اسلامی درہم یا جدید درہم (درہمِ چاندی یا نقرئی درہم) دراصل پرانے اسلامی درہم کی نئی شکل ہے، جس کا مقصد اسلامی طلائی دینار کے ہمراہ اسلامی نظامِ زر کو دوبارہ زندہ کرنا ہے، کیونکہ اس کا استعمال خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ترک کیا گیا تھا۔ اس کا دوبارہ آغاز 1992ء میں ہسپانیہ کے شیخ عمر واڈیلو نے کیا۔[1][2][3] اس کے دوبارہ احیاء کے کئی حامیان ہیں، جس میں شیخ عبدالقادر الصوفی، شیخ عمر واڈیلو،جناب عبد الرحمٰن، شیخ عمران نزار حسین، جناب آصف شیراز، ڈاکٹر احمد کامیل محی الدین میرا، جناب احمد تھامسن وغیرہ شامل ہیں۔

تاریخ

ترمیم
فائل:Khosrow II silver coin.gif
حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلّم کے دور کا ساسانی نقرئی درہم، جس پر خسرو پرویزثانی (628-570) کا مہ رہے۔

حضرت محمد صلی اللہ عليہ وآلہ و سلّم کے دور میں چاندی کے ساسانی سکّے استعمال ہوا کرتے تھے، جس کا وزن 3 گرام سے لے کر 5۔ 3 گرام ہوا کرتا تھا۔ اہل عرب اس کاتبادلہ وزن کے حساب سے کیاکرتے تھے لیکن حضرت محمد صلی اللہ عليہ وآلہ و سلّم نے ایک دینار کا وزن ایک مثقال قرار دیا، جو 72 جو(جو) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتاہے۔ اور جدید معیار وزن کے مطابق اس کا وزن تقریبا 4.25 گرام ہوتاہے۔ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور میں ان سکّوں کو کاٹھا گیا اور اس کے وزن کوایک مثقال تک لایاگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ عليہ وآلہ و سلّم نے ایک معیار قائم کیا کہ سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو۔ لہذا ایک درہم کا وزن تقریبا 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) ہوتاہے۔ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہی دور میں اس پر بسم اللہ لکھا گیا۔ حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور حضرت امیر معاویہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے پہلی مرتبہ اپنے سکّے جاری کیے۔ بعد میں عبدالملک بن مروان نے مسلمانوں میں باقائدہ طورسے اپنے سکّے ڈھالنے شروع کیے۔ جس کاوزن نہایت احتیاط کے ساتھ 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) رکھا گیا۔[4]

فائل:First Islamic coins by caliph Uthman.jpg
چاندی کا درہم جس پرحضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور میں بسم اللہ لکھا گیا۔ اس کا وزن تقریبا 3 گرام ہے۔ اس کوحضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے 5۔ 3 گرام سے کم کرکے 3 گرام کیا تھا۔

معیارِ وزن

ترمیم

جدید اسلامی درہم کا وزن بھی ایک مثقال سے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کا وزن 72 جو(جو) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتاہے، جو 25۔ 4 گرام کے برابر ہوتاہے۔ حضرت عمر کے قائم کردہ معیارکے مطابق سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو، تو ایک درہم کا وزن تقریبا 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) ہوتاہے۔ اور اس کی خالصیت کم ازکم 24 قیرات (یعنی 9۔ 99 فیصد) ہونی چاہئیے۔ اس لیے جدید اسلامی درہم بنانے والی اکثرکمپنیاں مثلاً عالمی اسلامی ٹکسال، وکالہ انڈیوک نوسنتارہ، ضراب خانہ اسعار سنّت وغیرہ اسی معیار کو استعمال کرتی ہیں۔[5]

اجرا

ترمیم

جدید اسلامی درہم کا اجرا دنیا کے کئی ممالک میں شروع ہوچکاہیں۔

ملایشیا

ترمیم

جدید اسلامی درہم پہلی مرتبہ سنہ 2010ء میں ملایشیا کے صوبے کیلانتن نے جاری کیے۔ اور اس کو رینگت (ملایشیا کی زرِقانونی) کی طرح زرِقانونی کی حیثیت دی گئی۔ اور 2011ء میں ملایشیا کے ایک دوسرے صوبے پیرک نے بھی طلائی دینار جاری کیے اوراور اس کو رینگت کی طرح زرِقانونی کی حیثیت دی گئی۔[6]

انڈونیشیا

ترمیم

انڈونیشیا کے کئی ریاستوں میں بھی جدید اسلامی درہم کا آغاز کیا گیا، جن میں جکارتہ، سولو،آچہے وغیرہ شامل ہیں۔[7]

پاکستان

ترمیم

جدید اسلامی درہم پہلی مرتبہ سنہ 2009ء میں پاکستان کے شہر راولپنڈی میں جاری کیے گئے۔ تا ہم اس کو ابھی زرِقانونی کی حیثیت نہیں دی گئی۔[8]

افغانستان

ترمیم

جدید اسلامی درہم پہلی مرتبہ سنہ 2014ء میں افغانستان کے دار الحکومت کابل میں جاری کیے گئے۔

مزید ممالک

ترمیم

اس کے علاوہ سنگاپور، قازقستان، ریاستہائے متحدہ امریکا، جنوبی افریقا، ہسپانیہ، عراق[9] وغیرہ نے بھی غیر سرکاری طور پرجدید جدید اسلامی درہم کا اجرا کیا۔

استعمال

ترمیم

جدید اسلامی درہم کے بہت سے استعمالات ہیں۔ جن میں چند ایک مندرجھ ذیل ہیں۔[4]

  • بطورِ زر (زر)
  • بطورِ معیار نصابِ زکوٰۃ
  • بطورِ ادائیگی زکوٰۃ
  • مہر کا نصابِ معیار
  • اسلامی قوانینِ سزا و جزا (حدود) میں اس کا استعمال

فوائد

ترمیم

سونے اور چاندی کے سکوّں کے بہت سے فوائدہیں۔

  • سونے اور چاندی کے سکوّں کے بہت سے فوائد ہیں۔ کیونکہ کرنسی کی قیمت اس کے اندر ہونی چاہیے۔ لہٰذا سونے اور چاندی کے سکوّں کی اپنی ایک قدر و قیمت ہے جو پوری دنیا میں قابل قبول ہے کیونکہ یہ ایک حقیقی دولت ہے کوئی ردّی کاغذ نہیں۔[10]
  • جدید معاشی نظام سے پہلے جب لوگ آپس میں تجارت کرتے تھے تو وہ جفرافیائی حدود سے آزاد تھے۔ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے تھے سونے اور چاندی کے سکے ّ وہاں وزن کے حساب سے قبول کیے جاتے تھے۔ لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ایسا ممکن نہ تھا کہ امریکا میں بیٹھا کوئی بینکر یا شخص ہندوستان کی پوری قوم کو غلام بناسکے۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی ممکن نہ تھا کہ افغانستان میں بیٹھا ہوا کوئی شخص اگر تجارت کرے تو یورپ میں بیٹھا ہوا کوئی بینکر اس میں سے اپنا حصّہ نکال لے۔ یعنی تجارت حقیقی دولت میں ہوا کرتی تھیں اسی لیے انسان آزاد تھے۔[11]
  • اس کے ساتھ ساتھ لوگ حکومت کے دھوکوں سے بھی آزاد تھے۔ اگر کوئی حکومت یا بادشاہ منڈی میں دولت لانا چاہتا تھا تو اسے سونا یا چاندی کہیں سے ڈھونڈ کر لانا پڑتا تھا۔ ایسا نہ تھا کہ بے دریغ دولت(کاغذی کرنسی)کے روپ میں یکدم منڈی میں ڈال دی جاتی، روپے،ڈالر وغیرہ کی قیمت میں کمی ہوجاتی۔ جس کی سزا عام عوام کو بگتنی پڑتی۔

یعنی اس دور مین جب کوئی حکومت یا بادشاہ ملکی خزانہ لوٹ لیتے ہیں تو پھر ان کے پاس سرکاری ملازمین وغیرہ کو تنخواہ دینے کے پیسے(کاغذی کرنسی)کم پڑجاتی ہے تو وہ زیادہ کاغذی کرنسی چھاپ دیتے ہیں تاکہ ملازمین کو تنخواہیں دی جاسکے تو کاغذی کرنسی کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کسی مزدور نے پچھلے دس سالوں میں ایک لاکھ روپے جمع کیے ہیں۔ تو حکومت کی کاغذی کرنسی کی زیادہ چھپوانی سے اب اس کے ایک لاکھ روپے کی قدر پچاس، ساٹھ ہزار روپے ہوگی۔ لہٰذا اس مزدور کی آدھی دولت حکومت نے ہڑپ کرلی اور اس بیچارے کو پتہ ہی نہیں کہ اصل میں کیا ہوا اس کے ساتھ۔[7]. لہٰذا کاغذی کرنسی کے زیادہ چھپوائی کے ذریعے دنیا کی ہر حکومت اپنی عوام کی دولت کو لوٹنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اسی لیے اگر کرنسی سونے کی ہو تو حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ زیادہ کرنسی کو چھپوا سکے کیونکہ اب کرنسی کاغذ کی نہیں بلکہ سونے کی ہے۔ لہٰذا سونے اور چاندی سے بنے کرنسی سے عوام کی دولت، حکومت اور بین الاقوام ادارہ برائے زر(بین الاقوامی مالیاتی فنڈ)کے دھوکوں سے محفوظ رہتیں ہیں۔[8]

  • اس کے علاوہ سونے اور چاندی کے سکے ّ اپنی قیمت ہر دور میں برقرار رکھتی ہے۔ اگر آپ کے پاس سونے اور چاندی کے سکے ّ ہو تو آپ خواہ کسی بھی ملک میں چلے جائے تو اس کی قیمت برقرار رہتی ہیں۔ چاہے وہ کوئی بھی دور ہو یا جیسے بھی حالات ہو، جنگ کا زمانہ ہو یا امن کا دور، ملک کی معاشی حالت خراب ہو یا اچھی ہو، ہر حالت میں سونا اپنی قیمت کو برقرار رکھتی ہے۔ کیوں کہ سونے سے بنے کرنسی کی وجہ سے، کرنسی کی قیمت و قدر اس کے اندر ہوتی ہے جب کہ کاغذ سے بنی کرنسی کی قدر اس کے اندر نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک کاغذ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے اگر ایک انسان سونے اور چاندی کے سکوّں کو زمین میں دبادے اور چھار، پانچ سو سال بعد کوئی شخص اس کو نکالے، تب بھی اس کی قیمت برقرار رہے گی اور اس کے لیے یہ سکے ّ ایک قیمتی خزانے کی شکل اختیار کریں گے۔ اس لیے اگر کسی کو آج سے چھار پانچ سو سال پہلے کے دور کے سکے ّ مل جائے تو ہم کہتے ہے کہ اس کو خزانہ مل گیا ہے۔ یہ خزانہ دراصل اس دور کی کرنسی(روپیہ،پیسہ)ہی ہے، جو خزانے کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ اب آپ ذرا سوچئے کہ اگر اس دور میں بھی کرنسی کاغذ کی ہوتی تو پھر اس کی قدر ردّی کاغذ کے سوا کچھ بھی نا ہوتی۔ اس لیے اگر انسان سونا لے کر زمین میں دبا دے اور سو سال بعد اس کو نکالا جائے تو اس کی قیمت برقرار رہتی ہے۔ لہٰذا سونے چاندی کی وجہ سے وہ پرانا معاشی نظام پائیدار تھا۔[12]
  • اس کے علاوہ سونے چاندی کے سکوّں کا یہ فائدہ بھی پہلے حکومتوں اور عوام کو ہوا کرتا تھا کہ اگر کوئی دشمن ملک آپ کی کرنسی بنانا چاہتا تھا، تو اسے بھی سونے اور چاندی کے سکے ّ ہی بنانے پڑتے تھے۔ اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ کوئی بھی ردّی کاغذ چھپوالیتا اور کرنسی کاپی کرلیتا۔

یعنی اس دور میں کرنسی کو دشمن ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن ملک آپ کی کرنسی کو چھاپ کر آپ کے ملک کے منڈی میں لاتا ہے، تو آپ کے ملک میں کرنسی زیادہ ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے اور ملک کا پیسہ تباء ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے معیشت خراب ہوجاتی ہے۔ لیکن اس نظام میں یہ ممکن نہیں جہاں کرنسی سونے اور چاندی سے بنی ہو۔ چنانچہ دنیا کا سب سے پائیدار معاشی نظام ایک ایسا نظام ہو سکتا ہے جس میں کرنسی کی قدر میں کمی نہ ہو، یعنی کرنسی کی اصل قدر اس کے اندر ہو۔[12]

  • اس کے علاوہ اگر دشمن ملک آپ کی کرنسی چھاپ لے تو وہ صرف کاغذ کے چند نوٹوں کے بدلے آپ کے ملک کے مارکیٹ سے کوئی بھی چیز خرید سکتے ہیں۔ مثلاً وہ آپ کے مارکیٹ سے سونا، چاندی،گندم، وغیرہ، غرض ہر چیز خرید سکتے ہیں۔ لیکن سونے کی صورت میں یہ ممکن نہیں۔[10]
  • کاغذی نوٹ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں، پٹ جاتے ہیں، پانی لگنے سے خراب ہو جا تے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ خراب ہو جاتے ہیں لیکن سونا اور چاندی نا جل کر راکھ ہو تی ہیں اور نا ہی پانی لگنے سے خراب ہوتی ہیں اور 22 قیرات سونے کا سکّہ جس کی ساتھ تھوڑا سا تانبا ملا ہوا ہو، کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یعنی ساٹھ سال مسلسل استعمال کے بعد شاہد اس کے وزن میں ایک فیصد کمی آ جائے، جس کو واپس ٹکسال لے جا کر اس میں ایک فیصد سونا ڈالنا ہو گا۔ جب کہ کاغذی کرنسی کی عمر دو سے تین سال ہوتی ہیں۔[11]

کمپنیاں

ترمیم

جدید اسلامی درہم کو ڈھالنے والی کئی کمپنیاں ہیں۔ جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Nasohah, Zuliza Mohd Kusrin, and Al-Adib Samuri. "Gold Dinar As A Supreme Currency: Review Based On The History Of Islamic Civilisation." (2012).انگریزی زبان میں
  2. Yaacob, Salmy Edawati. "Aplikasi Semasa Penggunaan Dinar Emas di Malaysia." Jurnal Islam dan Masyarakat Kontemporari 6 (2014): 53-63. انگریزی زبان میں
  3. Yaacob, Salmy Edawati, and H. M. Tahir. "The Reality of Gold Dinar Application in Malaysia." Advances in Natural and Applied Sciences 6.3 (2012): 341-347.انگریزی زبان میں
  4. ^ ا ب Ibn Khaldun, The Muqaddimah, ch. 3 pt. 34.
  5. Vadillo, Umar Ibrahim. The Return of the Islamic Gold Dinar: A Study of Money in Islamic Law & the Architecture of the Gold Economy. Madinah Press, 2004.
  6. "Malaysian Muslims Go for Gold, But It's Hard to Make Change"۔ Wall Street Journal,۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2014 
  7. ^ ا ب Evans, Abdalhamid. "The Gold Dinar-A Platform For Unity." Proc. of the International Convention on Gold Dinar as An Alternative International Currency. 2003.
  8. ^ ا ب "Introduction of Islamic dirham, dinar urged to get rid of usury"۔ Pakistan Today News, Date: Saturday, 14 July, 2014,۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2014 
  9. "Isis to mint own Islamic dinar coins in gold, silver and copper", The Guardian, 14 November 2014
  10. ^ ا ب Vadillo, Umar Ibrahim. "The Return of the Islamic Gold Dinar." Kuala Lumpur: The Murabitun Institute (2002).
  11. ^ ا ب Meera, Ahamed Kameel Mydin. The Islamic Gold Dinar. Pelanduk Publications, 2002.
  12. ^ ا ب Rab, Hifzur. "Problems created by fiat money gold Dinar and other alternatives." 2002), International Conference on Stable and Just Global Monetary System., IIUM, Kuala Lumpur. 2002.