ابن عربی

اندلسی صوفی، فلسفی
(ابن عربي سے رجوع مکرر)

محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلسی (1240ء1165ء)، دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عارف، محقق، قدوہ علما اور علوم كا بحر بیكنار ہیں۔ اسلامی تصوف میں آپ كو شیخ اکبر کے نام سے یاد كیا جاتا ہے اور تمام مشائخ آپ كے اس مقام پر تمكین كے قائل ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ تصوف اسلامى میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا۔ ان کا قول تھا کہ باطنی نور خود رہبری کرتا ہے۔ بعض علما نے ان کے اس عقیدے کو الحاد و زندقہ سے تعبیر کیا ہے۔ مگر صوفیا انھیں شیخ الاکبر کہتے ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ جن میں فصوص الحكم اور الفتوحات المکیہ (4000 صفحات) بہت مشہور ہے۔ فتوحات المكيۃ 560 ابواب پر مشتمل ہے اور کتب تصوف میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔

ابن عربی
(عربی میں: محي الدين ابن عربي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: محمد بن علي بن محمد بن عربي الحاتمي الطائي الأندلسي ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 28 جولا‎ئی 1165ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مرسیہ [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 نومبر 1240ء (75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق [4]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت موحدین [5]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ محمد ابن قاسم التمیمی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص صدرالدین قونوی [6]  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلسفی [7][8]،  شاعر ،  مصنف [9][10][11][12]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [13][14]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں فصوص الحکم ،  فتوحات مکیہ ،  ترجمان الاشواق   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر ابن سبعین   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

نام و نسب

فائل:ابن العربي.jpg

شیخ اکبر ابن العربی کا پورا نام "محمد بن علی بن محمد ابن العربی الطائی الحاتمی الاندلسی" تھا۔ اور آپ کے ہاتھ سے لکھے خطی نسخوں پر آپ یہی نام لکھتے آئے ہیں۔ تدبیرات الہیہ کے ہاتھ سے لکھے نسخے کا عکس ملاحظہ کریں جس پر "محمد بن علی ابن العربی" واضح پڑھا جا سکتا ہے۔ مشرق والے (خصوصا وہ لوگ جن کی مادری زبان فارسی ہے) آپ کو ابن عربی کہتے ہیں جب کہ مغرب میں آپ ابن العربی اور ابن سراقہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ شہرت الشیخ الأکبر کے لقب سے ہوئی اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہ لقب کسی دوسری شخصیت کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔

ولادت

آپ اندلس کے شہر مرسیہ میں 27 رمضان المبارک 560ھ مطابق 1165ء کو ایک معزز عرب خاندان میں پیدا ہوئے، جو مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کے بھائی کی نسل سے تھا۔ آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر موحدین کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ چونکہ اشبیلیہ پہلے سے موحدون کے ہاتھ میں تھا، اس لیے آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے، جہاں پر ابن عربی نے اپنی جوانی کا زمانہ گزارا۔

ابتدائی تعلیم

ابتدائی تعلیم کے مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں طے کر چکے تھے۔ اشبیلیہ میں آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاءکی خدمت میں گذرتا تھا۔ تصوف کا سلسلہ آپ کے خاندان میں قائم تھا۔ اسی طرح آپ کے ماموں ابو مسلم الخولانی ،جو ساری ساری رات عبادت میں گذارتے تھے اور جب ان کی ٹانگیں تھک جاتی تھیں، تو انھیں جھڑیوں سے مارتے تھے اور کہتے تھے کہ تمھیں مارنا بہتر ہے اپنی سواری کے جانور کو مارنے سے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سمجھتے ہیں کہ حضور صرف ان کے لیے ہیں۔ اللہ کی قسم ہم ان پر اس طرح ہجوم کر کے آپ کی طرف بڑھیں گے کہ انھیں پتا چل جائے گا کہ انھوں نے اپنے پیچھے مردوں کو چھوڑا ہے، جو آپ کے مستحق ہیں۔

ابن عربی لکھتے ہیں کہ میں نے اس چیز کا مشاہدہ اپنے زمانہ جاہلیت میں کیا تھا۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ میرا دخول اس طریقہ میں 580ھ میں ہوا، جبکہ آپ کی عمر بیس برس کی تھی ۔ اس بارہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اشبیلیہ کے کسی امیر کبیر کی دعوت میں مدعو تھے، جہاں پر آپ کی طرح دوسرے روساءکے بیٹوں کو بلایا گیا تھا۔ کھانے کے بعد جب جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں پکڑا، تو غیب سے آواز آئی: " اے محمد کیا تم کو اسی لیے پیدا کیا گیا تھا؟" آپ نے جام کو ہاتھ سے رکھ دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل گئے۔ گیٹ پر آپ نے وزیر کے چرواہے کو دیکھا، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ آپ اس کے ساتھ ہو لیے اور شہر سے باہر اپنے کپڑوں کا اس کے کپڑوں سے تبادلہ کیا۔ کئی گھنٹوں تک ویرانوں میں گھومنے کے بعد آپ ایک قبرستان پر پہنچے، جو نہر کے کنارے واقع تھا۔ آپ نے وہاں پر ڈیرا لگانے کا فیصلہ کیا اور ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں جا اترے۔ دن اور رات ذکر الٰہی میں مصروف ہو گئے اور سوائے نماز کی ادائیگی کے وقت کے اس میں سے نہ نکلتے تھے۔ چار روز کے بعد آپ باہر نکلے، تو علوم کا ایک دریا لے کر لوٹے ۔ آپ نے اس کے بعد اپنے شیخ کی زیر نگرانی ایک نو ماہ کا چلہ کاٹا۔ ابن سودکین نے ا سے روایت کیا : " میری خلوت فجر کے وقت شروع ہوئی اور فتح (اسرار کا کھلنا ) طلوع الشمس سے قبل وقوع میں آئی۔ فتح کے بعد مجھ پر " ابدار" کی حالت وارد ہوئی اور اس کے علاوہ دوسرے مقامات ترتیب وار آئے۔ میں اپنی جگہ پر قائم رہا چودہ مہینوں تک اور ان سارے اسرار تک رسائی حاصل کی، جنہیں میں نے فتح کے بعد تالیف کیا ہے۔ اور میری فتح اس لحظہ میں ایک جذب (کی طرح ) تھی "۔ یہاں پر ابن عربی نے جس مقام " ابدار" کا ذکر کیا ہے، اس کی تشریح آپ نے دوسری جگہ پر ان الفاظ میں فرمائی ہے : " ابدار کو انے عالم میں اپنی تجلی کی مثال کے لیے اپنے حکم سے نصب کیا ہے۔ پس وہ خلیفہ الٰہی ہے، جو عالم میں اللہ کے اسماءاور احکام اور رحمت اور قہر اور انتقام اور عفو کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے، جیسے سورج ظاہر ہوتا ہے چاند میں اور جب وہ پورے کو روشن کر دیتا ہے، تو اس کو بدر (پورا چاند) کہتے ہیں۔ گویا سورج اپنے آپ کو بدر کے آئینے میں دیکھتا ہی "۔

فوجی ملازمت

آپ نے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ سرکاری ملازمت کی جس میں آپ بطور فوجی (عربی =الجندی) فوج میں بھرتی ہوئے، لیکن پھر آپ کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا کہ آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور طریقہ کے دوسرے لوگوں کی طرح فقر کو اپنا شعار بنایا۔

سفر تيونس

ابن عربی نے پہلی بار 590ھ میں اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا۔ آپ نے تونس میں ابو القاسم بن قسی، جو الغرب(مراكش) میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیے جاتے ہیں، کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا۔ اسی سفر کے دوران میں آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔ اس کتاب میں پچپن صوفیا کا تعارف کرایا گیا، جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔ غالباً اسی سفر کے دوران میں آپ کو ابو محمد عبد اللہ بن خمیس الکنانی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا، جو پیشہ کے اعتبار سے جراح (سرجن) تھے اور جن کا تذکرہ آپ نے اپنی کتب روح القدس اور درہ الفاخرہ میں کیا ہے۔ ان کی صحبت میں آپ ایک سال سے کچھ کم عرصہ رہے تھے

واپسی کے راستے میں آپ عبد اللہ القلفاظ سے ملاقات کے لیے جزیرہ طریف میں رکے۔ وہاں پر ان کے درمیان میں ایک دلچسپ بحث چل نکلی۔ سوال یہ تھا کہ شاکر غنی اور صابر فقیر میں سے کون افضل ہے۔ ابن عربی نے اپنے لیے فقر کا ہی راستہ اختیار کیا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں : " میں کسی حیوان کا ہرگز مالک نہیں ہوں اور نہ اس کپڑا کا، جس کو میں پہنتا ہوں۔ کیونکہ وہ بھی میں معین شخص سے، جو مجھے اس میں تصرف کا اذن دے، بطور عاریت لے کر پہنتا ہوں۔ اور اس زمانہ میں جس میں کسی چیز کا مالک ہوتا ہوں، اسی وقت یا بذریعہ ہبہ کے یا بذریعہ آزاد کرنے کے، اگر وہ چیز قابل آزاد کرنے کے ہو، خارج ہو جاتا ہوں۔ یہ حال مجھے اس وقت حاصل ہوا، جبکہ میں نے خدا تعالٰیٰ کے لیے عبودیت اختصاص کے تحقق کا ارادہ کیا تھا۔ تو اس وقت مجھے کہا گیا کہ تیرے لیے یہ بات درست نہیں ہو سکتی، حتیٰ کہ تجھ پر کسی کی حجت قائم نہ ہو۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالٰیٰ چاہے، تو اس کی بھی حجت مجھ پر نہ ہو۔ تو مجھے کہا گیا کہ یہ بات تمھارے لیے کس طرح درست ہو سکتی ہے کہ خدا تعالٰیٰ کی حجت تم پر قائم نہ ہو۔ میں نے کہا کہ دلائل اور حجج منکروں پر قائم کیے جاتے ہیں نہ کہ خدا تعالٰیٰ کی توحید کا اقرار کرنے والوں پر۔ دلائل اور براہین دعاوی اصحاب حظوظ نفس و مال و متاع والوں پر قائم کیے جاتے ہیں۔ اور جو کہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے اور نہ اموال و متاع دنیا میں کوئی حظ و حصہ ہے، اس پر حجج و دلائل قائم نہیں کیے جاتی " ۔

سفر اشبيليہ سے واپسی

جب آپ سفر سے اپنے شہر اشبیلیہ واپس لوٹے، تو ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔ آپ لکھتے ہیں : " میں نے افریقہ میں جامع تيونس سے مشرقی طرف واقع ابن مثنیٰ کے محل میں نماز عصر کے وقت ایک معین دن، جس کی تاریخ میرے پاس ہے، کچھ شعر لکھتے تھے۔ پھر میں اشبیلیہ لوٹا۔ اور دونوں شہروں کے درمیان میں تین مہینوں کا قافلے کا سفر حائل ہے اگلے ہی سال ابن عربی پھر فاس (مراکش) میں تھے۔ جب المؤحدون فوجیں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اندلس بھیجی گئیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن عربی کا رجحان زیادہ سے زیادہ شمالی افریقہ کی طرف ہوتا جا رہا تھا، جہاں پر آپ کو صوفیا کی صحبت ملتی تھی، جن کی قربت آپ کی اپنی روحانی ترقی کے لیے اہم تھی۔ مگر اندلس میں آپ کے والدین مقیم تھے اور دوسرے رشتہ دار رہتے تھے۔ آپ کی دو غیر شادی شدہ بہنیں تھیں۔ خود آپ کی شادی غالباً ہو چکی تھی۔ کیونکہ آپ اپنی صالحہ بیوی مریم بنت محمد بن عبد ون بن عبد الرحمن البجائی کا ذکر کرتے ہیں، جو ایک امیر کبیر کی بیٹی تھی اور آپ کی طرح طریقہ پر چلنے کی متمنی تھی

فاس

593ھ میں ابن عربی پھر ایک بار فاس میں تھے، جہاں پر ایک کشف میں آپ کا روحانی درجہ دکھایا گیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مسجد الازہر میں، جو عین الجبل کے پہلو میں واقع ہے، آپ نے عصر کی نماز کے دوران میں ایک نور کو دیکھا، جو ہر چیز کو منور کر رہا تھا، جو آپ کے سامنے تھی، جب کہ آپ یہ تمیز بالکل کھو بیٹھے تھے کہ آگے کیا ہے اور پیچھے کیا۔ اور آپ کشف میں جہتوں میں فرق نہ کر سکتے تھے، بلکہ ایک گلوب کی طرح تھے اور جہتوں کو صرف ایک مفروضے کے طور پر نہ کہ حقیقی رنگ میں تصور کر سکتے تھے۔ اس قسم کا تجربہ آپ کو پہلے بھی ہو چکا تھا، مگر اس کی کیفیت ایسی تھی کہ آپ کو صرف سامنے کی چیزیں دکھائی دیتی تھیں، جب کہ اس کشف نے ہر طرف کی چیزوں کو ظاہر و باہر کر دیا تھا۔ 593ھ میں فاس کے مقام پر آپ پر خاتم الاولیاءکی حقیقت کھولی گئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جلد بعد وطن جانا پڑا، جس کا سبب شاید یہ ہو کہ آپ کے والد کی وفات کے بعد، جو غالباً 591ھ کے لگ بھگ ہوئی تھی، آپ پر گھر بار کی ذمہ داری آن پڑی تھی۔ چنانچہ جب سے آپ کے خاندان نے آبائی وطن مرسیہ کو چھوڑا تھا، آپ پہلی بار وہاں پر لوٹ کر گئے، جس کا مقصد وہاں کی جائداد کو ٹھکانے لگانا ہو سکتا ہے۔ البتہ رستے میں آپ نے مریہ کے مقام پر، جہاں پر ابن عریف (مصنف محاسن المجالس) نے صوفیوں کے لیے تربیتی دائرہ قائم کر رکھا تھا، اپنی کتاب مواقع النجوم صرف گیارہ روز کے اندر تصنیف کی۔ 595ھ یہ 595ھ کی بات ہے، جس سال مرسیہ کے مقام پر آپ کے دل میں اللہ کی طرف سے یہ بات ڈالی گئی کہ میرے بندوں کو اس کرم کے بارے میں بتاو، جو میں نے تم پر کیا ہے ۔

بہنوں كی شادی

الدرۃ الفاخرہ میں شیخ صالح العدوی کی سوانح حیات میں ابن عربی لکھتے ہیں کہ شیخ نے آپ سے آپ کی بہنوں کے بارے میں پوچھا، جن کی ابھی شادی نہ ہوئی تھی۔ آپ نے بتایا کہ بڑی کی منگنی امیر ابو الاعلیٰ بن غاذون کے ساتھ ہو چکی ہے۔ مگر شیخ نے کہا کہ امیر اور ابن عربی کے والد دونوں اس شادی سے پہلے وفات پا جائیں گے اور ماں اور دونوں بہنوں کی کفالت ان کے کندھوں پر آن پڑے گی۔ چنانچہ یہی ہوا اور ہر طرف سے ابن عربی پر زور ڈالا جانے لگا کہ وہ ریاست کی ملازمت اختیار کر لیں۔ بلکہ خود امیر المؤمنین کی طرف سے آپ کو یہی پیغام ملا، جس کے لانے والے قاضی القضاۃ یعقوب ابو القاسم بن تقی تھے، مگر آپ نے انکار کر دیا۔ آپ کو امیر المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہونے کو کہا گیا۔ امیر نے آپ کی بہنوں کے بارے میں پوچھا اور مناسب رشتہ تلاش کر کے خود ان کی شادی کرنے کی پیشکش کی، مگر ابن عربی نے کہا کہ وہ یہ کام اپنے طور پر کرنا چاہتے ہیں۔ امیر نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ غالباً اس طرح وہ ابن عربی کے والد کی خدمات کا صلہ دینا چاہتے تھے۔ جب ابن عربی نے بات کو ماننے سے انکار کر دیا، تو امیر المؤمنین نے انھیں سوچ کر جواب دینے کو کہا اور اپنے دربان کو ہدایت کی کی جب ان کی طرف سے جواب آئے، تو خواہ دن ہو یا رات، اس کی اطلاع انھیں فوراً کر دی جائے۔ ابن عربی وہاں سے رخصت ہو کرگھر لوٹے، تو امیر کا ایلچی امیر کا پیغام لے کر پہنچ گیا، جس میں امیر نے اپنی پیشکش کو دوہرایا تھا۔ آپ نے ایلچی کا شکریہ ادا کیا اور اسی روز اپنے خاندان سمیت فاس کے لیے روانہ ہو گئے۔ دونوں بہنوں کی شادی آپ نے وہاں پر کر دی اور اس طرف سے فارغ ہو کر اپنی دیرینہ خواہش مکہ کی زیارت کے بارے میں سوچنے لگے۔ آپ کی والدہ کا غالباً انہی دنوں میں انتقال ہوا، کیونکہ آپ لکھتے ہیں کہ انھوں نے بیوگی کے سات سال دیکھے۔ آپ کا ارادہ عرصہ سے مشرق کی طرف کوچ کر جانے کا تھا، مگر ماں اور بہنوں کی ذمہ داری کے سبب اس کو ملتوی کرتے رہے۔ مغرب آپ جیسے عبقری انسان کے لیے بہت محدود تھا۔ اور آپ کو نظر آ رہا تھا کہ جب تک آپ کی پزیرائی مشرق میں نہیں ہو گی، اس وقت تک آپ کا مشن دنیائے اسلام کے اندر نہ پھیل سکے گا۔

597ھ کے ماہ رمضان میں ابن عربی اپنے ساتھی محمد الحصار کی معیت میں بجایہ میں داخل ہوئے۔ اسی سال آپ کے شیخ ابو النجاءالمعروف بہ ابن مدین نے، جو اس شہر کے باسی تھے، وفات پائی

بجایہ سے آپ 598ھ کو تونس پہنچے، جہاں پر آپ اپنے دوست ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ہاں ٹہرے۔ وہاں پر آپ نے آٹھ سال پہلے اپنے قیام کے دوران میں دوست کی فرمائش پر اپنی کتاب روح القدس رقم کی تھی۔ اس دفعہ بھی آپ نے وہاں پر ایک کتاب انشاءالدوایرلکھنی شروع کی، جو آگے سفر پر روانہ ہو جانے کے سبب مکمل نہ کی جا سکی۔ اس کی تکمیل بعد میں مکہ میں ہوئی

تيونس سے آپ اپنے ساتھی محمد الحصار سمیت مصر پہنچے، جو وہاں پر وفات پا گئے۔ آپ کی منزل مکہ تھی،جہاں پر آپ القدس (یروشلم) سے ہوتے ہوئے وارد ہوئے۔ مکہ آپ کے نزدیک عالم الغیب اور عالم الشہود کا مقام اتصال ہے اور یہیں پر آپ نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ کی تصنیف کی بنیاد 599ھ میں رکھی، جس کی تکمیل 627ھ میں جا کر ہوئی۔ بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد بھی 635ھ تک اس میں اضافہ کیا جاتا رہا، جب ابن عربی نے اس کی دوسری نوشت اپنے ہاتھ سے تیار کی۔ یہاں پر یہ امر ملحوظ رہے کہ لفظ فتح کے عربی زبان میں کئی معانی ہیں۔ اردو میں عام طور سے اس لفظ سے جيت مراد لیا جاتا ہے، جب کہ عربی میں فتح کے معنی کھولنے اور راز افشا کرنے کے بھی ہیں۔ فتوحات مکیہ، جس کا پورا عنوان فتوحات مکیہ فی معرفۃ الاسرار المالکیہ و الملکیہ ہے، سے مراد مکہ کو فتح کرنا نہیں ہے، بلکہ مکہ کے سر بستہ رازوں پر سے پردہ اٹھانا ہے اور اس کے روحانٰ خزائن تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ اس کا تذکرہ اپنی کتاب روح القدس میں علاحدہ طور پر بھی کیا ہے ۔ عبد الوہاب الشعرانی (المتوفی973ھ) نے فتوحات مکیہ کا خلاصہ لواقع الانوار القدسیہ المنقاۃ من الفتوحات المکیہ کیا۔ پھر اس خلاصہ کو خلاصہ بعنوان الکبریت الاحمر من علوم الشیخ الاکبر پیش کیا ۔

مکہ میں قیام

مکہ میں ابن عربی کا پہلا قیام دو برس کا تھا، جس کے دوران میں وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں آپ کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ آپ کی تصنیفی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس دوران میں اپنی کتاب روح القدس کے مسودے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تین دوسری کتب ( مشکوٰۃ الانوار، حلیۃ الابدال اور تاج الرسائل) تحریر کیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آپ نے فتوحات مکیہ پر کام شروع کیا، جس کے 560 ابواب کی فہرست ابتدائییے کار میں ہی تیار کر لی گئی تھی۔ مصنف کو اندازہ تھا کہ یہ کام ایک پوری عمر کا متقاضی تھا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے لکھنے کی رفتار فی روز تین جزو تھی۔ جس میں آپ سفر یا حضر میں کبھی ناغہ نہ کرتے تھے۔ آپ نے اپنی مصنفات کی تعداد 251 دی ہے، جب کہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی 846 کتب کے عنوان درج کیے گئے ہیں ۔

شاعری

آپ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ مکہ میں آپ کی شاعری اپنے نقطہءعروج پر پہنچی، جہاں پر آپ کا دوستانہ تعلق ابو شجاع ظاہر بن رستم بن ابو رجا الاصفحانی اور ان کے خاندان کے ساتھ تھا، جس کی نوخیز لڑکی نظام عین الشمس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کی شاعری کی روح بنی۔ خود آپ نے اپنے دیوان ترجمان الاشواق میں نظام کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا ہے۔ مگر بعد میں جب آپ پر مخالفوں نے عاشقانہ شاعری کرنے کا الزام لگایا، تو آپ نے اس کو رد کرنے کے لیے اس دیوان کی شرح (ذخائر الاعلاق) لکھی، جس میں ثابت کیا کہ آپ کے اشعار تصوف کے مروجہ طریق سے ذرہ بھر ہٹ کر نہیں ہیں۔

بغداد، موصل اور دوسرے شہروں ميں قيام

ابن عربی 601ھ میں مکہ سے روانہ ہو کر بغداد، موصل اور دوسرے شہروں سے ہوتے ہوئے 603ھ میں قاہرہ پہنچے، جہاں پر آپ پر ارتداد کا الزام لگایا گیا، مگر ایوبی حاکم الملک العادل نے آپ کی جان بچائی۔ 604ھ میں آپ پھر مکہ میں وارد ہوئے اور ایک سال تک وہاں پر قیام کیا۔ اس کے بعد آپ ایشیاءکوچک چلے گئے، جہاں سے 607ھ میں قونیا پہنچے۔ یہاں پر سلطان کیکاؤس نے آپ کا ولولے کے ساتھ استقبال کیا اور آپ کی رہائش کے لیے ایک مکان بنوایا، جسے آپ نے بعد میں ایک بھکاری کو دے دیا۔ قونیا میں آپ کی آمد مشرقی تصوف میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ بنی۔ جس کا وسیلہ آپ کے شاگرد اور سوتیلے بیٹے صدر الدین قونوی بنے، جن کی ماں سے آپ کی شادی ہوئی۔ صدر الدین قونوی، جو آگے چل کر تصوف کے علائم میں شمار ہوئے، مولانا جلال الدین رومی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ نے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پر شرح لکھی، جو آج تک حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔ وہاں سے آپ بغداد تشریف لائے، وہاں پر یا جیسے دوسری روایات میں آتا ہے، مکہ میں آپ کی ملاقات شیخ شہاب الدین عمر بن محمدالسہروردی رسے ہوئی۔ دونوں دیر تک بغیر کچھ کہنے کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے رہے۔ پھر جدا ہو گئے۔ جب بعد میں شیخ شہاب الدین سے پوچھا گیا کہ آپ نے شیخ محی الدین کو کیسا پایا، تو انھوں نے کہا ۔" میں نے انھیں ایک سمندر کی طرح پایا، جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے "۔ ابن عربی کی رائے شیخ شہاب الدین کے بارہ میں یہ تھی۔ " میں نے انھیں ایک عبد صالح پایا "

اگلے برسوں میں ابن عربی نے متعدد سفر کیے۔ 612ھ میں آپ مکہ میں تھے۔ اس دوران میں آپ کے تعلقات صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر کے ساتھ، جو حلب کا حاکم تھا، دوستانہ تھے۔ ایک واقعہ سے، جس میں آپ اسے ایک شخص کی سزائے موت کو معاف کرنے کی سفارش کرتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ وہ آپ کی کس قدر عزت کرتا تھا ۔

وفات

620ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا، جہاں کے حاکم الملک العادل نے آپ کو وہاں پر آ کر رہنے کی دعوت دی تھی۔ وہاں پر آپ نے 28 ربیع ا لآخر 638ھ مطابق ء1240کو وفات پائی اوجبل قاسیون کے پہلو میں دفن کیے گئے، جو آج تک مرجع خواص و عوام ہے۔

تاثرات

آپ کے تصوف پر دور ر‎س اثرات مرتب ہوئے۔ آپ کے متصوفانہ تشریحات و تعبیرات پر معاصرین نے بھی بہت کچھ لکھا اور متاخرین نے بھی، آپ کے خیالات پر تنقید بھی ہوتی رہی اور فتوی کفر تک لگائے گئے۔ ابراہیم بن عبد اللہ قاری بغدادی اپنی کتاب مناقب ابن عربی میں تین گرہوں کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک حمایتی گروہ تھا، جن میں فخر الدین رازی، عز الدین بن عبد السلام، شہاب الدین سہرودری، سعد الدین حموی، کمال الدین زملکانی، ابن عساکر، ابن نجار، ابن دبیثی، ابو یحیی زکریا بن محمد بن محمود انسی۔ جب دوسرا گروہ غیر جانب دار جن میں عماد الدین ابن کثیر، شیخ عبد اللہ اسعد یافعی، شیخ محی الدین، ابو الحسن خزرجی وغیرہ، تیسرے گروہ میں جو مخالف تھا اس میں ابن تیمیہ، ذہبی، تقی الدین سبکی، ابو حیان اندلسی، ابن خلدون وغیرہ شامل ہیں۔

اہم تصانیف

 

اردو تراجم كتب ابن عربی

ابن عربی كى مندرجہ ذيل كتابوں كا اردو ترجمہ موجود ہے۔

فصوص الحكم

  • فصوص الحكم ترجمہ عبد الغفور دوستى (1889 حيدرآباد دكن)۔
  • فصوص الحكم ترجمہ سيد مبارك علی (1894 كانپور)۔
  • فصوص الحكم ترجمہ مولوى عبد القدير صديقی يہ كتاب پنجاب يونيورسٹى كے نصاب ميں شامل ہے۔
  • مولانا اشرف علی تھانوى نے فصوص الحكم پر تعليقات درج كي ہیں كتاب كا نام ہے خصوص الكلم جس مين انھوں نے ابن عربی كا دفاع كيا ہے۔
  • پیر مہر على شاہ صاحب كى كتاب تحقيق الحق فی كلمۃ الحق اور ملفوظات مہريہ ابن عربی كے دفاع ميں اپنى مثال آپ ہے۔
  • ابرار احمد شاہی،

فتوحات مكيہ

  • فتوحات مکیہ ترجمہ مولوی فضل خان مرحوم ( وفات 1938) جس ميں پہلے 30 فصول كا ترجمہ كيا گیا تھا۔
  • فتوحات مکیہ ترجمہ سليم چشتی 1987 تك ترجمے کی چار جلدیں شائع ہوئيں۔
  • فتوحات مکیہ ترجمہ فاروق القادرى پہلی 2 فصول كا ترجمہ 2004 ميں شائع ہوا ہم اميد كرتے ہيں کے یہ عمل پایہ تكمیل كو پہنچے گا۔

رسائل ابن عربی

  • ابن عربی کے چار رسائل
  1. شجرة الكون
  2. الكبريت الاحمر
  3. الامر المحكم والمربوط
  4. كتاب الاخلاق و الامر

كا ترجمہ 2001ء میں لاہور سے شائع ہوا ہے مترجم محمد شفيع ہیں۔

رسائل ابن العربى (جلد اول)

  • ابن عربی فاؤنڈیشن نے عصری تقاضوں كو مدنظر ركھتے ہوئے جدید اور عصری اردو میں شیخ اكبر كے سہل تراجم كرنے كا بیڑا اٹھایا اس سلسلے كی پہلی كڑی رسائل ابن عربی (جلد اول) جون 2008 میں منظر عام پر آئی اس كتاب میں شیخ اكبر كے درج ذیل كتب اور رسائل شامل كئے گئے ہیں :
  • كتاب الجلال والجمال
  • كتاب الوصيۃ
  • حليۃ الابدال
  • نقش الفصوص
  • رسالۃ الفناء في المشاہدہ
  • كتاب اصطلاحات الصوفيۃ
  • رسالہ الي امام الرازي
  • كتاب الألف و ہو كتاب الأحديہ
  • القسم الإلھي
  • الجلالہ و ہو كلمة اللہ
  • كتاب التراجم
  • ميم واو نون[15]
  • التدبيرات الإلهية في اصلاح المملكة الإنسانية

مملكت انسانی كی اصلاح میں خدائی تدبیریں دسمبر 2008 كو شائع ہوئی۔[16]

  • مشكاة الأنوار فيما روي عن اللہ من الأخبار بنام101 احادیث قدسی

مکمل عربی متن اردو ترجمے اور شیخ اکبر کے نزدیک احادیث کی اہمیت پر شامل مقدمے کے ساتھ ابن عربی فاؤنڈیشن پاکستان سے شائع ہوئی۔ تحقیق عربی متن: اسٹیفن ہرٹنسٹائن اور مارٹن ناٹ کٹ مترجم: ابرار احمد شاہی

  • الإسفار عن نتائج الأسفار بنام روحانی اسفار اور ان کے ثمرات، تحقیق شدہ مکمل عربی متن، اردو ترجمے کے ساتھ ابن عربی فاؤنڈیشن سے شائع ہوئی۔

، تدوین عربی متن: ڈینس گرل (داؤد الفقیر) فرانسیسی اسکالر، ابرار احمد شاہی

  • روح القدس فی مناصحة النفس
  • نفس کا آئینہ حق

حوالہ جات

  1. http://www.poemhunter.com/poem/listen-o-dearly-beloved/
  2. عنوان : Ibn 'Arabƒ´ — اشاعت: دائرۃ المعارف بریطانیکا 1911ء — http://www.poemhunter.com/poem/listen-o-dearly-beloved/
  3. عنوان : Ибн Араби — http://www.poemhunter.com/poem/listen-o-dearly-beloved/
  4. ربط: https://d-nb.info/gnd/1049514602 — اخذ شدہ بتاریخ: 30 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  5. http://www.britannica.com/EBchecked/topic/295765/Islamic-world/26925/The-Almohad-dynasty
  6. صفحہ: 7 — Internet Archive ID: https://archive.org/details/rumisworldlifewo0000schi
  7. http://muse.jhu.edu/journals/philosophy_east_and_west/v060/60.2.truglia.html
  8. http://muse.jhu.edu/books/9780813217543
  9. ربط: https://d-nb.info/gnd/1049514602 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
  10. مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — CC0 — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  11. مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — CC0 — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  12. مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — CC0 — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  13. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11908141n — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  14. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/63586403
  15. ناشر : دار التذكیر، اردو بازار لاہور – پاكستانمترجم : ابرار احمد شاہی صفحات: 350
  16. ابن العربی فاؤنڈیشن – پاكستان مترجم : ابرار احمد شاہی صفحات: 300

3. ماخوذ از شیخ اکبر محی الدین ابن عربی مؤلف : شفیع بلوچ، مکتبہ جمال لاہور ۔

بیرونی روابط