زینب بنت علی

امام علی اور فاطمہ علیہم السلام کی بیٹی یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی
(زينب بنت علي سے رجوع مکرر)

زینب بنت علی (پیدائش: یکم اکتوبر 626ء– وفات: 29 مارچ 682ء) حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی بیٹی یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی تھیں۔ واقعہ کربلا کی سب سے نمایاں خاتون تھیں۔

زینب بنت علی

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 626ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 682ء (55–56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن روضہ زینب   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر عبداللہ بن جعفر [1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عون بن عبد اللہ بن جعفر [1]،  محمد بن عبد اللہ بن جعفر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علی بن ابی طالب [1]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ فاطمۃ الزہرا [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
دمشق میں سیدہ زینب بنت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کا مزار مبارک
مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اولادِ محمد

حضرت محمد کے بیٹے

قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم

حضرت محمد کی بیٹیاں

فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے

حسن _ حسین _ محسن

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹیاں

زینب _ ام کلثوم


القاب

تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں:

ثانیِ زہرا، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ہاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغری، محدثہ، زاہدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء

مختصر حالات

زینب سلام اللہ علیہا کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ جب وہ سات سال کی تھیں تو ان کے نانا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا۔ اس کے تقریباً تین ماہ بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی انتقال فرما گئیں۔ زینب سلام اللہ علیہا کی شادی عبداللہ بن جعفر طیار علیہ السلام سے ہوئی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے عون اور محمد کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہو گئے۔دیگر تین عبد اللہ ، عباس، ام کلثوم ہیں۔

سانحہ کربلا اور اس کے بعد

سانحۂ کربلا

خود زینب سلام اللہ علیہا کربلا میں موجود تھیں۔ واقعہ کربلا کے بعد زینب سلام اللہ علیہا کا کردار بہت اہم ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد وہ دمشق لے جائی گئیں جہاں یزید کے دربار میں دیا گیا ان کا خطبہ بہت مشہور ہے۔ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا۔

اے یزيد اگر چہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی۔ اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کر سکتا ہے کر لے۔ ہم اہل بیت پیغمبر (ص) سے دشمنی کے لیے تو جتنی بھی سازشیں کر سکتا ہے کر لے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہیں مٹا سکتا اور چراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا، خدا کی نفرین و لعنت ہو ظالموں اور ستمگروں پر۔

ان مظالم کو بیان کر کے جو یزید نے کربلا کے میدان میں اہل بیت رسول(ع) پر روا رکھے تھے؛ زینب (ع) نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہوگيا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کے ابتدا تھی۔

وفات

سیدہ زینب کا انتقال ہفتہ 15 رجب 62ھ/ 29 مارچ 682ء کو دمشق، موجودہ شام میں ہوا اور وہیں آپ کی تدفین کی گئی۔ آپ کی مدتِ حیات بوقت وفات57 سال 2 ماہ 10 دن قمری اور 55 سال 5 ماہ 28 دن شمسی تھی۔ آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔

دیکھیے

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ ت عنوان : Зайнаб бинт Али
  2. عنوان : Фатима бинт Мухаммад

بیرونی روابط