غلام اسحاق خان
غلام اسحاق خان بنگش (22 فروری، 1915ء تا 27 اکتوبر، 2006ء) پاکستان کے سابق صدر تھے۔ انھوں نے سیاست میں آنے سے بہت پہلے سرکاری عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ ضلع بنوں کے ایک گاؤں اسماعیل خیل میں ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتونوں کے بنگش قبیلے سے تھا ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے پشاور سے کیمیا اور نباتیات کے مضامین کے ساتھ گریجویشن کی۔ انیس سو چالیس میں انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔
غلام اسحاق خان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
ساتویں صدر پاکستان | |||||||
مدت منصب 17 اگست 1988ء – 18 جولائی 1993ء نگران تا 12 دسمبر 1988ء | |||||||
وزیر اعظم | بینظیر بھٹو غلام مصطفیٰ جتوئی (نگران) نواز شریف بلخ شیر مزاری (نگران) نواز شریف | ||||||
| |||||||
دوسرے چیئرمین سینیٹ | |||||||
مدت منصب 21 مارچ 1985ء – 12 دسمبر 1988ء | |||||||
| |||||||
وزیر خزانہ | |||||||
مدت منصب 5 جولائی 1977ء – 21 مارچ 1985ء | |||||||
صدر | فضل الٰہی چوہدری محمد ضیاء الحق | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 20 جنوری 1915ء ضلع بنوں |
||||||
وفات | 27 اکتوبر 2006ء (91 سال)[1] پشاور |
||||||
وجہ وفات | نمونیا | ||||||
طرز وفات | طبعی موت | ||||||
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
||||||
مذہب | اسلام | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعۂ پشاور | ||||||
پیشہ | سیاست دان ، سرمایہ کار ، ماہر نباتیات | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو | ||||||
ملازمت | انڈین سول سروس | ||||||
درستی - ترمیم |
ملازمت
ترمیمصوبہ خیبر پختونخوا میں وزیر اعلی کے سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری جیسے کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے بعد سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے۔1955 میں جب ون یونٹ کے تحت مغربی اور مشرقی پاکستان کے نام سے دو صوبے بنائے گئے تو غلام اسحاق خان مغربی پاکستان کے سکریٹری آبپاشی مقرّر ہوئے۔ اس حیثیت میں پاکستان بھارت دریائی پانی کی تقسیم کے معاملات میں وہ سرکاری معاونت کرتے رہے۔ 196ٍ1 میں پانی و بجلی کے وسائل کی ترقی اور نگرانی کے ادارے واپڈا کے سربراہ بنے اور 1965 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد پانچ برس سے زائد عرصے تک سیکرٹری خزانہ رہے۔
بطور سکریٹری خزانہ بھی وہ اتنے بااثر تھے کہ بیس 20 دسمبر 1971 کی جس تصویر میں شکست خوردہ یحیٰ خان ذو الفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کر رہے ہیں اس تصویر میں تیسرے آدمی غلام اسحاق خان ہیں جو اقتدار کی منتقلی کی دستاویز پر دستخط کروا رہے ہیں۔ بھٹو حکومت کی تشکیل کے بعد غلام اسحاق خان انیس سو پچہتر تک گورنر اسٹیٹ بینک کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔
اس کے بعد غلام اسحاق خان کو سکریٹری جنرل دفاع کا قلمدان دے دیا گیا۔ اس حیثیت میں وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بھی نگراں رہے اور ان کے فوج کی اعلیٰ قیادت سے بھی براہ راست تعلقات استوار ہوئے۔1977 میں جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو غلام اسحاق خان پہلے مشیرِ خزانہ اور پھر وزیرِ خزانہ بنائے گئے اور انھوں نے معیشت کو اسلامی طرز پر ڈھالنے کے جنرل ضیا کے ایجنڈے میں معاونت کی۔ ملک کے لیے خدمات کے پیش نظر انھیں ستارہ پاکستان اور ہلال پاکستان کے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
سیاسی زندگی
ترمیم1984ء کے اواخر میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بحالی جمہوریت کا محدود اور محتاط عمل شروع ہوا تو غلام اسحاق خان کو سینیٹ کا چیئرمین بنایا گیا جو آئینی اعتبار سے صدر کا جانشین عہدہ ہے۔ چنانچہ جب 17 اگست 1988ء کو غلام اسحاق خان نے بحیثیت قائم مقام صدر مملکت باضابطہ طور پر تصدیق کی کہ صدر ضیا الحق کا طیارہ ہوا میں پھٹ گیا ہے تو اس وقت پورے ملک میں یہ انتظار ہو رہا تھا کہ فوج کب اقتدار سنبھالتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ جنرل ضیا الحق کے غیر جماعتی فارمولے کو طاق پر رکھ دیا گیا اور تین ماہ بعد جماعتی بنیاد پر عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔
لیکن اس عرصے میں پیپلز پارٹی کی طاقت کو بیلنس کرنے کے لیے غلام اسحاق خان کی آنکھوں کے سامنے آئی ایس آئی کی مدد سے اسلامی جمہوری اتحاد کی شکل میں ایک قوت بھی کھڑی کردی گئی۔ بہرحال پیپلز پارٹی کو مشروط طور پر اقتدار منتقل کیا گیا۔ اور ڈیل کے تحت غلام اسحاق خان پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کی مشترکہ حمایت سے دسمبر 1988ء میں نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں پاکستان کے ساتویں صدر منتخب ہو گئے۔
صدر غلام اسحاق خان کو آٹھویں آئینی ترمیم کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت منتخب پارلیمان اور حکومت کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے جج اور مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کا اختیار بھی حاصل تھا۔ لیکن ان کی نہ تو بے نظیر بھٹو سے اور نہ بعد میں نواز شریف حکومت سے نبھ سکی۔ اور اگست 1990ء میں بے نظیر حکومت اور اپریل 1993ء میں نواز شریف حکومت اٹھاون ٹو بی کا شکار ہوگئیں۔
سپریم کورٹ نے 1988ء میں اس صدارتی اختیار کے تحت صدر ضیا الحق کے ہاتھوں جونیجو حکومت اور پھر 1990ء میں غلام اسحاق خان کے ہاتھوں بے نظیر حکومت کی پہلی برطرفی کو تو غیر آئینی قرار نہیں دیا البتہ نواز شریف حکومت کی برطرفی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مئی 1993ء میں اس کی بحالی کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے نتیجے میں وفاقی ڈھانچہ ڈیڈلاک کا شکار ہو گیا۔ چنانچہ بری فوج کے سربراہ جنرل عبد الوحید کاکڑ کے دباؤ پر نو بحال وزیرِ اعظم نواز شریف اور جہاندیدہ صدر غلام اسحاق خان کو گھر جانا پڑا۔
شخصیت
ترمیمغلام اسحاق خان نے تمام عمر بطور ایک بیوروکریٹ کے گزاری اور ان کے رفقا کے بقول آخری دم تک کے افسر کے طور پر رہے۔ ان سے بیوروکریسی کے طور طریقے شاید ہی کوئی اور بہتر انداز میں جانتا ہو۔ وہ انتہائی محنتی اور سیلف میڈ انسان تھے۔ ان کے بارے میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا لیکن ان کے دو داماد انور سیف اللہ اور عرفان اللہ مروت سیاست میں تھے اور ان کے معاملے میں وہ کچھ سیاسی بن گئے۔ سیف اللہ خاندان کی سیاست کو انھوں نے آگے بڑھایا اور عرفان اللہ مروت جو سندھ کی سیاست میں تھے اور جن پر سنگین الزامات لگے، انھوں نے ان کو بچانے کی کوشش کی۔
خدمات
ترمیمصوبہ خیبر پختونخوا میں ان کا نام غلام اسحاق خان انسٹییوٹ آف انجنیئرئنگ اینڈ ٹیکنالوجی جیسے اعلی تعلیمی ادارے کے ٹوپی کے مقام پر قیام کی وجہ سے زندہ رہے گا۔ اس کے علاوہ بھٹو دور میں ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے میں بھی ان کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
بنوں اور غلام اسحاق
ترمیمحیرانی کی بات ہے کہ تقریبا کئی عشروں تک اعلی سرکاری عہدوں اور سیاسی عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود غلام اسحاق خان بنوں جیسے پسماندہ علاقے کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر رہے۔ بلکہ ان کے ہی دور صدارت میں انڈس ہائی وے کا نقشہ بدل دیا گیا جس سے ضلع بنوں کو کئی سو سال پیچھے تاریکی میں دھکیل دیا گیا۔ ان کی موت سے ملکی تاریخ پر اثر ضرور پڑے گا لیکن ان کی موت پر ضلع بنوں اور یہاں کے عوام میں کسی قسم کی کوئی گہما گہمی دیکھنے میں نظر نہیں آئی۔ ان کے اپنے رشتے داروں کا تو یہ کہنا تھا کہ غلام اسحاق سے ان کو کوئی رشتہ نہیں وہ اس علاقے میں پیدا ہی نہیں ہوئے۔
انتقال
ترمیمغلام اسحاق خان جبری ریٹائرمنٹ کے بعد پشاور میں ایسے گوشہ نشین ہوئے کہ نہ تو انھوں نے اپنی سوانح حیات لکھی اور نہ کبھی کوئی انٹرویو دیا۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو سن انیس سو پچپن سے لے کر تا مرگ پاکستان کی تمام اہم محلاتی جوڑ توڑ کو تاریخ کی عدالت میں سلطانی گواہ کے طور پر بہت اچھے طریقے سے بے نقاب کرسکتے تھے۔ اکتوبر 2006ء میں نمونیا کے حملے سے ان کا انتقال ہوا۔ انھیں پشاور میں دفن کیا گیا۔
حوالہ جات
ترمیمبیرونی روابط
ترمیم- غلام اسحاق خان کی پروفائل تاریخ پاکستان
- غلام اسحاق خان عہدہ صدارت کا حلف اٹھاتے ہوئے
- غلام اسحاق کی صدارت کی کہانی
- گیکی (غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ، انجنئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی)
- ان کی وفات پر بی بی سی کا تبصرہ
- "غلام اسحاق خان کی وفات" روزنامہ ڈان کا تبصرہ
سیاسی عہدے | ||
---|---|---|
ماقبل | وزیر خزانہ 1977–1985 |
مابعد |
ماقبل | چئرمین سینیٹ 1985–1988 |
مابعد |
ماقبل | صدر پاکستان 1988–1993 |
مابعد وسیم سجاد
نگران |