یسوع مسیح

مسیحیت کی مرکزی شخصیت
(مسیح یسوع سے رجوع مکرر)

یسوع (جنہیں عیسیٰ بھی کہا جاتا ہے اور دوسری زبانوں میں: عبرانی: יֵשׁוּעַ؛ سریانی: ܝܫܘܥ) مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کے نزدیک نہایت مقدس ہستی ہیں۔ مسلمان ان کو اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں اور عیسیٰ کے نام سے پکارتے ہیں۔   یسوع راہ، حق اور زندگی ہے۔  اس نے کہا کہ کوئی اس کے وسیلہ کے بغیر خدا کے پاس نہیں جا سکتا یعنی خدا تک پہنچنے کا واحد وسیلہ ہے وہ۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظریہ غلط ہے کہ باقی تمام تر مذاہب مختلف راستے ہیں جو خدا تک ہی پہنچتے ہیں۔ جو ہم نے ابھی پڑھا ہے اس کے مطابق خدا تک پہنچنے کا صرف ایک راستہ ، خداوند یسوع مسیح ہے۔  اس کے سواءکوئی خدا تک نہیں پہنچ سکتا ۔ جبکہ مسلمان اور مسیحی دونوں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح بغیر باپ کے ایک کنواری ماں مریم سے پیدا ہوئے۔

یسوع
ولادت پیدائش کی تاریخ
بیت لحم، رومی سلطنت۔
وفات تصلیب کی تاریخ و قیامت اور الرفع
القدس، رومی سلطنت
محترم در مسیحیت، اسلام، بہائیت اور کاؤ دائیت
تہوار عیدیں و تہوار
نسب نسب نامہ، خاندان، ان کے رشتہ دار۔
چھوٹے فکر مند یسوع مسیح
چاندی اور لاپیس لازولی
مصنف: ہنریک جان ڈومینک
طول و عرض: 26 ملی میٹر
ٹائچی میں ہینریک جان ڈومینیک میوزیم آف مینیچر پروفیشنل آرٹ

آج سے تقریباً دو ہزار سال پیشتر مشرق وسطیٰ میں یسوع مسیح جنہیں اہل اسلام عیسیٰ ابن مریم کہتے ہیں معبوث ہوئے۔ اس وقت وہاں پر رومی حکومت کا قبضہ تھا۔ مقامی بادشاہ اور گورنر اس کے ماتحت ہی حکومت کرتے تھے۔ سیدنا یسوع مسیح کی تعلیمات اور آپ کی نوعِ انسانی کے لیے محبت سے دنیا کی تمام اقوام آگاہ ہیں۔ بے شک اس امر میں اَختلاف رائے تو پایا جاتا ہے کہ سیدنا یسوع مسیح کون تھے، لیکن غیر متعصب اشخاص کی اکثریت اِس بات پر متفق ہے کہ اگر آپ کی تعلیمات اور آپ کے نمونہ پر عمل کیا جائے، تو محبت اور رحمدلی کو فروغ ہوگا اور نفرت، ظلم اور غرباء کی استحصال میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔

ولادت

ترمیم
 
مريم کو جبرائیل بشارت دیتے ہوئے، انیسویں صدی کا روسی آئیکن۔

یسوع کی پیدائش کے بارے میں سب زیادہ مفصل بیان انجیل متی اور انجیل لوقا میں پایا جاتا ہے۔ اگرچہ آپ کا یوم پیدائش 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے تاہم بیشتر ماہرین کے مطابق یہ تاریخ حتمی نہیں۔ بعض محققین کے مطابق آپ کی پیدائش گرمیوں کے مہینہ جون میں ہوئی۔ تاریخوں کو معلوم رکھنے کا موجودہ نظام عیسوی تقویم یسوع مسیح کی تاریحِ پیدائش کی نسبت سے 'قبل از مسیح' اور 'بعد از مسیح' کی اکائیوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں اناجیل کے مطابق آپ کی ولادت یہودی بادشاہ ہیرودیس کے دورِ حکومت میں ہوئی۔

اناجیل کے مطابق آپ کی ولادت سے قبل خدا کے فرشتے جبرائیل آپ کی والدہ مقدسہ مریم کے حضور حاضر ہوئے تاکہ ان کو بتائیں کہ وہ یسوع مسیح کی ماں بنیں گی۔ جب مقدسہ مریم نے یہ عذر بیان کیا کہ کسی مرد نے مجھے چھو نہیں تو فرشوں نے کہا :بِكَلِمَةٍ مِنهُ اسمُهُ المَسيحُ عيسَى ابنُ مَريَمَ کہ اللّٰہ تجھے اپنے ایک کلمہ کی خوش خبری دیتا ہے اُس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ یہان کمے سے مراچ کلمہ کن ہے، کہ کُن کہ کر اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کو پیدا کیا۔

خاندان

ترمیم

مسلمان اور مسیحی عقیدہ کے مطابق یسوع مریم کے بیٹے تھے جو کنواری ماں بنی تھیں۔ یہودی یہ عقیدہ نہیں رکھتے اور اکثر یہودیوں نے کنواری مریم پر شک کیا تھا۔ جو غلط شک تھا الله تعالٰی نے قرآن کریم میں واضح کر دیا۔ قرآن و اسلامی روایات اور لوقا کی انجیل کے مطابق یسوع داؤد کی نسل سے تھے یعنی ابراہیم اور ان کے بیٹے اسحاق کی نسل سے تھے۔
کچھ یہودی یہ شجرہ نسب یوسف کے ذریعے داؤد تک لے جاتے ہیں۔ مگر یوسف اور مریم رشتہ دار تھے اور ان دونوں کا نسب دوسری یا تیسری پشت میں ایک ہو جاتا ہے۔

ابتدائی حالاتِ زندگی

ترمیم

انجیلِ لوقا کے مطابق یسوع مسیح کے جنم کے قریب رومی حکام نے حکم صادر کیا کہ ہر شخص مردم شماری میں اپنے نام کے اندراج کے لیے اپنے آباء کے وطن کو روانہ ہو۔ اس ضمن میں جنابِ یوسف (مقدسہ مریم کے شوہر – اس جوڑے کے تا دمِ زیست کوئی جسمانی تعلقات نہ تھے) مریم کے ہمراہ اپنے وطن بیت اللحم کو روانہ ہوئے اور وہیں پر یسوع مسیح کی ولادت ایک چرنی میں ہوئی کیونکہ شہر کی سرائے میں جگہ نہ تھی۔ آپ کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد "مشرق سے مجوسی" آپ کی تعظیم اور سجدہ کے لیے بیت اللحم آئے۔ یہ مجوسی ایک ستارے کا تعاقب کرتے کرتے سرزمینِ مقدسہ آئے تھے۔ تاہم جب ہیرودیس کو یہ علم ہوا کہ یہودیوں کے بادشاہ کا جنم ہوا ہے تو نہایت برہمی میں اس نے بیت لحم اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں دو سال سے کم عمر کے تمام لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس پر یوسف آپ کو مقدسہ مریم کے ہمراہ مصر لے گئے۔

کچھ سال بعد پھر خواب میں آگہی پاکر پاک خاندان واپس اپنے وطن روانہ ہو گئے اور ناصرت میں آبسے۔ یہاں پر حضرتِ مسیح پروان چڑھے اورغالباً جنابِ یوسف کے زیرِ سایہ بڑھئی کا کام سیکھا۔ اسی اثنا میں آپ نے یروشلم کے بھی دورے کیے۔ آپ کی زندگی کے اس حصے کے بارے میں ہمارے پاس سب سے کم معلومات ہیں۔ غالبا آپ کی زندگی نہایت ہی معمولی رہی ہوگی۔ آپ نے اس طرح اپنی زندگی کے تیس سال گزارے۔

بپتِسمہ اور آزمائش

ترمیم

اناجیلِ متوافقہ [متی، مرقس اور لوقا] کے مطابق خداوند یسوع مسیح نے اپنے رشتہ دار یوحنا اصطباغی [یوحنا بپتسمہ دینے والے] کے ہاتھوں بپتسمہ پایا۔ ان بیانات کے مطابق آپ دریائے اردن آئے جہاں یوحنا اصطباغی منادی اور اصطباغ کیا کرتے تھے۔ یوحنا اولاً اصطباغ دینے سے کترائے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ مسیح ان کو بپتسمہ دیں۔ لیکن آپ کے کہنے پر یوحنا بپتسمہ دینے پر راضی ہو گئے۔ جب آپ پانی سے ابھرے تو"۔۔ آسمان کو کھلتا دیکھا اور روح القدس کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر اترتے دیکھا۔ پھر آسمان سے آواز آئی: تو میرا بیٹا ہے المحبوب، جس سے میں خوش ہوں" [1]

اپنے بپتسمہ کے بعد خدا آپ کو بیابان میں لے گیا جہاں آپ نے چالیس دن اور چالیس راتوں تک روزہ رکھا۔[2] اس دوران میں آزمانے والا [شیطان] متعدد بار آپ کو آزمانے آیا لیکن ہر بار آپ نے اس کو عہد نامہ عتیق میں سے حوالہ جات سنا کر ناکام اور ناامید کر دیا۔

علانیہ زندگی اور تعلیمات

ترمیم

یوحنا کی انجیل میں خداوند یسوع مسیح کی علانیہ زندگی کی تین فسح کی عیدوں کا ذکر کیا ہے جس سے ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ آپ کی اعلانيہ زندگی کا دورانیہ تین برس تھا۔ اس دوران میں آپ نے کئي اعجازات دکھائے جن میں بیماروں کو شفاء دینا، پانیوں پر چلنا، پانی کو مے میں بدلنا اور کئی اشخاص کو موت کے بعد زندہ کرنا شامل ہے۔ آپ کی علانیہ زندگی میں آپ کے سب سے قریب آپ کے بارہ شاگرد [حواری] تھے۔ آپ تعلیم دیتے تھے کہ دنیا کا انجام بالکل غیر متوقع طور پر ہوگا اور کہ آپ آخری اوقات میں دنیا میں واپس آئیں گے تاکہ لوگوں کے اعمال کا حساب لے سکیں۔ اس لیے آپ نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ تیار رہنے کی ہدایت کی۔

آپ کی تعلیمات میں سے سب سے مشہور "پہاڑی وعظ" ہے۔ یہ وعظ مسیحی طرزِ عمل کی سب سے کلیدی دستاویز ہے۔ اسی وعظ میں مشہورِزمانہ 'مبارکبادیاں' بیان کی گئی ہیں۔ آپ اکثر اوقات تماثیل کا سہارہ لیا کرتے تھے مثلا اڑاؤ پوت کی تمثیل اور بیج بونے والے کی تمثیل۔ آپ کے کلام کا مرکزی خیال خدمت، پاکدامنی، معافی، ایمان، "اپنی گال پھیرنا"، دشمنوں سے محبت رکھنا اور حلیمی ہوتا تھا۔ شریعت کے محض دکھاوے کے لیے نفاذ کے آپ مخالف تھے۔

آپ اکثر اوقات معاشرے کے رد کیے ہوئے طبقات (مثلا محاصل) سے تعلقات استوار کیا کرتے تھے۔ آپ کے سامریوں سے بھی مکالمات درج ہیں اگرچہ دیگر یہود ان کو غیر قوم تصور کرتے تھے۔

مسیحی عقائد کے مطابق اناجیلِ متوافقہ کے مطابق ایک مرتبہ آپ اپنے تین شاگردوں یعنی پطرس، یوحنا اور یعقوب کو پہاڑ کی چوٹی پر دعا کی غرض سے لے گئے اور یہاں آپ کی 'تبدیلی صورت' واقع ہوئی اور آپ کا چہرہ سورج کی مانند پُر نور ہو گیا اور الیاس اور موسیٰ آپ کے ارد گرد دکھائی دیے۔ ایک بدلی نے ان کو آ گھیرا اور آسمان سے پھر آواز آئی "یہ میرا بیٹا ہے المحبوب، جس سے میں خوش ہوں"۔ تقریباً اسی زمانے میں آپ اپنے شاگردوں کو اپنی آئندہ تکالیف، شہادت اور قیامت کے بارے میں آگاہ کرنے لگے۔[3]

گرفتاری، مقدمہ اور شہادت

ترمیم

اناجیلِ متوافقہ کے مطابق آپ اپنا آخری فسح منانے کے لیے یروشلم تشریف لائے۔ جب آپ شہر میں داخل ہوئے تو عام لوگوں کا ایک بڑا ہجوم آپ کے استقبال کے لیے اِکٹھا ہو گیا اور برملا چِلّانا شروع ہو گیا "ہوشعنا، مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے، مبارک ہے شاہِ اسرائیل"۔ اس کے بعد آپ ہیکل میں حاضری دینے گئے جہاں آپ نے تاجروں کی چوکیاں الٹا دیں اور ان کو جھڑکا۔ بعد ازاں آپ نے اپنا فسح قربان کیا اور اپنا آخری کھانا کھایا جس میں آپ نے پاک یوخرست کے ساکرامنٹ کی بنیاد ڈالی۔ آپ نے روٹی اور مے لی اور فرمایا
" یہ میرا بدن ہے "
اور یہ کہ
"یہ میرا خون ہے جو تمھارے بلکہ بہت سے لوگوں کے گناہوں کی معافی کے لیے بہایا جائے گا میری یاد میں یہی کیا کرو"[4]
بعد ازاں آپ اپنے شاگردوں کے ہمراہ گتسمنی کے باغ میں دعا کی غرض سے گئے۔

گتسمنی کے باغ میں یسوع مسیح کو ہیکل کی رکھوالی پر معمور سپاہیوں نے گرفتار کر لیا۔ یہ عمل رات کو رازداری کے ساتھ کیا گیا تاکہ آپ کے چاہنے والوں کو علم نہ ہونے پائے۔ یہودہ اسخریوطی جو آپ ہی کا ایک شاگرد تھا، اس نے آپ کا بوسہ لے کر آپ کی نشان دہی کی کیونکہ رات کے وقت سپاہیوں کو پہچاننے میں دِقت کا سامنا تھا۔ اسی وقت شمعون پطرس، جو شاگردوں میں سے سب سے برتر تھے، انھوں نے اپنی تلوار کش کی اور ایک سپاہی کا کان اڑا ڈالا، لیکن یسوع مسیح نے جنابِ پطرس کو یہ کہتے ہوئے اس کا کان بحال کیا " جو کوئی تلوار چلائے گا تلوار ہی سے ہلاک ہوگا"۔[5] آپ کی گرفتاری کے بعد آپ کے شاگرد اپنی جانوں کے خطرے کے پیشِ نظر چھپ گئے۔

 
گلگتا کا روایتی مقام
گلگتا ​​کے روایتی مقام پر قربان گاہ


اناجیل کے مطابق پلاطس خود نہیں چاہتا تھا کہ آپ کو سزا ہو لیکن اس نے یہودی کاہنوں کے پرزور اصرار پر آپ کو مصلوب کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

آپ کو کوہِ کلوری پر فسح کے دن نہایت تکلیف دہ انداز میں صلیب دی گئی۔[6][7][8][9] موت کے وقت آپ کی والدہ اور یوحنا رسول موجود تھے۔ آپ کے دو چاہنے والے یعنی یوسف رامتی اور نکودیمس نے آپ کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ پلاطس کا احکام پر آپ کی قبر کے منہ پر ایک بھاری پتھر لڑھکا دیا گیا۔

قیامتِ یسوع مسیح

ترمیم

یہودی عقیدہ کے مطابق یسوع صلیب پر فوت ہو گئے۔ جبکہ مسیحی عقائد کے مطابق آپ اپنے مصلوب ہونے کے تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھے۔ متی کی انجیل کے مطابق جب مریم مگدلینی اور دوسری مریم آپ کی قبر پر خوشبوئیں لے کر آئیں تو پتھر کو لڑھکا ہوا اور قبر کو خالی پایا۔ اس کے بعد آپ چالیس روز تک اپنے شاگردوں کو دکھائی دیتے رہے۔ جس کے بعد آپ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔

مسیحی عقائد

ترمیم

یسوع مسیحی مذہب کے بانی اور پیشوا ہیں۔ مسیحی عقیدے کے ایک بڑے گروہ مطابق آپ خدا کے بیٹے ہیں اور پاک تثلیث کے دوسرے اقنوم ہوتے ہوئے از خود بھی خدا ہیں۔ آپ کو آقا، خداوند، یہودیوں کا بادشاہ، خدا کا کلمہ، ہمارا خداوند، ابن خدا اور عمانوئیل کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ انجیل یوحنا میں یوں مرقوم ہے كہ
"ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کے ساتھ تھا اور کلمہ خدا تھا، وہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا"۔
لفظ یسوع دراصل عبرانی اور آرامی لفظ (יהושע - ܝܫܘ) یشوع [تلفظ یے۔ شو۔ عا] سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے "خداوند نجات ہے" جبکہ مسیح عبرانی لفظ مشیاخ [تلفظ م-شی-اخ ] سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں "مسح/مخصوص کیا گیا"۔

آپ کی زندگی کے بارے سب سے اہم دستاویزات چہار قانونی اناجیل یعنی بمطابق متی، مرقس، لوقا اور یوحنا ہیں۔ یہ چاروں اناجیل کتاب مقدس بائبل کے عہد نامہ جدید میں پائی جاتی ہیں۔

آپ ایک گلیلی یہودی تھے اور بیت اللحم شہر میں کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے۔ بچپن اور لڑکپن کا زیادہ تر عرصہ ناصرت میں صرف کیا۔ آپ اپنی علانیہ زندگی کے تین سال تک خداوند کی بادشاہت کی منادی کرتے رہے۔ اس ضمن میں آپ تمام فلسطین، دیکاپولس، گلیل، سامریہ اور دریائے اردن کے پار بھی گئے۔ تاہم جب یروشلیم گئے تو یہودیوں کے سردار کاہنوں، فقیہوں اور فريسیوں نے آپ پر کفر گوئی کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کروا دیا اور رومی حاکم پینطس پیلاطس کے ذریعے آپ کو صلیب پر مصلوب کروا دیا۔

آپ عہد عتیق میں خدا کی طرف سے موعودہ نجات دہندہ ہیں جو دنیا کو اس کے گناہوں سے خلاصی دلانے کی خاطر متجسد ہوئے۔ مسیح علیہ السلام کے حالات زندگی عہد عتیق میں کیے گئے وعدوں اور پیشینگوئیوں کی تکمیل ہیں۔

مسیحیت کے اکثر فرقوں کے مطابق اپنے مصلوب ہونے کے تیسرے روز آپ مردوں میں سے جی اٹھے۔ اس واقعے کو قیامت المسیح کہا جاتا ہے۔ بعد ازیں آپ اپنے شاگردوں کو چالیس روز تک دکھائی دیتے رہے جس کے بعد آپ آسمان پر چڑھ گئے تا آنکہ اپنے آسمانی باپ کے داہنے ہاتھ ابدی تخت پر براجمان ہو جائیں صعود المسیح۔ مسیحی عقیدہ کے مطابق آپ دنیا کے آخر میں اپنے آسمانی باپ کے ساتھ کمال جاہ وجلال کے ساتھ لوٹیں گے اور زندوں اور مردوں، راستبازوں اور گناہگاروں کے درمیان میں عدالت کریں گے۔
مسیحی فرقہ یہوواہ کے گواہ (Jahova's witness) ان چیزوں کو نہیں مانتے۔ ان کے عقائد کے مطابق یسوع ایک نبی تھے اور خدا نہیں تھے۔ اور خدا (یہوواہ) ایک ہی ہے۔ ان کے مطابق یسوع المسیح کو سولی نہیں دی گئی۔

دیگر ادیان میں

ترمیم

اسلام

ترمیم

مسیح علیہ السلام خدا کے برگزیدہ پیغمبر ہیں۔ جو مخلوق خدا کی ہدایت اور رہبری کے لیے مبعوث ہوئے۔ ایک مدت تک زمین پر رہے پھر زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ قرب قیامت آپ پھر نزول فرمائیں گے اور شریعت محمدیہ پہ عامل ہوں گے۔ ایک مدت تک قیام کریں گے اور پھر وصال فرما کر مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے۔

احمدیہ

ترمیم

احمدیہ کے عقیدہ کے مطابق مسیح صلیب تو دیے گئے لیکن نہ تو صلیب پر فوت ہوئے نہ ہی آسمان پر گئے بلکہ صلیب سے زندہ اتر کر بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کے پاس کشمیر چلے گئے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. مرقس1:10–11
  2. متی4 باب 1-2 آیات
  3. متّی 16:21–28
  4. لوقا22:7–20
  5. متی26:52
  6. مرقس، 15:22
  7. متی، 27:33
  8. لوقا، 23:33
  9. یوحنا، 19:17