ابن الفوطی
ابن الفوطی یا ابن الصابونی (پیدائش: 25 جون 1244ء– وفات: 12 جنوری 1323ء) عراقی مسلمان محدث، فلسفی، ماہر فلکیات اور مؤرخ تھے۔ اُن کی وجہ شہرت اُن کی تصنیف مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب ہے۔
| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
پیدائشی نام | (عربی میں: عبد الرزاق بن أحمد بن محمد الصابوني) | |||
پیدائش | 25 جون 1244ء بغداد |
|||
وفات | 12 جنوری 1323ء (79 سال) بغداد |
|||
رہائش | بغداد مراغہ تبریز |
|||
شہریت | دولت عباسیہ ایل خانی سلطنت (1256–) |
|||
عملی زندگی | ||||
استاد | نصیر الدین طوسی ، ابن خراط دوالیبی | |||
پیشہ | مورخ ، ماہر فلکیات ، مصنف | |||
مادری زبان | عربی | |||
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، فارسی | |||
آجر | رصدگاہ مراغہ ، مدرسہ مستنصریہ | |||
درستی - ترمیم |
نام، لقب اور کنیت
ترمیمابن الفوطی کا نام عبد الرزاق بن احمد بن محمد الحنبلی ہے۔ کنیت ابوالفضل اور لقب کمال الدین، ابن الفُوَطِی اور ابن الصابونی ہے۔ اپنے معاصرین میں کمال الدین ابن الصابونی کے نام سے مشہور تھے۔ ابن الفوطی اپنے نانا موفق الدین عبد القاہر البغدادی الحنبلی کی نسبت سے الفُوَطی کہلاتے تھے (جو فُوَط یعنی دھاری دار کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جو سندھ سے بغداد پہنچتا تھا)۔ ابن الفوطی کے نانا موفق الدین 656ھ/ 1258ء میں سقوط بغداد کے سانحہ میں تاتاریوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔
نسب
ترمیمابن الفوطی کا نسب یوں ہے کہ: عبد الرزاق بن احمد بن محمد بن احمد بن عمر ابن ابی المعالی محمد بن محمود بن احمد بن ابی المعالی المفضل بن عبد اللہ بن معن بن زائدہ الشیبانی۔[1][2] ابن الفوطی کا خاندان بغداد کے حنبلی خاندانوں میں شمار کیا جاتا تھا جو معن بن زائدہ الشیبانی (جو ایک امیر کبیر سردار تھے) کی نسل سے تھا۔ یہ خاندان مرو سے تعلق رکھتا تھا۔
پیدائش
ترمیمابن الفوطی بروز ہفتہ 17 محرم الحرام 642ھ/ 25 جون 1244ء کو دار الخلافہ بغداد کے محلہ الخاتونیہ کے علاقہ درب القواس میں بغداد کے آخری عباسی خلیفہ المستعصم باللہ کے عہدِ حکومت میں پیدا ہوئے۔[3][2]
تحصیل علم
ترمیمبچپن میں قرآن حفظ کیا اور امام محی الدین یوسف بن ابی الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی (متوفی 1258ء) سے اور اُن کے طبقے کے دیگر مشائخ سے مزید علم حاصل کیا۔ سقوط بغداد 1258ء میں ابن الفوطی کی عمر 14 سال تھی، اِس سانحے میں ابن الفوطی کو بھی گرفتار کر لیا گیا لیکن جلد ہی رہا کر دیا گیا۔[1] قطب الدین عبد القادر بن حمزہ الاھری الحکیم کا بیان ہے کہ: "میں نے انھیں (یعنی ابن الفوطی کو) سنہ 657ھ میں تاتاریوں کی قید میں دیکھا تھا۔[4] 660ھ/ 1262ء میں خواجہ نصیر الدین طوسی (متوفی 26 جون 1274ء) نے ابن الفوطی کو اپنے سایہ شفقت میں لے لیا اور اپنے پاس مراغہ بلوا لیا جہاں ابن الفوطی نے منطق، فلسفہ، علم نجوم اور دیگر علومِ عقلیہ کی تعلیم حاصل کی۔[3][5] مراغہ میں خواجہ نصیر الدین طوسی کے علاوہ مبارک بن المستعصم باللہ (متوفی 666ھ/1267ء) سے بھی تحصیل علم کیا۔ ابن الفوطی کو عربی اور فارسی میں شعرگوئی کا کمالِ فن بھی حاصل تھا۔ خواجہ نصیر الدین طوسی سے علم نجوم حاصل کیا اور علم نجوم اور علم ہیئت میں اِس قدر مہارت پیدا کرلی کہ خود خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب ایلخانیہ مرتب کرتے وقت ابن الفوطی سے مشورہ کیا تھا۔
اسفار
ترمیمابن الفوطی کو طلبِ علم کے واسطے دور دراز کے سفر اختیار نہیں کرنا پڑے، البتہ اُن کی اپنی تصانیف میں سیاحتِ علم کے اشارے ملتے ہیں جیسے کہ 681ھ/1282ء میں وہ حلہ اور کوفہ میں تھے جبکہ 700ھ/ 1301ء میں سلماس اور 704ھ/ 1305ء میں وہ ہمدان میں موجود تھے۔ 705ھ/1306ء میں وہ ایران پہنچے اور 706ھ/1307ء میں تبریز پہنچے۔ اِن اسفار کا قصد غالباً تاریخی معلومات فراہم کرنے کے لیے تھے۔1304ء اور 1305ء کے وسطی زمانے میں وہ سلطنت ایل خانی کے حکمران محمد خدابندہ اولجایتو کے دربار سے وابستہ رہے اور تین سال تک وہ سلطنت ایل خانی کے مقبوضات میں سرگرداں رہے۔[6] 710ھ/1310ء میں وہ ایل خانی دارالحکومت سلطانیہ میں مقیم تھے۔[7] 712ھ/1312ء میں اُن کے بغداد میں موجود ہونے کا پتا چلتا ہے۔[8]
بحیثیت مہتمم و خازن کتب خانہ
ترمیم669ھ/ 1271ء میں ابن الفوطی خواجہ نصیر الدین طوسی کے خزانۃ الرصد (یعنی رصدگاہ مراغہ) کے کتب خانے کے خازن و مہتمم بنادیے گئے۔ اِس کتب خانے میں تقریباً چار لاکھ سے زائد کتب موجود تھیں جن سے ابن الفوطی کو استفادہ ہوا۔ ایل خانی حکمران اباقا خان کے عہدِ سلطنت (1265ء - 1282ء) میں 679ھ/1280ء میں علاء الدین عطاء الملک الجوینی کی فرمائش پر مراغہ کو خیرباد کہہ کر بغداد روانہ ہو گئے جہاں وہ دوبارہ محلہ خاتونیہ میں سکونت پزیر ہوئے۔[9] بغداد میں انھیں مدرسہ مستنصریہ کے کتب خانے کا خازن یعنی نگران مقرر کر دیا گیا جس پر وہ اپنی وفات تک فائز رہے۔بغداد میں قیام کے دوران میں لوگوں نے اُن سے سماعِ حدیث بھی کیا۔
تصانیف و تالیفات
ترمیمابن الفوطی کی تالیفات و تصانیف کی تعداد 83 ہے لیکن اِن تمام میں سے بہت کم ہی میسر آسکی ہیں۔ اِن میں چند کتب وہ ہیں جو شائع ہو چکی ہیں۔
الحوادث الجامعۃ والتجارب النافعۃ من المائۃ السابعۃ
ترمیمیہ کتاب ابن خلکان کی تصنیف وفیات الاعیان کا تکملہ ہے۔ پہلی بار بغداد سے 1351ھ (1932ء) میں شائع ہوئی۔
- مزید دیکھیں: مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب
یہ کتاب 50 جلدوں میں مرتب کی گئی تھی لیکن اب اِس کی چالیسویں جلد جس میں حرف ع سے ق تک کے تراجم موجود ہیں، خودنوشت مخطوطہ کی شکل میں جو 717ھ/ 1317ء میں لکھا گیا تھا، دریافت ہو چکا ہے اور تہران سے 1416ھ/1996 میں 6 جلدوں کی صورت میں شائع ہوئی۔
مختصر اخبار الخلفاء العباسین
ترمیمیہ کتاب خلفائے بنو عباس سے متعلق اخبارات یعنی اُن کے عہدِ حکومت میں پیش آنے والے واقعات کا مختصر روزنامچہ ہے۔[10]
تلخیص مجمع الآداب
ترمیمیہ کتاب خود ابن الفوطی کی تصنیف مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب کا خلاصہ ہے جو غالباً 10 جلدوں میں مرتب کیا گیا تھا۔ اِس کا ایک نادر خوشخط مخطوطہ دریافت ہو چکا ہے جس میں 209 صفحات ہیں اور آخری صفحہ ناقص ہے۔ اِس مخطوطہ میں چار ہزار سے زائد علما کے تراجم موجود ہیں۔ اِس مخطوطے کا خط باریک لیکن روشن اور واضح ہے۔[6]
ذیل علیٰ تاریخ شیخہ ابن الساعی
ترمیمیہ کتاب ابن الفوطی نے عطاء الملک الجوینی کے لیے اپنے استاد تاج الدین علی بن انجب المعروف ابن الساعی (متوفی 674ھ/1275ء) کی تاریخ کی تصنیف جو 25 مجلدات میں تھی، کا ایک ذیل یعنی تکملہ لکھا جو 18 جلدوں میں مکمل ہوا۔ اب یہ کتاب ناپید ہے۔
درر الاصداف فی غرر الاوصاف
ترمیمیہ کتاب وجودِ باری تعالیٰ اور انسان کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ جامع اور ضخیم کتاب ہے حو بقول مصنف ایک ہزار کتب کے مطالعہ کے بعد تحریر میں لائی گئی تھی۔ اب ناپید ہے۔
تلقیح الافہام فی الموتلف والمختلف
ترمیمیہ کتاب بھی تاریخ کے موضوع پر ہے۔ اب ناپید ہے۔
نظم الدرر الناصعۃ فی شعر المائۃ السابعۃ
ترمیمیہ متعدد جلدوں میں تھی۔ یہ بھی ناپید ہے۔
کتاب التاریخ علی الحوادث
ترمیمیہ کتاب عمومی تاریخ کے موضوع پر ہے۔ اِس کے متعدد مخطوطات موجود ہے۔ شائع ہو چکی ہے۔
معجم الشیوخ
ترمیماِس کتاب میں ابن الفوطی نے اپنے 500 اساتذہ کے تراجم جمع کیے ہیں۔
وفات
ترمیمابن الفوطی نے 78 سال 6 ماہ 18 دن (بلحاظِ شمسی) کی عمر میں بروز بدھ 3 محرم الحرام 723ھ/ 12 جنوری 1323ء کوبغداد کے محلہ خاتونیہ میں وفات پائی اور محلہ شُونیزیہ کے قبرستان میں تدفین کی گئی۔[6][11]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب معجم مصنفات الحنابلہ: جلد 3، صفحہ 343۔ تذکرہ ابن الفوطی۔ مطبوعہ ریاض، 1422ھ۔
- ^ ا ب ابن کثیر: البدایہ والنہایہ، جلد 14، صفحہ 126۔ مطبوعہ لاہور۔
- ^ ا ب ابن العماد االحنبلی: شذرات الذھب، جلد 8، صفحہ 107۔ مطبوعہ بیروت، 1406ھ/1986ء۔
- ↑ مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 18۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
- ↑ مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 20۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
- ^ ا ب پ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام: جلد 3، صفحہ 769، مقالہ: ابن الفوطی۔ مطبوعہ لائڈن، 1986ء۔
- ↑ مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 33۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
- ↑ مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 34۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
- ↑ مقدمہ مجمع الآداب فی معجم الالقاب، جلد 1، صفحہ 22۔ مطبوعہ تہران، 1416ھ۔
- ↑ براکلمان: تکملہ براکلمان، جلد 1، ص 590۔
- ↑ ابن العماد االحنبلی: شذرات الذھب، جلد 8، صفحہ 110۔ مطبوعہ بیروت، 1406ھ/1986ء۔