تحریک اسلامی طالبان

افغان سنی اسلامی تحریک

افغانستان کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں ان کو مختصراً طالبان کہا جاتا ہے۔ نسلی اعتبار سے یہ پشتون، تاجک اور ازبک ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روس کی افغانستان میں آمد کے بعد افغان جہاد میں مجاہدین کے ساتھ مل کر لڑتے رہے۔ روس کو شکست دینے کے بعد مجاہدین کی آپس میں شدید چپقلش کے باعث 1994ء میں ظہور پانے والے تحریک اسلامی طالبان کے نام سے چند طلبہ کا گروہ تھا جسے ملا محمد عمر نے قائم کیا اور انہی کی سربراہی میں بزور بازو افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے حکومت قائم کردی۔

طالبان
میں شریک
Flag of the Taliban
پرچمِ طالبان
متحرک
نظریات
گروہبنیادی طور پر پشتون;[9][10] تاجک لوگ، ازبک اور ترکمان[11]
رہنماہان
صدر دفتر
کاروائیوں کے علاقے
  زیرِ کنٹرول طالبان, القاعدہ، اور اسلامی جہاد اتحاد
قوت
  • 45,000 (2001 تقریباً)[16]
  • 11,000 (2008 اندازہً)[17]
  • 36,000 (2010 اندازہً)[18]
  • 60,000 (2014 اندازہً)[19]
وجۂ آغازجمعیت علمائے اسلام کے طلبہ
اتحادیریاستی اتحادی

غیر ریاستی اتحادی

مخالفینریاستی مخالف غیر ریاستی مخالف
لڑائیاں اور جنگیں

افغانستان کے دگرگوں حالات

طالبان دراصل وہ لوگ ہیں جو افغان جہاد میں مجاہدین کے ساتھ مل کر روس کے خلاف لڑتے رہے۔ روس کی پسپائی، خروج اور اس کی قائم کردہ حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کی آپس میں سخت ترین چپقلش جو افغانستان کے وجود کے لیے خطرہ بنی ہوئی تھی اور روزانہ کے اعتبار سے انسانی جانوں کے ضیاع کا منبع تھی۔

ایک برطانوی مصنف پیٹرمارسڈن اپنی کتاب میں طالبان سے پہلے کے افغانستان کے حالات جو روس کے جانے کے بعد آپسی لڑائیوں میں پیش آئے تھے:

یوں تو کابل پر مجاہدین کا قبضہ ہو گیا لیکن گل بدین حکمت یار (کمانڈر) نے جو اقتدار میں مؤثر شرکت کے خواہاں تھے خانہ جنگی شروع کردی۔ شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ شہر مختلف چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ ہر ٹکڑے پر علاحدہ جماعت قابض ہوگئی۔ عبوری صدر صبغت اللہ مجددی نے اپنے وزیر دفاع احمد شاہ مسعود (کمانڈر) کے ساتھ مل کر امن و امان کی صورت حال کو قابو میں لانے کی کوشش کی۔ ان کے بعد صدرربانی (کمانڈڑ) نے اس کوشش کو مزید آگے بڑھایا مگر حزب وحدت اور اتحاد اسلامی کی افواج ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوگئیں۔ اگست 1992ء میں کابل پر راکٹوں کا ایک خوفناک حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 1800 شہری جاں بحق ہوئے اور بڑی تعداد میں لوگ مزار شریف کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ غرض ایک خوفناک خانہ جنگی کا سماں پیدا ہو گیا۔ صورت حال کو قابو میں لانے کے لیے حکمت یار کو وزیراعظم بنادیا گیا لیکن وہ بھی نام کے وزیراعظم بنے کیونکہ صدر ربانی پر قاتلانہ حملے کے بعد ان کی کابل میں داخلے کی ہمت نہ پڑی۔

[42]

امریکی صحافی کرسٹینا لیمب اپنی کتاب میں طالبان سے پہلے افغانستان کی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:

ہندو کش کے جنوب میں آباد پشتون بدترین صورتحال سے دو چار تھے، یہ افغانستان کا سب سے برا نسلی گرو ہے، قندھار کے اردگرد کے ھالات خاص طور پر خرابی کا شکار تھے۔ یہاں گورنر گل آغا تھا۔ اس کے پاس اپنے دفتر کے اردگرد ارد سڑک کے پار تھوڑے سے علاقے کے سواء کسی چیز کنٹرول نہیں تھا۔ چھوٹے چھوٹے جنگجو گرپوں اور کمانڈروں نے لوٹ مار لے لیے علاقے تقسیم کر رکھے تھے۔ ان کے جگہ جگہ چیک پوائنٹس تھے، جو چیز بھی ان کے ہتھے چڑھتی اسے اسکریپ بنا کر فروخت کر دیتے تھے۔

[43]

تحریک کی ابتدا

باہمی خانہ جنگی میں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون رائیگاں جاتا دیکھا تو ملا محمد عمر نے اپنے ساتھی طلبہ پر مشتمل ایک جماعت تیار کرلی جسے آنے والے وقتوں میں تحریک اسلامی طالبان کا نام دیا گیا۔ اس تحریک کے بانی ملا محمد عمر ہی ہیں۔ اس تحریک کے ابتدائی دنوں کے حوالے سے تحریک کے آغاز کی داستان ملا محمد عمر نے 4اپریل، 1996ء کو قندھار میں افغان علما کے ایک بہت بڑے مجمع کو سنائی تھی:

تحریک کا آغاز اس طرح ہوا کہ ایک دن میں مدرسے میں طلبہ کے درمیان میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اچانک کتاب بند کردی، اپنے ساتھ ایک اور طالب علم کو لیا اور وہاں ہم دونوں مدرسے سے نکل آئے۔ ہم سنگ ھصار سے زنگاوات آئگئے، وہاں ہم نے ایک شخص سے موٹر سائیکل مانگی اس شخص کا نام سرور تھا اور وہ طولقان کا رہنے والا تھا۔ پھر میں اپنے نے اپنے دوست کو اہنے ساتھ موٹرسائکل پر بٹھایا اور اسے بتایا کہ ہم مختلف مدارس کے طلبہ کے پاس جائیں گے۔ چنانچہ شام کو ہم ترخو آ گئے۔اس دوران میں نے اپنے رفیق سفر سے کہا کہ ہم گھومتے رہیں گے اور یہ راستے یود رکھو کہ انشاء اللہ ایک انقلاب اور تبدیلی ضرور آئے گی۔ اگلی صبح ہم پھر موٹرسائیکل پر سوار ہوئے اور ایک مدرسے میں جاپہنچے، جہاں 14 طالب علم سبق پڑھ رہے تھے ہم نے ان سب کو جمع کیا اور ان سے بات کی آپ لوگ توکل کو محض ذہن سے نہ نکالیں۔ میں نے انہیں کہا کہ دیکھیں اللہ کا دین پائمال ہورہا ہے اور کچھ لوگوں نے اس کو ایسا بنادیا ہے کہ دوسرے لوگ بھی برباد ہورہے ہیں، برے بنتے جارہے ہیں، ایک مخصوص طریقے سے مسلمان تباہ کیے جارہے ہیں۔ یہ لوگ دوسرے مسلمانوں کو بھی فسق و فجور کا عادی بنارہے ہیں اور فسق کو عام کرکے جاری رکھنا چاہتے ہیں، بدمعاش اور بدقماش لوگ تمام علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں، راہزنی ارو لوٹ مار جاری ہے، ہر راستے پر لوگوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں، لوگوں سے مال زبردستی چھین لیا جاتا ہے اور قتل ہورہے ہیں۔ میں نے ان طلبہ سے کہا کہ ظلم و ستم کے ایسے ماحول میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ اس انداز سے یا زندہ باد، مردہ باد کے نعروں سے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہم آپ سے کہتے ہیں کہ اگر آُ دین کا علم واقعی اللہ کی رضا کے لیے حاصل کررہے ہیں تو اللہ کی رضاء ہی کے لیے اب آپ کو یہ سلسلہ چھوڑنا ہوگا اور اب یہ تعلیم جاری نہیں رہے گی۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ ہم سے کسی نے ہیسے کا وعدہ نہیں کیا، ہم اپنے وطن کے مسلمانوں سے روٹی مانگیں گے، معلوم نہیں وہ روٹی دیں گے بھی یا نہیں؟ ہمیں پھر پڑھنے کا موقع بھی نہیں ملے گا، کیوں کہ یہ کام ایک دن ہفتے کا نہیں اور نہ مہینے یا سال کا ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ تبدیلی کسی کے بس کی بات بھی ہے یا نہیں؟ میں نے ان طلبہ کو غیرت اور حوصلہ کے لیے یہ بھی کہا کہ جب یہ فاسق اور فاجر لوگ اس شدید گرمی میں ان گرم پتھروں پر بیٹح کر اللہ کی نافرمانی اور اللہ کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں اور کھلے عام یہ کام کررہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو علانیہ نہیں کرسکتے۔ آپ لوگ اتنی غفلت نہ برتیں اور اتنی بے حمیتی کا مظاہرہ نہ کریں۔ پھر میں نے اپنے منصوبے کو ذرا مزید مشکل اندز میں پیش کرتے ہوئے ان طلبہ یہ بھی کہا اگر ہم نے کسی جگہ پر قبضہ کرلیا تو وہاں بیٹھے رہیں گے، لیکن یہ گلے شکوے نہیں شروع کردیں گے کہ جی ہماری تعلیم نہیں ہے، ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، اسلحہ نہیں ہے یا روٹی نہیں ہے۔ ان سب باتوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ بتائیے آپ لوگ یہ کام کرسکتے ہیں یا نہیں؟ الہ کی قسم ان 14 طلباء میں سے ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں یہ کام کر سکتاہوں یا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ان سب نے مجھے یہی کہا کہ اگر جمعہ کی رات (جب مدارس میں چھٹی ہوتی ہے) آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو ہم ساتھ دے سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جمعہ کے بعد یہ کام کون کرے گا؟ اللہ گواہ ہے بات بالکل اسی طرح ہے، اگر ہم یہ کام اسلحہ یا دوسرے وسائل کے بھروسے پر کرنا چاہتے تو دوسرے مدارس کے طلبہ کو انہیں کی طرح سمجھ کر واپس سیدھا اپنے مدرسہ میں آجاتے، لیکن میں نے اللہ کے ساتھ عہد کیا تھا اور محض توکل اختیار کیا تھا، لہٰذا میں نے اپنے عہد کو پورا کیا۔ یہ سب توکل کی برکت ہے، الہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور میرے ساتھ وہ معاملہ کیا جو آپ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ بہرحال ان طلبہ سے رخصت ہوکر ہم دوسرے ،درسے میں آ گئے، وہاں کے طلبہ سے بھی ہم نے اسی انداز سے بات کی۔ بلکہ ان کے سامنے کام کو مزید مشکل بنا کر پیش کیا اور انہیں باور کرایا کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں کے سب طلبہ نے جو 5 یا 7 تھے، اپنے نام میرے پاس لکھوائے اور میرا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ یہ اور پہلے مدرسے طلبہ سب ایک ہی امت اور قوم سے تعلق رکھتے تھے اور ایک ہی علاقے میں رہتے تھے۔ یہ نہیں تھا کہ یہ کسی دوسری امت کے تھے اور وہ دوسری امت کے، یہ بھی نہیں تھا کہ یہ مولوی تھے اور وہ جاہل، ایسا بھی نہ تھا کہ یہ مرد تھے اور وہ عورتیں، یہ سفید ریش تھے اور وہ بچے۔ ابتداء ہی میں عجیب حکمت تھی کہ مجھے ایک زبردست آزمائش سے گزرنا پڑا۔ یہی نقطہ آگاز تھا اور یہیں سے ہم نے تحریک شروع کی۔ ہم سی طرح موٹرسائیکل پر گھومتے رہے، حتیٰ کہ عصر تک ہم نے 53 افراد کو اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار کر لیا۔ صرف توکل کرنے والے افراد۔ میں نے ان سب سے کہا کہ آپ لوگ صبح سویرے ہمارے پاس آجائیں اور پھر میں اپنے ٹھکانے پر چلا آیا۔ لیکن وہ سب طلبہ رات ہی کو ایک بجے ہمارے محلے میں آ گئے، حالانکہ ابھی 24 گھنٹے بھی پورے نہیں ہوئے تھے، ہمارے ایک مولانا صاحب صبح سویرے مسجد میں گئے تو دیکھا کہ وہ سب طلبہ وہاں پہلے سے پہنچے ہوئے ہیں۔ اسی دن صبح 10 بجے ہم اہنے ساتھ دوڈرائیور بھی لے آئے۔ پھر ہم نے اپنا ایک آدمی حاجی بشر نامی شخص کے پاس بھیجا اور اس سے دو گاڑیاں مانگیں۔ اس نے گاڑیاں فراہم کردیں۔ پھر ہم اپنے ساتھیوں کو "کشک نخود" لے آئےم کچھ اور افراد بھی ہمارے ساتھ ہوگئے۔ جب تعداد بڑھی تو ہم نے اپنے ٹھکانے سے 5 میل کے فاصلے پر اسلحہ اکٹھا کیا اور کام شروع کر دیا۔

دور حکومت

طالبان کا دور حکومت 1995ء سے  2001ء تک تقریباً 6 سال کے عرصے پر محیط ہے اس دوران میں ان کا زیادہ تر وقت اپنے حریف ایرانی حمایت یافتہ  شمالی اتحاد  سے جنگ میں گذرا۔ افغانستان کو اگر کوئی چیز  طالبان نے دی تھی تو وہ انصاف کی بروقت فراہمی اور امن و امان کی مثالی صورت حال تھی۔ ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں شاہراوں کو محفوظ بنادیا گیا تھا۔ پوست کی کاشت پر پابندی عائد کردی گئی تھی تمام غیر قانونی ٹیکس اور چنگیاں ختم کردی گئی تھیں جن کے باعث آمدرفت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا ایک تباہ شدہ ملک جہاں ایک سپر پارو ملک سے 11 سال پر محیط جنگ لڑی گئی ہو وہاں صرف 6 سال کے عرصہ کے اندر اندر اتنے بڑے کام کردیے جائیں اسی کو انقلاب کہتے ہیں۔

یہی بات امریکا اور اس کی اقوام متحدہ کو نہیں بھائی تھی کہ اتنی غریب مملکت جن کے پاس نہ انجنیئرز، نہ یونیورسٹیاں ہوں اور نہ دیگر ترقی یافتہ اقوام کی طرح کی پالیسیاں ہوں انتہائی قلیل عرصہ میں اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کرلینا معجزے کم نہ تھا۔

انسان کو انسان کے ساتھ ہمدردی سکھانا، ایک عورت کو وہ مقام دینا کہ جہاں سے گذر رہی ہو تو مرد نظریں جھکالے، ایسا نظام متعارف کروانا کہ عورت چار دیواری سے باہر بھی محفوظ ہو اور اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں عورت کی عصمت دری گھریلو چار دیواری میں ہو گھر سے باہر تو کجا۔

امریکی و اتحادی دور

22 فروری 2005ء کو اقوام متحدہ افغانستان کی تازہ صورت حال کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ:

طالبان حکومت کو گرائے جانے تین سال بعد بھی افغانستان ایک غریب ملک ہے جو عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تین سال بعد بھی ملک میں بے روز گاری، صحت اور تعلیم کے مسائل موجود ہیں۔ دنیا میں افغانستان سے زیادہ غریب صرف تین امریکی ملک ہیں۔ افغانستان انسانی ترقی کے چارٹ پر دنیا کے ایک سو تہتر ملکوں میں سے ایک سو ویں انہترویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہر پانچواں بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے اور عام زندہ رہنے اوسط شرح چوالیس سال ہے۔ افغانستان میں بے امنی اور غربت سے سب سے زیادہ متاثر عورتیں ہوئی ہیں اور ہر آدھے گھنٹے میں ایک افغانی عورت زچگی کی پیچیدگیوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ افغانستان میں دنیا کا بدترین تعلیمی نظام ہے اور ملک میں بالغ شرح تعلیم صرف اٹھائیس اعشاریہ سات فیصد ہے۔ منشیات کا کاروبار بھی آج بھی افغانستان کی معیشت کا اہم ستون ہے اور وہ آج دنیا کو منشیات مہیا کرنے ولے ملکوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ طالبان کو حکلومت سے نکالے جانے کے باوجود جسمانی تشدد آج بھی جاری ہے۔ اگر افغانستان کے حالات نہ بدلے تو وہ پھر ایک غیر محفوظ سلطنت بن جائے گی جہاں نہ صرف اس کے اپنے شہری غیر محفوظ ہوں گے بلکہ وہ دنیا کے لیے بھی خطرہ بن جائے گا۔

سرد جنگ کے بعد امریکا کا کردار

سویت افواج کی شرمناک شکست کے بعد سویت یونین اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا جس کے باعث افغانستان میں امریکا کی نظر اب یہاں مرضی کی حکومت تکیل دینا تھا یہ کام ایرانی حمایت یافتہ بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ امریکا کی نظر خلیج کے تیل پر تھی اس لیے وہ عراق کو کویت پر حملے کے لیے اکسانے کی سازشوں میں مصروف ہو گیا تاکہ اس بہانے خلیج میں امریکی افواج کے قدم جمائے جاسکیں۔

نسل کشی کا الزام

طالبان نے 1998ء میں ہرات پر قبضہ کے بعد مزار شریف کو فتح کیا تو ایران و امریکا اور اس کی اقوام متحدہ کی جانب سے قتل عام کا الزام لگایا گیا۔ اس تیار کردہ الزام کے مطابق ان کا طریقہ یہ تھا کہ ٹرکوں اور گاڑیوں میں عام سڑکوں اور گلیوں میں جاتے اور دائیں بائیں فائرنگ کرتے تھے۔ واضح رہے کہ طالبان سے قبل بامیان پر ایران نواز شیعہ ملیشیاء حزب وحدت کا قبضہ تھا۔

خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک

کچھ حلقوں کے مطابق طالبان خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے لیے جانے جاتے ہیں۔ مگر اس قسم کر الزامات کی بہترین نفع یووون رڈلے نامی برطانوی خاتون صحافی نے کی۔ جنھوں نے تقریباً ایک سال کا عرصہ طالبان کی قید میں گزارا اور ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر ناصرف اسلام قبول کیا بلکہ طالبان کا ہر فورم پر دفاع بھی گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے اصولوں کا تعلق اسلام سے زیادہ پشتون ولی قوانین کے ساتھ ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان نہ صرف خواتین کی مردوں کے ساتھ مخلوط تعلیم کے سخت خلاف ہیں بلکہ خواتین کو بلاضرورت گھر سے باہر بھی نہیں نکلنے دیتے۔ ایسا کرنے سے خواتین کی عصمت دری کے واقعات کا نہ ہونا صرف طالبان کو ہی کریڈٹ دیتا ہے باقی دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں حقوق نسواں کی تنظیمیں سالانہ اربوں دالر کھا جائیں،پولیس کے محکمے پر بے انتہا اخراجات، عصمت دری کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑی بڑی تنظیموں کی موجودگی میں لاکھوں عصمت دری کے واقعات رونما ہوجائیں اس کے برعکس ٹوٹا پھوٹا افغانستان جہاں کے نظام میں ایک انگریز غیر مسلم عورت آکر اسلام کیوں نہ قبول کر جائے۔ اس زیادہ اچھی مثال کوئی ملک نہیں پی کر سکتا کہ 6 سال کے مختصر عرصہ میں اچھی رپورٹ وہ بھی غریب نہتے نگ دھڑنگ لوگوں سے متوقع ہو سکتی ہے تو وہ صرف طالبان کے ذریعے لیا نافذ یا گیا اسلامی شرعی نطام ہی ہے۔ تبھی افغان حکام، نیٹو و امریکا طالبان کی جانب ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔

خارجہ پالیسی

طالبان حکومت کو صرف تین ممالک پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا لہذا ان کی خارجہ پالیسی کی کوئی خاص سمت متعین نہیں تھی۔ افغانستان کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ایرانی مداخلت کے باعث ایران سے طالبان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہ رہے ایک موقع پر تو دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے تاہم دوسرے اسلامی ممالک کی مداخلت کے باعث یہ جنگ بمشکل روکی جاسکی۔ پڑوسی ممالک میں صرف پاکستان ہی سے ان کے بہترین تعلقات تھے۔ اسامہ بن لادن نے جب سرزمین عرب پر امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف آواز بلند کی تو طالبان کے سعودی عرب سے بھی اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔ اس وقت طالبان کے پاس حکومت تو تھی لیکن آج وہ بھی نہیں اس کے باوجود امریکا مذاکرات کے لیے ہاتھ بڑھا رہا ہے آخر کوئی تو وجہ ہے ہی۔

دور حکومت کا خاتمہ

ستمبر2001 ایک میں امریکا شہروں نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی محکمہ دفاع کے صدر دفتر المعروف پینٹاگون پر حملے کیے گئے جن کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹحہرایا گیا۔ القاعدہ کے میزبان ہونے کے ناطے طالبان کو اکتوبر2001ء میں امریکی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا اور امن کا گہوارہ بنائے جانے والے ملک افغانستان پر دیکھتے ہی دیکھتے 56 ممالک امریکا و اقوام متحدہ سربراہی میں چڑھ دوڑے۔ ببانگ دہل امن کا نعرہ لگانے والے افغانستان کو کیا امن دیتے خود بے امنی کا شکار ہیں۔ آج افغانستان صرف اور صرف انہی کی لیا ہوا بے امنی کا شکار ملک ہے۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے آج طالبان سے کیوں رجوع کرتے ہیں۔

میدان جنگ میں

طالبان کا سب سے موثر طریقہ جنگ گوریلا جنگ ہے جو صدیوں سے افغانستان میں بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے ماضی میں برطانیہ، روس اور آج کل امریکا کو اسی مزاحمت کا سامنا ہے۔ افغانستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف مزاحمت میں صرف افغان قوم ہی نہیں بلکہ اس ملک کا جغرافیہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ افغانستان کا بیشتر حصہ سخت گزار پہاڑی سلسلوں پر محیط ہے جہاں جدید ترین اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ افواج بھی بے بس نظر آتی ہیں۔ خودکش حملوں کو طالبان کا سب سے موثر ہتھیار مانا جاتا ہے ان کو اس وقت افغانستان میں موجود اتحادی افواج کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ سڑک کے کناروں پر نصب باروی سرنگیں اور ریمورٹ کنٹرول بم بھی طالبان کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ بنیادی طور پر طالبان گوریلا جنگجو ہونے کی وجہ سے چھوٹے ہھتیاروں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ دوسری جانب ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کر رہے ہیں جو نیٹو و امریکی افوج سے کھینچ کر انہی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اسے عرف عام میں جدید ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔

2009

افعانستان میں امریکی فوجی سربراہ جنرل میک کرسٹل کا کہنا ہے کہ طالبان کی پوزیشن دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی ہے اگر امریکا نے 45000 مزید فوج افغانستان روانہ نا کی تو خدشہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر اتحادی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ستمبر 2009 میں ہی اتحادی فوج کے ایک کانوائے پر طالبان کے ایک حملے میں اٹلی کے 6 فوجیوں کے ہلاک  ہوجانے پر اٹلی کے وزیر اعظم نے اتحادی ممالک پر زور دیا ہے کہ ان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی افواہ ج افغانستان سے نکال لیں۔

2010

افغانستان میں موجود قابض امریکی افواج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل نے کے مطابق طالبان سے امن بات چیت کی جانی چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آنے والے ماہ و سال میں طالبان افغانستان کو اتحادیوں کا جہنم بنا دیں گے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ صرف طالبان سے مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔[9]

واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریئے کے مطابق امریکی افواج نے پاکستانی سرحد سے ملحقہ صوبے کنڑ میں واقع وادی کورنگل طالبان سے مزاکرات کے بعد خالی کرکے پسپائی اختیار کرلی ہے اور اپنے اس اڈے کو تباہ کیے بنا اس میں موجود مشینری، کرینیں، جنریٹرز اور 6 ہزار گیلن پیڑول کا زخیرہ بھی چھوڑ گئے ہیں اسی کو طالبان کی جدید ٹیکنا لوجی کہتے ہیں [10]۔ اس سے قبل امریکی فوج کی جانب سے صوبہ ہلمند کے علاقے مرجہ سے بھی امریکی آپریشن بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ امریکی کانگریس میں سے یہ سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ مسلسل ناکامیوں اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے باوجود افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کا کیا جواز ہے؟

جنرل میک کرسٹل کی برطرفی

عراق میں خانہ جنگی برپا کراکر داد سمیٹنے والے امریکی کمانڈر اسٹینلے میک کرسٹل نے اپنی تعیناتی کے بعد جلد ہی نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا۔ ان کی جانب سے آئے روز آنے والے بیانات اتحادی صفوں میں شدید مایوسی پھیلا رہے تھے۔ جون میں انھوں نے اوبامہ انتظامیہ کو افغان پالیسی کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس پر وائٹ ہاؤس نے برہم ہوکر جنرل موصوف کو افغانستان میں اتحادی کمانڈر کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ جنرل میک کرسٹل کی برطرفی کے چند روز بعد ہی برطانوی آرمی چیف کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آیا کہ افغانستان میں طالبان سے مزاکرات کا یہ بہترین وقت ہے۔ ان بیانات کی روشنی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2002 سے افعانستان میں آگ وخون کا کھیل کھیلنے والے اتحادیوں کے حوصلے کس حد تک پست ہو چکے ہیں۔

2011ء

دو ہزار گیارہ میں اگست کا مہینہ یہاں بر سر پیکار امریکی افواج کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوا جس میں اس کو مشرقی افغانستان کی تنگی وادی (جو کابل سے تفریبا ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) میں ایک ناکام آپریشن کے دوران میں اپنے 31 مایہ ناز نیوی کمانڈو اور ایک بیش قیمت چینوک نامی جنگی ہیلی کاپٹر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ کچھ جرائد کے مطابق یہ نیوی کمانڈوز کی وہی ٹیم تھی جس نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی تھی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس امریکی ہیلی کاپٹر کو کسی میزائل سے نشانہ بنایا گيا۔ طالبان جنگجوؤں کے پاس اس قسم کے ہتھیاروں کی موجودگی سے اتحادی افواج میں سخت سراسیمگی پھیل گئی تھی۔

عالم اسلام پر اثرات

تحریک طالبان کے عالم اسلام پر مثبت مرتب ہوئے۔ عالمی جہادی تحریکوں کا طالبان سے خاصی تقویت ملی جن میں القاعدہ سرفہرست ہے۔ کشمیر میں سرگرم جہادی تحریکوں کو بھی طالبان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ شرعی قوانین کے نفاذ سے جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و امان قائم ہو گیا تھا۔ طالبان حکومت کے گورنروں اور وزراء کی نہایت سادہ طرز زندگی ایک روشن مثال تھی جن کو بغیر کسی پروٹوکول کے اکثر سائیکلوں پر گھومتے دیکھا جا سکتا تھا یہ صورت حال خاص کر دیگر ممالک کے حکمرانوں کے لیے ناقابل قبول تھی جن کے وزیر اعظم اور صدور کے ہمراہ درجنوں گاڑیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار سفر کرتے ہیں اور جن کے عالیشان محلات کے محض ایک روز کے اخراجات ایک کروڑ تک پہنچ جاتے ہیں۔

20 ویں صدی کی ایک باقاعدہ اسلامی حکومت کے قیام عمل میں آنے سے عالم اسلام کے اکثر ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں ۔

افغان جہاد کی اہم شخصیات

حوالہ جات

  1. ^ ا ب "Did you know that there are two different Taliban groups?"۔ www.digitaljournal.com۔ 1 اپریل 2013 
  2. Deobandi Islam: The Religion of the Taliban U. S. Navy Chaplain Corps, 15 اکتوبر 2001
  3. Maley، William (2001)۔ Fundamentalism Reborn? Afghanistan and the Taliban۔ C Hurst & Co۔ ص 14۔ ISBN:978-1-85065-360-8
  4. "Taliban – Oxford Islamic Studies Online"۔ www.oxfordislamicstudies.com۔ 12 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 فروری 2020 
  5. Rashid, Taliban (2000)
  6. "Why are Customary Pashtun Laws and Ethics Causes for Concern? | Center for Strategic and International Studies"۔ Csis.org۔ 19 اکتوبر 2010۔ 9 نومبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2014 
  7. "Understanding taliban through the prism of Pashtunwali code"۔ CF2R۔ 30 نومبر 2013۔ 10 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2014 
  8. "Afghan Taliban"۔ National Counterterrorism Center۔ 9 مئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اپریل 2015 
  9. Giustozzi، Antonio (2009)۔ Decoding the new Taliban: insights from the Afghan field۔ Columbia University Press۔ ص 249۔ ISBN:978-0-231-70112-9
  10. Clements، Frank A. (2003)۔ Conflict in Afghanistan: An Encyclopedia (Roots of Modern Conflict)۔ ABC-CLIO۔ ص 219۔ ISBN:978-1-85109-402-8
  11. "The Non-Pashtun Taleban of the North: A case study from Badakhshan – Afghanistan Analysts Network"۔ www.Afghanistan-Analysts.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2018 
  12. "Quetta – The Headquarters of the Afghan Taliban"۔ United States: Combating Terrorism Center at Westpoint۔ 15 مئی 2009۔ 11 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 فروری 2016 
  13. Susanne Koelbl (24 نومبر 2006)۔ "Pakistan: Headquarters of the Taliban"۔ Spiegel Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2018 
  14. "Quetta appears to be Taliban headquarters: Holbrooke"۔ Thaindian.com۔ 11 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2018 
  15. Billy Briggs (13 اکتوبر 2015)۔ "The Peshawar women fighting the Taliban: 'We cannot trust anyone'"۔ the Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2018 
  16. "Taliban and the Northern Alliance"۔ US Gov Info۔ About.com۔ 01 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2009 
  17. 9/11 seven years later: US 'safe,' South Asia in turmoil آرکائیو شدہ 10 جنوری 2015 بذریعہ وے بیک مشین۔ Retrieved 24 اگست 2010.
  18. Fiona Hamilton، Sam Coates، Michael Savage (3 مارچ 2010)۔ "MajorGeneral Richard Barrons puts Taleban fighter numbers at 36000"۔ The Times۔ London۔ 29 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اپریل 2012 
  19. "Despite Massive Taliban Death Toll No Drop in Insurgency"۔ Voice of America۔ Akmal Dawi۔ 3 جولائی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2014 
  20. "The Taliban – Mapping Militant Organizations"۔ web.stanford.edu۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2019 
  21. "Taliban Leader Feared Pakistan Before He Was Killed"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 9 اگست 2017 
  22. "Qatar's Dirty Hands"۔ National Review۔ اگست 3, 2017 
  23. "Saudi has evidence Qatar supports Taliban: Envoy"۔ Pajhwok Afghan News۔ اگست 7, 2017 
  24. ^ ا ب "Why did Saudi Arabia and Qatar, allies of the US, continue to fund the Taliban after the 2001 war?"۔ scroll.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2018 
  25. "Iranian Support for Taliban Alarms Afghan Officials"۔ Middle East Institute۔ 9 جنوری 2017۔ Both Tehran and the Taliban denied cooperation during the first decade after the US intervention, but the unholy alliance is no longer a secret and the two sides now unapologetically admit and publicize it. 
  26. "Iran Backs Taliban With Cash and Arms"۔ The Wall Street Journal۔ 11 جون 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جون 2015 
  27. Andrew Small (23 اگست 2015)۔ "China's Man in the Taliban"۔ فارن پالیسی (رسالہ) Argument۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2019 
  28. Paul Danahar (3 ستمبر 2007)۔ "Taleban 'getting Chinese arms'"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2019 
  29. "Is Russia arming the Afghan Taliban?"۔ BBC 
  30. Samuel Ramani, The Diplomat۔ "What's Behind Saudi Arabia's Turn Away From the Taliban?"۔ The Diplomat 
  31. "Afghan militant fighters 'may join Islamic State'"۔ BBC News۔ 2 ستمبر 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ 2017 
  32. "Afghanistan: Ghani, Hekmatyar sign peace deal"۔ Al Jazeera۔ 29 ستمبر 2016 
  33. Saleem Mehsud۔ "Pakistan: A dangerous alliance?"۔ www.AlJazeera.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2018 
  34. Bill Roggio and Caleb Weiss (14 جون 2016)۔ "Islamic Movement of Uzbekistan faction emerges after group's collapse"۔ Long War Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2017 
  35. "Taliban attack NATO base in Afghanistan – Central & South Asia"۔ Al Jazeera English۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2014 
  36. "ISIS reportedly moves into Afghanistan, is even fighting Taliban"۔ 12 جنوری 2015۔ 13 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2015 
  37. "ISIS, Taliban announced Jihad against each other"۔ Khaama Press۔ 20 اپریل 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2015 
  38. "Taliban leader: allegiance to ISIS 'haram'"۔ Rudaw۔ 13 اپریل 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2015 
  39. ^ ا ب "Afghanistan's warlord vice-president spoiling for a fight with the Taliban"۔ The Guardian۔ 4 اگست 2015 
  40. Ibrahimi, Niamatullah. 2009. "Divide and Rule: State Penetration in Hazarajat (Afghanistan) from Monarchy to the Taliban"، Crisis States Working Papers (Series 2) 42, London: Crisis States Research Centre, LSE
  41. برطانوی مصنف پیٹرمارسڈن کی کتاب طالبان، افحانستان میں جنگ، مذہب اور نیا نظام
  42. کرسٹینا لیمب، امریکی صحافی کی کتاب، طالبان کا افغانستان