افغانستان

ایشیا کا ایک ملک جو پاکستان کے مغرب اور ایران کے شمال میں واقع ہے

اَفْغانِسْتان، سرکاری طور پر اِسْلامی اِمارَتِ اَفْغانِسْتان (دری/پشتو: افغانستان، تلفظ: [avɣɒnesˈtɒn]) وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے۔[13] [14][15][16]اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں کرغیزستان، ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ (99 فیصد) مسلمان ہیں اور ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، انگریزوں، روسیوں اور امریکا کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں یہ ابھرا۔ اگرچہ بعد میں درانی سلطنت کے کافی حصے اردگرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔

اِسْلامی اِمارَتِ اَفْغانِسْتان
د افغانستان اسلامي امارت

امارت اسلامی افغانستان
پرچم افغانستان
امارتِ اسلامی افغانستان کا قومی نشان of افغانستان
شعار: 
ترانہ: 
دار الحکومتکابل
33°N 66°E / 33°N 66°E / 33; 66[1]
سرکاری زبانیںپشتو
دری
نسلی گروہ
مذہب
آبادی کا نامافغان[ا][5][6]
حکومتشوریٰ کے تحت اسلامی وحدانی عبوری حکومت
ہیبت اللہ اخوندزادہ
محمد حسن اخوند (قائم مقام)
• اول نائب وزیر اعظم
عبدالغنی برادر (قائم مقام)
• دوم نائب وزیر اعظم
عبد الاسلام حنفی (قائم مقام)
• سوم نائب وزیر اعظم
عبدالکبیر (قائم مقام)
تشکیل
1709
1747
1823
• اعلانِ آزادی
برطانیہ کے رسوخ سے
8 اگست 1919ء
19 اگست 1919ء
9 جون1926
17 جولائی1973
7 ستمبر1996
26 جنوری2004
15 اگست2021
19 اگست 2021
رقبہ
• کل
652,864[7] کلومیٹر2 (252,072 مربع میل) (40واں)
• پانی (%)
نہ ہونے کے برابر
آبادی
• 2020 تخمینہ
31,390,200[8] (44واں)
• کثافت
48.08/کلو میٹر2 (124.5/مربع میل) (174واں)
جی ڈی پی (پی پی پی)2018 تخمینہ
• کل
$72.911 بلین[9] (96واں)
• فی کس
$2,024[9] (169واں)
جی ڈی پی (برائے نام)2018 تخمینہ
• کل
$21.657 بلین[9] (111واں)
• فی کس
$493[9] (177واں)
جینی (2008)Positive decrease 27.8[10]
low · پہلا
ایچ ڈی آئی (2019)Increase 0.511[11]
لو · 169واں
کرنسیافغانی (AFN)
منطقۂ وقتیو ٹی سی+4:30 شمسی تقویم (D†)
ڈرائیونگ سائیڈدائیں
کالنگ کوڈ+93
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈیAf. افغانستان۔

1919ء میں شاہ امان اللہ خان کی قیادت میں، انگریزوں کے ساتھ بین الاقوامی طرز پر کیے گئے خارجہ پالیسی کے معاہدے کو مسترد کر دیا۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک آزاد ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ 11 ستمبر کے واقعے کو بنیاد بنا کر امریکا نے طالبان پر جنگ مسلط کردی اور طالبان حکومت (امارت اسلامیہ افغانستان) کو گرادیا لیکن 20 سال بعد امریکا کو طویل تباہ کن جنگ کے بعد افغانستان سے نکلنا پڑا۔ بظاہر امریکا کی کٹھ پتلی حکومت (اسلامی جمہوریہ افغانستان کے نام سے) 15 اگست 2021ء تک قائم رہی لیکن کابل پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی اس حکومت کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔

تاریخ

ترمیم

قبل اسلام

ترمیم
فائل:Shapur i.jpg
فارس کے بادشاہ شاپور اول کا سکہ۔ زمانہ: تیسری صدی عیسوی

افغانستان میں پچاس ہزار سال پہلے بھی انسانی آبادی موجود تھی اور اس کی زراعت بھی دنیا کی اولین زراعت میں شامل ہوتی ہے۔[17] سن 2000 قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا۔ پھر ایرانیوں نے ان سے چھین لیا۔ اس کے بعد یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ 329 قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکندر اعظم نے چھین لیے جس میں بلخ بھی شامل ہے مگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔

سکندر اعظم کے مختصر قبضے کے بعد، سلیوسیڈ سلطنت کی جانشین ریاست نے 305 قبل مسیح تک اس علاقے پر حکومت کی یہاں تک کہ انھوں نے اس کا زیادہ تر حصہ موریہ سلطنت کو ایک اتحاد کے معاہدے کے حصے کے طور پر دے دیا۔ موریوں نے ہندو کش کے جنوب کے علاقے پر کنٹرول کیا یہاں تک کہ تقریباً 185 قبل مسیح میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ان کا زوال اشوک کی حکمرانی کے ختم ہونے کے 60 سال بعد شروع ہوا، جس کے نتیجے میں یونانی-بختاریوں نے اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا مگر اس کا بیشتر حصہ جلد ہی ٹوٹ گیا اور یہ ہند۔یونانی بادشاہت کا حصہ بن گیا۔ دوسری صدی قبل مسیح کے اواخر میں ان کو ہند-سیتھیوں نے شکست دی اور نکال باہر کیا۔ شاہراہ ریشم پہلی صدی قبل مسیح کے دوران نمودار ہوئی اور افغانستان نے اس کے ذریعے ہونے والی چین، ہندوستان، فارس اور شمال میں موجودہ ازبکستان کے شہروں بخارا، سمرقند اور خیوا کے راستے تجارت کے ساتھ ترقی کی۔ اس کے مرکزی مقام پر اشیا اور خیالات کا تبادلہ ہوا، جیسے چینی ریشم، فارسی چاندی اور رومن سونا، جبکہ موجودہ افغانستان کا خطہ خاص طور پر بدخشاں کے علاقے سے لعل بدخشاں کی کان کنی اور تجارت کر رہا تھا۔ پہلی صدی قبل مسیح کے دوران، پارتھین سلطنت نے اس علاقے کو اپنے زیر تسلط کر لیا لیکن بعد میں ہند-پارتھیائی مقامی حکمرانوں نے اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی۔ پہلی صدی عیسوی کے وسط سے آخر تک افغانستان میں مرکوز وسیع کشان سلطنت بدھ مت کی ثقافت کی عظیم سرپرست بن گئی، جس سے پورے خطے میں بدھ مت کو فروغ ملا۔ تیسری صدی عیسوی میں ساسانیوں نے کشانوں کا تختہ الٹ دیا تھا، پھر بھی ہند-ساسانی علاقے کے کچھ حصوں پر حکومت کرتے رہے۔ ان کے بعد کیدارائیوں کا قبضہ ہو گیا اور بعد میں ان کی جگہ ہفتالیوں نے لے لی۔ ساتویں صدی میں ان کی جگہ ترک شاہی نے لے لی۔ 870ء میں صفاریوں کے اس علاقے کو فتح کرنے سے پہلے کابل کی بدھ ترک شاہی کی جگہ ایک ہندو خاندان نے لے لی، اس ہندو خاندان کو ہندو شاہی کہا جاتا تھا۔ ملک کے بیشتر شمال مشرقی اور جنوبی علاقوں پر بدھ ثقافت کا غلبہ رہا۔

642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاً فوقتاً یونانیوں، سیتھیوں،ہنوں، منگولوں، ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا۔ جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل تھے۔ اسلام سے پہلے یہاں کے لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔

اسلامی دور احمد شاہ درانی (ابدالی) تک (642ء سے 1747ء)

ترمیم
 
شہنشاہ بابر جس نے کابل کو دار الحکومت بنایا

642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں ہی کو بنایا۔ پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں، 642 عیسوی میں، اسلامی فوجیں ہرات اور زرنج میں اسلام لائیں اور اسلام مشرق کی طرف پھیلنا شروع ہوا۔ مقامی باشندوں نے اسلام قبول کر لیا جبکہ کچھ علاقوں نے بغاوت کی۔ زنبیل اور کابل شاہی کو پہلی بار 870 عیسوی میں زرنج کے صفاری مسلمانوں نے فتح کیا۔ بعد میں، سامانیوں نے ہندوکش کے جنوب میں اپنا اسلامی اثر و رسوخ بڑھایا۔ غزنویوں نے 10ویں صدی میں اقتدار حاصل کیا۔ 11ویں صدی تک، غزنی کے محمود نے بقیہ ہندو حکمرانوں کو شکست دی اور کافرستان کو چھوڑ کر وسیع علاقے کو مؤثر طریقے سے اسلامی بنایا۔ محمود نے غزنی کو ایک اہم شہر بنایا اور مورخ البیرونی اور شاعر فردوسی جیسے دانشوروں کی سرپرستی کی۔ غزنوی خاندان کو 1186ء میں غوریوں نے ختم کر دیا، جن کی تعمیراتی کامیابیوں میں جم کا مینار شامل تھا۔ غوریوں نے 1215ء میں خوارزم شاہی خاندان کی فتح پہلے ایک صدی سے بھی کم عرصے میں افغانستان کو کنٹرول کیا۔

998ء میں محمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ غوریوں نے 1146ء میں غزنویوں کو شکست دی۔ اور انھیں غزنی کے علاقے تک محدود کر دیا۔ یہ سب مسلمان تھے مگر 1219ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ھرات، غزنی اور بلخ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے حتیٰ کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دار الحکومت قرار دیا۔ سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔ شمالی حصہ پر ازبک، مغربی حصے (ھرات سمیت) پر ایرانی صفویوں اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔ 1709ء میں پشتونوں نے میرویس خان هوتک کی قیادت میں صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہان پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1729ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتیٰ کہ 1738ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کر لیا۔ جو 1747ء تک جاری رہا۔ پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ دونوں مسلمان ہیں۔

درانی سلطنت ( 1747ء سے 1823ء)

ترمیم
فائل:Px-Kandahar fourthcity durrani.jpg
قندھار کی ایک پینٹنگ (1848ء) جس میں احمد شاہ کا مقبرہ بھی ہے اوراحمد شاہ کا تعمیر کردہ قندھار کا قلعہ بھی

احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ احمد شاہ درانی کو احمد شاہ ابدالی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جون 1747ء میں نادر شاہ قتل ہو گیا جس کے بعد لویہ جرگہ نے ابدالی قبیلہ کے احمد شاہ درانی کو سربراہ چن لیا۔ پہلے قندھار میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احمد شاہ درانی نے تمام تر قوت افغانستان کو ایک ملک بنانے پر صرف کی۔ درانی سلطنت میں موجودہ ایران، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے کچھ علاقے شامل تھے۔ اس کی سلطنت میں ایران کے شہر مشہد سے لے کر کشمیر اور موجودہ بھارت کے شہر دہلی تک کے علاقے شامل تھے۔ احمد شاہ درانی کا ایک اہم کارنامہ جنوری 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دینا تھا۔ لیکن اس جنگ کے بعد سکھوں نے پنجاب میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ پنجاب کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اس وقت تک افغانستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ 1772ء تک احمد شاہ درانی اور اس کے بعد اس کی اولاد کی حکومت رہی۔ اس کی اولاد میں ایوب شاہ کو 1823ء میں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کابل کی حکومت محمد شاہ اور پھر 1826ء میں دوست محمد خان کے پاس چلی گئی۔

یورپی اثر (1823ء-1919ء)

ترمیم
 
امیر حبیب اللہ خان

امیر دوست محمد خان، جس نے کابل کی حکومت 1826ء میں سنبھال لی تھی، نے روس اور ایران سے تعلقات بڑھانا شروع کیے کیونکہ سکھوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا تھا اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے سکھوں اور دہلی کے شاہ شجاع کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثر پڑھانا شروع کیا حالانکہ دونوں انگریزوں کے بظاہر دشمن تھے۔ شاہ شجاع کو انگریزوں نے کابل کے تخت کے سبز باغ دکھائے۔ اس زمانے میں روس اور برطانوی ھند میں کئی ہزار میل کا فاصلہ تھا اور وسطی ایشیاء کے شہروں مرو، خیوا، بخارا اور تاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو ”عظیم چالبازی“(The Great Game) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[18] اس سلسلے میں انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ ( 1839ء-1842ء) کے دوران میں اس وقت ہوئی جب ایرانیوں نے ہرات کے لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے اپنی افواج پورے ملک میں روانہ کیں۔ انگریزوں نے کابل پر قبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کر دیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ صرف ایک شخص زندہ بچا۔ انگریز مدتوں اپنے زخم چاٹتے رہے۔ اسی وجہ سے مجبوراً انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا۔ بعد میں دوست محمد خان نے ہرات کو بھی فتح کر لیا۔ دوسری جنگ (1878ء-1880ء) اس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہ دی۔ اس جنگ کے بعد انگریزوں کے ایما پر 1880ء میں امیر عبدالرحمٰن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عملاً کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔

اسی اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے تعین کا معاہدہ بھی کیا۔ امیر عبدالرحمٰن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا ہوا تھا۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ہند کا دورہ بھی کیا۔ اسی مغرب دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے 20 فروری 1919ء کو قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ مگر 19 اگست 1919ء کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان میں راولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور یوں افغانستان میں ان کا اثر تقریباً ختم ہو گیا۔ 19 اگست 1919ء کو اسی وجہ سے افغانستان کے یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

آزادی کے بعد (1919ء-1978ء)

ترمیم
 
امان اللہ خان

امان اللہ خان (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ اس نے 1921ء میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی تربیت ترکی اور فرانس سے کروائی گئی۔ 1927ء میں امان اللہ خان نے یورپ اور ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں اس نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگر جب اس نے کمال اتاترک کی طرز پر پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور افغان اس کے سخت خلاف ہو گئے۔ شنواری قبائل نے نومبر 1928ء میں جلال آباد سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان اللہ خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ اور بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960ء میں وفات پائی۔ اس بغاوت کے دوران جنوری 1929ء میں حبیب اللہ کلاکانی عرف بچہ سقا نے کابل پر قبضہ کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر 1929ء میں جنرل نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر بچہ سقا فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جنھوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ہزار افراد کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نے قرآن کو ضامن بنا کر بچہ سقا کو پناہ اور معافی دی مگر جب وہ کابل آیا تو اسے قتل کروا دیا۔[19]
نادر خان (دورِ اقتدار: 1929ء- 1933ء ) جو امان اللہ خان کا رشتہ دار تھا اس نے نادر شاہ کے نام سے 1929ء میں افغانستان کا تخت سنبھالا۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے اسے قتل کر دیا جس کے بعد اس کے انیس سالہ بیٹا ظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ (دورِ اقتدار: 1933ء-1973ء ) نے چالیس سال تک افغانستان پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مدد سے اس نے حکومت کی۔ جن میں سے ایک سردار محمد داؤد خان (المعروف سردار داؤد) تھا جو اس کا قریبی رشتہ دار تھا۔ سردار داؤد نے روس اور بھارت سے تعلقات بڑھائے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں استعفی دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد (دورِصدارت: 1973ء-1978ء) نے دس سال بعد 17 جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کو روس (اس وقت سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔ ظاہر شاہ فرار ہو کر اطالیہ چلا گیا۔ 27 اپریل 1978ء کو سردار داؤد کو ایک اور بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔ اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ اس حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر فوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا۔ روس کی یہ کامیابی امریکا کو کبھی پسند نہیں آئی چنانچہ سی آئی اے (CIA) نے اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجتاً 1979ء میں روس نے افغانستان کی حکومت کی دعوت پر افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور عملاً افغانستان پر اسی طرح روس کا قبضہ ہو گیا جس طرح سن 2002 ء سے 2021ء تک امریکا کا قبضہ تھا۔

روسی قبضہ اور جہاد

ترمیم
 
کابل میں صدارتی محل اپریل 1978ء مارکسی انقلاب کے بعد ایک دن

روس کی کمیونسٹ پارٹی نے کمال اتا ترک کی طرز پر غیر اسلامی نظریات کی ترویج کی مثلاً پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ یہ تبدیلیاں افغانی معاشرہ سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ افغانستان میں حالات جب بہت خراب ہو گئے تو افغانی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر روس نے اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔ 25 دسمبر، 1979ء کو روسی فوج کابل میں داخل ہو گئی۔ افغانستان میں مجاہدین نے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ امریکا نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی مگر امریکا کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ روس کے خلاف ایک قوت کو مضبوط کرنا تھا۔ امریکا کو پاکستان کو بھی ساتھ ملانا پڑا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکا نے روس کے خلاف استعمال کیا۔ افغان مجاہدین اسلام سے مخلص تھے مگر امریکا انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مگر جب امریکا کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہی مجاہدین امریکی اور پاکستانی زبان میں دہشت گرد کہلانے لگے۔ امریکی سی آئی اے، پاکستان، امریکا اور سعودی عرب نے اس دوران میں اپنا اپنا کردار ادا کیا جس میں ان ممالک کے کچھ مفادات مشترک تھے اور کچھ ذاتی۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو 1989ء میں مکمل طور پر افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ اس سلسلے میں روس، افغانستان اور پاکستان کے درمیان میں 1988ء میں جنیوا معاہدہ ہوا تھا۔

روسیوں کے بعد

ترمیم
 
1993ء کی خانہ جنگی کے دوران میں کابل

روس نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی مگر 18 اپریل، 1992ء کو مجاہدین کے ایک گروہ نے جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان کو اسلامی ریاست بنانے کا اعلان کر دیا۔ مگر امریکا نے اسلحہ کی مدد سے مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان میں اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع کرادی۔ اس وقت ایک اسلامی جہادی کونسل بنائی گئی جس کی قیادت پہلے صبغت اللہ مجددی اور بعد میں برہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بیرونی طاقتوں نے پشتو اور فارسی بولنے والوں کی باہمی منافرت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت کی حکومت میں پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ان میں شدید احساسِ محرومی پیدا ہوا۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبہ کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میں طالبان کہا جانے لگا۔ پاکستانی فوج کے جنرل نصیر اللہ بابر طلبہ کو استعمال کرنے کے خیال کے بانی تھے۔ 1996ء میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے کابل پر قبضہ کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسلامی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر المومنین تسلیم کر لیا۔ طالبان نے 2000ء تک افغانستان کے 95 فیصد علاقے پر قبضہ کر کے ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ اس زمانے میں افغانستان میں نسبتاً امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان کو بجز پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کسی نے تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتحاد کی مدد جاری رکھی جو افغانستان کے شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسلامی حکومت مغربی دنیا اور بھارت کو ہرگز قبول نہ تھی۔ یاد رہے کہ طالبان سے پہلے بھارت کو افغانستان میں خاصا عمل دخل تھا۔ طالبان کے دور میں پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑھ گیا اور 50 سال میں پہلی دفعہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک طرح سے دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکا کی مدد کر کے نہ صرف طالبان کا اعتماد کھویا بلکہ ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی۔

امریکی(نیٹو) قبضہ

ترمیم
 
امریکی سپاہی اینڈریو ہولمز ایک غریب افغان کسان کے بیٹے کو قتل کرتے ہوئے

طالبان کے دور میں کچھ ایسے لوگوں نے افغانستان میں اپنے اڈے بنائے جو پہلے امریکا کے منظورِ نظر تھے مگر جب امریکا کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہ یکایک امریکا کی نظر میں دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان میں اسامہ بن لادن اور اس کے حواری شامل تھے۔ جو افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں سرگرم تھے۔ 11 ستمبر 2001ء کے عالمی تجارتی مرکز ( ورلڈ ٹریڈ سنٹر) کے حادثے کا الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر لگایا گیا۔ ان لوگوں کو طالبان نے پناہ دے رکھی تھی اور افغانی روایات کے مطابق انھیں دشمن کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس بہانے 7 اکتوبر، 2001ء کو امریکا نے افغانستان پر پاکستان کی مدد سے حملہ کر دیا اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ امریکا نے بعد میں عراق پر بھی قبضہ کیا جس سے سوچا جا سکتا ہے کہ ایک تو اس نے عراق پر حملہ سے پہلے افغانستان میں ایسی حکومت کو ختم کیا جہاں سے ممکنہ مدد عراق کو جہاد کے نام پر مل سکتی تھی۔ دوسرے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے اور پاکستان کو دباؤ میں رکھ کر امریکا نے ایران اور کسی حد تک اسلام کے مرکز سعودی عرب کو گھیرے میں لے لیا۔ خلیج فارس میں اتنی زیادہ امریکی بحری طاقت قائم ہو گئی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی ایما پر جرمنی کے شہر بون میں ایک افغانی حکومت کا قیام عمل میں آیا جس کے سربراہ حامد کرزئی تھے۔ 9 اکتوبر، 2004ء کو حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر چن لیا گیا۔ حامد کرزئی اور بعد میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت میں افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج موجود رہے جو افغانستان کے اصل حاکم تھے۔ بھارت کا اثرو رسوخ افغانستان میں بہت زیادہ ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ بھارت اور امریکا پاکستان کے صوبے بلوچستان جیسے علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کو خوب فروغ دے رہے تھے۔

 
آخری امریکی فوجی 30 اگست 2021 افغانستان سے جاتے ہوئے

انیس سال تک جنگ میں ناکامی کے بعد امریکا نے طالبان سے 29 فروری 2020 کو دوحہ میں امن معاہدہ کر لیا جس کے مطابق تمام غیر ملکی افواج نے چودہ ماہ میں افغانستان سے انخلا کرنا تھا اور طالبان نے غیر ملکی افواج پر حملے بند کرنے تھے۔

امریکیوں کے بعد نئی طالبان حکومت

ترمیم

دوحہ معاہدے کے چودہ ماہ بعد کافی حد تک غیر ملکی افواج انخلا کرچکی تھی۔ یکم مئی 2021 کو طالبان نے کٹھ پتلی افغان حکومت کے خلاف ایک مسلح کارروائی شروع کی اور بمشکل ساڑھے تین ماہ میں بیشتر افغان علاقوں کو فتح کر لیا اور 15 اگست 2021ء کو طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے کابل دوبارہ فتح کر کے اسلامی امارت افغانستان کو بحال کر دیا۔ 30 اگست کو بقیہ غیر ملکی افواج بھی انخلا کرگئیں۔

17 اگست کو بقیہ افغان فوج اور حکومتی عہدے داروں نے صوبہ پنجشیر میں امراللہ صالح اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے حامد شاہ کی قیادت میں ایک حکومت قائم کی اور طالبان کے خلاف مسلح کارروائیوں کا آغاز کیا اور 6 ستمبر تک شکست کھا گئے جس کے بعد طالبان نے پنجشیر کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔

7 اکتوبر 2021ء کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے 33 ارکان پر مشتمل عبوری حکومت کا اعلان کیا اور ملا محمد حسن اخوند افغانستان کے عبوری وزیر اعظم مقرر کیے گئے۔[20]

جغرافیہ اور موسم

ترمیم
 
جغرافیائی نقشہ

افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت اسی لیے پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو، دریائے کابل، دریائے ہلمند اور ھریرود ہیں۔ اونچا ترین مقام نوشک ہے جو 24,557 فٹ بلند ہے اور ترچ میر کے بعد کوہ ہندوکش کا دوسرا اونچا پہاڑ ہے۔ سطح سمندر سے سب سے کم بلند علاقہ (پست ترین مقام) دریائے آمو ہے جو صرف 846 فٹ بلند ہے۔[21]
افغانستان کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ علاقہ (2,640 کلومیٹر) پاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ %12 علاقہ زراعت کے قابل ہے مگر صرف %0.22 علاقہ زیرِ کاشت ہے۔ چونکہ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے اس لیے زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔ افغانستان کے علاقے میں سونا، چاندی، کوئلہ، تانبا، کانسی، کرومائیٹ، جست، گندھک، لوہا، قیمتی پتھر اور نمک پائے جاتے ہیں۔ تیل کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔ یہ تمام قدرتی وسائل مسلسل جنگ کی وجہ سے کبھی استعمال نہیں ہو سکے۔ افغانستان کا موسم شدید ہے یعنی گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے مگر سردیاں زیادہ شدید ہیں۔ کابل میں دو سے تین ماہ برف پڑی رہتی ہے۔ جلال آباد اور اس سے نیچے کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ زیادہ بارشیں گرمیوں میں ہوتی ہیں جب برصغیر میں مون سون ہوتا ہے۔[21]

معیشت

ترمیم
 
انار کی ترسیل

افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریکا کی کشمکش اور اس علاقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے اور اسے معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس آنا شروع ہوئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ہنر سیکھنے کے مواقع بھی کم ہی ملے ہیں۔ افغانستان میں جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی انھیں جنگ نے مصروف رکھا۔ مجبوراً اسلحہ کی تجارت، جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی۔ ایک بڑی تعداد سمگلنگ سے بھی وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے علاوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق 2001ء کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں کوئی قابلِ اعتماد اعدادوشمار نہیں ملتے۔ البتہ افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے مثلاً 2005ء میں دبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کولا کا ایک پلانٹ افغانستان میں لگایا ہے۔ افغانستان کو ابھی غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور2006ء میں زرِ مبادلہ کے بیرونی ذخائر صرف پچاس کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ افراطِ زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہی ہے مگر اب حالات کچھ بہتر ہیں۔ 2003ء کے بعد 14 نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کابل کی ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکا ڈالر مہیا کیے گئے ہیں۔ افغانستان کئی بین الاقوامی اداروں کا رکن ہے اور حال ہی میں سارک (SAARC) کا رکن بھی بنا ہے۔ ایک اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس کا استعمال اور فروخت بڑے پیمانے پر شروع ہونے کی امید ہے۔

انتظامی تقسیم

ترمیم

افغانستان میں صوبے کو ولایت کہتے ہیں مثلاً ولایت بدخشان۔ افغانستان کو کل چونتیس ولایات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کے نام نیچے دیے گئے ہیں۔

  1. بدخشاں
  2. بادغیس
  3. بغلان
  4. بلخ
  5. بامیان
  6. دایکندی
  7. فراہ
  8. فاریاب
  9. غزنی
  10. غور
  11. ہلمند
  12. ہرات
  13. جوزجان
  14. کابل
  15. قندھار
  16. کاپیسا
  17. خوست

  1. کنڑ
  2. قندوز
  3. لغمان
  4. لوگر
  5. ننگرہار
  6. نیمروز
  7. نورستان
  8. اروزگان
  9. پکتیا
  10. پکتیکا
  11. پنجشیر
  12. پروان
  13. سمنگان
  14. سرپل
  15. تخار
  16. وردک
  17. زابل

فائل:Afghanistan Map Urdu.jpg
افغانستان کا نقشہ

مشہور شہر

ترمیم

افغانستان کے مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق آبادی کے حساب سے 2006ء میں افغانستان کے بارہ بڑے شہر درج ذیل ہیں۔ آبادی بھی ان کے ساتھ دی گئی ہے۔

ثقافت

ترمیم

تعطیلات اور تہوار

ترمیم

افغانستان کا سرکاری نیا سال نوروز سے شروع ہوتا ہے، جو ایک قدیم روایت ہے جو موجودہ ایران میں زرتشتی جشن کے طور پر شروع ہوئی تھی، اور جسے کئی دیگر ممالک کے ساتھ سالانہ جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ ہر سال بہار کے اعتدال پر ہوتا ہے۔ افغانستان میں، نوروز عام طور پر موسیقی اور رقص کے ساتھ منایا جاتا ہے، اور بزکشی کے ٹورنامنٹس بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔

یلدا، ایک اور قومی سطح پر منایا جانے والا قدیم تہوار، قدیم دیوی میتھرا کی یاد میں منایا جاتا ہے اور سال کی سب سے طویل رات کو مناتا ہے جو کہ سرمائی انقلاب کی شام (چلے زمستان؛ عام طور پر 20 یا 21 دسمبر کو) ہوتی ہے، جس دوران خاندان اکٹھے ہوتے ہیں، شاعری پڑھتے ہیں اور پھل کھاتے ہیں۔

افغانستان ایک غالب مسلم ملک ہونے کے ناطے، اسلامی تقریبات اور تہوار جیسے رمضان، عید الفطر اور عاشورہ ہر سال بڑے پیمانے پر منائے جاتے ہیں۔ سکھ برادری ویساکھی کا تہوار مناتی ہے اور ہندو برادری دیوالی کا تہوار مناتی ہے۔

قومی یوم آزادی 19 اگست کو منایا جاتا ہے تاکہ 1919 کے اینگلو-افغان معاہدے اور ملک کی مکمل آزادی کو یاد کیا جا سکے۔ افغانستان میں کئی بین الاقوامی تقریبات بھی سرکاری طور پر منائی جاتی ہیں، جیسے کہ یوم مزدور اور یوم خواتین۔ کچھ علاقائی تہواروں میں مزار شریف میں لال پھول کا تہوار (نوروز کے دوران) اور بامیان صوبے میں دمبورا تہوار شامل ہیں۔

کھیل

ترمیم

افغانستان میں کھیلوں کا انتظام افغان سپورٹس فیڈریشن کے زیر انتظام ہے۔ کرکٹ اور فٹبال ملک کے دو سب سے مقبول کھیل ہیں۔ افغان سپورٹس فیڈریشن کرکٹ، فٹبال، باسکٹ بال، والی بال، گالف، ہینڈ بال، باکسنگ، تائیکوانڈو، ویٹ لفٹنگ، باڈی بلڈنگ، ایتھلیٹکس، اسکیٹنگ، باؤلنگ، سنوکر، شطرنج اور دیگر کھیلوں کو فروغ دیتی ہے۔

افغانستان کی قومی باسکٹ بال ٹیم نے 2010 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں پہلی ٹیم کھیلوں کا ٹائٹل جیتا۔ 2012 میں، ملک کی 3x3 باسکٹ بال ٹیم نے 2012 کے ایشین بیچ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا۔ 2013 میں، افغانستان کی فٹبال ٹیم نے SAFF چیمپئن شپ جیت کر اس کی پیروی کی۔

افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم، جو 2001 میں تشکیل دی گئی تھی، نے 2009-10 آئی سی سی انٹرکانٹینینٹل کپ جیتا۔ اس نے 2007، 2009، 2011 اور 2013 میں اے سی سی ٹوئنٹی 20 کپ جیتا۔ ٹیم نے 2015، 2019، اور 2023 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں حصہ لیا۔ افغانستان کرکٹ بورڈ (اے سی بی) اس کھیل کا سرکاری انتظامی ادارہ ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر کابل میں ہے۔ الکوزئی کابل انٹرنیشنل کرکٹ گراؤنڈ ملک کا مرکزی کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔ ملک بھر میں کئی دیگر اسٹیڈیم بھی ہیں، جن میں جلال آباد کے قریب غازی امان اللہ خان انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم شامل ہے۔ ملکی سطح پر، کرکٹ مختلف صوبوں کی ٹیموں کے درمیان کھیلی جاتی ہے۔

افغانستان کی قومی فٹبال ٹیم 1941 سے بین الاقوامی فٹبال میں حصہ لے رہی ہے۔ قومی ٹیم اپنے ہوم میچز غازی اسٹیڈیم، کابل میں کھیلتی ہے، جبکہ افغانستان میں فٹبال کا انتظام افغانستان فٹبال فیڈریشن کے زیر انتظام ہے۔ قومی ٹیم نے کبھی فیفا ورلڈ کپ میں حصہ نہیں لیا یا کوالیفائی نہیں کیا، لیکن 2013 میں ایک بین الاقوامی فٹبال ٹرافی جیتی۔ ملک کی ایک قومی ٹیم فٹسال میں بھی ہے، جو فٹبال کا 5-اے-سائیڈ ورژن ہے۔

افغانستان کا روایتی اور قومی کھیل بزکشی ہے، جو خاص طور پر شمال میں مقبول ہے۔ یہ پولو سے ملتا جلتا ہے، جس میں دو ٹیموں کے گھڑ سوار ایک بکری کے مردہ جسم کو پکڑنے اور قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغان ہاؤنڈ (ایک قسم کا دوڑنے والا کتا) افغانستان میں پیدا ہوا اور بھیڑیوں کے شکار میں استعمال ہوتا تھا۔

اعداد و شمار

ترمیم

نسلیں

ترمیم

نسلاً لوگ پشتون، تاجک، ھزارہ، ایمک، ازبک، ترکی، بلوچی، کھوار زبان بولنے والی قوم کھو اور دیگر لوگ بھی آباد ہیں۔ دیگر لوگوں میں نورستانی، پشائی، براھوی وغیرہ شامل ہیں۔

افغانستان کے نسلی گروہ
نسلی گروہ تصویر کتاب حقائق عالم / کانگریس لائبریری ملکی مطالعہ تخمینہ (2004–تاحال)[22][23][24][25][2][26] کتاب حقائق عالم / کانگریس لائبریری ملکی مطالعہ تخمینہ (قبل-2004)[27][28][29][30]
پشتون   11% 45-50%
تاجک   20% 25% (اس میں ایک فیصد قزلباش ہیں)
ہزارہ   20% 10–19%
ازبک   9% 6–8%
ایماق 4% 500000 تا 800000
ترکمان 3% 2.5%
بلوچ   2% 100,000
دیگر (پاشایی، نورستانی، عرب، براہوی، پامیری، گرجر، وغیرہ)   4% 6.9%

زبانیں

ترمیم

افغانستان میں %64 لوگوں کی پشتو اور %14 لوگوں کی دري مادري زبان ہے اور باقی %20 فیصد لوگ ازبک، ترکمن، نورستانی، بلوچی وغیرہ بولتے ہیں۔[21] نورستانی اور بلوچی سمیت تیس کے قریب علاقائی زبانیں ہیں جو چار فی صد کے قریب لوگ بولتے ہیں۔ جنگ اور ہجرت کی وجہ سے افغانی اب اردو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں دو یا زیادہ زبانیں جاننا ایک عام بات ہے۔ پشتو بولنے والے لوگوں کے علاقے زیادہ تر پاکستانی سرحد سے قریب ہیں۔ یعنی ملک کے جنوب مشرق اور جنوب میں ہیں۔

مذاہب

ترمیم
افغانستان میں مذہب[31]
اہل سنت
  
84.7–89.7%
امامیہ
  
7–15%
اسماعیلیہ
  
4.5%
دیگر مذہب
  
0.5%

افغانستان کے %99 لوگ مسلمان ہیں جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایک لاکھ کے قریب ہندو اور سکھ بھی ہیں جو کابل، قندھار اور جلال آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔[32]

افغانستان تصویروں میں

ترمیم

تصویر کو بڑا کرنے کے لیے اس پر کلک کریں۔

فہرست متعلقہ مضامین افغانستان

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. [[[:سانچہ:Geonameslink]] Islamic Republic of Afghanistan] in [[[:سانچہ:Geonamesabout]] Geonames.org (cc-by)]
  2. ^ ا ب
  3. Dictionary.com. The American Heritage Dictionary of the English Language، Fourth Edition. Houghton Mifflin Company, 2004. Reference.com (اخذکردہ بتاریخ 13 نومبر 2007)۔
  4. Dictionary.com. WordNet 3.0. جامعہ پرنسٹن۔ Reference.com (اخذکردہ بتاریخ 13 نومبر 2007)۔ آرکائیو شدہ 28 مارچ 2014 بذریعہ وے بیک مشین
  5. "Constitution of Afghanistan"۔ 2004۔ 20 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2013 
  6. Afghan | meaning in the Cambridge English Dictionary۔ the Cambridge English Dictionary۔ ISBN 978-1-107-66015-1 
  7. Central Statistics Office Afghanistan
  8. Central Statistics Office Afghanistan, 2020.
  9. ^ ا ب پ ت "Afghanistan"۔ International Monetary Fund۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2018 
  10. "Gini Index"۔ World Bank۔ 11 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مارچ 2011 
  11. Human Development Report 2020 The Next Frontier: Human Development and the Anthropocene (PDF)۔ United Nations Development Programme۔ 15 دسمبر 2020۔ صفحہ: 343–346۔ ISBN 978-92-1-126442-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2020 
  12. https://twitter.com/AWahidRayan1/status/1461920926099034113?s=20
  13. /f/ ف /p/ پ۔ [b] /p/; [v] /f/۔
  14. "Afghanistan | history – geography"۔ Encyclopedia Britannica (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2018 
  15. افغانستان آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ encarta.msn.com (Error: unknown archive URL)، مائکروسوفٹ انکارٹا انسائیکلوپیڈیا 2006ء بزبان انگریزی
  16. انگریزوں کی عظیم چالبازیاں۔
  17. حبیب اللہ کلاکانی۔ انگریزی کتاب
  18. "ملا محمد حسن اخوند: افغانستان میں طالبان کا نئی عبوری حکومت، کابینہ اور پہلے پالیسی بیان کا اعلان"۔ بی بی سی اردو۔ بی بی سی 
  19. ^ ا ب پ "سی۔ آئی۔ اے ورلڈ فیکٹ بک۔ 2000"۔ 09 جولا‎ئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جون 2009 
  20. "Article Sixteen of the 2004 Constitution of Afghanistan"۔ 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2018۔ Pashtuns strength in Afghan parliament diminished  [مردہ ربط]
  21. "Pashto"۔ 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2018۔ Pashto 
  22. "Languages and Ethnic Groups of Afghanistan"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2018 
  23. "Information about people from Afghanistan" (PDF)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2018 
  24. "Ethnic groups"۔ The World Factbook۔ CIA۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2010 
  25. "Afghanistan"۔ The World Factbook/Central Intelligence Agency۔ یونیورسٹی آف مسوری۔ 15 اکتوبر 1991۔ 2011-04-27 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2011 
  26. "Ethnic divisions"۔ The World Factbook/CIA۔ یونیورسٹی آف مسوری۔ 22 جنوری 1993۔ 24 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2010 
  27. "Ethnic Groups"۔ Library of Congress Country Studies۔ 1997۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اکتوبر 2010 
  28. "Ethnic groups:"۔ The World Factbook/CIA۔ University of Missouri۔ 2003۔ 22 مئی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2010 
  29. http://gulf2000.columbia.edu/images/maps/Afghanistan_Religion_lg.png
  30. "انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا۔ انگریزی میں پی ڈی ایف فائل کی شکل میں" (PDF)۔ 21 ستمبر 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2006 

بیرونی روابط

ترمیم