الانفال

قرآن مجید کی8 ویں سورت
(سورہ انفال سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی آٹھویں سورت جس میں 75 آیات اور 10 رکوع ہیں۔

الانفال
فائل:SURA8.PNG
الانفال
دور نزولمدنی
زمانۂ نزولجنگ بدر کے بعد
اعداد و شمار
عددِ سورت8
عددِ پارہ9 اور 10
تعداد آیات75
الفاظ1,243
حروف5,299
گذشتہالاعراف
آئندہالتوبہ

زمانۂ نزول

یہ سورت 2 ھ میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی اور اس میں اسلام و کفر کی اس پہلی جنگ پر مفصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک سورت کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً یہ ایک ہی تقریر ہے جو بیک وقت نازل فرمائی گئی ہوگی مگر ممکن ہے کہ اس کی بعض آیات جنگ بدر ہی سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق بعد میں اتری ہوں اور پھر ان کو سلسلۂ تقریر میں مناسب مقامات پر درج کرکے ایک مسلسل تقریر بنادیا گیا ہو۔ بہرحال کلام میں کہیں کوئی ایسا جوڑ نظر نہیں آتا جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ یہ الگ الگ دو تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔

تاریخی پس منظر

سورت پر تبصرے سے قبل جنگ بدر اور اس سے تعلق رکھنے والے حالات پر تاریخی نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت ابتدائی دس بارہ سال میں، جبکہ آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے، اس حیثيت سے اپنی پختگی اور استواری ثابت کرچکی تھی کہ ایک طرف اس کی پشت پر ایک بلند سیرت، عالی ظرف اور دانشمندانہ علمبردار موجود تھا جو اپنی شخصیت کا پورا سرمایہ اس کام میں لگا چکا تھا اور اس کے طرز عمل سے یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہو چکی تھی کہ وہ اس دعوت کو انتہائی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے اٹل ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کی راہ میں ہر خطرے کو انگیز کرنے اور ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف اس دعوت میں خود ایسی کشش تھی کہ وہ دلوں اور دماغوں میں سرایت کرتی چلی جا رہی تھی اور جہالت و جاہلیت اور تعصبات کے حصار اس کی راہ روکنے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے۔ اسی وجہ سے عرب کے پرانے نظام جاہلی کی حمایت کرنے والے عناصر، جو ابتداً اس کو استخفاف کی نظر سے دیکھتے تھے، مکی دور کے آخری زمانے میں اسے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھنے لگے تھے اور اپنا پورا زور اسے کچل دینے میں صرف کردینا چاہتے تھے۔ لیکن اُ وقت تک چند حیثیات سے اس دعوت میں بہت کچھ کسر باقی تھی:

اولاً، یہ بات ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوئی تھی کہ اس کو ایسے پیرووں کی ایک کافی تعداد بہم پہنچ گئی ہے جو صرف اس کے ماننے والے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس کے اصولوں کا سچا عشق بھی رکھتے ہیں، اس کو غالب و نافذ کرنے کی سعی میں اپنی ساری قوتیں اور اپنا تمام سرمایۂ زندگی کھپادینے کے لیے تیار ہیں اور اس کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کردینے کے لیے دنیا بھر سے لڑجانے کے لیے حتیٰ کہ اپنے عزیز ترین رشتہ داروں کو بھی کاٹ پھینکنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اگرچہ مکہ میں پیروانِ اسلام نے قریش کو ظلم و ستم برداشت کرکے اپنی صداقتِ ایمانی اور اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کی مضبوطی کا اچھا خاصا ثبوت دے دیا تھا، مگر ابھی یہ ثابت ہونے کے لیے بہت سی آزمائش باقی تھیں کہ دعوتِ اسلامی کو جانفروش پیرووں کا وہ گروہ میسر آگیا ہے جو اپنے نصب العین کے مقابلے میں کسی چیز کو بھی عزیز تر نہیں رکھتا۔

ثانیاً اس دعوت کی آواز اگرچہ سارے ملک میں پھیل گئی تھی، لیکن اس کے اثرات منتشر تھے، اس کی فراہم کردہ قوت سارے ملک میں پراگندہ تھی، اس کو وہ اجتماعی طاقت بہم نہ پہنچی تھی جو پرانے جمے ہوئے نظام جاہلیت سے فیصلہ کن مقابلے کے لیے ضروری تھی۔

ثالثاً اس دعوت نے زمین میں کسی بھی جگہ جڑ نہیں پکڑی تھی بلکہ ابھی تک وہ صرف ہوا میں سرایت کر رہی تھی۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہ تھا جہاں وہ قدم جما کر اپنے موقف کو مضبوط کرتی اور پھر آگے بڑھنے کی سعی کرتی۔ اُ وقت تک جو مسلمان جہاں بھی تھا اس کی حیثیت نظام کفر و شرک میں بالکل ایسی تھی جیسے خالی معدے میں کُنِین کہ معدہ ہر وقت اسے اُگل دینے کے لیے زور لگا رہا ہو اور قرار پکڑنے کے لیے اس کو جگہ ہی نہ ملتی ہو۔

رابعاً اس وقت تک اس دعوت کو عملی زندگی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر چلانے موقع نہیں ملا تھا، نہ یہ اپنا تمدن قائم کرسکی تھی، نہ اس نے اپنا نظامِ معیشت و معاشرت اور نظام سیاست مرتب کیا تھا اورنہ دوسری طاقتوں سے اس کے معاملاتِ صلح و جنگ پیش آئے تھے۔ اس لیے نہ تو ان اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ ہو سکا تھا جن پر یہ دعوت زندگی کے پورے نظام کو قائم کرنا اور چلانا چاہتی تھی اور نہ یہی بات آزمائش کی کسوٹی پر اچھی طرح نمایاں ہوئی تھی کہ اس دعوت کا پیغمبر اور اس کے پیرووں کا گروہ جس چیز کی طرف دنیا کو دعوت دے رہا ہے اس پر عمل کرنے میں وہ خود کس حد تک راستباز ہے۔

بعد کے واقعات نے وہ مواقع پیدا کردیے جن سے یہ چاروں یکساں پوری ہوگئیں۔

مکی دور کے آخری تین چار سالوں سے یثرب میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرتے جا رہے تھے۔ آخر کار نبوت کے بارہویں سال حج کے موقع پر 75 نفوس کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کیا بلکہ آپ کو اور آپ کے پیرووں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔ اہلِ یثرب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو محض ایک پناہ گزیں کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرمانروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے اور اسلام کے پیرووں کو ان کا بلاوا اس لیے نہ تھا کہ وہ اکی اجنبی سرزمین میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پالیں، بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں وہ یثرب میں جمع ہو کر اور یثربی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک منظم معاشرہ بنالیں۔ اس طرح یثرب نے دراصل اپنے آپ کو "مدینۃ الاسلام" کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے قبول کرکے عرب میں پہلا دارالاسلام بنایا۔

اس پیشکش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہل مدینہ ناواقف نہ تھے۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کے مقابلے میں پیش کر رہا تھا۔ چنانچہ بیعتِ عَقَبہ کے موقع پر رات کی اُس مجلس میں اسلام کے ان اولین مدد گاروں (انصار) نے اس نتیجے کو خوب اچھی طرح جان کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ عین اس وقت جبکہ بیعت ہو رہی تھی۔ یثربی وفد کے ایک نوجوان رکن اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ جو پورے وفد میں سب سے کم سن تھے، اٹھ کر کہا:

"ٹھہرو اے اہل یثرب! ہم لوگ جو ان کے پاس آئے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور آج انھیں یہاں سے نکال کر لے جانا تمام عرب سے دشمنی مول لینا ہے۔ اس کے نتیجے میں تمھارے نونہال قتل ہوں گے اور تلواریں تم پر برسیں گی۔ لہٰذا اگر تم اس کو برداشت کرنے کی طاقت اپنے اندر پاتے ہو تو ان کا ہاتھ پکڑوں اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور اگر تمھیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو پھر چھوڑ دو اور صاف صاف عذر کردو کیونکہ اسی وقت عذر کردینا خدا کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہو سکتا ہے "۔

اسی بات کو وفد کے ایک دوسرے شخص عباس بن عبادہ نے دہرایا:

"جانتے ہو اس شخص سے کس چیز کی بیعت کر رہے ہو؟ (آوازیں : ہاں ہم جانتے ہیں) تم ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے دنیا بھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمھارا خیال یہ ہو کہ جب تمھارے مال تباہی کے اور تمھارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑ جائیں تو تم انھیں دشمنوں کے حوالے کردوں تو بہتر ہے کہ آج ہی انھیں چھوڑ دو کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے اور اگر تمھارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلاوا تم اس شخص کو دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود نباہو گے تو بے شک ان کا ہاتھ تھام لو کہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے "۔

اس پر تمام وفد نے بالاتفاق کہا کہ

"ہم انھیں لے کر اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں "

تب وہ مشہور بیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں "بیعت عقبہ ثانیہ" کہتے ہیں۔

دوسری طرف اہل مکہ کے لیے یہ معاملہ جو معنی رکھتا تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ دراصل اس طرح محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو، جن کی زبردست شخصیت اور غیر معمولی قابلیتوں سے قریش کے لوگ واقف ہو چکے تھے، ایک ٹھکانہ میسر آ رہا تھا اور ان کی قیادت و رہنمائی اور پیروانِ اسلام، جن کی عزیمت و استقامت اور فدائیت کو بھی قریش ایک حد تک آزما چکے تھے، ایک منظم جتھے کی صورت میں مجتمع ہوئے جاتے تھے۔ یہ پرانے نظام کے لیے موت کا پیغام تھا۔ نیز مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کے مجتمع ہونے سے قریش کو مزید یہ خطرہ تھا کہ یمن سے شام کی طرف جو تجارتی شاہراہ ساحل بحیرہ احمر کے کنارے کنارے جاتی تھی، جس کے محفوظ رہنے پر قریش اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا، وہ مسلمانوں کی زد میں آجاتی تھی اور اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظامِ جاہلی کی زندگی دشوار کرسکتے تھے اور صرف اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔

قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے، جس رات بیعت عقبہ واقع ہوئی اسی رات اس معاملے کی بھنک اہل مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انھوں نے اہل مدینہ کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو دو کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اور قریش کو یقین ہو گیا کہ اب محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی وہاں منتقل ہوجائیں گے تو وہ اس خطرے کو روکنے کے لیے آخری چارۂ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ہجرت نبوی سے چند روز پہلے قریش کی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس میں بڑی رد و کد کے بعد آخر کار یہ طے پاگیا کہ بنی ہاشم کے سوا تمام خانوادہ ہائے قریش کا ایک ایک آدمی چھانٹا جائے اور یہ سب مل کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کریں تاکہ بنی ہاشم کے لیے تمام خاندانوں سے تنہا لڑنا مشکل ہو جائے اور وہ انتقام کی بجائے خوں بہا قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں لیکن خدا کے فضل اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعتماد علی اللہ اور حُسنِ تدبیر سے اُن کی یہ چال ناکام ہو گئی اور حضور بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔

اس طرح جب قریش کو ہجرت کے روکنے میں ناکامی ہوئی تو انھوں نے مدینہ کے سردار عبداللہ بن اُبی کو (جسے ہجرت سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کر چکے تھے اورجس کی تمناؤں پر حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچ جانے اور اوس و خزرج کی اکثریت کے مسلمان ہوجانے سے پانی پھر چکا تھا) خطا لکھا کہ"تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اس سے نکال دو، ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمھارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے "۔ عبد اللہ بن ابی اس پر کچھ آمادۂ شر ہوا،مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بروقت اس کے شر کی روک تھام کردی۔ پھر سعد بن معاذ رئیس مدینہ عمرے کے لیے گئے۔ وہاں عین حرم کے دروازے پر ابو جہل نے ان کو ٹوک کر کہا: "تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمھیں اطمینان سے مکے میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جا سکتے تھے۔ سعد نے جواب میں کہا: "بخدا اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمھیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمھارے لیے اس سے شدید تر ہے، یعنی مدینہ پر سے تمھاری رہ گذر"۔ یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پر بند ہے اور اس کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ تھا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین کے لیے پر خطر ہے۔

اور فی الواقع اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی تدبیر بھی نہ تھی کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور وہ دوسرے قبائل جن کا مفاد اس راستے سے وابستہ تھا، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی معاندانہ و مزاحمانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ چنانچہ مدینہ پہنچتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نوخیز اسلامی سوسائٹی کے ابتدائی نظم و نسق اور اطراف مدینہ کی یہودی آبادیوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ منعطف فرمائی وہ اسی شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے پر حضور نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں۔

ایک یہ کہ مدینہ اور ساحل بحیرہ احمر کے درمیان میں اس شاہراہ سے متصل جو قبائل آباد تھے ان کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تاکہ وہ حلیفانہ اتحاد یا کم از کم ناطرفداری کے معاہدے کر لیں۔ چنانچہ اس میں آپ کو پوری کامیابی ہوئی۔ سب سے پہلے جُہَینَنہ سے، جو ساحل کے قریب پہاڑی علاقے میں ایک اہم قبیلہ تھا، معاہدۂ ناطرفداری طے ہوا۔ پھر کے آخر میں بنی ضَمرَہ سے، جن کا علاقہ یَنبُع اور ذوالعُشَیرہ سے متصل تھا، دفاعی معاونت (Defensive alliance) کی قرارداد ہوئی۔ پھر کے وسط میں بنی مُدلِج بھی اس قرارداد میں شریک ہو گئے کیونکہ وہ بنی ضمرہ کے ہمسائے اور حلیف تھے۔ مزید برآں تبلیغ اسلام نے ان قبائل میں اسلام کے حامیوں اور پیرووں کا بھی ایک اچھا خاصا عنصر پیدا کر دیا۔

دوسری تدبیر آپ نے یہ اختیار کی کہ قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے لیے اس شاہراہ پر پیہم چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے اور بعض دستوں کے ساتھ آپ خود بھی تشریف لے گئے۔ پہلے سال اس طرح کے چار دستے گئے جو مغازی کی کتابوں میں سریہ حمزہ، سریہ عبیدہ بن حارث، سریہ سعد بن ابی وقاص اور غزوۃ البواء کے نام سے موسوم ہیں۔

اور دوسرے سال کے ابتدائی مہینوں میں دو مزید تاختیں اسی جانب کی گئیں جن کو اہل مغازی غزوۂ بواط اور غزوۂ ذوالعُشَیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان تمام مہمات کی دو خصوصیتیں قابل لحاظ ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں سے کسی میں نہ تو کشت و خون ہوا اور نہ کوئی قافلہ لوٹا گیا جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تاختوں کا اصل مقصود قریش کو ہوا کا رخ بتانا تھا۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے کسی تاخت میں بھی حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل مدینہ کا کوئی آدمی نہیں لیا بلکہ تمام دستے خالص مکی مہاجرین سے ہی مرتب فرماتے رہے تاکہ حتی الامکان یہ کشمکش قریش کے اپنے ہی گھر والوں تک محدود رہے اور دوسرے قبائل کے اس میں الجھنے سے آگ پھیل نہ جائے۔ ادھر سے اہل مکہ بھی مدینہ کی طرف غارت گر دستے بھیجتے رہے، چنانچہ انہی میں سے ایک دستے نے کُرز بن جابر الفہری کی قیادت میں عین مدینہ کے قریب ڈاکہ مارا اور اہل مدینہ کے مویشی لوٹ لیے۔ قریش کی کوشش اس سلسلے میں یہ رہی کہ دوسرے قبائل کو بھی اس کشمکش میں الجھادیں، نیز یہ کہ انھوں نے بات کو محض دھمکی تک محدود نہ رکھا بلکہ لوٹ مار تک نوبت پہنچادی۔

حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ شعبان 2ھ (فروری یا مارچ 623ء) میں قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ، جس کے ساتھ تقریباً 50 ہزار اشرفی کا مال تھا اور تیس چالیس سے زیادہ محافظ نہ تھے، شام سے مکہ کی طرف پلٹتے ہوئے اس علاقے میں پہنچا جو مدینہ کی زد میں تھا۔ چونکہ مال زیادہ تھا، محافظ کم تھے اور سابق حالات کی بنا پر قوی خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی طاقتور دستہ اس پر چھاپہ نہ مار دے، اس لیے سردارِ قافلہ ابو سفیان نے اس پر خطر علاقے میں پہنچتے ہی ایک آدمی کو مکہ کی طرف دوڑا دیا تاکہ وہاں سے مدد لے آئے۔ اس شخص نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے قدیم قاعدے کے تحت اپنے اونٹ کے کان کاٹے۔ اس کی ناک چیر دی، کجاوے کو الٹ کر رکھ دیا اور اپنا قمیص آگے پیچھے سے پھاڑ کر شور مچانا شروع کر دیا کہ:

قریش والو! اپنے قافلۂ تجارت کی خبر لو، تمھارے مال جو ابو سفیان کے ساتھ ہیں، محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آدمی لے کر ان کے درپے ہو گیا ہے، مجھے امید نہیں کہ تم انھیں پاسکو گے، دوڑو دوڑو مدد کے لیے۔

اس پر سارے مکہ میں ہیجان برپا ہو گیا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ تقریباً ایک ہزار مردان جنگی جن میں سے 600 زرہ پوش تھے اور 100 سواروں کا رسالہ بھی شامل تھا، پوری شان و شوکت کے ساتھ لڑنے کے لیے چلے۔

ان کے پیش نظر صرف یہی کام نہ تھا کہ اپنے قافلے کو بچا لائیں بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں اور مدینہ میں یہ مخالف طاقت جو ابھی نئی نئی مجتمع ہوئی ہے اسے کچل ڈالیں اور اس کے نواح کے قبائل کو اس حد تک مرعوب کر دیں کہ آیندہ کے لیے یہ تجارتی راستہ بالکل محفوظ ہو جائے۔

اب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے، جو حالات سے ہمیشہ با خبر رہتے تھے، محسوس فرمایا کہ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے جبکہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کر ڈالا گیا تو تحریک اسلامی ہمیشہ کے لیے بے جان ہو جائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔ نئے دار الہجرت میں آئے ابھی پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مہاجرین بے سر و سامان، انصار ابھی ناآزمودہ، یہودی قبائل برسر مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقتور عنصر موجود اور گرد و پیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہو جائے لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچا کر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہو جائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کر دیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اٹھائیں گے اور دارالہجرت میں جینا مشکل کر دیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب و اثر نہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان و مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عزم فرمالیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں۔

اس فیصلہ کن اقدام کا ارادہ کرکے آپ نے انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان کے سامنے ساری پوزیشن صاف صاف رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر چلا آ رہا ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک تمھیں مل جائے گا، بتاؤ تم کس کے مقابلے پر چلنا چاہتے ہو؟ جواب میں ایک بڑے گروہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیش نظر کچھ اور تھا اس لیے آپ نے اپنا سوار دہرایا۔ اس پر مہاجرین میں سے مقداد بن عمرو نے اٹھ کر کہا:

یارسول اللہ! جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اس طرف چلیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں جس طرف بھی آپ جائیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرف یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمھارا خدا دونوں لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں، نہیں ہم کہتے ہیں کہ چلیے آپ اور آپ کا خدا، دونوں لڑیں اور ہم آپ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے جب تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کر رہی ہے

مگر لڑائی کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ ابھی تک فوجی اقدامات میں ان سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی اور ان کے لیے آزمائش کا پہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انھوں نے اول روز کیاا تھا اسے وہ کہاں تک نباہنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے براہ راست ان کو مخاطب کیے بغیر پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس پر سعد بن معاذ اٹھے اور انھوں نے عرض کیا شاید حضور کا روئے سخن ہماری طرف ہے؟ فرمایا ہاں۔ انھوں نے کہا

ہم آپ پر ایمان لائے ہیں، آپ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپ سے سمع و طاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اللہ کے رسول! جو کچھ آپ نے ارادہ فرما لیا ہے اسے کر گذریے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر آپ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تو ہم آپ کے ساتھ کودیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا بھڑیں، ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے، مقابلے میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اللہ آپ کو ہم سے وہ کچھ دکھوادے جسے دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں، پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ہمیں لے چلیں۔

ان تقریروں کے بعد فیصلہ ہو گیا کہ قافلے کی بجائے لشکر قریش ہی کے مقابلے پر چلنا چاہیے لیکن یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا، جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لیے اٹھے تھے ان کی تعداد 300 سے کچھ زائد تھی (86 مہاجر، 61 قبیلۂ اوس کے اور 170 قبیلۂ خزرج کے ) جن میں سے صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے 170 سے زیادہ اونٹ نہ تھے جن پر تین تین چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامان جنگ بھی بالکل ناکافی تھا، صرف 60 آدمیوں کے پاس ز رہیں تھیں۔ اسی لیے چند سرفروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی جو اس خطرناک مہم میں شریک تھے دلوں میں سہم رہے تھے اور انھیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ، جو اگرچہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کا زیاں ہو، اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ دینی جذبے نے ان لوگوں کو پاگل بنادیا ہے۔ مگر نبی اور مومنین صادقین یہ سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے کا ہی ہے اس لیے اللہ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انھوں نے سیدھی جنوبِ مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آ رہا تھا۔ حالانکہ اگر ابتدا میں قافلے کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی رہ لی جاتی۔

17 رمضان المبارک کو بدر کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلے ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے تو خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور انتہائی خضوع و تضرع کے ساتھ عرض کرنا شروع کیا

خدایا، یہ ہیں قریش، اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں، خداوند! بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔

اس معرکۂ کارزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرین مکہ تھا کہ جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں آ رہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گذرسکتے تھے جنھوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہو اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوں اور انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انھوں نے عرب کے طاقتور ترین قبیلے قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جا رہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔ یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انھیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔ آخر کار ان لوگوں کی صداقتِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور قریش اپنے سارے غرور و طاقت کے باوجود ان بے سر و سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ ان کے 70 آدمی مارے گئے، 70 قید ہوئے اور ان کا سر و سامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو ان کے گلہائے سرسبد اور اسلام کی مخالف تحریک کے روح رواں تھے اس معرکے میں ختم ہو گئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابل لحاظ طاقت بنادیا۔ جیسا کہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے کہ

بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا مگر بدر کے بعد وہ مذہبِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا۔

مباحث

یہ ہے وہ عظیم الشان معرکہ جس پر قرآن کی اس سورت میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ مگر اس تبصرے کا انداز تمام اُن تبصروں سے مختلف ہے جو دنیوی بادشاہ اپنی فوج کی فتحیابی کے بعد کیا کرتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے ان خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو اخلاقی حیثیت سے ابھی مسلمانوں میں باقی تھیں تاکہ آئندہ اپنی مزید تکمیل کے لیے سعی کریں۔ پھر ان کو بتایا گیا کہ اس فتح میں تائید الٰہی کا کتنا بڑا حصہ تھا تاکہ وہ اپنی جرات و شہامت پر نہ پھولیں بلکہ خدا پر توکل اور خدا و رسول کی اطاعت کا سبق لیں۔ پھر اس اخلاقی مقصد کو واضح کیا گیا ہے جس کے لیے مسلمانوں کو یہ معرکۂ حق و باطل برپا کرنا ہے اور ان اخلاقی صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے اس معرکے میں انھیں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ پھر مشرکین اور منافقین اور یہود اور ان لوگوں کو جو جنگ میں قید ہو کر آئے تھے، نہایت سبق آموز انداز میں خطاب کیا گیا ہے۔ پھر ان اموال کے متعلق، جو جنگ میں ہاتھ آئے تھے، مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ انھیں اپنا مال نہ سمجھیں بلکہ خدا کا مال سمجھیں، جو کچھ اللہ اس میں سے ان کا حصہ مقرر کرے اسے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیں اور جو حصہ اللہ اپنے کام اور اپنے غریب بندوں کی امداد کے لیے مقرر کرے اس کو برضا و رغبت گوارا کر لیں۔ پھر قانون جنگ و صلح کے متعلق وہ اخلاقی ہدایات دی گئی ہیں جن کی توضیح اس مرحلے میں دعوت اسلامی کے داخل ہوجانے کے بعد ضروری تھی تاکہ مسلمان اپنی صلح و جنگ میں جاہلیت کے طریقوں سے بچیں اور دنیا پر ان کی اخلاقی برتری قائم ہو اور دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اسلام اول روز سے اخلاق پر عملی زندگی کی بنیاد رکھنے کی جو دعوت دے رہا ہے اس کی تعبیر واقعی عملی زندگی میں کیا ہے۔ پھر اسلامی ریاست کے دستوری قانون کی بعض دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے دارالاسلام کے مسلمان باشندوں کی آئینی حیثیت ان مسلمانوں سے الگ کردی گئی ہے جو دارالاسلام کے حدود سے باہر رہتے ہوں۔