جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ، 2019ء
جموں و کشمیر تنظیم نو بل، 2019ء (ہندی: जम्मू-कश्मीर पुनर्गठन विधेयक २०१९) کو امت شاہ نے 5 اگست 2019ء کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں پیش کیا جہاں وہ واضح اکثریت کے ساتھ منظور ہوا اور بعد ازاں 6 اگست 2019ء کو لوک سبھا میں بھی یہ بل منظور ہو گیا۔[2][3] اس بل کے ذریعہ جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں 31 اکتوبر 2019ء کو منقسم ہو جائے گا۔ یہ بل آئین ہند کی دفعہ 370 کو صدر جمہوریہ ہند کے حکم سے منسوخ کرتا ہے جس کے بعد آئین ہند کی تمام دفعات جموں و کشمیر پر بھی نافذ ہوں گی اور مققنہ جموں و کشمیر کے انتظامی ڈھانچہ کو از سر نو منظم کرے گی۔
جموں و کشمیر تنظیم نو بل، 2019ء | |
---|---|
بھارتی پارلیمان | |
موجودہ ریاست جموں و کشمیر کی تنظیم نو نیز اس سے متعلق امور و ضمنی امور کا قانون | |
سمن | 2019ء کی دفعہ نمبر 34 |
نفاذ بذریعہ | راجیہ سبھا |
تاریخ نفاذ | 5 اگست 2019 |
نفاذ بذریعہ | لوک سبھا |
تاریخ نفاذ | 6 اگست 2019 |
تاریخ دستخط | 9 اگست 2019 |
دستخط کنندہ | صدر بھارت |
تاریخ تنفیذ | 31 اکتوبر 2019 [1] |
قانون سازی کی تاریخ | |
تاریخ اشاعت | 5 اگست 2019 |
متعارف کردہ بدست | امت شاہ وزیر داخلہ |
صورت حال: نافذ |
پس منظر
ترمیمریاست جموں و کشمیر بھارت، پاکستان اور چین کے مرکز اتصال پر واقع ہے۔ یہ تینوں ممالک کے مابیں ایک متنازع اور حساس علاقہ رہا ہے جہاں تینوں ہی اپنا حق جتاتے ہیں۔ آئین ہند کی دفعہ 370 جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دیتی ہے۔ بھارت دیگر ریاستوں کے برخلاف جموں و کشمیر کا اپنا الگ آئین ہے اور خود مختار انتظامی اکائی ہے۔[4] مختصرا یہ کہ دیگر ریاستوں کے شہری جموں و کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتے تھے۔[5]
جموں و کشمیر تین اہم علاقوں پر مشتمل ہے: ہندو اکثریت جموں، مسلم اکثریت کشمیر اور بدھ مت اکثریت لداخ۔[6] 1987ء میں انتخابات کے بعد مسلم اکثریت کشمیر میں تنازعات اور بے امنی ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جموں و کشمیر میں بڑھتے تنازعات اور شورشوں کے بیچ اس کی خود مختاری اور آزادی کی مانگ بھی اٹھنے لگی۔[7][8] بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014ء کے انتخابات میں اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بنائی اور پھر 2019ء کے انتخابات کے مینو فیسٹو میں دفعہ 370 کو ہتانے کا وعدہ کیا تاکہ جموں و کشمیر کو دیگر ریاستوں کی طرح برابر کے حقوق دیے جا سکیں۔[6]
بل کی تفصیلات
ترمیمجموں و کشمیر تنظیم نو بل جموں و کشمیر کو دو یونین علاقوں میں منقسم کرتا ہے؛ جموں و کشمیر جس کی ایک اسمبلی اور مقننہ ہوگی لداخ (یونین علاقہ)، اس کی کوئی اسبلی نہیں ہوگی۔ لداخ یونین علاقہ میں ضلع لیہ اور ضلع کارگل شامل ہیں۔ دیگر تمام ضلعے جموں و کشمیر کا حصہ ہوں گے۔۔[2] لوک سبھا میں جموں و کشمیر کی 6 نشستوں میں سے ایک لداخ کو ملے گی جبکہ 5 جموں و کشمیر کے حصہ میں جائے گی۔ جموں و کشمیر عدالت عالیہ دونوں یونین علاقوں کی مشترکہ طور خدمت کرے گی۔[2]
جموں و کشمیر یونین علاقہ
ترمیمجموں و کشمیر یونین علاقہ کی انتظامیہ آئین ہند کی دفعہ 239 کے تحت ہوگی۔ پدوچیری کے لیے بنائی گئی آئین ہند کی دفعہ 239الف بھی جموں و کشمیر پر نافذ ہوگی۔ یونین علاقہ کا انتظام انصرام لیفٹیننٹ گورنر کے ہاتھ میں ہو گا جسے صدر بھارت نامزد کریں گے۔ اسمبلی میں 107 تا 114 ارکان ہوں گے جو 5 برس کی مدت کے لیے منتخب ہوں گے۔ جموں و کشمیر کی مجلس قانون ساز صوبائی فہرست میں موجود کسی بھی موضوع پر قانون بنا سکتی ہے سوائے پولس اور پبلک آرڈر کہ یہ مرکزی حکو ت کے ماتحت رہیں گے۔[2] وزرا کی کونسل اور وزیر اعلیٰ ہو گا جسے لیفٹیننٹ گورنر نامزد کرے گا۔ وہ لیفٹیننٹ گورنر کو انتظامی معاملات میں مشورہ دیں گے۔ کچھ معاملات میں گورنر خود مختار ہوگا۔[2]
نفاذ
ترمیمجموں و کشمیر تنظیم نو بل کو ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے 5 اگست 2019ء کو متعارف کرایا۔ وزیر داخلہ نے اس بل کو آئین ہند کی دفعہ 370 کے سلسلہ میں صدر بھارت کے حکم سے راجیہ سبھا میں پیش کیا جس کی رو سے دفعہ 370 کو منسوخ قرار دے دیا گیا اور اس طرح آئین ہند کی تمام تر دفعات دیگر ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر پر بھی نافذ العمل ہوگی۔[ا]1954ء کے بل کے میں دفعہ 3 میں ایک پروویزن تھا جس کی رو سے مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے سرحد، نام اور رقبہ میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ اس کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر تنظیمن نو بل کی راہیں ہموار ہو گئیں۔۔[9] راجیہ سبھا میں بل کو متعارف کرانے سے قبل وادی کشمیر کو پوری طرح محفوظ کر دیا گیا اور ایک کثیر تعداد میں حفاظتی دستوں تعیینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ دھارا 144 لگا کر عوامی اجتماع پر روک لگا دی گئی اور بڑے سیاست دانوں کو نظر بند کر دیا گیا۔[10] 20 جون 2018ء کو محبوبہ مفتی کی حکومت اس وقت گرگئی جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا تعاون واپس لے لیا۔ تب سے وہاں صدر راج نافذ تھا۔
راجیہ سبھا
ترمیمراجیہ سبھا میں بل کے متعارف ہوتے ہی ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے دو ایم ایل اے نے احتجاجا آئین ہند کو پھاڑ ڈالا جس کے پاداش میں انھیں ایوان کے نکال باہر کیا گیا۔[11][12] آل انڈیا ترنمول کانگریس کے 13 ارکان ایوان سے باہر چلے گئے اور جنتا دل کے 6 ارکان کے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔[13]
بل کو قومی جمہوری اتحاد کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی، وائی ایس آر کانگریس، تیلگو دیشم پارٹی اور عام آدمی پارٹی کی تائید حاصل رہی۔ کل 117 ووٹ بل کی تائید میں آئے۔[13] راجیہ سبھا میں یہ بل 61 کے مقابلے 125 ووٹ کی تائید سے منظورہو گیا۔[13][14]
پارٹی | تائید | تنقید | بائیکاٹ | |
---|---|---|---|---|
بی جے پی | 78 | – | – | |
کانگریس | – | 46 | – | |
جے ڈی یو | – | – | 6 | |
اے آئی ڈی ایم کے | 11 | – | – | |
ٹی ایم سی | – | 13 | – | |
این سی پی | – | – | 4 | |
بی جے ڈی | 7 | – | – | |
ایس پی | – | 11 | – | |
ٹی آر ایس | 6 | – | – | |
ڈی ایم کے | – | 5 | – | |
شیو سینا | 4 | – | – | |
سی پی ایم | – | 5 | – | |
بی ایس پی | 4 | – | – | |
آر جے ڈی | – | 5 | – | |
عام آدمی پارٹی | 3 | – | – | |
ٹی ڈی پی | 2 | – | – | |
ٹی ایس آر سی | 2 | – | – | |
اکالی دل | 3 | – | – | |
وائی ایس آر سی پی | 2 | – | – | |
آر پی آئی اے- | 1 | – | – | |
این پی ایف | 1 | – | – | |
ایل جے پی | 1 | – | – | |
بی پی ایف | 1 | – | – | |
اے جی پ | 1 | – | – | |
نامزد ارکان | 4 | – | – | |
آزاد | ||||
مجموعی | 125 | 61 | 10 |
لوک سبھا
ترمیم6 اگست 2019ء کو ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں یہ بل پیش ہوا۔ آل انڈیا ترنمول کانگریس اور جنتا دل نے ایوان سے باہر جانا مناسب سمجھا۔ انڈین نیشنل کانگریس، راشٹروادی کانگریس پارٹی اور سماجوادی پارٹی نے بل کی پر زور مخالفت کی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی، شیو سینا، بیجو جنتا دل، وائی ایس آر کانگریس، تلنگانہ راشٹر سمیتی، تیلگو دیشم پارٹی، شرومنی اکالی دل اوربہوجن سماج پارٹی نے تائید کی۔[15] 6 اگست 2019ء کو لوک سبھا میں 70 کے مقابلے 370 ووٹ کی تائید سے منظور کر لیا گیا۔[16][17][15][18][3]
حواشی
ترمیم- ↑ سنہ 1954ء کے حکم نامہ کے تحت ریاست پر آئین ہند کے چند مخصوص دفعات ہی کا اطلاق ہوتا تھا۔ بعد میں جو حکم نامے آئے ان میں اس دائرہ کو مزید وسیع کیا گیا لیکن آئین ہند کو کلی طور پر ریاست کے لیے قابل اطلاق نہیں کیا جا سکا تھا۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 2019-08-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-08-09
- ^ ا ب پ ت ٹ Jammu & Kashmir Reorganisation Bill passed by Rajya Sabha: Key takeaways، The Indian Express, 5 اگست 2019.
- ^ ا ب Aug 6, PTI | Updated:; 2019; Ist, 21:30. "Jammu Kashmir News: Bill to bifurcate J&K, resolution to scrap Article 370 get Parliament nod | India News – Times of India". The Times of India (انگریزی میں). Retrieved 2019-08-06.
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط|last2=
يحوي أسماء رقمية (help)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: زائد رموز اوقاف (link) صيانة الاستشهاد: أسماء عددية: مصنفین کی فہرست (link) - ↑ K. Venkataramanan (5 اگست 2019)، "How the status of Jammu and Kashmir is being changed"، The Hindu
- ↑ "Article 370 and 35(A) revoked: How it would change the face of Kashmir"۔ The Economic Times۔ 5 اگست 2019
- ^ ا ب Article 370: What happened with Kashmir and why it matters۔ BBC (2019-08-06)۔ Retrieved 2019-08-07.
- ↑ "Kashmir insurgency"۔ بی بی سی نیوز۔ 22 فروری 2017 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2017
{{حوالہ خبر}}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ Jeelani، Mushtaq A. (25 جون 2001)۔ "Kashmir: A History Littered With Rigged Elections"۔ Media Monitors Network۔ 4 مارچ 2016 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2017
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑ Krishnadas Rajagopal, President’s Order scraps its predecessor and amends Article 370، The Hindu, 5 اگست 2019.
- ↑ Article 370 Jammu And Kashmir LIVE Updates: "Abuse Of Executive Power," Rahul Gandhi Tweets On Article 370 Removal، NDTV, 6 اگست 2019.
- ↑ "PDP MPs tear Constitution, removed from Rajya Sabha". India Today (انگریزی میں). Delhi. 5 اگست 5 2019. Retrieved 2019-08-06.
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|date=
(help) - ↑ "Regional parties' support ensures smooth adoption of resolution on Article 370, J&K bifurcation bill". The Times of India (انگریزی میں). 5 اگست 2019. Retrieved 2019-08-06.
- ^ ا ب پ Already, Rajya Sabha Clears J&K As Union Territory Instead Of State، NDTV, 5 اگست 2019.
- ↑ Aug 5, PTI | Updated:; 2019; Ist, 23:33. "Regional parties' support ensures smooth adoption of resolution on Article 370, J&K bifurcation bill | India News – Times of India". The Times of India (انگریزی میں). Retrieved 2019-08-06.
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط|last2=
يحوي أسماء رقمية (help)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: زائد رموز اوقاف (link) صيانة الاستشهاد: أسماء عددية: مصنفین کی فہرست (link) - ^ ا ب Desk, The Hindu Net (6 اگست 2019). "Parliament Live | Lok Sabha passes Jammu and Kashmir Reorganisation Bill, Ayes: 370, Noes 70". The Hindu (Indian English میں). ISSN:0971-751X. Retrieved 2019-08-06.
- ↑ "Kashmir LIVE | Lok Sabha passes Bill to bifurcate J&K; revokes Article 370". Deccan Herald (انگریزی میں). 5 اگست 2019. Retrieved 2019-08-06.
- ↑ "Parliament LIVE UPDATES: Bill to divide J&K into two Union Territories passed in Lok Sabha". The Indian Express (Indian English میں). 6 اگست 2019. Retrieved 2019-08-06.
- ↑ "Article 370 Kashmir Updates: Modi says passage of key bills on J&K a tribute to Sardar Patel, SP Mookerjee and BR Ambedkar"۔ Firstpost۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-08-06