محمد طاہر قاسمی غازی آبادی

ہندوستانی عالم و مفتی

محمد طاہر قاسمی غازی آبادی (پیدائش: 15 دسمبر 1968ء) ایک ہندوستانی سنی حنفی دیوبندی عالم، مفتی اور مصنف ہیں۔ وہ دار العلوم دیوبند میں نائب مفتی اور استاذِ شعبۂ افتا کی حیثیت سے خدمت انجام دے چکے ہیں اور سنہ 1996ء سے مظاہر علوم جدید میں مفتی اور استاذِ فقہ و حدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مولانا، مفتی
محمد طاہر قاسمی غازی آبادی
معلومات شخصیت
پیدائش 15 دسمبر 1968ء (56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کَکرالہ، نوئیڈا، ضلع گوتم بدھ نگر، اتر پردیش، بھارت
رہائش قصبہ ڈاسنہ، ضلع غازی آباد، اترپردیش
قومیت ہندوستانی
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی
  • مدرسہ خادم الاسلام، ہاپوڑ
  • مدرسہ تعلیم الاسلام، پِپلیڑہ، ضلع ہاپوڑ
  • مدرسہ خادم العلوم باغوں والی، ضلع مظفر نگر
  • دار العلوم دیوبند
استاذ محمد حسین بہاری،  محمود حسن گنگوہی،  نظام الدین اعظمی،  نصیر احمد خان بلند شہری،  ظفیر الدین مفتاحی،  عبد الحق اعظمی،  حبیب الرحمن خیر آبادی،  نعمت اللہ اعظمی،  قمر الدین احمد گورکھپوری،  ریاست علی ظفر بجنوری،  سعید احمد پالن پوری،  ارشد مدنی،  کفیل الرحمن نشاط عثمانی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص اشتیاق احمد دربھنگوی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم،  مفتی،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں عقود الجواہر شرح الاشباہ والنظائر، مصفاۃ الینابیع شرح مشکاۃ المصابیح

ابتدائی و تعلیمی زندگی ترمیم

ولادت و تعلیم ترمیم

محمد طاہر بن علی رضا قاسمی غازی آبادی 15 دسمبر 1968ء کو کَکرالہ، نوئیڈا، ضلع گوتم بدھ نگر، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔[1][2]

انھوں نے اردو، دینیات اور ناظرہ و حفظ قرآن تک کی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد مدرسہ خادم الاسلام، ہاپوڑ میں رفیع الدین مرشد پوری کے پاس حفظ قرآن کا دور کیا، اس کے بعد مدرسہ تعلیم الاسلام پِپلیڑہ، ضلع غازی آباد (موجودہ ضلع ہاپوڑ) میں ابتدائی فارسی تا عربی سوم یعنی کافیہ تک کی تعلیم حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں محمد خالد قاسمی، مہتمم جامعہ محمود المدارس مسوری، ضلع غازی آباد بطور خاص شامل تھے۔[1]

پھر عربی چہارم یعنی شرح جامی سے موقوف علیہ یعنی مشکاۃ تک کی تعلیم مدرسہ خادم العلوم باغوں والی، ضلع مظفر نگر میں حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں جمیل احمد، محمد حنیف اور مسعود احمد شامل تھے۔[1]

شوال 1407ھ (بہ مطابق جون 1987ء) کو دورۂ حدیث کے سال میں دار العلوم دیوبند میں ان کا داخلہ ہوا اور شعبان 1408ھ (بہ مطابق اپریل 1988ء) میں وہ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔[1]

دار العلوم کے اندر دورۂ حدیث میں انھوں نے صحیح بخاری جلد اول نصیر احمد خان بلند شہری سے، صحیح بخاری جلد ثانی عبد الحق اعظمی سے، سنن ابی داؤد محمد حسین بہاری سے، سنن ابن ماجہ ریاست علی ظفر بجنوری سے، صحیح مسلم جلد اول نعمت اللہ اعظمی سے، جامع ترمذی جلد اول و شرح معانی الآثار سعید احمد پالن پوری سے، صحیح مسلم جلد ثانی قمر الدین گورکھپوری اور جامع ترمذی جلد ثانی ارشد مدنی سے پڑھی، اس کے علاوہ عبد الخالق مدراسی بھی ان کے اساتذہ میں شامل ہیں۔[1][3]

دورۂ حدیث کے بعد شوال 1408ھ تا شعبان 1409ھ (بہ مطابق جون 1988ء تا فروری 1989ء) انھوں نے دار العلوم سے ہی افتا کیا اور اس کے بعد مزید دو سال وہیں رہ کر تدریب فی الافتاء کا نصاب بھی مکمل کیا، دار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذۂ افتا میں محمود حسن گنگوہی، نظام الدین اعظمی، کفیل الرحمن نشاط عثمانی، ظفیر الدین مفتاحی اور حبیب الرحمن خیرآبادی شامل تھے۔[1]

بیعت و خلافت ترمیم

غازی آبادی باغوں والی کے زمانۂ طالب علمی ہی میں محمود حسن گنگوہی سے بیعت ہو گئے تھے، چناں چہ اصلاح و تربیت کے بعد تدریب فی الافتاء کے سال یعنی 1411ھ میں محمود حسن گنگوہی نے غازی آبادی کو اجازتِ بیعت سے نوازا، گنگوہی کی وفات کے بعد غازی آبادی نے گنگوہی کے خلیفۂ خاص محمد ابراہیم پانڈور افریقی کی طرف رجوع کیا، نیز قاری امیر حسن کی وفات کے بعد سے محمد ابراہیم پانڈور افریقی و مفتی احمد خانپوری کے ایما پر خانقاہ میل وشارم میں رمضان کا اعتکاف کرکے مریدین و مسترشدین کی اصلاح و تربیت کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔[1]

تدریسی و عملی زندگی ترمیم

غازی آبادی نے تعلیم سے فراغت کے بعد جامعہ تعلیم الاسلام پِپلیڑہ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور شوال 1411ھ (اپریل 1991ء) سے شعبان 1413ھ (فروری 1993ء) تک دو سال وہاں رہ کر تدریسی خدمت انجام دی۔[1]

اس کے بعد شوال 1413ھ تا شعبان 1417ھ (بہ مطابق اپریل 1993ء تا دسمبر 1996ء) تین سال دار الافتاء، دار العلوم دیوبند میں نائب مفتی کی حیثیت سے خدمت انجام دی[4][5] اور ساتھ میں افتا کے طلبہ کو شرح عقود رسم المفتی اور الاشباہ و النظائر جیسی کتابوں کا درس بھی دیا کرتے تھے۔[1] ان کے دار الافتاء، دار العلوم دیوبند کے تلامذہ میں اشتیاق احمد دربھنگوی بھی شامل ہیں۔[6]

شوال 1417ھ بہ مطابق فروری 1997ء کو مظاہر علوم جدید میں بحیثیت مفتی غازی آبادی کا تقرر ہوا، اس وقت سے دار الافتاء کے ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، طلبۂ افتا کی کتاب الاشباہ والنظائر ان کے زیر درس ہے۔[1] نیز تفسیر بیضاوی، تفسیر مدارک التنزیل اور مشکاۃ المصابیح جیسی کتابیں ان کے زیر درس رہ چکی ہیں اور فی الحال مظاہر علوم میں دار الافتاء کی ذمہ داریوں کے ساتھ دورۂ حدیث کی سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی (جلد اول) کا درس ان سے متعلق ہے۔[1]

محمد طلحہ کاندھلوی کے ایما و اصرار پر غازی آبادی نے سکروڈہ رسول پور، ضلع غازی آباد میں دار العلوم غازی آباد کے نام سے ایک دار العلوم کی بنیاد رکھی، اس کے علاوہ متعدد مکاتب ان کے زیر سر پرستی چل رہے ہیں۔[1]

قلمی خدمات ترمیم

غازی آبادی نے سعید احمد پالن پوری کی ہدایت پر عقود الجواہر کے نام سے الاشباہ والنظائر کی شرح تصنیف کی، جس کی دو جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور تیسری جلد زیر طبع ہے۔[1]

اس کے علاوہ محمد عاقل مظاہری، موجودہ ناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپور کے ایما پر مصفاۃ الینابیع کے نام سے مشکاۃ المصابیح کی شرح لکھ رہے ہیں جس کی ایک جلد منظر عام پر آ چکی ہے، نیز دار الافتاء دار العلوم دیوبند میں رہتے ہوئے اور دار الافتاء، مظاہر علوم سہارنپور سے ہزاروں استفتا کے جوابات لکھ چکے ہیں۔[3][7]

ان کے علاوہ اصلاحی بیانات کے نام سے ان کے میل وشارم کے خانقاہی بیانات و افادات کو ان کے ایک شاگرد رشید انیس احمد انبھیٹوی نے ایک جلد میں مرتب کیا ہے اور ان کے ایک دوسرے شاگرد محمد مصدق مظاہری نے ان کے زیر تربیت اکمال السنن کے نام سے آثار السنن کی شرح مرتب کی ہے۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ریاست علی قاسمی رامپوری (2022ء)۔ "حضرت مولانا مفتی محمد طاہر صاحب غازی آبادی"۔ فقیہ الامت حضرت اقدس مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی اور ان کے خلفائے عالی مقام۔ 1 (پہلا ایڈیشن)۔ امروہہ، اترپردیش: مکتبہ العافیہ۔ صفحہ: 315–321 
  2. ^ ا ب رفیع الدین حنیف قاسمی (22 اکتوبر 2022ء)۔ "مفتی طاہر صاحب مدظلہ العالی، تعارف و خدمات"۔ alhilalmedia.com۔ الہلال میڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 دسمبر 2022ء 
  3. ^ ا ب محمد کوثر علی سبحانی مظاہری (دسمبر 2021)۔ "تذکرہ حضرت مولانا مفتی محمد طاہر صاحب غازی آبادی مد ظلہ"۔ الجوہر المفید فی تحقیق الاسانید یعنی تذکرۂ محدثین اور ان کی سندیں (پہلا ایڈیشن)۔ فاربس گنج، ارریا، بہار: جامعۃ الفلاح دار العلوم الاسلامیہ۔ صفحہ: 490–492 
  4. محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ "مفتیانِ دار الافتاء"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ۔ دیوبند: شیخ الہندؒ اکیڈمی۔ صفحہ: 771 
  5. آفتاب غازی قاسمی، عبد الحسیب قاسمی (2011ء)۔ "مفتی محمد طاہر قاسمی"۔ فضلاء دیوبند کی فقہی خدمات - ایک مختصر جائزہ (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ۔ صفحہ: 427-428 
  6. محمد روح الامین میُوربھنجی (5 دسمبر 2021ء)۔ "حضرت مولانا مفتی اشتیاق احمد دربھنگوی دامت برکاتہم"۔ بصیرت آن لائن۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 دسمبر 2022ء 
  7. اشتیاق احمد قاسمی (10 دسمبر 2022 ء)۔ "مصفاۃ الینابیع شرح مشکوٰۃ المصابیح (جلد اول)"۔ qindeelonline.com۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2022 ء