بھارت کی ثقافت، بھارتی ثقافت، ہندوستانی ثقافت یا ہندوستان کی ثقافت ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس سے مراد جنوبی ایشیا کے بر صغیر کے سب سے بڑے ملک بھارت کی تہذیب و تمدن، یہاں کے مذہب، یہاں کے فرقے اور برادریاں اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی بے شمار زبانیں اور بولیاں ہیں۔ چوں کہ بھارت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، اس وجہ ایک جغرافیائی خطہ ہو کر بھارت میں کافی تنوع دیکھنے میں آیا ہے۔ بھارت کی آبادی کی غالب اکثریت ہندو مت کی پیروکار ہے۔ تاہم کوئی ایک تعریف کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہ ہندو کون ہے۔ آریہ سماج کے کئی لوگ بت پرستی کو نہیں مان کر بھی ہندو ہیں۔ برہمو سماج کے لوگ توحید کا عقیدہ رکھ کر بھی ہندو ہیں۔ ہندو دھرم کے زیادہ تر لوگ کثرت الوہ اور بت پرستی کے قائل ہیں، مگر وہ ان لوگوں کو بھی اپنے میں قبول کرتے ہیں۔ حد یہ کہ خدا کو نہیں ماننے والے ملحد بھی ہندو ہیں۔[1] بھارت کی ثقافت زبانیں، مذاہب، رقص، موسیقی، فن تعمیر، پکوان اور مختلف تہذیبوں، تاریخی جغرافیائی نوعیتوں پر مشتمل ہے۔ بھارت کی زبانوں، پکوان، موسیقی، رقص، سنیما اور مارشل آرٹ نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی ہے۔

ماضی میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ملحد تھے[2]، 2013–18 تک کرناٹک ریاست کے وزیر اعلیٰ سدارمیا معلنہ طور پر ملحد رہے[3]۔ اس وجہ یہاں کا دایاں محاذ ہر بھارتی کو ہندو مانتا ہے لفظ ہندو کو بھارتی کے معنوں میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[4] تاہم اس بات سے ہر کوئی متفق نہیں ہے۔ اس کے باوجود، بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں جس طرح منادر جگہ جگہ موجود ہیں، اسی طرح مساجد، گرجا گھر اور گرودوارے ہیں۔ ملک میں کچھ وقت پہلے ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام صدر جمہوریہ تھے جو ایک مسلمان تھے۔ اسی طرح گیانی ذیل سنگھ سکھ ہو کر بھی بھارت کے صدر جمہوریہ تھے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی سکھ تھے اور بھارت میں دس سال تک وزیر اعظم تھے۔

اسی طرح سے بھارت میں کئی زبانیں اور بولیاں موجود ہیں، مگر ملک میں وفاقی حکومت کی سرکاری زبان ہندی کو قرار دینے کے باوجود اسے قومی زبان کا درجہ نہیں دے پائے ہیں۔ [5] اس کی وجہ غالبًا یہ ہے کہ ہم زبان اور بولی میں حد فاصل کیسے قائم کریں، یہ طے نہیں ہے۔ لوگ جدید طور پر بھوجپوری زبان بولتے ہیں جو ہندی زبان سے کافی مشابہ ہے اور دونوں زبان کے لوگ ایک ہی انداز میں بات کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ تاہم بھوجپوری لوگ اپنی زبان کو ہندی سے الگ ماننے لگے ہیں۔ یہی حال راجستھانی زبان اور کچھ اور بولیوں کا ہے۔ ہندی کے خلاف سے سب زیادہ احتجاج جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو میں ہوئے ہیں۔[6] اس کی وجہ سے ریاست کے زیادہ تر مدارس میں لوگ ہندی نہیں پڑھاتے۔ بھارت میں مرکزی اور ریاستی زبانوں کے جھگڑے بھی ہوئے ہیں۔[7] اور اس کے علاوہ اردو زبان کو اس کا مستحقہ مقام دینے کا مسئلہ ایسا رہا ہے، جس پر سیاسی حلقے سنجیدگی سے کام نہیں کرتے۔ [8] پھر بھی بھارت ایک ہمہ لسانی ملک کے طور عالمی پہچان بنا چکا ہے۔ اس کے کئی بین الاقوامی مطالعے بھی ہو چکے ہیں۔

مذاہب ترمیم

دھرمی ادیان نے بھارت بھارت کی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا ہے

بھارت میں جنم لینے والے مذاہب میں ہندو مت، جین مت، بدھ مت اور سکھ مت ہیں۔[9] یہ تمام مذاہب دھرم، کرم اور اہنسا کے فلسفے پر منحصر ہیں۔ بھارت کے تمام مذاہب میں اہنسا کا عنصر غالب رہا ہے اور یہی عنصر مہاتما گاندھي نے برطانوی راج کے خلاف جنگ آزادی میں اپنایا تھا۔ بیرونی مذاہب میں ابراہیمی مذاہب جیسے یہودیت، مسیحیت اور اسلام بھی بھارت میں موجود ہیں۔[10] ان کے علاوہ زرتشتیت[11][12] اور بہائیت بھی یہاں پائے جاتے ہیں اور دونوں کا اسلام سے گہرا تعلق ہے۔[13][14][15][16][17][18][19]

تہوار ترمیم

 
رنگولی artwork is usually made during دیوالی or Tihar، اونم، Pongal and other Hindu festivals in the Indian subcontinent.

بھارت ایک کثیر ثقافتی ملک ہے جہاں متعدد مذاہب کے ماننے والے مختلف زبانیں بولتے ہیں اور اپنے اپنے الگ الگ تہوار مناتے ہیں۔ بھارت میں کل تین سرکاری تعطیلات ہیں؛ یوم آزادی بھارت، یوم جمہوریہ بھارت اور گاندھی جینتی اور یہ تینوں ملک بھر میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ مشہور مذہبی تہواروں میں نوراتری، کرشن جنم اشٹمی، دیوالی، مہا شیوراتری، گنیش چترتھی، درگا پوجا، ہولی، رتھ یاترا، اوگادی، اونم، وسنت پنچمی، رکشا بندھن اور درگا پوجا۔ بہت اہم ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. The Chacha Nehru we hardly know! - IN SCHOOL – The Hindu
  2. Atheist Siddaramaiah and God's changing role in politics – Rediff.com India News
  3. All Indians are Hindus, says RSS chief – NATIONAL – The Hindu
  4. Nearly 60% of Indians speak a language other than Hindi | India News – Times of India
  5. https://thewire.in/politics/tamil-nadu-anti-hindi-protests
  6. Marathi-Hindi Row Turns Ugly in Mumbai, Hawkers Thrash MNS Workers – News18
  7. https://www.mainstreamweekly.net/article1094.html
  8. Adams, C. J.، Classification of religions: Geographical، دائرۃ المعارف بریٹانیکا، 2007. Accessed: 15 جولائی 2010
  9. Chad M. Bauman (2016)۔ "Faith and Foreign Policy in India: Legal Ambiguity, Selective Xenophobia, and Anti-minority Violence"۔ The Review of Faith & International Affairs۔ 14 (2): 31–39۔ doi:10.1080/15570274.2016.1184437 
  10. Houtsma 1936, p. 100، Volume 2
  11. Stepaniants Marietta, 2002, The Encounter of Zoroastrianism with Islam, journal=Philosophy East and West, volume 52, issue 2, University of Hawai'i Press, page 163.
  12. Friedrich W. Affolter (2005)۔ "The Specter of Ideological Genocide: The Bahá'ís of Iran" (PDF)۔ War Crimes, Genocide and Crimes Against Humanity۔ 1 (1): 75–114 
  13. Mottahedeh, Roy, The Mantle of the Prophet : Religion and Politics in Iran، One World, Oxford, 1985, 2000, p.238
  14. Ann K. S. Lambton, 1981, State and government in medieval Islam: an introduction to the study of Islamic political theory: the jurists, Routledge, page 205, آئی ایس بی این 9780197136003۔
  15. Meri Josef W.، Bacharach Jere L.، 2006, Medieval Islamic Civilization: L-Z, index, series: Medieval Islamic Civilization: An Encyclopedia, volume = II, Taylor & Francis, pages 878, آئی ایس بی این 9780415966924
  16. "Under Persian rule"۔ BBC۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2009 
  17. "Desh Pardesh: The South Asian Presence in Britain"، p. 252, by Roger Ballard
  18. "Situation of Baha'is in Iran"۔ 27 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2018 
  19. Diwali 2013: Hindu Festival Of Lights Celebrated All Over The World Nadine DeNinno, International Business Times (نومبر 02 2013)
  20. D. Appukuttan Nair (1993)۔ Kathakali, the Art of the Non-worldly۔ Marg Publications۔ صفحہ: 47۔ ISBN 978-81-85026-22-0 
  21. James G. Lochtefeld 2002, p. 208.
  22. "Nagaland's Hornbill Festival"۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 دسمبر 2018