیر معاویہ ؓ نے اپنے عہد حکومت میں ان کے ورثہ سے ایک لاکھ درہم میں خرید لیا تھا۔ [19]
حلیہ ترمیم
حضرت مقدادؓ طویل القامت، عظیم البطن وفربہ اندام تھے، سر کے بال گھنے ،آبرو پیوستہ اورڈاڑھی نہایت موزوں وخوبصورت تھی۔ [20]
اولاد ترمیم
حضرت ضباعہ بنت زبیرؓ سے ایک لڑکی کریمہ نامی یادگار چھوڑی۔ [21]
حوالہ جات ترمیم
- ↑ (اسد الغابہ تذکرہ مقداد بن عمرو ؓ)
- ↑ (اسد الغابہ تذکرہ مقداد بن عمرو ؓ)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۳ :۱۱۴)
- ↑ (اسد الغابہ تذکرہ مقداد بن عمرو)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۱۱۴)
- ↑ ( بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر)
- ↑ (سیرت ابن ہشام :۱/۳۵۲)
- ↑ ( بخاری باب غزوۂ بدر)
- ↑ (مستدرک حاکم :۳/ ۳۴۸)
- ↑ (مقریزی :۱/۶۵)
- ↑ (اصابہ:۳/۴۵۵)
- ↑ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر)
- ↑ بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر)
- ↑ (اصابہ:۳/۴۵۴)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل :۶/۴)
- ↑ (ایضاً :۵)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل: ۶/۵)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اجزء ۳ :۱۱۵)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اجزء ۳ :۱۱۵)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اجزء ۳ :۱۱۵)