لال مسجد پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کے قلب میں آبپارہ کے علاقہ میں [1] 1965 میں تعمیر کی گئی ہے۔ سرخ پتھر سے تعمیر کے باعث یہ "لال مسجد" کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے قریب وزات ماحولیات اور وزارت مذہبی امور کی عمارتوں کے علاوہ ایک عالی شان ہوٹل بھی واقع ہے۔

لال مسجد
مرکزی جامع مسجد اسلام آباد
Lal Masjid
بنیادی معلومات
متناسقات33°42′46.3″N 73°05′13.1″E
مذہبی انتساباہل سنت (دیوبندی مکتب فکر)
ملکپاکستان
حیثیتفعال
سربراہیمولانا عبدالعزیز غازی
تعمیراتی تفصیلات
معمارکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ابتدائی تعمیر)
بحریہ ٹاؤن (تزئین و آرائش)
نوعیتِ تعمیراسلامی فن تعمیر
طرز تعمیرعثمانی اور مغلیہ طرز تعمیر
سنگ بنیاد1963
سنہ تکمیل1965؛ 60 برس قبل (1965) (ابتدائی تعمیر)
2010؛ 15 برس قبل (2010) (تزئین و آرائش)
گنبد1
مینار2

پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا صدر دفتر مسجد سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مسجد اور مدرسے کے مہتمم دو بھائی عبد الرشید غازی اور مولانا عبد العزیز ہیں جن کے والد مولانا عبداللہ تھے۔ مولانا عبد اللہ سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ مولانا عبد اللہ غازی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے صدر بھی تھے

تصادم

ترمیم

2002 میں امریکا کی افغانستان پر چھڑائی کے خلاف جب امریکا نے مشرف کو دھمکی دی کہ پتھروں کے زمانے میں پھنچا دونگا پرویز مشرف اس امریکا کے دباؤ میں آکر امریکا کو اڈے دیے تو لال مسجد اور جامع حفصہ کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا مشرف کی آنکھوں میں کھٹکتے لگا پر 2007 میں لال مسجد اور جامہ حفصہ کے قریب تر علاقے میں شمیم نامی عورت عورتوں کا دھندا کرنے لگی اور کئی سی ڈی کے دوکانیں کھل گئی لال مسجد انتظامیہ کے ان کے خلاف کئی ایف آئی آر کے باوجود جب کوئی کاروائ نہیں ھوئ کیونکہ اس کے اوپر ملک کے بڑے بڑے لوگوں اور سرکاری سطح پر ہاتھ تھا تو انتظامیہ نے مجبور ھوکر ان کے دوکانیں توڑ دی اور شمیم نامی عورت نما مرد کو گرفتار کر لیا مشرف تو جیسے لال مسجد کے لیے موقع کے تلاش میں تھا فوراً سے پھلے مسجد اور مدرسے کو چاروں طرف سے گھیر لیا لال مسجد انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز میں حالات کنٹرول سے باھر ھوگئے تو مولانا فضل الرحمان بھیج میں آکر دونوں کو پرامن رھنے اور مزاکرات سے حل نکالنے کی کوشش کی جس پر لال مسجد اور ریاستی اداروں نے اطمینان کا اظہار کیا دو ملاقاتیں ھو چکی تھی تقریباً 90٪ مثلہ حل ھو چکا تھا اور آخری اور حتمی۔ملاقات باقی تھی جو رات کو 11 بجے ھونا تھی مولانا فضل الرحمان حل کے لیے پر امید گھر سے اسلام آباد کے لیے نکلے ہی تھی کہ مزاکرات کے آخری مرحلے سے صرف آدھا گھنٹہ پھلے مشرف نے آپریشن کا اعلان کیا کیونکہ 2002کے احتجاج اس کی آنکھوں میں پھلے سے کھٹک رھی تھی اور شائد اس کے بھی شمیم نامی عورت سے قریبی تعلق تھا جس کے بنیاد پر کامیاب مزاکرات کو آخری مرحلے تھے ختم کرکے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر ظلم کے پھاڑ توڑ دیے اور مولانا فضل الرحمان کو 3 ماہ کے لیے گھر میں نظر بند کیا جس کے وجہ سے عوام کو آج بھی غلط فہمی ہے کہ مولانہ کیوں خاموش رھا حلانکہ وہ نظر بند تھا اور سیاسی مخالفین نے اس کا فایدہ اٹھا کر مولانا فضل الرحمان پر مشرف سے پیسہ کھانے کا گھمراہ کن پروپیگنڈہ کیا جس گھمراھی میں آج بھی اکثریت مبتلا ہے

مشرف نے کامیاب مزاکرات کو ٹھکرا کر جب آپریشن کا اعلان کیا تو عبد الرشید غازی نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اسلام آباد انتظامیہ نے پھلے ہی سے اسلام آباد کے سگنل بند کر دیے تھے عبد الرشید غازی آخری وقت تک کوشش کررھے تھے کہ ملک کی امن کو برقرار رکھا جائے مسجد میں کچھ خفیہ ایجنسی کے لوگ بھی شامل تھے جس نے مشورہ دیا کہ آپ برقع پھن کر سیدھا مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرے تاکہ آپریشن کسی طرح رک جائے مولانا عبد الرشید اس پر راضی ھوگئے کیونکہ وہ بھی محب وطن پاکستانی تھے جیسے ہی اس نے برقع پھن کر نکلنے کی کوشش کی خفیہ ایجنسی پھلے ہی باخبر کر چکی تھی اس لیے باھر جاتے ہی ایک محب وطن دین دار ایمان دار عبد الرشید گولیوں سے چھلنی کر دیا اور پر لال مسجد پر وہ کیمکل چھوڑ دیا جو جسم پر لگ کر ھڈیوں سے گوشت کو الگ کر دیا اس کیمکل کو کھبی استعمال نہیں کیا اور پر کچھ عورتوں کو مدرسہ حفصہ کا طلبہ دیکھا کر مدرسے پر بے انتہا الزامات لگائے جو جھوٹ اور گھمراہ کن تھی

اس سے قبل اُسکی والدہ بھی دم گھٹنے سے ہلاک ہوئی تھی۔

بعد از فوجی کارروائی

ترمیم

12 جولائی 2007ء کو بالاخر ذرائع ابلاغ کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا دورہ کروایا گیا۔ یہاں فوجی حکومت کے بیانات کے برعکس نہ تو کوئی غار دریافت ہوئی، نہ سرنگ، نہ بڑے دہشت گردوں کا کوئی سراغ۔ تہ خانے جن کا بڑا چرچا تھا (جہاں شدت پسند کے چھپے ہونے کا بتایا جاتا رہا)، میں بھی جنوبی جانب کھڑکیاں تھیں، جس طرف سے فوج نے راکٹ داغے۔ فوجی جوان جوتوں سمیت مسجد میں دندناتے پھر رہے تھے۔ پھر بھی اخبار نویسوں کو عمارات کے تمام حصوں میں نہیں جانے دیا گیا۔[2][3][4]

عدالت اعظمٰی

ترمیم

خونی فوجی کارروائی سے پہلے عدالت عظمٰی کے دو رکنی مَحکمہ نے حکومت کو بات چیت کے ذریعہ حل نکالنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت کی طرف سے چودھری شجاعت حسین نے مذاکرات کیے اور خبروں کے مطاابق ایک معاہدہ کی شرائط پر اتفاق رائے ہو گیا تھا، مگر اطلاعات کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف نے شرائط بدل کر اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد عدالت نے آئین کی رُو سے اس میں مداخلت سے معذوری ظاہر کی۔ کاورائی ختم ہونے کے بعد عدالت نے مدرسہ کے گرفتار شدہ طلبہ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے اور گرفتار شدگان کی فہرست عدالت میں پیش نہ کرنے پر پولیس اور کمشنر اسلام آباد کی سرزنش کی۔ تاہم عدالت نے ہلاک شدگان کی صحیح تعداد کے بارے متضاد دعووں کی تحقیقات کرنے سے گریز کیا۔[5] 23 جولائی کو عدالت نے حکم دیا کہ لال مسجد میں مرنے، زخمی اور لاپتہ افراد کی فہرست عدالت کو پیش کی جائے۔ منصفین نے حکومتی حرکتوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔[6] اس سے پہلے حکومت انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے سینکڑوں طلبہ کا جسمانی ریمانڈ لے کر جیل میں ڈال چکی ہے۔ 28 اگست 2007ء کو عدالت نے حکم دیا کہ جامع حفصہ کی جگہ کوئی دوسری تعمیر فی الحال نہ کی جائے۔[7]

رد عمل

ترمیم

تمام واقعات مقامی اخبارات سے لیے گئے ہیں۔

  • 14 جولائی۔ پاکستان میں شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں ایک خودکش حملے میں 24 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور ستائیس زخمی ہو گئے۔
  • 15 جولائی۔ پاکستان کے علاقہ سوات کے صدر مقام مینگورہ کے قریب حملے میں11 فوجیوں سمیت 14 افراد ہلاک 39 زخمی ہو گئے۔
  • 15 جولائی۔ پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کی پولیس لائینز میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں سترہ افراد ہلاک اور پینتیس زخمی ہو گئے
  • 15 جولائی۔ پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان کے طالبان نے گذشتہ برس حکومت کے ساتھ کیا جانے والا امن معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ علاقے میں گوریلا کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جب سے یہ معاہدہ ہوا تھا، امریکہ کی شدید خواہش تھی کہ یہ معاہدہ ختم ہو جائے۔
  • 17 جولائی۔ چیف جسٹس افتخار چوھدری کی اسلام آباد کی ریلی میں خود کش حملے سے 17 افراد ہلاک ہو گئے۔
  • 18 جولائی۔ شمالی وزیرستان، پاکستان میں دھشت گردوں کے ایک اور خود کش حملہ میں سترہ فوجی ہلاک اور گیارہ زخمی ہو گئے۔
  • 19 جولائی۔ ہنگو اور حب میں دھماکے، 33 ہلاک۔ حب میں اصل نشانہ چینی شہری تھے جو بچ گئے۔ اس حملہ کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ لال مسجد کا رد عمل ہے یا کچھ اور مگر لال مسجد والوں کی مانند یہ بھی چینی شہریوں پر خاص مہربان نظر آتے ہیں۔
  • 19 جولائی۔ کوہاٹ چھاؤنی کی مسجد میں خود کش حملہ۔ چودہ افراد ہلاک

ویب سائٹس اور ویڈیو

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "لال مسجد کا تعارف"۔ 2007-05-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-05-16
  2. بی بی سی، 12 جولائی 2007ء، "لال مسجد: سوالوں کے جواب ندار"
  3. روزنامہ ڈان، 13 جولائی 2007ء، "Charred remains speak of fierce battles"
  4. انڈیپنڈنٹ، برطانیہ، 13 جولائی 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ news.independent.co.uk (Error: unknown archive URL) " Pakistan quick to clean the blood from Red Mosque "
  5. علمائے کرام جن میں ملک کے جید علما مولانہ سلیم اللہ خان (صدر وفاق المدارس) مولانا رفیع عثمانی (مفتی اعظم پاکستان) و دیگر کا کہنا تھا کہ حکومت اور عبد الردشید غازی کے مزاکرات کامیاب ہوئے تھے مگر پرویز مشرف نے اسے ویٹو کر دیا وہ مسجد میں خونی آپریشنن کے در پہ تھے جس کا مقصد آمریکی آشیر باد حاصل کرنا تھا۔ روزنامہ نیشن، 14 جولائی 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "SC orders govt to free students"
  6. روزنامہ نیشن، 24 جولائی 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "SC seeks details of Lal Masjid operation "
  7. 29 روزنام نیشن اگست 2007ء،[مردہ ربط] "No construction at Hafsa site, orders SC"

بیرونی روابط

ترمیم

بلاگ و چوپال

ترمیم