اشتیاق احمد دربھنگوی

ہندوستانی عالم و مفتی
(اشتیاق احمد قاسمی سے رجوع مکرر)

اشتیاق احمد دربھنگوی (پیدائش: 1974ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین، مفتی، تبصرہ نگار، سوانح نگار اور مصنف ہیں۔ وہ سنہ 2008ء سے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اشتیاق احمد دربھنگوی
معلومات شخصیت
پیدائش 1974 (عمر 49–50 سال)
جھگڑُوا، کِرَت پور بلاک، ضلع دربھنگہ، بہار، بھارت
قومیت ہندوستانی
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی ،  مفتی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ محمود حسن گنگوہی ،  نظام الدین اعظمی ،  ظفیر الدین مفتاحی ،  حبیب الرحمن خیر آبادی ،  نصیر احمد خان بلند شہری ،  قمر الدین احمد گورکھپوری ،  نعمت اللہ اعظمی ،  ریاست علی ظفر بجنوری ،  سعید احمد پالن پوری ،  حبیب الرحمن قاسمی اعظمی ،  عبد الخالق مدراسی ،  ارشد مدنی ،  عثمان منصورپوری ،  محمد طاہر قاسمی غازی آبادی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  مفتی ،  محقق ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

اشتیاق احمد دربھنگوی مارچ 1974ء میں اپنے نانیہال جَھمٹا، ضلع سہرسہ، بہار میں شیخ انوار احمد صدیقی کے گھر پیدا ہوئے؛ دستاویز میں تاریخ پیدائش 7 جنوری 1978ء درج ہے۔[1]

انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ، پھر ماسٹر عالم گیر کے پاس حاصل کی۔[1] اسی طرح فارسی، ہندی اور دینیات سے لے کر عربی ششم (موقوف علیہ) تک کی تعلیم مدرسہ معارف العلوم جھگڑوا، مدرسہ فلاح المسلمین، بکرم، پٹنہ، مدرسہ قاسم العلوم، منگراواں، ضلع اعظم گڑھ، مدرسہ ریاض العلوم، گورینی، ضلع جونپور میں حاصل کی۔ اسی دوران بہار بورڈ کی تحتانیہ و فوقانیہ چہارم کی کتابیں پڑھیں، الٰہ آباد بورڈ سے مولوی کا امتحان پاس کیا اور قراءتِ سبعہ کی کتاب شاطبیہ پڑھی۔[1]

1996ء کو دار العلوم دیوبند کی جماعتِ دورۂ حدیث میں ان کا داخلہ ہوا اور اسی سال سوم پوزیشن کے ساتھ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے، 1997ء میں وہیں سے افتاء اور 1998 تا 1999ء دو سال وہیں رہ کر تدریب فی الافتاء کیا اور ساتھ میں شعبۂ کمپیوٹر سے اردو، عربی اور انگریزی کی ٹائپ رائٹنگ بھی سیکھی۔[1][2] ان کے اساتذۂ بخاری میں نصیر احمد خان بلند شہری اور عبد الحق اعظمی شامل ہیں، ان کے دیگر اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں نعمت اللہ اعظمی، قمر الدین احمد گورکھپوری، سعید احمد پالن پوری، سید ارشد مدنی، عبد الخالق مدراسی، ریاست علی ظفر بجنوری، محمود حسن گنگوہی، حبیب الرحمن قاسمی اعظمی، عثمان منصور پوری، نظام الدین اعظمی، حبیب الرحمن خیر آبادی، ظفیر الدین احمد مفتاحی، محمود حسن بلند شہری اور محمد طاہر قاسمی غازی آبادی شامل ہیں۔[1]

افتاء ہی کے سال وہ محمود حسن گنگوہی سے بیعت ہو گئے، پھر گنگوہی کے انتقال کے بعد نظام الدین اعظمی کی طرف رجوع کیا،[3] پھر ان کے انتقال کے بعد سعید احمد پالن پوری کی طرف رجوع کر لیا اور پالن پوری کی وفات کے بعد محمد طاہر قاسمی غازی آبادی کی طرف رجوع کیا۔

تدریسی زندگی

ترمیم

1999 تا 2000ء وہ دار العلوم دیوبند ہی میں معین مدرس رہے۔[1][2] 2000 سے 2008ء تک انھوں نے دار العلوم حیدر آباد میں تدریسی خدمات انجام دیں۔[1]

1430ھ مطابق 2008ء کو دار العلوم دیوبند میں ان کا تقرر ہوا اور 1440ھ کو درجۂ وسطیٰ ب میں ترقی ہوئی[4][1] اور اب ترجمۂ قرآن اور ہدایہ اولین جیسی کتاب کا سبق ان سے متعلق ہے۔[1]

قلمی و تصنیفی زندگی

ترمیم

ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے

ترمیم

وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سند یافتہ ہیں۔[1] ان کے مقالۂ ایم فل کا عنوان ”چند منتخب علمائے دیوبند کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ“ تھا، جو قاری محمد طیب، کفیل الرحمن نشاط عثمانی اور ریاست علی ظفر بجنوری کی مطبوعہ شاعری کے تجزیاتی مطالعے پر مشتمل تھا۔[5] نیز مقالۂ پی ایچ ڈی کا عنوان ”علمائے دیوبند کی سوانح عمریوں کا تنقیدی تجزیہ (آزادی سے قبل)“ تھا، جس پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔[6][7][8]

مضامین

ترمیم

ان کے ڈھائی سو زائد مقالات و مضامین ملک و بیرون ملک کے رسائل و اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔[1]

ان کے اہم مضامین میں ”مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی - حیات و خدمات“، ”صحابۂ کرام کے سلسلہ میں علمائے دیوبند کا معتدل موقف“، ”حضرت مولانا محمد عثمان معروفی اور فنِ تاریخ گوئی“، ”کاتبینِ پیغمبر اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ایک تعارف“، ”تدوینِ قرآن مجید - ایک تحقیقی جائزہ“، ”نیٹ ورک مارکیٹنگ - اقتصادی اور اسلامی نقطۂ نظر“، ”حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی کی غزلیہ شاعری - معاصر ادبا کی نظر میں“، ”اسلام كا نظامِ سلام و مصافحہ“، ”انقلابِ ماہیت - اسلامی نقطۂ نظر“،[9]عربی تفسیروں کے اردو ترجمے- تعارف و تجزیہ“،[10] ”ترانۂ دار العلوم دیوبند کا فنی، فکری اور ادبی مطالعہ“[11] ”حیاتِ نانوتوی کی روشن قندیلیں“،[12][13]علامہ اقبال کے شعری تصورات“،[14] ”شیخ طریقت حضرت حاجی سید محمد عابد حسین“،[15] ”تصانیف فخر المحدثین - ایک تعارف“ اور ”میراث میں عورتوں اور یتیم پوتوں کا حصہ (موجودہ اشکالات کے تناظر میں)“ شامل ہیں۔

تصانیف

ترمیم

ان کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:[1][16][17][5][18]

  • سب‌ سے آسان ترجمۂ قرآن مجید حافظی (اردو ترجمۂ قرآن)
  • طِرازی شرح اردو سراجی (‌جس کا ترجمہ فارسی، پشتو اور بنگلہ میں بھی ہو چکا ہے۔)
  • خاصیاتِ فصولِ اکبری (تحقیق و تعلیق)
  • مختصر خاصیاتِ ابواب (اردو)
  • مولانا بستوی کا ذکر جمیل
  • مولانا سعید احمد اکبر آبادی کا ذکر جمیل
  • زیب و زینت کے احکام
  • کلیاتِ کاشف (ترتیب و تحشیہ)
  • مالا بد منہ (اردو ترجمہ)
  • النور الفائض علی نظم الفرائض (انور شاہ کشمیری کے منظوم رسالے اور اس پر فخر الدین احمد مرادآبادی کے لکھے ہوئے تتمے کا اردو ترجمہ و تشریح)
  • ایمان بچائیے!

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ محمد روح الامین میُوربھنجی (5 دسمبر 2021)۔ "حضرت مولانا مفتی اشتیاق احمد دربھنگوی دامت برکاتہم"۔ بصیرت آن لائن۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2021 
  2. ^ ا ب ابن الحسن عباسی۔ "مطالعہ کی ناتمام سرگزشت"۔ یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ (ستمبر 2020 ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبۃ النور، مکتبۃ الانور۔ صفحہ: 661 
  3. محمد سلمان بجنوری، مدیر (شوال 1439ہجری مطابق جولائی 2018ء)۔ "حضرت مفتی محمد نظام الدین اعظمی مفتی اعظم دار العلوم دیوبند: یادیں اور باتیں از اشتیاق احمد دربھنگوی"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ دیوبند: مکتبہ دار العلوم۔ 102 (7): 19 
  4. محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ "موجودہ اساتذۂ عربی"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ۔ دیوبند: شیخ الہندؒ اکیڈمی۔ صفحہ: 769 
  5. ^ ا ب محمد سالم جامعی، مدیر (صفر المظفر 1439ھ- بہ مطابق اکتوبر 2017ء)۔ "مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نمبر"۔ ہفت روزہ الجمعیۃ۔ ہفت روزہ الجمعیۃ، مدنی ہال، 1-بہادر شاہ ظفر مارگ، نئی دہلی 2: 76-77 
  6. "دارالعلوم دیوبند کے استاد مفتی اشتیاق احمد قاسمی کو پی ،ایچ ،ڈی کی ڈگری تفویض"۔ قندیل آن لائن۔ 24 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 دسمبر 2021 
  7. دانیال خان (26 فروری 2020)۔ "دارالعلوم دیوبند کے استاذ مفتی اشتیاق احمد کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض"۔ unaurdu.com۔ یو این اے اردو ڈاٹ کام۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 دسمبر 2021 
  8. "مفتی اشتیاق احمد قاسمی کو مانو سے پی ایچ ڈی کی ڈگری"۔ urdu.ythisnews.com۔ 26 فروری 2020ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2021 
  9. "اردو مضامین تلاش برائے مولانا اشتیاق احمد قاسمی"۔ darululoom-deoband.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2021 
  10. "عربی تفسیروں کے اردو ترجمے تعارف وتجزیہ..از: مولانا اشتیاق احمد"۔ algazali.org۔ الغزالی ڈاٹ آرگنائزیشن۔ 3 مئی 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 فروری 2021 
  11. مولانا اشتیاق احمد قاسمی (23 اپریل 2021)۔ "ترانۂ دار العلوم دیوبند کا فنی، فکری اور ادبی مطالعہ"۔ Siddeequeqasmi.com۔ صدیق قاسمی۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 دسمبر 2021 
  12. "حیاتِ نانوتوی کی روشن قندیلیں"۔ ahnafmedia.com۔ احناف میڈیا لائبریری۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2021 
  13. محمد الیاس گھمن، مدیر (نومبر 2016)۔ "حیات نانوتوی کی روشن قندیلیں"۔ ماہنامہ فقیہ۔ سرگودھا: مرکز اہل السنۃ والجماعۃ۔ 5 (11): 10 
  14. ڈاکٹر محمد مرتضی۔ "علامہ اقبال کے شعری تصورات"۔ جہاتِ اقبال (2017ء ایڈیشن)۔ دہلی: کتابی دنیا، 1955، گلی نواب مرزا، محلہ قبرستان۔ صفحہ: 67–68 
  15. نواز دیوبندی۔ "شیخ طریقت حضرت حاجی سید محمد عابد حسین از مولانا اشتیاق احمد دربھنگوی"۔ سوانحِ علمائے دیوبند (جنوری 2000ء ایڈیشن)۔ دیوبند: نواز پبلی کیشنز۔ صفحہ: 218–245 
  16. محمد روح الامین (11 اگست 2023ء)۔ "مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ کا ذکر جمیل"۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2023ء 
  17. محمد وقار احمد کھگڑیاوی (23 جون 2022ء)۔ "مالابد منہ اردوــــــــــــــــــــ ترجمہ نگاری کا شاہ کار"۔ بصیرت آن لائن۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2022ء 
  18. بدر الاسلام قاسمی (2024-02-25)۔ "سب سے آسان ترجمہ (مفتی اشتیاق احمد قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند)"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 فروری 2024