دمشق کی جنگ، 2024ء

شامی خانہ جنگی کے دوران میں ایک عسکری محاربہ
(فتح دمشق، 2024ء سے رجوع مکرر)

7 دسمبر 2024ء کو بشار الاسد کی مخالف شامی افواج کے غُرفہ عملیات جنوبیہ (جنوبی آپریشن روم) کی افواج جنوب سے ریف دمشق کے علاقے میں داخل ہوئیں، اور دار الحکومت دمشق کے 20 کلومیٹر (12 میل) کے اندر آگئیں۔ شامی عرب فوج (بشار الاسد حکومت نواز فوج) متعدد مضافاتی مقامات میں شکست سے دو چار ہوئی۔[7] دمشق کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بشار الاسد حکومت کی مخالف افواج تحریر الشام اور سوری وطنی فوج نے حمص میں حملہ کی کارروائی کا آغاز کیا،[8] جب کہ شامی حریت فوج (SFA) نے جنوب مشرق سے دار الحکومت کی طرف پیش قدمی کی۔[9] 8 دسمبر تک بشار حکومت کی مخالف افواج شہر کے برزہ محلہ میں داخل ہو گئیں۔[10] سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق بشار الاسد ہوائی جہاز کے ذریعے دمشق سے کسی نامعلوم مقام کی طرف منتقل ہو گئے جب کہ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بھی ان کے دار الحکومت سے فرار ہونے کی خبر دی۔[11]

دمشق کی جنگ (2024ء)
سلسلہ سوری خانہ جنگی کے دوران میں معرکہ ردع العدوان، 2024ء
Northwestern Syria offensive (2024).jpg

تاریخ7 – 8 دسمبر 2024ء (1 دن)
مقامدمشق اور صوبہ ریف دمشق، ملک شام (سوریہ)
حیثیت

شامی مزاحمتیوں کی فتح

مُحارِب
معارضہ سوریہ کا پرچم غرفہ عملیات جنوبیہ
معارضہ سوریہ کا پرچم سوری حریت فوج
سوریہ کا پرچم عرب جمہوریہ سوریہ Surrendered
کمان دار اور رہنما
معارضہ سوریہ کا پرچم سالم ترکی العنتری سوریہ کا پرچم بشار الاسد
شریک دستے
جبہہ جنوبیہ
دروز کا پرچم الجبل بریگیڈ
معارضہ سوریہ کا پرچم سوری حریت فوج

سوریہ کا پرچم سوری مسلح افواج

ابتدا

ترمیم

حماہ ہاتھ سے نکلنے کے بعد بشار کی حکومتی افواج نے مشرقی غوتہ، بشمول دوما اور حرستا سے اپنے فوجیوں کو اس کے داخلی اور خارجی راستوں پر دوبارہ تعینات کرنا شروع کیا۔[12]

ایران نے 6 دسمبر کی صبح شام (سوریہ) سے اپنے اہلکاروں کو واپس بلانا شروع کر دیا، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی سپاہ قدس کے اعلیٰ کمانڈروں کو واپس بلایا گیا اور دمشق میں ایرانی سفارت خانے اور شام بھر میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اڈوں سے انخلاء کا حکم دیا۔ شام سے بچ نکل کر ایرانی فوج لبنان اور عراق کی طرف روانہ ہوئی۔[13]

حمص پر قبضے نے دمشق کو بشار الاسد کے ساحلی گڑھ طرطوس اور لاذقیہ سے کارگر طریقے سے منقطع کر دیا۔[14]

7 دسمبر کے آغاز تک باغیوں نے صوبہ درعا اور صوبہ سویداء کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا اور حکومت کی بعض حامی فوجوں کو دمشق کی طرف محفوظ راستہ فراہم کر دیا تھا۔[15][14]

معرکہ

ترمیم

مزاحمتیوں کا جنوب سے دمشق میں داخلہ

ترمیم

7 دسمبر کو شامی مزاحمتیوں نے اعلان کیا کہ انھوں نے قریبی قصبوں پر قبضہ کرنے کے بعد دمشق کو گھیرے میں لینا شروع کر دیا، بشاری حکومت کے مخالف گروہ کے کماندار حسن عبد الغنی نے خیال ظاہر کیا کہ ان کی افواج دار الحکومت دمشق کو گھیرے میں لینے مرحلہ میں ہیں۔[16] باغیوں نے دمشق کے جنوبی داخلے سے 20 کلومیٹر (12 میل) دور واقع قصبہ صنمین پر قبضہ کرنے کے بعد دار الحکومت کا گھیراؤ شروع کر دیا۔[17]

ریف دمشق کے صوبہ میں حکومت کی حامی افواج عسال الورد، یبرود، فلیطہ، ناصریہ اور عرطوز کے قصبوں سے پیچھے ہٹ گئیں، جب کہ مخالف افواج دمشق کے 10 کلومیٹر (6.2 میل) کے اندر آگئیں۔[18] بشاری حکومت نے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فوج شہر کے قریب کی پوزیشن سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔[19] شام کے وقت تک حکومت کی حامی افواج دمشق کے مضافات میں واقع قصبوں سے نکل گئیں، جن میں جرمانا، قطنا، معضمیہ الشام، داریا، الکسوہ، الضمیر، درعا اور مزہ ایئر بیس کے قریب کے مقامات شامل تھے۔[20]

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شامی باغی دمشق کے مضافاتی علاقوں جرمانا، معضمیہ اور داریا میں سرگرم تھے اور مشرق سے حرستا کی طرف مارچ کر رہے تھے۔[21] جرمانا کے مرکزی چوک میں مظاہرین نے حافظ الاسد کا مجسمہ گرا دیا۔[22][23] شام کے وقت کو بشاری حکومت کی حامی افواج مبینہ طور پر کئی مضافاتی علاقوں سے پیچھے ہٹ گئیں جہاں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے۔[24]

سوری حریت فوج کا شمال سے دمشق میں داخلہ

ترمیم

جوں ہی جبہہ جنوبیہ کی افواج دمشق کے مضافات میں آگے بڑھِیں، سوری حریت فوج (سیریئن فری آرمی) کے تدمر کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد شمال سے دار الحکومت کے قریب آنے کی اطلاع موصول ہوئی۔[9][25]

اخبار دی گارڈین کے مطابق، ویڈیو میں بشار کی فوجوں کو دمشق کی گلیوں میں اپنی وردیاں اتارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔[14]

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک صحافی نے دمشق کے مضافات میں سڑکوں پر مسلح رہائشیوں کو دیکھنے اور شہر کے مرکزی پولیس صدر دفاتر کو ویران پائے جانے کی اطلاع دی۔ دار الحکومت کے مرکزی چوکیوں میں ٹینکوں کی نقل و حرکت کی اطلاع ملی، جبکہ مساجد سے "اللہ اکبر" کی صدائیں بَلند ہوئیں۔ بشار حکومت کے حامی شام ایف ایم ریڈیو نے اطلاع دی ہے کہ دمشق ہوائی اڈے کو خالی کرا لیا گیا ہے اور تمام پروازیں روک دی گئی ہیں۔[11]

رات کے وقت بشاری حکومت کے مخالفیں نے اعلان کیا کہ دمشق میں اعلی سرکاری عہدیداروں اور فوجی افسران کا ایک "گروہ" معارضہ سوریہ میں جُڑنے کی تیاری کر چکا ہے۔[26] مزاحمتی گروپ تحریر الشام نے اعلان کیا کہ انھوں نے صیدنایا جیل سے قیدیوں کو آزاد کرنا شروع کر دیا، اور یہ کام تبھی ممکن ہوتا ہے جب حکومت کسی کے کنٹرول میں ہو۔[27]

8 دسمبر کے ابتدائی گھنٹوں میں سوری مشاہدہ گاہ برائے انسانی حقوق نے اطلاع دی کہ اعلی حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ دمشق کے ہوائی اڈے سے نجی پرواز کی روانگی کے بعد حکومت گر چکی ہے جس کے نتیجہ میں بشار کی سرکاری افواج درہم برہم ہوگئی۔[28]

8 دسمبر تک مزاحمتیوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور بشار الاسد فرار ہو گئے۔ مزاحمتی شخصیات کے ایک گروہ نے شام کے سرکاری ٹیلی ویژن کی نشریات پر اپنی فتح کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے مزاحمتیوں کے ساتھ "ہاتھ ملانے" کی اپنی تیاری کا اظہار کیا۔ سوری عرب فوج کی کمان کی جانب سے دو متضاد بیانات جاری کیے گئے: ایک شکست کا اعتراف اور دوسرا "دہشت گرد گروہوں" کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھنے کے لیے عزم کا اظہار، خاص طور پر حمص، حماہ اور درعا میں۔[27]

بشار الاسد کے ٹھکانے

ترمیم

شام کے سرکاری میڈیا نے ابتدائی طور پر ان الزامات کی تردید کی کہ شامی صدر بشار الاسد دمشق سے فرار ہو گئے ہیں، انھیں "افواہیں اور جھوٹی خبریں" قرار دیا۔[29] صورت حال سے واقف ایک ذرائع نے بتایا کہ بشار دمشق میں کسی بھی متوقع مقام پر نہیں مل سکے جہاں وہ عام طور پر موجود ہوتے ہیں۔ بشار کی خصوصی فوج حرس جمہوریہ سوریہ اب ان کی معمول کی رہائش گاہ پر تعینات نہیں رہی۔ 7 دسمبر 2024ء کی شام تک باغی افواج کو بشاع الاسد کے مقام کے بارے میں کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملی اور انھوں نے ان کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی۔[30] اعلی شامی افسران نے بعد میں یہ اطلاعات دیں کہ بشار دمشق سے ایک طیارے میں فرار ہو کر نامعلوم مقام پر پہنچ چکے ہیں۔[31] روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ دو نامعلوم شامی ذرائع نے اشارہ کیا ہے کہ اس بات کا "بہت زیادہ امکان" ہے کہ بشار الاسد ہوائی جہاز 9218 کے حادثے میں ہلاک ہو چکے تھے۔[32]

بعد ازاں روس کی سرکاری میڈیا نے اعلان کیا کہ بشار الاسد فرار ہو کر ماسکو آ چکے ہیں۔[33][34] اور انھیں روس میں پناہ دے دی گئی ہے۔[35]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Syria Live Updates: Government Forces Withdraw From Damascus Suburbs, Monitors Say"۔ The New York Times (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  2. "Syrian President Bashar al-Assad has left Damascus to an unknown destination"۔ دی جروشلم پوسٹ (بزبان انگریزی)۔ 8 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024 
  3. "Syria rebellion: Anti-government forces say they are in Damascus"۔ بی بی سی نیوز (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024 
  4. Wall Journalists (8 December 2024)۔ "Assad Flees as Syrian Rebels Take Damascus: Live Updates"۔ The Wall Street Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024 
  5. "Syrian rebels seize Damascus; Assad reportedly flees capital"۔ NBC News (بزبان انگریزی)۔ 8 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024 
  6. MEIB (August 2000)۔ "Syria's Praetorian Guards: A Primer"۔ Middle East Intelligence Bulletin۔ 2 (7)۔ 04 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2011 
  7. "10 km from the capital Damascus.. The regime is withdrawing rapidly in southern Syria and the factions are advancing" (بزبان عربی)۔ SOHR۔ 7 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  8. "Local factions break the first lines of defense of Homs city and attack the headquarters of the 26th Division and the College of Engineering near the city" (بزبان عربی)۔ SOHR۔ 7 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  9. ^ ا ب "US-backed anti-regime groups began expanding to north and towards Damascus from southern Syria"۔ انادولو ایجنسی۔ 7 December 2024 
  10. Eyad Kourdi، Christian Edwards، Nic Robertson، Avery Schmitz (7 December 2024)، Syrian rebels appear to have entered Damascus as Assad regime's defenses crumble، CNN، اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  11. ^ ا ب Bassem Mroue، Zeina Karam (7 December 2024)۔ "War monitor says Assad fled Syria ahead of rebels entering the capital"۔ Associated Press News 
  12. "Hope and suspense in East Ghouta as the regime loses ground"۔ Syria Direct۔ 6 December 2024 
  13. Raja Abdulrahim (6 December 2024)۔ "As Syrian Rebels Advance, Iran Grows Nervous and Neighbors Close Their Borders"۔ نیو یارک ٹائمز 
  14. ^ ا ب پ William Christou، Ruth Michaelson (8 December 2024)۔ "Syrian rebels say they have advanced into Damascus as residents report sound of gunfire"۔ The Observer (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0029-7712۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024 
  15. "Anti-Assad rebels take most of southern Syrian region of Deraa, say reports"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 6 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  16. Raja Abdulrahim (7 December 2024)۔ "Syria's Government Battles Multiple Rebel Uprisings"۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  17. "Syrian rebels say they control the south and are approaching Damascus"۔ Middle East Eye (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  18. "Successive withdrawals from the Damascus countryside to secure the capital.. Reconciliation factions are a few kilometers away from the capital Damascus" (بزبان عربی)۔ SOHR۔ 7 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  19. "Syrian rebels say they have begun encirclement of Damascus"۔ www.timesofisrael.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  20. "After the major withdrawal in the Damascus countryside and cities adjacent to the capital.. Regime forces redeploy in the capital Damascus" (بزبان عربی)۔ SOHR۔ 7 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  21. Tom Ambrose، Hamish Mackay، Tom Ambrose (now)، Hamish Mackay (earlier) (7 December 2024)۔ "Syrian rebels say they have reached Damascus in 'final stage' of offensive – Middle East crisis live"۔ the Guardian (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0261-3077۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  22. "Syrian rebels close in on capital Damascus and enter key city Homs"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  23. Edna Mohamed۔ "Syria's opposition fighters say they are closing in on capital Damascus"۔ Al Jazeera (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  24. Nic Robertson (7 December 2024)۔ "Syrian rebels edge closer to Damascus as US officials say Assad regime could fall soon: Live updates"۔ سی این این (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  25. "Revolution Forces Advance Toward Damascus as Assad Regime Crumbles"۔ Levant 24۔ 7 December 2024 
  26. "Senior Assad regime officials are preparing to defect in Damascus, Syrian rebels claim"۔ CNN (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  27. ^ ا ب Ruth Michaelson۔ "Bashar al-Assad reported to have fled Syria as rebels say they have captured Damascus claim"۔ The Guardian (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024 
  28. "Rebels say they are entering Syrian capital Damascus"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024 
  29. "Syrian rebels close in on capital Damascus and enter key city Homs"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  30. Nic Robertson (7 December 2024)۔ "Syrian rebels edge closer to Damascus as US officials say Assad regime could fall soon: Live updates"۔ CNN (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  31. "Syrian President Bashar al-Assad has left Damascus to an unknown destination, say two senior army officers"۔ روئٹرز۔ 7 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2024 
  32. Suleiman Al-Khalidi، Timour Azhari، Jaida Taha (7 December 2024)۔ "Syrian army command tells officers that Assad's rule has ended, officer says"۔ Reuters۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024۔ Two Syrian sources said there was a very high probability that Assad may have been killed in a plane crash as it was a mystery why the plane took a surprise U turn and disappeared off the map according to data from the Flightradar website 
  33. "Assad is in Moscow after fleeing Syria and will be given aslyum, Russian state media reports"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024 
  34. "IN BRIEF: Assad in Moscow, security of Russian bases: what Kremlin source said"۔ TASS۔ 8 December 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2024۔ According to the source in the Kremlin, Assad and his family have arrived in Moscow" 
  35. Peter Beaumont (9 December 2024)۔ "Israel, US and Turkey launch strikes to protect interests in Syria"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2024