خلیفہ عبدالحکیم
پروفیسر ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم (پیدائش: یکم جولائی، 1893ء - وفات: 30 جنوری، 1959ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف فلسفی، شاعر، نقاد، محقق، ماہر اقبالیات، ماہر غالبیات، مترجم اور سابق پروفیسر فلسفہ عثمانیہ یونیورسٹی اور سابق ڈائریکٹر ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور تھے۔
خلیفہ عبدالحکیم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جولائی 1893ء [1] لاہور ، برطانوی ہند |
وفات | 30 جنوری 1959ء (66 سال)[1] کراچی |
وجہ وفات | دورۂ قلب |
مدفن | میانی صاحب قبرستان |
طرز وفات | طبعی موت |
رہائش | لاہور (1 جولائی 1893–1911) علی گڑھ (1911–1912) دہلی (1912–1917) لاہور (1917–اگست 1919) حیدر آباد (11 اگست 1918–1922) ہائیڈل برگ (1922–1925) حیدر آباد (1925–1943) سری نگر (1943–1947) حیدر آباد (1947–14 جون 1949) لاہور (جون 1949–30 جنوری 1959) |
شہریت | برطانوی ہند (1 جولائی 1893–15 اگست 1947) بھارت (15 اگست 1947–14 جون 1949) پاکستان (جون 1949–30 جنوری 1959) ڈومنین بھارت |
زوجہ | خدیجہ بیگم (31 جنوری 1920–30 جنوری 1959) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی (1912–1913) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (1911–1912) جامعہ پنجاب (1913–1915) سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی (1915–1917) جامعہ ہائیڈل برگ (1922–1925) |
تعلیمی اسناد | بی اے ، ایم اے ، فاضل القانون ، پی ایچ ڈی |
پیشہ | استاد جامعہ ، فلسفی ، شاعر ، نقاد ، مترجم |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، انگریزی |
شعبۂ عمل | فلسفہ ، ترجمہ ، ماوراء الطبیعیات |
ملازمت | جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد ، امر سنگھ کالج سرینگر ، ادارۂ ثقافت اسلامیہ |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمنام و خاندان
ترمیمخلیفہ صاحب ڈار خاندان کی لاہوری شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔[2] نام عبد الحکیم تھا جبکہ خلیفہ کشمیری ڈار خاندان میں عالم یا قابل آدمی کے لیے مستعمل تھا جس کے متعلق منشی محمد دین فوق نے لکھا ہے کہ: ’’شروع شروع میں اِس خاندان میں پشمینے اور ڈوری باقی کا کام کثرت سے ہوتا تھا اور لوگوں کی معقول تعداد باقاعدہ طور پر اِس فن کا اِکتساب اِسی خاندان سے کرتی تھی۔ خاندان کے بزرگوں کو خلیفہ یعنی اُستاد کے نام سے پکارا جانے لگا۔ یہی لفظ ’’خلیفہ‘‘ اِس خاندان کے افراد کے نام کا پہلا جزو قرار پایا۔ [3][4] خلیفہ عبد الحکیم کے دادا خلیفہ رمضان ڈار ایک چھوٹے سے کارخانہ کے مالک تھے۔خلیفہ عبد الحکیم کے والد خلیفہ عبد الرحمٰن پرانی وضع کے راسخ الاعتقاد مذہبی شخص تھے۔ خلیفہ عبد الرحمٰن سلیم الطبع، کم سخن، متین ، بااُصول اور صاف ستھری معاشرت کے قائل تھے۔ گلستانِ سعدی اور بوستانِ سعدی کا مطالعہ وسعت النظری سے کیا کرتے تھے اور اُن کا معمول تھا کہ کتابوں کے سبق آموز حصے اپنے بچوں کے گوش گزار کیا کرتے تھے۔ لہٰذا اِسی لیے خلیفہ عبد الحکیم گو بہت چھوٹی عمر کے تھے، تاہم چونکہ اِس ماحول میں پرورش پائی تھی، اِسی لیے بچپن ہی سے فارسی ادب سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا۔[5] خلیفہ عبد الحکیم، خلیفہ عبد الرحمٰن کی دوسری بیوی سے پیدا ہوئے تھے جن کا رحیم بی بی تھا۔ ایک حقیقی بھائی عبد الغنی اور ایک بہن امیر بیگم اوائل عشرہ 1970ء تک بقیدِ حیات تھے۔ ایک سوتیلے بھائی خلیفہ ابراہیم بھی تھے جن کا انتقال 1960ء کے عشرے میں ہوا۔[6]
پیدائش
ترمیمخلیفہ عبد الحکیم کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ محمد عبد اللہ قریشی اور بشیر احمد ڈار نے آپ کی تاریخ پیدائش 12 جولائی 1894ء لکھی ہے۔[7] منشی محمد دین فوق نے تاریخ اقوامِ کشمیر میں اور میاں شمس الدین صاحب نے اپنے انٹرویو میں آپ کی تاریخ پیدائش 12 جولائی 1894ء بیان کی ہے۔[8] لیکن عثمانیہ یونیورسٹی میں ملازمت کے دوران اُن کی تاریخ پیدائش کا جو اِندراج ہوا، اُس کے مطابق خلیفہ عبد الحکیم 8 شوال 1303ھ مطابق یکم جولائی 1893ء کو پیدا ہوئے۔[9] [10][11]۔
جائے پیدائش
ترمیمخلیفہ عبد الحکیم کی پیدائش اُن کے آبائی مکان میں ہوئی جو اندرون اکبری دروازہ، محلہ چِلَّہ بِیبیاں، لاہور میں واقع ہے اِسے محلہ چہل بِیبیاں بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور کے اِس محلہ میں بڑی بڑی شخصیات کا تعلق رہا ہے۔ جس مکان میں خلیفہ عبد الحکیم پیدا ہوئے، وہ دراصل مغلوں کی ایک بڑی شاندار حویلی کا ایک حصہ تھا جو اب محض مکان کی صورت میں اُن کے آبا و اجداد کو ملا تھا۔ اِس حویلی کا نام مغلوں کے عہد میں مبارک حویلی تھا۔ ایک روایت کے مطابق مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے نو رتنوں میں شامل ابو الفضل فیضی اور ابوالفضل علامی کے والد شیخ مبارک ناگوری رہا کرتے تھے۔ چنانچہ اُنہی کے نام سے یہ حویلی مشہور تھی۔ [12]
تعلیم
ترمیمابتدائی تعلیم کا آغاز مِٹھا شاہ والی مسجد سے ہوا۔ جو اُن کے مکان کے سامنے واقع تھی۔ چار سال کی عمر میں (نومبر 1898ء) میں انھیں والدہ نے مسجد میں پڑھنے کے لیے بِٹھا دیا۔بعد ازاں پرائمری جماعت کی تعلیم کے لیے انجمن حمایت اسلام کے میں داخل ہوئے جو اندرون موچی دروازہ میں واقع تھا اور اُس زمانے میں ’’لال کھوہ کا اسکول‘‘ کہلاتا تھا۔ خلیفہ عبد الغنی (برادر خلیفہ عبد الحکیم) نے اسکول میں داخلے کا سال 1899ء بیان کیا ہے لیکن اِس بارے میں میاں شمس الدین کی رائے مختلف ہے اور موصوف نے خلیفہ عبد الحکیم کے پرائمری اسکول میں داخلے کا سال 1901ء بیان کیا ہے جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ تیسری جماعت کے بعد خلیفہ عبد الحکیم کو اسلامیہ ہائی اسکول، شیرانوالہ دروازہ میں داخل کروایا گیا اور یہیں سے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ میٹرک کے بعد کی اعلیٰ تعلیم کے متعلق بھی محققین کے یہاں اختلاف موجود ہے۔ محمد عبد اللہ قریشی، منشی محمد دین فوق اور میاں شمس الدین کہتے ہیں کہ خلیفہ صاحب نے 1910ء میں میٹرک پاس کیا جبکہ پروفیسر حمید احمد خان کے مطابق 1911ء میں میٹرک پاس کیا۔ اِس بابت پروفیسر حمید احمد خان کا قول زیادہ درست ہے کہ میٹرک 1911ء میں پاس کیا۔
والد کا انتقال اور شعرگوئی
ترمیمخلیفہ عبد الحکیم ابھی اعلیٰ تعلیم کی جانب گامزن نہیں ہوئے تھے کہ والد خلیفہ عبد الرحمٰن انتقال کرگئے۔ والد کے اِنتقال کے بعد آپ کے والد کے بھائیوں نے حکیم چچا اور دوسرے چچاؤں اور پھوپھیوں کو وراثت کا حصہ دینے سے اِنکار کر دیا، جس کی وجہ سے اِن سب کو سالہا سال غربت و عسرت میں زِندگی بسر کرنا پڑی۔[13] باپ کے سایۂ شفقت سے محروم ہوجانے کے بعد خلیفہ عبد الحکیم کی تعلیم و تربیت کی ذِمہ داری تنہا والدہ کے سر آپڑی۔ وہ صابر، متحمل مزاج اور عقلمند خاتون تھیں۔ مالی حالات کی ناسازی کے باعث انھوں نے دھان پر سے چھلکا اُتارنے کا پرانا کام شروع کر دیا اور اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔[14] اِسی زمانے میں شعرگوئی بھی شروع کردی تھی، بقول منشی محمد دین فوق، خلیفہ عبد الحکیم کی پہلی نظم کشمیری میگزین، لاہور میں شائع ہوئی تھی۔[15] اسکول کی ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ اچھے مُقَرَّر تھے اور اِسی زمانے میں اردو ادب اور فارسی ادب کے مطالعے کا شوق اِنتہاء کو پہنچا۔ [16]
اعلیٰ تعلیم
ترمیمجن دِنوں خلیفہ صاحب نے میٹرک پاس کیا تو اِن دِنوں پنجاب میں سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک سے بہت دِلچسپی اور وابستگی پائی جاتی تھی اور اُس زمانے کے اکثر بزرگ اپنی اولاد کو علی گڑھ میں تعلیم دِلوانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ مگر اِس کے برعکس غالباً مالی مشکلات کے سبب سے آپ نے میٹرک کے بعد فورمن کرسچین کالج، لاہور میں داخلہ لیا اور اپنے بہنوئی عطاء اللہ بٹ کی ہدایت پر سائنس کے مضامین اِختیار کیے، لیکن آپ کو سائنس سے کوئی رغبت نہ تھی، اِسی لیے چند مہینے گزارنے پر آپ نے کالج چھوڑ دیا اور پھر علی گڑھ چلے گئے۔ علی گڑھ میں فرسٹ ائیر کے امتحانات کے لیے آرٹس (فنون لطیفہ و اَدب) کے مضامین اِختیار کیے۔ فرسٹ ائیر کی جماعت میں محض پانچ منٹ کی تیاری کے بعد فی البدیہہ تقریر سے ڈیبیٹنگ یونین کے صدر بن گئے۔ [17]
بی اے
ترمیمعلی گڑھ سے ایف اے کرنے کے بعد آپ نے وسط 1912ء میں سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی میں داخلہ لے لیا۔ پروفیسر حمید احمد خان کا بیان ہے کہ 1913ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایف کرکے دہلی آئے کیونکہ اُس زمانے میں علی گڑھ کالج کا اِلحاق اِلٰہ آباد یونیورسٹی سے تھا اور علی گڑھ کو مسلم یونیورسٹی کا درجہ ء میں دیا گیا تھا۔ آپ کے فلسفہ کے اُستاد مسٹر سَین تھے (جو بعد میں رجسٹرار ہو گئے تھے)، وہ آپ کی ذہانت کے مداح تھے اور فلسفہ کی جماعت میں صرف پانچ چھ لڑکے تھے، اِسی لیے وہ مختصر سی جماعت کو پڑھانے کی غرض سے اکثر خلیفہ صاحب کی قیام گاہ پر تشریف لاتے اور تعلیم دیتے۔ 1915ء میں خلیفہ عبد الحکیم نے بی اے کی ڈِگری حاصل کرلی اور جامعہ پنجاب، لاہور میں فلسفہ میں اَوَّل آکر ریکارڈ قائم کر دیا۔[18]
ایم اے
ترمیمجامعہ پنجاب (لاہور) سے بی اے کے بعد دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج سے 1917ء میں ایم اے (فلسفہ) پاس کیا اور اب کی بار پھر خلیفہ عبد الحکیم پنجاب بھر میں اول آئے۔ [19]
ایل ایل بی
ترمیمایم اے کے بعد خلیفہ عبد الحکیم نے قانون کی تعلیم کے لیے ایل ایل بی کے لیے لاہور کے ’’لا کالج‘‘ میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی خواجہ احمد شاہ کے انگریزی اخبار ’’آبزرور‘‘ کی اِدارت کے فرائض پر بھی متمکن ہو گئے۔ اِس اخبار میں ے لاگ تبصروں اور تنقیدات کے باعث اخبار کی ضمانت حکومت نے ضط کرلی۔ [20]
ملازمت
ترمیماگست 1919ء میں علامہ محمد اقبال کی سفارش پر حیدرآباد، دکن میں نئی قائم شدہ عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر ہو گئے۔ 1922ء میں جرمنی گئے اور 1925ء میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان Metaphysics of Rumi (رومی کی مابعد الطبیعیات) تھا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ حیدرآباد دکن واپس آکر جامعہ عثمانیہ میں فلسفہ کے پروفیسر اور صدرِ شعبہ مقرر ہوئے۔1943ء میں امر سنگھ کالج سرینگر کے پرنسپل ہو کر کشمیر چلے گئے جہاں بعد میں ناظمِ تعلیمات بھی مقرر ہوئے۔1947ء میں مستعفی ہو کر واپس حیدرآباد دکن آ گئے جہاں انھیں جامعہ عثمانیہ میں ڈین فیکلٹی آف آرٹس مقرر کیا گیا۔ حیدرآباد دکن پر ہندوستان کے قبضہ کے بعد 1949ء میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ فروری 1950ء میں ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کی کوششوں سے لاہور میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ قائم ہوا تو وہ اس کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔[21]
وفات
ترمیمڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم 30 جنوری 1959ء کو لاہور میں حرکتِ قلب بند ہونے سے وفات پا گئے۔ وہ میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔[11][22]
تصانیف
ترمیم- مختصر تاریخِ فلسفۂ یونان (تالیف ڈاکٹر ویلہم نیسل) (جرمن زبان سے اردو میں ترجمہ)
- نفسیات وارداتِ روحانی
- داستانِ دانش
- شریمد بھگوت گیتا
- تشبہاتِ رومی
- اسلام کی بنیادی حقیقتیں
- اقبال اور مُلا
- تلخیص خطبات اقبال
- مقالات حکیم(مرتب شاہد حسین رزاقی)
- افکار غالب
- حکمت رومی
- فکر اقبال
- Metaphysics of Rumi
- Islam & Communism
- The Prophet and His Message
- Islamic Ideology
- کلامِ حکیم (مرتب ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی)
ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم پر کتب
ترمیم- ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم (سوانح و ادبی خدمات)
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب عنوان : Rekhta — ناشر: ریختہ فاؤنڈیشن — خالق: ریختہ فاؤنڈیشن — ریختہ مصنف آئی ڈی: https://www.rekhta.org/authors/khalifa-abdul-hakim — بنام: Khalifa Abdul Hakim
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 1، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ محمد دین فوق: تاریخ اقوام کشمیر، صفحہ 508، مطبوعہ 1934ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 3، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 1، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 6، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ اقبال ریویو: شمارہ 4، جلد 6، صفحہ 17، سال 1966ء
- ↑ اقبال ریویو: شمارہ 4، جلد 6، صفحہ 125، سال 1966ء
- ↑ مراسلہ رجسٹرار عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد دَکن، مکتوب 4 ستمبر، 1968ء، بحوالہ سول یسٹ ریاست حیدرآباد بنام ممتاز اختر مرزا۔
- ↑ خلیفہ عبد الحکیم، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
- ^ ا ب ص 157، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 5/6، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ سلیم واحد سلیم: مقالہ ’’خلیفہ عبد الحکیم‘‘۔ مجلہ ادبی دنیا، صفحہ 89۔ مطبوعہ ستمبر/ اکتوبر 1966ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 7/8، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ محمد دین فوق: تاریخ اقوامِ کشمیر، جلد 3، صفحہ 166۔ مطبوعہ 1934ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 9، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 9/10، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 10، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 12، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ ممتاز اختر مرزا: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، سوانح اور علمی ادبی خدمات، صفحہ 12/13، مطبوعہ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
- ↑ علامہ اقبال اور ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، ڈاکٹر محمد سلیم، روزنامہ پاکستان، لاہور، 25 اپریل 2014ء[مردہ ربط]
- ↑ پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ خاکِ لاہور، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب، لاہور، 1993ء، ص 184