رابرٹ کلارک (مبلغ)
رابرٹ کلارک اور اس کا ساتھی تھامس ہنری فٹزپیٹرک چرچ مشنری سوسائٹی کے پنجاب میں مقرر کردہ پہلے انگریز مشنری تھے۔ رابرٹ کلارک پادری ہنری کلارک کا بیٹا تھا۔ اُس کی ماں انگلستان کے ایک قدیم اور معزز خاندان کی لڑکی تھی۔
رابرٹ کلارک (مبلغ) | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 جولائی 1825ء [1] ہارمسٹن |
وفات | 16 مئی 1900ء (75 سال)[1] کسولی، ہماچل پردیش |
شہریت | انگلستان |
اولاد | ہنری مارٹن کلارک |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ٹرینٹی کالج، کیمبرج جامعہ کیمبرج |
پیشہ | مبلغ |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی ، پشتو ، انگریزی |
درستی - ترمیم |
ابتدائی سال
ترمیموہ 4 جولائی 1825ء کے روز ہارمسٹن، لنکنشائر میں پیدا ہوا۔ اُس کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ رابرٹ لڑکپن ہی سے تمام خاندان میں ہوشیار اور ذہین خیال کیا جاتا تھا۔ اُس کی صحت بہت اچھی تھی اوراُس کو کھیلوں کا بڑا شوق تھا۔ لڑکپن ہی سے وہ مسیحیت کا پرجوش پیرو تا۔ لیکن اُس کو مشنری بننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ جب وہ لڑکا ہی تھا وہ اپنے والدین کے ساتھ سی۔ ایم۔ ایس۔ (چرچ مشنری سوسائٹی) کے ایک جلسہ سے واپس آ رہا تھا۔ راہ میں اُس کے باپ نے اپنی بیوی کو کہا کہ اگر میرے بیٹے مشنری خدمت کرنا چاہیں تو میں خوشی سے سب کو اجازت دے دوں گا۔ رابرٹ نے یہ سن کر جواب دیا کہ میں اُن بیٹوں میں سے نہیں ہوں گا کیونکہ نہ تو میں قسیس بننا چاہتا ہوں اور نہ مشنری۔ جب رابرٹ جوان ہوا تو اُس کو تجارت کرنے کا شوق ہوا۔ اُس کے والدین نے اُس کو جرمنی بھیجا تاکہ تجارت کی تعلیم حاصل کرے۔ 1842ء میں واپس انگلستان آیا تو لیورپول ایک بڑے تاجر کے ہاں ملازم ہو گیا۔ اور نہایت کامیابی سے کام چلاتا رہا۔ انہی دنوں میں اُس کے دل میں مسیحیت سے نزدیکی پیدا ہوتی گئی اور اس قربت اور رفاقت کی وجہ سے اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ تجارت کو چھوڑ کر مسیحیت کی تبلیغ کا کام کرے گا۔ پھر اُس کے والدین نے اُس کو کیمبرج یونیورسٹی میں تحصیل علم کے لیے بھیجا۔ وہ 1847ء میں ٹرینٹی کالج کیمبرج میں داخل ہو گیا 1850ء میں اُس نے بی۔ اے پاس کیا اور فہرست میں وہ اٹھائیسواں رینگلر تھا۔ اپریل 1850ء میں اُس نے والدین کو لکھا کہ میں مشنری بننا چاہتا ہوں۔ جب انھوں نے اجازت دے دی تو اُس نے سی۔ ایم۔ ایس کے ساتھ خط کتابت شروع کردی۔ ان دنوں انگریزوں نے پنجاب پر نیا نیا قبضہ جمایا تھا اور سپاہیوں کو انجیل کی تعلیمات سے روشناس کروانے کے لیے چرچ مشنری سوسائٹی نے رابرٹ کلارک اور پادری ٹامس ہنری فٹزپیٹرک اور اُس کی بیوی کو پنجاب کے پہلے مشنری مقرر کیا۔ روانہ ہونے سے قبل الوادعی جلسے پر کارل گوٹلیب فینڈر نے اُن کو ہدایات دیں۔
پنجاب آمد
ترمیموہ 29 اگست 1851ء کو ہندوستان کے لیے براہ راس امید روانہ ہوا اور 4 جنوری 1852ء کو کلکتہ پہنچا۔ اور دوہزار میل کے قریب کشتیوں، ڈولیوں، بیل گاڑیوں میں سفر کرتا ہوا اپریل میں امرتسر پہنچ گیا۔ جب رابرٹ کلارک امرتسر پہنچا توپادری فٹزپیٹرک اوراُس کی بیوی نے (جو امرتسر میں پہلے مقیم تھے) اور پنجاب کے حکامِ اعلٰی ہنری لارنس و جان لارنس نے اُس کا بڑے تپاک سے خیر مقدم کیا۔ ان دنوں میں امرتسر میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جس میں یورپین رہ سکے۔ رام باغ میں ایک چھوٹا گھر تھا جو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بنوایا تھا اس میں رابرٹ کلارک نے سکونت اختیار کی۔ پنجاب کی مذہبی تاریخ میں یہ گھر ایک دائمی یادگار رہے گا کیونکہ اسی گھر میں رابرٹ کلارک نے پنجاب مشن کے متعلق تجاویز سوچیں۔ اس کے ارد گرد وہ لوگ بستے تھے جن کی زبان، طریق معاشرت سے اور جن کے مذاہب سے وہ ناآشنا تھا۔ دورِ حاضرہ میں پردیسیوں کے لیے زبان کی تحصیل کے لیے قواعد اور لغات ہیں لیکن اُس زمانہ میں یہ چیزیں موجود نہ تھیں۔ پنجاب کے مسیحیوں نے مشنریوں کی بڑی مدد کی۔ انگریز مسیحیوں نے فراخدلی سے چندہ دیا اور عمارتیں کھڑی کر دیں۔ ہندوستانی مسیحی مشنریوں کے تبلیغی کام میں ہمخدمت ہو گئے۔ اُن میں سے ایک پادری عماد الدین تھے اور دوسرے داؤد سنگھ تھے۔ داؤد سنگھ پہلا سکھ تھا جس نے مسیحی دین اختیار کیا۔ ایک اور داؤد سنگھ تھا جو ہندوستان کا رہنے والا تھا، یہ شخص انگریزوں کے خلاف مہاراجا کی فوج میں لڑتا رہا۔ اُس نے بنارس میں ستمبر 1850ء میں بپتسمہ پایا۔ یہ تینوں ہندوستانی کلارک کے مددگار تھے۔ اپریل 1852ء میں رابرٹ کلارک نے امرتسر شہر میں ایک اسکول کھولا جس میں پہلے دن پچاس طالب علم داخل ہو گئے۔ ان طلبہ میں پنجابی، افغان، ہندوستانی، کشمیری، ہندو، سکھ اور مسلمان تھے۔ طلبہ کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی۔ اسکول شروع ہونے سے پہلے روزانہ کتاب مقدس کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان طلبہ کے ذریعہ انجیل کا پیغام امرتسر کے باشندوں میں پھیلنے لگا۔ 20 اکتوبر 1852ء کے روز امرتسر کے بازار میں پہلی دفعہ انجیل کی تبلیغ رابرٹ کلارک نے پنجابی زبان میں کی 1852ء میں شہر کی فصیل کے باہر ایک بڑا قطعہ بنجر زمین کا نہایت کم قیمت پر خریدا گیا جہاں روز روشن میں لوگ ڈاکوؤں کے خوف کے مارے نہیں جاتے تھے۔ وہاں گھر بنائے گئے اور باغ لگائے گئے اور 1853ء کے شروع میں اس قطعہ زمین میں رابرٹ کلارک نے بڑ کا مشہور درخت لگایا جو آج تک امرتسر کے آرچڈیکن کے احاطہ میں کھڑا ہے۔ سکھ مت کے قلعہ امرتسر میں مسیحیت خوب پھلی پھولنے لگ گئی اور اثنا میں امرتسر کی کلیسیا بڑھتی گئی اوراُس سال پادری ڈبلیو۔ جے نے مہاراجا دلیپ سنگھ کو بپتسمہ دیا۔ اب تک 23 لوگوں نے بپتسمہ پایا تھا۔
مختلف مقامات کا دورہ
ترمیم20 اپریل 1854ء کے روز رابرٹ کلارک کشمیر، لداخ، اسکادو، مغربی تبت اور تبت خورد کا علاقہ دیکھنے کے لیے روانہ ہو گیا تاکہ ان ممالک میں انجیل کا پیغام سنایا جائے اور معلوم کرے کہ کن ذرائع سے ان ممالک میں کامیابی کے ساتھ تبلیغ کا کام کیا جا سکے گا۔ اس سفر میں رابرٹ کلارک کے ساتھ تین ہندوستانی مسیحی بھی تھے۔ کلارک سیالکوٹ کی طرف سے ہوتا ہوا راجوری اور پونچھ کے راستہ سے انجیل کی منادی کرتا 20 مئی کو کشمیر پہنچا۔ اُن دنوں مہاراجا گلاب سنگھ حکمران تھا۔ اُس نے بڑے تپاک سے کلارک کا خیر مقدم کیا۔ کلارک کا یہ اصول تھاکہ انجیل کے پیغام کو وہ پہلے حکام اور معزز لوگوں میں پہنچاتا۔ گو وہ ادنیٰ لوگوں کو بھی اس پیغام سے کبھی محروم نہیں رکھتا تھا۔ پس اُس نے مہاراجا کے کان بھرنے شروع کیے تو اُس نے جواب دیا "جانے بھی دو۔ میری رعایا ایسی بُری ہے کہ کوئی شخص ان کو زیادہ بُرا نہیں بنا سکتا۔" کشمیر سے تبت تک کلارک منادی کرتا انجیلیں فروخت کرتا اور ہینڈبل اور کتب تقسیم کرتا گیا۔ وہ لوگوں کے گھروں کے اندر، باہر درختوں کے نیچے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں اورآبشاروں کے پاس بیٹھ کر لوگوں سے مذہبی گفتگو کرتا اور ہندوؤں، مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروؤں میں انجیل کا بیج بوتا گیا۔ اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ انجیل کے پیغام کا چرچا ہر طبقہ، ذات، ملت، قوم اور قبیلہ کے افراد تک دُور دُور پہنچ جائے۔ حتی المقدور وہ دیگر مذاہب کے عقائد پر حملہ کرنے سے پرہیز کرتا۔ اور بحث مباحثہ میں نہ الجھتا تھا۔ لداخ پہنچ کر اُس نے کاشفر اور یارقند کی نسبت استفسار کیا تاکہ معلوم کرسکے کہ وہاں انجیل کا پیغام کس طرح پہنچ سکتا ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سوائے یورپین لوگوں کے سب کو ان شہروں میں جانے کی اجازت ہے کیونکہ وہاں کے بادشاہ کو خوف ہے کہ اگر وہ اُس کے ملک میں آگھسے تو ملک پر قبضہ کیے بغیر نہ جائینگے۔ کلارک نے ایک تاجر کے ہاتھ وہاں کے مُلا کے لیے ایک فارسی عہدِ جدید کی جلد اور میزان الحق کی جلد بھیجی۔
ان ممالک کی نسبت کلارک نے چرچ مشنری سوسائٹی کو لکھاکہ "مغربی تبت اوروسط تبت میں انجیل کی اشاعت کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ ہاں لاسہ میں ضرور مشکلات درپیش ہوں گی۔ پس ان حصوں میں فوراً مشن کو قائم کرنا چاہیے۔ ایک مشنری خاص تبت کے لیے ہونا چاہیے جووہاں ہمیشہ سکونت پزیر ہو جب تک کہ وہاں کی حکومت اُس کوباہر نہ نکالے۔ مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ انگریزی مشن صرف وہاں قائم ہوں جہاں انگریزی راج ہی ہو۔ ہم کو حکم ہے کہ ہم ہر جگہ انجیل کی منادی کریں"۔ اس سفر کا یہ نتیجہ ہواکہ کلارک نے یہ تجویز کی کہ انجیل جلیل کا پیغام پنجاب سے لے کر چین تک سنایا جائے اورپنجاب سے لے کر وسط ایشیا کی راہ چین تک مختلف مرکزوں میں مشنری رہائش اختیار کریں۔ کلارک کی تمام زندگی بھر یہ نصب العین ہمیشہ اُس کی نظر کے سامنے رہا۔ اس غرض کی تکمیل کے لیے اُس نے کوشش کی کہ گرمکھی، پشتو، کشمیری اور تبتی زبانوں میں کتابِ مقدس کے ترجمے ہوجائيں۔
پشاور آمد
ترمیم1854ء کے آخر میں چرچ مشنری سوسائٹی نے پشاور کے انگریزی افسروں کو جو وہاں کے لیے ایک مشنری کی درخواست کرتے تھے جواب دیا کہ ہم آگرہ سے فینڈر کو اور امرتسر سے کلارک کو پشاور تبدیل کر کے بھیج رہے ہیں۔ کلارک 1855ء کے اوائل میں پشاور پہنچ گیا۔ وہ کہتا ہے "میں اس کو عزت اور فخر کی بات سمجھتا ہوں کیونکہ اب مجھے وہی رتبہ حاصل ہوا ہے جو رسولوں کو حاصل تھا یعنی مسیح کے نام کی منادی اُن مقاموں میں کروں جہاں کوئی اور مبلغ نہیں پہنچا۔"
پشاور علمائے اسلام کا مرکزی مقام تھا جہاں کابل تک سے لوگ فتویٰ مانگنے آتے تھے پس کلارک نے 14 مئی 1855ء کے روز عین شہر کے درمیان میں ایک ہائی اسکول کھول دیا۔ تاکہ مسیحیت کا پیغام گنجان آبادی کے درمیان میں دے۔ ابھی اسکول قائم ہوئے دو ماہ بھی نہ گذرے تھے کہ اُس میں نوے طلبہ داخل ہو گئے۔ اُن میں سے ایک ملک جارجیا کے باشندوں کی اولاد تھا۔ بعض طلبہ تاتاری تھے بعض ایرانی اور کابلی تھے اور بعض یاغستان کے پہاڑوں سے آئے تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو پشاوی علما اسلام کے قدموں میں اسلامی علوم سیکھنے کی خاطر آئے تھے۔ بعض اہل ہنود تھے اور بعض طلبہ شہر کے اعلٰی ترین خاندانوں میں سے تھے۔ ابتدا ہی سے پشاور چھاؤنی کے بازار میں مسیحیت کی منادی شروع ہو گئی اور چند ماہ بعد ڈاکٹر فینڈر اور کلارک نے شہر کے بازاروں میں انجیل کی منادی شروع کردی۔ منادی کے وقت لوگ جوق درجوق جمع ہوجاتے تھے۔ بعض اوقات بڑا شوروغوغا ہوتا۔ لیکن بالعموم لوگ تحمل اورصبر کے ساتھ انجیل کا پیغام سنتے تھے۔ ڈاکٹر فینڈر لکھتاہے "ہمارے احباب کہتے تھے کہ شہر میں منادی کرنا نہایت خطرناک امر ہے اورہماری نسبت اُن کوبڑی تشویش تھی۔ لیکن خدا کا فضل ہمارے شامل جال رہا ہے۔ اب تک نہ کوئی بلوا ہواہے اور نہ کوئی فتنہ مچا ہے بلکہ انجیل کا نجات بخش پیغام نہ صرف شہر کے لوگوں میں بلکہ دیہات میں اوراردگرد کے قصبہ جات میں اس طریقہ سے پہنچ گیا ہے"۔ مشنری چاہتے تھے کہ وہ انجیل کی منادی کریں اور اسلام پر حملے کرنے سے پرہیز کریں۔ جب لوگ ایسے سوال کرتے تھے جن سے اُن کے مذہب اورقرآن پر حملے ہونے ناگریز ہوتے تووہ اُن سے کہتے کہ یا تم ہمارے ساتھ چلو یا ہم تمھارے ساتھ چلتے ہیں تاکہ ان باتوں پر اطمینان سے دیر تک بحث کرسکیں۔ مشنری اس غرض کے واسطے لوگوں کے گھروں میں آیا جایا کرتے تھے اور لوگ ان کے گھروں میں آیا جایا کرتے تھے۔ کتب مقدسہ اور دیگر کتابیں عوام میں تقسیم کی گئیں اوران کے علاوہ ڈاکٹر فینڈر کی کتب علمائے اسلام کوب ھیجی گئيں۔ کلارک پہلا مشنری تھا جس نے پشتو زبان میں مسیحی کتُب تصنیف کیں۔
رابرٹ کلارک پشاور کے گرد و نواح کے دیہات میں بھی انجیل کی منادی کیا کرتا تھا۔ شہر میں منادی کے لیے اُس نے ایک جگہ خریدی اور وہاں مارٹن چیپل قائم کیا تاکہ اُس جگہ منادی کی جائے۔ یہ جگہ قصہ خوانی بازار کے آگے بائیں طرف کے موڑ پر واقع تھی جہاں بازاری منادی باقاعدہ کی جاتی تھی۔ جب راقم السطور پشاور مشن کالج میں فلسفہ کا پروفیسر تھا تو اُس زمانہ میں وہاں باقاعدہ منادی کرنے جایا کرتا تھا۔
ایک دفعہ جب رابرٹ کلارک اسکول میں پڑھ رہا تھا تو ایک افغان ایک عرضی لے کر پاس آیا۔ ایک لڑکے نے اُس کی کمر میں ایک خنجر چھپا دیکھ لیا۔ اور اُس نے فوراً آنکھ سے اشارہ کیا۔ کلارک ایک طرف ہٹ گیا۔ خنجر اُس کے پاس سے نکل گیا۔ اُس کے کپڑوں میں چھید ہو گیا لیکن وہ خود بچ گیا۔ حملہ آور بھاگ گیا۔ اس واقعے کے بعد اس نے پشاور چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
انگلستان روانگی اور پشاور دوبارہ آمد
ترمیم24 فروری 1857ء کو کلارک چھٹی پر انگلستان چلا گیا۔ اُس کے جانے کے بعد ہندوستان میں ہر جگہ فساد برپا ہو گیا۔ لیکن ہربرٹ ایڈورڈز کی دُوراندیشی نے پشاور کو ایامِ فساد کے مصائب سے محفوظ رکھا۔ ان دنوں میں کلارک نے ڈاکٹر رابرٹ براؤن کی سب سے بڑی لڑکی الزبتھ میری سے شادی کرلی۔ ڈاکٹر براؤن نے کلکتہ میں پینتالیس سال کام کرکے انگلستان رہائش اختیار کرلی تھی۔ اُس کی بڑی لڑکی لاطینی، یونانی، فرانسیسی، جرمن اور اطالوی زبانوں سے اپنی مادری زبان انگریزی کی طرح واقف تھی۔ وہ سنسکرت اور اُردو سے بھی بخوبی واقف تھی۔ دونوں کی شادی 14 مئی 1858ء کے روز ہو گئی اور 15 جون کو وہ انگلستان سے روانہ ہوکر 8 فروری 1859ء کو پشاور پہنچے۔ چونکہ ڈاکٹر فینڈر بھی یورپ گیا ہوا تھا وہ پشاور میں سینئر مشنری مقرر ہو گیا۔
کلارک کی بیوی نے آتے ہی زنانہ کام شروع کر دیا۔ وہ شرفا اور تعلیم یافتہ غیر مسیحیوں کے گھر آتی جاتی تھی کیونکہ وہ و علمِ طب سے واقف تھی۔ اُن کے گھروں میں وہ انجیل پڑھ کر سنایا کرتی تھی اور جب کلارک دورہَ پر باہر جاتا تو بعض اوقات وہ مسلمانوں کے گھروں میں پندرہ بیس روز تک دیسی لباس پہن کر رہائش رکھتی تھی۔ 1859ء کے آخر میں رابرٹ کلارک نے امریکن پرسبٹئیرین مشن کے پادری آیسوڈور لونتھال (Isodore Loewenthal) کے ساتھ صوبہ سرحد کا پشاور سے ملتان تک دورہ کیا تاکہ تبلیغی کام کے لیے مناسب مقامات معلوم کرسکے۔ وہ ماخود، کالا باغ، کوہاٹ، بنوں، ڈیرہ جات وغیرہ میں سے گذرا۔ وہ جہاں جاتا انجیل کی منادی کرتا تھا اور کتُب کو تقسیم کرتا اور فروخت کرتا تھا۔ اس دورے میں انگریزی افسروں اور انگریزی فوج کے سپاہیوں نے افغان مشن کے لیے فراخدلی سے روپیہ عطا کیا۔ اس دورے کا یہ نتیجہ ہوا کہ کلارک نے یہ تجویز کی کہ اُس ملک میں تبلیغی مقامات کی دو زنجیریں پیدا کی جائیں جو صوبہ سرحد، مرکزی پنجاب اور سندھ کو ایک دوسرے کے ساتھ متعلق کریں۔ پہلی زنجیر پنڈ دادنخان سے کالا باغ تک اور دوسری زنجیر پشاور سے ملتان تک ہو جس کا مرکز ڈیرہ اسماعیل خان ہو۔ اُس وقت سے کلارک کی یہ خواہش ہوئی کہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ پشاور میں بعض اوقات منادی کے وقت لوگ بہت برافروختہ ہوجاتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب پادری کلارک منادی ختم کرچکا تو ایک افغان نے اُس پر قاتلانہ حملہ کیا اور مگر سامعین میں سے ایک نے چھرے کو پکڑ لیا اور پادری کلارک بچ گیا۔ مسز کلارک پر بھی گولی چلائی گئی۔ لیکن وہ بچ گئی۔
مسز کلارک کی طبعیت پشاور میں آب و ہوا کی ناموافقت کی وجہ سے ہمیشہ علیل رہتی تھی۔ فروری 1862ء میں اُس کو علالت کی وجہ سے انگلستان جانا پڑا۔ اور اسی موسم گرما میں کلارک کا والد پادری ہنری کلارک فوت ہو گیا۔ پادری تھامس رسل ویڈ کو پشاور بھیجا گیا اور مسزکلارک کا بھائی جیمس براؤن سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں پشاور آگیا اور کلارک کی تسلی کا باعث ہوا۔ یکم جنوری 1864ء کے روز مسز کلارک بھی پشاور واپس آگئی۔
کشمیر آمد
ترمیمموسم بہار 1864ء میں رابرٹ کلارک کشمیر بھیجا گیا تاکہ وہاں مشن قائم کرے۔ اس دور میں وہاں مہاراجا گلاب سنگھ کی حکومت تھی اور وہ یہ نہیں چاہتا تھاکہ کشمیر میں مشن مستقل طور پر قائم ہو۔ اُس کا خیال تھا کہ اگر یہاں مشن قائم ہو گیا تو جس طرح انگریزوں نے پنجاب لے لیا ہے میرے ملک پر بھی قابض ہوجائیں گے۔ مہاراجا چاہتا تھا کہ کلارک دیگر یورپین لوگوں کی طرح شہر کے باہر رہائش اختیار کرے اور موسم گرما کے بعد پنجاب چلا جایا کرے۔ لیکن کلارک شہر کے اندر کشمیریوں کے درمیان میں بارہ مہینے رہنا چاہتا تھا۔ کلارک لکھتا ہے "اگر میں نے یورپین لوگوں کے ساتھ رہائش اختیار کی تو کشمیری یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم اُن کو گناہوں سے نجات پانے کا پیغام دینے کی خاطر آئے ہیں۔ یہاں جو ان انگریز افسر رہتے ہیں جو بدمعاش ہیں جن کے پاس شہر کی عورتیں رات کو آتیں ہیں جو شراب میں بدمست ہوکر گندے گیت گاتے ہیں۔ ایسے اشخاص کے درمیان میں رہ کر ہماری تبلیغی مساعی کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے؟ یہاں کوئی مہاراجا کا افسر نہیں آنے پاتا کیونکہ مہاراجا کا حکم بڑا سخت ہے۔ پس یہاں کوئی کشمیری آنے نہ پائیگا۔ لیکن شہر میں کشمیری ہمارے پاس آجاسکیں گے۔"
امرتسر میں کشمیری رہتے تھے۔ وہاں کے ایک کشمیری نے کلارک کو اپنا سری نگر کا گھر کرایہ پر دے دیا جو شہر کے درمیان میں گنجان آبادی میں تھا۔ لیکن جب کلارک نے سری نگر میں رہائش اختیار کرنی چاہی تو مہاراجا گلاب سنگھ کے زیر اثر ایک ہجوم جمع ہو گیا تاکہ کلارک کو گھر میں گھسنے نہ دے۔ شاہ منیر خاں جو افغان قبیلہ یوسف زئی کے گاؤں زیدہ کا ملک یا سردار تھا اور مسیحی ہو گیا تھا اس وقت کلارک کے ساتھ تھا۔ اُس کی مدد سے کلارک سری نگر میں اپنے گھر میں داخل ہو گیا لیکن وہاں ایک ازدحام جمع ہو گیا اور ہزار پندرہ سو آدمیوں نے گھر کو گھیر لیا۔ ہر گھڑی ہجوم بڑھتا جاتا تھا لیکن کوئی پولیس کا آدمی نظر نہیں آتا تھا۔ مہاراجا خود جموں میں تھا اور زیزیڈنٹ سری نگر میں نہیں تھا۔ کلارک وزیر کے پاس گیا لیکن جواب ملا کہ وہ خواب گاہ میں ہے جہاں کوئی پیغام نہیں جا سکتا۔ پس کلارک وہیں زمین پر بیٹھا رہا اور جب وزیر نکلا تواُس نے شکایت کی۔ اس پروزیر نے کہا کہ آپ یورپین لوگوں کے ساتھ رہائش اختیار کر لیں۔ کلارک نے جواب دیا کہ میرا کام شہر کے درمیان میں لوگوں میں ہے۔ میں باہر نہیں رہ سکتا۔ اس پر وزیر نے کہا کہ میں دو دن تک آپ کی حفاظت کے لیے گارڈ بھیج سکتا ہوں۔ زیادہ دنوں کے لیے میں ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد وزیر خود تو سری نگر سے باہر چلا گیا اور نائب وزیر نے کلارک کو کہلوا بھیجا کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ دو دن کے بعد گھر خالی کر دیں گے اب آپ اپنا وعدہ پورا کریں۔ کلارک ایک رومن کیتھولک فرانسیسی تاجر کی مدد سے اپنے گھر میں جما رہا۔ اس پر مہاراجا نے انگریز ریزیڈنٹ کی معرفت کہلوا بھیجا کہ آپ شہر کے گھر کو خالی کر دیں۔ کلارک لکھتا ہے "ایسے نازک موقع پر ہم کس طرف جائیں؟ انگریزی گورنمنٹ پر جو برائے نام مسیحی ہے بھروسا نہیں کر سکتے۔ شاہ زادوں کی نسبت خدا پر تکیہ کرنا بہتر ہے"۔ جب کلارک نے ریذیڈنٹ کو خط لکھ کر تمام باتیں سمجھائیں تو اُس نے کہا کہ بہتر ہے کہ تم ابھی گھر خالی نہ کرو۔ اُس نے وزیر کو کہا کہ آپ نے بہت اچھا انتظام کیا کہ ازدحام کو پادری کے گھر سے ہٹادیا۔ اُمید ہے کہ آپ کی زیر حفاظت وہ کشمیر کی خدمت اچھی طرح کرینگے۔ یوں اُس مخالفت کا خاتمہ ہو گیا۔ پر اس مخالفت کا یہ نتیجہ ہوا کہ تمام شہر اور گردنواح میں مشن کے کام کا چرچا پھیل گیا اورانجیل کا پیغام دور دور پھیل گیا۔ 2 مئی کو مسز کلارک نے ایک ہسپتال کھولا جس میں مریض جوق درجوق آنے شروع ہو گئے۔ جب مہاراجا نے دیکھا کہ اُس کو شکست ہوئی ہے تو وہ ایک اور چال چلا۔ اُس نے ریذیڈنٹ کی معرفت کہلوا بھیجا کہ اگر کلارک جموں میں مشن قائم کر لے تو مہاراجا کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مہاراجا کا خیال تھا کہ کلارک انکار کر دے گا لیکن کلارک نے شکریہ کے ساتھ اس دعوت کو قبول کر لیا۔ اس پر مہاراجا نے بغیر کسی سبب کے اپنی دعوت کو واپس لے لیا اور وزیر کی معرفت کہلوا بھیجا کہ "خبردار! اگر تم جموں میں داخل ہوئے"۔ مہاراجا نے اپنی مخالفت مختلف طریقوں سے دکھادی۔ جو شخص مسیحی تعلیم کے لیے آتا اُس کو سزا دی جاتی اور قید کر دیا جاتا اور حکومتِ کشمیر کے حکم سے اسکول کے طلبہ اسکول میں نہیں آتے تھے۔
20 جولائی کو حسن شاہ نامی نے جو پہلا کشمیری مسیحی تھا بپتسمہ پایا۔ اُس کا نام یوسف رکھا گیا۔ اُس کو قید کیا گیا زدوکوب کیا گیا وزیر نے خود اُس کو لالچ دیا کہ وہ مسیحیت کو چھوڑ دے، دیوان خورد ریذیڈنٹ کے پاس گیا اور اور شکایت کی کہ "طبیبہ مسز کلارک نے یوسف کو دوائی دے کر بیہوش کیا ہے اور کلارک نے اُس کو بپتسمہ دے کر زبردستی مسیحی کر لیا ہے۔" اس پر ریذیڈنٹ نے یوسف کو بلا بھیجا۔ یوسف نے ان تمام باتوں سے انکار کیا۔ اس پر دیوان نے کہاکہ مہاراجا کی یہ خواہش ہے کہ کلارک کشمیر سے چلا جائے اور وہ نہ تو کبھی کشمیر میں قدم رکھے اور نہ تبلیغی کام کرے۔
جب موسم سرما شروع ہوا تو مہاراجا نے اصرار کیا جس طرح دیگر یورپین کشمیر سے چلے جاتے ہیں تم بھی چلے جاؤ۔ پنجاب کے لفٹنٹ گورنر نے کلارک کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ 29 اکتوبر کو ریذیڈنٹ نے کہا کہ "تم کو یہاں سے جانا پڑے گا"۔ مہاراجا نے سنا ہے کہ ترکی میں سلطان نے تمام مشن کے اُمور کو بند کر دیا ہے اور وہ کشمیر میں بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے۔ پس کلارک نے اب یہی بہتر خیال کیا کہ کچھ مُدت تک کشمیر کو چھوڑ کر واپس پشاور چلا جائے۔
دوبارہ پنجاب آمد
ترمیماس اثناء میں پنجاب مشن ترقی کرتا گیا۔ پنجاب کے مختلف قصبوں اور شہروں میں تبلیغی مرکز قائم ہو گئے اور اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی تجربہ کار مشنری امرتسر میں رہے جو پنجاب کے مختلف مرکزوں کے کام کی نگرانی کیا کرے۔ اس مقصد کے لیے رابرٹ کلارک منتخب کیا گیا اور وہ پھر امرتسر متعین کیا گیا ہے۔ وہ 15 مارچ 1865ء کو پشاور سے رخصت ہوا۔ جب رابرٹ کلارک امرتسرآیا تو کلیسیا ترقی کر رہی تھی اور ہندوستانی مسیحیوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی۔
نومرید (نومسیحی) شہر کے باہر مشن کمپونڈ میں رہتے تھے لیکن رابرٹ کلارک اس بات کے خلاف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ہندوستانی مسیحی خمیر کی مانند ہیں اور اُن کو شہر کے لوگوں کے درمیان میں رہنا چاہیے۔ علاوہ ازیں مشن کمپونڈ کے اندر رہنے سے وہ مشنریوں کے ماتحت رہتے ہیں اور غیر ملکی خیالات اور جذبات سے متاثر ہوکر اپنی روحانی اورذہنی آزادی کھوبیٹھتے ہیں۔
شہر کے اسی حصہ میں کلارک نے ایک سرائے اورپاسٹر کے لیے مکان بنوایا۔ سرائے کے بنوانے کا یہ مقصد تھا کہ مسافر مسیحی جب کبھی عبادت یا تجارت وغیرہ کے لیے امرتسر آئیں تو وہ اُس میں پناہ لے سکیں۔ اقرار یوں کے لیے یہ جگہ نہایت موزوں تھی۔ وہاں دُکانیں بھی بنوادیں تاکہ جو مسیحی دُکان داری کرنا چاہیں وہ اُن کو کرایہ پر لے سکیں۔ دو دُکانیں کتب خانہ اور ریڈنگ روم کے لیے مخصوص کی گئیں۔ دو دکانیں کتب مقدسہ اورمسیحی کتب کی فروخت کے لیے مخصوص کی گئیں۔
رابرٹ کلارک کا یہ اصول تھاکہ پنجابی کلیسیا اپنا انتظام خود کرے اوراپنے پاؤں پر کھڑی ہو۔ امرتسر میں کلیسیائی روپیہ کا انتظام کلیسیا کے ہاتھ میں تھا۔ جس میں سے پچاس روپیہ پاسٹر کو تنخواہ دی جاتی تھی۔ اس سے اقرار یوں اورغریبوں کی امداد بھی کی جاتی تھی۔ چرچ کمیٹی کا اجلاس ہرماہ ہوتا تھا اور ہر ششماہی کے بعد تمام جماعت کا مجمع ہوتا جس میں حساب کتاب سنایا جاتا تھا۔ کلارک کی یہ عادت نہیں تھی کہ ہربات میں اپنی مرضی پر عمل کرے بلکہ وہ لوگوں سے صلاح اور مشورہ لے کر اکثریت کی رائے پر عمل کرتا تھا۔
کلارک کی یہ کوشش تھی کہ پنجابی مسیحیوں میں تبلیغی جوش پیدا کرے۔ 1865ء میں اُس نے مولوی عمادالدین لاہز کوبپتسمہ دیا۔ 1893ء میں ڈپٹی عبد اللہ آتہم اور مرزا غلام احمد قادیانی کے درمیان میں اس وسیع میدان میں جو آج کل آرچڈیکن کے گھر کے کمپاؤنڈ کے سامنے واقع ہے پندرہ روز تک بحث ہوتی رہی جس کا نتیجہ مرزا غلام احمد کے لیے سوائے حسرت ویاس کے اور کچھ نہ ہوا۔
مسز کلارک امرتسر آتے ہی زنانہ کام کی طرف متوجہ ہو گئی۔ یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کا یتیم خانہ قائم ہو گیا تھا اور مسز کلارک گھروں کے اندر۔ زنانخانوں میں جایا کرتی تھی۔ مسز کلارک پہلی عورت تھی جس نے پشاور اور کشمیر میں میڈیکل کام شروع کیا تھا۔ اسی طرح امرتسر میں بھی اُس کو یہی عزت نصیب ہوئی۔
چونکہ کلیسیا کی تعداد روزافزوں تھی لٰہذا کلارک کو اُن وسائل کا خیال کرنا پڑا جو نومریدوں کی روزی کے متعلق تھے۔ چونکہ نومرید اپنے خاندانوں سے نکالے جاتے تھے اور دنیاوی مال اور جائداد سے محروم کیے جاتے تھے یہ سوال پیدا ہوا کہ وہ اپنی روزی کس طرح کمائیں۔ ذات پات کی قیود کی وجہ سے بعض کام وہ نہیں کرسکتے تھے۔ کلارک ہر نومرید کا خیال رکھتا تھا اوراس کی لیاقت اور قابلیت کے مطابق اُس کو روزی کا وسیلہ حاصل کرنے میں مدد دیتا۔ یتیم خانے میں مختلف دستکاریاں سکھائی جانے لگیں اوریہ خیال ہواکہ ایک مسیحی گاؤں آباد کیا جائے جہاں مسیحی مختلف کاروبار کرسکیں۔ اس غرض کے لیے اجس نے سرکار سے انیس سو ایکڑ زمین حاصل کی۔گاؤں کا نام کلارک آباد رکھا گیا۔
5 مئی 1867ء کے روز چرچ مشنری سوسائٹی نے لاہور میں قدم رکھا۔ پادری جان نیوٹن پنجاب کا پہلا مشنری تھا۔ اُس نے 1850ء میں سی۔ ایم۔ ایس کو پنجاب میں آنے کی دعوت دی تھی اوراب اُس نے بڑے تپاک سے سی۔ ایم۔ ایس کا لاہور میں خیر مقدم کیا۔ 1868ء میں کلارک یہ کوشش کرنے لگا کہ پنجاب میں میڈیکل مشن قائم ہو جائے اُس کی لگاتار کوششوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ 1882ء میں امرتسر میڈیکل مشن قائم ہو گیا۔ میڈیکل مشن کے قیام اور پھیلنے میں کلارک کو ہنری مارٹن کلارک سے بڑی مدد ملی۔
1869ء میں پادری والپی فرنچ نے اور پادری نوٹ نے لاہور میں علم الہٰیات کے کالج کے لیے مہاں سنگھ کا باغ خریدا۔ لیکن پادری نوٹ فوت ہو گیا اور فرنچ اکیلا رہ گیا۔ کلارک اس کی مدد کے لیے لاہور متعین کیا گیا اوروہ یکم جنوری 1871ء کو لاہور پہنچ گیا۔ اسی ماہ کالج کی ابتدا ہوئی۔ ابتدائی عبادت میں کلارک نے وعظ کیا۔ عبادت میں امریکن پرسبٹیرئن مشن کے تمام مشنری شریک ہوئے۔ اس کالج میں امریکن مشن اور کلیسیائے اسکاٹ مشن والوں نے اپنے طلبہ پڑھنے کے لیے بھیجے اوراس طرح مختلف مشنوں کے پنجابی خادم الدین نے فرنچ اور کلارک کے قدموں میں بیٹھ کر علمِ الہٰیات کی تحصیل کی۔ جب کلارک لاہور ڈیونٹی کالج کی عمارت تعمیر کرا رہا تھا تواُس وقت ہندوستانی مسیحیوں نے لڑکیوں کا ایک اسکول کھولا جس میں صرف تین لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ انھوں نے کلارک سے درخواست کی کہ اسکول اپنے ہاتھوں میں رکھے۔ امریکن مشن کے مشنریوں کی اجازت کے بعد اُس نے اسکول کو ایسی خوشی اسلوبی سے چلایا کہ وہ ایک ہائی اسکول ہو گیا اور بعد میں"لیڈی ڈفرن اسکول" سے نامزد ہوا۔
مسیحی کتب کی طباعت اور فروخت کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ کلارک خود کتابوں کا شوقین تھا اور مسیحیت کی اشاعت کے لیے کتب کا وجود نہایت ضروری تھا۔ پس اُس نے امریکن مشن والوں کے ساتھ مل کر پنجاب رلیجیس بک سوسائٹی کی بنا ڈالی۔ پادری ایف۔ ایچ۔ بیرنگ کی فیاضی سے اس سوسائٹی کی عمارت کھڑی ہو گئی۔ کلارک اس کا پہلا سیکریٹری تھا اور بابو رادھا رمن راہا اس کا اسسٹنٹ تھا۔ کلارک بائبل سوسائٹی کا بھی سیکریٹری تھا۔
1874ء میں کلارک نے کتب مقدسہ کے بعض حصص پر اُردو میں تفسیریں لکھیں۔ اوراس غرض کے لیے اُس نے مولوی عماد الدین لاہز کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ متی، یوحنا، اعمال کی کتُب پر تفسیریں لکھی گئیں اور کلید تورات بھی لکھی گئی۔
یکم مارچ 1874ء کے روز کلارک نے پنڈت نارائن داس کھڑک سنگھ کو بپتسمہ دیا۔ پنڈت کھڑک سنگھ سنسکرت کا فاضل، ویدوں کا عالم ہندؤ فلسفہ کا ماہر اورسکھ مذہب کی کتُب کا حافظ تھا۔ وہ سادھوؤں کے لباس میں پہلے کی مانند ہر جگہ پھرتا اور مسیحیت کی تبلیغ کرتا تھا۔ اس نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے ساتھ مل کر ایک کتاب "آریہ سماج کی تعلیم کے اصول" لکھی جو اس قدر مقبول ہوئی اس کا انگریزي، ہندی اور پنجابی زبانوں میں ترجمہ ہو گیا۔ اس کتاب کی انگریزی اور اُردو کی دوسری ایڈیشن اگست 1888ء میں چھپی۔ جس طرح مولوی عماد الدین لاہز اسلام پر کتب لکھتا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ مباحثہ اور مناظرہ کرتا تھا اسی طرح پنڈت کھڑک سنگھ نے 26 سال تک ہنود کے ساتھ مباحثہ اورمناظرہ جاری رکھا۔
کلارک کی شخصیت اس قدر زبردست اور غالب تھی کہو جومشنری اُس کے پاس کام سیکھنے کے لیے آتا وہ کہیں واپس نہ جاتا بلکہ پنجاب کا ہی ہوجاتا۔ 1875ء میں مسٹر ویلینڈ نے جو کلکتہ میں چرچ مشنری سوسائٹی کا سیکرٹیری تھا لکھا کہ "آئندہ جومشنری کلارک کے پاس کام سیکھنے جائے وہ ضرور واپس کیا جائے کیونکہ لوگ اس کے پاس تجربہ حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں پر اُس میں ایسی کشش ہے کہ وہ واپس آنا نہیں چاہتے۔"
رابرٹ کلارک خود کلیسیائے انگلستان کا تھا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ پنجاب کے مسیحی مغربی فرقوں کی زنجیروں میں جکڑے جائیں۔ اس کی دلی خواہش یہ تھی کہ ہندوستان کے مسیحی ان زنجیروں سے آزادرہ کر خود ایک قومی کلیسیا کی بنا ڈالیں جو مسیحیت کی تعلیمات کی زیر تابع ہو۔ اس مقصد کوپورا کرنے کے لیے اُس نے پنجاب دیسی چرچ کونسل (Native Church Council) کی بنیاد ڈالی تاکہ دیسی کلیسیا خود اپنا انتظام کرے۔ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو اور انجیل کی اشاعت کواپنا فرض اولین سمجھے۔ رابرٹ کلارک اس کا پریذیڈنٹ مقرر ہوا۔ اس کا پہلا اجلاس 1877ء میں ہوا۔ اُس کے شرکاء نہ صرف کلیسیائے انگلستان کے بپتسمہ یافتہ مسیحی تھے بلکہ امریکن پرسبٹیرین مشن کے ہندوستانی نومرید بھی اس کے شرکاء تھے کیونکہ کلارک اس کو نسل کو مغربی تفرقوں سے پاک رکھنا چاہتا تھا۔ پادری جان نیوٹن اوردیگر امریکن مشنری اس کونسل کے پہلے اجلاس میں موجود تھے۔ جب یہ کونسل شروع ہوئی توہندوستانی مسیحیوں میں انتہائی جوش کی لہر پھر گئی اوراُنہوں نے فیاضی اور دریادلی سے چندہ دینا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک لکھتا ہے کہ"اس کی ناکامی کا ذمہ ہندوستانی مسیحیوں کی گردن پر نہیں ہے بلکہ اُن پر دیسی مشنریوں کی گردن پر ہے جومدد کرنی تودرکنار اس تحریک کوحسد، مخالفت اورشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کلیسیائی قیود اورقوانین کی آہنی زنجیروں نے اس نوزائیدہ بچہ کا گلا گھونٹ دیا"۔ رابرٹ کلارک لکھتاہے " جب دیسی کونسل قائم کی گئی توبے انتہا جوش پیدا ہوا۔ اگرتمام مشنری اس تحریک کے معاون ہوتے توملک کی حالت دگرگوں ہوجاتی"۔
بعض اشخاص کی یہ رائے تھی کہ چونکہ کلیسیا میں نسل کا امتیاز نہیں ہے اس لیے دیسی اور انگریز مسیحی ایک ہی کونسل میں ہونے چاہئیں۔ لیکن رابرٹ کلارک اس تجویز کا آخری دم تک مخالف رہا۔ اس کا خیال تھاکہ اس طرزعمل سے ہندوستانی مسیحیوں کونشوونما پانے کا کبھی موقع نہ ملے گا دیسی کلیسیا کلیسیائے انگلستان کی دُم بنی رہیگی۔ کلیسیا میں کبھی زندگی نہ آئے گی۔ اور یورپین عنصر کے غالب رہنے کی وجہ سے ہندستانی کلیسیا کبھی کلیسیائی معاملات کا انتظام اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکے گی۔ چنانچہ ایک مضمون میں وہ لکھتا ہے : "اب ہندوستان جاگ اٹھا ہے اوراس کی روح نے ہندوستانی کلیسیا کوبھی متاثر کر دیاہے۔ جوخیالات دس سال پہلے لوگوں میں خوابیدہ تھے وہ اب ہر شخص کی زبان پر ہیں۔ پس وقت آگیا ہے کہ ہم ان تعلقات پرازسرنوغورکریں جومشنریوں میں اوراُن کے کارندوں اورہندوستانی مسیحیوں میں ہونے چاہئیں۔ اس کے حل کرنے کے لیے برادرانہ محبت اور تقدیس شدہ عقل کی ضرورت ہے۔ خواہ ہم ہندوستانی ہوں یا انگریز ہوں ہمارا واحد مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں خدا کی بادشاہی قائم ہو جائے۔ پس ہمیں ہرمرحلہ پر اپنے ساتھ ہندوستانی کلیسیا کوشامل کرنا چاہیے۔ اب تک صرف انگریز مشنری کلیسیاؤں کوپودا لگات اوراُن کی نگہداشت کرتے رہے ہیں۔ لیکن چونکہ ہم دونوں کا مقصد واحد ہے لہذا ہمارا طرزِ عمل بھی واحد ہونا چاہیے۔ مسیحی کلیسیا دونوں میں تفریق نہیں کرتی بلکہ دونوں کواکٹھا کرتی ہے۔ پس مشن کاکام صرف انگریز مشنری ہی نہیں بلکہ ہندوستانی بھی کریں۔ کلیسیا کی قوت اورخوشحالی اسی میں مضمر ہے کہ مسیح کی کلیسیامیں مشنری اورہندوستانی واحد ہوکر رہیں۔ ہم یہاں اس واسطے نہیں آئے کہ ہندوستانیوں کوغلام بناکررکھیں۔ مسیحیت کسی قوم کو غلام نہیں بناتی بلکہ اُس کو مضبوط بنا کر سرفراز کرتی ہے۔ صرف مسیحیت ہی ایک ایسا مذہب جوسب کوہرقسم کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرتاہے"۔ جب بیٹا اُن کو آزاد کرتاہے تووہ درحقیقت آزاد ہیں"۔ وہ سچائی کو جان گئے ہیں اور سچائی نے اُن کو آزاد کر دیا ہے"۔ ہمارے ہندوستانی بھائی تبلیغی اورکلیسیائی اُمور کو چلانا چاہتے ہیں اور یہ اُن کا پیدائشی حق ہے کہ وہ اُس کام کو چلائیں۔ مسیح کی بادشاہی کو اپنے ملک میں قائم اوراستوار کرنا ان کا حق ہے۔ اب تک وہ مشنریوں کے مددگار ہی رہے لیکن اب ان کومشنریوں کی طرح مشن کے ہرشعبہ میں مستقل طور پر خودذمہ دار ہوکر کام کرنا چاہیے جہاں دونوں عقل۔ لیاقت وغیرہ میں ہم پلہ ہوں وہاں ہندوستانی کومشنری پرترجیح ملنی چاہیے"۔[2] ان دنوں میں پادری میاں صادق امرتسر کا پاسٹر|تھا۔ اُس نے فروری 1859ء میں بپتسمہ پایا تھا۔ وہ ناروال کا باشندہ تھا۔ تقریباً 13 سال کیٹی کسٹ رہا اور پھر پادری والپی فرنچ کے قدموں میں علم الہٰیات حاصل کرتا رہا۔ اس کے بعد بٹالہ میں وہ اکیلا انجیل کا مبشر رہا۔ وہ پہلا شخص جو پنجاب سے کنعان اور ارضِ مقدس کوگیا تھا۔ بعد کے زمانہ میں وہ مدُت تک اجنالہ میں رہا۔ اُس نے اجنالہ کو مرکزی مقام بناکر دُور دُور تک گاؤں گاؤں میں کلیسیائیں قائم کر دیں اوربلاآخر اجنالہ میں ہی فوت ہو گیا۔
رابرٹ کلارک عیسائيوں کو اعلٰی رتبوں پر فائز اورمالدار دیکھ کر بڑا خوش ہوتا تھا۔ وہ اُن تنگ نظر لوگوں میں سے نہ تھا جوچاہتے ہیں کہ مسیحی ہمیشہ محکوم اور تابع رہیں۔ اُس کی دلی خواہش یہ تھی کہ مسیحی اعلٰی مدارج حاصل کریں۔ اوران میں علم کی روشنی چمکے۔ پس اُس نے مسیحی لڑکیوں کے لیے امرتسر میں الگزینڈرا گرلز ہائی اسکول قائم کیا اور 1877ء میں بیرنگ کی فیاضی اور دریادلی نے بیرنگ ہائی اسکول کی بنیاد بٹالہ میں ڈالی۔ 1884ء میں علی گڑھ کے سرسید احمد خان نے الگزینڈر اسکول کو دیکھا اورنہایت خوش ہوا ۔
انگلستان روانگی اور پنجاب آمد
ترمیم1878ء میں مسز کلارک کی صحت نہایت خراب ہو گئی اور کلارک اُس کو انگلستان لے گیا۔ جب رابرٹ کلارک انگلستان سے واپس آیا تو پنجاب کی کلیسیا کے حالات میں بہت تبدیلی واقع ہو چکی تھی۔ 1878ء میں پنجاب کلکتہ کے بشپ کے ماتحت نہ رہا اور سندھ کا علاقہ بمبئی کے بشپ کے ماتحت نہ رہا۔ پنجاب اور سندھ لاہور کے نئے اُسقف بشپ فرنچ کے ماتحت کردیے گئے۔ فرنچ نے رابرٹ کلارک کو اپنا آرچڈیکن مقرر کرنا چاہا۔ لیکن حکومت ہند اس تجویز کے خلاف تھی۔ جب پنجاب کے لیے نیا اسقف مقرر کر دیا گیا تو چرچ مشنری سوسائٹی نے بھی پنجاب کو سی۔ ایم۔ ایس کلکتہ کے سیکرٹری کے ماتحت نہ رکھا بلکہ پنجاب کے لیے رابرٹ کلارک کو پہلا سیکرٹری مقرر کر دیا۔ کلارک نے امرتسر کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا اوراس مرکز سے مختلف مشنریوں کو اپنے وسیع تجربہ سے مدددیتااوراُن کی نگرانی کرتا رہا۔ غریب بشپ فرنچ کا اُس کے چیپلین دم نام میں رکھتے تھے۔ لیکن کلارک اُس کے ماتحت مشنری یکدلی اور تعاون سے کام کرتا تھا۔ کلارک نے ماتحت مشنری اُس کی ذات پر فخر کرتے تھے۔ ان دنوں میں امریکن پرسبٹئیرین مشن کا عمر رسیدہ مشنری ڈاکٹر اُلمن امرتتسر آیا۔ اُس کی نسبت رابرٹ کلارک لکھتا ہے "یہ جرمن مشنری انگریز مشنریوں کی نسبت ہندوستان اوراُس کے باشندوں سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ وہ زیادہ سادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور زیادہ مستقل مزاج ہیں اوراُن کو غالباً خدا کی قربت زیادہ حاصل ہے خدا کرے کہ ہم اُن سے یہ باتیں سیکھیں۔"
رابرٹ کلارک کا سیکرٹری کی حالت میں یہ طرزعمل تھا کہ وہ مشنری کی جان کوروپیہ سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ فی زمانہ میں مشنوں میں عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کارگزار کو جتنا تھوڑا روپیہ دے سکودو۔ لیکن کلارک روپیہ کی نسبت کارندہ کی جان اورصحت کی زیادہ قدر کرتا تھا۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ ہر ایک مشنری کا گھر پُرصحت ہواورجب وہ تھک کرکام سے واپس آئے تواُس کوآرام ملے۔ اُس کواچھا کھاناملے تاکہ بغیر کسی دنیاوی فکر کے وہ اچھی طرح کام کرسکے۔
وفات اور تدفین
ترمیممارچ 1898ء میں اُس نے سیکرٹری کا کام چھوڑدیا اورپادری ایچ۔ جی۔ گرے اُس کی جگہ سیکرٹری مقرر ہوا۔ اُس نے انگلستان رہائش اختیار کرنے کا خیال ترک کر دیا اور امرتسر میں موسم سرما اور شملہ میں موسم گرما کاٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ یکم مئی 1900ء کوموسم گرما کاٹنے کے لیے وہ کسولی گیا۔ وہاں چند روز بعداُس کی صحت خراب ہو گئی۔ اُس کومعلوم ہو گیاکہ اُس کاآخری وقت نزدیک آگیا ہے۔ مسزکلارک نے اُس کے پاس بیٹھ کر 23واں زبور پڑھا اور کلارک 16 مئی 1900ء بدھ کے روز سات بج کر پانچ منٹ پر وفات پاگیا۔ اُس کی وصیت کے مطابق اُس کی لاش امرتسر لائی گئی۔ ہزاروں مسیحی اور غیر مسیحی جنازے کے ہمراہ قبرستان گئے۔ سڑکوں پر آدمیوں کے سوا اورکچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ ہندوستانی مسیحیوں نے اپنے عزیز سردار رہنما اوردوست کی لاش اپنے کندھوں پر رکھی۔ اور اُس کو سپردِ خاک کیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6dd34k3 — بنام: Robert Clark (missionary) — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ پنجاب مشن نیوز 15 ستمبر 1888ء صفحہ 15، 16
- Life of Robert Clark, by H.M. Clark.
- The Punjab Mission News Monthly Magazine, Vol 1-3, by H.M.Clark.