فلکیات

آسمانی اجسام اور ماحول سے باہر کے مظاہر کا سائنسی مطالعہ
(علم الفلکیات سے رجوع مکرر)

فلکیات (یعنی: سِتاروں کا قانون؛ انگریزی: astronomy)، قُدرتی علوم کی ایک ایسی مخصُوص شاخ ہے جس میں اجرامِ فلکی (مثلاً، چاند، سیارے، ستارے، شہابیے، کہکشاں، وغیرہ) اور زمینی کرۂ ہوا‎ کے باہر روُنما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اِس میں آسمان پر نظر آنے والے اجسام کے آغاز، ارتقا اور طبعی و کیمیا‎‎ئی خصوصیات کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔ فلکیات کے عالم کو فلکیات دان کہا جاتا ہے۔ جہاں فلکیات محض اجرامِ فلکی اور دیگر آسمانی اجسام پر غور کرتی ہے، وہاں پوری کائنات کے سالِم علم کو علم الکائنات کہتے ہیں۔

ہبل دوربین کی مدد سے دریافت ہونے والا سحابیۂ سرطان دراصل ایک ستارے کے پھٹنے کے بعد کے سوپر نووا کا تلچھٹ مادہ ہے۔

اشتقاقیات

ترمیم

اُردُو زبان میں فلکیات، دراصل لفظ فلک کا ماخذ ہے۔ فلک سے مرادزمین کے کرّہ کے گرد کی وسیع آسمانی چادر ہے، لہٰذا اِس چادر پر عیاں مختلف اجسام (چاند، سورج، ستارے، سیارے، وغیرہ) کی جانچ پڑتال بھی فلکیات کے علوم میں شامل ہوتی ہیں۔ انگریزی میں اِسے ”ایسٹرونومی“ (astronomy) کہا جاتا ہے، جو یونانی زبان کے الفاظ ”ایسٹرون“ (ἄστρον؛ یعنی، ستارہ) اور ”نوموس“ (νόμος؛ یعنی، قانون) سے مل کر بنتا ہے۔ چنانچہ، فلکیات کا مفہوم ”سِتاروں کے علم“ یا ”سِتاروں کے قانون“ کا ہے۔

تاریخچہ

ترمیم
 
اسٹون ہینج کی بناوٹ میں استعمال ہونے والے جسیم پتھر سورج کے نظام کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔

قدیم زمانے میں فلکیات کی پہنچ صرف اُن اجرامِ فلکی تک ہی محدود تھی جنہیں آنکھوں سے دیکھا جا سکتا تھا، مثلاً سورج، چاند اور ستارے۔ یہ قدیم ماہرین فلکیات اکثر اِن اجرام کے مشاہدوں پر مبنی پشِين گوئیوں کیا کرتے تھے۔ تاریخی ابواب میں ایسی کئی تہذیبوں کا ذِکّر ملتا ہے جو اِن اجرام کی پوُجا بھی کیا کرتے تھے اور اسٹون ہینج کے طرز پر بنی مَصنُوعات اِس بات کی طرف اِشارہ کرتی ہیں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی حد تک اِن مرئی فلکی اجرام کے نظام سے واقف تھے۔ اِن قدیم تہذیبوں کے لیے اِس طرح کی مَصنُوعات دراصل ایک طرح کی رصدگاہ کا کام سر انجام دیا کرتی تھیں، جو نہ صرف مذہبی تہواروں کی نشان دہی کرتی تھیں بلکہ موسمی تبدیلیوں سے بھی اِنکو آراستہ رکھتی تھیں۔ ان پشِين گوئیوں کی مدد سے قدیم انسانی تہذیبیں سال کی طوالت کا اندازہ بھی لگایا کرتی تھیں اور فصلوں کی کاشت کے اوقات سے بھی بروقت آشنا رہتی تھیں۔

قدیم فلکی جائزے

ترمیم

دوربین کی ایجاد سے قبل، سِتاروں کے مُطالعے کسی نہ کسی اونچی جگہ سے ہی مُمکن تھے اور یہ جائزے محض آنکھوں کی مدد سے ہی لیے جاتے تھے۔ جیسے جیسے تہذیبیں ترقی یافتہ ہوتی رہیں، ویسے ویسے بین النہرین، چین، مصر، یونان، ہند اور وسطی امریکہ کی قدیم تہذیبوں نے سِتاروں کے مطالعوں کے لیے مخصوص اور جدید رصدگاہوں کی تعمیر شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ، اِن لوگوں میں کائنات کی مزید جانچ پڑتال کا تجسس پیدا ہوتا گیا؛ چنانچہ، اِس زمانے کے زیادہ تر فلکیاتی انکشافات، ستاروں اور سیاروں کی نقشہ بندی تک ہی محدود تھے۔ اِس علم کو نَجُوم پيمائی کہا جاتا ہے۔ اِن ابتدائی مطالعوں سے سیاروں کی حرکت؛ سورج، چاند اور زمین کی فطرت؛ اور ستاروں کے جمگھٹوں کے بارے میں بہت کُچھ معلوم کیا جا سکا۔ جب فلسفے کی مدد سے اِن فلکی اجرام کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو کائنات کا ایک مرکزی تصّور اُبھر کر عیاں ہوا — اِن لوگوں کے مطابق زمین کائنات کا مرکز تھی؛ یعنی سورج، چاند اور ستارے زمین کے گرد گردش کیا کرتے تھے۔ اِس نظریے کو ارض مرکزی نظریہ کہا جاتا ہے جس کی بنیاد دوسری صدی عیسوی میں مشہور یونانی فلکیات دان بطلیموس نے ڈالی۔

بابل اور قدیم یونانی فلکیات

ترمیم
 
سولہویں صدی میں استعمال ہونے والا ایک خوش نما اسطرلاب۔ اسطرلاب کی مدد سے سورج، چاند اور زمین کے مقام اور گردش کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔

سلطنتِ بابل کے فلکیات دان وہ پہلے لوگ تھے جنھوں نے ریاضی اور منطق کی مدد سے اِس بات کا اندازہ لگایا کہ چاند گرہن درحقیقت ایک تکراری واقعہ ہے اور اِس کی پيش گوئی قبل از وقت مُمکن ہے۔ گرہنوں کے اِس چکر کو ساروس کہا جاتا ہے۔

بابل کے اِن فلکیات دانوں کے بعد قدیم یونان اور ہیلینیہ کی تہذیبوں میں فلکیات کو پزیرائی ملنے لگی۔ یونانی فلکیات میں شُروع سے ہی اِس بات کا خیال رکھا گیا کہ دیگر اجرامِ فلکی اور آسمانی مظاہر کو طبعی وضاحت سے پیش کیا جائے اور منطق کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ آریستارخس ساموسی وہ پہلا یونانی فلکیات دان تھا جس نے تیسری صدی قبل مسیح میں زمین کے قطر کی پیمائش کی؛ سورج اور چاند کے فاصلوں کو دریافت کیا؛ اور نظام شمسی کے لیے شمس مرکزی نظریہ پیش کیا۔

دوسری صدی قبل مسیح میں ہیپارکس نے بے دائریت دریافت کی اور چاند کا قطر اور اِس کا زمین سے فاصلہ بھی ناپا۔ ہیپارکس نے فلکیاتی پیمائش کے لیے اسطرلاب نامی ایک مخصوص آلہ بھی ایجاد کیا۔ ہیپارکس کی اَنتھک کاوشیں یہیں ختم نہ ہوئیں اور اِس نے شمالی نصف کرہ میں عیاں 1020 ستاروں کا فہرست نامہ بھی لِکھ ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ اِن ستاروں کے یونانی نام ہی اکثر ہر جگہ استعمال میں آتے ہیں۔ پہلی صدی میں ایجاد کردہ انتیکیتھرا میکانیہ دُنیا میں سب سے پہلے استعمال ہونے والا تماثلی اختراع تھا جس کی مدد سے سورج، چاند اور زمین کے مقام کا قبل از وقت ٹھیک ٹھیک اندازہ کسی بھی دی گئی تاریخ کے مطابق لگایا جا سکتا تھا۔ اِس طرح کے پیچیدہ اختراع بعد از چودہویں صدی میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، چنانچہ اِسکی دریافت سائنسدانوں اور ماہرینِ فلکیات کے لیے حیران کُن ہے۔

 
1577ء میں استنبول کے ایک اِسلامی فلکیات دان، تقی الدين شامی، کی رصدگاہ کا ایک منظر۔

اِسلامی فلکیات دان

ترمیم

قُرُونِ وُسطیٰ میں جہاں یورپی مُمالک کے اکثر باسی علم النجوم اور فلکیات سے تیرہویں صدی تک فاسد رہے، وہیں اِسلامی سائنس دان اِس علم میں صدیوں پہلے مہارت حاصل کر چُکے تھے۔ اِسلامی دُنیا میں علم فلکیات کو اتنی پزیرائی ملی کہ نویں صدی کے اوائل میں مسلمان سائنسدانوں نے نہایت عالیٰ درجہ کی رصدگاہیں تعمیر کیں۔ 964ء میں عبدالرحمن الصوفی نے مقامی گروہ میں جادہ شیر کے ہمراہ 25 لاکھ نوری سالوں کی دوری پر ایک اور کہکشاں دریافت کیا — اِس کہکشاں کو آج ہم اینڈرومیڈا کے نام سے جانتے ہیں۔ اِس کہکشاں کی نشان دہی الصوفی نے اپنی کتاب صورالکواکب میں ایک خلائی بادل کے طور پر کی۔ الصوفی نے سب سے پہلے درج شدہ صحابیہ اور سپر نووا کے بارے میں بھی اِس کتاب میں لکھا۔ اِس سپر نووا کو پہلی مرتبہ مصری فلکیات دان علی بن رضوان اور کُچھ چینی فلکیاتدانوں نے 1006ء میں اپنے روزنامچوں میں درج کیا تھا۔

دیگر اور مسلمان فلکیاتدانوں میں جابر بن سنان البتانی، ثابت بن قرہ، ابومعشر بلخی، ابو ریحان البیرونی، ابراہیم بن یحییٰ الزرقالی، عبدالعلی بیرجندی اور مراغہ و سمرکنڈ کی رصدگاہوں میں مقیم فلکیات دان شامل ہیں۔ اِس دور کے متعارف کردہ ستاروں کے عربی نام اب بھی فلکیات میں زیرِ استعمال ہیں۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ عظیم زمبابوے اور ٹمبکٹو میں بھی مسلمانوں کی تعمیر کردہ کئی رصدگاہیں موجود تھیں۔ یہ قدیم رصدگاہیں اِس بات کا ثبوت دیتی ہیں کہ قُرُونِ وُسطیٰ کے افریقہ جنوب صحرا میں بھی علمِ فلکیات عروج پر تھا۔

سائنسی انقلاب

ترمیم
 
فراون ہوفر ایک طیف بین کا مظاہرہ کروا رہے ہیں۔

نشاۃِ ثانیہ میں نکولس کوپرنیکس نے ایک مرتبہ پھر شمس مرکزی نظریہ عام فلکیات میں مُتعارف کرایا۔ کیونکہ پچھلی چند صدیوں سے مسلمان فلکیاتدانوں نے ارض مرکزی نظریے کی طوالت میں بیشمار کام کر رکھا تھا، اس لیے کوپرنیکس کی اِس وضاحت کو ابتدائی طور پر رد کر دیا گیا۔ بعد از، گلیلیو اور کپلر نے جدید آلات کی مدد سے اِس نئے نظریے کی تائید کر ڈالی۔ صحیح اور درُست ناپ تول کے لیے گلیلیو نے پہلی دوربین بھی ایجاد کی۔

کپلر وہ پہلے سائنس دان تھے جنھوں نے شمسِ مَرکزی نظریے کو ایک مُکمل نظامِ شمسی میں ڈھالا اور طبعی وضاحت کو اِستعمال کرتے ہوئے سیاروں کی سورج کے گرد گردِش اور حرکت کو منطقی طور سے پیش کیا۔ تاہم کپلر اپنے اِس نظام کے لیے لازم قوانین کی ضابطہ بندی نہ کر سکے اور اِس کام کو بعد از آئزک نیوٹن نے اپنے فلکی میکانیات اور ثقالت سے متعلق قوانین میں سر انجام تک پہنچایا۔

دوربین کے سائز اور معیار میں بہتری لانے کے علاوہ مزید اور بھی دریافتیں ہوتی رہیں۔ نکولاس لاکائی کی زیرِ نگرانی سِتاروں کی معیاری اور مُکمل فہرستیں چھپتی رہیں اور دوسری طرف ولیم ہرشل صحابیہ جات اور اِنکے دیگر مجموعوں کی فہرست تیار کرتے رہے۔ 1781ء میں ہرشل نے ایک نیا سیارہ بھی دریافت کیا جسے آج ہم یورینس کے نام سے جانتے ہیں۔ فریڈرک بیسل نے 1838ء میں نظامِ شمسی کے باہر پائے جانے والے پہلے سورج نُما ستارے سے زمین کا فاصلہ دریافت کیا۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دورانئے میں اویلر، کلیراٹ اور دالمبر نے جب سہ جسمی مسئلے کو سُلجھانے کی طرف دھیان دیا تو اِنکے اِس کام کے ذریعے چاند اور سیاروں کی حرکات کے بارے میں معیاری پيش گوئیاں مُمکن ہو گئیں۔ اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے، لاگرانج اور لاپلاس نے چاند اور دیگر سیاروں کے اضطراب سے اِنکے وزن کا بھی ٹھیک اندازہ لگایا۔

وقت کے ساتھ ساتھ، فلکیاتی تجربوں کے لیے جدید ترین آلہ جات استعمال ہونے لگے، مثلاً طیف بینی اور عکاسی، وغیرہ۔ فراون ہوفر نے 1814ء تا 1815ء میں طیف بینی کے ذریعے سورج سے خارج ہونے والی روشنی میں 600 رنگوں کی پٹیاں دریافت کیں۔ بعد از، 1859ء میں کیرشھوف نے انکشاف کیا کہ اِن پٹیوں کا ہر رنگ کسی نہ کسی کیمیائی عنصر کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ کیرشھوف نے مُختلف کیمیائی عناصر کے مخصوص رنگوں کی ایک فہرست بھی بنا ڈالی تاکہ مُختلف سیاروی مادوں کے بارے میں اِنکے رنگوں سے معلوم کیا جا سکے۔ اِن ٹیکنالوجیوں کی بِنا پر جب سورج نُما دیگر اور ستارے دریافت کیے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ ستارے سورج کی مانند تو ہیں ہی لیکن ہمارے مقامی ستارے کے برعکس یہ درجہ حرارت، کمیت اور قامت میں کافی مُختلف ہیں۔

زمین کے مقامی کہکشاں کو ایک متفرق مجمع النجُوم کی طرح صرف بیسویں صدی میں ہی دیکھا گیا جب دیگر اور کہکشاؤں کو دریافت کیا گیا۔ دوسرے کہکشاؤں کو زمین سے دور جاتے دیکھ کر یہ بھی اندازہ لگایا گیا کہ کائنات تسلسُل سے پھیل رہی تھی۔ دورِ جدید کی فلکیات میں دیگر اور اجرامِ فلکی بھی دریافت کیے گئے جن میں نابضات، کوازار، بلیزار اور ریڈیائی کہکشاں شامل ہیں۔ اِن نئے اجرام کی دریافت کے بعد دیگر طبعی نظریات مثلا ثقب اسود اور نیوٹرون ستاروں کے مزید شواہد سامنے آنے لگے۔ علاوہ ازیں، خلائی دوربینوں کی مدد سے برقناطیسی طیف کے اُن حصّوں کی بھی جانچ کی جانے لگی جو زمینی کرۂ ہوا کی وجہ سے زمین تک پہنچ نہ سکتے تھے۔

 
فلکیات دان از جیریٹ ڈاؤ، 1650ء1655ء۔

فلکیاتی نظریات کی تقویم

ترمیم
مزید مطالعہ کے لیے فلکیاتدان کا مضمون پڑھیں یا افکار کی تاریخ پر دیگر مضامین پڑھیں۔

انسانی تاریخ میں زمینی سیارے کی شکل، کردار اور عمل پر مُختلف فلسفیوں اور فلکیاتدانوں نے مُختلف نظریات، افکار اور تصورات پیش کیے۔ اجرامِ فلکی کے بارے میں آج ہم جو جانتے ہیں، اِن جدید نظریات تک پہنچنے کے لیے کافی وقت لگا۔ دیگر فلسفیوں اور فلکیاتدانوں کے ممتاز ترین افکار و تصورات مندرجہ ذیل بیان کیے گئے ہیں۔

فلکیاتداں شرکت
تھالیز
ساتوین صدی قبل مسیح
  • پہلی دفعہ زمین کی گولائی کا تصور پیش کیا۔
  • تھالیز کے اِس نظریے کے مُطابق، زمین ایک کرّہ کی مانند گول تھی اور اِسکے گِرد ایک چادر اِسے ایک بیرونی آتش سے بچائے رکھتی تھی۔ اِس آتشی آگ کو تھالیز نے ’ازلی آتش‘ کا نام دیا اور تصور پیش کیا کہ اِس چادر میں چند سوراخوں کے ذریعہ سے اِس ازلی آتش کا نظارہ ہو سکتا تھا۔
فیثاغورث کے شاگرد
پانچویں صدی قبل مسیح
  • بتایا کہ زمین کرّہ کی مانند گول اور خلاء میں متحرک تھی۔
  • نو شاگِردوں کے مُطابق ثابتہ کواکب مدور میں گردِش کرتے تھے۔ انھوں نے زمین کے علاوہ پانچ اور سیاروں کی نشان دہی بھی کی اور سورج و چاند کی شکل پر اپنا تبصرہ پیش کیا۔
افلاطون
427 — تا — 347 قبل مسیح
  • زمین کی گولائی کا ثبوت دیا اور کائنات میں اِسکے مرکزی مقام کا تصور پیش کیا۔
  • افلاطون نے چاند گرہن کے موقع پر زمین کے سایے کو دیکھ کر ثابِت کیا کہ زمین گول تھی اور ساتھ میں زمین کے کائنات میں مرکزی مقام پر اپنا تبصرہ بھی پیش کیا۔ اِس نے یہ بھی بتایا کہ زمین کائنات میں متحرک نہیں بلکہ ساکن تھی۔
ارسطو
384 — تا — 322 قبل مسیح
  • ارض مرکزیت کی بُنیاد رکھی۔
  • اِس بات پر اٹل رہا کہ زمینی سیارہ ساکن تھا اور کائنات کے مرکز پر قائم اور مقرر بھی۔
آریستارخس ساموسی
310 — تا — 230 قبل مسیح
  • آریستارخس نے مباحثہ کیا کہ زمین ساکن نہیں بلکہ مُتحرک ہے۔
  • اِس نے یہ بھی کہا کہ زمین کائنات کے مرکز پر مقرر نہیں اور اِس طرح اِس نے پہلے شمس مرکزی نظریے کی بُنیاد رکھی۔
  • اِس نے زمین کا سورج اور چاند سے فاصلہ بھی پہلی دفعہ ناپا۔
اراتوستنِس
276 — تا — 194 قبل مسیح
  • اراتوستنِس نے زمین کے مُحیط کو پہلی مرتبہ ناپا۔
ہیپارکس
150 قبل مسیح
  • ہیپارکس نے اپنے مشاہدے پر جمع تفریق کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ زمین درحقیقت ایک کرّہ کی مانند گول تھی۔
  • اِس کے مطابق زمین البتہ خلاء میں ساکن ہی تھی۔
  • اِس نے پھر دوبارہ، ارض مرکزیت کو پسِ منظر پر لا رکھا اور کہا کہ سورج، چاند اور دیگر سیارے زمین کے گِرد گردِش کرتے ہیں۔
پوسیدونیوس
135 — تا — 31 قبل مسیح
  • پوسیدونیوس نے پہلی مرتبہ سمندری مدّ و جَزَر کا تعلق چاند کی مراحل سے بتایا۔
بطلیموس
140ء
  • دُنیا کی سب سے پہلی فلکیاتی دائرۃ المعارف، المجسطی، لکھ ڈالی۔
نکولس کوپرنیکس
1477ء — تا — 1543ء
  • کوپرنیکس نے بتایا کہ سیاروی مدور کے مرکز پر دراصل سورج ہے اور زمین اِس معمول میں سورج کے گِرد گردِش کرتی ہے۔
گلیلیو گیلیلی
1564ء — تا — 1642ء
  • دوربین ایجاد کی اور اِسکے ذریعہ مشتری کے گرد چار چاند دیکھے۔
  • زہرہ کے مراحل کی وضاحت کی اور زمینی چاند پر پہاڑوں کی نشان دہی بھی کی۔
  • کوپرنیکس کے نظریے کی حمایت بھی کی۔
جون کپلر
1571ء — تا — 1630ء
  • کپلر نے بتایا کہ سیاروی مدار بلکُل گول نہیں بلکہ بیضوی ہوتے ہیں۔
  • کپلر کے دوسرے قانون کے مطابق، سورج سے قربت پر سیارے اپنے مدار میں تیزی سے آگے بڑھتے ہیں اور سورج سے دوری پر آہستہ حرکت کرتے ہیں۔
آئزک نیوٹن
1642ء — تا — 1727ء
البرٹ آئنسٹائن
1897ء — تا — 1955ء

مشاہداتی فلکیات

ترمیم

فلکیات میں، اجرامِ فلکی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا مرکزی ذریعہ مرئی نور کا مشاہدہ یا برقناطیسی اشعاع کی جانچ ہی رہا ہے۔ چنانچہ مشاہداتی فلکیات کو برقناطیسی طیف کے مُختلف حصّوں کے مطابق دیگر ساحات میں بانٹا جا سکتا ہے۔ جہاں اِس طیف کے کُچھ حصّوں کا زمین کی سطح سے جائزہ لیا جا سکتا ہے، وہاں دیگر حصّوں کو صرف اونچائی یا خلاء سے ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ اِن ذیلی ساحات کے بارے میں مزید معلومات مندرجہ ذیل دی گئی ہیں۔

ریڈیائی فلکیات

ترمیم
 
امریکا کی ریاست نیو میکسیکو میں ریڈیائی دوربینوں کا ایک مرکز جسے عظیم مصفف رصدگاہ (Very Large Array) بھی کہا جاتا ہے۔

ریڈیائی فلکیات میں ایسی اشعاعی لہروں کا معائنہ کیا جاتا ہے جن کا طولِ موج تقریباًًًً ایک ملیمیٹر سے زیادہ ہو۔ یہ مشاہداتی فلکیات کی دوسری ساحات سے اِس طرح مُختلف ہے کہ اِس میں ریڈیائی امواج کے ساتھ موجوں جیسا سلُوک کیا جا سکتا ہے نہ کہ محض مجرَد نوریہ جیسا، چنانچہ اِن کا طور اور حیطہ آسانی سے پرکھا جا سکتا ہے۔ یہ جائزہ چھوٹی طول کی امواج کے ساتھ اتنی آسانی سے مُمکن نہیں ہوتا۔

مزید دیکھیے

ترمیم