مغیرہ ابن شعبہ
عرب کے مدبر اور صحابی۔ مغیرہ بن شعبہ بنو ثقیف کے چشم و چراغ تھے۔ 5ھ میں طائف سے مدینہ میں اسلام لاے اور اس کے بعد یہیں کے ہو رہے۔ وہ حصول علم اور اکتساب فیض کے لیے دن کا اکثر حصہ امیر معاویہ کی خدمت میں حاضر رہتے۔حضرت عمر بن خطاب کے بھی بہت وفادار تھے۔اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب تمام ایسے واقعات جو انکی اعلی و ارفع حیثیت و مقام کے خلاف ہیں الواقدی،محمد بن سائب کلبی،سیف بن عمر تمیمی جیسے کذاب اور وضاع اشخاص نے بیان کیے ہیں اور ان حضرات پر علما اسما الرجال کی طرف سے مستند کتابوں میں سخت جرح بھی موجود ہے اور ان باطل قسم کے واقعات تمام حضرات صحابہ کرام کی توثیق و عدالت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہوسکتے۔تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں۔
مغیرہ بن شعبہ ثقفی | |
---|---|
گورنرِ کوفہ (خلافت راشدہ) | |
عہدہ سنبھالا 642ء–645ء | |
حکمران | عمر بن خطاب (دور حکومت 634ء تا 644ء) |
پیشرو | سعد بن ابی وقاص |
جانشین | سعد بن ابی وقاص |
گورنر کوفہ (دولت امویہ) | |
عہدہ سنبھالا 661ء–671ء | |
حکمران | معاویہ بن ابی سفیان |
جانشین | زیاد بن ابیہ |
ذاتی تفصیلات | |
پیدائش | لگ بھگ 600ء |
وفات | 671ء |
اولاد | عروہ مطرف حمزہ |
والدین | شعبہ بن ابی عامر |
نام ونسب ترميم
مغیرہ نام ، ابو عبداللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، مغیرہ بن شعبہ بن ابی عامر بن مسعود بن معتب بن مالک بن کعب بن عمرو بن عوف بن قیس۔ [1]
قبول اسلام ترميم
غزوۂ خندق کے سال 5ھ میں مشرف باسلام ہوئے اور اسی زمانہ میں ہجرت کر کے مدینہ آ گئے۔ [2]
غزوات ترميم
اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ قیام کیا،غزوۂ حدیبیہ میں آپ کے ساتھ نکلے، قریش اس میں مزاحم ہوئے اور ان کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی گفتگو کے لیے آیا اور عرب کے عام قاعدہ کے مطابق دوران گفتگو میں بار بار آنحضرت ﷺ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا، مسلمان اس گستاخانہ طریقہ تخاطب کے عادی نہ تھے، مغیرہؓ کو جو اسوقت ہتھیار لگائے آنحضرت ﷺ کی پشت کی جانب کھڑے تھے، یہ انداز گفتگو ناگوار ہوا، وہ ہر مرتبہ تلوار کے قبضہ پر ہاتھ لے جاتے تھے آخر میں ضبط نہ ہوسکا ڈانٹ کر کہا خبردار! ہاتھ قابو میں رکھو، عروہ نے پہچان کر کہا، اودغاباز میں نے تیری دغابازی کے معاملہ میں تیری طرف سے کوشش نہیں کی تھی۔ (زمانہ جاہلیت میں مغیرہ نے چند آدمیوں کو قتل کر دیا تھا، مسعود ثقفی نے ان کی دیت ادا کی تھی، یہ واقعہ بخاری کتاب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اہل الحرم میں مفصل مذکور ہے، ہم نے صرف اسی قدر ہی لیا ہے جتنا مغیرہ کی ذات سے متعلق ہے)
آخری سعادت ترميم
آنحضرت ﷺ کی تجہیز و تکفین کے وقت موجود تھے، جب لوگ جسد مبارک کو قبر انور میں رکھ کر نکلے تو انہوں نے عمداً قبر میں اپنی انگوٹھی گرا دی ،حضرت علیؓ نے کہا نکال لو، انہوں نے قبر میں اتر کر قدم مبارک کو ہاتھ سے مس کیا اور جب مٹی گرائی جانے لگی اس وقت قبر سے نکلے، انہوں نے قصدا ًاس لیے انگوٹھی گرائی تاکہ یہ شرف ان کے ساتھ مخصوص ہوجائے کہ وہ ذات نبوی سے یہ سب سے آخری جدا ہونے والے ہیں، چنانچہ ہمیشہ لوگوں سے فخریہ کہا کرتے کہ میں تم سب میں آنحضرت ﷺ سے آخری جدا ہونے والا ہوں۔ [3]
عہد صدیقی ترميم
آنحضرت ﷺ کے بعد شیخین کے عہد کی اکثر معرکہ آرائیوں میں شریک رہے اور بڑے بڑے کار ہائے نمایاں کیے، سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق کے حکم سے اہل بحیرہ کی طرف گئے، پھر یمامہ کے مرتدوں کی سرکوبی میں پیش پیش رہے۔ [4]
عہد فاروقیؓ ترميم
فتنۂ ارتداد کے فرو ہونے کے بعد عراق کی فتوحات میں شریک ہوئے ، بویب کی تسخیر کے بعد جب مسلمان قادسیہ کی طرف بڑھے اور رستم نے مصالحت کے لیے مسلمان سفرا بلائے تو کئی سفراء بھیجے گئے، آخر میں یہ خدمت مغیرہ کے سپرد ہوئی۔
سفارت ترميم
ایرانیوں نے اسلامی سفیر پر رعب ڈالنے کے لیے بڑی شان و شوکت سے دربار سجایا تھا ، تمام افسرانِ فوج دیبا وحریر کے بیش قیمت ملبوسات زیب تن کیے تھے، رستم زرنگار تاج سر پر رکھے تخت پر بیٹھا تھا، دربار میں کارچوبی کا فرش تھا، مغیرہؓ پہنچے تو بلا کسی جھجک کے سیدھے رستم کے تخت پر جاکر بیٹھ گئے، ان کا اس دلیری سے رستم کے پہلو بہ پہلو بیٹھ جانا درباریوں کو ناگوار گذرا، انہوں نے ہاتھ پکڑ کے نیچے بٹھادیا، مغیرہ نے کہا:ہم عرب ہیں ہمارے یہاں یہ دستور نہیں ہے کہ ایک شخص خدا بنے اور دوسرے لوگ اس کی پرستش کریں،ہم سب ایک دوسرے کے برابر ہیں، تم نے ہم کو خود بلایا ہے،ہم اپنی غرض سے نہیں آئے ہیں، پھر تمہارا یہ سلوک کہاں تک مناسب ہے، اگر تم لوگوں کا یہی حال رہا تو بہت جلد نیست و نابود ہو جاؤ گے، بقائے سلطنت کی یہ شکل نہیں ہے، ایرانی اس مساوات سے ناآشنا تھے، یہ خیالات سن کر دنگ رہ گئے، رستم بھی نادم ہوا، بولا کہ یہ نوکروں کی غلطی ہے اور حسن تلافی کے طور پر ان کے ترکش سے تیر نکال کر مذاق کے لہجہ میں کہا کہ ان تکلوں سے کیا ہو گا، کہا چنگاری کی لوگو چھوٹی ہو مگر پھر بھی آگ ہے، پھر اس نے تلوار کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ تمہاری تلوار کس قدر بوسیدہ ہے، کہا گو نیام بوسیدہ ہے؛ لیکن دھار تیز ہے، اس کے بعد اصل معاملہ پر گفتگو شروع ہوئی، رستم نے اپنی قوم کی شوکت و عظمت سطوت و جبروت اور عربوں کی حقارت و کم مایگی کا تذکرہ کرکے کہا کہ گو تمہاری جیسی ناچیز قوم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،تاہم اگر تم لوٹ جاؤ تو تمہاری فوج اور سردار فوج کو ان کے مرتبہ کے موافق انعام دیا جائے گا، مغیرہؓ نے نہایت جوش سے جوابی تقریر کی اور آخر میں کہا کہ اگر تم کو جزیہ نہیں منظور ہے تو تلوار تمہارا فیصلہ کرے گی، رستم یہ سخت جواب سن کر آگ بگولا ہو گیا ، بولا کہ آفتاب سے پہلے تمہاری فوج کو تہ وبالا کردوں گا، اس گفتگو کے بعد مغیرہؓ واپس چلے آئے ،[5]اور قادسیہ کی مشہور جنگ میں بھی یہ شریک تھے۔
عراق پرفو ج کشی ترميم
19ھ میں رے قومس اور اصفہان والوں نے یزدگرد سے خط و کتابت کر کے مسلمانوں کے خلاف ساٹھ ہزار فوج جمع کی اور مروان شاہ درفش کا ویانی لہراتا ہوا نکلا ، حضرت عمار بن یاسرؓ نے دربار خلافت میں اطلاع دی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خود نکلنے کا قصد کیا؛ لیکن پھر نظام خلافت کے اختلال کے خیال سے ارادہ فسخ کر دیا اور امرائے کوفہ و بصرہ کے نام فرمان جاری کیے کہ وہ اپنی اپنی فوج لے کر نہاوند کی طرف بڑھیں اور نعمان بن مقرن کو سپہ سالار مقرر کرکے ہدایت کردی کہ اگر تم شہید ہو تو حذیفہ بن یمان تمہاری قائم مقامی کریں اگر وہ بھی شہید ہوں تو جریر بن عبداللہ بجلی جگہ لیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو مغیرہ بن شعبہ علم سنبھال لیں۔ [6]
دوسری سفارت ترميم
جب اسلامی لشکر نہاوند کے قریب پہنچا تو ایرانیوں نے دوبارہ مصالحت کی گفتگو کے لیے ایک سفیر طلب کیا، مغیرہؓ اس خدمت کو ایک مرتبہ حسن و خوبی کے ساتھ انجام دے چکے تھے، اس لیے دوبارہ ان ہی کا انتخاب ہوا،یہ سفیر بن کر گئے تو دربار کا وہی رنگ دیکھا ،مروان شاہ سرپر تاج زرنگار رکھے طلائی تخت پر بیٹھا تھا، درباری چپ دراست چمکدار تلواریں لگائے ،جن پر آنکھ نہیں ٹھہرتی تھی،کھڑے تھے، مغیرہؓ نے کوئی توجہ نہ کی اور سیدھے گھستے ہوئے چلے گئے، راستہ میں درباریوں نے روکنا چاہا، کہا سفرا کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کیا جاتا اور مترجم کے ذریعہ گفتگو شروع ہوئی،مروان شاہ نے کہا کہ تم عرب ہو اور عربوں سے زیادہ بدبخت ،فاقہ مست اور نجس قوم دنیا میں نہیں ہے، میری سپاہ کب کا تمہارا فیصلہ کر چکی ہوتی ؛لیکن تم اس قدر ذلیل ہوکہ ہم ان کے تیر بھی تمہارے ناپاک خون سے آلودہ کرنا نہیں چاہتے،اب بھی اگر تم واپس چلے جاؤ تو معاف کردیا جائے گا، ورنہ تمہاری لاشیں میدان میں تڑپتی نظر آئیں گی، انہوں نے حمد و نعت کے بعد جواب دیا کہ بیشک جیسا تمہارا خیال ہے،ایک زمانہ میں ہم ویسے ہی تھے؛لیکن ہمارے رسولﷺ نے ہماری کایا پلٹ دی اب ہر طرف ہمارے لیے میدان صاف ہے اور بغیر تمہارا تاج و تخت چھینے اس وقت تک نہیں لوٹ سکتے ،جب تک میدان جنگ میں ہماری لاشیں نہ تڑپیں،[7] غرض یہ سفارت بے نتیجہ رہی، طرفین میں لڑائی کی تیاریاں شروع ہوگئیں، مغیرہؓ میسرہ کے افسر مقرر ہوئے، نہاوند کے معرکہ میں اسلامی فوج کے سپہ سالار نعمان بن مقرن ایسے سخت زخمی ہوئے کہ پھر جان بر نہ ہوسکے؛لیکن مسلمانوں کے ثبات واستقلال میں کوئی فرق نہ آیا اور بالآخر ایرانیوں کو شکست ہوئی،اختتام جنگ کے بعد معقل ،نعمان کی خبر لینے گئے، سانس کی آمد و شدباقی تھی لیکن نگاہ جواب دے چکی تھی، پوچھا کون،معقل نے بتایا،پوچھا جنگ کا کیا نتیجہ رہا، عرض کیا اللہ نے کامیاب کیا، فرمایا الحمدللہ،عمرؓ کو اطلاع دو اوریہ مژدہ سننے کے بعد طائر روح پرواز کر گیا۔ [8] نہاوند کے بعد ایران پر عام فوج کشی ہوئی،ہر حصہ پر الگ الگ فوجیں بھیجی گئیں، ہمدان کی مہم مغیرہؓ کے سپرد ہوئی، انہوں نے نہایت بہادری سے اس کو سر کیا،پھر اہل ایران کی درخواست پر صلح کرلی۔ [9]بصرہ آباد ہونے کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کو یہاں کا گورنر مقرر کیا ،انہوں نے اپنے عہد حکومت میں بہت سے نئے انتظامات کیے،باقاعدہ ایک دفترکھولا، جہاں سے سپاہیوں کی تنخواہیں اوروظیفہ خواروں اور وثیقہ پانے والوں کے وظیفے اور وثیقے ملتے تھے، اس سے پہلے کوئی دفتر نہ تھا، اس کی ایجاد کا سہرا مغیرہؓ کے سر ہے،کچھ دنوں کے بعد ایک جرم کے الزام میں ماخوذ ہوئے،لیکن شہادت سے یہ الزام ثابت نہ ہوسکا،حضرت عمرؓ بہت خوش ہوئے کہ ایک صحابی کا دامن معصیت کی آلودگی سے پاک نکلا، تاہم سیاسی مصالح کے لحاظ سے بصرہ سے تبادلہ کرکے عمار بن یاسرؓ کی جگہ کوفہ کا گورنر بنایا، حضرت عمرؓ کی وفات تک یہاں کے گورنر رہے،[10] اور جدید عثمانی انتظامات میں معزول کردیے گئے۔
عہد معاویہ ترميم
اس کے بعد امیر معاویہ اؓور حضرت علیؓ میں اختلافات ہوئے تو ابتدا میں مغیرہؓ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حامی وطرفدار تھے،چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مخلصانہ مشورہ دیا کہ اگر آپ اپنی خلافت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو طلحہؓ و زبیرؓ کو کوفہ اور بصرہ کا والی بنائیے اور امیر معاویہؓ کو ان کے قدیم عہدہ پر واپس کیجئے، پورا تسلط ہو جانے کے بعد پھر جو خیال میں آئے وہ کیجئے گا؛لیکن علی رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا کہ طلحہ ؓ و زبیرؓ کے بارہ میں غور کروں گا؛لیکن معاویہؓ جب تک اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں گے اس وقت تک نہ ان کو کہیں کا امیر بناؤں گا اورنہ ان سے کسی قسم کی مددلوں گا، مغیرہؓ اس جواب سے بدظن ہوگئے، امیر معاویہؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اوران کو اپنی طرف مائل کرکے ان سے بیعت لے لی،[11] اب مغیرہؓ ، معاویہؓ کے ساتھ تھے اور علی الاعلان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت شروع کردی،مجمع عام میں آپ کے خلاف تقریر کرتے اور لوگوں کو آپ کی مخالفت پر ابھارتے تھے۔ [12] مغیرہؓ کی حمایت نے امیر معاویہؓ کو بڑی قیمتی مدد پہنچائی ،بڑی بڑی اہم گتھیاں انہوں نے اپنے ناخن تدبیر سے حل کردیں،امیر معاویہؓ کے دعویٰ خلافت کے سلسلہ میں بعض مواقع ایسے نازک آگئے تھے کہ اگر مغیرہؓ کا تدبرنہ ہوتا تو امیر معاویہؓ کو سخت ترین دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا"زیاد"دہاۃ عرب میں تھا اور حضرت علیؓ کی طرف سے فارس کا والی تھا، یہ امیر معاویہؓ کا سخت ترین دشمن تھا، حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد گو امیر معاویہؓ سارے عالم اسلامی کے خلیفہ ہوگئے تھے۔ لیکن زیاد ان کی خلافت نہیں تسلیم کرتا تھا، امیر معاویہؓ نے مشہور جفاکار بسر بن ارطاط کو اس کے مطیع کرنے پر مامور کیا؛لیکن اس کی سختیاں بے کار ثابت ہوئیں اور مغیرہؓ بن شعبہ نے اپنے تدبیر سے زیاد کو امیر معاویہؓ کا مطیع بنا کر ایک بڑے خطرہ سے بچا لیا۔ [13]
کوفہ کی گورنری ترميم
41ھ میں امیر معاویہؓ نے مغیرہؓ کو ان کے حسن خدمات کے صلہ میں کوفہ کا عامل بنایا، 42ھ میں خارجیوں نے بڑا سخت فتنہ برپا کیا،مغیرہؓ نے نہایت ہوشیاری اور سرعت سے اس کو فروکیا اور خارجیوں کا ایک سرغنہ مستورد مارا گیا، غرض مغیرہؓ نے امیر معاویہؓ کی خلافت استوار کرنے میں پورا زور صرف کیا۔
وفات ترميم
50ھ میں کوفہ میں طاعون کی وبا پھیلی،اسی میں انتقال کیا، وفات کے وقت 70 سال کی عمر تھی۔ [14]
حلیہ ترميم
سر بڑا، بال بھورے، لب پیوستہ، بازو فراخ اور شانے کشادہ تھے۔ [15]
اولاد ترميم
وفات کے وقت 3 اولادیں چھوڑیں، عروہ، حمزہ، مطرف۔ [16]
فضل وکمال ترميم
مغیرہؓ بن شعبہ گو ایک مدبر اور فوجی شخص تھے، تاہم ان کو مذہبی علوم سے بھی وافر حصہ ملا تھا اور اپنے زمرہ میں علمی حیثیت سے ممتاز شخصیت رکھتے تھے،ان کی 133 روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،ان میں سے 9 متفق علیہ ہیں اور ایک میں امام بخاری اور 2 میں مسلم منفرد ہیں [17] تلامذہ کا دائرہ بھی خاصہ وسیع تھا، ان میں ان کے تینوں لڑکے عروہ، حمزہ، مطرف اور عام لوگوں میں جیرہ بن وحیہ، مسور بن مخرمہ، قیس بن ابی حازم، مسروق بن احدع، نافع بن جبیرہ بن مطعم ،عروہ بن زبیر اور عمرو بن وہب قابل ذکرہیں۔ [18] گو مغیرہؓ مذہبی علوم سے بے بہرہ نہ تھے؛ لیکن ان کی عظمت و وقار کا حکم علم و افتا کی مسند کے بجائے سیاست کی خارزار وادیوں میں گڑا تھا اور یہی ان کے کمال کا حقیقی مظہر تھا، عقل ودانش اور تدبرو سیاست کے لحاظ سے وہ عرب کے ممتاز مدبرین میں تھے، ان کا شمار "دہاۃ عرب" میں تھا اور اپنے غیر معمولی دل و دماغ کے سبب سے "مغیرۃ الرائے" کہلاتے تھے [19] اسی وصف کی بناء پر حضرت عمرؓ کے عہد میں بڑے بڑے ذمہ دار عہدوں پر ممتاز رہے اور دربار ایران تک ان کے تدبر کا سکہ جم گیا تھا۔
قبیصہ بن جابر کا بیان ہے کہ میں عرصہ تک مغیرہؓ کے ساتھ رہا، وہ اس تدبیر وسیاست کے آدمی تھے کہ اگر کسی شہر کے آٹھ دروازے ہوں اوران میں ایک میں سے بھی بغیر ہوشیاری اور چالاکی کے گذر نا دشورا ہو تو مغیرہؓ آٹھوں دروازوں سے نکل جاتے، [20] اہم امور کی گتھیاں سلجھانے میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا،جب کسی معاملہ میں رائے قائم کرتے تو اسی میں مفرکی صورت نکلتی۔ [21] ان کی تدبیر وسیاست کے بعض واقعات نہایت دلچسپ ہیں،عموماً اس قسم کے حکام کو رعایا پسند نہیں کرتی، مغیرہؓ بھی ان ہی میں تھے،حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ان کو بحرین کا گور نر بنایا تھا، یہاں کی رعایا نے ان کی شکایت کی، حضرت عمرؓ نے ان کو معزول کردیا، معزولی کے بعد چلتے چلتے رعایا نے ایک بڑی چوٹ یہ لگائی کہ ان کی آئندہ واپسی کے خطرہ کو روکنے کے لیے یہاں کے زمینداروں نے ایک لاکھ کی رقم جمع کرکے دربار خلافت میں پیش کی اور کہا کہ مغیرہؓ نے سرکاری محاصل سے خیانت کر کے ہمارے پاس جمع کرائی تھی،حضرت عمرؓ نے نہایت سختی سے باز پرس کی،معاملہ بہت نازک تھا، رقم موجود تھی، سینکڑوں شاہد تھے، کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہ تھی؛لیکن انہوں نے دماغی توازن قائم رکھا، اور نہایت اطمینان کے ساتھ کہا میں نے دولاکھ جمع کیے تھے، ایک لاکھ اس نے دبالیا، یہ سن کر زمین دار بہت گھبرایا اورحلف لے کر اپنی صفائی پیش کی،ورنہ ان کو دولاکھ بیت المال میں داخل کرنا پڑتے تھے،مگر یہ واقعہ مغیرہؓ کو بدنام کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اس لیے تحقیقات سے غلط ثابت ہوا، حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا، تم نے دولاکھ کا کیوں اقرار کیا، بولے انہوں نے تہمت لگائی تھی اور اس کے سوا بدلہ لینے کی کوئی صورت نہ تھی۔ [22]حضرت مغیرہ بہترین قاری اور تجربہ کار کاتب تھے ۔ اس لئے رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے انہیں وحی کی کتابت پر مامور فرمایا تھا ۔ وہ فارسی زبان بھی جانتے تھے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور ہرمزان کے درمیان ترجمانی کا کام انہوں نے ہی سرانجام دیا تھا ۔ انہوں نے رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم سے 34 احادیث بھی روایت کی ہے ۔ آپ بہت بڑے معتبر اور سیاستدان تھے اس لیے انہیں مغیرو الراۓ کہا جاتا تھا ۔
حوالہ جات ترميم
- ↑ (اسد الغابہ:۴/۴۰۶)
- ↑ (استیعاب:۱/۲۵۸)
- ↑ (ابن سعد:۲/۷۷،۷۸)
- ↑ (مستدرک:۳/۴۴۷)
- ↑ (طبری:۵/۲۲۷۴)
- ↑ (فتوح البلدان بلاذری:۳۱۱)
- ↑ (طبری:۲/۲۶۰۲،۲۶۰۳)
- ↑ (فتوح البلدان بلاذری:۳۱۲،۳۱۳)
- ↑ (فتوح البلدان بلاذری:۳۱۷، ومستدرک:۳/۴۴۸)
- ↑ (استیعاب:۱/۲۵۹ ومستدرک:۳/۴۴۸)
- ↑ (اصابہ:۶/۱۳۲)
- ↑ (مستدرک: ۴۵۰)
- ↑ (ابن ایثر:۳/۱۶۸)
- ↑ (ابن اثیر:۳/۱۸۲)
- ↑ (اصابہ:۶/۱۳۲)
- ↑ (تہذیب التہذیب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ)
- ↑ (تہذیب الکمال:۳۸۵)
- ↑ (تہذیب التہذیب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ)
- ↑ (اصابہ واستیعاب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۱/۲۰۲)
- ↑ (مستدرک:۳،تذکرہ مغیرہؓ)
- ↑ (اصابہ:۶/۱۳۲)