عبد اللہ بن عبد المطلب

محمد کے والد بزرگوار

عبد اللہ ابن عبدالمطلب (پیدائش: 545ء– وفات: دسمبر 570ء یا جنوری 571ء) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد تھے۔

عبد اللہ بن عبد المطلب

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 545ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 570ء (24–25 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن المدينہ علاقہ  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب توحیدیت
زوجہ آمنہ بنت وہب[2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد بن عبداللہ[2][4]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عبد المطلب[2]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ فاطمہ بنت عمرو  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ تاجر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تعارف

آپ حضور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد ہیں۔ آپ کا اسم گرامی عبد اللہ (اللہ کا بندہ) اور کنیت ابو قثم (خیر و برکت سمیٹنے والے) ، ابو محمد اور ابو احمد [5] اور لقب الذبیح ہے۔ [6] آپ کے والد گرامی کا اسم شیبۃ الحمد (عبد المطلب) ، کنیت ابو حارث اور ابو بطحاء [7] اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی فاطمہ بنت عمرو ہے۔ آپ کو قریش مکہ کے سرکردہ راہنما اور بنو ہاشم کے سردار حضرت عبد المطلب کی فرزندی کا شرف حاصل ہے۔ [5]

سلسلہ نسب

والد ماجد کی طرف سے سلسلہ نسب: عبد المطلب (شیبۃ الحمد) بن ہاشم (عمرو) بن عبد مناف (المغیرہ) بن قصی (زید) بن مرہ بن کعب [8]

والدہ ماجدہ کی جانب سے سلسلہ نسب: فاطمہ بنت عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب [9]

دادی جان کی جانب سے سلسلہ نسب: سلمی بنت عمرو ابن عمرو بن زید بن لبید بن خداش بن عامر بن غنم بن عدی بن النجار [10]

نانی جان کی جانب سے سلسلہ نسب: صخرہ بنت عبد بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب [11]

بہن بھائی

آپ کے حقیقی بھائیوں میں حضرت ابو طالب (عبد مناف) ، عبد الکعبہ بن عبد المطلب اور زبیر بن عبد المطلب شامل ہیں۔ آپ کی حقیقی بہنوں میں ام حکیم بیضاء بنت عبد المطلب ، عاتکہ بنت عبد المطلب ، امیمہ بنت عبد المطلب ، ارویٰ بنت عبد المطلب اور برہ بنت عبد المطلب شامل ہیں۔ [9] ایک روایت کے مطابق ام الحکیم بیضا اور حضرت عبد اللہ ام (جڑواں) بہن بھائی تھے۔ [6] ان کے علاوہ آپ کے بہن بھائیوں میں حارث بن عبد المطلب ، ابو لہب (عبد العزی) ، مقوم ، حجل ، مغیرہ ، ضرار ، قثم ، غیداق ، مصعب ، حضرت حمزہ بن عبد المطلب ، حضرت عباس بن عبد المطلب اور حضرت صفیہ بنت عبد المطلب شامل ہیں۔ یہ تمام اولاد حضرت عبد المطلب کی چھ بیویوں سے ہے۔ [9] سیرت ابن ہشام میں حضرت عبد المطلب کے دس بیٹوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں قثم ، عبد الکعبہ ، مغیرہ اور معصب کا ذکر شامل نہیں اور اس میں حجل اور غیداق کو ایک شمار گیا ہے اور اس میں عبد المطلب کی پانچ بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ علامہ ابن سعد نے بارہ بیٹوں کا ذکر کیا ہے لیکن تفصیل دیکھنے پر پتا چلتا ہے کہ علامہ صاحب تیروں کا ذکر کر رہے ہیں اور علامہ ابن سعد نے مصعب اور غیداق کو اور حجل اور مغیرہ کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ [12] حضرت عبد اللہ کے متعلق یہ مشہور ہے کہ آپ حضرت عبد المطلب کی اولاد میں سب سے چھوٹے تھے لیکن امام سہیلی نے لکھا ہے کہ یہ بات ٹھیک نہیں کیونکہ حضرت حمزہ آپ سے چھوٹے تھے اور حضرت عباس , حضرت حمزہ سے چھوٹے تھے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ حضرت عبد المطلب کی بیوی فاطمہ بنت عمرو کی اولاد میں سب سے چھوٹے تھے۔ [13]

پیدائش

عالمان علم تاریخ و ذمہ داران فن سیرت نے لکھا ہے کہ جب نور مصطفوی ﷺ صلب عبد المطلب سے رحم فاطمہ میں منتقل ہوا اور وہ حضرت عبد اللہ کے حمل سے مشرف ہوئیں۔ آسمانی کتابوں کے عالم جو مسلسل اس تلاش و جستجو میں مشغول رہتے تھے اور ہمیشہ ان علامتوں کی تلاش میں رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح ان علامتوں کو معلوم کر لیں جو نبی آخرالزمان کی تشریف آوری اور ولادت کا اظہار کرتی ہوں۔ ان لوگوں کے پاس وہ جبہ مبارک موجود تھا جس کو پہنے ہوئے حضرت یحیی علیہ اسلام نے جام شہادت نوش فرمائی تھی اور انھوں نے کتب سماوی میں دیکھا تھا جس دن اس جبہ کے خون کے دھبے تازہ ہو جائیں گے وہ نبی آخرالزمان کی ولادت کا قریبی زمانہ ہو گا۔ جب انھوں نے اس جبہ پر خون کے نشانات کو تازہ پایا تو یقین کر لیا اب نبی آخرالزمان کی ولادت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ جب وہ ساعت آ گئی جس رات جناب حضرت عبد اللہ کی ولادت مبارک ہوئی ملک شام کے انجینئر و عالمان اہل کتاب نے ایک دوسرے کو متنبہ کیا کہ پیغمبر آخرالزمان کے والد بزرگوار ام القری مکہ میں تولد ہو چکے ہیں۔ [14] حضرت عبد اللہ کی ولادت ایک روایت کے مطابق (اندازً) 24 جلوس نوشروانی یعنی نبی کریم کی ولادت سے تقریباً سترہ برس قبل 554ء میں ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق آپ کی ولادت نبی کریم کی ولادت مبارک سے 25 برس قبل 546ء مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ [6]

نور مصطفوی کی برکات

مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ کی تربیت عالم غیب سے اس طرح ہوتی کہ ایک دن آپ نے اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب سے عرض کیا کہ جب کبھی میں بطائے مکہ اور کوہ بثیرہ کی طرف جاتا ہوں تو میری پشت سے نور چکمتا دمکتا ظاہر ہوتا ہے اور وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر مشرق و مغرب کی طرف جاتا ہے پھر مجتمع ہو کر ابر کی شکل اختیار کر کے میرے اوپر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اور یہ ابر پارہ مدور شکل اختیار کر کے آسمان کی طرف جاتا ہے اور فوراً واپس آ جاتا ہے اور میری پشت میں واپس چلا جاتا ہے۔ میں جب زمین پر بیٹھتا ہوں تو زمین سے آواز آتی ہے

اے وہ شخص جس کی پشت میں نور محمدی ﷺ امانت ہے آپ پر سلامتی ہو

آپ نے مزید فرمایا کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ میں ایک خشک درخت کے نیچے بیٹھا ہوں تو وہ سرسبز و شاداب ہو گیا اور مجھ پر سلام کرتا ہے۔

عبد المطلب نے فرمایا کہ اے جان پدر تمھیں مبارک ہو کہ تمھاری صلب سے رحم مادر میں ایسا نطفہ منتقل ہو گا جو تمام مخلوق الہی کی بزرگ ترین شخصیت ہو گا اور میں نے بھی ایسے بہت سے مشاہدات کیے ہیں اور مجھے خواب میں بھی بہت سی بشارتیں دی گئی ہیں۔ نور محمدی ﷺ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی۔ حضرت عبد اللہ اول تو بت خانے نہیں جاتے تھے لیکن اگر مجبوراً کسی خاص وجہ سے چلے جاتے تو بت چیخ چیخ کر کہتے کہ اے عبد اللہ تمھاری پیشانی میں نور محمدی ﷺ جگمگا رہا ہے لہذا تم ہمارے قریب نہ آنا اور یہ سعادت مند فرزند بتوں اور بت برستوں کی ہلاکت کا سبب ہوں گے۔ [15]

عبد المطلب کی نذر

ابن اسحاق سے مروی ہے کہ حضرت عبد المطلب نے زمزم کے کھودنے کے وقت جب قریش کی جانب سے رکاوٹیں دیکھیں تو منت مانی تھی کہ اگر انھیں دس لڑکے ہوں گے اور وہ سن بلوغ کو پہنچ کر قریش کے مقابلے میں ان کی حفاظت کریں گے تو ان میں سے ایک لڑکے کو کعبۃ اللہ کے پاس اللہ تعالی (کی خوشنودی) کے لیے ذبح کر دیں گے۔ جب انھیں پورے دس لڑکے ہوئے اور انھیں یہ معلوم ہو گیا کہ وہ ان کی حفاظت کریں گے تو ان سب کو جمع کیا اور اپنی نذر کی انھیں خبر دی اور انھیں اللہ تعالی کی نذر پوری کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے اپنے والد ماجد کی بات مانی اور دریافت کیا کہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ حضرت عبد المطلب نے کہا کہ تم میں سے ہر شخص ایک ایک تیر لے اور اس پر اپنے نام لکھ کر میرے پاس لائے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا اور عبد المطلب کے پاس آئے۔ حضرت عبد المطلب انھیں لے کر کعبۃ اللہ کے اندر ہبل کے پاس آئے اور ہبل ایک باولی پر تھا اور یہ باولی وہ تھی جس پر بیت اللہ کی نذر و نیاز میں جو چیزیں آئیں وہاں جمع رہتی تھی اور ہبل کے پاس سات تیر رکھے تھے اور ہر تیر پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ ایک پر خون بہا دوسرے پر ہاں تیسرے پر نہیں چوتھے پر تمھیں میں سے پانچویں پر تم میں ملا ہوا چھٹے پر تم میں سے نہیں ساتویں پر پانیوں کے متعلق کچھ لکھا تھا۔ حضرت عبد المطلب اس تیروں والے کے پاس آ کر کہا کہ میرے ان بچوں کے یہ تیر ہلا کر نکالو اور جو نذر انھوں نے مانی تھی اس کی کفیت بھی اسے سنا دی۔ ان میں سے ہر ایک لڑکے نے اپنا تیر اس کو دیا جس پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ ابن اسحاق نے کہا کہ لوگوں کے خیال کے موافق عبد اللہ عبد المطلب کے بہت چہیتے فرزند تھے اور یہی دیکھ رہے تھے کہ اگر تیر ان پر سے نکل گیا تو گویا وہ خود بچ گئے۔ جب تیر والے نے تیر لیے تا کہ انھیں حرکت دے کر نکالے تو عبد المطلب ہبل کے پاس کھڑے ہو کر اللہ سے دعا کرنے لگے۔ جب تیروں والے نے تیر چلائے تو حضرت عبد اللہ کا نام نکلا۔ پھر تو عبد المطلب نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور چھری لی اور انھیں لے کر لے اساف و نائلہ کے پاس آئے تا کہ انھیں ذبح کریں۔ جب قریش نے دیکھا تو وہ اپنی مجلس چھوڑ کر ان کے پاس آئے اور کہا عبد المطلب تم کیا کرنا چاہتے ہو۔ انھوں نے کہا میں اسے ذبح کرنا چاہتا ہوں۔ جب قریش اور آپ کے دوسرے لڑکوں نے دیکھا نے کہا خدا کی قسم اس کو ہرگز ذبح نہ کیجئے جب تک آپ مجبور نہ ہو جائیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو ہر ایک شخص ہمیشہ اپنے بچے کو لایا کرے گا کہ اس کو ذبح کرے۔ اس طرح انسانی نسل باقی نہ رہے گی۔ مغیرہ بن عبد اللہ نے کہا خدا کی قسم ایسا ہرگز نہ کیجئے جب تک کہ آپ مجبور نہ ہو جائیں۔ اگر ان کا عوض ہمارے مال سے ہو سکے تو ہم ان کا فدیہ اپنے مال سے دیں گے۔ قریش اور ان کے دوسرے بچوں نے کہا ان کو ذبح نہ کیجئے بلکہ انھیں حجاز لے چلئے وہاں ایک عرفہ (غیب کی باتیں بتانے والی) ہے جس کا کوئی (موکل یا شیطان یا کوئی روح) تابع ہے اس سے آپ دریافت کیجئے۔ اگر اس نے بھی ان کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو آپ کو ان کے ذبح کر ڈالنے کا پورا اختیار ہو گا اور اگر اس نے کوئی ایسا حکم دیا جس میں آپ کے اور اس لڑکے کے لیے اس مشکل سے نکلنے کی کوئی شکل ہو تو آپ اس کو قبول کر لیں۔ پھر وہ سب کے سب وہاں سے چلے اور مدینہ پہنچے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں انھیں معلوم ہوا کہ وہ خیبر میں ہے تو پھر وہاں سے سوار ہو کر خیبر آئے۔ عبد المطلب نے اس عورت کو اپنے اور اپنے لڑکے کے حالات سنائے اور اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ اس عورت نے کہا آج تو میرے پاس سے تم لوگ واپس جاؤ یہاں تک کہ میرا تابع میرے پاس آئے اور میں اس سے دریافت کر لوں۔ پس سب کے سب اس کے پاس سے لوٹ آئے اور عبد المطلب اس کے پاس سے آ کر کھڑے اللہ تعالی سے دعا مانگتے رہے۔ دوسرے روز سویرے سب اس کے پاس گئے۔ اس عورت نے کہا ہاں مجھے تمھارے متعلق کچھ معلومات ہوئی ہے۔ تم لوگوں میں دیت کی مقدار کیا ہے۔ سب نے کہا دس اونٹ اور واقعتۃً یہی مقدار تھی۔ اس عورت نے کہا تم لوگ اپنی بستیوں کی جانب لوٹ جاؤ اور تم اپنے اس آدمی کو (اپنے لڑکے کو) اور دس اونٹوں کو پاس پاس رکھو اور ان دونوں پر تیروں کے ذریعے قرعہ ڈالو اگر تیر تمھارے اس لڑکے پر تو اونٹوں کو اور بڑھاتے جاؤ یہاں تک کہ تمھارا پروردگار راضی ہو جائے (اور) اونٹوں پر تیر نکل آئے تو اس کی بجائے اونٹ ذبح کر دو۔ اس طرح تمھارا رب بھی تم سے راضی ہو گیا اور تمھارا لڑکا بھی بچ جائے گا۔ (یہ سن کر) وہ وہاں سے نکل کر مکہ پہنچے۔ جب سب اس رائے پر متفق ہو گئے تو عبد المطلب اللہ تعالی سے دعا کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت عبد اللہ کو اور دس اونٹوں کو وہاں لے آئے۔ اس حالت میں کہ عبد المطلب ہبل کے پاس کھڑے ہو کر اللہ عزوجل سے دعا کر رہے تھے۔ پھر تیر نکالا گیا تو حضرت عبد اللہ پر نکلا۔ تو دس اونٹ زیادہ کیے اور اونٹوں کی تعداد بیس ہو گئی اس طرح بڑھتی بڑھتی جب اونٹوں کی تعداد سو ہو گئی تو تب جا کر تیر اونٹوں پر نکلا۔ وہاں پر موجود قریش اور دوسرے لوگوں نے کہا اے عبد المطلب اب تم اپنے رب کی رضامندی کو پہنچ گئے۔ عبد المطلب نے کہا اللہ قسم ایسا نہیں یہاں تک کہ تین وقت اونٹوں پر ہی تیر نکلے۔ پھر یہ عمل تین بار کیا گیا اور ہر بار ہی تیر اونٹوں پر نکلا۔ [16] عبد المطلب نے اللہ اکبر کی تکبیر کہی۔ عبد المطلب کی لڑکیاں اپنے بھائی حضرت عبد اللہ کو لے گئیں۔ حضرت عبد المطلب نے صفا و مروہ کے درمیان اونٹوں کو لے جا کر قربانی کی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عبد المطلب نے جب ان اونٹوں کی قربانی کی تو ہر ایک کے لیے ان کو چھوڑ دیا (جو چاہیے گوشت کھائے روک نہ رکھی)۔ انسان یا درندہ یا طیور کوئی بھی ہو کسی کی ممانعت نہ کی البتہ خود نہ کچھ کھایا نہ آپ کی اولاد میں سے کسی نے کوئی فائدہ اٹھایا۔ عکرمہ ، عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ان دنوں دس اونٹوں کی دیت (خون بہا) ہوتی تھی (دستور تھا کہ ایک جان کے بدلے دس اونٹ دیے جائیں) عبد المطلب پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک جان کا بدلہ سو اونٹ قرار دیا۔ جس کے بعد قریش اور عرب میں بھی یہی دستور ہو گیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کو بحال خود برقرار رکھا۔ [17]

شاعری

حضرت عبد اللہ شعر گوئی کا بھی ذوق رکھتے تھے ، بعض کتب سیرت و متراجم میں آپ کے چند اشعار بھی نقل کیے گئے ہیں جو ادبی چاشنی اور فصاحت کی رونق سے مزین ہیں۔ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب مسالک الحنفاء فی والدی المصطفی میں آپ کے مندرجہ ذیل اشعار نقل کیے ہیں۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں:

لقد حکم السارون فی کل بلدة

بان لنا فضلاً علی سادة الارض

یعنی ہر شہر میں یہ اطلاع ہے کہ ہمیں تمام زمین کے سرداروں پر فضیلت ہے۔

وأن أبی ذوالمجد والسود والذی

یشار به ما بین بسر الی حفض

یعنی میرے والد (عبد المطلب) صاحب بزرگی اور ایسے سردار تھے کہ بسر سے حفض تک انہی کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔

وجدی و آباء له ابلوا العلی

قدیماً لطلب العرف والحسب المحض

یعنی اور میرے دادا (ہاشم) اور ان کے آباء کے لیے بلندیاں پرانی ہو گئیں سب لوگ نے ایسا تعارف اور حسب و نسب کی بہت کوششیں بھی کیں۔[18]

یہود کی سازش اور تدبیر الہی

اہل کتاب بعض علامتوں اور نشانیوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخزالزماں سرور کون و مکاں کا وجود گرامی حضرت عبد اللہ کے صلب میں ودیعت ہے اس لیے اطراف و اکناف سے وہ آپ کو ہلاک کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ میں آنے لگے۔ [19] یہود کی ایک جماعت جن کی تعداد ستر تھی ملک شام سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ انھوں نے آپس میں عہد کیا کہ جب تک حضرت عبد اللہ کی روح کو قفس عنصری سے آزاد نہ کرا لے گئے اور حیات کو موت میں تبدیل نہ کر لے واپس نہیں لوٹیں گے۔ ان بد نہاد یہودیوں نے اپنے فاسد ارادے کی تکمیل کے لیے الو کی خاصیت کو اختیار کیا یہ لوگ رات کو سفر کرتے اور دن کو کسی جگہ چھپ کر آرام کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے اور کسی ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ حضرت عبد اللہ کو تنہا پا کر اپنے مقصد کو پورا کر لیں۔ حسن اتفاق سے ایک دن حضرت عبد اللہ تنہا شکار کے لیے مکہ سے باہر تشریف لائے اور ان بد بختوں نے موقع غنیمت جان کر حملہ کے لیے تلواریں نیاموں سے کھینچ لیں۔ یہود کی بدقسمتی کہ اس دن حضرت آمنہ والد ماجد حضرت وہب بن عبد مناف زہری بھی شکار کے ارادہ سے نکلے اور ابھی حضرت عبد اللہ سے دور ہی تھے کہ انھوں نے تلواروں کی چمک اور کھنک کی آواز سنی۔ عربوں کی روایتی غیرت و حمیت نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ ان کا ایک فرد کس مپرسی کے عالم میں دشمنوں کے ہاتھوں مارا جائے۔ جب انھوں نے حالات کا جائزہ لیا تو انھیں اندازہ ہوا کہ میرے ساتھ چند آدمی ہیں اور دشمنوں کی تعداد کافی ہے۔ ابھی اسی سوچ میں تھے کہ آپ نے دیکھا کہ آسمانی مخلوق ابلق گھوڑوں پر سوار چرخ اطلس فرش زمیں پر اتری اور ان کی انسانی مخلوق سے کوئی مشابہت نہ تھی۔ ان بہادر سواروں نے آتے ہی بد کردار یہودیوں پر حملہ کر کے چھکے چھڑا دیے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ [20]

شادی کی خواہش مند خواتین

ذبح کے واقعہ کے بعد حضرت عبد اللہ کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مکہ مکرمہ کی بہت سی نوجوان خوبصورت لڑکیوں اور عورتوں نے آپ کے حسن و جمال سے متاثر ہو کر آپ کو ورغلانے کی بھر پور کوشش کی حتی کہ بعض نے بڑی دولت کی بھی پیشکش کی۔ ان میں سے چند بہت مشہور ہیں۔ [21]

ام قتال

ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ رسم نذر کی ادائیگی کے بعد حضرت عبد المطلب اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف چل دیے۔ راستے میں خانہ کعبہ کے قریب انھیں ایک عورت ملی جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بنی اسد بن عبدالعزی بن قصی سے تھی ورقہ بن نوفل کی بہن ام قتال تھی۔ اس عورت نے وہاں سے دونوں باپ بیٹے کو گزرتے دیکھا تو عبد اللہ سے پوچھا عبد اللہ تم کہاں جا رہے ہو؟ وہ بولے مجھے میرے والد اپنے ساتھ لیے جا رہے ہیں ، جہاں بھی یہ لے جائیں گے وہیں چلا جاؤں گا۔ ام قتال نے عبد اللہ سے کہا کیا تم کوئی قربانی کے اونٹ ہو کہ تمھیں نکیل پکڑ کے جہاں کوئی چاہے لے جائے گا؟ حضرت عبد اللہ نے جواب دیا یہ میرے والد ہیں ، نہ میں ان کی حکم عدولی کر سکتا ہوں نہ ان سے جدائی برداشت کر سکتا ہوں۔ [22] اس عورت نے کہا جس قدر اونٹ تمھارے فدیہ میں ذبح کیے گئے ہیں وہ میں تم کو دیتی ہوں تم اس وقت مجھ سے ہم بستر ہو جاؤ۔ عبد اللہ نے کہا میرے ساتھ میرے والد ہیں میں ان کی خلاف مرضی کوئی بات نہیں کروں گا اور نہ ان سے جدا ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت عبد المطلب حضرت عبد اللہ لیے ہوئے کعبہ سے باہر آ گئے اور انھیں وہب بن عبد مناف کے پاس لے گئے جو اس وقت بنو زہرہ کے رئیس تھے۔ حضرت عبد اللہ کی شادی حضرت آمنہ سے کر دی گئی جو باعتبار شرافت نسب اور مرتبہ تمام قریش سے افضل خاتون تھی۔ شادی کے بعد وہب ہی کے مکان میں عبد اللہ نے ان سے خلوت کی اور اسی وقت حضرت محمد ﷺ شکم مادر میں بصورت حمل جلوہ افروز ہوئے۔ جب حضرت عبد اللہ حضرت آمنہ کے پاس سے برآمد ہو کر اس عورت کے پاس آئے جس نے اپنے کو ان کے لیے پیش کیا تھا۔ عبد اللہ نے اس سے کہا آج تم وہ بات کیوں نہیں میرے سامنے پیش کرتی جو کل کی تھی۔ اس نے کہا آج تمھاری پیشانی پر وہ نور نہیں ہے جو کل تھا وہ جاتا رہا اور مجھے تمھاری کوئی ضرورت نہیں۔

فاطمہ بنت مراء الخثعمیہ

حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ جب حضرت عبد المطلب حضرت عبد اللہ کو لے کر ان کی شادی کرنے چلے تھے تو وہ بنی خثعم کی ایک کاہنہ فاطمہ بنت مرا کے پاس سے گذرے جو اہل تبالہ کی ایک یہودیہ عورت تھی اور اس نے یہود کی مذہبی کتابیں پڑھی ہوئیں تھیں۔ اس نے حضرت عبد اللہ کے چہرے پر ایک خاص نور کو دیکھا اور اس سے کہا اے نوجوان اگر تو اسی وقت مجھ سے مباشرت کرتا ہے تو میں تجھے سو اونٹ دیتی ہوں۔ حضرت عبد اللہ نے کہا

اما الحرام فالممات دونه

والحل الاحل فاستبینه فکیف بالا مرالذی تبغینه

ترجمہ: حرام ہو نہیں سکتا ، اس سے موت اولی ہے اور حلال کی یہ شکل نہیں لہذا جو تم چاہتی ہو وہ بات کیسے ہو۔ اس کے بعد انھوں نے یہ کہا کہ میں اس وقت اپنے والد اور کسی طرح ان کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔ عبد المطلب ان کو اپنے ساتھ لیے ہوئے چلے گئے اور انھوں نے حضرت آمنہ بنت وہب سے حضرت عبد اللہ کی شادی کر دی۔ تین دن حضرت عبد اللہ حضرت آمنہ کے پاس رہے۔ پھر پلٹے اور اب پھر اس خثعمیہ عورت کے پاس جس نے مباشرت کی خواہش کی تھی آئے اور کہا اب بھی اس بات کے لیے آمادہ ہو۔ اس نے کہا اے شریف میں بدکار نہیں ہوں ، میں نے تمھارے چہرے میں ایک نور دیکھا تھا، میری خواہش تھی کہ وہ نور مجھ میں آ جائے مگر اللہ کو یہ بات منظور نہ تھی کہ یہ سعادت مجھے نصیب ہو، اس نے جہاں مناسب سمجھا اسے ودیعت کر دیا۔ یہ بتاؤ یہاں سے جا کر تم نے کیا کیا؟ حضرت عبد اللہ نے کہا میرے والد نے میری شادی آمنہ بنت وہب سے کر دی اور میں تین دن ان کے ساتھ مقیم رہا۔ [23] جب حضرت عبد اللہ نے حضرت آمنہ سے شادی کا تذکرہ کیا تو اس عورت نے کہا :

انی لأ حسبك أبا النبی قدأظل وقت مولدہ

ترجمہ: میرا خیال ہے کہ تم اس نبی کے باپ ہو جس کی ولادت کا وقت آ چکا ہے۔ جب قریش کے جوانوں کو فاطمہ خثعمیہ کی حضرت عبد اللہ کو پیشکش اور ان کا انکار و اعراض کا علم ہوا تو انھوں نے اس معاملے میں اس کے ساتھ گفتگو کی تو اس نے یہ اشعار پڑھ کر خاموش کرا دیا

انی رأیت مخیلة بلغت

فتلأ لات بحناتم القطر

ترجمہ میں نے برسنے والی بدلی کو دیکھا جو برسنے کی حد کو پہنچی ہوئی تھی پس وہ چمکی مگر مصائب و آفات کے سرخ خونیں مٹکوں کے ساتھ (مجھے خون کے آنسو رلا گئی بلکہ خون کا سیلاب آنکھوں سے بہا گئی)۔

فلما تھا نورا یضئی له

ماحوله کاضاءة الفجر

ترجمہ: میں نے اس برسنے والی کو نورانی حالت میں دیکھا جو ان کے لیے ارد گرد کو یوں روشن کیے ہوئے تھے جیسا سپیدہ سحر ظلمت شب کو نور سے بدلتا ہے۔

و رأیت سقیاھا حیا بلد

وقعت به عمارة القفر

ترجمہ: میں نے اس کی سیرابی کو دیکھا امت کے سردار ﷺ قرار پزیر ہیں جب یہ جہان رنگ و بو میں تشریف لائیں۔

و رأیته شرفاً ابوء به

ما کل قادح زندہ یوری

ترجمہ: میں نے عظمت و برتری کا بلند پہاڑ دیکھا تو اس کی پناہ لینے کی کوشش کی لیکن ہر وہ شخص جو چقماق پتھروں کو باہم رگڑ کر آگ حاصل کرنا چاہے ضروری نہیں کہ اپنے مدعا کو پا سکے اور آگ جلا سکے۔

بنی ھاشم قد غادرت من اخیکم

امینة اذ للباة یعتلجان

ترجمہ: اے بنی ہاشم آمنہ نے تمھارے بھائی کو جبکہ وہ دفاع اور مجامعت کے لیے چارہ سازی کر رہے تھے اس طرح کر دیا ہے اور اس حال میں چھوڑا ہے۔

کما غادر المصباح بعد خبوہ

فتائل قد میثث له بدھان

ترجمہ: جیسا کہ بتی بجھ جانے کے بعد اس فتیلہ کے ساتھ کرتی ہے جو تیل سے تر کر کے بتی روشن کرتے وقت رکھی جاتی ہے یعنی وہ اس کی تری کو کلیتہ جذب کر لیتی ہے اور بجھنے پر اس کی سرخی کو سیاہی سے بدل دیتی ہے۔

و ما کل ما یحوی الفتیٰ من تلادہ

بحزم و لا مافاته لتواتی

ترجمہ: حقیقت یہ نہیں ہے کہ ہر وہ مال اور نعمت جو عرصہ دراز تک کسی کے پاس رہنے والی ہو، اسے جواں ہمت لوگ اپنی ہوشیاری سے جمع کرتے ہیں اور نہ وہ جو میسر نہ آ سکے وہ ان کی سستی و کاہلی کا نتیجہ ہے (بلکہ ہر ایک محض اپنا مقدر ہی حاصل کر سکتا ہے)۔

فاجمل اذا طالبت امر فانه

سیکفیکه جدان یصطرعان

ترجمہ: جب تو کسی امر کا طلب گار بنے تو پھر حسن طلب سے کام لے کیونکہ اس کے حصول میں تجھے دو حصے اور نصیبے کفایت کریں گے جو باہم متحارب ہیں اور ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کے درپے۔

ستکفیکه اماید مقفعلة

و اماید مبسوطة ببنان

ترجمہ: یا تجھے کفایت کرے گا اس مقصد و مطلوب میں وہ ہاتھ جو منقبض ہے اور ضعیف و ناتواں ہے (کیونکہ تجھ سے تیرا مطلوب چھین نہیں سکے گا) اور یا وہ ہاتھ جو لمبی انگلیوں اور دراز پوروں والا ہے (اگر تیرے لیے دراز بن جائے تو)۔

و لما قضت منه امینة ما قضت

نبا بصری عنه و کل لسانی

ترجمہ: اور جب حضرت آمنہ سے (حضرت عبد اللہ نے) اپنی حاجت کو پورا کر لیا تو میری آنکھ ان سے دور ہو گئی (کیونکہ سابقہ کشش باقی نہیں رہی تھی اور رونق و بہار جبین اقدس سے آگے منتقل ہو چکی تھی) اور (بوقت دعوت) میری زبان گنگ ہو گئی (اور اجابت سے قاصر رہی)۔

فاطمہ شامیہ

حضرت عبد اللہ کے حسن و جمال اور ان کی پیشانی میں درخشاں نور کے چرچے عرب دنیا کے کئی مقامات پر پھیلے، جب اس کے اوصاف ملک شام کے اطراف و اکناف بھی شہرت تامہ پا گئے تو شاہ شام کی لڑکی مسماة فاطمہ جو اپنے حسن و جمال اور حشمت و جلال میں یکتا تھی اس نور سے اقتباس کرنے کے لیے مکہ آئی اور اپنے ساتھ حشم و خدام اور لونڈیوں کی ایک جماعت کے ہمراہ بیت اللہ کے قریب و جوار میں ٹھہر گئی اور چند روز کے بعد حضرت عبد اللہ سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت تک آپ کی شادی حضرت آمنہ سے ہو چکی تھی۔ لیکن وہ نور نبوت ابھی رحم حضرت آمنہ میں منتقل نہیں ہوا تھا۔ اس عورت نے حضرت عبد اللہ کی پیشانی میں نور مصطفی کا مشاہدہ کیا تو اس کے عشق سے مجبور ہو کر اپنے چہرہ سے پردہ اٹھا کر حضرت عبد اللہ سے نکاح کی استداعا کی۔ حضرت عبد اللہ نے جب اس کا حسن و جمال دیکھا تو اس کی گزارش قبول کر لی لیکن ساتھ یہ کہہ دیا کہ یہ کام میرے والد حضرت عبد المطلب کے مشورہ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ فاطمہ نے بھی اس بات کو پسند کیا۔ جب حضرت عبد اللہ رات کو گھر گئے، اسی رات وہ نور حضرت عبد اللہ سے حضرت آمنہ کے رحم میں منتقل ہوا اور وہ نور حضرت عبد اللہ کی پیشانی سے غائب ہو گیا۔ صبح ہوئی تو حضرت عبد اللہ نے فاطمہ شامیہ کا قصہ اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب سے بیان کیا۔ عبد المطلب نے رضامندی ظاہر کر دی۔ حضرت عبد اللہ فاطمہ کے پاس آئے اور اپنے والد کی رضا مندی کی اطلاع دی۔ فاطمہ کو وہ نور ان کی پیشانی میں نظر نہ آیا تو دل سے درد بھری آہ نکلی، پھر کہا اے عبد اللہ وہ نور جو تمھاری پیشانی میں مجھے محسوس ہوتا تھا اس کا اقتباس کسی اور نے کر لیا ہے وہ گوہر جو تیرے وجوہ کے صدف میں، میں نے دیکھا تھا کوئی اور اڑا لے گیا ہے۔ چلئے اب آپ سے مجھے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ میری خواہش کا ستارہ ڈوب گیا ہے اور میری آرزو کی چنگاری بجھ گئی ہے۔ یہ کہہ کر وہ بے نیل مراد مرام اپنے وطن مالوف کو واپس چلی گئی۔ [24]

حضرت آمنہ سے شادی

جب وہب بن عبد مناف نے ابلق سواروں کی جانب سے حضرت عبد اللہ کی حفاظت دیکھی تو ان کے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ وہ اپنی بیٹی آمنہ کا نکاح حضرت عبد اللہ سے کرے گے۔ گھر آ کر انھوں نے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنا کر انھیں حضرت عبد المطلب کی کی خدمت میں روانہ کیا کہ جا کر ان سے کہیں میری عفت مآب اور نیک سرشت بیٹی جو اخلاق و اعمال میں بے مثال ہے اگر وہ اس کو اپنے بیٹے عبد اللہ کی زوجیت کے لیے قبول کر لیں تو نہایت مناسب ہو۔ حضرت عبد المطلب نے حضرت آمنہ بنت وہب کی صفات اپنی بیوی ہالہ سے جو حضرت حمزہ بن عبد المطلب کی والدہ اور حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں بہت بار سنی تھیں۔ علاوہ ازیں قبیلہ کی عورتیں بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی رہتی تھیں کہ حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ کا جوڑ نہایت مناسب ہے۔ درحقیقت حضرت آمنہ اپنے دور کی نہایت عقلمند اور لائق فائق خاتون تھیں اور ان صفات میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔ لہذا عبد المطلب نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔ علاوہ ازیں یہ بات اس یمنی خبر کے عین مطابق تھیں جو اس نے حضرت عبدالمطلب سے سفر یمن کے موقع پر کہی تھی۔ واقعہ اس طرح ہوا کہ ایک مرتبہ حضرت عبد المطلب یمن کے سفر پر گئے اور وہاں یہودیوں کے ایک بڑے عالم نے ان سے ملاقات کے دوران دریافت کیا تھا کہ آپ کس قبیلہ سے ہیں۔ آپ نے جواب دیا بنو ہاشم سے ہوں اور ان کا بیٹا ہوں۔ اس نے عبد المطلب سے اجازت مانگی کہ آپ اگر اجازت عطا فرمائیں تو میں آپ کے جسم کے کچھ حصوں کو دیکھوں۔ آپ نے جواب دیا کہ ایک شرط کے ساتھ جسم کے دیکھنے میں کوئی اخلاقی گراوٹ نہ ہو تو دیکھ سکتے ہو۔ لہذا اس نے آپ کی ناک کے ایک نتھنے کو اپنے ہاتھ سے کھینچا اور اسی طرح دوسرے جانب عمل کیا۔ ایک اور روایت کے مطابق اس نے آپ کے ہاتھ کی ہتھیلیوں کو دیکھ کر کہا کہ ایک سے ملک و سلطنت اور دوسرے سے نبوت کا اظہار ہو رہا اور یہ سعادت دو منافوں کے قران سے ظاہر ہو رہی ہے (پہلے عبد مناف بن قصی دوسرے عبد مناف بن زہرہ) پھر اس نے سوال کیا کہ تمھارے بیٹے عبد اللہ کی شادی ہو گئی ہے۔ عبدالمطلب نے جواب دیا نہیں۔ تب یہودی عالم نے کہا کہ اب تم واپس جا کر ان کی شادی بنی زہرہ میں کر دینا۔ جب حضرت عبد المطلب مکہ آئے تو یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ وہب بن عبد مناف عبد اللہ سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں کارکنان قضا و قدر نے یہ یہودیوں والا قصہ اس کا سبب بنا دیا۔ لہذا حضرت عبد المطلب نے حضرت ہالہ سے کہا کہ حضرت عبد اللہ کے لیے حضرت آمنہ کا نکاح ایک مجلس میں کیا گیا۔ لیکن یہ روایت کہ عبد المطلب اور حضرت عبد اللہ کا نکاح ایک مجلس میں پڑھا گیا محل نظر ہے کیونکہ حضرت عبد المطلب نے ہالہ سے حضرت آمنہ کی تعریف سنی۔ واللہ اعلم۔ [25]

نور محمدی کی آمنہ کو تقویض

ابن اسحاق نے کہا ہے کہ میرے والد اسحاق بن یسار نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ اپنی ایک بی بی کے پاس جو آمنہ بنت وہب کے علاوہ تھیں کیچڑ کا کچھ کام کر کے گئے اور آپ کو کچھ کیچڑ بھی لگی ہوئی تھی انھیں اپنے پاس بلایا تو کیچڑ کے آثار دیکھ کر انھوں نے آنے میں دیر کی تو آپ ان کے پاس سے چلے اور وضو کیا اور جو کیچڑ لگی تھی دھو ڈالی پھر آمنہ کے پاس جانے کے ارادے سے نکلے اور اس بی بی کے پاس سے گذرے۔ انھوں نے آپ کو اپنی طرف بلایا تو آپ نے ان کے پاس جانے سے انکار فرما کر حضرت آمنہ کی جانب قصد فرمایا۔ ان کے پاس آئے اور ہم بستری کی تو محمد رسول اللہ ﷺ کا حمل ہو گیا۔ پھر جب حضرت عبد اللہ اس بی بی کے پاس گئے اور ان سے کہا کیا تمھیں کچھ رغبت ہے۔ انھوں نے کہا نہیں آپ جب میرے پاس سے گذرے تو آپ کے آنکھوں کے درمیان ایک چمک تھی ، اس لیے میں نے آپ کو بلایا تھا لیکن آپ نے میرے پاس آنے سے انکار فرمایا اور آپ آمنہ کے پاس چلے گئے اور اس چمک کو انھوں نے لے لیا۔ [26] بعض روایتوں کے مطابق یہ جمعہ کی رات تھی۔ حضرت آمنہ کی شب زفاف میں دو سو عورتیں رشک و حسد سے مر گئیں اور بہت سی عورتیں امراض قلب میں مبتلا ہوئیں۔ اس انتقال نطفہ کی رات ملائکہ نے جشن منایا۔ جبرائیل امین نے فرش زمین پر آ کر بام کعبہ پر ہلالی پرچم لہرایا اور خطہ ارض کو بشارت دی کہ آج نور محمدی ﷺ صلب پدر سے رحم مادر میں منتقل ہو گیا ہے تا کہ افضل الخلائق پیدا ہوں اور تمام امتوں سے بہتر و برتر شخصیت دنیا میں تشریف ازرائی فرمائے۔ اسی رات ابلیس لعین کا تخت الٹ گیا اور یہ مردود بارگاہ الہی میں چالیس دن بحر و بر میں مارا مارا پھرتا رہا اور فرط غم و کثرت غیظ و غضب میں سیاہ و سوختہ ہو کر کوہ ابو قبیس کے دامن میں آ کر رونے لگا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے یہ روایت سند صحیح کے ساتھ مروی ہے جس رات نور محمدی ﷺ حضرت آمنہ کے سپرد ہوا، اس کی تمام کاہنوں کو اطلاع ہوئی اور وہ ایک دوسرے سے مشورے کرنے لگے۔ مشرق و مغرب کے چرند و پرند اور بحری جانوروں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی کہ وہ وقت آنے والا ہے جبکہ خطہ زمین نور مصطفوی سے منور ہو جائے گا۔ قریش کے پالتو جانوروں نے آپس میں کہا کہ جناب آمنہ نور مصطفے ﷺ سے مشرف ہو گئی ہیں اور ان سے ایسی شخصیت ظہور میں آئے گی جو زمین کی امین اور اس کی ظلمت کو دور کرنے والی ہو گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ تمام دنیا کے بت دوسری صبح سرنگوں پائے گئے۔ ابلیس لعین کا تخت پلٹ گیا اور دوسرے بادشاہوں کے تخت سرنگوں ہو گئے۔ صاحب اقتدار حاکموں اور بادشاہوں کی زبانیں گفتگو سے قاصر اور گنگ ہو گئیں۔ [27]

وفات

حضرت عبد اللہ قریش کے ایک قافلے کے ساتھ بغرض تجارت ملک شام گئے۔ دوران سفر بیمار ہو گئے۔ واپسی پر یہ قافلہ مدینہ منورہ کے پاس سے گذرا تو حضرت عبد اللہ بیمار ہونے کی وجہ سے مدینہ ہی میں اپنے والد عبد المطلب کے ننھیال بنو عدی بن نجار کے ہاں ٹھہر گئے۔ قافلہ مکہ پہنچا تو حضرت عبد المطلب نے اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ قافلے والوں نے بتایا وہ بیمار تھے اس لیے واپسی پر مدینہ ٹھہر گئے۔ حضرت عبد المطلب نے اپنے سب سے بڑے بیٹے حارث کو عبد اللہ کی خبر لینے کے لیے بھیجا لیکن حضرت حارث بن عبد المطلب کے پہنچنے سے پہلے حضرت عبد اللہ فوت ہو چکے تھے اور انھیں دارالنابغہ میں دفن کر دیا گیا تھا۔ حارث نے واپس آ کر یہ افسوس ناک خبر سنائی تو حضرت عبد المطلب ، ان کے بھائی ، بیٹے ، بھتیجے غرض کہ سارا خاندان انتہائی غم زدہ ہو گیا۔ وفات کے وقت حضرت عبد اللہ کی عمر پچیس سال تھی اور رسول اللہ ﷺ اس وقت شکم مادر میں تھے۔ واقدی کہتے ہیں: حضرت عبد اللہ کی وفات اور ان کی عمر کے بارے میں یہی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے۔ کلبی اور عوانہ بن حکم کا خیال ہے کہ جب حضرت عبد اللہ فوت ہوئے تو نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک 28 ماہ تھی۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ کی عمر اس وقت سات ماہ تھی۔ علامہ ابن سعد کہتے ہیں کہ صحیح بات وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی ہے کہ حضرت عبد اللہ کی وفات کے وقت نبی کریم شکم مادر میں تھے۔ حضرت عبد اللہ کی عمر مبارک کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ مثلاً 18 یا 25 یا 28 یا 30 لیکن حافظ ابن حجر نے 18 سال کو تر جیح دی ہے۔ [28] روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر فرشتوں نے غمگین ہو کر بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہا کہ الہی عزوجل تیرا نبی یتیم ہو گیا۔ حضرت حق نے فرمایا: کیا ہوا؟ میں اس کا حامی و حافظ ہوں۔ [29]

قبر مبارک

حضرت عبد اللہ کے مدینہ طیبہ میں وصال کے بارے میں بلاذری نے دو قول نقل کیے ہیں۔

  • حضرت عبد المطلب نے حضرت عبد اللہ کو کھجوریں حاصل کرنے کے لیے مدینہ منورہ بھیجا تھا۔ وہ اپنے والد کے ننھیال بنو نجار کے پاس ٹھہرے اور ان کا وہیں انتقال ہو گیا۔
  • غزہ سے تجارت کا مال واپس لے کر آ رہے تھے۔ مدینہ میں بیماری کی حالت میں داخل ہوئے۔ بنو نجار کے پاس ٹھہرے اور وفات ہو گئی۔

انتقال کے وقت آپ کی عمر پچیس یا اٹھائیس سال تھی۔ حضرت عبد المطلب نے آپ کے بھائی حضرت زبیر بن عبد المطلب کو مدینہ بھیجا اور وہ ان کے جنازے میں شامل ہوئے اور انھیں دارالنابغہ میں دفن کیا گیا۔ (نساب الاشرف البلاذری ج 1 صفحہ 92۔)

تدفین ثانی

مورخہ 21 جنوری 1978ء کو پاکستان کے معروف اخبار روزنامہ نوائے وقت میں ایک خبر شائع ہوئی جس کا معتن درج ذیل ہے۔ کراچی 20 جنوری (ج ، ک) یہاں پہنچنے والی ایک اطلاع کے مطابق مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی توسیع کے سلسلہ میں کی جانے والی کھدائی کے دوران آنحضرت ﷺ کے والد گرامی حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کا جسد مبارک جس کو دفن ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے ، بالکل صحیح و سالم حالت میں برآمد ہوا۔ علاوہ ازیں صحابی رسول حضرت مالک بن سونائی اور دیگر صحابہ کرام کے جسد ہائے مبارک بھی اصلی حالت میں پائے گئے جنہیں جنت البقیع میں نہایت عزت و احترام کے ساتھ دفنایا گیا ، جن لوگوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ، ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ صحابہ کرام کے جسم نہایت تروتازہ اور اصلی حالت میں تھے۔ اس خبر اشاعت کے بعد اس کی تردید میں کوئی خبر تا حال اس بندہ نا چیز (مولف کتاب خاندان مصطفی ﷺ) کی نظر سے نہیں گذری بلکہ اس کی تائید میں کچھ مضامین شائع ہوئے۔

حضرت آمنہ کا مرثیہ

حضرت سیدہ آمنہ خاتون کے لیے شوہر نامدار کا سانحہ ارتحال ناقابل برداشت تھا کہ ابھی شادی خانہ آبادی کو آخر عرصہ ہی کتا گذرا تھا۔ آپ کے قلب انور پر اس صدمہ کا کس قدر اثر ہوا اس کا اندازہ آپ کے ان اشعار سے ہوتا ہے۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں:

عفا جانب البطحاء من ابن ھاشم

وجاور لحذا خارجا فی الغمام

ہاشم کا ایک فرزند بطحا (مدینہ منورہ) کی جانب جا کر چاند کی طرح چھپ گیا۔ وہ لحد میں بہادر جوانوں کے شوروغل (یعنی آہ و بکا) کے ساتھ جا کر سو گیا۔ (مراد یہ کہ لوگوں کو روتا چھوڑ کر)

دعته المنایا دعوة فاجابھا

وما ترکت فی الناس مثل ابن ھاشم

موت نے جوں ہی اس کو پکارا ، اس نے فوراً لبیک کہہ دیا۔ افسوس کہ ہاشم کے اس فرزند کی نظیر ، موت نے اب دنیا میں نہیں چھوڑی۔

غشیه راحوا یحملون سریره

تعاریه اصحابه فی استراحم

اس کے دوست شام کے وقت اس کی لاش کو اٹھائے جا رہے تھے اور وہ ازراہ محبت و عقیدت کاندھا بدلتے اور اس کے اوصاف بیان کرتے چلے جا رہے تھے۔

فان یك غالیة المسایا وریبھا

فقد کان معطاء کثیراً التراحم

اگرچہ موت نے ان کو ہم سے دور کر دیا ہے مگر اس میں تو شک نہیں کہ وہ بہت زیادہ سخی اور غریبوں کے ازحد ہمدرد تھے (یعنی ان کے دلوں سے ان کی یاد تو نہیں نکل سکتی)۔ [30]

حضرت عبد اللہ کا ترکہ

حضرت عبد اللہ کا ترکہ ایک لونڈی ام ایمن جس کا نام برہ تھا ، کچھ اونٹ کچھ بکریاں تھیں ، یہ سب ترکہ حضور سرور عالم ﷺ کو ملا۔ [29]

ایمان والدین مصطفی

نبی کریم کے والدین اور آبا و اجداد کے بارے میں ہے کہ وہ سب اپنے جد محترم حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے دین حنیف پر تھے۔ اس مسلک کو امام فخر الدین رازی نے اختیار کیا اور کہا ہے:

وردأن آبائه ﷺ کلھم الی آدم کانو علی التوحید

روایت میں ہے کہ آپ کے تمام آبا و اجداد آدم تک توحید پر تھے۔

قرآن پاک کی روشنی میں

ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَا کُنَّا مُعَذِّ بِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ○ (سورہ بنی اسرائیل آیت 15۔)

ترجمہ: اور ہم عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ہم نہ بھیجیں کسی رسول کو۔ سرکار دو عالم کے والدین کریمین کے بارے میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ جہنمی ہیں۔ قرآن کریم کی مذکورہ آیت کے حوالہ سے ان کا قول قطعاً قابل قبول نہیں کیونکہ نص صریح کے ساتھ اس آیت میں مذکور ہیں کہ جب تک کسی کے پاس کوئی نذیر نہیں آتا اور پھر وہ کفر و شرک پر اصرار کرے۔ اس وقت تک وہ عذاب کا مستحق نہیں۔ آپ کے والدین کریمین جس زمانہ میں آئے اور تشریف لائے اس میں کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا۔ لہذا آیت ہذا کی نص صریح کے مقابلے میں ان کے قول کی کوئی وقعت نہیں ہوگی اور نہ ہی سرکار دو عالم کے والدین کا دوزخی ثابت ہو گا۔ علمائے کرام نے ایمان آبا النبی کے بارے میں کئی دلائل ذکر کیے جن میں چند درج ذیل ہیں۔ پہلی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَ تَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرٌَحِیْمِ ○ الَّذِیْ یَرَکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ○ وَ تَقَلُّبَکَ فِی اسّٰجِدِیْنَ ○ (سورہ شعراء 217-219۔)

ترجمہ: آپ توکل اسی ذات پر کریں جو غالب و رحیم ہے۔ وہ (اللہ) آپ کو دیکھتا ہے جب آپ قیام کرتے ہیں اور آپ کا ساجدین میں گردش کرنا بھی ملاحظہ کرتا ہے۔ مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں:

اراد تقلبك فی اصلاب الا نبیاء من نبی الی نبی حتی اخرجتك فی ھذه الامة۔ (تفسیر الخازن : الجزء 3 ۔ سورة الشعراء الآیت 210۔)

ترجمہ: یہاں گردش سے مراد انبیا علیہم السلام کی مبارک پشتوں میں یکے بعد دیگرے منتقل ہونا ہے۔ یہاں تک کہ آپ اس امت میں مبعوث ہوئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ایک اور تفسیر ان الفاظ میں منقول ہے:

ای تقلبك من اصلاب الطاھرة من أب الی أبالی ان جعلك نبیا (مسالک الحنفاء 40۔)

ترجمہ: یعنی گردش سے مراد پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ پشتوں کی طرف منتقل ہونا ہے۔ ساجدین سے مراد مومنین ہیں۔ آیت مبارکہ میں مفسرین نے ساجدین سے مراد مومنین لیے ہیں یعنی آپ ﷺ حضرت آدم و حوا سے حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ تک جن جن کے رحموں اور پشتوں میں جلوہ افروز ہوئے وہ تمام احباب صاحب ایمان ہیں۔ تفسیر جمل میں ہے:

ای یرٰك متقلباً فی اصلاب و ارحام المؤمنین من لدن آدم حوا الی عبداللہ و آمنه فجمیع اصوله رجالا و نساء مومنون (الجمل :3 -396۔)

ترجمہ: اے محبوب حضرت آدم و حوا سے لے کر حضرت عبد اللہ و حضرت آمنہ تک جن جن مومن مردوں اور عورتوں کے رحموں اور پشتوں میں آپ منتقل ہوئے ، ان کو آپ کا رب ملاحظہ کر رہا ہے۔ پس آپ کے تمام آبا و اجداد خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ، تمام اہل ایمان میں سے ہیں۔ دوسری دلیل قرآن مجید نے جہاں ذات مصطفی کی قسم کھائی ہے وہاں اس نے آپ کے والد ماجد کی بھی قسم کھائی ہے اور قرآن کا یہ قسم کھانا آپ کے نسب کی طہارت و کرامت پر شاہد ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَوَالِدٍ وَّ مَاوَلَدَ ○ (سورہ بلد آیت نمبر 3۔)

ترجمہ: قسم ہے والد کی اور قسم ہے مولود کی۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں:

المراد بالوالد ادم و ابراھیم علیھما السلام اوای والد کان وما ولد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (التفسیر المظہری :10 -264۔)

اس آیت میں لفظ والد یا تو مراد حضرت آدم و ابراہیم علیہ اسلام ہیں یا ہر والد مراد ہیں اور وماولد سے مراد نبی اکرم حضرت محمد مصطفی علی علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ اس آیت کریمہ میں ہر والد گرامی کے بارے میں قسم کھائی گئی ہے جس کے صلب میں نور محمدی نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا ہوا حضور نبی اکرم کے داد حضرت عبد المطلب اور پھر آپ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ کی پشت مبارک میں مستقر ہوا اور پھر حضرت آمنہ کے بطن پاک سے صورت انسانی میں ظہور پزیر ہوا۔ گویا وہ تمام افراد جو نسب مصطفی میں شامل ہیں مورد قسم ٹھہرائے گئے۔ تیسری دلیل قرآن مجید نے آپ ﷺ کے نسب کو تمام انساب سے اعلی قرار دیا: ارشاد باری تعالی ہے:

لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ○ (سورہ توبہ آیت 128۔)

ترجمہ: بے شک تمھارے پاس وہ رسول آئے جن پر تمھارا مشقت میں پڑنا بہت گراں ہے۔ تمھاری بھلائی کے نہایت خواہاں ایمان والوں کے لیے نرم خو (اور) بے حد رحیم ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ایک دفعہ اس آیت کی تلاوت میں انفُسکم کی بجائے انفَسکم فا کی زبر کے ساتھ اسم تفصیل کے طور پر پڑھا:

قرء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لقد جآء کم رسول من انفسکم ، بفتح الفاء وقال انا انفسکم نسباً وصھراً و حسباً لیس من آبائی من لدن آدم سفاح

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انفسکم کو فا کی زبر کے ساتھ تلاوت کیا اور فرمایا کہ میں حسب و نسب میں تم سب سے زیادہ پاکیزہ ہوں۔ میرے آبا و اجداد میں حضرت آدم سے لے حضرت عبد اللہ تک کسی نے بدکاری کا ارتکاب نہیں کیا۔ اللہ تعالی نے نبی کریم کی طہارت نسبی کو پر مذکورہ بالا ارشاد ربانی کی توثیق و تصدیق کی صورت میں صراحت کے ساتھ آپ کے حسب و نسب کو بنی آدم میں سب سے افضل اور اعلی قرار دیا اور یہ وضاحت فرما دی کہ میرے محبوب کے تمام آباء و اجداد سفاحت یعنی بدکاری سے پاک تھے اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ (سورہ توبہ آیت 28۔)

ترجمہ: مشرک نرے ناپاک ہیں۔ اس سے ثابت و واجب ہوتا ہے کہ نبی کریم کے تمام اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہ تھا۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

خود سرکار دو عالم نے اپنے ارشادات عالیہ کے ذریعے اپنے نسب کی کرامت و طہارت کی نشان دہی بھی فرما دی تا کہ کسی بھی شخص کوآپ کے نسب کے بارے میں کسی بھی بد گمانی کی جرأت نہ ہو۔ حدیث نمبر1 حضور اکرم کا ارشاد ہے:

ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیر فرقتھم ثم خیر القبائل فجعلنی فی خیر ثم خیر بیوتھم فأنا خیر ھم نفساً و خیر ھم بیتاً

(جامع ترمذی جلد دوم ابواب المناقب باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث نمبر 1541۔) ترجمہ: جب اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھ کو ان میں سے بہترین گروہ میں شامل فرمایا۔ پھر قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ عطا فرمایا ، جب گھرانے بنائے تو مجھے ان میں سے اعلی خاندان عطا فرمایا۔ میں ازروائے ذات اور خاندان کے سب سے افضل ہوں۔

حدیث نمبر2 نبی کریم کا فرمان ہیں :

لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الی ارحام الطاھرات

(شرح الزرقانی علی المواہب جلد اول ذکر وفاة امہ و ما یتعلق بابویہ السیرة الحلبیۃ جلد 1 باب تزویج عبد اللہ ابی النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ترجمہ: میں پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ ارحام میں منتقل ہوتا رہا۔

حدیث نمبر3

عن ابن عباس قال: دخل ناس من قریش علی صفیة بنت عبدالمطلب فجعلوا یتفاخرون و یذکرون الجاھلیة فقالت صفیة: منا رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم ، فقالو: تنبت النخلة اولشجرة فی الارض الکباء ، فذکرت ذلك صفیة لرسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم ، فغضب وامر بلا لا فنادی فی الناس فقام علی المنبر فقال ایھاالناس من انا؟ قالو: انت رسول اللہ ۔ قال: انسبونی ۔ فقالو: محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ، قال: فما بال اقوام ینزلون اصلی؟ فواللہ انی لا فضلھم اصلا و خیر ھم موضعاً

(الحاوی للفتاوی مسالک الحنفاء فی والدی المصطفی الجزء الثانی بحوالہ مسند بزار) ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایک دفعہ قریش میں سے کچھ لوگ میری پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبد المطلب کی خدمت میں آئے اور انھوں نے اپنے حسب و نسب پر تفاخر کیا۔ حضرت صفیہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تمھارا نسب سب لوگوں سے اعلی کیسے ہو سکتا ہے۔ حالانکہ ہم میں اللہ تعالی کے محبوب ہیں یعنی نبی کریم کا مبارک نسب ہی سب سے اعلی ہو سکتا ہے نہ کہ تمھارا۔ اس پر وہ تمام لوگ غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ حضور کا نسب تو ایسے ہے جیسے کوئی کھجور کا پورا کسی کوڑے کرکٹ سے اگ آئے۔ (نعوذ باللہ من ذلک) حضرت صفیہ نے یہ تمام واقعہ حضور سے عرض کیا تو رسالت مآب سخت ناراض ہوئے اور حضرت بلال کو حکم دیا کہ تمام لوگوں کو جمع کرو۔ اس کے بعد آپ نے اپنے مقدس منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور اور لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا: اے لوگوں میں کون ہوں؟ انھوں نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: میرا نسب بیان کرو۔ انھوں نے نسب بیان کرتے ہوئے کہا آپ حضرت عبد اللہ کے بیٹے ہیں اور حضرت عبد المطلب کے پوتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: اس قوم کا کیا حال ہو گا جو میرے نسب کو کم تصور کرتی ہے انھیں علم ہونا چاہیے کہ میں نسب کے لحاظ سے انسے افضل ہوں۔ اسی طرح حدیث کی کئی کتابوں میں ہے:

فانا خیر ھم نسباً و خیر ھم بیتاً

ترجمہ: میں نسب اور خاندان کے لحاظ سے سب سے بہتر ہوں۔

حدیث نمبر4 سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آقائے دوجہاں ﷺ نے اپنی اور اپنے خاندان کی فضیلت کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام سے پوچھا تو انھوں نے عرض کیا

فلبث مشارق الارض و مغابھما فلم اجد رجلاً افضل من محمد علیه وسلم و لم اجد نبی اب افضل من بنی ھاشم

(کنزالعمال- الفصل الثانی فی فضائل متفرقۃ 31913 - مجمع الزوائد باب فی کرامۃ اصلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 13829۔) ترجمہ: میں نے زمین کے تمام گوشے مشارق و مغارب میں گھوم کر دیکھے ہیں لیکن کوئی شخص آپ سے افضل نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی خاندان بنی ہاشم کے خاندان سے بڑھ کر افضل دکھائی دیا۔ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے اس بات پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ آپ کے آبا و اجداد میں کوئی مشرک نہیں کیونکہ کافر و مشرک کو اللہ تعالی نے انما المشرکون نجس فرما کر پلید قرار دیا ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو آپ اپنے آبا و اجداد کو پاکیزہ کس طرح فرما سکتے تھے؟

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم کے اجداد میں ہر جد اپنے زمانے کی قوم میں سب سے بہتر تھا جیسا کہ بجاری شریف کی روایت ہے:

بعث من خیر قرون بنی آدم قرنا فقرنا حتی کنت میں القرن الذی کنت فیه

صیح بخاری - کتاب المناقب - بابا صفۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں بنو آدم کی بہترین صدی میں مبعوث ہوا ہوں۔ صدیاں گزرتی گئیں یہاں تک کہ اس صدی میں میری بعث ہوئی۔

یہ بھی ثابت ہے کہ روئے زمین کبھی بھی سات یا سات سے زیادہ مسلمانوں سے خالی نہیں رہی جن کی وجہ سے اللہ تعالی اہل زمین سے عذاب ٹالتا تھا۔ حضرت علی سے مروی ہے:

لم ینزل علی وجہ الدھر فی الارض سبعة مسلمین فصا عدا فلو لا ذلك لھلکت الارض و من علیھا

(سبل الھدی والرشاد شامی ۔ جلد اول 256۔) ترجمہ: ہر زمانے میں روئے زمین پر سات یا اس سے زیادہ مسلمان رہے اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور اہل زمین برباد ہو جاتے۔ امام احمد نے بھی صحیحین کی شرط پر حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کیا ہے:

ما خلت الارض من بعد نوح من سبعة یدفع اللہ تعالی بھم عن اھل الارض

(سبل الھدی والرشاد شامی ۔ جلد اول 256۔) ان دونوں روایات کے درمیان موازنہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر نبی کریم کے اجداد میں ہر جد ان سات لوگوں میں سے تھا جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان تھے تو یہی مدعا ہے اگر کوئی اور ان کے علاوہ سات پر مشتمل تھا تو پھر تین میں سے ایک بات لازم آئے گی۔ 1 یا تو دوسرے لوگ ان سے بہتر تھے تو یہ باطل نتیجہ ہے کیونکہ اس سے صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے۔ 2 یا اجداد ہی ان سے بہتر تھے جبکہ وہ مشرک بھی تھے تو بالا جماع یہ باطل نتیجہ ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے: ولعبد مومن خیر من مشرك (سورہ بقرہ آیت 221۔) 3 لہذا ثابت ہوا کہ وہ سب توحید پر تھے اور اپنے زمانے میں تمام اہل ارض سے بہتر تھے۔ [31]

حدیث نمبر5

عن عبداللہ بن ابی قتادہ عن ابیه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم خیر ما یخلف الرجل من بعده ثلاث: ولد صالح یدعوله و صدقة تجری یبلغه اجرھا و علم یعمل به من بعدہ

(سنن ابن ماجہ - الجزاول ابواب الفضائل - باب ثواب معلم الناس الخیر) ترجمہ: حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ انسان مرنے کے بعد جو کچھ چھوڑ کر مرتا ہے ان میں سے بہترین چیزیں تین ہیں ، اول نیک لڑکا جو اس کے لیے دعا کرے ، دوم صدقہ جاریہ کہ اس کا اجر اسے پہنچتا رہے اور سوم وہ علم جس پر لوگ اس کے بعد عمل کریں۔ مذکورہ حدیث میں تین ایسے اعمال کی نشان دہی کی گئی ہے جو کسی کے مر جانے کے بعد اس کے کام آتے ہیں اور اس کے ثواب میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ سرکار دوعالم کی صورت میں حضرت آمنہ اور حضرت عبد اللہ نے اپنے پیچھے ایسا صدقہ جاریہ چھوڑا جو پوری کائنات میں کسی کو نہ حاصل ہو سکا اور نہ ہو سکے گا۔ اب ایک عام بچہ اگر عام والدین کے لیے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے رد نہیں فرماتا اور اگر حضور اپنے والدین کے لیے دعا فرمائیں تو اس کی قبولیت کا عالم کیا ہو گا۔ سرکار دو عالم نے خود فرمایا کہ میں اللہ تعالی سے اپنے والدین کے لیے جو دعا کروں گا وہ منظور ہو گی۔ یہ تو قیامت کی بات ہے۔ دنیا میں آپ نے جہاں یہاں تک فرمایا کہ اگر دوران نماز وہ مجھے بلائیں تو میں لبیک کہتا ہوا حاضر ہو جاؤں گا۔ لہذا معلوم ہوا کہ حضور اکرم کے والدین کریمین دن بدن بلند درجات پر فائز ہو رہے ہیں۔

حدیث نمبر6

عن علی ابن ابی طالب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه واله وسلم من قرأ القرآن و حفضه ادخله الله الجنة و شفعه فى عشرة من اهل بيته كلهم قد استو جب النار

(سسن ابن ماجہ الجز اول باب فضل من تعلم القران) ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن نے قرآن کریم پڑھ لیا اور حفظ کیا تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی اس کے گھر والوں میں سے دس آدمیوں کے متعلق شفاعت مقبول فرمائے گا۔ ایسے دس آدمی جن پر جہنم لازم ہو چکی ہو گی۔ ایک حافظ قرآن مجید دس جہنمیوں کو شفاعت کر کے جنت میں پہنچا دے گا تو سرکار دو عالم اپنے والدین کو جنت میں کیوں نہ لے جائیں گے۔ یہ کم از کم دلیل ہے ورنہ اہل سنت و جماعت تو والدین مصطفی کو پہلے ہی سے جنتی تسلیم کرتی ہے۔ حدیث نمبر7 امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کی ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر رسالت مآب حجون قبرستان میں تشریف لے گئے۔

ان النبی ﷺ نزل الی الحجون کئیبا حزینا ، فاقام به ماشاء ربه عزوجل ثم رجع مسروراً ، مقالت: یا رسول اللہ ﷺ نزلت الی الحجون ، کئیبا حزینا ، فأقمت به ماشاءاللہ ثم رجعت مسرواً؟ قال: سألت ربی عزوجل فأ حیالی أمى فآمنت بی ثم ردھا

مسالک الحنفاء فی والدی المصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، امام سیوطی ص 56 ۔ تفسیر مقاتل بن سلیمان الجزء 4 سورہ محمد) ترجمہ: نبی کریم ﷺ حجون کی طرف افسردہ اترے وہاں کچھ دیر ٹھہرے رہے ، پھر خوشی کے ساتھ واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ افسردہ اور غمزدہ حالت میں حجون کی طرف گئے تھے وہاں کچھ دیر ٹھہرے اور پھر خوش ہو کر واپس لوٹے؟ آپ نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے دعا کی تو اس نے میرے میری والدہ محترمہ کو زندہ فرما دیا وہ مجھ پر ایمان لائیں ، پھر انھیں قبر میں لوٹا دیا۔ اگر اس موقع پر یہ سوال کیا جائے کہ سابقہ گفتگو میں جن آیات اور احادیث کا ذکر کیا گیا جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے والدین فوت ہونے سے پہلے ہی موحد تھے ، مسلمان تھے جبکہ مذکورہ روایت سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ کے والدین پہلے مسلمان نہ تھے بلکہ دوبارہ زندہ ہو کر اسلام لائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کے والدین پہلے دین حنیف کے پیروکار تھے ان کو امت محمدی میں شامل کیا گیا تا کہ آپ کے والدین بھی درجہ صحابیت پر فائز ہو جائیں۔ نبی کریم ﷺ کے والدین کو غیر مسلم کہنے سے آپ کے والدین کی شان میں فرق نہیں آئے گا بلکہ ایذائے رسول کی وجہ سے کل قیامت کے دن رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آپ کے والدین کو صحیح موحد اور مسلم ماننے کے عقیدہ سے باعث راحت و شفاعت مصطفی ﷺ ہو گا۔ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کو اسی ایک مسئلہ کی برکت سے سرور دوعالم نے 260 مرتبہ اپنی زیارت مشرفہ سے نوزا ہے۔

ایمان والدین مصطفی کی تائید کرنے والے ائمہ و محدثین کرام

ایمان والدین مصطفی کی تائید کرنے والے ائمہ و محدثین کرام کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔ امام ابو حفص عمر بن احمد شاہین جن کی علوم دینیہ میں تین سو تیس تصانیف ہیں جن میں سے تفسیر ایک ہزار جزء میں اور مسند حدیث ایک ہزار تین جزء ہیں ، شیخ المحدثین احد بن خطیب علی البغدادی ، حافظ الشان محدث ماہر امام ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر ، امام اجل ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ سہیلی ، حافظ الحدیث امام محب الدین طبری ، امام علامہ ناصرالدین ابن المنیر ، امام محمد بن محمد بن محمد الغزالی ، امام حافظ الحدیث ابو الفتح محمد بن محمد ابن سید الناس ، علامہ صلاح الدین صفدری ، حافظ السنان شمس الدین محمد ابن ناصر الدین دمشقی ، شیخ الاسلام حافظ الشان امام شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی ، امام حافظ الحدیث ابو بکر محمد بن عبد اللہ ابن العربی مالکی ، امام ابو الحسن علی بن محمد مارودی بصری ، امام ابو عبد اللہ محمد بن خلف مالکی شارح صحیح مسلم ، امام عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر قرطبی ، امام المتکلمین فخر المدققین فخر الدین محمد بن عمر الرازی ، امام علامہ شرف الدین منادی ، خاتم الحفاظ مجد القرآن العاشر علامہ جلال الملۃ والدین عبد الرحمن ابن سیوطی ، امام حافظ شہاب الدین احمد ابن حجر ہیثمی مکی ، شیخ نور الدین علی بن الجزء مصری ، علامہ ابو عبد اللہ محمد ابن شرف حسنی تلسمانی ، علامہ محقق سنوی ، امام اجل عارف باللہ سید عبد الوہاب شعرانی ، علامہ احمد بن محمد بن علیین یوسف فارسی ، خاتمتہ المحققین علامہ محمد بن عبد الباقی زرقانی ، امام اجل فقیہ اکمل محمد بن محمد کردری بزازی ، زین الفقہ علامہ محقق زین الدین بن نجیم مصری ، سید شریف علامہ حموی ، علامہ حسین بن محمد بن حسن دیار بکری ، علامہ محقق شہاب الدین احمد خفاجی مصری ، طاہر فتنی ، شیخ الشیوخ علما الہند مولانا عبدالحق محدث دہلوی ، علامہ صاحب کنزالفوائد ، مولانا بحرالعلوم ملک العلماء عبد العلی ، علامہ سید احمد مصری طحطاوی محشی درمختار ، حافظ عبد العزیز پرہاروی اور علامہ سید ابن عابد عابدین امین الدین محمد آمندی شامی صاحب درالمختار۔ نوٹ مذکورہ بالا اسمائے گرامی لکھ کر حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے تحر فرمایا کہ یہ ان اکابر کا ذکر ہے جن کی تصریحات خاص اس مسئلہ جزیہ میں موجود ہیں ورنہ بنظر کلیت نگاہ کیجئے تو امام حجتہ السلام محمد بن محمد الغزالی و امام اجل امام حرمین ابن سمعانی و امام کیا ہراسی و امام اجل قاضی ابو بکر باقلانی حتی کہ خود امام مجتہد سیدنا امام شافعی کی نصوف قاہرہ موجود ہیں جن سے تمام آباء و امہات اقدس کا ناجی ہونا کالشمس والا مس روشن و ثابت ہے بلکہ بلاجماع تمام ائمہ شاعرہ و ائمہ ماتریدیہ سے مشائخ تک سب کا یہی مقتضائے مذہب ہے۔ حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی فرماتے ہیں:

تنقل احمد نور عظیم

تلأ لأفی جبین الساجدینا

ترجمہ:حضرت احمد مجتبی ﷺ جو عظیم الشان نور ہیں وہ منتقل ہوتے رہے اور اللہ تعالی کے حضور سجدہ کرنے والوں کی پیشانیوں میں جگمگاتے رہے۔

تقلب فیھم قرنا فقرنا

الی ان جآء خیر المرسلینا

ترجمہ: آپ مختلف زمانوں میں منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ آخر کار سب رسولوں سے افضل رسول بن کر تشریف لائے۔

حافظ العصر ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

نبی الھدیٰ المختار من آل ھاشم

فعن فخر فلیقصر المتطاول

ترجمہ: اللہ تعالی کے برگزیدہ ہدایت والے نبی آل ہاشم سے ہیں ، زیادتی اور ظلم کرنے والوں کو اس فخر کے انکار سے رک جانا چاہیے۔

تنقل فی أصلاب قوم تشرفوا

به مثل ما للبدر تلك المنازل

آپ ﷺ ایسے لوگوں کی پشتوں سے اس طرح منتقل ہوتے رہے جنھوں نے آپ کے ذریعہ سے شرافت و بزرگی پائی کہ کامل چاند کو بھی یہ منازل حاصل نہیں ہیں۔ (انوار احمد ص 68۔) [32]

حوالہ جات

  1. Islamic Ethics and Counselor Decision-Making — ناشر: ایس اے جی ای پبلشنگ
  2. ^ ا ب پ عنوان : Абдуллах ибн Абд аль-Мутталиб
  3. عنوان : Амина бинт Вахб
  4. عنوان : Мухаммад
  5. ^ ا ب سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 53
  6. ^ ا ب پ محمد رسول اللہ ﷺ کے آبا و اجداد کا تذکرہ مولف ڈاکٹر محمود الحسن عارف صفحہ 250
  7. سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد دوم صفحہ 62
  8. سیرت نبی ﷺ ابن ہشام مصنف محمد عبد الملک ابن ہشام اردو مترجم مولوی قطب الدین احمد جلد اول صفحہ 9
  9. ^ ا ب پ سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 51
  10. طبقات ابن سعد مصنف محمد بن سعد اردو ترجمہ علامہ عبد اللہ العمادی جلد اول حصہ اول صفحہ 94
  11. سیرت نبی ﷺ ابن ہشام مصنف محمد عبد الملک ابن ہشام اردو مترجم مولوی قطب الدین احمد جلد اول صفحہ 119
  12. سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد دوم صفحہ 72
  13. سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد دوم صفحہ 74
  14. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد اول صفحہ 734
  15. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد اول صفحہ 735 اور 736
  16. سیرت نبی ﷺ ابن ہشام مصنف محمد عبد الملک ابن ہشام اردو مترجم مولوی قطب الدین احمد جلد اول صفحہ 157 تا 160
  17. طبقات ابن سعد مصنف محمد بن سعد اردو ترجمہ علامہ عبد اللہ العمادی جلد اول حصہ اول صفحہ 107
  18. سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 71 اور 72
  19. سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 67
  20. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد اول صفحہ 737
  21. سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 60
  22. البدایہ والنہایہ مولف علامہ حافظ ابو الفدا عمادالدین ابن کثیر اردو متراجم پروفیسر کوکب شادانی جلد دوم صفحہ 155
  23. تاریخ طبری تاریخ الامم و الملوک مصنف علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری اردو متراجم سید محمد ابراہیم جلد دوم صفحہ 26 اور 27
  24. سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 62 تا 66
  25. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد اول صفحہ 738 اور 739
  26. سیرت نبی ﷺ ابن ہشام مصنف محمد عبد الملک ابن ہشام اردو مترجم مولوی قطب الدین احمد جلد اول صفحہ 161
  27. معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی ، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد اول صفحہ 743 تا 745
  28. سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد دوم صفحہ 76
  29. ^ ا ب سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مولف شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفی اعظمی صفحہ 60
  30. سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 72 تا 75
  31. سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 126 تا 137
  32. سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 143 تا 152