ساسانی سلطنت چوتھی ایرانی اور دوسری فارسی سلطنت تھی جو 226ء سے 651ء تک قائم رہی۔ ساسانی سلطنت کا بانی ارد شیر اول تھا جس نے پارتھیا کے آخری بادشاہ ارتبانوس چہارم کو شکست دے کر سلطنت کی بنیاد رکھی جبکہ آخری ساسانی شہنشاہ یزد گرد سوم (632ء تا 651ء) تھا جو دین اسلام کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے میں ناکام رہا اور ایران خلافت اسلامیہ کا حصہ بن گیا۔ یہ ایران میں اسلام آنے سے قبل آخری سلطنت تھی۔

ساسانی سلطنت
Ērānshahr
224–651
پرچم فارس
سیمرغ (شاہی نشان) of فارس
The Sasanian Empire at its greatest extent c. 620, under خسرو پرویز *   Normal domains *   Greatest temporary extent during Byzantine–Sasanian War of 602–628
The Sasanian Empire at its greatest extent c. 620, under خسرو پرویز
دار الحکومت
عمومی زبانیں
مذہب
حکومتجاگیردارانہ نظام
ساسانی سلطنت کے شہنشاہوں کی فہرست 
• 224–241
اردشیر بابکاں (اول) (first)
• 632–651
یزد گرد سوم (last)
تاریخی دورLate Antiquity
• 
28 اپریل 224
526–532
602–628
• Civil war
628–632
633–651
• 
651
رقبہ
5503,500,000 کلومیٹر2 (1,400,000 مربع میل)
ماقبل
مابعد
Parthian Empire
Indo-Scythians
Kingdom of Iberia (antiquity)
Kushan Empire
Kingdom of Armenia (antiquity)
Lakhmids
Aksumite Empire
Kingdom of Oman
Arsacid dynasty of Caucasian Albania
Margiana
Kingdom of Araba
Machelonia
Adiabene
Indo-Parthian Kingdom
Paratarajas
Khwarazm
Characene
Qarinvand dynasty
Zarmihrids
خلافت راشدہ
Dabuyid dynasty
Masmughans of Damavand
Bavand dynasty

ساسانی سلطنت موجودہ ایران، عراق، آرمینیا، افغانستان، ترکی اور شام کے مشرقی حصوں، پاکستان، قفقاز، وسط ایشیا اور عرب پر محیط تھی۔ خسرو ثانی (590ء تا 628ء) کے دور میں مصر، اردن، فلسطین اور لبنان بھی سلطنت میں شامل ہو گئے۔ ایرانی ساسانی سلطنت کو "ایران شہر" کہتے ہیں۔

تاریخ

ترمیم

ساسانیوں سے ایران کی تاریخ کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے، جو شاندار بھی ہے اور صیح معنوں میں تاریخی بھی۔ اس خاندان کی ابتدا ارد شیر اربکان سے ہوتی ہے، جس کے باپ کا نام بابک Papak اور دادا ساسان Sasana تھا۔ ساسان اصطخر کے ایک مندر کا پجاری تھا۔ اشکانی حکومت کے زمانے میں ایران بہت سی چھوٹی چھوٹی نیم آزاد ریاستوں میں مستقم تھا۔ ان میں ایک ریاست نسیایہ کی تھی، جس کے حکمران کو بازنگی Sasana کہتے تھے۔ ساسان کی بیوی ایک بازنگی امیر کی بیٹی تھی، بابک اسی کے بطن سے تھا۔ اشکانی حکومت کی کمزوری نیز اپنی مذہبی پیشوائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ساسان نے سیاسی طاقت حاصل کرنی شروع کی۔ بازنگی کی ریاست نے اسے یہ موقع فراہم کیا۔ چنانچہ ساسان کا بیٹا بابک بازنگی خاندان کو ختم کرکے خود امیر بن گیا۔ بابک کے بعد اردشیر Artaxerxes حاکم بنا، جو باپ داد سے بھی حوصلہ مند تھا۔ اس نے پہلے اشکانی حکمران اردوان پنجم Artabarus 5th کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے کرمان، اصفہان اور سوسہ کو اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ اردشیر اور اردوان کے درمیان میں دو جنگیں ہوئےں، پہلی جنگ تو بے نتیجہ رہی، مگر آخری جنگ میں اردوان مارا گیا اور اشکانی حکومت ختم ہو گئی۔ اردشیر نے مشرق میں پنجاب تک کے علاقے فتح کیے، پھر مغرب کی طرف توجہ دی اور جنوبی عراق پر قابض ہو گیا۔ شمالی عراق پر پیش قدمی صورت میں رومیوں سے جنگ ناگزیر تھی شاپورنے 271 میں وفات پائی، اس کے بعد اس کا بیٹا ھرمز حکمران ہوا۔ ہرمزدنے کل ایک سال حکومت کی، اس کے بعداس کا بھائی حکمران ہوا۔ بہرام کے عہد میں زرتشت کے ماننے والوں نے مانی پر لادینیت کا الزام لگایا، چنانچہ وہ بہرام کے حکم سے قتل ہوا، اس کے پیروں پرسختیاں ہوئیں، اس کے مذہب کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ 275ئ میں بہرام کی موت واقع ہو گئی، اس کے بعد اس کا بیٹا بہرام دوم تخت پر بیٹھا۔ بہرام عیش پسند حکمران تھا، اس کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سک قبیلے نے مشرق کی جانب حملہ کر دیا اور مغرب کی طرف سے رومی فوجیں طیفسون تک بڑھ آئیں، مگر خوش قسمتی سے قیصر داخلی سازوشوں کا شکار ہو کر مارا گیا اور رومی واپسی پر مجبور ہو گئے۔ بہرام نے سکوں کو خاطر خوا سزادی۔ بہرام دوم کے بعد اس کا بیٹا بہرام سوم تخت پر بیٹھا۔ مگر اس کی حکومت صرف چار ماہ رہی اور اس کے بعد اس کا بھائی نرسی بادشاہ ہوا۔بعد 297ئ رومیوں سے دوسری جنگ ہوئی اور ایرانی فوج نے شکست کھائی نرسی زخمی ہوا اور اس کے اہل و عیال گرفتار ہوئے۔ اسنے ڈب کر رومیوں سے صلح کرنی پڑی اور اسے پانچ صوبے رومیوں کے حوالے کرنے پڑے۔ آرمینا کی سرحد صوبہ ماد تک وسیع کردی گئی۔ اس صلح نامے نے ایرانی وقار کو سخت نقصان پہچایا، نیز ایرانی حکومت کا ایک بڑا حصہ رومیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ نرسی اس نقصان کی تلافی نہیں کرسکا اور چند سال کے بعد 103 میں تخت سے دست بردار ہو گیا۔ نرسی کی علیحدگی کے اس کے بیٹے ھرمز نے بادشاہ بن گیا۔ اس کے عہد میں عرب قبائل نے ایرانی مملکت پر حملے کیے۔ 310 میں ھرمز ان کے تذارک کے لیے گیا اور ایک جنگ میں مارا گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا آزر نرسی چند ماہ کے لیے بادشاہ بنا، لیکن داخلی سازشوںکا شکار ہو کر قتل ہوا۔ امرا نے ہرمزدکے نو مولود بیٹے کو بادشاہ منتخب کیا، جو شاپورکے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ماں کے پیٹ میں ہی بادشاہ بنا تھا۔ ایام طفلی میں اس کی ماں سلظنت کے فرئض انجام دیتی رہی، مگر حالات پر قابو نہ پاسکی، ملک کے مختلف حصوں میں بے امنی پھیل گئی، نیز عربوں کی شورشیں تیز تر ہوگئیں۔ سولہ سال کی عمر میں شاپورنے عنان حکومت ہاتھ میں لی اور سب سے پہلے اس نے عربوں کی سرکوبی کی۔ مشہور ہے اس نے عرب کے قیدیوں کے شانوں میں سوراخ کرکے اس میں رسیاں ڈلوادیں، اس لیے شاپور ذوالا کناف کے لقب سے مشہور ہوا۔ آرمینیا کے باشندے تیردار کی مذہب کی تبدیلی سے سخت ناخوش تھے، اس لیے انھوں نے شاپورسے مدد طلب کی اور اپنا الحاق ایران سے کر دیا۔ رومی حکومت صلح کی کی خواش کی۔ 356ئ میں شاپور نے صلح کے لیے شرط رکھی کہ جو علاقے رومیوں نے لیے تھے وہ واپس کیے جائیں، مگر رومی رضامند نہیں ہوئے۔ اس اثنائ میں قیصر روم کانسٹین ٹیوس کا انتقال ہو گیا اور جولیان Jolian بادشاہ ہو گیا۔ اس نے ایرانیوں سے جنگ چھیڑ دی، 364ئ میں وہ ایک بڑی فوج لے کر دریائے دجلہ فرات عبورکر کے طیسفون کی طرف بڑھا چلا آیا۔ مگر اس کی فوج کا بڑا پیچھے رہے گیا، علاوہ ازیں رسد میں کمی واقع ہوئی۔ اسی حالت میں ایرانیوں نے حملہ شروع کریئے اور افراتفری پھیل گئی، جنگ میں ایک نیزہ جولیان Jolian کو لگا وہ مر گیا۔ اس کے مرتے ہی رومی فوجیں پیچھے ہٹیں۔ اس مہم میں رومیوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا، وہ مزید جنگ جاری رکھنے کی ہمت نہیں کرسکے۔ چنانچہ جولیان کے جانشین جودیان Jovian نے ایران کی شرائط کلی طور پر مان لیں اور وہ تمام علاقے جو نرسی نے کھو دیے تھے، ایران کوواپس مل گئے اور آرمینا پر ایران کا تسلط تسلیم کرلیاگیا۔ اس طرح شاپورنے ایران کا وقار بلند کیا۔ یہی وجہ ہے وہ اعظم کے لقب سے یا کیا جاتا ہے۔ اس کامیابی کے تقریباََ سولہ سال کے بعد 379ئ نے وفات پائی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اردشیر دوم تخت نشین ہوا۔ اردشیر نے کل تین سال حکومت کی، اس کے بعد شاپور دوم کا دوسرا بیٹا شاپور سوم تخت پر بیٹھا۔ اس کے عہد میں آرمینا میں شورش پرپا ہوئی، رومیوں آرمینامیں زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ شاپور بھی تسہل اور امن پسند تھا، اس لیے آرمینا دوحصوں میں بٹ گیا اور دونوں حصوں میں اشکانی شہزادے حکمران تھے۔ مشرق کے وسیع حصے پر ایران کے زیراثر رہا اور مغربی حصہ پر رومی تسلط تسلیم کر لیا گیا۔ 388 میں شاپور نے وفات پائی اور اس کے بعد اس کا بیٹا بہرام چہارم حکمران بنا۔ اس کے عہد میں روم سے کشمکش ہو گئی مگر صلح ہو گئی۔ ایرانی فوج نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کی اور بہرام کو قتل کرکے شاپورکے بیٹے یزگرد اول تخت پر بیٹھادیا۔ یزگرد اول نے اپنے پیشرؤں کی پالیسی کے برعکس مسیحیوں سے رواداری برتی اور رومی حکومت سے دوستانہ تعلقات قئم کرنے کی کوشش کی، حلانکہ اس وقت رومی حکومت اتنی بدحواس تھی کہ وہ آسانی سے ایشائے کوچک پر قبضہ کر سکتا تھا۔ ہنوں نے یورپ میں تہلکہ مچارکھا تھا۔ ان کاسردار المارک Alaric 410 میں روم پر قابض ہو چکا تھا۔ مگر یزگردمسیحیوں کے خلاف جنگ پر راضی نہ ہوا، اس کے ہم مذہبوں نے اس کو عاسی کا خطاب دیا۔ 420 میں اس کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا بہرام پنجم تخت پر بیٹھا۔ بہرام گورBahram Gur کی پرورش ایک عرب سردار کے ہاں ہوئی تھی۔ باپ کی موت کے وہ ایران میں نہیں تھا۔ ایرانی امرائ نے یزگرد کے دوسرے بیٹے شاپور کو بیٹھانے کی کوشش کی، مگر اس اثنا میں بہرام ایران پہنچ گیا اور عرب سرداروں کی مدد سے تخت پر قبض ہو گیا۔ بہرام نے اپنے باپ کی پالیسی اتفاق نہ کیا اور مسیحیوں پر سختی برتنی شروع کی۔ اس پر روم نے ایران پر حملہ کر دیا، دوسال کے بعد صلح ہو گئی اور دونوں حکومتوں نے رواداری برتنے کا اعلان کیا۔ بہرام گور کے عہد میں ہنوں نے ایران پر حملہ کر دیا، بہرام نے نہایت مستعدی سے ان کا مقابلہ کیا اور انھیں ایسی شکست دی کہ بہرام کی زندگی میں انھوں نے ایران کا رخ نہیں کیا۔ بہرام کا انتقال 440 میں ہوا، اس کو ایک ماہر شکاری بتایا گیا ہے، اس کو گور کے شکار کا بہت شوق تھا، اس لیے اس کو بہرام گور کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے عدل و انصاف کی بھی تعریفیں کیں گئیں ہیں۔ بہرام کا لڑکا یزدگرد بادشاہ ہوا۔ اس نے معاہدے کا پاس نہ کرتے ہوئے مسیحیوں پر تشدد شروع کیا تو رومی حکومت نے جنگ چھیڑدی۔ مگر شکست کے بعد انھیں صلح کرنی پڑی۔ یزدگر کی موت کے بعد اس کے دو بیٹوں ہرمز اور فیروز کے درمیان میں تخت و تاج کی کشمکش شروع ہو ئی، اس وقت فیروز سیستان میں تھا اس لیے ہرمزد نے تخت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مگر دو سال کے اندر فیروزنے ہنوں کی مدد لی اور ھرمز پر چھڑائی کی اور اسے قتل کر دیا۔ فیروز نے ہرمزد کو قتل کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا، مگر فیروز کو سکون کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا، ہنوں نے مملکت کے مغربی حصہ کو تاراج کرکے اجاڑ دیا۔ 483 میں بلخ کے قریب فیروز اور ہنوںکی جنگ ہوئی، جس میں ایرانی فوج کو شکست ہوئی اور فیروز مارا گیا۔ فیروزکے قتل کے بعد یزدگرد کا تیسرا بیٹا بلاش تخت پر بیٹھا۔ آرمینامیں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، وہاں کی حکومت نے مسیحیت کو ملکی مذہب قرار دیا، جسے بلاش کو مجبوراََ منظور کرنا پڑا۔ اس لیے وہ سخت نامقبول ہو گیا۔ چنانچہ امرائ نے اسے تخت سے علحیدہ کرکے فیروز اول کے بیٹے قباد Kabad کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اس کی تخت نشینی کے وقت ملک کی سیاسی حالت بہت خراب تھی۔ مشرق کی جانب سے ہر وقت ہنوں کے حملے خدشہ لگا رہتا تھا۔ آرمینا کی شورش بھی جاری تھی۔ مذہبی رہنما اور امرائ سیاست پر حاوی تھے۔ بلاش کی کمزور حکمت عملی کی وجہ سے حکومت کا وقار گرگیا تھا۔ عین اسی زمانے میں ایک شخص مزدک نامی پیدا ہو ا۔ جس نے نیا مذہب جاری کیا اور اشمالیت و اشتراکت Communiam کی تبلیغ کی۔ اس کی تعلیم نے ملک کے اندر مزیدبے چینی پیدا کردی، ایسی حالت میں خزر قبیلے نے ایران پر یورشیں شروع کر دیں۔ اس کے بعد مذہبی رہنماؤں اور امرائ کی طاقت کو ٹورنے کے خیال سے ملک میں اشمالیت و اشتراکت رائج کرنے کی کوشش کی، مگر اسے کامیابی نہیںہوئی اور 498ئ میں خود ان کے ہاتھوں گرفتار ہوا، امرائ نے اسے قید کرکے اس کے بھائی کو جاماسب Zamap کو تخت پر بیٹھا دیا۔

جاماسب ابھی حالات پر قابو نہ پاسکا تھا کہ قباد قید سے نکل کر ہنوںکے پاس پہنچ گیا اور ان کی مدد سے تخت پر دوبارہ قابض ہو گیا۔ قباد کادوسرا دور بہت کامیاب ثابت ہوا، اس نے تخت حاصل کرنے کے بعد ہنوں اور رومیوں سے جنگ چھڑ دی۔ ہنوںسے جنگ کا سلسلہ دس سال تک جاری رہا، اس نے بے درپے شکست دے کر انھیں اتنا کمزور کردی کہ وہ سر نہیںاٹھا سکے۔ رومیوں کے مقابلے میں قباد کو کامیابی ہوئی، ابھی جنگ جاری تھی کہ اس کی وفات ہو گئی اور اس کا بیٹا خسرو حکمران بنا۔ خسرو جس کو عرب کسریٰ کہتے ہیں، خاندان ساسان کا سب سے نامور بادشاہ گذرا ہے۔ اس کے عہد میں نوشیرواں بھائیوں سے چھوتا تھا مگر قباد کا منظور نظر تھا۔ اس لٰٰے قبادنے جانشین بنایا تھا پھر بھی قباد کے دو بیٹوں کاؤس Kaoses اور جام Zames نے تخت کا دعویٰ کیا مگر ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ نوشیرواں نے انھیں بلکہ خاندان کے اکثر شہزادوں کو قتل کرادیا تاکہ سلطنت کا اور کوئی دعویٰ دار باقی نہ رہے۔ اس کے عہد تک مزدوکیت ملک کے اکثر حصوں تک پھیل گیا تھا، اس نے ملک میں بے چینی پیدا کردی تھی۔ نوشیرواں نے مذہبی رہنماؤں کو خوش کرنے کے خیال سے مزدوک اور اس کے ایک لاکھ پیروں کو قتل کرادیا۔ اس کار خیز کے بدلے اس کے ہم مذہبوں نے اسے عادل یا داد گرJists کا خطاب دیا۔ داخلی سیاست سے نجات پانے کے بعد نوشیرواںنے رومی سلطنت کی طرف توجہ کی اور 533 میں قیصر روم جسٹینین Justinion ایک معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدہ کے تحت رومی حکومت نے ایک بڑی رقم دینے کا وعدہ کیا، جس کے بدلے نوشیرواں نے دربند اور کوہ کاف کے دوسرے قلعوں کی حفاظت کی زمہ داری لی۔ مگر چند سال کے بعد ہی نوشیروان نے رومیوں سے جنگ چھیڑ دی۔ رومی حکومت ہنوز جنگ کے لیے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ اس نے تاوان جنگ اور بھاری خراج کی بھاری رقم پیش کرتے ہوئے صلح کرلی۔ مگر یہ صلح بھی زیادہ دیر پا نہیں ہوئی اور لازیکا Lazica کے مسئلہ پر جنگ چھڑگئی۔ یہ جنگ 562 میں ختم ہوئی، آخر میں چند شرائط پر صلح ہو گئی۔ یہ معاہدہ جو پجاس سال کے لیے ہوا تھا، اس میں ایران نے لازیکا سے دستبرداری کا اعلان کیا اور روم نے اس کے عوض تیس ہزار اشرفیاں سالنہ دینے کا وعدہ کیا تھا، نیز ایران نے یقین دلایا تھا کہ وہ مسیحیوں پر طلم نہیں کرے گا۔ مگر یہ صلح بھی دیر تک قائم نہیں رہے سکی۔ نوشیروان کے عہد کا دوسرا اہم واقعہ ترکوں کے متعلق ہے۔ اس وقت مشرقی ترکوں کا سردار ایل خانIl Khan تھا۔ نوشیروان نے ترکوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے اور اس کی مدد سے ہنوں پر حملے کیے۔ اس مقابلے میں ہنوں کو شکست ہوئی اور ان کا سردار ماراگیا۔ اس واقع کے بعد ایرانی سرحدیں دریائے جیحوں تک وسیع ہوگئیں اور اس کے بعد نوشیروان نے خزر قبائل پر فوج کشی کی اور ان کی طاقت کو بھی پارا پارا کر دیا۔ یمن پر حبشہ Abyssinian کی حکومت تھی جس نے قبضہ کر لیا۔ حبشی حاکم ابراہہ کے زمانے میں یہ تسلط مزید مستحکم ہوا۔ مسیحیت کی تبلیغ کے لیے صنعا کے مختلف مقامات پر کلسیے تعمیر ہوئے۔ 570ئ میں ابرہہ ایک فوج لے کر نکلا کہ خانہ کعبہ مسمار کر دے، مگر بلا آسمانی نے اسے تباہ کر دیا۔ اس جارہانہ کاروئیوں سے عربوں کے اندر شدید بے چینی پھیل گئی۔ اسی زمانے میں ایک حمیر Himyarte کا ایک شہزادہ جو یمن کے سابق خاندان سے تعلق رکھتا تھا، ایران میں پناہ گزیں تھا۔ چنانچہ عربوں نے حبشیوں کے خلاف نوشیروان سے مدد طلب کی۔ اس نے فوراََ عربوں کی حمایت کا اعلان کیا اور ایک بڑی فوج بھیج دی۔ حبشی حکومت مقابلہ نہیں کرسکی اور یمن خالی کرنے پر مجبور ہوئی۔ نوشیروان نے حمیری شہزادے کو ایرانی مملکت کا حاکم مقرر کر دیا کیا۔ اس طرح یمن میں بھی ایران کا تسلط 576 میں قائم ہوا۔ 567 میں ترک سردار دیزا بول Dizabul نے نوشیروان کے دربار میں اپنا ایک سفیر بھیجا اور ایرانی حکومت سے اتحاد کی خواہش کی، مگر نوشیروان نے یہ درخواست مسترد کردی اور سفیر کو زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ ترکوں نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے رومی حکومت سے اتحاد کی کوشش کی اور چارسال کے بعد 572 میں ترکوں سے باضابطہ اتحاد کر لیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ چار سال میں کے اندر کیا سیاسی تبدیلیاں واقع ہوئیں کہ رومی حکومت نے ترکوں سے اتحاد کر کے ایران سے جنگ چھیڑ دی۔ مورخین اس کے صحیح اسباب نہیں بتاتے ہیں، مگر صاف ظاہر ہے کہ اس واقع سے ایک سال پہلے یمن کے اندر حبشی حکومت نے ایران سے شکست کھائی اور یمن پر ایرانی تسلط ہو گیا۔ حبشی حکومت رومیوں کے زیر اثر ہونے کے علاوہ ہم مذہب بھی تھی۔ علاوہ ازیں یمن کو تجارتی اور سیاسی اہمیت بھی حاصل تھی۔ اس سیاسی تبدیلی کی وجہ سے رومی حکومت میدان جنگ میں اتر آئی۔ مگر جنگ میں انھیں سخت ہزمیت اٹھانی پڑی۔ جسٹینین ان ناکامیوں کو برداشت نہ کرسکا اور تخت سے دست بردار ہو گیا۔ اس کے جانشین طبرس Tiberus نے نوشیروان سے صلح کرلی۔ اس واقع کے چند ماہ بعد ایران کا یہ شہرہ آفاق بادشاہ 579 میں دنیا سے رخصت ہوا۔ نوشیروانی عہد ساسانی دور کا انتہائی عروج کا دور تھا۔ مگر اس دور کے بعد ایرانی حکومت نہایت تیزی سے زوال کی طرف گامزن ہوئی اور کل چوہتر سال میں چودہ بادشاہ تخت نشین ہوئے اور بالاآخر 652 میں ساسانی بلکہ ایرانی دور حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں ختم ہوا۔ نوشیراں کے بعد اس کا بیٹا ہرمزد بادشاہ ہوا۔ اس کے عہدمیں رومیوں سے پھر جنگ چھڑ گئی، اس دوران میں ہی ترکوں نے مشرق کی طرف سے سخت یورشیں کیں۔ ہرمزدنے بہرام چوبیں کو ان کے مقابلے میں بھیجا۔ اس نے سخت مقابلے کے بعد ترکوں کو شکست دی اور ایک جنگ میں ان کا سردار مارا گیا۔ فاتح کی وجہ سے بہرام چوبیںکے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور اس وجہ سے ہرمزد نے خائف ہوکر اسے رومی محاذ کی طرف منتقل کر دیا۔ وہاں ایک جنگ میں بہرام چوبیںنے شکست کھائی۔ ہرمزد نے اس بہانے اس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی، تو بہرام نے بغاوت کردی اور بادشاہ کو گرفتار کرکے قتل کر دیا۔ کچھ دنوں تک حکومت کی باگ دوڑ اسی کے ہاتھ میں رہی۔ کیوںکہ نیا بادشاہ رومی سلطنت کی طرف بھاگ گیا اور قیصر روم سے مدد لے کر ایران واپس آیا۔ خسرو پرویز ہرمزد کا بیٹا تھا۔ وہ رومیوں کی حمایت سے تخت نشین ہوا تھا، اس طرح روم کو ایران مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ خسرو اپنے محسن قیصر روم مورس Mourice کی زندگی میں خاموش رہا۔ 604 میں مورس کے وقت ل کے بعد فوکس Phocas قیصر روم منتخب ہوا۔ خسرو نے فوراََ جنگ کا اعلان کرتے ہوئے رومی علاقے پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ خسروکی موت تک جاری رہی۔ 627 میں دست گرد Dast Girdکے مقام پر رومی بادشاہ ہرقل Heracliusنے خسرو کو آخری شکست دی۔ خسرو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ایرانی امرائ نے ان ناکامیوں کو خسروکی ذاتی کوتاہیوں پر مجہول کرتے ہوئے اسے تخت سے اتار کر قتل کر دیا۔ اس کا بیٹا شیرویہ Siroes جو خود سازش میں شریک تھا، قباد دوم کے لقب سے تخت پر بیٹھا۔ خسرو پرویز ساسانی خاندن کا آخری حوصلہ مند حکمران تھا، مگر عیش پسند اور مغرور بھی تھا۔ اس نے عظیم انشان محلات تعمیر کرائے اور عیاشیوں کے لیے وافر مقدار میں سامان مہیا کیے۔ مشہور ہے اس کی بیویوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ خسرو عہد کا اہم واقعہ عربوں کے لیے آویزش بھی ہے، جس کا تعلق اسلام سے بھی ہے۔ رسول اللہ نے ہجرت کے چھٹے سال 627 میں ایک نامہ مبارک خسرو کو ارسال فرمایا اور اسے اسلام کی دعوت دی۔ خسرو نے غصہ سے آپؑ کے نامہ مبارک کو پھاڑ دیا اور یمن کے حاکم کو حکم دیا کہ آپؑ گرفتار کر کے حاضر کیا جائے۔ خسرو کی جگہ اس کابیٹا شیرویہ قباد دوم کے لقب سے بیٹھا۔ ہرقل Heraclius کے ساتھ اس شرط پر صلح ہوئی کہ مسیحوں کے عقیدے کے مطابق جس صلیب پر حضرت عیسیٰ کو چڑھایا گیا تھا وہ واپس کردی جائے۔ یہ صلیب ایرانیوں بیت المقدس کو مسخر کرکے حاصل کی تھی۔ شیرویہ نے اس خیال سے اپنے تمام بھائیوں کو قتل کرادیا تھا کہ کوئی مدعی سلطنت باقی نہ رہے، مگر خود بھی ایک سال کے بعد طاؤن کی نظر ہوا۔ اس کے بعد خسرو پرویز کی دوبیٹیاں یکہ بعد دیگر فرمانروا بنیں۔ 634 میں یزدگرد ثالث کوبادشاہ بنا دیا، کہخسروجوپرویز کا پوتا تھا، یہ آخری ساسانی بادشاہ تھا۔ عربوں سے جنگ شروع ہو چکی تھی، قادسیہ 637 1ور نہاوند 642 کی فیصلہ کن جنگوں نے ساسانیوں کی قسمت پر آخری مہر لگا دی۔ یزدگرد بلخ کی طرف فرار ہوا کہ شہنشاہ چین سے امداد لے، وہ 651 میں مرو کے قریب مارا گیا۔

ساسانی بادشاہوں کی فہرست

ترمیم
  • شاپور اول (240۔ 271 ) Shapur or Sapor 1th
  • ہرمزد اول (271 تا 272) Hormisdas 1th
  • بہرام اول (272 تا 275) Bahram 1th
  • بہرام دوم (275ئ تا 282) Bahram 2ed
  • بہرام سوم و نرسی(282 تا 301) Bahram 3ed & Narses
  • ھرمز دوم و آذر نرسی (301 تا 310 )Narses Hormuz 2ed & Aezar
  • شاپور دوم (310 تا 379) Shapur 2ed
  • اردشیر دوم (379 تا 382) Ardeshir 2ed
  • شاپور سوم (382 تا 388)Shapur 3d
  • بہرام چہارم (388 تا 399) Bahram 4th
  • یزدگرد اول (399 تا 420) Yezdigird 1th
  • بہرام پنجم یا بہرام گور (420 تا 440)Bahram 5th or Bahram Gur
  • یزدگرد دوم (400 تا 457) Yezdigird 2ed
  • ہرمزد سوم (457 تا 457 ) Hormisdas 3th
  • فیروز اول (459تا 482) Feiruz 1th
  • بلاش (483 تا 487) Volagases
  • کواد یا قباد (487 تا 492) Kabad or Kavad
  • جاماسب (492 تا 502) Zamap
  • کواد یا قباد بار ثانی (502 تا 531) Kabad or Kavad
  • خسرو اول یا نوشیرواںعادل (531 تا 579 ) Chosroes or Noshirwan The Jists
  • ہرمزد چہارم (579 تا 590) Hormisdas 4th
  • خسرو پرویز یا خسرو ثانی (590 تا 628) Chosroes Parvis Or Chosroes 2ed
  • آخر دور (628۔ 651)

رومیوں سے کشمکش

ترمیم

ایران میں اشکانیوں نے یونانیوں کو بے دخل کر کے ایرانی حکومت کا حیا کیا تھا۔ اس لیے قدرتی طور پر شام کے یونانیوں سے ان کی کشمکش جاری رہیں۔ جب یونانوں کو رومیوں نے بے دخل کیا تو یہ کشمکش رومیوں کی طرف منتقل ہو گئی اور ساسانیوں کو رومیوں سے یہ کشمکش اشکانیوں سے ورثہ میں ملی تھی۔ اردشیر نے اپنی سلطنت وسیع کرنے کی کوشش کی اور جنوبی عراق پر قابض ہو گیا۔ شمالی عراق پر پیش قدمی صورت میں رومیوں سے جنگ ناگزیر تھی چنانچہ اس نے شمالی عراق اور آرمینا کو رومی بالادستی سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ رومی سلطنت کابادشاہ سور الگزندڑ Severus Alexander تھا، اس نے ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر مصالحت کی کوشش کی۔ اس نے اردشیرکو ایک تہدیدی مگر مصالحانہ خط لکھا کہ وہ اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھے۔ اردشیرنے اس کا سخت جواب دیا اور شمالی عراق پر حملہ آور ہوا۔ اس کے مقابلے میں قیصر روم ایک بڑا لشکر لے کر آیا اور نیز آرمینا کے حکمران خسروکو ہدایت کی کہ وہ صوبہ ماد پر حملہ کر دے۔ مگر رومیوں کو شکست ہوئی اور خسرو مارا گیا۔ آرمینا Armina کے ساتھ شمالی عراق میں نصیبن اور حران کاعلاقہ ساسانی مملکت میں شامل ہو گیا۔ رومیوں سے آخری جنگ ھرمز کے مقام پر ہوئی، اس کے بعد الگزنڈر نے صلح کرلی۔ اردشیرکی موت کی خبر ملتے ہی آرمینا میں بغاوت ہو گئی اور نصیبن سے حران تک کے علاقے پر رومی قابض ہو گئے۔ شاپورنے اپنی حثیت مستحکم کرنے کے بعد پہلے آرمینا کی بغاوت کو فرد کیا، پھر رومیوں کو شکست دے کر نہ صرف نصیبن اور حران بلکہ انطاکیہ کو بھی فتح کر لیا۔ آخر دونوں حکومتوں میں صلح ہو گئی اور شاپو نے نصیبن اور انظاکیہ رومیوں کو واپس کر دیے۔ یہ پہلی جنگ 244 میں ختم ہوئی۔ ڈیڑھ سال کے بعد 258 میں شاپور نے انطاکیہ پر قبضہ کر لیا، یہ سن کر قیصر والٹرین Valrin ایک بڑی فوج لے کر نکلا اور انطاکیہ واپس لے کر ایڈسہ Adissa کی طرف پیش قدمی کی۔ اس مقام پر زبردست لڑائی ہوئی اور والٹرین گرفتار ہوا اور اس کی ساری عمر قید خانے میں گذری۔ اس کے بعد شاپورنے ایشائے کوچک کی طرف پیش قدمی کی اور قساریہ Caesarea پر قابض ہو گیا۔ مگر اس نے اس کو اپنی مملکت میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی اور لوٹ مار کرکے واپس لوٹ گیا۔ راستے میں تدمر Palmyra کے رومی حکمران ازینہ Odenathus نے اس کی فوج پر حملے کیے اور اسے تنگ کیا اور اس کے مال غنیمت کے علاوہ اس کی چند بیویاں بھی اپنے قبضے میں کرچلیں۔ بہرام کے دور میں رومی فوجیں طیفسون تک بڑھ آئیں، مگر خوش قسمتی سے قیصر داخلی سازوشوں کا شکار ہو کر مارا گیا اور رومی واپسی پر مجبور ہو گئے۔ نرسی کے عہد میں رومیوں نے آرمینا پر اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش کی اور فرہاد کے بیٹے تیر داد کو کو آمادہ کیا کہ وہ باپ کی ریاست پر قبضہ کرلے۔ چنانچہ اس نے رومیوں کی مدد سے آرمیناپر قبضہ کر لیا۔ لیکن نرسی نے رومیوں کو شکست دے کر دوبارہ آرمینا پر قبضہ کر لیا۔ اس واقع کے ایک سال بعد 297ئ رومیوں سے دوسری جنگ ہوئی اور ایرانی فوج نے شکست کھائی نرسی زخمی ہوا اور اس کے اہل و عیال گرفتار ہوئے۔ اس نے دب کر رومیوں سے صلح کرنی پڑی۔ اس صلح نامے کی رو سے اسے پانچ صوبے رومیوں کے حوالے کرنے پڑے اور دریائے دجلہ کو دونوں ملکوں کی سرحد قرار دیا گیا۔ آرمینا کی سرحد صوبہ ماد تک وسیع کردی گئی۔ اس صلح نامے نے ایرانی وقار کو سخت نقصان پہچایا، نیز ایرانی حکومت کا ایک بڑا حصہ رومیوں کے قبضہ میں چلا۔ شاپور کے بچپن میں قیصر روم قسطنطین Coustantine نے مسیحی مذہب قبول کر لیا اور مسیحیت کو سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔ اس طرح قدرتی طور پر ایران کے مسیحیوں کی ہمدردیاں رومی مملکت کے ساتھ ہوگئیں۔ آرمیناکے بادشاہ نے بھی مسیحی مذہب قبول کر کے اس کی تبلیغ ملک میں شروع کی، اس صورت حال نے ایران و روم کے ساتھ سیاسی کشمکش کے ساتھ مذہبی کشمکش بھی پیدا کردی۔ شاپورنے اپنی مسیحی رعایا پر سختی شروع کردی اور ان پر دو گونا محصول لگائے، نیز مسیحیت کی تبلیغ و اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ مسیحیوں نے رومی حکومت کی حوصلہ افزائی یا حمایت کی توقع پر فساد پربا کرنا شروع کر دیا۔ نرسی کے عہد میں جو شرمناک محاہدہ ہوا تھا، اس کے تحت نہ صرف آرمینا ایران سے چھین لیا گیا تھا بلکہ اس کی حدود میدیا تک وسیع کردی گئی تھی۔ باوجود اس کے تعلقات بہت کشیدہ ہو چکے تھے، قسطنطین کی حیات میں پیش قدمی کی جرت نہیں ہوئی۔ 337 میں قسطنطین Coustantine کے وفات پانے کے بعد اس نے رومی حکومت سے باضابطہ جنگ چھیڑ دی۔ شاپور نے نصیبن کا محاصرہ کیا، مگر کامیابی حاصل نہ کرسکا، البتہ سنجرSangir کے قلعہ اور آرمینا پر قبضہ کر لینے میں کامیاب ہو گیا۔ آرمیناکے باشندے تیردار کی مذہب کی تبدیلی سے سخت ناخوش تھے۔ اس لیے انھوں نے شاپورسے مدد طلب کی اور اپنا الحاق ایران سے کر دیا۔ رومی حکومت بھی یورشوں سے تنگ آگئی تھی، اس لیے صلح کی خواش مند ہوئی۔ 356ئ میں شاپور نے صلح کے لیے یہ شرط رکھی کہ جو علاقے رومیوں نے لیے تھے وہ واپس کیے جائیں، مگر رومی رضامند نہیں ہوئے۔ اس اثنائ میں قیصر روم کانسٹین ٹیوس کا انتقال ہو گیا اور جولیان Jolian بادشاہ ہو گیا۔ اس نے ایرانیوں سے جنگ چھیڑ دی اور 364ئ میں وہ ایک بڑی فوج لے کر دریائے دجلہ فرات عبورکر کے طیسفون کی طرف بڑھا چلا آیا۔ مگر اس کی فوج کا بڑا پیچھے رہے گیا، علاوہ ازیں رسد میں کمی واقع ہوئی۔ اسی حالت میں ایرانیوں نے حملہ شروع کریئے اور افراتفری پھیل گئی، جنگ میں ایک نیزہ جولیان Jolianکو لگا وہ مر گیا۔ اس کے مرتے ہی رومی فوجیں پیچھے ہٹیں۔ اس مہم میں رومیوں کو بڑا نقصان اٹھنا پڑ، وہ مزید جنگ جاری رکھنے کی ہمت نہیں کرسکے۔ چنانچہ جولیان کے جانشین جودیان Jovian نے ایران کی شرائط کلی طور پر مان لیں اور وہ تمام علاقے جو نرسی نے کھو دیے تھے ایران کوواپس مل گئے اور آرمینا پر ایران کا تسلط تسلیم کرلیاگیا۔ اس طرح شاپورنے ایران کا وقار بلند کیا۔ شاپور سوم تخت پر بیٹھا۔ اس کے عہد میں آرمینا میں شورش پرپا ہوئی۔ رومیوں نے حسب سابق آرمینا میں اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش کی۔ مگر چند سال پہلے 387ئ میں ان کو ایڈریانوپل Adrianople کی جنگ میںقوطیون Goth کے ہاتھوں ایسی ہزمیت اٹھانی پڑی تھی کہ وہ سنبھل نہ سکے۔ اس لیے آرمینامیں زیادہ لسچسپی کا اظہار نہیں کرسکے۔ دوسری طرف شاپور تسہل اور امن پسند تھا، اس لیے آرمینا دوحصوں میں بٹ گیا اور دونوں حصوں میں اشکانی شہزادے حکمران تھے۔ مشرق کے وسیع حصے پر ایران کے زیراثر رہا اور مغربی حصہ پر رومی تسلط تسلیم کر لیا گیا۔ یزگرد اول نے اپنے پیشرؤں کی پالیسی کے برعکس مسیحیوں سے رواداری برتی اور رومی حکومت سے دوستانہ تعلقات قئم کرنے کی کوشش کی، حلانکہ اس وقت رومی حکومت اتنی بدحواس تھی کہ وہ آسانی سے ایشائے کوچک پر قبضہ کر سکتا تھا۔ ہنوں نے یورپ میں تہلکہ مچارکھا تھا۔ ان کاسردار المارک Alaric 410 روم پر قابض ہو چکا تھا۔ مگر یزگردمسیحیوں کے خلاف جنگ پر راضی نہ ہوا۔ بہرام نے اپنے باپ کی پالیسی اتفاق نہ کیا اور مسیحیوں پر سختی برتنی شروع کی۔ اس پر روم نے ایران پر حملہ کر دیا، دوسال کے بعد صلح ہو گئی اور دونوں حکومتوں نے رواداری برتنے کا اعلان کیا۔ یزدگرد بادشاہ ہوا۔ اس نے معاہدے کا پاس نہ کرتے ہوئے مسیحیوں پر تشدد شروع کیا تو رومی حکومت نے جنگ چھیڑدی۔ مگر شکست کے بعد انھیں صلح کرنی پڑی۔ بلاش تخت پر بیٹھا آرمینامیں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، وہاں کی حکومت نے مسیحیت کو ملکی مذہب قرار دیا، جسے بلاش کو مجبوراََ منظور کرنا پڑا۔ قباد نے رومیوں سے جنگ چھڑ دی۔ رومیوں کے مقابلے میں قباد کو کامیابی ہوئی، ابھی جنگ جاری تھی کہ اس کی وفات ہو گئی اور اس کا بیٹا خسرو نو شیروان عادل حکمران بنا۔ نوشیرو اںنے رومی سلطنت کی طرف توجہ کی اور533 میں قیصر روم جسٹینین Justinion ایک معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدہ کے تحت رومی حکومت نے ایک بڑی رقم دینے کا وعدہ کیا، جس کے بدلے نوشیرواں نے دربند اور کوہ کاف کے دوسرے قلعوں کی حفاظت کی زمہ داری لی۔ مگر چند سال کے بعد ہی نوشیروان نے رومیوں سے جنگ چھیڑ دی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ قیصر جسٹینین نے مصلحت کے تحت صلح کی تھی۔ وہ اس وقت افریقہ کی مہم میں الجھاہوا تھا، اس لیے ایران سے جنگ نہیں کر سکتا تھا اور صلح کرنے کے بعد اس نے پوری توجہ افریقہ کی مہم کی طرف مرکوز کردی اور چھ سال کے اندر عظیم انشان کامیابی حاصل کی۔ نوشیرواں کو خطرہ پیدا ہوا کہ جسٹینین افریقہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد ایران پر چڑہائی کرے گا۔ اس پیش بندی کے طور پر خود ہی اس نے رومی علاقے پر حملہ کر دیا اور وہ رومی علاقے فتح کرتا ہوا انطاکیہ جا پہنچا۔ راستہ کے اکثر شہر اس نے ویران کر دیے اور بے شمار شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا اور ہزروں مکانات کو نذر آتش کر دیا۔ رومی حکومت ہنوز جنگ کے لیے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ اس نے تاوان جنگ اور بھاری خراج کی بھاری رقم پیش کرتے ہوئے صلح کرلی۔ مگر یہ صلح بھی زیادہ دیر پا نہیں ہوئی اور لازیکا Lazica کے مسئلہ پر جنگ چھڑگئی۔ نوشیروان اور جسٹینین کے پہلے معاہدہ میں ایک شرط یہ تھی کہ لازیکا کی ریاست جو بحیرہ اسود کے کنارے واقع تھی، رومیوںکے ماتحت رہے گی۔ اس وقت رومی حکومت افریقہ میں الجھی ہوئی تھی، اس لیے ریاست کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکی۔ 540 میں اس نے وہاں کے حکمران سے خراج طلب کیا اور رومی فوج رکھنی چاہی۔ لازیکا کے حکمرن نے نوشیروان سے مدد طلب کی۔ اس نے فوراََ لازیکا کی بندرگاہ پترا Petra موجودہ باطوم پر قبضہ کر لیا اور لازیکا کی ریاست کو ایران میں شامل کر لیا، اس طرح ایرانی سلطنت بحیرہ اسود تک پھیل گئی۔ مگر لازیکا کے باشندے زیادہ تر مسیحی تھے، وہ کسی قیمت پر رومیوں پر ایران کو ترجیع نہیں دے سکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے شورشیں پرپاکردیں اور رومی حکومت سے مدد طلب کی۔ رومیوں نے حامی دین ہونے کی ھثیت سے ان کی مدد کے لیے فوج بھیج دی۔ اس طرح روم و ایران میں جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ 562ئ میں ختم ہوئی، آخر میں چند شرائط پر صلح ہو گئی۔ یہ معاہدہ جو پجاس سال کے لیے ہوا تھا، اس میں ایران نے لازیکا سے دستبرداری کا اعلان کیا اور روم نے اس کے عوض تیس ہزار اشرفیاں سالنہ دینے کا وعدہ کیا تھا، نیز ایران نے یقین دلایا تھا کہ وہ مسیحیوں پر ظلم نہیں کرے گا۔ مگر یہ صلح بھی دیر تک قائم نہیں رہے سکی۔ یمن کی مہم سرکرنے کے بعد روم سے تیسری جنگ کرنی پڑی۔ اس جنگ کا اہم سبب ترکوںاور رومیوں کا تحاد بتایا جاتا ہے۔ ترکوں نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے رومی حکومت سے اتحاد کی کوشش کی، مگر قیصر جسٹینین اس کے لیے راضی نہیں ہوا۔ مگر چارسال کے بعد 572ئ میں ترکوں سے باضابطہ اتحاد کر لیا۔ اس واقع سے ایک سال پہلے یمن کے اندر حبشی حکومت نے ایران سے شکست کھائی اور یمن پر ایرانی تسلط ہو گیا۔ حبشی حکومت رومیوں کے زیر اثر ہونے کے علاوہ ہم مذہب بھی تھی۔ علاوہ ازیں یمن کو تجارتی اور سیاسی اہمیت بھی حاصل تھی۔ اس سیاسی تبدیلی کی وجہ سے رومی حکومت میدان جنگ میں اتر آئی۔ مگر جنگ میں انھیں سخت ہزمیت اٹھانی پڑی۔ جسٹینین ان ناکامیوں کو برداشت نہ کرسکا اور تخت سے دست بردار ہو گیا۔ اس کے جانشین طبرس Tiberus نے نوشیروان سے صلح کرلی۔ ہرمزد کے عہدمیں رومیوں سے پھر جنگ چھڑ گئی وہاں ایک جنگ میں بہرام چوبیںنے شکست کھائی۔ ہرمزد نے اس بہانے اس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی، تو بہرام نے بغاوت کردی اور بادشاہ کو گرفتار کرکے قتل کر دیا۔ کچھ دنوں تک حکومت کی باگ دوڑ اسی کے ہاتھ میں رہی۔ کیوںکہ نیا بادشاہ رومی سلطنت کی طرف بھاگ گیا اور قیصر روم سے مدد لے کر ایران واپس آیا۔ خسرو پرویز ہرمزد کا بیٹا تھا۔ وہ رومیوں کی حمایت سے تخت نشین ہوا تھا، اس طرح روم کو ایران مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ خسرو اپنے محسن قیصر روم مورس Mourice کی زندگی میں خاموش رہا۔ 306 میں مورس کے قتل کے بعد فوکس Phocas قیصر روم منتخب ہوا۔ خسرو نے فوراََ جنگ کا اعلان کرتے ہوئے رومی علاقے پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ خسرو کی موت تک جاری رہی۔ ابتدا میں ایرانیوں نے کامیابیاں حاصل کیں اور بڑھتے ہوئے قسطنطنیہ تک چلے گئے۔ مگر اس کے بعد پانسا پلٹ گیا اور رومیوں نے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے لیے اور ایرانی فوجوں کو بے درپے شکستوں کا شامنا کرنا پڑھا اور ایرانی افواج کو پے درپے ہزمیتوں کا سامناکرنا پڑا۔ 627ئ میں دست گرد Dast Girdکے مقام پر رومی بادشاہ ہرقل Heracliusنے خسرو کو آخری شکست دی۔ خسرو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ خسرو کی جگہ اس کابیٹا شیرویہ قباد دوم کے لقب سے بیٹھا۔ ہرقل Heraclius کے ساتھ اس شرط پر صلح ہوئی کہ مسیحوں کے عقیدے کے مطابق جس صلیب پر حضرت عیسیٰ کو چڑھایا گیا تھا وہ واپس کردی جائے۔ یہ صلیب ایرانیوں بیت المقدس کو مسخر کرکے حاصل کی تھی۔

ہن اور ترکوں سے کشمکش

ترمیم

بہرام گور کے عہد میں ہنوں نے ایران پر حملہ کر دیا، بہرام نے نہایت مستعدی سے ان کا مقابلہ کیا اور انھیں ایسی شکست دی کہ بہرام کی زندگی میں انھوں نے ایران کا رخ نہیں کیا۔ بہرام گور کی موت کے بعد یزدگرد جانشین ہوا، تو ہنوں نے نہ صرف خود مختیاری حاصل کرلی، بلکہ ایران پر حملے شروع کر دیے۔ یزدگرد کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہرمزد تخت نشین ہوا، مگر اس کے دوسرے بیٹے فیروز نے نہیں مانا اور مدد لینے کے لیے ہنوں کے پاس پہنچ گیا اور ان سے مدد حاصل کرکے ایک لڑائی میں ھرمز کو قتل کر دیا اور ساسانی تخت حاصل کر لیا۔ فیروز نے ہنوں کو ایک خظیر رقم دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر فیروزنے تخت حاصل کرنے کے بعد ایفائے عہد سے انکار کر دیا۔ اس پر ہنوںنے ساسانی سلطنت کے مشرقی حصہ کو تاراج کرکے اجاڑ دیا۔ فیروز نے کوشش کی کہ ہنوں کی اس سرکش کی روک تھام کرے۔ مگر وہ ناکام رہا اس لیے مجبوراََ ایک خطیر رقم کے بدلے فیروز کو ہنوں سے صلح کرنی پڑی۔ مگر یہ صلح دیرپا ثابت نہیں ہوئی اور ہنوں کے حملے دوبارہ شروع ہو گئے۔ فیروز 482ئ میں وہ ایک لشکر لے کر گیا اور فیروزاور ہنوںکے درمیان میں بلخ کے قریب جنگ ہوئی، اس جنگ میں ساسانیوں کو شکست ہوئی اور فیروز ماراگیا۔ فیروز کے جانشین بلاش نے خراج کی ادائیگی پر صلح کرلی اور ہنوں کو ایک خظیر رقم سالانہ دینا منظور کر لیا اور اس طرح ہن ساسانیوںکے باج گزار کی بجائے ساسانیوںسے خراج لینے لگے اور ساسانیوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک ہنوںکو خراج دیا۔

560 میں وسط ایشیائی کی بساط پر ایک نئی قوم نمودار ہوئی، یعنی ترکوں کی مغربی سلطنت جس کا حکمران ایل خان تھا۔ نوشیروان نے اس سے دوستانہ تعلقات قائم کرلئے اور ترکوں کی مدد سے ہنوں پر حملے کیے، جس میں ان کا سردار مارا گیا اور انھیں شکست ہوئی اور ان کی مملکت کا خاتمہ ہو گیا۔ مگراس علاقے پر ترکوں کا اثر و رسوخ قائم ہو گیا۔ فیروز نے ہرمزد کو قتل کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا، مگر فیروز کو سکون کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا، کیوں کے اس نے ہنوںکو کچھ رقم دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر تخت نشین ہونے کے بعد اس نے ایفائے عہد سے انکار کر دیا۔ چنانچہ ہنوں نے مملکت کے مغربی حصہ کو تاراج کرکے اجاڑ دیا۔ مجبوراََ فیروز کو ایک بھاری رقم دے کر صلح کرنی پڑی۔ مگر یہ صلح دیر پا ثابت نہیں ہوئی اور ان کے حملے پھر شروع ہو گئے۔ 483 میں بلخ کے قریب فیروز اور ہنوںکی جنگ ہوئی، جس میں ایرانی فوج کو شکست ہوئی اور فیروزماراگیا۔ فیروزکے قتل کے بعد یزدگرد کا تیسرا بیٹا بلاش تخت پر بیٹھا۔ اس نے ہنوںسے صلح کرلی اور ان کو ہر سال خطیر رقم خراج دینا منظور کیا۔ قباد کی تخت بشینی کے وقت مشرق کی جانب سے ہر وقت ہنوں کے حملے خدشہ لگا رہتا تھا ایسی حالت میں خزر قبیلے نے ایران پر یورشیں شروع کر دیں۔ قبادنے جواں مردی سے پہلے خزر حملہ آورں کا مقابلہ کیا اور انھیں شکست دے کر ملک سے باہر نکالا۔ قباد کادوسرا دور میں ہنوںسے جنگ کا سلسلہ دس سال تک جاری رہا، اس نے بے درپے شکست دے کر انھیں اتنا کمزور کردی کہ وہ سر نہیںاٹھا سکے۔ نوشیروان کے عہد کا دوسرا اہم واقعہ ترکوں کے متعلق ہے۔ اس وقت مشرقی ترکوں کا سردار ایل خانIl Khan تھا۔ نوشیروان نے ترکوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے اور اس کی مدد سے ہنوں پر حملے کیے۔ اس مقابلے میں ہنوں کو شکست ہوئی اور ان کا سردار ماراگیا۔ اس واقع کے بعد ایرانی سرحدیں دریائے جیحوں تک وسیع ہوگئیں اور اس کے بعد نوشیروان نے خزر قبائل پر فوج کشی کی اور ان کی طاقت کو بھی پارا پارا کر دیا۔ 567 میں ترک سردار دیزا بول Dizabul نے نوشیروان کے دربار میں اپنا ایک سفیر بھیجا اور ایرانی حکومت سے اتحاد کی خواہش کی، مگر نوشیروان نے یہ درخواست مسترد کردی اور سفیر کو زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ سفیر کو زہر دے کر ہلاک کرنے اور دوستی کو ٹھکرانے کے اسباب صیح معلوم نہیں ہو سکے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکوں نے اس اتحاد کی درخواست سے پہلے ہی ایرانی مملکت پر یورشیں شروع کر دیں تھیں۔ اس لیے نوشیروان نے اس درخواست کو مکاری پر مجہول کیا۔ اس واقع کے بعد ترکوں نے زورشور سے یلغار شروع کردی، مگر نوشیروانی عہد ایرانی حکومت کے عروج کا عہد تھا۔ اس نے بھی جوابی کارروائی کی اور ترکوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ترکوں نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے رومی حکومت سے اتحاد کی کوشش کی، مگر قیصر جسٹینین اس کے لیے راضی نہیں ہوا۔ مگر چارسال کے بعد572 میں ترکوں سے باضابطہ اتحاد کر لیا۔ نوشیراں کے بعد اس کا بیٹا ہرمزد بادشاہ ہوا۔ اس دوران میں ہی ترکوں نے مشرق کی طرف سے سخت یورشیں کیں۔ ہرمزدنے بہرام چوبیں کو ان کے مقابلے میںبھیجا۔ اس نے سخت مقابلے کے بعد ترکوں کو شکست دی اور ایک جنگ میں ان کا سردار مارا گیا۔

بادشاہ اور اس کا دربار

ترمیم

اس عہد کی تمام حکومتوں کی طرح ساسانی حکومت شخصی، موروثی اور مطلق العنان تھی۔ بادشاہ اور اس کا دربار تمام طاقتوں کا سرچشمہ تھا۔ وہی واضع قانون بھی تھا اور قانون کو نافذ کرنے والا بھی۔ عدالت ہو یا فوج ہر صیغے میں اسے اعلیٰ اختیارات اسے حاصل تھے۔ وہ تمام دستوری اور قانونی بندشوں سے آزاد تھا۔ اس کی ذات رائے زنی اور تنقید سے بالا تھی۔ وہ اپنے عمال میں خود مختار تھا اور کسی دینوی طاقت کے آگے جواب دہ نہ تھا۔ ملکی مصالح کے پیش نظر وہ بوقت ضرورت اپنے امرائ سے مشورے طلب کیا کرتا تھا اور یہ محض اس کی دور بینی اور خیر اندیشی پر موقوف تھا ورنہ کوئی فرد یا مجلس اس کی حاکمانہ حثیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی۔ چونکہ وہ مذہب پر ایمان رکھتا تھا نیز اپنی رعایا کا ہم نسل تھا اس لےے مذہبی قوانین اور ملکی رسم و رواج لحاظ کرتا تھا۔ پھر کوئی طاقت ور مذہبی طبقہ موجود نہیں تھا اور مذہب کی پیشوائی بھی بادشاہ کرتا تھا۔ ایرانی سلطنت بہت سی ساتراپیوںSatrapis اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل ہوتی تھی جن کے حکمران شاہ ہوا کرتے تھے۔ چونکہ بادشاہ ان کا حاکم اعلیٰ تھا اس لےے اس نے پنے لےے شاہنشاہ کا لقب اختیار کرتا تھا۔ یہ لقب دارا اول کے کتبے میں واضح طور پر ملتا اور یہ لقب ایران کے حکمرانوں کو اس قدر پسند آیا کہ ساسانی عہد تک تمام فرمانروا شہنشاہ بادشاہوں کے بادشاہ کہلاتے تھے۔ بادشاہ خود ہی فوج کا سپہ سالار ہوا کرتا تھا۔ میدان جنگ میں خود جاتا تھا اور قتال میں حصہ لیتا تھا ایران کا بادشاہ اپنی سطوت و ہیبت اور شاہانہ کرد فر کے لےے مشہور ہیں ان کا لباس زرق برق ریشمی و زریں ہوا کرتا تھا۔ اس کے سر پر سونے ایک تاج ہوتا تھا۔ جس پر بیش قیمت جواہرات ٹکے ہوا کرتے تھے۔ ساسانی فرمانروا کے پاجاموں پر سنہری کام ہوتا تھا۔ ان کے تاجوں کی وضع زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی تھی۔ وہ عورتوں کی طرح سونے کے زیورات پہنا کرتے تھے۔ ان کے کانوں میں مندرے، ہاتھوں میں، کنگن و زنجیریں اور کمر میں طلائی کمر بند بندھے ہوئے ہوتے تھے۔ اس کے ایک ہاتھ میں عضا رہتا تھا، جس میں سرے پر سونے کا سیب بنا ہوتا تھا۔ بادشاہ مظلوموں کی فریاد سنے کے لےے دربار عام کرتا تھا دربار میں آنے کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ خلاف ورزی کی صورت میں موت کی سزا دی جا سکتی تھی۔ بادشاہ عموماً ایک تخت پر پردے کے پیچھے بیٹھا تھا۔ اس کا تخت سونے اور چاندی کا ہوتا تھا اور نہایت قیمتی پتھر و جوہرات جڑے ہوتے تھے۔ بادشاہ کے پیچھے مور چھل اور حفاظتی دستے کا سالار ’ خرم باش ‘ مئودب کھڑا ہوتا تھا۔ تخت سے دس بالش ہت کر اراکین سلطنتیں لگی ہوتی تھیں۔ جشن و دعوت کے موقع پر بھی شاہانہ آداب پوری طرح ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ بادشاہ موسیقی اور شکار سے خاص رغبت رکھتے تھے۔ شکار کے لےے وسیع مرغزار اور جنگلات تھے۔ جہاں بادشاہ اپنے درباریوں اور شاہزادوں کے ساتھ شکار کے لےے جاتا تھا۔ گور خر اور شیر کا شکار اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ شکار میں اکثر کتے بھی ساتھ ہوتے تھے۔ محل کے اندر ملکہ خاص سب سے بااختیار تھی۔ اس کا لباس بادشاہ کی طرح قیمتی اور زرین ہوتا تھا۔ اسے تاج پہنے کا حق حاصل تھا۔ بادشاہ کی دوسری بیویاں اور کنیزیں اس کے زیر اثر تھیں۔ اس کی خدمت میں ہزاروں کنیزیں اور خواجہ سرا متعین تھے۔ بادشاہ کو اپنا ولی عہد نامز کرنے کا حق حاصل تھا۔ عموماً اس کا بڑا بیٹا اس کا جانشین ہوتا تھا۔ پھر بھی یہ طہ شدہ مسئلہ نہیں تھا اور اکثر تلواریں اس مسلے کو حل کرتی تھیں۔ بادشاہ کے ذاتی تحفظ کے لےے فوج کا ایک دستہ متعین ہوتا تھا، جس کی سالاری بہت ہی متعد اور اکثر شاہی خاندان کے کسی فرد کے سپر کی جاتی تھی۔ جب بادشاہ باہر نکلتا تو یہ دستہ اس کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ محافظوں کے چمکدار اسلحہ، وردیاں اور زرہیں نیز بادشاہ کا تاج اور زریں لباس لوگوں کے دل پر ہیبت ڈالتا تھا۔ بادشاہ کے بعد امرا کی جماعت تھی، جو شاہزادوں، جاگیر داروں اور بااثر سرداروں پر مشتمل تھی۔ ملک کے اندر سب سے طاقتور طبقہ انہی امرائ کا تھا۔ انہی کی آسودگی پر بادشاہ کا سکون منحصر تھا۔ ورنہ ان کا باہمی اتحاد بادشاہ کے لےے کس وقت بھی خطرہ بن سکتا تھا۔ بڑے بڑے عہدے اس طبقہ کے افراد سے پُر کیے جاتے تھے۔

انتظام مملکت

ترمیم

ساسانی عہد میں مملکت کی ازسر نو تشکیل ہوئی اور سلطنت کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ جس کو ’ پاؤگس ‘ کہتے تھے۔ ہر پاؤگس میں ایک ’ پاؤگس بان ‘ کے ماتحت تھا جو اس علاقہ کا حاکم اعلیٰ سمجھا جاتا تھا۔ اس کی حثیت وائسرائے کی تھی۔ ماتحت صوبوں کے احکام کو وہی مقرر کرتا تھا۔ تمام مالی اور انتظامی امور اسی کے متعلق تھے۔ وہ اپنے امور میں خود مختار تھا اور امن و امان قائم رکھنے کے علاوہ سرحدوں کے تحفظ کے لےے فوج بھی رکھتا تھا۔ ساسانی عہد میں ایرانی مملکت چار اقلیم حسب ذیل تھے۔ مثلاً یمن میں جب نوشیرواں کا قبضہ ہوا تو وہاں کا نظم و نسق ایک مزبان کے سپرد کیا گیا۔ ساسانی دور میں حسب ذیل اقلیم تھے۔

  1. شمالی اقلیم۔ باختر۔ اس میں آرمینا اور آذربئجان کے علاقے شامل تھے۔
  2. جنوبی اقلیم۔ نیمروز۔ یہ فارس و خوزستان کے علاقوں پر مشتمل تھا۔
  3. جنوبی اقلیم۔ خورسان یا خراسان۔ اس میں خراسان و کرامان کے علاقے شامل تھے۔
  4. مغربی اقلیم۔ خور دران یا خربُران۔ یہ عراق کے صوبوں پر مشتمل تھے۔

ان چار علاقوں کے علاوہ کچھ سرحدی علاقے بھی تھے جو ’ باگس بان ‘ کے زیر حکومت نہ تھے بلکہ ان کا انتظام دوسرے احکام کے سپرد تھا۔ جن کو فارسی میں ’ مرزبان ‘ کہتے تھے۔ مرکزی محکموں کو دیوان کہتے تھے، ہر دیوان ایک صاحب دیون کے ماتحت تھا۔ حسب ذیل دیوانوں کا پتہ چلا ہے۔

  1. بزرگ فرماندار۔ اس کی حثیت وزیر اعظم کی تھی۔
  2. موبذان موبذہ۔ یہ مذہبی بیشواہ تھا۔ عدالتیں اور مذہبی امور اس سے متعلق تھے۔
  3. ایران دبیر بذ۔ اس کی حثیت متعمد عمومی کی تھی۔ تمام دبیروں کا تعلق اسی حاکم سے تھا۔
  4. ایران سپہبذ۔ یعنی سالار فوج۔

نیم خود مختار ریاستیں

ترمیم

مذکورہ اقلیم و مزبانی علاقوں کے علاوہ کچھ شہر اور حصے ایسے تھے جو نیم آزاد فرمانرؤں کے ماتحت تحت تھے اور ان کی حثیت دیسی ریاستوں کی سی تھی۔ ایسی ریاستوں میں آرمینا اور جبرہ کا تذکرہ خاص طور پر ملتا ہے۔ یہ ریاستیں داخلی امور میں کلیتًہ آزاد تھیں اور ایک طہ شدہ رقم بادشاہ کو بطور خراج ادا کرتی تھیں۔ ایسے والیان ریاست کو ’ شترتاران ‘ یا شہر واران ‘ کہتے تھے۔ اگر ان کا تعلق ساسانی خاندان سے ہوتا تھا تو ان کو ’ شاہ ‘ کا لقب دیا جاتا تھا۔ ساسانی خاندان کے علاوہ سات ریاستیں ایسی تھیں جن کو عزت و عظمت حاصل تھی۔ ان خاندانوں میں چار ایسے تھے جو اپنا سلسلہ اشکانی حکمرانوں سے جوڑتے تھے۔ بقیہ تین بھی پارت کے معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان ہفت خانوادہ کو ’ دیس پوران ّ کہتے تھے۔ یہ ملک کے بڑے جاگیر دار تھے۔ ان کی جاگیریں موروثی تھیں اور نسلاً بعد نسل میں منتقل ہوتی رہتی تھیں۔ مگر ان کو املاک بیچنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ان سات خانوادوں کے مختلف القاب تھے اور ان کی جاگیریں مختلف مقامات پر تھیں۔ مثلاً نہاوند میں ’ قارن ‘ سیستان میں ’ سورن ‘ رے میں ’ اسپندیار ‘ گرگان میں ’ اساسپہبذ ‘ اور پارس میں مہران جاگیردار تھے۔ یہ شہانا کرد فر رہتے تھے اور ان کو بادشاہوں سی عزت حاصل تھی۔ انھیں فوج رکھنے کا حق حاصل تھا اور بوقت ضرورت بادشاہ ان سے فوجیں طلب کر سکتا تھا۔

مالیات

ترمیم

ساسانی عہد میں مالیات کی اصلاح کی گئی تھی اور زمین کی پیمائش کرانے کے بعد اس پر لگان مقرر کیا تھا۔ سرکاری لگان جس کو ایرانی ’ خراک ‘ کہتے تھے جو عربی میں خراج بن گیا ہے۔ یہ خراک پیداوار کا 6/1 تا 3/1 حصہ تک وصول کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ساسانی عہد میں ایک اور محصول لگایا گیا جو گزیت Gizyat کہلاتا تھا۔ یہی گزیت یہی گزیت عربی میں جزیہ بن گیا۔ یہ ذاتی محصول تھا اور بالعموم مسیحیوں اور یہودیوں سے لیا جاتا تھا۔ اس کی وصولی میں بڑی سختی کی جاتی تھی اور اس سے رعایا بڑی تنگ تھی۔ اس کے علاوہ قومی تہواروں پر رعایا سے نظرانہ وصول کیا جاتا تھا اس کی حثیت سرکاری محصول کی ہو گئی تھی۔ فوج ساسانی دور میں فوجی نام کو ترقی دی گئی ہخامنشی فوج کی طرح فوج کا بہترین حصہ سواروں پر مشتمل تھا۔ اس کے تیر انداوں کا ایک دستہ جس کی نشانہ بازی پر ایران کو فخر تھا۔ اس کے ایک رسالے کا نام لشکر جاویدان تھا۔ اس کے بعد ایک دوسرا رسالہ تھا جو جاں نثار کے نام سے موسوم تھا۔ گھوڑے سواروں کے علاوہ پیل سواروں کا بھی ایک دستہ تھا۔ جس کی طاقتر ناقابل تسخیر تھا۔ ملک کے اندر نے فوجی خدمات لازمی تھی۔ جنگ کے وقت پندرہ سے پچاس سال تک کی عمر کے تمام لوگ فوجی خدمت پر مجبور تھے، نیز اس پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا

ساسانی عہد میں نئے ہتھیاروں کا اضافہ ہوا اور تمام اسلحہ لوہے سے بن نے لگا۔ ان کے تمام سوار سر سے پاؤں سے پیر تک لوہے میں غرق ہوتے تھے۔ خود، زرہ، جوشن اور اسی طرح کے آہنی سامان سے ان کا پورا بدن ڈھکا رہتا تھا۔ جارحانہ حملے کی صورت میں ان کے پاس گرز، سنگین اور تبر ہوتا تھا۔ اہم جنگوں میں وہ روایتی متبرک جھنڈا ہوتا تھا جسے ’ درش کاوویانی ‘ کہلاتا تھا۔

عدالت و قوانین

ترمیم

قدیم ایرانیوں کو فخر تھا کہ ان کے قوانین اٹل ہیں اور ان میں ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں ہے۔ مگر حیقیقت میں بادشاہ کا حکم تمام قوانین سے بالا تھا پھر بھی جرائم اور دیوانی معاملات میں کچھ قوانین ضرور تھے، جن کی حثیت مذہبی اور روایتی احکام کی تھی۔ بادشاہ بھی ان کا احترام کرتا تھا اور عدالتیں ان کے مطابق فیصلے دیا کرتی تھیں۔ بادشاہ کی عدالت سب سے بڑی عدالت ہوا کرتی تھی، جہاں مقدمات آخری فیصلے کے لےے پیش کیے جاتے تھے۔ بادشاہ اپنی رائے کے مطابق فیصلے کیا کرتا تھا اور اس خدائی منشا کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ چونکہ وہ تنہا مقدمات کا فیصلہ نہیں کر سکتا تھا اس لےے اس نے اپنی سلطنت میں عدالتوں کا وسیع نظام قائم کر رکھا ہوا تھا۔ اس عدالت کے بعد ایک دوسری عدالت عالیہ بھی تھی جو سات قاضیوں پر مشتمل تھی اور تمام اہم مقدمات کی سماعت کرتی تھی۔ اس کے ماتحت صوبائی اور مقامی عدالتیں تھیں۔ بالعموم مذہبی طبقہ کے لوگ یعنی پروہت اس عہدے پر فائز تھے۔ ان کے فیصلوں میں قانون کے علاوہ مذہبی عقیدے کا دخل ہوتا تھا۔ پھر بھی ان کا اس عہد کے لحٓاظ سے ان کا بہت ترقی یافتہ تھا۔ غیر سنگین مقدمات میں ضمانت ہوجاتی تھی۔ معمولی جرائم کی سزا کوڑے کی سزا دی جاتی تھی رشوت دینا اور لینا سنگین جرم تھا، زنا بالجبر، قتل، سازش، بغاوت، نیز مردے کو جلانا یا دفن کرنا کی سزا موت تھی۔ بلا اجازت بادشاہ کی خلوت میں چلے جاتا۔ شاہی خاندان کے کسی کو فرد کو صدمہ پہنچانا یا بادشاہ کے تخت پر بیٹھ جانا سنگین جرم سمجھے جاتے تھے۔ موت کی سزا دینے کا ایک ہی طریقہ نہیں تھا، بلکہ جرم کی سنگینی کے حساب سے سزا دی جاتی تھی۔ جس میں زہر دینا، صلیب پر کھنچ دینا، تختہ پر لٹکانا اور پھتر اوپر رکھ کر ہلاک کیا جا کے علاوہ عقوبت دے کر، مثلہ کر کے، شکنجے میں کس کر اور گرم راکھ میں دم گھٹا کر مارنے کے طریقے رائج تھے۔ ساسانی عہد میں عدالتی نظام میں کچھ اصلاح ہوئی اور نوشیروان قانونی چارا چوئی کے کے لےے مزید سہولتیں بہم پہنچائیں۔ جیل خانے قائم کیے گئے اور مجرموں کو قید کی سزا دی جانے لگی۔ نوشیروں نے قانونی چارہ جوئی کے لےے مزید سہولتیں بہم ہنچائیں اور مقدمات کی پیشی اور سماعت کے آسان طریقے وضع کیے نیز سزا کو جرمانے سے بدلنے اجازت دی پہلے جرم کے ارتکاب کی صورت میں عام طور پر موت کی سے روکا۔ مگر سخت اور بہمانہ سزاؤں کے اندر کوئی ترمیم نہیں کی۔

مذہب

ترمیم

ساسانی عہد میں باضابطہ دین زرتشت کو شاہی مذہب تسلیم کر لیا گیا۔ یہودیت اور مسیحیت کو ایران میں خاظر خوا مقبولیت حاصل نہ ہوئی۔ دین زرتشت کے علاہ دو اور مذاہب کو ساسانی عہد میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان میں مزدوک اور مانی مذہب ہیں۔ مانی مذہب شاپور اول کے عپد میں یہ پھیلا تھا مگر زرتشتی علما نے اس کی مخالفت کی۔ قباد کے عہد میں مزدوکیت ملک کے اکثر حصوں تک پھیل گیا تھا نوشیرواں نے مذہبی رہنماؤں کو خوش کرنے کے خیال سے مزدوک اور اس کے ایک لاکھ پیروں کو قتل کرادیا۔

زبان اور علمی کارنامے

ترمیم

ساسانی عہد میں پہلوی ہی سرکاری زبان تھی اور سکے اور کتبے اسی زبان کے دستاب ہوئے ہیں۔ ساسانی عہد میں علم کی ترویج کی طرف خاطر خواہ توجہ دی تھی اور مختلف مقامات پر مدرسے قائم کروائے۔ ان میں جند شاپور کا مدرسہ سب سے بڑا اور اہم تھا۔ نقش رستم کے مقام پر خشیاشاہ کے کتبے کے ساتھ ساسانی فرمانرواؤں اردشیر اربکان اور شاہ پور اول کے کتبے ہیں جو نسبتاً دھندلے ہیں۔ ساسانی حکومت کے دوسرے کتبہ تخت جمشید سے تین میل کے فاصلے پر حاجی آباد میں ایک کتبہ شاہ پور اول کا اور اس کے قریب نقش رجب میں شاپور اول کا ایک اور دو ہرمز اول کے کتبے پائے گئے ہپیں۔ اس طرح قیصر شیریں اور سلمانیہ کے درمیان میں ایک مفصل کتبہ ملا ہے۔ جس میں سیاسی حالات، سلطنت کی حدود اور بہرام سوم کی معزولی کے حالات لکے ہیں۔ پہلوی زبان کی چند کتابیں موجود ہیں ان کو مغربی محققین نے مسلم عہد کی بتاتے ہیں۔ ممکن ہے یہ ساسانی عہد کی ہوں اور مسلم عہد میں ان کی تدوین نو ہو۔

ساسانی عہد میں طبی مدرسوں اور شفا خانوں کا پتہ چلتا ہے۔ جو حکومت کے زیر نگرانی چل رہے تھے۔

تعلیمی نظام

ترمیم

ایران کا مذہبی نظام مذہبی طبقہ کے مطلق تھا۔ نصاب میں مذہبی کتابیں اور قانون کی کتابیں شامل تھیں۔ فارغ التحصیل طلبہ کو حکومت کے مختلف جگہ دی جاتی تھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ کو بڑے عہدے پر فائز کیا جاتا تھا۔ نوشیروان نے تعلیم کی ترویح کے لےے کئی مدرسے قائم کیے۔ جن میں جندی شاپور کا مدرشہ سب سے بڑا اور اہم تھا۔

خلاق و آداب

ترمیم

ایرانی آداب میں شائستگی پائی جاتی ہے۔ ملتے وقت ایک دوسرے کو بوسہ دیتے اور خیر عافیت پوچھتے تھے۔ ایرانیوں میں سالانہ جشن منانے کا رواج رہا ہے، خصوصاً موسم بہار میں نوروز کا اور اور خزاں میں قہرگان کا جشن بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا اور ایک دوسرے کو تحفہ تحائف بھیجتے تھے اور پر تکلف دعوتیں کرتے تھے۔ بیٹیوں کی پیدائش نامبارک خیال کی جاتی تھی۔ پانچ سال تک کا بچہ ماں کی نگرانی میں رہتا تھا اس کی تعلیم و تربیت کا بار باپ ذمہ ہوتا تھا۔ سگی بیٹیوں اور بہنوں سے شادی کا رواج تھا۔

شہر اور عمارتیں

ترمیم

اشکانیوں زوال کے بعد ساسانیوں نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور سوا چار سو سال تک حکومت کی اس طویل دور میں انھوں نے بہت سے شہر آباد کیے اور بے شمار عماتیں بنوائیں۔ ان میں بعض عمارتوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ ساسانیوں کا سب سے اہم شہر تسیفون تھا جو ان کے زوال تک ملک کا پایہ تخت رہا۔ یہ شہر سلوکیوں نے آباد کیا تھا۔ اشکانیوں کے زوال کے بعد ساسانی خاندان کے بانی اردشیر بابکان نے اسے اپنا پایا تخت بنایا تھا۔ عربی تاریخوں میں اس کا نام مدائن آیا ہے جس کے معنی شہروں کا مجموعہ کے ہیں اور یہ شہر سات چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل تھا۔ یہاں ساسانیوں نے بڑی بڑی عمارتیں بنوائی تھیں اور ہر اعتبار سے اس کو ترقی دینے کی کوشش کی تھی۔ ان کے عہد میں اس کا شمار دنیا کے عظیم شہروں میں ہوتا تھا اور اپنی شوکت و عظمت کے لحاظ سے بے نظیر سمجھا جاتا تھا۔ اردشیر بابکان اور شاپور نے یہاں جو محلات بنوائے تھے ان کے نشانات تو نہیں ملتے ہیں، تاہم نوشیروان کے بنوائے ہوئے قیصر کے اب بھی آثار موجود ہیں۔ یہ قیصر دریائے دجلہ کے کنارے تعمیر ہوا تھا اور ’ کاخ سفید ‘ کہلاتا تھا۔ آج بھی یہ طاق کسریٰ یا ایوان مدائن کہلاتا ہے۔ یہ عمارت بہت وسیع اور بلند تھی اور ایک بسیط میدان کے اندر جو دجلہ تک پہلا ہوا تھا واقع تھی۔ اس میدان کے کنارے ایک ہلال نمائ طاق یا محراب تھی جس کی بلندی ارتالیس میٹر تھی اور بہت دور سے نظر آتی تھی۔ اس محراب کے دونوں طرف چار بڑے بڑے کمرے تھے جو ایک دوسرے سے متصل تھے اور ان میں سے ہر ایک کا دروازہ دوسرے کمرے کی طرف کھلتا تھا۔ یہ عمارت اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے بھی بے مثال تھی۔ مدائین کے بعد ساسانیوں کے بسائے ہوئے شہروں میں مرو، جندی شاپور، نیشاپور، حیرہ بزرگ شاپور یا انبار، بہ ارد شیر بروسیر ، ہرمز اور رام ہرمز نے زیادہ زیادہ شہرت حاصل کی۔ مگر ان مقامات پر ان کی تعمیرات کے آثار اب تک دستیاب نہیں ہو سکے۔ ان کی دوسری یادگاریں جو زمانے کی دستیرد سے بچ گئی ہیں حسب ذیل ہیں۔

  • محل فیرز آباد: شیراز کے جنوب و مشرق میں اس راستہ پر جو بو شہر جاتا ہے فیروز آباد واقع ہے۔ وہاں ایک میدان میں واقع ہے اور تیسری صدی عیسوی کو تعمیر کردہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس محل میں باہر کی طرف صرف ایک دروازہ ہے، جس کے اوپر ایک خوبصورت محراب ہے۔ دروازہ اندر کی طرف کھلتا ہے، جس کا طول و عرض 90*43 فٹ ہے۔ اس کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔ ان کمروں کے تین کمروں کے بعد مربع شکل کے تین کمرے تھے، جن کے اوپر اینٹ کے بیضاوی قبے ہیں۔ ان کے اوپر بھی معتدد کمرے ہیں۔ جن کا طول و عرض مختلف ہے، تنزئین کے لیے سرخ پالاسٹر کیا گیا ہے۔

فیروز آباد کے قریب ہی سردستان میں بھی ایک اسی نوعیت کا محل ہے۔

  • قصر شیریں: کوہ زاگوس کے مغرب میں ایک نشیبی میدان ہے جس کا محیط 6000 میٹر ہے۔ اس میدان خسرو پرویز نے ایک قیصر اپنی مشہور ملکہ شیریں کے لےے تعمیر کرایا تھا، جو بلندی پر واقع تھا اور بہت طویل اور عریض تھا اور شاندار تھا۔ اس میں متعدد کمرے اور اور وسیع لان تھا، جس کی چھت گنبد نما تھی دالان کے سامنے ایک سہ رویہ ایوانب تھ ااور اس کے چاروں طرف باغات اور تفریع گاہیں تھیں۔ اس کی تفصیل عربی کتابوں میں ملتی ہیں اب اس کے صرف کھنڈر رہ گئے ہیں۔
  • قیصر مشیتا: یہ قیصر خسرو پرویز کا بنوایا ہوا ہے اور بحر لوط Dead Sea کے مغربی جانب واقع ہے۔ یہ زینت اور خوبصورتی میں دوسری عمارتوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس کی دیواروں پر طرح طرح کی رنگاری اور نقاشیاں تھیں۔ ابھرے ہوئے پھول دیکھائے گئے تھے۔ جن درمیان مختلف نوع کے جانور نظر آتے تھے۔ ساسانی عہد کی یادگاروں میں چند آتشکدے مختلف مقامات پر دستیاب ہوئے ہیں جن کا تذکرہ عربی کتابوں میں کیا گیا ہے۔

حجاری

ترمیم

ساسانی عہد کے نمونوں میں سب سے شاندار نقش رستم میں اس عہد کے سات مناظر ہیں۔، جن میں چوتھا زیادہ اہم ہے۔ شاہ بزنطین والٹرین کی گرفتاری اور پارسی سپاہ کی برتری دکھائی گئی ہے۔ اس کی لوح سارٹھے پینتیس فٹ لمبی اور سولہ فٹ چوڑی اور پنتالیس فٹ بلند ہے۔ اس میں مرکزی حثیت شاپور کو حاصل ہے۔ جس کے سامنے رومی بادشاہ اور سردار جھکے ہوئے ہیں۔ دوسری تین تختیوں میں لڑائی کی پرجوش مناظر ہیں۔ ایک تختی پر سواروں کو دیکھایا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تاج لے رہا ہے اور دوسرا دے رہا ہے کے آثار ہیں جو یونانی ساخت کے ہیں۔ طاق بشان کی کی یاد گار دو محرابوں پر مشتمل ہے۔ جو کرمان شاہ کے نذدیک چٹانوں کو تراش کر بنائی گئیں ہیں۔ ان میں بڑی محراب تیس 30 فٹ اونچی ہے۔ محرابوں کے گرد برجستہ کاری کے چند نمونے ہیں۔ ایک منظر میں ایک سوار کا نقش ہے، جو خود اور زرہ پہنے ہوئے ہے۔ دوسرے میں ایک شکار گاہ کی تفصیل ہے، جہاں بادشاہ خسرو پرویز گورخر، بارہ سنگھے اور ہرن کے شکار میں مشغول ہے۔ ملازمین ہاتھیوں پر سوار ہانکا کر رہے ہیں۔ ایک جگہ لوگ ہرن کی کھال اتار رہے ہیں۔ اور ان کو اونٹوں پر لاد رہے ہیں۔ دوسری جگہ عورتیں ساز پر گا رہی ہیں اور خوشیاں منا رہی ہیں۔ اسی طرح تیسرا منظر ہے جس میں دریا اور کشتیوں کو دیکھایا گیا ہے۔ بادشاہ ایک کشتی میں سوار تیر اندازی کے جوہر دکھا رہا ہے۔ سنگ تراشی کے اس طرح کے نمونے دوسری جگہوں پر بھی ملتے ہیں۔ مگر حیرت ہے ان میں مجسمے شامل نہیں ہیں۔ ساسانیوں کی معماری خالص ایرانی نہیں بلکہ ان پر یونانی اور رومیں کا گہرا اثر ہے۔ اگرچہ انھوں نے ان کے درمیان میں ایک خاص ربط پیدا کرنے کی کوشش کی اپنا ایک الگ انداز پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

زراعت

ترمیم

تمام پیشوں میں زراعت کا پیشہ ایرانیوں کے نذدیک سب سے مقبول اور محبوب تھا۔ یہ ایک مذہبی بیشہ تھا، جسے زرتشت نے مبارک بتایا تھا اور لوگوں کو اس کو اختیار کرنے کی ہڈایت کی تھی۔ چونکہ دین و دنیا کی دولت انحصار اس پر تھا، اس لےے اس کو ترقی دینے کی خاطر خواہ کوشش کی گئی۔ ملک دریاؤں کی کمی تھی اس کے لےے کاریزین نہری نظام کے ذریعہ پورا کیا گیا۔ باوجود اس اہمیت کے ساسانی عہد کا زرعی نظام دوسرے ملکوں سے مختلف نہیں تھا۔ زمین بڑے بڑے زمیندار اور جاگیر داروں کے درمیان میں بٹی ہوئی تھی، جن پر ان کو مالکانہ حقوق حاصل تھے۔ وہ حکومت کو مقرر لگان ادا کرکے تمام امور سے آزاد ہوجاتے تھے۔ ان زمین کو آباد کرنے کے لےے غلاموں اور ہاریوں کا ایک طبقہ موجود تھا، جو دائمی طور پر ان سے وابستہ ہونے کے باوجود اس سے مستفید ہونے کا کوئی حق نہیں رکھتا تھا، صرف زندہ رہنے کے لےے ہی کچھ اندوختہ حاصل ہوجاتا تھا۔ ساسانی عہد میں اس طبقہ کی حالت مزید خراب ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے جب قباد کے عہد میں طبقاتی کشمکش ہوئی اور مزدک نے اشتراکیت کا نعرہ بلند کیا۔ اس تحریک نے نوشیروان کے عہد میں خوفناک شکل اختیار کرلی تھی۔ تاہم یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔

صنعت و حرفت

ترمیم

ساسانی عہد میں جہاں دوسرے شعبوں کو ترکی ہوئی وہاں صنعت و تجارت کو بھی آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ ملک کے اندر خصوصیت کے ساتھ فلزئی اور بافندگی کے بڑے بڑے کارخانے قائم ہوئے، جن کا مال دوسرے ملکوں کو بر آمد کیا جاتا تھا۔ ساسانی عہد کے نفرئی و طائی ظروف مثلاً قاب، پیالے، گلدان، آفتابہ، جام اور مختلف وضع کی صراحیاں کافی تعداد میں دستیاب ہوئی ہیں۔ ان میں بعض سادہ اور بعض گلدار و منقش ہیں بعض چاندی کے برتنوں پر سونے کا کام ہے۔ فلزئی کے ساتھ پارچہ بانی کو بھی اس عہد میں کافی ترقی ہوئی۔ دیبا، حریر کمخواب اور دوسرے ریشمی کثرت سے بنے جانے لگے اور اس طرح دنیا کے حسین سامان کے لیے ایران کو دائمی شہرت حاصل ہو گئی۔ اسلامی تاریخوں میں ان نفیس آرایشی و زیبائشی سامان کی تفصیل ملتی ہے، جو مسلمانوں کو فتح ایران سے ہاتھ لگا تھا۔

تجارت

ترمیم

ساسانی عہد میں صنعت و حرفت کی ترقی سے تجارت کو مزید فروغ حاصل ہوا اور خود ایران نفیس اور قیمتی سامان برآمد کرنے لگا۔ پھر بھی وہ اس میدان میں دوسروں سے سبقت لے نہیں سکے۔ پھر بھی بحری تجارت اور جہازرانی کو ترقی دینے کی کوشش کی گئیں۔

ساسانی بادشاہوں کے سکے زیادہ تر چاندی کے تھے۔ مگر انھوں نے سونے اور تانبے کے سکے بھی جاری کیے ان کے طلائی سکے رومی طلائی سکوں کی طرح تھے۔ ان کے سکوں میں ایک طرف حکمرانوں کی شکلیں اور دوسری طرف آتش دان کی شکل نقش ہوتی تھی۔

ماخذ

ترمیم
  • ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دوم
  1. ^ ا ب پ Daryaee 2008، صفحہ 99–100