تبادلۂ خیال:ضمیر اختر نقوی

’’اردو غزل اور کربلا‘‘: ضمیر اختر نقوی کا کارنامہ

ترمیم

حضرت مولانا سید ضمیر اختر نقوی بہت پڑھے لکھے، صاحبِ نقد و نظر’’مولانا‘‘ ہیں، وہ عرفِ عام میں مولانا کہلانے والے ’’مولانا‘‘ نہیں۔ جدید ترین علوم و فنون پر دسترس رکھنے والے علّامہ ہیں۔ پی ایچ ڈی ہیں، ڈاکٹر ہیں، ادب کے بھی اور روحانی بھی۔ ان کی سوچ، ان کی فکر حد و دقت سے عموماً آگے کی ہوتی ہے، اس لئے عام لوگوں کو پچتی نہیں، یہی وجہ ہے کہ 2009ء میں اسی فروری کے مہینے کی نویں تاریخ کو کچھ ناخلف فرزندانِ کراچی نے ان کی ایک مجلس کو بگاڑا، جس کا اظہار انہوں نے اپنی گراں قدر تحقیقی و تنقیدی کتاب ’’اردو غزل اور کربلا‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں ’’اِن آنکھوں نے کیا کیا دیکھا؟‘‘ کے عنوان کے تحت بڑی دل سوزی سے کیا ہے۔


ناصر زیدی کہتے ہیں.

مَیں بھی اس حادثہ ء جاں کاہ کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتا، چند فقرے ہو بہو نقل کرتا ہوں: ’’13 صفر شہادتِ حضرتِ سکینہؑ کے روز جامعہ سبطین گلشن اقبال، کراچی میں شیعہ حضرات نے خود ہی مجلس عزا اور امام بارگاہ پر حملہ کر دیا۔ شاہراہ عام پر ہنگامہ برپا تھا اور راستے کا اہلِ سنت کا مجمع شیعوں پر ہنس رہا تھا‘‘۔۔۔! مَیں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن یہ تاریخِ شیعیت کا واقعی انوکھا اور پہلا واقعہ ہے۔۔۔ اس سازش کے پیچھے خفیہ ہاتھ یا ہاتھوں کی نشان دہی ہنوز نہیں ہو سکی۔ ’’’صاحبانِ انصاف سے انصاف کے طالب علامہ ضمیر اختر نقوی کا نہ قلم و کاغذ کا سفر رُکا ہے، نہ محراب و منبر کی تقدیس کے ساتھ بے مثال خطابت میں خلل آیا ہے۔۔۔ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ علامہ صاحب بے بدل خطیب ہیں۔بے عدیل ادیب ہیں، مُدیر ہیں، مقرر ہیں، مفسر ہیں۔ حافظِ انیس و دبیر ہیں۔ 1967ء میں جب مَیں (ناصر زیدی) ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت کے ساتھ امامیہ مشن پاکستان کے ماہانہ جریدے ’’پیامِ عمل‘‘ لاہور کا بھی مدیر تھا، اس وقت سے علامہ صاحب سے سلسلہ موانست قائم ہے۔ ان کی دور اندیشی اور پیش بینی کا میں پہلی بار انہی دنوں قائل ہوا، جب انہوں نے ایک طویل مکتوب لکھ کر اپنے منسلکہ شیڈول کے تحت خصوصی توجہ دلائی کہ میر انیس کی صدی مکمل ہونے والی ہے اس صدیوں کے شاعر کے صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات ملک بھر میں شایان شان طریقے پر منعقد ہونی چاہئیں، چنانچہ میر انیس کی یہ صدی عظیم الشان طریقے سے منائی گئی۔ ماہنامہ ’’پیامِ عمل‘‘ نے نجی کاوشوں سے اور ’’ماہِ نو‘‘ نے حکومتی سطح پراپنے مجلوں کے ذی شان خصوصی نمبر نکال کے میر ببر علی انیس لکھوی کو بھر پور خراجِ تحسین پیش کیا۔۔۔! علامہ ڈاکٹر سید ضمیر اختر نقوی متعدد کتب، عشرۂ مجالس کے علاوہ تاریخ اور سوانح حیات پر مبنی 28 کتب کے مصنف و مولف ہیں۔ میر انیس کے فکر و فن سے خصوصی لگاؤ کے سبب اب تک ’’ادبیات‘‘ کے ذیل میں اردو، انگریزی دس کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں ’’خاندانِ میر انیس‘‘ کے نامور شعراء۔۔۔ ’’کلام انیس میں رنگوں کا استعمال‘‘، ’’ہر صدی کا شاعرِ اعظم میر انیس‘‘۔۔۔ اور دو جلدوں میں ’’نوادراتِ مرثیہ نگاری‘‘ کے بعد اب ’’اردو غزل اور کربلا‘‘ جیسے اچھوتے موضوع کے ساتھ ہمارے سامنے ہیں۔ اس موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے انڈیا میں خاصا وقیع کام کیا ہے، مگر پاکستان میں علامہ صاحب موصوف کی یہ پہلی گرانقدر کاوش ہے، جس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی اور مصنف کہ دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ اس کتاب میں فاضل محقق نے بڑی تحقیقی عرق ریزی کے ساتھ موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ عہدِ قدیم و جدید کے مقتدر اردو شعراء کی غزلوں سے ایسے اشعار منتخب کرکے یکجا کر دیئے ہیں، جن میں کربلا کے زندہ و توانا استعارے کو بخوبی برتا گیا ہے، چنانچہ چھ ابواب میں الگ الگ عنوانات کے تحت سمندر کو کوزے میں بند کیا گیا ہے۔ ان عنوانات پر ایک نظر ڈال کر ہی نفسِ مضمون کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہ عنوان کچھ یوں ہیں: ’’اردو غزل اور کربلا‘‘۔۔۔ ’’واقعاتِ کربلا غزل کے آئینے میں ‘‘۔۔۔ ’’فرہنگِ ذکر کربلا‘‘ اور ’’غزل میں مماثلت‘‘۔۔۔’’بلا واسطہ اشعارِ غزل‘‘ ’’بالواسطہ اشعارِ غزل‘‘ اور ’’ناسخ کی غزلوں میں مذہبی شاعری‘‘ وغیرہ۔۔۔! معروف و ممتاز ہندو مسلم شعراء اور مختلف عقیدہ و مسلک کے اکثر شعراء کے منتخب اشعار موضوع کی مناسبت سے نگینے میں موتی کی طرح جڑے گئے ہیں۔ کچھ اشعار یونہی بلا امتیاز و بلا ارادہ ملاحظہ ہوں:

ہندو شاعر مہاراجہ جسونت سنگھ پروانہ ’’کربلا‘‘ بمعنی ’’قتل گاہ‘‘ کے حوالے سے ایک شعر میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں:

تڑپتے جو دیکھی ہیں لاشیں تو دل اب ترے کوچے کو کربلا جانتا ہے

اور ضامن کنتوری کہتے ہیں:

یونہی خونِ تمنا دل میں گر ہوتا رہا ضامن نمونہ کربلا کا ایک دن یہ سرزمیں ہوگی کربلا

بے گناہوں کے قتل کی جگہ یعنی مقتل کے مفہوم میں خواجہ وزیر لکھنوی کا شعر ہے:

بے جرم و بے گناہ نہ عاشق کو قتل کر کعبہ تری گلی ہے کہیں کربلا نہ ہو

کربلا کو ’’قفس‘‘ کے معنوں میں آثم محمد آبادی نے یوں استعمال کیا ہے:

قفس میں بند ہیں ہم، ہم پہ آب و دانہ بند یہ گھر تِرا ہے کہ صحرائے کربلا صیاد

’’خیر و شر‘‘ کے معرکے کی جگہ ’’کربلا‘کا استعمال غزل گو شاعر سلیم احمد نے اس طرح کیا ہے:

وہ رَن مجھ پر پڑا ہے خیر و شر کا کہ اپنی ذات میں اک کربلا ہوں

سمجھا جاتا تھا کہ سلیم احمد مرحوم کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا، لیکن ایک بار میں نے دوران گفتگو ان سے پوچھا کہ آپ کا ’’کس جماعت سے تعلق ہے؟‘‘۔۔۔ تو انہوں نے بلا تامل کہا ’’اہل سنت والجماعت سے‘‘۔۔۔ اس جملے میں بظاہر ان کی بدلہ سنجی غالب دکھائی دیتی ہے، مگر بہرحال ان کے عقیدے کے حوالے سے یہ ایک حقیقت ہے۔ اسی لئے میں نے عرض کیا کہ علامہ ڈاکٹر سید ضمیر اختر نقوی نے ہر مسلک و عقیدے کے شعراء کی غزلوں کے اشعار سے کربلا کا استعارا نکال کے دکھا دیا ہے اور اس سلسلے میں انہیں کوئی زیادہ دِقّت پیش نہیں آئی کہ وہ ایک وسیع المطالعہ سکالر ہیں۔

کربلا کو ’’عشق کے کوچے‘‘ کے تحت جعفر علی خان اثر لکھنوی نے یوں بیان کیا ہے:

سینچا ہوا لہو سے اک گلشنِ وفا ہے عشقِ غیور تیرا آئینہ کربلا ہے

ضمیر اختر نقوی کے بقول اس شعر میں اثر لکھنوی نے عشق کی نہیں، بلکہ کربلا کی تعریف بیان کی ہے۔ ’’سربہ سناں‘‘ یا ’’نوکِ نیزہ‘‘ پر قرآن پڑھنے کا استعارا جو مبنی بر حقیقت ہے۔ حضرت امام حسینؑ سے تعلق رکھتا ہے سردار انبیاء کے نواسے کے سر کا سرِدار ہونا ایک قادیانی مبلّغ شاعر عبید اللہ علیم کے ہاں یوں اظہار پاتا ہے:

صدیاں گزر رہی ہیں مگر روشنی وہی یہ سر ہے یا چراغِ سرِدار

دیکھنا مرثیہ خوانی اور ماتم داری کے حوالے سے پنڈت برج نرائن چکبست فرماتے ہیں:

رہے گا رنج زمانے میں یادگار ترا وہ کون دل ہے کہ جس میں نہیں مزار ترا

یہ تو تھے بالواسطہ اشعار جو کربلا کے ذکر سے مزّین ہوئے اب کچھ بلاواسطہ اشعار ملاحظہ ہوں:

’’ذوقِ تشنگی‘‘ کے تحت پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی غزل کا ایک شعر ہے:

میں تو اس انساں کے ذوقِ تشنگی پر مرمٹا جو سمندر کے کنارے رہ کے بھی پیاسا ہے آج

بچوں کی قربانیوں کے واسطے عرفان صدیقی (انڈیا) کا شعر یوں ہے:

جو تیر بوڑھوں کی فریاد تک نہیں سنتے تو ان کے سامنے بچوں کا مسکرانا کیا

اور بالواسطہ و بلاواسطہ ایسے اشعار جن میں کربلا کا استعارا کسی نہ کسی بہانے موجود ہے، اس ضمن میں اس خاکسار ناصر زیدی کے بھی تین شعر درج ہیں، ان کا انتخاب اس طرح ہوتا تو بہتر تھا۔

ڈروں دنیا کی ظلمت سے میں ناصر؟ غلامِ حیدرِؑ کرّار ہو کر!

      • پیاس بجھتی جو مری اپنے لہو سے ناصر کیا ضرورت تھی مجھے کیوں لبِ دریا جاتا ***

کوئی فرعون ہی اب مدِّ مقابل ٹھہرے ہم اٹھائے ہوئے الفت کا علم آتے ہیں'

اور آخر میں کربلا اور ’’عظمتِؑ شبیری‘‘ کے حوالے سے سب پر بھاری حضرت علامہ اقبال کا شعر: حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیریؑ بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی[1][2]Mazharabbasjaffari (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:13، 17 جولائی 2019ء (م ع و)Mazharabbasjaffari (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:16، 17 جولائی 2019ء (م ع و)

بیرونی روابط کی درستی (دسمبر 2021)

ترمیم

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے ضمیر اختر نقوی پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with this tool.

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 04:38، 23 دسمبر 2021ء (م ع و)

بیرونی روابط کی درستی (مئی 2022)

ترمیم

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے ضمیر اختر نقوی پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with this tool.

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 10:11، 21 مئی 2022ء (م ع و)

  1. https://dailypakistan.com.pk/12-Feb-2015/193339
  2. روزنامہ پاکستان 12 فروری 2015 ناصر زیدی
واپس "ضمیر اختر نقوی" پر