اسامہ بن لادن
اس مضمون کی غیرجانبداری یا اس میں شامل مواد و مآخذ کی صحت شکوک سے بالاتر نہیں۔ ویکیپیڈیا میں ایسے مواد کو جلد درست نا کیے جانے پر حذف کر دیا جاتا ہے، تبادلۂ خیال۔ |
اسامہ بن لادن کا مکمل نام اسامہ بن محمد بن عوض بن لادن ،اسامہ بن لادن 10 مارچ 1957ء کو سعودیہ عرب(جزیرۃ العرب) کے دار الحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ امریکا کی دہشت گردوں کی فہرست میں ان کا نام شامل ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس کی فوج نے اسامہ بن لادن کو یکم مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں قتل کر دیا۔
اسامہ بن لادن | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: أسامة بن لادن) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائشی نام | (عربی میں: أسامة بن محمد بن عوض بن لادن) | ||||||
پیدائش | 10 مارچ 1957ء [1][2][3][4][5][6] ریاض [7] |
||||||
وفات | 2 مئی 2011ء (54 سال)[8][1][3][4][5][9][10] | ||||||
وجہ وفات | گولی کی زد [11] | ||||||
مدفن | بحیرہ عرب | ||||||
شہریت | سعودی عرب (1957–1994)[12][13] بے وطنی (1994–2011) |
||||||
بالوں کا رنگ | سیاہ [6] | ||||||
قد | 195 سنٹی میٹر [6] | ||||||
وزن | 75 کلو گرام [6] | ||||||
استعمال ہاتھ | بایاں [6] | ||||||
رکن | القاعدہ [14] | ||||||
زوجہ | نجوی بن لادن (1974–2001) | ||||||
اولاد | سعد بن لادن ، عمر بن لادن ، حمزہ بن لادن ، عبد اللہ لادن | ||||||
تعداد اولاد | 26 | ||||||
والد | محمد بن عوض بن لادن | ||||||
والدہ | حمیدہ العطاس | ||||||
بہن/بھائی | سالم بن لادن ، طارق بن لادن ، بکر بن لادن ، یسلم بن لادن |
||||||
خاندان | بن لادن خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
القاعدہ امیر (1 ) | |||||||
برسر عہدہ 11 اگست 1988 – 2 مئی 2011 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ ملک عبد العزیز (–1979) جامعہ ملک عبد العزیز (–1981) التغر ماڈل اسکول (1968–1976) برمانا ہائی اسکول |
||||||
تخصص تعلیم | معاشیات ،پبلک ایڈمنسٹریشن | ||||||
پیشہ | جہادی ، سول انجیئنر ، کاروباری شخصیت [15][16][17]، دہشت گرد [18] | ||||||
مادری زبان | عربی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [19]، عربی [20][6]، پشتو [6] | ||||||
تحریک | سلفی جہادیت ، اتحاد اسلامی ، ضد سامیت ، اشتمالیت مخالف ، امریک مخالف ، ضد صیہونیت | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | مکتب الخدمات ، القاعدہ | ||||||
عہدہ | امیر | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | افغانستان میں سوویت جنگ ، جنگ افغانستان ، دہشت پر جنگ | ||||||
ویب سائٹ | |||||||
IMDB پر صفحہ | |||||||
درستی - ترمیم |
سوانح
خاندانی پس منظر
اسامہ بن لادن کا تعلق سعودی عرب کے مشہور رئیس خاندان بن لادن خاندان سے ہے۔ اسامہ بن لادن محمد بن عوض بن لادن کے صاحبزادے ہیں جو شاہ فیصل کے خاص دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ بن لادن کا کاروبار پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسامہ کے بقول ان کے والد نے امام مہدی علیہ اسلام کی مدد کے لیے کروڑوں ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا تھا۔ اور وہ ساری زندگی امام مہدی کا انتظام کرتے رہے۔ ایک انٹرویو میں اسامہ بن لادن نے اپنے والد کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ "شاہ فیصل دو ہی شخص کی موت پر روئے تھے، ان دو میں سے ایک میرے والد محمد بن لادن تھے اور دوسرے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ [حوالہ درکار]
تعلیم
اسامہ بن لادن نے ابتدائی تعلیم سعودی عرب سے ہی حاصل کی بعد ازاں انھوں نے ریاض کی کنگ عبد العزیز یونیورسٹی سے ماسٹر ان بزنس ایڈمنسٹریشن (MBA)کیا۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں بعض مغربی صحافیوں کا ماننا ہے کہ انھوں نے لندن کی کسی یونیورسٹی سے انجینئری کی ڈگری حاصل کی تھی، تاہم اسامہ بن لادن کے قریبی حلقے سے اس خیال کی نفی ہوتی ہے۔
عملی میدان
80 کے عشرے میں اسامہ بن لادن مشہور عرب عالم دین شیخ عبد اللہ عظائم کی تحریک پر اپنی تمام خاندانی دولت اور عیش و آرام کی زندگی کو خیر باد کہہ کر کمیونسٹوں سے جہاد کرنے کے لیے افغانستان آ گئے۔ مجاہدین کے ہاتھوں روس کی شکست کے بعد جب مجاہدین کی قیادت افغانستان میں اقتدار کے حصول کے لیے آپس میں جھگڑ پڑی تو اسامہ بن لادن مایوس ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔ جب اسامہ بن لادن سعودی عرب میں تھے تو صدام حسین نے 1991ء میں کویت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس موقع پر جہاں دنیا کے اکثر ممالک نے عراق کے اقدام کو کھلی جارحیت قرار دیا وہاں باقی عرب ممالک عراق کے اس قدم کو مستقبل میں اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہو جہاں امریکا نے ایک طرف کویت کا بہانہ بنا کر عراق پرحملہ کر دیا تو دوسری طرف وہ سعودی عرب کی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہانہ بنا کر شاہ فہد کی دعوت پر مقدس سرزمین میں داخل ہو گیا۔ تاہم اس موقع پر اسامہ بن لادن نے مقدس سرزمین پر امریکی فوجیوں کی آمد کی پر زور مخالفت کی اور شاہ فہد کو یہ تجویز دی کہ عراق کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک اسلامی فورس تشکیل دی جائے اور امید دلائی کہ وہ اس کام کے لیے اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کریں گے تاہم خادم حرمین الشرفین شاہ فہد نے شیخ اسامہ کے مشورے کو یکسر نظر انداز کرکے امریکیوں کو مدد کی اپیل کر دی۔ جس کے نتیجے میں شاہی خاندان اور اسامہ کے مابین تلخی پیدا ہو گئی اور بالآخر 1992ء میں اسامہ بن لادن کو اپنا ملک چھوڑ کر سوڈان جانا پڑا۔
اسامہ بن لادن نے سوڈان میں بیٹھ کر مقدس سرزمین پر ناپاک امریکی وجود کے خلاف عرب نوجوانوں میں ایک تحریک پیدا کی اور اس کے ساتھ دنیا بھر میں جاری دیگر اسلامی تحریکوں سے رابطے قائم کیے۔ اسی دوران میں اسامہ بن لادن نے دنیا بھر میں امریکی مفادات پر حملوں کا مشہور فتویٰ بھی جاری کر دیا۔ جس کو ساری دنیا میں شہرت ملی یہاں تک کہ اسامہ بن لادن کی امریکا مخالف جدوجہد کی بازگشت امریکی ایوانوں میں سنائی دینے لگی۔ یہ وہ وقت جب تنزانیہ اور نیروبی میں امریکی مفادات پر کامیاب حملوں کے بعد سوڈانی حکومت اسامہ بن لادن کی سوڈان میں موجوگی پر شدید امریکی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
اسی دوران میں طالبان پاکستانی ایجینسیوں کی مدد سے کابل فتح کر کے تقریباً 60 فیصد افغانستان پر قدم جما کر ایک مستحکم حکومت قائم کر چکے تھے۔ اسی سال یعنی 1996ء میں اسامہ بن لادن اپنے ایک پرائیویٹ چارٹرڈ جہاز کے ذریعے افغانستان پہنچے جہاں انھیں طالبان کے امیر ملا محمد عمر اخوند کی جانب سے امارات اسلامیہ افغانستان میں سرکاری پناہ حاصل ہو گئی۔ اسامہ بن لادن نے افغانستان کے مانوس ماحول میں بیٹھ کر اپنی تنظیم القاعدہ کو ازسر نو منظم کیا اور دنیا بھر میں آمریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ اسامہ بن لادن نے اپنے جہادی ٹھکانے زیادہ تر جلال آباد سے قریب تورا بورا میں قائم کیے۔ 1997ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالا مگر طالبان نے اپنے مہمان کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد طالبان اور امریکا میں تلخی کافی بڑھ گئی۔
القاعدہ کا قیام
1998ء میں امریکا نے کروز میزائل سے افغانستان اور سوڈان پر حملہ کیا اور دعوی کیا کہ حملے میں اسامہ بن لادن کے جہادی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور حملوں کا مقصد اسامہ بن لادن کی زندگی کو ختم کرنا تھا۔ اس حملے کے بعد اسامہ بن لادن کو اسلامی دنیا میں ایک نئی شناخت ملی۔ پوری دنیا میں ان کی شہرت ہوئی اور ہر جگہ انہی کا تذکرہ ہونے لگا۔ اس حملے کے بعد القاعدہ کے قدرے کم مقبول رہنما پوری دنیا میں امریکی عزائم اور جارحیت کے سامنے واحد مدمقابل کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ ان حملوں کے بعد القاعدہ کو رضاکار بھرتی کرنے میں بھی آسانی ہو گئی۔ ان حملوں کے بعد اسامہ بن لادن روپوش ہو گئے اور عوامی اجتماعات میں شرکت سے اجتناب برتنا شروع کر دیا۔ امریکی حکومت نے 11 اکتوبر2001ء کو امریکا کے شہروں نیو یارک اور واشنگٹن میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا الزام محض ایک گھنٹے کے اندر ہی ہزاروں میل دور بیٹھے اسامہ بن لادن پر لگا دیا۔ تاہم اسامہ بن لادن نے اس واقعہ میں ملوث ہونے سے واضح انکار کیا۔ اس کے باوجود دنیا کے سب سے طاقت ور ملک نے اقوام متحدہ کی منظوری کے ساتھ کم از کم چالیس دوسرے خوش حال ملکوں کے ساتھ مل کر اکتوبر 2001ء کے وسط میں دنیا کے کم زور ترین اور پسماندہ ترین ملکوں میں سے ایک افغانستان پر دھاوا بول دیا۔ تاہم سات سال گذر جانے کے باوجود اسے اپنے بنیادی مقصد یعنی اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القاعدہ کو ختم کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ آج بھی امریکیوں کے پاس میڈیا کو جاری کرنے کے لیے دعوے تو بہت ہیں لیکن درحقیقت ان کے دامن میں نا کامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آخری ایام
اسامہ بن لادن کی زندگی کی طرح ان کی موت بھی ساری دنیا کے لیے ایک معما رہی۔ اور اس کی وجہ بھی خود امریکی حکام کا رویہ ہی تھا۔ ایک نکتۂ نظر کے مطابق ان کی موت کچھ اس طرح ہوئی۔ 10 مئی کو ڈان نیوز ٹی وی پر خبر القاعدہ کی وضاحت شائع ہوئی ،جس میں بتایا گیا کہ شیخ اسامہ بن لادن 2003ء میں انتقال کر گئے تھے۔ حالانکہ 4 مئی کو ایک جہادی ویب گاہ کے حوالے سے یہ بات پھیلائی گئی کہ القاعدہ نے اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق کی ہے۔[21]
القاعدہ کے رابطوں کا کئی سال تک تعاقب اور پکڑے گئے قیدیوں سے تفتیش کے نتیجے میں سی آئی اے نے پتہ لگایا کہ پاکستانی علاقے ایبٹ آباد میں ایک مکان ایسا ہے جس کے رہائشی پراسرار حد تک خود کو سماجی و معاشرتی معاملات میں محدود رکھتے ہيں۔ حتی الامکان اس جگہ کی جاسوسی کرنے کے باوجود حکام اس میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق کرنے میں ناکام رہے۔ بالآخر امریکی حکام نے رسک لینے کا فیصلہ کیا۔ پینٹاگون نے اس مکان پر فوجی آپریشن کی منظوری دی اور اس آپریشن کے لیے افغانستان میں بگرام میں موجود امریکی فوجی اڈے کو آپریشن مرکز بنایا گیا۔ اس سلسلے میں امریکی فوجیوں کو اس بات کا اندیشہ نہيں تھا کہ وہ پاکستانی علاقے میں جارحیت کرنے جار ہے ہيں کیوں کہ انھیں یقین تھا کہ پاکستانی حکام پچھلے واقعات کی طرح اس دراندازی پر بھی خاموش رہیں گے۔ اندیشہ صرف اس بات کا تھا کہ کہیں اتنے اہم اوربڑے آپریشن کے نتیجے میں اسامہ بن لادن تو دور کی بات القاعدہ کا کوئی رکن بھی ہاتھ نہ لگا تو آنے والے وقتوں میں ان کے حوصلے ٹوٹ سکتے ہيں۔ ان کے بقول خلاف توقع آپریشن کامیاب رہا۔
یکم اور دو مئی 2011ء کی درمیانی شب تین امریکی فوجی ہیلی کاپٹر نے پاکستانی سرحد عبور کر کے اس مکان پر دھاوا بول دیا۔ آپریشن کے ابتدائی مرحلے میں ہی ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا۔ (جس کے متعلق یہ بھی شبہ ہے کہ اسے امریکی حکام نے خود مار کر گرایا تا کہ آپریشن میں اپنے لیے ہمدردی کا جواز پیدا کر سکیں) آپریشن جاری رہا۔ مکان میں اسامہ بن لادن کے ساتھ اس کے بیوی بچے بھی موجود تھے۔ بعض القاعدہ ارکان کے بقول اسامہ بن لادن ہر وقت خود کش جیکٹ پہنے رہتے تھے۔ لہذا انھوں نے گرفتاری سے پہلے ہی خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ جب کہ امریکی فوجیوں کے دعوے کے مطابق بن لادن کو گولی ماری گئی۔ ایک امریکی فوجی کے بیان کے مطابق بن لادن گرفتاری کے وقت غیر مسلح تھا [22]
اس آپریشن کے مناظر براہ راست مختلف مقامات پر نشر کیے جاتے رہے جس میں پینٹاگان اور وائٹ ہاؤس بھی شامل ہیں۔ آپریشن چند ہی منٹوں میں ختم ہو گیا۔ پاکستانی حکام کو جتنی دیر میں امریکی دراندازی کے بارے میں معلوم ہوا اور ان کے جیٹ طیاروں نے مذکورہ مکان کی طرف آنے کے لیے پرواز کی اس سے پہلے ہی آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں نے اسامہ بن لادن کی لاش، اس کی بیوی بچوں، اس کے مکان سے ملنے والے تمام اہم سامان لٹریچر ہیلی کاپٹر میں ڈال کر افغانستان میں اپنے اڈے پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر ڈی این اے کے ذریعے اسامہ بن لادن کی میت کی پہچان کی گئی۔ مگر بن لادن کے لاش کی تصویر کبھی منظر عام پر نہيں آئی۔ جب کہ اس کی میت کو بھی بحیرہ عرب میں موجود امریکی بحری بیڑے پر پہنچایا گیا بعد ازاں اس کو بحیرہ عرب میں سمندر برد کر دیا گیا۔
مشہور امریکی صحافی سیمور حرش نے اسامہ کی اس حملہ میں موت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی روئداد جھوٹ پر مبنی ہے۔[23]
کا رہائے نمایاں
حرمین کی تعمیر
اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ انھیں ہمیشہ سے مقدس اسلامی مقامات مسجد الحرام اور مسجد نبوی اور سے انتہائی عقیدت رہی ہے۔ ان کی تعمیراتی کمپنی نے شاہ فیصل اور شاہ فہد کے ادوار میں ان دونوں مقدس مقامات کی تعمیر کا کام کیا تھا۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ذاتی طور پر اس منصوبے میں دلچسپی لی اور مختلف توسیعی منصوبے اپنی نگرانی میں مکمل کرائے ۔
مذہبی رجہانات
اسامہ بن لادن کے کٹر مذہبی خیالات خاندان کی طرف وراثت میں ملے تھے۔ محمد بن لادن اور ان کا خاندان ہمیشہ سے امام احمد بن حنبل کا مقلد اور شیخ عبدالوہاب نجدی کے تحریک احیاء توحید و سنت کا حامی اور مددگار رہا تھا۔ شروع میں انھوں نے ایک عرب شہزادے کی سی زندگی گزاری مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے اندر تبدیلیاں آئیں۔ 1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کی خبر انھوں نے ریڈیوپر سنی۔ ابتدا میں انھوں نے افغان مجاہدین کی مالی معاونت کی مگر کچھ عرصے بعد وہ خود اپنی تمام دولت اور اثاثوں کی پروا کیے بغیر میدان کار زار میں اتر آئے۔ اسامہ بن لادن نے شیخ عبداللہ عظائم اور دیگر عرب مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فوجیوں کے دانت کھٹے کر دیے۔
تنازعات
الزامات
اسامہ بن لادن پر کینیا کے دار الحکومت نیروبی کے دھماکوں سے لے کر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملوں کے کئی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے پہلے جہاز ٹکرائے جانے کے صرف پندرہ منٹ کے اندر امریکی میڈیا اور حکومت نے اس کا الزام نیویارک سے ہزاروں میل دور افغانستان کے پہاڑوں میں روپوش اسامہ بن لادن پر عائد کر دیا تھا، تاہم ان پر مختلف حملوں کے ذریعے لگ بھگ 6000 افراد کو لقمہ اجل بنانے کا الزام بھی ہے۔ تاہم اب تک دنیا کی کسی بھی عدالت میں آج تک ان پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن سی آئی اے کے پرانے کارندے ہیں اور سی آئی اے نے ہی انھیں اس جگہ پہنچایا جہاں وہ آج کھڑے ہیں۔ سی آئی اے کے ملٹ بیرڈن (Milt Bearden ) نے بھی ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کی ہے۔ یہی تصدیق ریکس ٹومب (Rex Tomb) نے بھی کی جو سابقہ ایف بی آئی سے تعلق رکھتے تھے۔[24] اگرچہ وائٹ ہاؤس اس بات کی تصدیق نہیں کرتا۔
روپوشی
اسامہ بن لادن دنیا کے سب سے مطلوب شخص ہیں۔ اسامہ بن لادن 1998ء سے پاک افغان بارڈر کے قریب کہیں روپوش ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2001 میں آمریکی حملوں کے بعد اسامہ کا القاعدہ کی آپریشنل ایکٹیویٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ وہ پہاڑوں پر رہتے ہیں اور گھوڑے یا چھڑی کی مدد سے سفر کرتے ہیں۔ مصری سائنس دان اور اسامہ کے دست راست ایمن الظہوری اسامہ کی عدم دستیابی میں القاعدہ کے آپریشنل نگران سمجھے جاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کا اب تک کا آخری انٹرویو مشہور پاکستانی صحافی حامد میر نے 2001ء میں لیا تھا۔ جبکہ ان کا دنیا سے آخری رابطہ 2004ء میں آمریکی انتخابات کے دوران ایک ویڈیو ٹیپ کے ذرئعے ہوا تھا جو عر بی زبان کے ایک سیٹیلائٹ چینل الجزیرہ نے نشر کیا تھا۔
متضاد اطلاعات
2001ء میں امریکی حملے کے بعد سے اسامہ بن لادن کے بارے مختلف متضاد اطلاعات ہر وقت گردش میں رہتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے اسامہ بن لادن آمریکی فوجیوں کے گھیرے میں آ گئے ہیں تو کبھی یہ مشہور ہوجاتا ہے کہ اسامہ بن لادن انتقال کر گئے ہیں۔ بعض لوگ اسامہ بن لادن کی بیماری کی خبریں بھی دیتے ہیں اور کچھ کے خیال میں اسامہ 2001ء میں تورا بورا پر آمریکی حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے تھے ان لوگوں کے مطابق اسامہ کی بعد کے تمام پیغامات جعلی ہیں۔ تاہم ان خیالات میں سے کسی ایک کی بھی تصدیق آج تک نہ ہو سکی اور غالب گمان یہی ہے کہ اسامہ بن لادن پاک افغان سرحد کے قریب کہیں روپوش ہیں۔ امریکی اہلکار بھی اسامہ کی موت کے بارے بیانات دیتے رہے ہیں۔[25]
خاندان
اسامہ بن لادن لادن نے تیں شادیاں کی ہیں اور ان کے 24 یا 25 اولادیں ہیں۔ ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد سعودیہ عرب میں رہائش پزیر ہیں۔ اسامہ کے ایک صاحب زادے ایک ہسپانی دوشیزہ سے شادی کے بعد اسپین میں سیاسی پناہ حاصل کرچکے ہیں اور وہ اپنے والد کی کارروائیوں کے مخالف ہیں۔ اسامہ بن لادن کے چھوٹے بیٹے ان کے ساتھ افغانستان میں ہی موجود ہیں اور وہ القاعدہ کی کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
متعلقہ مضامین
بیرونی روابط
حوالہ جات
- ^ ا ب ربط: https://d-nb.info/gnd/123147808 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb137709717 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6959gdx — بنام: Osama bin Laden — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/69213935 — بنام: Osama Bin Laden — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی — پیرایج پرسن آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4638&url_prefix=https://www.thepeerage.com/&id=p68988.htm#i689874 — بنام: Osama bin Laden — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب پ ت ٹ ث Wanted Terrorist – Usama Bin Laden — سے آرکائیو اصل فی 7 اپریل 2019
- ↑ http://www.smh.com.au/world/a-polite-confident-young-man-born-to-great-wealth-20110502-1e588.html
- ↑ http://www.bbc.co.uk/news/world-us-canada-13256676
- ↑ https://brockhaus.de/ecs/julex/article/bin-laden-osama — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Roglo person ID: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=7929&url_prefix=https://roglo.eu/roglo?&id=p=oussama;n=ben+laden — بنام: Oussama Ben Laden
- ↑ عنوان : The Finish — ISBN 978-1-61185-984-3
- ↑ http://www.nytimes.com/1998/10/18/world/backed-by-us-saudis-seek-afghan-ouster-of-bin-laden.html
- ↑ http://www.nytimes.com/2009/07/23/world/middleeast/23amnesty.html
- ↑ https://irp.fas.org/world/para/post.pdf — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2021
- ↑ http://www.boston.com/news/world/middleeast/gallery/pakistan_bin_laden_scenes/
- ↑ http://www.boston.com/news/world/gallery/050211_bin_laden_media_coverage/
- ↑ http://www.boston.com/news/nation/specials/remembering_sept11/
- ↑ https://www.iss.europa.eu/sites/default/files/EUISSFiles/chai56e.pdf — اخذ شدہ بتاریخ: 27 ستمبر 2021
- ↑ http://www.irishcentral.com/news/bin-ladens-irish-teacher-remembers-an-inoffensive-young-fellow-121238624-237385361.html
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb137709717 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ محمد عطاء اللہ صدیقی (25 مئی 2011ء)۔ "ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی"
- ↑ "بن لادن غیر مسلح تھا . امریکی فوجی کا بیان"۔ وقت نیوز۔ اگست 2012
- ↑ "Seymour Hersh on Obama, NSA and the 'pathetic' American media"۔ گارجین۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ ایک ویڈیو جس میں اسامہ کے سی آئی اے سے تعلق کی نشاندہی کی گئی ہے یوٹیوب پر
- ↑ "Inside Sources: Bin Laden's Corpse Has Been On Ice For Nearly a Decade"۔ ای یو ٹائمز۔ 2 مئی 2011ء۔ 14 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2011
{[اسامہ بن لادن}}
ویکی ذخائر پر اسامہ بن لادن سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |