کِرِسْمَس، بڑا دن، جشن ولادت مسیح، عید ولادت مسیح اور عید ولادت خداوند مسیحیت میں ایسٹر کے بعد سب سے اہم تہوار سمجھا جاتا ہے، اس تہوار کے موقع پر یسوع مسیح کی ولادت کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ گریگوری تقویم کے مطابق 24 دسمبر کی رات سے کرسمس کی ابتدا ہوتی ہے اور 25 دسمبر کی شام کو ختم ہوتا ہے جبکہ جولینی تقویم کے پیروکار اہل کلیسیا کے ہاں 6 جنوری کی رات سے شروع ہو کر 7 جنوری کی شام کو ختم ہوتا ہے۔[6] گوکہ بائبل ولادت مسیح کی تاریخ کے ذکر سے یکسر خاموش ہے تاہم آبائے کلیسیا نے 325ء میں منعقدہ نیقیہ کونسل میں اس تاریخ کو ولادت مسیح کا دن قرار دیا۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ولادت کا وقت نصف شب کو رہا ہوگا، پھر پوپ پائیس یازدہم نے کاتھولک کلیسیا میں سنہ 1921ء میں نصف شب کی ولادت کو باقاعدہ تسلیم کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ مسیحیت سے قبل بھی روم میں 25 دسمبر کو آفتاب پرستوں کا تہوار ہوا کرتا تھا چنانچہ ولادت مسیح کی حقیقی تاریخ کا علم نہ ہونے کی بنا پر آبائے کلیسیا نے یسوع مسیح کو "عہد جدید کا سورج" اور "دنیا کا نور" خیال کرتے ہوئے اس تہوار کو یوم ولادت تسلیم کر لیا۔[6][7] کرسمس کو "عشرہ کرسمس" کا ایک حصہ خیال کیا جاتا ہے، عشرہ کرسمس اس عرصے کو کہتے ہیں جس میں اس یادگار سے جڑے دیگر واقعات مثلاﹰ بشارت ولادت، ولادت یوحنا اصطباغی اور ختنہ مسیح وغیرہ پیش آئے۔ چنانچہ اس پورے عرصے میں گرجا گھروں میں ان تمام واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔

کرسمس
یوم کرسمس
پیدائش مسیح کا ایک تخیلاتی منظر
عرفیتولادت مسیح
منانے والےمسیحی، بہت سے غیر مسیحی بھی[1][2]
قسممسیحی، ثقافت
اہمیتپیدائش یسوع کے حوالے سے روایتی تقریبات
رسوماتتحائف دینا، خاندانی اور دوسری سماجی تقریبات، علامتی سجاؤٹ
تاریخ
تکرارسالانہ
منسلکعشرۂ کرسمس، شب کرسمس، آمد مسیح، بشارت، عید ظہور خداوند، خداوند کا بپتسمہ، پیدائش کے روزے، ولادت مسیح، یول، یوم اسٹیفن

کرسمس کے موقع پر مذہبی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں، خصوصی عبادتیں انجام دی جاتی ہیں، نیز خاندانی اور سماجی تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے جن میں شجرہ کرسمس کی رسم، تحائف کا لین دین، سانتا کلاز کی آمد اور عشائے کرسمس قابل ذکر ہیں۔ غیر مسیحی معاشروں میں بھی اس تہوار کو خصوصی طو پر منایا جاتا ہے اور 25 دسمبر کو دنیا کے بیشتر ممالک میں سرکاری تعطیل قرار دیا گیا ہے۔[8] نیز کرسمس کا یہ دن ان چند دنوں میں شمار کیا جاتا ہے جن میں سب سے زیادہ خریداری ہوتی ہے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ صرف کیا جاتا ہے۔،[9] اسی طرح کرسمس کے مخصوص نغمے، موسیقی، فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے گئے ہیں جو اس موقع پر بڑے اہتمام سے سنے اور دیکھے جاتے ہیں۔[10]

مسیحی تہوراوں میں اسے خاص مقام حاصل ہے۔ یہ غالباْ 200ء سے منایا جاتا ہے اور 400ء سے یہ تہوار عام ہو گیا۔ 25 دسمبر کی تاریخ غالباْ اس لیے چنی گئی کہ یسوع کے ظہور کی تاریخ سے قریب ہے اور مشرق میں عام طور پر اس دن یسوع کا یوم پیدائش بھی منایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس زمانہ میں مشرق میں ہمیشہ بڑے جشن ہوا کرتے تھے۔ یورپ میں کرسمس کا تہوار بڑے پیمانے پر عہد وسطٰی سے منایا جانے لگا، انگلستان میں انگلیکان کلیسیا اور پروٹسٹنٹ کلیسیا میں اس مسئلہ پر سخت جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ انیسویں صدی عیسوی تک بڑے پیمانے پر یہ تہوار منانے پر اسکاٹ لینڈ میں پابندی لگی رہی۔ آج کل جو کرسمس کے موقع پر ٹرکی یا بطین قربان کی جاتی ہیں، تحائف دیے جاتے ہیں، خاص قسم کے گیت گائے جاتے ہیں۔ یہ خالص انگریز رسوم ہیں یہیں سے ان کی ابتدا ہوئی ہے۔ کرسمس کے موقع پر درختوں کو سجانے، ان پر روشنی کرنے اور تحفے لٹکانے کی رسم عہد وسطی میں جرمنی میں شروع ہوئی۔ کرسمس کے کارڈ بھیجنے اور سانتا کلاز کو مقبولیت امریکا میں حاصل ہوئی۔ کاتھولک کلیسیاؤں اور بعض پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں میں اس تاریخ آدھی رات کے وقت عبادت ہوتی ہے۔

کرسمس کی اصل

بائبل میں

فرشتہ نے ان سے کہا ، خوفزدہ مت ہو میں تمہارے لیے خوش خبری لا رہاہوں جوتم سب لوگوں کے لیے بڑی خو شیاں لا ئے گی۔ آج کے دن تمہا رے لیے داؤد کے گاؤں میں ایک نجات دہندہ پیدا ہوا ہے یہ مسیح ہی خداوند ہے۔

لوقا کی انجیل، 2/ 10-11

ولادت یسوع کا ذکر دو انجیلوں متی اور لوقا میں آیا ہے، لوقا کی انجیل میں نسبتاً مفصل تذکرہ موجود ہے۔ انجیل کی تمام متعلقہ روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے مریم کے پاس جبرائیل کو بھیجا اور انھیں خبر دی کہ وہ روح القدس کی طاقت سے حاملہ ہیں، اس حمل سے ایک بچہ پیدا ہوگا جو "ایک عظیم آدمی بنے گا اور لوگ اس کو خدائے تعالیٰ کا بیٹا کہیں گے"،[لوقا 1/32] جب کنواری مریم نے اپنے منگیتر یوسف نجار کو یہ بات بتائی تو وہ پریشان ہو گیا، چنانچہ فرشتہ اس کے خواب میں آیا، مریم کے بیان کی تصدیق کی اور اس کی ڈھارس بندہائی۔[11] متی اور لوقا دونوں انجیلیں اس امر پر متفق ہیں کہ یسوع مسیح کی پیدائش داؤد کے شہر بیت اللحم میں ہوئی اور ناصرہ میں ان کی پرورش ہوئی؛ اور یوں جائے ولادت کے متعلق سابقہ پیشین گوئیاں پوری ہوئیں، ان پیشین گوئیوں میں میکاہ نبی کی پیشین گوئی خاصی معروف ہے۔ نیز بیت اللحم میں ولادت کا ایک ظاہری سبب یہ بھی تھا کہ اُس وقت آگستس نے رومی سلطنت کی مردم شماری کا فرمان جاری کیا تھا تاکہ محصولات عائد کیے جائیں۔ چنانچہ یوسف اپنی مخطوبہ مریم کے ساتھ سفر پر نکل پڑے، اس دوران میں مریم یوسف کے ساتھ بیوی کی حیثیت سے رہیں لیکن دونوں کے درمیان میں رشتہ زوجیت قائم نہیں ہوا۔ بیت لحم پہنچے تو قیام کے لیے سرائے ميں کوئی جگہ نہیں ملی اور ادھر مریم کے وضع حمل کا وقت ہو گیا۔ لوقا کی انجیل کے مطابق مریم نے جانوروں کے چارہ رکھنے کی جگہ اپنا پہلوٹھا بچہ جنم دیا اور بچہ کو کپڑے میں لپیٹ کر جانوروں کے باندھنے کی وہ جگہ جہاں جانور گھاس وغیرہ کھاتے ہیں اس میں سلا دیا۔[لوقا 2/7] آبائے کلیسیا کی تمام تفسیریں متفق ہیں کہ یسوع کی ولادت انتہائی غربت و تنگ دستی کے عالم میں ہوئی تاکہ انسانیت کو تواضع کی تعلیم دی جائے نیز قوم یہود اس وقت ایسے مسیح کی آمد کے منتظر تھے جو بادشاہ ہوگا اور رومی سلطنت سے انھیں نجات دلائے گا، انھیں یقین تھا کہ اس مسیح کی پیدائش کسی فوجی سالار کے گھر میں یا کسی بادشاہ کے محل میں ہوگی، چنانچہ ان حالات میں مسیح کی پیدائش سے یہود کو یہ سبق سکھانا بھی مقصود تھا کہ ان کا مسیح منتظر دنیوی نہیں روحانی بادشاہ ہوگا۔[12]

اسی اثنا میں اس خطے کے چرواہوں نے آسمان کی طرف سے فرشتوں کو ولادت مسیح کا اعلان کرتے سنا، انجیل کی اصطلاح کے مطابق آسمان پر فرشتوں کی فوج تھی جو تسبیح پڑھ رہی تھی اور شکر بجا لا رہی تھی۔ اعلان سنتے ہی چرواہے جائے ولادت پر پہنچے، یسوع مسیح کو دیکھا، مریم اور یوسف سے ملاقات کی۔ بعد ازاں فرشتوں سے سنے اعلان کی خبر دینے نکل پڑے اور یوں ولادت مسیح کا یہ پہلا جشن تھا اور اسے منانے والے وہ چرواہے تھے۔[13] شاید اسی وقت تین مجوسی زیارت کے لیے آئے، گوکہ انجیل متی میں ان کی تعداد مذکور نہیں ہے تاہم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ تین تھے جنھوں نے بچے کے سامنے گر کر سجدہ کیا اور تین تحفے سونا، لبان اور مُر پیش کیے۔[متى 2/11] جدید تحقیقات سے اس کا سراغ ملتا ہے کہ یہ چرواہے اصل اردن یا سعودی عرب آئے تھے جبکہ قدیم روایتوں میں انھیں موجودہ عراق یا ایران کا بتایا گیا ہے۔ اس موقع پر آسمان پر ایک ستارہ طلوع ہوا، جس کی پیروی کرتے ہوئے وہ مجوسیمجوسی جائے ولادت پر پہنچے۔ بلعام نبی نے اپنی پیشین گوئی میں "یعقوب کا ستارہ" کہہ کر اس جانب اشارہ کیا تھا، محققین کے نزدیک انجیل متی میں مذکور ستارہ دراصل مشتری، زحل اور مریخ کا ملاپ تھا جو 6 اور 4 ق م میں پیش آیا تھا، بعض دیگر محققین نے اس واقعے کی مختلف تفسیریں پیش کی ہیں۔[14] بہرکیف مجوسیوں کا چرواہوں کے ساتھ آنے میں دو اشارے پنہاں تھے، پہلا یسوع مسیح کے گرد فقرا اور مالدار دونوں طبقے موجود ہوں گے اور دوسرا ان کے گرد یہود اور بت پرست دونوں ہوں گے۔[15] اور یہ دونوں اشارے اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کا پیغام تمام انسانوں کے لیے ہے۔ ولادت کے بعد پیش آنے والے واقعات میں یروشلم میں ختنہ مسیح، ہیرودیس کے خوف سے خاندان کا مصر کی طرف فرار اور ہیرودیس کی وفات کے بعد مصر سے واپسی قابل ذکر ہیں۔ مسیحیوں کے یہاں کرسمس میں جسمانی ولادت مسیح کی سالگرہ منائی جاتی ہے جبکہ وجود کے اعتبار سے یسوع ہمیشہ سے ہیں۔ اسی لیے معتقدات نیقیہ و قسطنطنیہ میں انھیں "مولود غیر مخلوق" کہا گیا ہے۔[16]

تاریخ کا تعین

ابتدائی مسیحیت میں یہ تہوار نہیں منایا جاتا تھا۔ بعد ازاں 25 دسمبر کی تاریخ متعین ہونے سے قبل جشن ولادت مسیح کی متعدد تاریخیں تجویز کی گئیں، نیز بعض کلیسیا مثلاﹰ آرمینیائی کلیسیا جشن ولادت 6 جنوری کو عید ظہور خداوند کے ساتھ منایا کرتے۔ عیسوی تقویم کے رواج کے بعد مشرقی جولینی تقویم کے 25 دسمبر اور مغربی گریگوری تقویم کے 25 دسمبر کے وقت میں فرق واقع ہوا اور صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرق بڑھتا رہا۔ چنانچہ اس وقت ان دونوں کے درمیان میں 13 دنوں کا فرق ہے۔ چنانچہ مشرقی جولینی تقویم کے پیروکار 7 یا 8 جنوری کو جشن ولادت مناتے ہیں جبکہ کچھ کلیسیا مشرقی تقویم کے مطابق 19 جنوری کو عید ظہور خداوند کے ساتھ مناتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ متعدد راسخ الاعتقاد کلیسیا جشن ولادت اور عید ظہور خداوند گریگوری تقویم کے مطابق مناتے ہیں جن میں انطاکیہ، قسطنطنیہ، اسکندریہ، یونان، قبرص، رومانیہ اور بلغاریہ کی بطریقی قابل ذکر ہیں۔ جبکہ کلیسیاؤں میں روس، یوکرین، یروشلم، سربیا، مقدونیہ، مالدووا، جارجیا، اسکندریہ کا قبطی راسخ الاعتقاد کلیسیا اور حبشی راسخ الاعتقاد توحیدی کلیسیا ان تہواروں کی تواریخ کے تعین میں جولینی تقویم استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت مسیحی اس تہوار کو ولادت مسیح کی حقیقی تاریخ کے طور پر نہیں مناتے بلکہ یسوع مسیح کی آمد اور اس میں موجود روحانی مفاہیم کو یاد کرتے ہیں۔[17]

جشن کے مظاہر

جشن ولادت کے اس موقع پر تمام گرجا گھروں میں قداس الہی کا اہتمام کیا جاتا ہے، نیز مشرقی راسخ الاعتقاد گرجا گھروں میں روزے بھی رکھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی رسمیں اور سماجی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔

آرائش

امریکی سائنسی زبان میں کرسمس سے پہلے کی رات

کرسمس کے موقع پر گھروں، گرجا گھروں، سڑکوں، میدانوں اور دیگر مقامات کو خوب سجایا جاتا ہے۔ عموماً سبز اور سرخ رنگوں کو اس موقع پر استعمال کیا جاتا ہے اور سونے چاندی کے رنگ کی چیزیں کھائی جاتی ہیں۔[18] سبز رنگ کو "ابدی زندگی" کا استعارہ سمجھا جاتا ہے اور ایسے سرسبز درخت بنائے جاتے ہیں جن کے پتے کبھی نہیں جھڑتے جبکہ سرخ خود یسوع مسیح کا رنگ ہے۔ اس موقع پر آرائش و زیبائش کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔[19] پندرہویں صدی عیسوی میں خصوصاً لندن میں اس کا چلن ہوا۔ اس وقت مختلف طریقوں سے گھروں اور گرجا گھروں کو سجایا جاتا تھا، نیز کرسمس کی اس سجاوٹ میں شجرہ کرسمس کو خاص مقام حاصل تھا کیونکہ ایک طرح سے اس درخت کو یسوع کی زمین پر آمد کا استعارہ سمجھا جاتا۔ شجرہ کرسمس لبلاب کے درخت کا بنایا جاتا ہے جس کے سرخ پھول یسوع مسیح کے خون کی جبکہ اس کے کانٹے اُس کانٹوں بھرے تاج کی یاد دلاتے ہیں جسے عہد نامہ جدید کے مطابق انھوں نے اپنے مقدمے کے دوران میں اور سولی پر چڑھتے وقت پہن رکھا تھا۔[20][21]

شجرہ کرسمس کے ساتھ منظر پیدائش کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ منظر پیدائش بنانے کا رواج شجرہ سے بھی قدیم ہے، کیونکہ دسویں صدی میں روم میں ولادت مسیح کے مناظر کی تصویریں عام تھیں۔ سنہ 1223ء میں پادری فرانسس اسیزی نے ولادت مسیح کی حقیقی منظر نگاری پیش کی یعنی یوسف اور مریم کے کردار میں ایک مرد و عورت کو رکھا، جبکہ یسوع کے کردار میں ایک بچہ تھا نیز یسعیاہ کی پیشین گوئی میں موجود گایوں اور گدھوں کو بھی اس منظر میں پیش کیا۔[22][23] اس منظر نگاری کے بعد یورپ میں اور بعد ازاں پوری دنیا میں یہ روایت چل پڑی۔ شجرہ اور منظر کے ساتھ ساتھ گھنٹیاں، طلائی زنجیریں، سرخ گولے، برف کے گالے، سرسبز ٹہنیوں کے گول ہار، چکردار شمعیں، فرشتے، گنے کا میٹھا، سرخ موزے اور تارے -بیت لحم میں طلوع ہونے والے تارے کی علامت کے طور پر- کرسمس کی روایتی زینت میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔[24] نیز ان میں سانتا کلاز اور ان کے رینڈیر کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے، عوامی روایات کے بموجب سانتا کلاز گاڑی پر سوار ہوکر آتا ہے جسے رینڈیر چلاتے ہیں۔ ٹہنیوں کے گول ہار عموماً دروازوں اور کھڑکیوں پر رکھے جاتے ہیں جو مسیحیوں کے اس یقین کا اظہار ہے کہ یسوع مسیح دنیا کی روشنی ہیں۔ میکسیکو میں کیکٹس کے پودے اور پوئن سیٹا (مقامی پودا) بھی کرسمس کی زینت میں شامل کیے جاتے ہیں۔[25] علاوہ ازیں سڑکوں، شاہراہوں اور بازاروں میں خصوصی بینر، بجلی کے قمقمے اور نمایاں مقامات پر شجرہ کرسمس لگائے جاتے ہیں۔ الغرض کرسمس کے موقع پر آرائش و زیبائش کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں اسے اپنے مقامی اسباب آرائش کے ساتھ بھی منایا جاتا ہے۔ کرسمس کے اسباب آرائش کے لیے پہلی مخصوص دکان 1860ء کی دہائی میں جرمنی میں کھلی اور جلد ہی اس قسم کی دکانوں کی بہتات ہو گئی اور کاروباری ادارے ان اسباب کی تیاری میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔[26]

کرسمس کے لیے سجاوٹ کی ابتدا کی کوئی متعین تاریخ نہیں ہے لیکن عموماً اس آرائش کا آغاز 1 دسمبر سے ہو جاتا ہے جبکہ شجرہ کرسمس 24 دسمبر کی شام کو رکھا جاتا ہے تاہم سب ان تاریخوں کا اہتمام نہیں کرتے۔ 5 جنوری کو عید ظہور خداوند کی شام یہ تمام آرائشیں ختم کر دی جاتی ہیں۔

شجرہ کرسمس

مسیحیت سے قبل پاگانیت میں درختوں کی تعظیم و تکریم سے متعلق عبادتیں پائی جاتی تھیں،[27] خصوصاً جرمنی میں اس کا عام رواج تھا۔ اسی لیے قرون وسطی کے آغاز میں مسیحیوں کے یہاں شجرہ کرسمس کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ مسیحی روایتوں میں شجرہ کرسمس کا پہلا تذکرہ بونیفاس (675ء - 5 جون 754ء) کے عہد میں ملتا ہے۔ بونیفاس نے ایک تبلیغی وفد جرمنی روانہ کیا تھا، اس وفد کی کوششوں سے وہاں کے باشندوں نے مسیحیت تو قبول کرلی لیکن انھوں نے تہواروں میں درختوں کی تزئین کی رسم کو نہیں چھوڑا، بلکہ اس رسم کو مسیحیت کے سانچے میں ڈھال لیا۔ البتہ بعض رسمیں جیسے کلہاڑی رکھنا وغیرہ انھوں نے ترک کر دیں اور ستارہ رکھنا شروع کر دیا جو بیت لحم کے اس ستارے کی علامت تھی جس نے تین مجوسیوں کو راہ دکھائی تھی۔[27] تاہم شجرہ کرسمس کی یہ رسم جرمنی ہی تک محدود رہی اور مسیحی کلیسیاؤں نے اسے اختیار نہیں کیا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں یہ رسم فرانس پہنچی جہاں اسے مزید دیگر اسباب مثلاﹰ سرخ سیب اور شمعوں وغیرہ سے مزین کیا اور اس درخت کو پیدائش میں مذکور شجرہ حیات کی علامت اور بعد ازاں عہدنامہ جدید میں مذکور مسیح کے لقب "نور دنیا" کی علامت قرار دیا۔[27] کہا جاتا ہے کہ سولہویں صدی عیسوی میں مارٹن لوتھر نے بھی اس رسم کو منایا۔ تاہم ان سب کے باوجود اس رسم کا چلن عام نہیں ہوا۔ جب جارج سوم کی ملکہ شارلٹ نے انگلستان میں شجرہ کرسمس کی تزئین کا اہتمام کیا تب سے یہ رسم عام ہوئی اوت ریاستہائے متحدہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں منائی جانے لگی۔ پھر جشن ولادت مسیح کے ایک اہم جز کی حیثیت سے پوری دنیا میں اس کا اہتمام کیا جانے لگا۔[28]

پہلے گھروں میں یا جشن کے موقع پر جو درخت لگائے جاتے تھے وہ قدرتی ہوتے تھے لیکن اب اصلی درخت کی بجائے مصنوعی درخت رکھے جاتے ہیں جن کی قامت و جسامت مختلف ہوتی ہے، تاہم اب بھی کچھ لوگ قدرتی درخت استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کمپنیاں خاص اس مقصد کے لیے صنوبر کے درخت اگاتی ہیں اور کرسمس سے کچھ پہلے اسے فروخت کرتی ہیں۔ اس وقت شجرہ کرسمس کو مختلف سائز کے طلائی، سیمیں اور سرخ رنگوں کے گولوں سے سجایا جاتا ہے جبکہ کچھ درخت عام رواج سے ہٹ کر دوسرے رنگوں مثلاﹰ نیلے رنگ سے بھی سجائے جاتے ہیں۔ پھر اسے رنگ برنگی روشنیوں سے آراستہ کیا جاتا ہے اور اوپر بیت لحم کے تارے کی علامت کے طور پر ایک تارا رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اس درخت کو گھنٹیوں اور فرشتوں سے بھی مزین کیا جاتا ہے۔ شجرہ کے نیچے یا قریب میں منظر پیدائش رکھتے ہیں اور قریب ہی سجے سجائے تحائف رکھے جاتے ہیں، کرسمس کی رات ان تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔[29]

موسیقی

صدیوں سے منائے جانے والے اس تہوار کے لیے کلیسیاؤں اور مسیحی معاشروں نے کئی نغمے اور گیت لکھے ہیں۔ شاید افرام سریانی وہ پہلا فرد ہے جس نے جشن ولادت کے لیے گیت لکھے حتی کہ اس کا لقب ہی «شاعر جشن ولادت» پڑ گیا، کرسمس پر اس کے تحریر کردہ گیت آج بھی سریانی مسیحیت میں مستعمل ہیں۔ اسی دور یعنی چوتھی صدی میں یورپ میں اسقف ایمبروس نے جشن ولادت سے متعلق گیتوں کا پورا مجموعہ تیار کیا۔ مشرق و مغرب کے ان گیتوں میں لاہوتی مضامین اور انجیلی روایتیں بکثرت ملتے ہیں، ان ترانوں میں "مسیحائے اقوام، چلے آؤ" (Veni redemptor gentium) ترانہ سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ اسی دور کے ایک ہسپانوی شاعر پروڈنٹیس نے بھی "باپ کی محبت سے پیدا ہوا" (Corde natus ex parentis) کے عنوان سے ایک گیت لکھا تھا جو اب تک پڑھا جاتا ہے۔ نویں اور دسویں صدی میں شمالی یورپ میں بہت سے گیت لکھے گئے، جن میں برنارڈ کلیروو کے گیت خصوصاً قابل ذکر ہیں، ان گیتوں کو گرجا گھروں میں پڑھا جاتا ہے۔ بارہویں صدی عیسوی میں پیرس کے ایک راہب آدم نے جشن ولادت کے متعلق پہلی مرتبہ لوک گیت لکھے، اس کے بعد لوک گیتوں کا سلسلہ چل پڑا اور تیرہویں صدی میں فرانس، جرمنی اور خصوصاً اطالیہ میں فرانسس اسیزی کے زیر اثر لوک گیتوں کا سلسلہ بڑھتا رہا۔ اطالوی زبان میں کرسمس کے لوک گیتوں کی بڑی تعداد فرانسس اسیزی ہی سے منسوب ہے۔ انگریزی زبان کے سب سے قدیم گیت جان اوڈلے نے سنہ 1426ء میں "کرسمس کے گیت" کے عنوان سے لکھے۔ یہ ایک مکمل کتاب ہے جس میں 25 لوک گیت شامل ہیں۔ کرسمس کی شب کو یہ گیت تحفوں کے لین دین کے وقت گھر آنے والے مہمان گایا کرتے تھے۔ نیز اس عرصے میں کیرول (انگریزی: Carol) اصطلاح خاص ان گیتوں اور ترانوں کے لیے مستعمل رہی جو کرسمس کے لیے لکھے جاتے تھے۔ سنہ 1570ء میں پوپ پائیس پنجم کی درخواست پر "عالم بالا میں خدا کی تمجید ہو" (Gloria in excelsis Deo) کے عنوان سے ایک گیت بنایا گیا جو چوتھی صدی عیسوی کے نصوص پر مبنی ہے۔ کاتھولک کلیسیا کا یہ سب سے مشہور گیت ہے جو اب بھی گایا جاتا ہے۔

قرون وسطی میں کرسمس پر بڑی تعداد میں لوک گیت اور ترانے لکھے گئے اور وہ خاصے مشہور ہوئے مثلاﹰ مشہور لاطینی گیت ادیسٹ فیڈلیس (Adeste Fidelis) تیرہویں صدی عیسوی کا ہے گو اس کی دھنیں اٹھارویں صدی عیسوی میں ترتیب دی گئیں۔ نیز کچھ گیت ایسے بھی ملتے ہیں جو گرچہ قرون وسطیٰ کے اواخر میں لکھے گئے لیکن ان میں سابقہ متون کی عبارتیں استعمال کی گئی ہیں، اس قسم کے گیتوں میں "پرسوننٹ ہُوڈی" (Personent hodie) ایک نمایاں مثال ہے جو سنہ 1582ء میں فرانس میں لکھا گیا جبکہ اس کی عبارتیں اور موسیقی تیرہویں صدی کی ہیں۔ پروٹسٹنٹ کی اصلاحی تحریک کے بعد جرمنی اور شمالی یورپ میں کرسمس گیتوں پر طبع آزمائی کا نیا رجحان پیدا ہوا۔ چنانچہ مارٹن لوتھر نے متعدد گیت لکھے اور مذہبی و سماجی تقریبات میں اس کے استعمال پر زور دیا۔ یہ سب گیت شہروں اور دیہاتوں میں عوام کی زبانوں پر جاری ہو گئے جو انیسویں صدی تک یورپ کے حافظے سے محو نہیں ہوئے۔ اسی طرح قرون وسطیٰ کے اواخر میں داؤد نبی سے منسوب مزامیر کی دھنیں بنائی گئیں اور انھیں کرسمس کے موقع پر پڑھا جانے لگا، ریاستہائے متحدہ امریکا میں ان مزامیر کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ سنہ 1818ء میں ایک اور مشہور گیت آسٹریا میں مقدس نکولس کی یاد میں منعقد ہونے والے جشن کے موقع پر منظر عام پر آیا جس کا نام تھا "خاموش رات" (انگریزی: Silent Night)۔ سنہ 1833ء میں کرسمس کے جدید و قدیم تمام گیتوں کا مجموعہ انگریزی زبان میں شائع ہوا، یہ کرسمس کے کلاسیکی گیتوں کا پہلا مجموعہ تھا، اس مجموعے کی اشاعت نے عہد وکٹوریا میں گیتوں کے احیا میں خاصا تعاون کیا۔ اس زمانے میں بہت سے گیت لکھے گئے جو آج بھی خاصے مقبول ہیں، مثلاً ہینڈل سوونیا کا مشہور زمانہ "ہللویاہ" 1741ء میں لکھا گیا۔ 1719ء ميں Joy to the World اور 1857ء میں Jingle Bells سامنے آئے۔ بعد ازاں انیسویں اور بیسویں صدی میں ان ترانوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی، ایسے گیت بھی ترتیب دیے گئے جو پاپ، جاز حتی کہ راک موسیقی بھی استعمال کرتے ہیں۔

اردو کے کرسمس گیت

  • آج اپنا جنم ہو
  • آسمان پر گیت گایا
  • آسمانی لشکر گائیں
  • اہل جہان سنو
  • آج فرشتوں نے خوش ہو کر
  • آیا یسوع آیا یسوع آیا
  • سال نیا
  • اس نے الفت کی انتہا کی ہے
  • ہر جنم سے الگ
  • جہان کو پیار کا نغمہ
  • عالم بالا پر
  • چمکا ستارہ
  • کچھ عجب فضل
  • خود خالق بن انسان آگیا
  • آیا ہے آیا
  • آیا ہے بن کہ درمہ
  • آہا یسوع آیا زمین پر

پکوان

25 ستمبر کی رات کا عشائیہ کرسمس کا اہم جز سمجھا جاتا ہے۔ اس موقع کا کوئی مخصوص پکوان نہیں ہے بلکہ ہر ملک اور ہر شہر کے پکوان جدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کرسمس پکوان کا سادگی سے اہتمام کیا جاتا ہے کھانے میں زیادہ تر میٹھے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ صقلیہ میں عشائے کرسمس کا خصوصی پکوان بارہ اقسام کی مچھلیوں پر مشتمل ہوتا ہے، برطانیہ اور برطانیہ کے زیر اثر دیگر ممالک میں مرغ، گوشت، سبزیاں، سیب کا رس ہوتا ہے۔ نیز اس تہوار کے لیے مخصوص مٹھائیاں بھی تیار کی جاتی ہیں۔ پولینڈ، مشرقی یورپ اور اسکینڈینیویا کے خطوں میں اس دن کا اصل کھانا مچھلیاں ہوتی ہیں، تاہم ابھی کچھ برسوں سے مچھلیوں کی جگہ گایوں اور مینڈھے کے گوشت نے لے لی ہے۔ جرمنی، فرانس اور آسٹریا میں اس موقع پر ہنس، خنزیر اور مرغ کھائے جاتے ہیں۔

اسی کے ساتھ، الکحلی مشروبات خصوصاً سرخ نبیذ اور لیکور، نیز بوش دو نوئل (bûche de Noël) نامی خاص قسم کی چاکلیٹ جو فرانس اور دیگر ممالک میں ملتی ہیں بھی خوب استعمال کیے جاتے ہیں۔ سرزمین شام خصوصاً سوریہ، لبنان اور فلسطین میں کبہ، انگوری اوراق، مرغ اور دیگر لوازمات مثلاﹰ تبولہ، فتوش اور بابا غنوج وغیرہ خاص پکوان ہیں۔

کرسمس کی تاریخ

کرسمس، متعداد روایات کے مطابق یسوع مسیح کی پیدائش سے صدیوں پہلے سے منایا جا رہا ہے۔ کرسمس کے 12 دن آگ روشن کی جاتی تھی، جلانے کی لکڑی تحفے میں دینے کا رواج عام تھا۔ ترانہ کرسمس بھی گھر گھر گیا جاتا تھا۔ مقدس دن کے میلوں اور چرچ کے جلوسوں کو ابتدائی طور پر میسوپوٹامینز سے جوڑا جا سکتا ہے جو کرسمس مناتے تھے۔ میسوپوٹامینز کئی خداؤں پر یقین رکھتے تھے، ان کا چیف گارڈ یعنی سردار خدا ہوتا تھا جو مدارک کہلاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ مدارک بدنظمی کے عفریت سے جنگ کرتا ہے اور اس جدوجہد میں مدارک اور اس کا ساتھ دینے کے لیے میسوپوٹامینز نئے سال کی تقریبات کا انعقاد ہر سال موسم سرما میں منایا کرتے تھے۔ ”زگ موک“ نامی یہ تہوار جو نئے سال کی آمد کی خوشی میں 12 دن پہلے منایا جاتا تھا اب کرسمس کے نام سے منایا جاتا ہے۔[30]

رومن اپنے خدا ”سیٹرن“ کا جشن مناتے تھے۔ ان کا تہوار ”یشوریلیا“ کہلاتا اور یہ دسمبر کے وسط سے شروع ہوکر یکم جنوری تک جاری رہتا۔ مختلف بہروپ بدل کر گلیوں میں گھومنا، دوستوں سے ملاقات اور تحائف کے تبادلے اس تہوار میں شامل تھے۔ رومن اپنے گھروں کو سرسبز درختوں سے سجاتے جن میں موم بتیاں روشن کی جاتی تھیں۔ آقا و غلام اپنی جگہ تبدیل کرتے تھے جو یشوریلیا رومیوں کے لیے ایک تفریح ہوا کرتی تھی لیکن مسیحی اس تہوار کو تفریح سمجھ کر نہیں مناتے تھے۔ جیسے جیسے مسیحیت پھیلتی گئی ان کی تقریبات میں بھی رومیوں کی طرح رسمیں فروغ پانے لگیں۔ پہلے تو چرچ نے اس قسم کی تقریبات کو منانے سے منع کیا لیکن چرچ کی ہدایت لاحاصل رہی اور بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ تہوار خدا کے بیٹے کے تہوار کی حیثیت سے منائے جائیں گے۔ 25 دسمبر کی تاریخ ناصرف رومیوں کے لیے مقدس تھی بلکہ فارسیوں کے لیے بھی جن کا مذہب اس وقت مسیحیت کا اہم حریف تھا۔ آخرکار چرچ نے رومیوں کے جشن روشنیوں اور تحائف کو تقریبات کرسمس میں شامل کر لیا۔ یسوع جنہیں مسیحی خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں، کی تاریخِ پیدائش صحیح طور پر کسی کو بھی معلوم نہیں۔ روایات سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ یہ یسوع مسیح کی پیدائش کا جشن 98ء سے منایا جاتا ہے۔ 137ء میں روم کے بشپ حکم دیا تھا کہ یسوع مسیح کی سالگرہ کو بطور مذہبی رسم منایا جائے گا۔ 350ء میں ایک بشپ نے 25 دسمبر کو کرسمس کے دن کے لیے منتخب کر لیا۔[30]

تہنیتی رقعے

تہنیتی رقعے کرسمس کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان رقعوں پر سانتا کلاز اور شجرہ کرسمس کے پاس کھڑے برف کے پتلوں کی تصویریں، چند مذہبی علامتیں، ستارہ بیت لحم، امن کی علامت کے طور پر سفید کبوتر اور روح القدس کی تصویریں ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ عموماً کوئی مطبوعہ گیت، عبادت کا متن یا کتاب مقدس کی کوئی آیت بھی دی جاتی ہے۔ بعض افراد مذہبی جملوں کی بجائے عام اسلوب میں مبارک باد پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کرسمس کے کئی ہفتے پہلے سے رقعوں کی خریداری شروع ہو جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں خاص ان رقعوں کی خرید و فروخت کے لیے دکانیں قائم کی گئیں مثلاﹰ سنہ 1843ء ميں لندن میں قائم ہونے والی ہنری کول کی دکان۔ انٹرنیٹ کے عام ہونے کے بعد برقی رقعوں کے لین دین کا چلن بھی شروع ہوا ہے۔

ڈاک ٹکٹ

کرسمس کے موقع پر دنیا کے متعدد ممالک بڑے پیمانے پر ڈاک ٹکٹ جاری کرتے ہیں جنہیں کرسمس کے رقعے والے لفافوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ نیز ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کے شوقین بھی اسے خوب شوق سے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ عموماً اکتوبر اور دسمبر کے درمیانی عرصے میں حکومتیں ہر سال بڑے پیمانے پر ڈاک ٹکٹیں جاری کرتی ہیں۔ سب سے پرانا ڈاک ٹکٹ کینیڈا کا جاری کردہ ہے جو سنہ 1898ء میں جاری ہوا تھا۔ سنہ 1937ء میں آسٹریا نے جاری کیا، برازیل نے 1939ء میں ایسے ڈاک ٹکٹ جاری کیے جن پر تین مجوسیوں، ستارہ بیت لحم، ملائکہ، بچہ اور مریم کی تصویریں تھیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکا میں ہر سال خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری ہوتے ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک میں کرسمس

دنیا کے مختلف ممالک میں کرسمس کا تہوار الگ الگ انداز سے منایا جاتا ہے۔

بھارت

بھارت اور خصوصاً اس کے شہروں میں کرسمس دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، مسیحی اور غیر مسیحی (ایک بڑی تعداد) سبھی اس تہوار میں کسی نا کسی طرح شریک ہوتے ہیں۔ یہاں کے بڑے تہواروں میں سے ایک تہوار کرسمس بھی ہے، لوگ سال کی اس آخری شب میں شراب وکباب سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں اور ٹھیک رات بارہ بجے شراب اور دیگر برائیوں کے تمثلیلی مجسموں اور تصویروں کو جلا کر گناہوں سے تائب ہوتے ہیں اور آئندہ سال کے لیے نیک خواہشوں کا اظہار اور دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سانتا کلاز اور تحفہ تحائف کی رسمیں بھی عام ہے۔

بلجئیم

بلجئیم میں دسمبر کی 6 تاریخ کو سینٹ نکولس ڈے یا Sinlerkla کا تہوار منایا جاتا ہے، جو کرسمس سے بالکل الگ تہوار ہے۔ بلجئیم میں سانتا کلاز کو De Kerstman یا Le Pere Noel کہا جاتا ہے جو کرسمس کے موقعے پر بچوں کے لیے تحفے لاتا ہے۔ کرسمس کا ناشتا ایک خصوصی میٹھی ڈبل روٹی پر مشتمل ہوتا ہے، جسے Cougnou یا Cougnolle کہا جاتا ہے۔ اس ڈبل روٹی کی بناوٹ شیرخوار بچے جیسی ہوتی ہے۔ بعض خاندان کرسمس کے دن پرتکلف اور بڑی ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں

برازیل

برازیل میں سانتا کلاز کو Papai Noel کہا جاتا ہے۔ اس ملک میں کرسمس کے تہوار کی رسوم لگ بھگ وہی ہیں جو امریکا اور برطانیہ میں ہیں۔ اس تہوار کے موقع پر برازیل کے دولت مند گھرانوں میں کرسمس کا خصوصی کھانا ہوتا ہے جو عام طور پر مرغ، ٹرکی، ہیم، چاول، سلاد، سور کے گوشت، تازہ پھلوں اور خشک میووں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کھانے کے موقع پر بیئر بھی ہوتی ہے۔ زیادہ غریب لوگ اس تہوار کے موقع پر بھی صرف چکن اور چاول پر بھی گزارا کرتے ہیں۔

پاکستان

پاکستان میں سانتا کلاز کو سانتا کلاز ہی اور کرسمس کو کرسمس ہی اور عید میلاد المسیح بھی کہا جاتا ہے۔ اس ملک میں کرسمس ٹری اور کرسمس کارڈ کا رواج بھی عام ہے۔ شب کرسمس (کرسمس ایوو) سے چار دن پہلے ہی سے کرسمس ٹری سجانے کی تیار کردی جاتی ہے۔ کھانوں میں میٹھے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اور تیکھے پکوان کا اہتمام بہت کم ہوتا ہے۔

فن لینڈ

فن لینڈ کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سانتا کلاز فن لینڈ کے شمالی حصے میں رہتا ہے، جسے Korvatunturi کہہ کر پکارتے ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ سانتا کلاز کے لیے جو خطوط ارسال کرتے ہیں، وہ فن لینڈ کے لیے ہی پوسٹ کیے جاتے ہیں۔ گرین لینڈ کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ سانتا کلاز کی رہائش گرین لینڈ میں ہے۔ فن لینڈ میں کرسمس کی آمد پر لوگ اپنے گھروں کو خصوصی پر سجاتے اور سنوارتے ہیں۔ کرسمس سے ایک دن پہلے یعنی ”شب کرسمس“ کو خصوصی طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کے لیے چاول کا دلیہ اور ایک خصوصی میٹھا سوپ تیار کیا جاتا ہے جس میں میوے مثلاً آلوچے، سیب، ناشپاتی، خوبانی، کشمش اور انجیر بھی شامل کیے جاتے ہین۔ یہ ڈش صبح ناشتے میں یا دوپہر کو لنچ کے موقع پر کھائی جاتی ہے۔ لنچ کے بعد لوگ گھروں میں کرسمس ٹری تیار کرتے ہیں اور دوپہر میں فن لینڈ کے شہر ترکو کے میئر ریڈیو اور ٹی وی پر Christmas Peace Declaration پورے اہتمام کے ساتھ براڈ کاسٹ کرتے ہیں۔ لوگ شام کو گرجا گھر اور قبرستان جانے سے پہلے اس ڈیکلیئریشن بڑے شوق سے سنتے اور دیکھتے ہیں۔ رات کو ایک روایتی ڈنر کا اہتمام ہوتا ہے جس میں Casseroles نامی ڈش پیش کی جاتی ہے، اس میں کلیجی، شلجم، گاجر اور آلو شامل ہوتے ہیں یہ ڈش ہیم یا ٹرکی کے ساتھ پکائی جاتی ہے۔ بعض لوگ مختلف قسم کی مچھلیاں بھی کھاتے ہیں لیکن ہر کھانے کے ساتھ سلاد ضرور ہوتا ہے۔ فن لینڈ میں اس تہوار کو ”نمک مسالوں کا تہوار“ بھی کہتے ہیں، اس لیے لوگ کھانوں کی تیاری میں ہر طرح کے مسالے استعمال کر کے انھیں ذائقے دار بناتے ہیں۔ فن لینڈ میں کرسمس کے سب سے مقبول پھول Poinsettia اور Hyacinthe ہیں۔ اس ملک میں بچے عام طور سے اپنے تحفے کرسمس کی شام کو اپنے گھر کے کسی بڑے وصول کرتے ہیں، جو سانتا کلاز کے روپ میں ہوتا ہے۔

فرانس

فرانس میں کرسمس کو ہمیشہ سے Noël کہا جاتا ہے۔ ہر شخص کرسمس ٹری سجاتا ہے۔ بعض لوگ اسے قدیم طریقے سے سجاتے ہیں۔ اس میں سرخ رِبن باندھتے ہیں اور بالکل دودھیا سفید موم بتیاں روشن کرتے ہیں۔ باغوں میں ”فر“ کے درختوں کو بھی سجایا جاتا ہے اور پوری رات ان میں رنگ برنگے قمقمے روشن رکھے جاتے ہیں، جس سے بڑا حسین منظر پیدا ہوتا ہے۔ فرانس میں سانتا کلاز کو Pere Noel کہا جاتا ہے۔ کرسمس کا کھانا بھی عمدہ ہوتا ہے جس میں بہت اچھا گوشت اور شراب پیش کی جاتی ہے۔ فرانس میں سبھی لوگ ایک دوسرے کو کرسمس کے تہنیتی کارڈ نہیں بھیجتے۔

جرمنی

جرمنی میں کرسمس کو Weihnachten کہا جاتا ہے۔ جرمن لوگ کرسمس کے موقع پر گھروں کو بڑے اہتمام سے سجاتے ہیں۔ ہر گھر میں لکڑی سے تیار کردہ شیر خوار بچے کا بستر ہوتا ہے اور اس کے پاس ہی لکڑی کے فریم میں موم بتی روشن ہوتی ہے۔ کرسمس کی آمد سے چار ہفتے پہلے سے ہر اتوار کو اس فریم میں ایک نئی موم بتی روش کردی جاتی ہے۔ لکڑی کا یہ بستر شیر خوار یسوع بستر ہوتا ہے، جس کے قریب ایک چھوٹا سا ماڈل اصطبل ہوتا ہے، جو اس اصطبل کی عکاسی کرتا ہے جس میں روایت کے مطابق سیدنا یسوع پیدا ہوئے تھے۔ وہیں مقدسہ مریم، مقدس یوسف شیر خوار یسوع کے مجسموں کے علاوہ جانوروں کے لکڑی کے مجسمے ہوتے ہیں۔ جرمنی میں یہ منظر عام ہوتا ہے۔ اس ملک میں سانتا کلاز کو Weihnachtsmann کہا جاتا ہے، جو کرسمس سے ایک دن پہلے سہ پہر کے آخری حصہ میں بچوں کے لیے تحفے لاتا ہے۔ جرمنی میں کرسمس کے دن کی خصوصی ڈش کے طور پر مچھلی اور مرغابی پکائی جاتی ہے۔

ہنگری

ہنگری میں کرسمس کو Karácsony اور سانتا کلاز کو ونٹر گراؤنڈ فادر، Télapó اور Mikulás بھی کہا جاتا ہے۔ اس ملک میں سانتا کلاز چھ دسمبر کو آتا ہے۔ بچے سونے سے پہلے اپنے جوتے صاف کر کے اپنے گھر کے دروازے کے باہر رکھ دیتے اور اگلے دن انھیں باہر ایک سرخ بیگ ملتا ہے، جس میں ان کے لیے چھوٹے موٹے کھلونے اور ٹافیاں یا چاکلیٹیں ہوتی ہیں۔ دسمبر کی 24 تاریخ کو بچے یا تو اپنے رشتے داروں سے ملنے جاتے ہیں یا فلم وغیرہ دیکھنے جاتے ہیں، کیونکہ ان کے عقیدے مطابق ”ننھے منے یسوع“ ان کے گھروں میں شام کو کرسمس ٹری اور تحفے بھی لاتے ہیں۔ یہاں کا رواج یہ بھی ہے کہ لوگ کھانے پینے کی اشیاء درختوں پر لٹکا دیتے ہیں، مثلاً سونے کے ورق میں لپٹی چاکلیٹس ٹافیاں اور شیشے کے فانوس میں موم بتیاں بھی روشن کی جاتی ہیں۔ ڈنر کے لیے عام طور پر چاول اور مچھلی یا آلو کی ڈش تیار کی جاتی ہے اور گھروں میں سویٹ ڈش کے طور پر پیسٹری بھی تیار کی جاتی ہے۔ ڈنر کے بعد بچوں کو پہلی بار کرسمس ٹری دکھایا جاتا ہے اور اس کے نیچے بچوں کے لیے تحفے رکھے ہوتے ہیں۔ اس موقع پر کرسمس کے خصوصی گیت بھی گائے جاتے ہیں۔ کرسمس کے دوسرے اور تیسرے روز بھی خصوصی ضیافتوں کا اہتمام ہوتا ہے۔

نیوزی لینڈ

نیوزی لینڈ میں کرسمس کا آغاز کرسمس کی صبح کو کرسمس ٹری کے نیچے موجود تحائف کو کھولنے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد کرسمس لنچ کا اہتمام ہوتا ہے۔ خصوصی ڈشز چکن یا ٹرکی سے تیار کی جاتی ہیں۔ اس دعوت کے بعد چائے وقت آ جاتا ہے۔ اس موقع پر دوستوں اور گھر والوں کے لیے باربی کیو کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ سب مل کر کھاتے پیتے اور خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔

روس

سوویت یونین کے زمانے میں یہاں کرسمس بہت اہتمام سے نہیں منایا جاتا تھا، البتہ نیا سال ایک اہم موقع ہوتا تھا، جب 'Father Frost' (روس میں سانتا کلاز کا نام) بچوں کے لیے تحفے لاتا تھا لیکن اب کرسمس کھلم کھلا منایا جاتا ہے۔ اب یہ تہوار یا تو 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے یا پھر 7 جنوری کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا مذہبی تہواروں کے لیے قدیم جولین کیلنڈر استعمال کرتا ہے۔ روس میں کرسمس کی خصوصی آئٹمز میں کیک، پائی اور گوشت کے کباب شامل ہوتے ہیں۔

ریاستہائے متحدہ امریکا

ریاستہائے متحدہ امریکا ایک ایسا وسیع ملک ہے جس میں رنگا رنگ ثقافتوں اور تہذیبوں کے حامل لوگ رہتے ہیں، اس لیے یہاں کرسمس کا تہوار بھی متعدد اور مختلف انداز سے منایا جاتا ہے۔ مختلف خطوں کے لوگ مختلف رسوم و رواج اپنائے ہوئے ہیں اور ان کی ڈشز بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ کرسمس کے حوالے سے تمام روایتی کہانیاں اور سانتا کلاز کے بارے میں معلومات بچوں کے لیے تحائف وغیرہ یہ سب امریکا میں بھی اسی طرح ہے جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں ہے۔ البتہ کھانے پینے کی اشیاء میں لوگوں کی پسند ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ باقی سب کچھ وہی ہے جو دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. کرسمس بطور کثیر العقائد تہوار—بی بی سی نیوز۔ حاصل کردہ بتاریخ 2008-09-30.
  2. "امریکا میں کرسمس صرف مسیحیوں کے لیے نہیں ہے"۔ گالپ انکارپوریشن۔ 2008-12-24۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2012 
  3. Paul Gwynne, World Religions in Practice (John Wiley & Sons 2011 ISBN 978-1-4443-6005-9)۔ John Wiley & Sons۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2014 
  4. John Ramzy۔ "The Glorious Feast of Nativity: 7 جنوری? 29 Kiahk? 25 دسمبر?"۔ Coptic Orthodox Church Network۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2011 
  5. "Armenian%20Christians"%20Kelly&f=false Joseph F. Kelly, The Feast of Christmas (Liturgical Press 2010 ISBN 978-0-8146-3932-0)۔ 07 جنوری 2019 میں "Armenian+Christians"+Kelly&hl=en&sa=X&ei=o1FgVNnkD-Sc7gbWuoGQAw&redir_esc=y#v=onepage&q="Armenian%20Christians"%20Kelly&f=false اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2014 
  6. ^ ا ب کرسمس: 25 دسمبر یا 7 جنوری، تکلا ڈاٹ آرگ، 26 دسمبر 2011ء
  7. تہذیب کی کہانی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ civilizationstory.com (Error: unknown archive URL)، ول دورانت، ص: 3910
  8. قرارداد برائے قانون سرکاری تعطیلات آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ idu.net (Error: unknown archive URL)، الاتحاد الديمقراطي العراقي، 26 دسمبر 2011ء
  9. WIB Answers - What is the definition of Christmas Creep? آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ womeninbusiness.about.com (Error: unknown archive URL)، اباؤٹ ڈاٹ کام، 26 دسمبر 2011ء
  10. کرسمس: امن و محبت کی قدروں کا جشن آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ alghad.com (Error: unknown archive URL)، الغد اخبار، 26 دسمبر 2011ء
  11. التفسير التطبيقي للعهد الجديد، لجنة من اللاهوتيين، دار تايدل للنشر، بريطانيا العظمى، طبعة ثانية 1996، ص۔8
  12. التفسير التطبيقي للعهد الجديد، مرجع سابق، ص۔207
  13. التفسير التطبيقي للعهد الجديد، مرجع سابق، ص۔209
  14. التفسير التطبيقي للعهد الجديد، مرجع سابق، ص۔9
  15. التفسير التطبيقي للعهد الجديد، مرجع سابق، ص۔10
  16. مولود غير مخلوق - محاضرات تبسيط الإيمان، الأنبا تكلا، 26 دسمبر 2011.
  17. "The Christmas Season"۔ CRI / Voice, Institute۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اپریل 2009 
  18. الذهبي والفضي ينضمان إلى الأحمر في شجرة « الكريـــــسماس »، الإمارات اليوم، 27 دسمبر 2011.
  19. بندكتس السادس عشر: الشجرة والمغارة، تراث ديني يجدر الحفاظ عليہ، كنيسة الإسكندرية الكاثوليكية، 27 دسمبر 2011. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ coptcatholic.net (Error: unknown archive URL) "آرکائیو کاپی"۔ 30 مارچ 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2017 
  20. المعاني الحقيقية لزخارف ورموز الميلاد، جمعية التعليم المسيحي بحلب، 27 دسمبر 2011.
  21. تقاليد الميلاد، الثقافة الكاثوليكية، 27 دسمبر 2011. خطا ترجمہ: {{En}} یہ محض فائل نام فضا میں استعمال ہو گا۔ اس کی بجائے {{lang-en}} یا {{in lang|en}} استعمال کریں۔
  22. مذود القديس فرنسيس، جمعية التعليم المسيحي بحلب، 27 دسمبر 2011.
  23. المغارة آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ marnarsay.com (Error: unknown archive URL)، إرسالية مار نرساي الكاثوليكية، 27 دسمبر 2011.
  24. زينة عيد الميلاد، موقع كنيسة الإسكندرية الكاثوليكية، 27 دسمبر 2011. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ coptcatholic.net (Error: unknown archive URL) "آرکائیو کاپی"۔ 30 مارچ 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2017 
  25. البانيتا تضيف جوًا خاصًا لعيد الميلاد في المكسيك، صحيفة القدس، 27 دسمبر 2011. [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2012-02-14 بذریعہ وے بیک مشین
  26. شجرة عيد الميلاد، أرشيف الميلاد، 27 دسمبر 2011. خطا ترجمہ: {{En}} یہ محض فائل نام فضا میں استعمال ہو گا۔ اس کی بجائے {{lang-en}} یا {{in lang|en}} استعمال کریں۔ [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2015-10-15 بذریعہ وے بیک مشین
  27. ^ ا ب پ شجرة الميلاد آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ marnarsay.com (Error: unknown archive URL)، إرسالية مار نرساي الكاثوليكية، 27 دسمبر 2011.
  28. لماذا يهتم المحتفلون بوضع شجرة لعيد الميلاد وتزيينها؟ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tayyar.org (Error: unknown archive URL)، التيار الوطني الحر، 27 دسمبر 2011.
  29. عيد الميلاد في التاريخ، جمعية التعليم المسيحي في حلب، 27 دسمبر 2011.
  30. ^ ا ب کرسمس مسیحیت سے مسلمانوں تک از عبد الوارث ساجد، صفحہ 17-18۔