المعتمد علی اللہ
المعتمد علی اللہ (پیدائش: 842ء– وفات: 15 اکتوبر 892ء) خلافت عباسیہ کا پندرھواں خلیفہ تھا جس نے 870ء سے 892ء تک حکومت کی۔ انتشار سامراء کے دور کا وہ آخری خلیفہ تھا جس کے بعد خلافت عباسیہ کا دار الحکومت بغداد دوبارہ منتقل ہو گیا۔ 892ء میں معتمد علی اللہ فوت ہوا۔ معتمد علی اللہ کے زمانہ میں خلافت عباسیہ رُو بہ زوال ہوتی گئی اور اِس سلطنت کے مختلف حصے دوسری سلطنتوں کا حصہ بنتے گئے۔
المعتمد باللہ | |
---|---|
خلیفہ خلافت عباسیہ | |
خلافت عباسیہ کا پندرہواں خلیفہ | |
20 جون 870ء– 15 اکتوبر 892ء (مدتِ خلافت: 22 سال 3 ماہ 25 دن شمسی) | |
پیشرو | المہتدی باللہ |
جانشین | المعتضد باللہ |
ہمسر ملکہ | خلافہ مخفرنہ نبت |
نسل | المعتضد باللہ |
خاندان | خلافت عباسیہ |
والد | المتوکل علی اللہ |
والدہ | فطیان |
پیدائش | 844ء |
وفات | 15 اکتوبر 892ء (48 سال) سامراء |
مذہب | سنی اسلام |
نام و نسب
ترمیممعتمد علی اللہ کا نام احمد بن المتوکل علی اللہ ہے۔ کنیت ابوجعفر اور ابو العباس ہے۔ والدہ کا نام فطیان ہے جو کوفہ سے تعلق رکھنے والی ایک کنیز تھی۔ لقبِ شاہی معتمد علی اللہ رجب 256ھ میں خلیفہ المہتدی باللہ کے قتل کے بعد تخت نشینی کے وقت اختیار کیا گیا۔[1]
پیدائش
ترمیممعتمد کی پیدائش 229ھ/ 844ء میں سامراء میں ہوئی۔ اُس وقت خلیفہ الواثق باللہ عباسی کی حکومت قائم تھی۔[1]
عہد خلافت
ترمیمالمہتدی باللہ کے عہدِ خلافت میں معتمد مقامِ وسق کے قید خانہ میں تھا۔ المہتدی باللہ کے قتل کے بعد ترک امرا اُسے قید خانے سے نکال لائے اور اُسے تخت خلافت پر بٹھایا۔ 20 جون 870ء کو اُس کی بیعت لی گئی۔ موسیٰ ابن بغاء الکبیر نے بھی اُس کی بیعت کرلی اور اُس کی بیعت کے بعد کسی دوسرے خطرے کا خوف نہ رہا۔ دیگر اعیانِ سلطنت نے بیعت کی اور اُسے المعتمد علی اللہ کے لقب سے ملقب کیا۔[2][3]
وزارت
ترمیمعنانِ حکومت ہاتھ میں لیتے ہی معتمد نے وزراء پر نظر کی اور عبید اللہ بن یحییٰ بن خاقان کو منصبِ وزارت تفویض کی۔ بعد ازاں حسن بن مخلد بن جراح، سلیمان بن وہب، ابو الصفرا اسماعیل بن بلبل، ابوبکر بن صالح بن شیرزاد، یکے بعد دیگرے وقتِ ضرورت کے تحت عہدہ وزارت پر فائز ہوتے رہے۔ معتمد علی اللہ کا آخری وزیر عبید اللہ بن سلیمان تھا۔[3]
عہد خلافت کے متفرق واقعات
ترمیم256ھ
ترمیم- 15 رجب 256ھ/ 19 جون 870ء: سابقہ معزول خلیفہ المہتدی باللہ کو قتل کر دیا گیا۔[4]
- اِس سال کوفہ میں علی بن زید طالبی کا ظہو ہوا۔ اُس کے مقابلے کے لیے خلیفہ کی فوج روانہ ہوئی مگر شکست ہوئی۔ کوفہ میں طالبی کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ حاوی ہو گیا۔
- اِس سال محمد بن واصل تمیمی نے شہر اہواز کے نائب حاکم حارث بن سیما شرابی پر حملہ کرکے اُسے قتل کر دیا اور اہواز کے علاقوں پر قابض ہو گیا۔
- رمضان 256ھ میں حسن بن زید رے (شہر) کے علاقوں پر غالب آ گیا۔ شوال 256ھ میں موسیٰ ابن بغاء الکبیر اُس کے مقابلے کے لیے نکلا۔ خلیفہ معتمد اُسے خود روانہ کرنے کے لیے سامراء سے باہر نکلا۔
- اِس سال محمد بن احمد عیسیٰ بن منصور نے لوگوں کو حج کروایا۔
- ماہِ ذوالقعدہ 256ھ میں مکہ مکرمہ کے قاضی اور مشہور ماہر انساب زبیر ابن بکار 84 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
- 13 شوال 256ھ/ یکم ستمبر 870ء کو امام محمد بن اسماعیل بخاری سمرقند میں انتقال کر گئے اُن کی وجہ شہرت صحیح بخاری ہے۔[5]
257
ترمیم- اِس سال خلیفہ معتمد نے یعقوب بن لیث صفاری کو بلخ اور طخارستان اور اُس کے قریبی علاقوں کرمان، سجستان اور سندھ کا حاکم مقرر کر دیا۔
- ماہِ صفر 257ھ میں خلیفہ نے اپنے بھائی ابو احمد کو کوفہ، طریقِ مکہ مکرمہ و حرمین اور یمن کا حاکم مقرر کیا، بعد ازاں ماہِ رمضان 257ھ میں بغداد، عراق، واسط، کورداجلہ، بصرہ اور فارس تک کی حکومت پر ابو احمد کو قائم مقام بنا دیا۔
- 14 شوال 257ھ/ 2 ستمبر 871ء کو چاند گرہن واقع ہوا۔
- اِس سال فضل بن اسحاق عباسی نے لوگوں کو حج کروایا۔[6]
258ھ
ترمیم- 20 ربیع الاول 258ھ کو خلیفہ معتمد نے اپنے بھائی ابو احمد کو مصر، قنسرین اور عواصم کا حاکم اعلیٰ مقرر کر دیا اور اُسے خلعت عطاء کی۔[7]
260ھ
ترمیم- 8 ربیع الاول 260ھ/ 4 جنوری 874ء کو امام حسن بن علی عسکری فوت ہوئے۔
خلافت عباسیہ کے زوال میں حصہ
ترمیم- تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیں : آل طاہر، دولت سامانیہ، اغالبہ
معتمد 22 سال تک خلیفہ رہا لیکن اِس طویل دور حکومت میں ایک روز بھی اُسے حقیقی حکومت نصیب نہیں ہوئی اور نہ ہی اندرونی شورشوں اور ہنگاموں سے سکون میسر آسکا۔ ایک اہم تغیر یہ ہوا کہ ترک جو المعتصم باللہ کے دور سے حکومت پر حاوی ہو چکے تھے، اب اُن کی بجائے حکومت معتمد کے بھائی موفق باللہ کے ہاتھوں میں آگئی اور ترکوں کے اختیارات حکومتی سطح پر زوال پزیر ہوتے چلے گئے۔ معتمد برائے نام خلیفہ تھا اور حکومت کے تمام اختیارات و معاملات پر موفق باللہ حاوی تھا۔ کسی چھوٹے بڑے معاملے میں معتمد کا کوئی حکم نہ چلتا تھا اور نہ ہی خراج اُس کے پاس آتا تھا بلکہ نظامِ خراج موفق باللہ کے ہاتھوں میں تھا۔ معتمد اُس کے استبداد سے بہت نالاں تھا، نتہجتاً عاجز آ کر اُس نے احمد بن طولون کے دامن مصر میں پناہ لینی چاہی مگر اِس میں ناکام ہوا۔ معتمد کے زمانہ میں خلافت عباسیہ کی حالت ابتر ہو گئی تھی، سلطنت کے گوشہ گوشہ میں طوائف الملوکی اور ہنگامے عام ہو چکے تھے۔ سجستان، کرمان اور فارس کے صوبوں پر صفاری خاندان قابض ہو چکا تھا۔ خراسان بھی آل طاہر کے پاس تھا۔ طبرستان اور جرجان علویوں کی حکومت میں داخل ہو چکے تھے۔ مصر اوربلاد الشام دولت طولونیہ کا حصہ بن چکے تھے۔ ماوراء النہر میں دولت سامانیہ کی بنیاد پڑنے کے دن شروع ہو چکے تھے۔ افریقا میں اغالبہ بر سر اقتدار آ گئے تھے۔ بصرہ اور دریائے دجلہ کی حدود تک شورش صاحب الزنج آفت برپا کیے ہوئے تھے۔ مراکش سے لے کر مشرقی حدوو تک کوئی گوشہ یا صوبہ طوائف الملوکی سے خالی نہ تھا۔[2][8][9]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، ص 401۔ تذکرہ المعتمد علی اللہ۔
- ^ ا ب شاہ معین الدین احمد ندوی: تاریخ اسلام، جلد 2، ص 250۔
- ^ ا ب مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی: تاریخ ملت، جلد 2، ص 398۔ مطبوعہ لاہور، 1991ء۔
- ↑ ابن کثیر: البدایہ والنہایۃ، جلد 11، ص 62۔ تذکرہ واقعات سنۃ 256ھ۔
- ↑ ابن کثیر: البدایہ والنہایۃ، جلد 11، ص 63/62۔ تذکرہ واقعات سنۃ 256ھ۔
- ↑ ابن کثیر: البدایہ والنہایۃ، جلد 11، ص 71۔ تذکرہ واقعات سنۃ 257ھ۔
- ↑ ابن کثیر: البدایہ والنہایۃ، جلد 11، ص 73۔ تذکرہ واقعات سنۃ 258ھ۔
- ↑ ابن خلدون: تاریخ ابن خلدون، جلد 3، ص 339۔
- ↑ ابن اثیر: الکامل فی التاریخ، جلد 20، ص 131۔
المعتمد علی اللہ پیدائش: 844ء وفات: 15 اکتوبر 892ء
| ||
مناصب سنت | ||
---|---|---|
ماقبل | خلیفہ خلافت عباسیہ 20 جون 870ء– 15 اکتوبر 892ء |
مابعد |