حاصل خان بزنجو

پاکستان میں سیاستدان
(میر حاصل خان بزنجو سے رجوع مکرر)

حاصل خان بزنجو ایوان بالا (سینٹ ) کے رکن اور نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر تھے۔ ان کاتعلق بلوچستان سے تھا۔‏

حاصل خان بزنجو

مناصب
رکن ایوان بالا پاکستان [1]   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن سنہ
12 مارچ 2015 
حلقہ انتخاب بلوچستان  
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 3 فروری 1958ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 20 اگست 2020ء (62 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت نیشنل پارٹی (پاکستان)   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد غوث بخش بزنجو   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش، تعلیم اور ذاتی زندگی

ترمیم

میر حاصل بزنجونے 1958ءمیں ضلع خضدار کی تحصیل نال میں بلوچستان کے سابق گورنر میرغوث بخش بزنجو کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مڈل ہائیاسکول نال سے حاصل کی۔ جب ان کے والد کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا، اس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھے۔ ان کا خاندان کوئٹہ آگیا، جہاں انھوں نے اسلامیہ ہائیاسکول میں داخلہ لے لیا۔ 1977ءمیں میٹرک کرنے کے بعد 1979ءمیں گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے انٹر کیا۔80 ءکی دہائی میں کراچی چلے گئے جہاں جامعہ کراچی سے آنرز کرنے کے بعد فلسفے میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔

8 اگست1988ءکو شادی ہوئی، ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ ان کے تین بھائی تھے۔ حاصل بزنجو کھیلوں میں فٹبال اور والی بال میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فلم بینی اور موسیقی کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ ان کے بقول ”73ءسے76ءتک جتنی بھی پاکستانی فلمیں بنیں، وہ سب دیکھیں۔“۔ وحید مراد، ندیم، شبنم اور محمد علی ان کے پسندیدہ اداکا رہیں۔ احمد رشدی، سہل لتا، مکیش اور کشور کمار سننا پسند کرتے ہیں۔ کتابوں میں تاریخ اور سوانح پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ مارکس اور لینن کی شخصیت سے متاثر ہیں۔

حاصل بزنجو کے آباﺅ اجداد سات پشتون سے بلوچستان میں آباد ہیں۔ ان کے داد فقیر محمد بزنجو، محراب خان کے زمانے میں (مکران ڈویژن میں ) 40سال تک خان آف قلات کے نائب رہے (اس زمانے میں نائب کی حیثیت گورنر کے مساوی ہوتی تھی )۔

عملی سیاست

ترمیم

حاصل بزنجو نے 70ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔1972ءمیں بی ایس او نال زون کے صدر اوربعدمیں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1987ءمیں بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے اتحاد کے خلاف تنظیم سے علیحدگی اختیار کی۔ حاصل بزنجو جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف تشکیل دیے جانے والے قوم پرست اور ترقی پسند طلباءکے اتحاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔1985ء تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی ) میں متحرک رہے۔ 1988ءمیں پاکستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور نال سے انتخابات میں حصہ لیا۔1989ءمیں والد کی وفات کے بعد پاکستان نیشنل پارٹی کی سرگرمیو ں میں زیادہ فعال ہو گئے جس کی قیادت ان کے بڑے بھائی میر بیزن بزنجو نے سنبھالی۔ بیزن بزنجو 1990ءکے عام انتخابات قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے بعد ازاں ایک نشست چھوڑ دی جس پر حاصل بزنجو نے انتخاب لڑا اور پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1996ءمیں حاصل بزنجو پاکستان نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔1997ءکے عام انتخابات میں وہ دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں انھیں کچھ عرصہ قید بھی کاٹنی پڑی۔ 2002ءمیں ان کی پارٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کا الحاق ہوا اور نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ڈپٹی آرگنائزر حاصل بزنجو منتخب ہوئے۔ پارٹی کے پہلے کنونشن میں جنرل سیکرٹری اور دوسرے کنونشن میں سینئر نائب صدر منتخب ہوئے۔2009ءمیں بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے۔[2]

ان کی جماعت نیشنل پارٹی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے فروری2008ءکے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی مدد سے بلوچستان میں نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی اور یوں اس کی قیادت نے قومی توجہ حاصل کی، میر حاصل بزنجو 2014ء میں اس کے صدر بنے۔

2013ء سے 2018ء تک ان کی جماعت نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی بلوچستان میں مشترکہ حکومت رہی، حاصل بزنجو 2019 میں چئیرمین سینٹ کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار تھے۔

وفات

ترمیم

20 اگست 2020ء کو وفات پاگئے، وہ کینسر اور بواسیر کے امراض میں مبتلا تھے۔ کراچی کے نجی ہسپتال میں گذشتہ روز میر حاصل کی کیمیو تھراپی کی گئی تھی، جمعرات کی صبح دوبارہ طبیعت خراب ہوئی اور وہ شام کو انتقال کر گئے۔

ان کی میت کراچی سے ان کے آبائی علاقے نال منتقل کی گئی، جہاں جمعے کی شام پانچ بجے نماز جنازہ ادا کی گئی۔ [3]

حوالہ جات

ترمیم