1921ء کی بالی ووڈ فلموں کی فہرست
1921ء میں بھارتی فلمی صنعت
ترمیمخبریں اور نکات
ترمیم- آر وینکیا جنھوں نے 1914ء میں مدراس میں پہلے سنیما کی بنیاد رکھی تھی، انھوں نے اپنے بیٹے آر ایس پرکاش کو جرمنی، انگلینڈ اور امریکا فلم تکنیک سیکھنے بھیجا۔ 1921ء میں آر ایس پرکاش نے واپس آکر مدراس میں اپنے فلم اسٹوڈیو اسٹار آف دی ایسٹ کی بنیاد رکھی ۔[6]
بھارتی فلمی صنعت میں پیدائش
ترمیمجنوری تا اپریل
ترمیم- ساحر لدھیانوی : پیدائش 8 مارچ 1921ء، ہندی فلموں کے معروف نغمہ نویس اور شاعر، جنھوں نے یادگار ہندی فلموں پیاسا، دیوار، کالا پتھر، ترشول، کبھی کبھی، ضمیر، داغ، وقت، داستان، تاج محل، سادھنا، دیوداس، ملاپ اور الف لیلہ میں گیت لکے۔ ان کے لکھے مقبول گیتوں میں ’اے میری زہرہ جبیں ‘، ’اُُڑیں جب جب زلفیں تیری‘، ’تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی‘، ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر ‘، ’کبھی کبھی میرے دل میں خیال‘، ’میرے دل میں آج کیا ہے تو کہے ‘، ’میں پل دو پل کا شاعر ہوں ‘، ’آگے بھی جانے نہ تو‘، ’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘، ’محبت بڑے کام کی چیز‘، ’تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ ‘، ’یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں ‘، ’چلو اک بار پھر سے اجنبی‘، ’اِک راستہ ہے زندگی‘، ’تم سا نہیں دیکھا‘، ’میرے گھر آئی اک ننھی پری‘، ’سر جو تیرا چکرائے ‘، ’آجا تجھ کو پکارے میرے گیت‘، ’بابل کی دعائیں ‘، ’ریشمی شلوار کرتا جالی کا ‘، ’تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر‘، ’لاگا چنری میں داغ‘، ’تمھاری نظر کیوں خفا‘، ’حسن حاظر ہے ‘، ’بانہوں میں تیری مستی کے گھیرے ‘، ’نہ تو زمیں کے لیے ‘، ’یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیاہے ‘، ’ملتی ہے زندگی میں محبت ‘، ’اس ریشمی پازیب کی جھنکار‘، ’غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم‘، ’جائیں تو جائیں کہاں ‘ وغیرہ شامل ہیں۔[7]
- ایم وی راج امما : پیدائش 10 مارچ 1921ء، کنڑا، تمل، تیلگو اور ہندی فلموں کی اداکارہ، ہندی فلم سہاگ اور اسکول ماسٹر کے علاوہ 80 تمل، 60 کنڑا اور 20تیلگو فلموں میں کام کیا، جن میں کتور چینمما، تھائی دیواراو، گمستیون پین، ایمے تھمننا، سمسورا نوکا، رادھا رمننا، اتھما پتھیرن، قابل ذکر فلمیں ہیں۔[8]
- سبودھ مکھرجی : پیدائش 14 اپریل 1921ء، ہندی فلموں کے ہدایت کار، لکھاری اور فلم ساز۔ جنھوں نے دیواآنند کے ساتھ پینگ گیسٹ، لو میرج، منیم جی،شمی کپور کے ساتھ جنگلی، ششی کپورکے ساتھ دیوانگی، مسٹر رومیو، شرمیلی، سائرہ بانو کے ساتھ ابھینیتری، اپریل فول، شاگرد، ساز اور آواز، اس کے علاوہ تیسری آنکھ، الٹا سیدھا، لڑکے باپ سے بڑھ کے نامی فلمیں بنائیں ۔[9]
مئی تا اگست
ترمیم- ستیہ جیت رائے : پیدائش 2 مئی 1921ء،، بنگالی مصنف، ہدایت کار اور فلمساز، جن کی فلم ’’پتھر پنچالی‘‘ (1955ء )کنز فلم فیسٹیول میں "بہترین انسانی دستاویز" کا اعزاز حاصل کیا، اس کے علاوہ اپراجیتو، اپرا سنسار، نائیک، شطرنج کے کھلاڑی، چارولتا، اشانتی سنکیت، گوپی گائنے باگا بائنے، ارنئیر دن راتری، مہانگر، دیوی، پارش پتھر، سونارقلعہ، چڑیا خانہ، جلسہ گھر، کپروش نامی فلموں بنائیں۔[10]
- آچاریہ اتھریہ : پیدائش 7 مئی 1921ء، تیلگو فلموں کے کہانی نویس اور نغمہ نویس۔ ۔[11]
- کماری (ناگراج کماری مدیلا): پیدائش 1921ء/ 1 جون، تیلگو فلموں کی اداکارہ، سمنگکلی، ویوتا، ناوا لوکم، سری کالہاستی ایشور مہاتیم، نیلا کوئیل، روپ بست، بدتھا پنگلی، مدیانیا پترن اور دکشا یگنم نامی فلموں میں کام کیا۔[12]
- اے کے کاملن : پیدائش [[25 جون ] 1921ء، تمل اور ملیالم فلموں کی اداکارہ، ملیالم فلم بالن اور تمل فلم سیوا سدن میں اداکاری کے لیے جانی جاتی ہیں۔[13]
- ایم ایس راما راؤ : پیدائش 3 جولائی 1921ء، تیلگو فلموں کے مقبول گلوکار، تیلگو فلم منادیشم، جیویتھم، شاووکرو، پلیٹرو، نا اللو، جیا سمہا، سنورنا سندری، سارنگ دھارا جیسی فلموں میں گیت گائے۔[14]
- ہرنام سنگھ راویل : پیدائش 21 اگست 1921ء،، ہندی فلموں کے ہدایت کار اور لکھاری،میرے محبوب، لیلیٰ مجنوں، محبوب کی مہندی، شرارت جیسی یادگار فلمیں لکھیں اور بنائیں۔ دیگر فلموں میں پتنگا، جوانی کی آگ، پاکٹ مار، مستانہ، روپ کی رانی چوروں کا راجا، کانچ کی گڑیا اور دیدارِ یار، شامل ہیں [15]
ستمبر تا دسمبر
ترمیم- مینا شورے : پیدائش 15 ستمبر 1921ء، ہندی فلموں کی اداکارہ، ایک تھی لڑکی، آگ کا دریا، آرسی، شریمتی 420، دکھیاری، زیورات، مداری، راجا رانی نامی ہندی فلموں میں کام کیا اور 1956ء میں پاکستان آگئیں اور فلم مس 56، سرفروش، بڑا آدمی، ترانہ سمیت کئی فلموں میں کام کیا۔[16]
- بمل کمار : پیدائش 19 ستمبر 1921ء، ہندی اور بنگالی فلموں کے لکھاری۔ ہندی فلم بالیکا ودھو، دل گلی اور بنگالی فلم چھٹی، بسنت بلاپ، نین تارا، بالیکا بدھو کی کہانی لکھی۔[17]
- دھولیپالا (دھولیپالا سیتا رام شاستری) : پیدائش 24 ستمبر 1921ء، تیلگو فلموں کی اداکارہ، منفی کرداروں ک لیے مقبول۔ 13 برس کی عمر سے ہی اداکاری شروع کی لیکن 1960ء میں این ٹی راما راؤکی فلم ’’شری کرشنا پانڈویم ‘‘ میں شکوُنی کے کردار سے اتنی شہرت ملی کہ بعد کی کئی فلموں مثلاً بال بھارتم، بال مہابھارت، دان ویر سورا کرن میں شکوُنی کا کردار نبھایا۔ 300 سے زیادہ فلموں میں کام کیا، جن میں زیادہ تھر مذہبی اور دیومالائی موضوعات پر مبنی تھیں۔ ان میں مایا بازار، بھیشما، شری کرشنا یدھم، شری راما انجانیا یدھم، کروکشیترم، قابل ذکر فلمیں ہیں، آخری بار مہیش بابو کی فلم مُراری میں نظر آئے۔[18]
- رمننا ریڈی (تھکاورپو وینکٹ رمننا ریڈی): پیدائش 1 اکتوبر 1921ء، تیلگو فلموں کے مزاحیہ اداکار، تیلگو فلموں کے سپر اسٹار این ٹی راما راؤ اور اکھینی ناگیشور راؤ کے مدمقابل کئی فلموں میں کام کیا۔ جن میں مس اما، پریورتن، لکشے ادھیکاری، لو کوسا، بھاگیہ ریکھا، مایا بازار، شری وینکٹیشور مہاتئم، گنداما کتھا، اپو چیسی پپو کوڈو، راموڈو بھیموڈو، ناپورنا، سی آئی ڈی، ارادھنا، شریمنتھوڈو وغیرہ مقبول فلمیں ہیں۔[19]
- ایس کے اوجھا (شبھ کرن اوجھا): پیدائش 4 اکتوبر 1921ء، 40 اور 50کی دہائی میں ہندی فلموں کے ہدایت کار،ڈولی، نئی رات، آدھی رات، ہلچل، ناز اور ستارہ نامی فلمیں بنائیں۔ اس کے علاوہ مستانہ اور 1971ء میں اپاسنا نامی ہندی فلموں کی کہانی لکھی۔ یہ پہلے ایسے ہندوستانی ہدایت کار تھے جنھوں نے سری لنکا میں سنہالی زبان کی فلم رکمنی دیوی (1954ء )بنائی۔[20]
- آر کے لکشمن (راسیپورم كرشن سوامی لکشمن): پیدائش 24اکتوبر 1921ء، ہندوستان کے آرٹسٹ اور مزاحیہ خاکہ نگار۔ مسٹر اینڈ مسز 55 اور ہوتوتو نامی فلم اور مالگڈی دیز نامی ڈراما سیریز میں آرٹ ورک یعنی ڈرائنگ و کارٹون اور اینیمیشن بنانے کا کام کیا۔ ان کی لکھی تحریروں پر ڈراما سیریز ’’واگلے کی دنیا ‘‘ بنایا گیا ہے۔[21]
- کالی بینرجی : پیدائش 20 نومبر 1921ء، ہندی اور بنگالی فلموں کے اداکار، ہندی فلم باورچی کے علاوہ، پارس پتھر، بیل اکشر نیچے، نمرتن، رتویک گھاتک، ناگرِک، اجنترِک، اپراجیتو، کابلی والا اور بادشاہ نامی بنگالی فلموں میں کام کیا۔[22]
- چیدآنند داس گپتا : پیدائش 20 نومبر 1921ء،، بنگالی فلموں کے ہدایت کار، لکھاری اور اداکار۔ بطور اداکار فلم بیشے شرون، بطور لکھاری فلم بیشے شرون، امودنی اور بطور ہدایتکار بلیٹ فراٹ اور امودنی فلم کے علاوہ ڈوکیومنٹری فلمیں بھی بنائیں [23]
- چندر کانت گوکھلے : پیدائش 20 نومبر 1921ء، مراٹھی اور ہندی فلموں کے اداکار۔ ہندی فلموں کی اولین اداکارہ درگا بائی کامت کے نواسے، کملا بائی گوکھلے کے بیٹے اور اداکار وکرم گوکھلے کے والد، مراٹھی فلموں، جیواچہ سکھا، سدھی مانسے، تتھے نندتے لکشمی، مراٹھا تتوکا میلواوا اور ہندی فلموں میں سہاگ رات، بجلی، راؤ صاحب، پرُش، حراست، انگار، وزیر، پریم، لوفر، وشواس گھات، وجود، شکتی، نامی فلموں میں کام کیا۔[24]
- موہن سیگل : پیدائش 1 دسمبر 1921ء، ہندی فلموں کے ہدایت کار اور فلمساز، طور اداکار فلم نیچا نگر، پھول اور کانٹے، افسر میں کام کرنے کے بعد بطور ہدایت کار نیو دہلی، ساجن، اولاد، دیور، کرتویہ، کروڑ پتی، کنیادان، ساجن، ساون بھادوں، راجا جانی، سنتان، ایک ہی راستہ، دولت، سمراٹ، ہم ہیں لاجواب اور قسم سہاگ کی نامی فلموں بنائیں۔[25]
مقبول فلمیں
ترمیمبھکت ویدُور
ترمیم- بھکت ویدور، بھارت کی پہلی ممنوعہ (Banned) فلم : بھارت میں سن 1918 میں سنسر شپ ایکٹ بنایا گیا، جس پر پہلی بار عمل 1921 ء میں ہوا، ہدایت کار ڈی ڈبلیو گریفتھ کی انگریزی فلم "آرفنس آف دی سٹورم" ۔[26] کو سینسر بورڈ کے سامنے لایا گیا تو اس فلم کے کچھ مناظر کو کاٹنے کے بعد سینسر بورڈ نے اسے سرٹیفکیٹ دے دیا۔ یہی بھارت کی پہلی سینسر سرٹیفکیٹ والی فلم مانی جاتی ہے، اس فلم میں فرانس کے انقلاب اور طبقاتی جدوجہد اور نسلی نفرت کو دکھایا گیا تھا۔ لہذا کانٹ چھاٹ کے بعد بھارت میں ریلیز ہونے سے پہلے اسے بھارت میں پہلا سینسر سرٹیفکیٹ ملا [27]لیکن 1921ء ہی میں کوہ نور فلم کمپنی کے بینر تلے ہدایت کار کانجی بھائی راٹھور کی ہندی فلم بھکت ویدور بھارت کی پہلی فلم بنی جسے کہ سنسر شپ کے تحت سندھ اور مدراس (موجودہ چنائی) میں نمائش کے لیے ممنوع قرار دیا گیا۔ یہ ایک خاموش فلم تھی۔ موہن لال جی ڈیو کی کہانی جو مہا بھارت کے دور پر مبنی تھی۔ جس میں پانڈو اور كوروو کے درمیان تنازعات کو ایک شاعر بھکت ویدرکے نقطہ نظر سے دکھایا گیا تھا۔ اب آپ سوچیں گے کی اس میں فلم کو پابندی کرنے کی ایسی کون سی بات تھی۔ تو اس کا سبب یہ تھا کی بھارت اس وقت اپنی آزادی کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ مارچ 1919 میں ہندوستان کی برطانوی حکومت کی طرف سے بھارت میں گاندھی جی کی قیادت میں ابھر رہی قومی تحریک کو کچلنے کے مقصد سے "رولٹ ایکٹ" نام کا ایک قانون منظور کیا گیا۔ اس کے مطابق برطانوی حکومت کو یہ حق حاصل ہو گیا تھا کہ وہ کسی بھی ہندوستانی پر عدالت میں بغیر مقدمہ چلائے اور بغیر سزا دیے اسے جیل میں بند کر سکتی تھی۔ اس قانون کے تحت مجرم کو اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے والے کا نام جاننے کا حق بھی ختم کر دیا گیا تھا / اس قانون کی مخالفت میں ملک گیر ہڑتالیں، جلوس اور جلسے ہونے لگے۔ مہاتما گاندھی نے وسیع ہڑتال کا اعلان کیا۔ 13 اپریل 1919 کو ڈاکٹر سیف الدین كچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کی مخالفت میں جلياوالا باغ میں لوگوں کی بھیڑ جمع ہوئی۔ امرتسر میں تعینات فوجی کمانڈر جنرل ڈائر نے اس بھیڑ پر اندھا دھند گولیاں چلوائیں۔ ہزاروں لوگ مارے گئے۔ بھیڑ میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر تھی۔ ایسے میں اگلے ہی سال فلم "بھکت ویدر" ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں بھکت کا اہم کردار دوارکا داس سمپت نے ادا کیا تھا۔ جو خاموش فلموں کے منجھے ہوئے اداکار تھے۔ دیگر اداکاروں مین میں مانک لال پٹیل(جنوں نے کرشنا کا کردار نبھایا)، ہومی ماسٹر( جو دریودھن کے کردار میں نظر آئے)، پربھا شنکر، گنگا رام اور سکینہ تھے۔ اس فلم میں ویدر کے کردار نے سر پر گاندھی ٹوپی لگائی تھی اور کھدی کے کپڑے پہنے تھے۔ یہی انگریزی حکومت کی آنکھوں میں کھٹک گئی کیونکہ رولٹ ایکٹ کے خلاف مزاحمت اور جاليا والا باغ قتل عام سے لوگوں میں پہلے ہی برطانوی حکومت میں فی زبردست غم و غصہ تھا۔ گاندھی جی کی نقل و حرکت سے ڈری ہوئی انگریزی حکومت نے فلم کو بھارت میں پابندی عائد کر دی۔ برطانوی سینسر بورڈ نے فلم کو ممنوعہ قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دی کی ہم جانتے ہیں کہ آپ کیا دکھا رہے ہیں یہ ویدر نہیں یہ گاندھی ہے۔ اس فلم میں ہندو تاریخی کردار ویدر کو موہن داس کرم چند گاندھی کی شخصیت جیسا دکھایا گیا ہے۔ اسے نمائش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس فلم کو حکومت کے خلاف عوام کو اکسانے کی کوشش مانتے ہوئے برطانوی حکومت نے فلم کے پرنٹ قبضہ کر لیے اس طرح "بھکت ویدور " مدراس، کراچی اور کچھ دیگر صوبوں میں ممنوع کر دی گئی۔ ہدایت کار کانجی بھائی راٹھور برطانوی حکومت کو سمجھانے میں ناکام رہے اور انھیں ایک بڑا معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔[28] [29][30]فلم کی کہانی، ویدُر کی زندگی اور فلسفہ پر مبنی تھی۔ مہابھارت کی کہانی میں ویدُر دراصل دھرت راشٹر کے وزیر تھے اور انصاف پسند ہونے کی وجہ سے پانڈؤں کے خیر خواہ تھے، جو کورو اور پانڈوں کو آپس میں جنگ کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے، وہ شاعر بھی تھے اور انھوں نے اپنے فلسفہ اور اصولوں کی ایک کتاب دیدُر نیتی بھی لکھی۔ عمر کے آخری دور میں جنگل میں گوشہ نشین ہو گئے تھے اور وہیں وفات پائی۔[31] [32]
بلیٹ فیراٹ
ترمیم- بلیٹ فیراٹ یعنی ولایت پلٹ، 1921ء میں ریلیز ہونے والی بنگالی فلم تھی۔ اس دور میں جب مذہبی، دیومالائی اور تاریخی فلموں کا دور چل رہا تھا، بلیٹ فیراٹ نہ صرف بنگالی زبان بلکہ ہندوستان کی وہ پہلی فلم بنی جو سماجی موضوع پر مبنی تھی، یہ ہندوستان کی پہلی رومانوی اور مزاحیہ فلم بھی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار این سی لاہاری تھے، جبکہ اس فلم کے لکھائی، فلمساز اور معاون ہدایت کار دھریندر ناتھ گنگولی تھے۔ اس فلم میں مرکزی کردار بھی دھیریندر گنگولی نے ادا کیا، فلم کے دیگر اداکاروں میں منمتا پال اور کنج لال چکرورتی شامل ہے۔ محبت کی کہانی پر یہ پہلی بھارتی فلم تھی جس میں بوس وکنار کے مناظر شامل ہوئے اور اس فلم نے بھارتی فلموں میں پیار اور رومانوی کہانیوں کا کبھی کبھی ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا۔ یہ فلم ایک بڑی ہٹ ثابت ہوئی۔ . اس فلم میں حقیقت پسندانہ محبت کے مناظر پر سنسر بورڈ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کیونکہ اس وقت برطانوی اور امریکی معاشروں سے آنے والی فلموں میں یہ ایک عام معمول تھا۔ سماجی پیغام پر مبنی اس فلم کی کہانی میں ولایت پلٹ یعنی تعلیم کے لیے برطانیہ یا بیرون ملک سے واپس آنے والے مغرب زدہ ولایتیوں پر طنز کیا گیا ہے جو اپنے لب و لہجہ، منفی رویوں اور غرور و تکبر میں مبتلا ہو کر اپنے ملک کی روایات کو بھول جاتے ہیں -[33] [34][35]
دھروُا چریتر
ترمیم- 1921ء میں فلم دھروا چریتر ریلیز ہوئی۔ مدن تھیٹر کی تیار کردہ اس فلم کے ہدایت کار جیوتش بینرجی اور یوگینیو ڈی لیگورو تھے۔ فلم کی کہانی تلسی داس شیدا ے لکھی تھی اس فلم میں پیشینس کوپر، ماسٹر موہن،سائنورا ڈورس، ایم منی لال، پی مدن اورآغا حشر کاشمیری نے اداکاری کی۔ یہ واحد فلم تھی جس میں آغا حشر کاشمیری نے اداکاری کی۔ 1913ء میں جب خاموش فلموں کی ابتدا ہوئی انہی دنوں آغا حشرکاشمیری اسٹیج تھیٹر کی دنیا پر چھا ئے ہوئے تھے، متحرک فلموں کی آمد سے تھیٹر کمپنی کی اہمیت کم ہونے لگی، لاہو رمیں آغا حشرکاشمیری کی قائم کردہ "انڈین شیکسپیرتھیئٹریکل کمپنی"بند ہو گئی۔ 1914ء میں آغا حشرؔ کی رفیقۂ حیات کا انتقال ہو گیا اور ناسازگاریٔ حالات کی وجہ سے وہ کلکتہ چلے گئے۔ کلکتہ میں آغا صاحب جے۔ ایف۔ میڈن (مدن)کے پاس گیارہ روپیہ ماہوار پر ملازم ہو گئے اور کئی برس وہاں مقیم رہے۔ اس دوران حشرؔ نے زیادہ تر ہندی ڈرامے لکھے۔[36] آغا حشر کاشمیری کی ملازمت کے دوران مدن تھیٹرز میں 1919ء میں بلوا منگل، 1920ء میں نل دمینتی اور پھر فلم دھروا چریتر ایلیز ہوئی۔ جس میں آغا حشرکاشمیری نے اداکاری بھی کی۔ کلکتہ میں مدن تھیٹرز میں آغا حشرکی کہانیوں کو پزیرائی نہ ملی تو آپ نے 1924ء میں مدن تھیٹر سے قطع تعلق کیا اور پھر کلکتہ سے بمبئی چلے آئے جہاں کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ فلم دھروا چریتر کی کہانی ہنددو دیومالائی کردار دھروُ کے متعلق ہے،جس کا تذکرہ وشنو پران اور بھگوات پران میں ہے۔ دھروُ کے معنی ہیں قطب ستارہ۔ منو اور شتروپا (جو ہندو عقاید کے مطابق اولین انسانی جوڑا تھا) کے ایک بیٹے راجا اتانپاد کی دو رانیاں تھیں سورُوچی اور سُنیتی۔ سوروچی کے بیٹے کا نام اتم تھا۔ سنیتی کے بیٹے کا نام دھروُ تھا۔ راجا اتانپاد رانی سورُوچی کو بہت چاہتے تھے، اس لیے رانی سوروچی کو ملکہ بنا کر محل کے اندر رکھا اور رانی سنیتی داسی بن کر گھر کے باہر رہتیں۔ رانی رانی سوروچی مغرور تھی اور سنیتی اور اس کے بیٹے دھرو سے ے نفرت اور حسد کرتی تھی۔ ایک بار راجا اور رانی سوروچی دربار میں بیٹھے تھے اور راجکمار اتم راجا کی گود میں بیٹھے تھے۔ اتنے میں راجکمار دھرو کہیں سے کھیلتے ہوئے آئے اور راجا کی گودی میں بیٹھنے گئے۔ اس بات پر رانی سوروچی ناراض ہوئیں اور دھروُ کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتار کر سخت الفاظ میں کہا ‘‘بچے! تو اس راج تخت پر بیٹھنے کے لائق نہیں، اگر تجھے تخت پر بیٹھنا ہے تو میری کوکھ سے جنم لینا ہوگا ‘‘ ننھا دھرو غصہ میں روتے ہوئے اپنی ماں کے پاس گیا اور انھیں سب بات بتائی۔ سنيتی نے گہری سانس لے کر دھروسے کہا، ‘‘بیٹا! تو دوسروں کے لیے کسی قسم کے ناخوش چاہت مت کر۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دیتا ہے، اس کے خود ہی اس کا پھل بھگتناپڑتا ہے۔ سوروچی نے جو کچھ کہا ہے، ٹھیک ہی ہے ؛ کیونکہ وہ مہاراج کی بیوی ہے اور میں داسی۔ اگر راجکمار اتّم کی مانند تخت پر بیٹھنا چاہتا ہے تو دشمنی اور غصہ کو چھوڑ کر بس،بھگوان کی تپسیا میں لگ جا، اگر بھگوان نے تیری قسمت میں تخت لکھا ہے تو وہ تجھے ملے گا۔ بھگوان نے چاہا تو وہ تجھے اس سے بھی بڑا مقام دے گا۔ دھرو نے جب ماں کی بات سنی توخاموش ہو گیا اور پھر تپسیا کے لیے جنگل کی طرف چل دیا۔ جنگل میں دھرو کو ایک سنت سادھو ناردجی ملے ہیں۔ نارد نے دھرو سے کہا ابھی تم بچے ہے، تپسیا وغیرہ تمھارے بس کی بات نہیں، مگر دھرو اپنی ضد پر قائم رہا۔ دھرو کا اٹل ارادہ دیکھ کر نارد نے انھیں تپسیا کا طریقہ بتا دیا۔ دھرو بتائے ہوئے مقام پر آسن بچھا کر مستحکم انداز سے بیٹھ گئے اور تپسیا میں لگ گئے۔ مہینوں کے تپسیا کے بعد بھگوان کے درشن ہوئے۔ بھگوان نے کہا کہ وہ تخت تیری قسمت میں لکھا گیا ہے۔ ادھر راجا اتانپاد کا بیٹا راجکمار اتّم ایک دن شکار کھیلتے ہوئے ہمالیہ پہاڑ پر گیا اور جہاں کے ایک بلوان يكشو سے مدبھیڑ ہوئی اس نے راجکمار کو نے مار ڈالا۔ رانی سوروچی راجکمار کی موت کا صدمہ برداشت نہ کرسکی اور وہ بھی آخرت سدھار گئی۔ راجا اتتانپاد نے اپنا تخت و تاج دھرو کے حوالے کیا اور خود تپسیا کے لیے گوشہ نشین ہوکر جنگل کو چل دیے۔ کہتے ہیں کہ دھرو کی تپسیا سے خوش ہو کر بھگوان نے انھیں موکش دے دیا تھا اور ستارہ کی سلطنت میں ایک مقام بخشا تھا۔ جب مہا پرلے ’(طوفانِ نوح کی طرز کا عظیم طوفان) آیا تو دھروُ قطب ستارہ بن کر آسمان میں چلا گیا اور آج بھی وہیں روشن ہے۔[37]
مہاستی انسویہ
ترمیم- 1921ء میں ہدایت کار کانجی بھائی راٹھور کی فلم ’’مہا ستی انسویہ ‘‘ سینما گھروں کی زینت بنی۔ یہ فلم کوہِ نور اسٹوڈیو کی تیار کردہ تھی۔ فلم کے اداکاروں میں خلیل، ویدیا اور سکینہ شامل تھیں۔ فلم کی کہانی بھگوت پران اور راماین کی ایک کردار ستی انسویہ کے بارے میں ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت، خدمت اور وفاداری کے لیے ایک مثال تھی، تین دیوتاؤں نے مل کر ستی انسویہ کی آزمائش کرنے کی کوشش کی اور ستی انسویہ ہر آزمائش میں پوری اُتری۔ یہ فلم اس وقت کی مقبول فلم ثابت ہوئی تاہم اس فلم کی مقبولت کی اصل وجہ یہ بنائی جاتی ہے کہ اس فلم کے ایک سین میں اداکارہ سکینہ کونیم عریاں دکھایا گیا تھا۔[38]
سریکھا ہرن
ترمیم- 1921ء میں بابو راؤپینٹر کی فلم سریکھا ہرن ریلیز ہوئی۔ فلم کی کہانی مہابھارت کے ایک قصہ پر مبنی ہے۔ شری کرشن کے بڑے بھائی بلرام اور راجا ککدمی کی بیٹی ریواتھی کی شادی کے نعد ان کی ایک بیٹی ہوئی جس کا نام سریکھا (ششی ریکھا/واتسلا)تھا۔ جب سریکھ اجوان ہوئی تو پانڈو سلطنت کے ارجن اور اس کی بیوی سبدھرا جو سریکھا کی چاچی بھی تھی نے اپنے دیور ابھیمنیو کے لیے سریکھا کا ہاتھ مانگ لیا۔ لیکن جب پانڈوؤ کو کئی سال جنگل میں روپوشی اختیار کرنا پڑی تو اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کورؤ ں سلطنت کے دریودھن نے اپنے بیٹے لکشمن کمار کی شادی سریکھا سے کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ابھیمنیو نے گٹوکچ اور سبدھرا کی مدد سے سریکھا کو شادی کے منڈپ سے بھگانے میں کامیاب ہو گیا اور بالآخر سریکھا سے شادی کرلی۔ یہ اداکار و ہدایتکار وی شانتا رام کی بطور اداکار پہلی فلم تھی، اس فلم میں وی شانتا رام نے کرشنا کا کردار ادا کیا۔ دیگر اداکاروں میں وشنوپنت پگنس، بابو راؤ پندھارکر، راجیو مہاسکر، بالا صاحب یادو، گنپت باکرے، زنزر راؤ پوار، جی آر مانے اور گجرا بائی شامل تھیں۔[39][40]
1921ء کی فلمیں
ترمیمتاریخ | فلم | اداکار | ہدایتکار | موضوع | تبصرہ |
---|---|---|---|---|---|
15 اکتوبر 1921ء | ماں درگا جگت جنانی جگت امبا |
- | جیوتش بینرجی | تاریخی | [41] |
1921ء | وشنو اوتار | پیشینس کوپر، | جیوتش بینرجی | تاریخی | [42] |
1921ء | موہنی / ایکادشی | سسر کمار بہادری،البرٹینا، تلسی بینرجی،پیشینس کوپر، شیفالیکا دیوی | سسر کمار بہادری | تاریخی | [43] |
1921ء | بلغارین ایمپریرس وزٹ ٹو انڈیا | - | نتن بوس | ڈوکیومنٹری | [44] |
1921ء | دھروا چریتر | پیشینس کوپر، ماسٹر موہن،سائنورا ڈورس، آغا حشر کاشمیری، ایم منی لال، پی مدن | جیوتش بینرجی، یوگینیو ڈی لیگورو | مذہبی | [45] |
1921ء | پراد یمنا / کرشن کمار | ، - | وشنوپنت دیویکر | تاریخی | [46] |
1921ء | راجہ گوپی چند | ہیرا کوریگاؤنکر،ماما بھٹ | وشنوپنت دیویکر | تاریخی | [47] |
1921ء | تری دنڈی سنیاس | سونی، لیمائے، آنند شنڈے، | وشنوپنت دیویکر | تاریخی | [48] |
1921ء | اروشی | ہیرا کوریگاؤنکر، لیمائے، ویٹھا بائی | وشنوپنت دیویکر | تاریخی | [49] |
1921ء | دبر کلنکاری | چانی دتہ، | دیبی گھوش | ،، | [50] |
1921ء | بلیٹ فیراٹ (ولایت پلٹ) |
منمتا پال، کنج لال چکرورتی، دھیریندر ناتھ گنگولی | دھیریندر ناتھ گنگولی، این سی لاہری | کامیڈی،ڈراما، سوشل | [51] |
1921ء | بیہولا | پیشینس کوپر | سی لیگرینڈ | تاریخی | شیو پُران کا کردار[52] |
1921ء | شیو راتری | کسم کماری، پربودھ بوس | سی لیگرینڈ | تاریخی | [53] |
1921ء | رکمنی کلیانم (رکمنی کی شادی) |
-، | رنگاسوامی نٹراج مدلیار | تاریخی | شری کرشن کی شادی[54] |
1921ء | سریکھا ہرن | وشنوپنت پگنس، وی شانتا رام، بابو راؤ پندھارکر، راجیو مہاسکر، بالا صاحب یادو، گنپت باکرے، زنزر راؤ پوار، جی آر مانے،گجرا بائی | بابو راؤ پینٹر | تاریخی | [55] |
1921ء | شراشندری | - | بابو راؤ پینٹر | - | [56] |
1921ء | بھیشم پراتگنا | - | آر ایس پرکاش | تاریخی | [57] |
1921ء | بھکت ویدور / دھرم وجے | دوارکادیس سمپت، مانیک لال پاٹیل، ہومی ماسٹر، پربھا شنکر، گنگا رام، سکینہ | کانجی بھائی راٹھور | مذہبی | [58] مہابھارت کا کردار |
1921ء | چندراہسہ | خلیل، تارا، موتی، سویتا، دھانجی | کانجی بھائی راٹھور | مذہبی | [59] |
1921ء | کرشن مایا | جمنا | کانجی بھائی راٹھور | مذہبی | [60] |
1921ء | مہا ستی انسویہ | ویدیا، سکینہ، خلیل | کانجی بھائی راٹھور | تاریخی، ڈراما | [61] راماین کی ایک کہانی |
1921ء | میرا بائی | پیشینس کوپر، سسر کمار بہادری | کانجی بھائی راٹھور/سسر کمار بہادری | مذہبی | [62] |
1921ء | پنڈلک | - | کانجی بھائی راٹھور | مذہبی | [63] |
1921ء | پنڈلک | - | گنپت شنڈے | مذہبی | [64] |
1921ء | رکمنی ہرن | خلیل، تارا، موتی، سکینہ، ویدیا، گنگارام | کانجی بھائی راٹھور | مذہبی | [65] |
1921ء | سبدھرا ہرن | -،، | کانجی بھائی راٹھور | مذہبی | [66] |
1921ء | وشوامتر مینکا | علی میاں ،جمنا، قیصر، راجا بابو، | کانجی بھائی راٹھور | مذہبی | [67] |
1921ء | رتن کار والمیکی |
چنی لال دیو، ششی مکھی، سشیلا بائی | سریندر ناراین راؤ | تاریخی | [68] |
1921ء | والمیکی | -، | جی وی سانے | تاریخی | [69] |
1921ء | گوردھن دھاری | - - | جی وی سانے | تاریخی | [70] |
1921ء | ستی سلوچنا | -،، | جی وی سانے | تاریخی | [71] |
1921ء | شنی پربھاؤ (افسردہ مزاج ) | -،، | جی وی سانے | تاریخی | [72] |
1921ء | وکرم ستوا پریکشا (وکرم کی 7 آزمائشیں ) | -،، | جی وی سانے | تاریخی | [73] |
15 جولائی1921ء | تکا رام / سنت تکا رام | -،، | گنپت شنڈے | تاریخی | [74][75] |
1921ء | وللی تھیرومنم (وللی کی شادی) | -،، | ویٹٹاکر | تاریخی | [76] |
1921ء | افلاطون /طہمورس اینڈ طہمول جی | -،، | - | سوشل | [77] |
1921ء | سلام علیکم | -،، | - | سوشل | [78] |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "سال -1921ء کی فلمیں"۔ انڈین سنےما۔ انڈین سنیما۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015
- ↑ "کمپلیٹ انڈیکس آف ورلڈ فلمز ڈیٹابیس"۔ citwf.com۔ ایلن گوبلے۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015
- ↑ "خاموش فلمیں 1921"۔ گوملو ڈاٹ کام۔ گوملو۔ 19 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015
- ↑ "سنیما کی تاریخ 1921"۔ بزنس آف سنیما ٖ ڈاٹ کام۔ بزنس آف سنیما۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015
- ↑ "ہندی موویز برائے سال 1921"۔ 10کا 20 ڈاٹ کام۔ 10کا 20۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015
- ↑ اسپرٹ آف تیلگو سنیما، کتاب پوپ کلچر انڈیا
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ساحر لدھیانوی
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ایم وی راج امما
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر سبودھ مکھرجی
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ستیہ جیت رائے
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر آچاریہ اتھریہ
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر کماری
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر اے کے کاملن
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ایم ایس راما راؤ
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ہرنام سنگھ راویل
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر مینا شورے
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر بمل کمار
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر دھولیپالا
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر رمننا ریڈی
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ایس کے اوجھا
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر آر کے لکشمن
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر کالی بینرجی
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر چیدآنند داس گپتا
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر چندر کانت گوکھلے
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر موہن سیگل
- ↑ آرفنس آف دی سٹورم آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ آرفنس آف دی اسٹروم، سینسر شپ، کتاب: انسائیکلوپیڈیا آف ہندی سنیما۔ گوگل بکس
- ↑ سینسر فلم بھکت ویدُر[مردہ ربط]۔ لائیو ہسٹری انڈیا
- ↑ بھکت ویدُر -سنے ما
- ↑ بھکت ویدُر -محل موویز
- ↑ ویدُر کی کہانی۔ بھارت ڈسکوری
- ↑ ویدُر کی کہانی۔ مہابھارت آن لائن
- ↑ بنگلہ دیش سنیما صفحہ 100
- ↑ انسائیکلوپیڈیا آف انڈین سنیما صفحہ 241
- ↑ راؤٹلیج ہینڈ بک آف انڈین سنیما
- ↑ [www.urdulibrary.org/books/60-urdu-drama-aur-agha-hashar اردو ڈراما اور آغا حشر کاشمیری]
- ↑ وشنو پران میں دھروُ کی کہانی
- ↑ Ashish Rajadhyaksha، Paul Willemen (10 July 2014)۔ "Chronicle"۔ Encyclopedia of Indian Cinema۔ Routledge۔ صفحہ: 1994–۔ ISBN 978-1-135-94318-9۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2015
- ↑ B D Garga (1 December 2005)۔ Art Of Cinema۔ Penguin Books Limited۔ صفحہ: 66–۔ ISBN 978-81-8475-431-5۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015
- ↑ P. K. Nair۔ "In the Age of Silence"۔ latrobe.edu.au۔ latrobe.edu.au۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مئی 2015
- ↑ ماں درگا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ وشنو اوتار آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ موہنی آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ بلغارین ایمپریرس وزٹ ٹو انڈیا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ دھروا چریتر آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ پراد یمنا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ راجہ گوپی چند آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ تری دنڈی سنیاس آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ اروشی آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ دبر کلنکاری آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ بلیٹ فیراٹ آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ بیہولا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ شیو راتری آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ رکمنی کلیانم آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ سریکھا ہرن آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ شراشندری آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ بھیشم پراتگنا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ بھکت ودھر آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ چندراہسہ آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ کرشن مایا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ مہا ستی انسویہ آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ میرا بائی آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ پنڈلک آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ پنڈلک آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ رکمنی ہرن آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ سبدھرا ہرن آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ وشوامتر مینکا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ رتن کار آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ والمیکی آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ گوردھن دھاری آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ ستی سلوچنا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ شنی پربھاؤ آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ وکرم ستوا پریکشا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ تکا رام آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ سنت تکا رام آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ وللی تھیرومنم آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ افلاطون آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ سلام علیکم آئی ایم ڈی بی پر