رقص
جو حرکات بے ساختہ فرطِ جذبات کے تحت ہم آہنگی کے ساتھ جسم کے مختلف اعضاء سے سرزد ہوتی ہیں انھیں رقص یا ناچ کا نام دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے بعض اساتذہ فن رقص کو مصوری سے زیادہ قدیم سمجھتے ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ رقص کو ڈراما، فن آرائش اور موسیقی جیسے فنون لطیفہ کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔
رقص | |
---|---|
جزو بہ | پرفارمنگ آرٹس ، تخلیقی کام |
درستی - ترمیم |
رقص صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرند چرند اور کیڑے مکوڑے بھی اپنے جذباتِ عشق کا اظہار رقص ہی کے ذریعے کرتے ہیں۔ ہندوستانی مور برسات میں ناچتا ہے اور کئی اور جانور موسم بہار میں کلیلیں بھرنے لگتے ہیں۔ رقص کا لفظ استعاراً بعض بے ساختہ حرکات کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے رقصاں لہریں، ناچتی کرنیں اور سمندر کی موجوں پر رقص کرتی ہوئی ناؤ۔
رقص غالباً وہ لہر ہے جو نبض کی حرکت اور جسم کی جنبش سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسی رواں دواں، متوازن جنبش جو رقاص کے جذبہ تخلیق کو مطمئن کرتی اور تماشائی کے ذوقِ نظر سے داد پاتی ہے۔ شاید یہ نبض کے اتار چڑھاؤ ہی کا ردِ عمل ہوتی ہے۔
رقص کی دائمی مقبولیت کا باعث وہ دو طرفہ عمل ہے جو حرکت اور جذبہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جب فرط مسرت سے مغلوب ہوکر قدیم انسان بے ساختہ ناچنے کودنے لگا تو اس نے اپنے فرصت کے لمحات میں اسی حرکت کو دہرایا تاکہ اس کے ہم جنس بھی انبساط انگیز کیفیت میں شریک ہو سکیں۔ قبیلوں کے سرداروں نے رقص کو شکار اور جنگ کے موقعوں پر استعمال کیا اور عہدِ وسطیٰ کے صوفیوں نے معرفیت الٰہی کا وسیلہ بنایا۔
رقص کی دائمی مقبولیت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس کا جادو اور مذہب دونوں سے بڑا قریبی تعلق رہا ہے۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندے غذا اور بارش کے لیے رقص کرتے ہیں۔ جن میں جادو اور مذہب دونوں کا جزو شامل ہے۔ اسی طرح امریکا کے ریڈ انڈینس، خاص طور سے ایری زونا اور میکسیکو باشندے بارش کو بلانے کے لیے ناچا کرتے ہیں۔ اب بھی دنیا کے اکثر علاقوں میں جادوگر جادو منتر کرنے کے بعد رقص کرتے ہیں۔ ان کے عملیات میں جانوروں اور جڑی بوٹیوں کا خاص دخل ہے۔ اس لیے وہ وہ ناچتے وقت جانوروں کے چمڑے اور سینگ، پھول اور پتے پہن لیتے ہیں۔
قدیم زمانے میں رقص کی مقبولیت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے بعض سماجی مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ ناچ کا مشترکہ جذبہ افراد کو ایک دوسرے سے قریب لاتا اور سماج سے منسلک کرتا تھا۔ ماقبل تاریخ کی بھی بعض تصاویر میں ہمیں ایسے مناظر ملتے ہیں۔ جی میں لوگ ہاتھ میں ہاتھ دیے ایک حلقے کی شکل میں رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس روایت کا سلسلہ یونانی گلدانوں پر بنی ہوئی تصاویر میں بھی ملتا ہے ان میں قطار در قطار ناچوں کے مناظر کیے گئے ہیں۔[1]
اسلامی ممالک
ترمیماسلام سے پہلے عرب ممالک میں قبائلی عرب مختلف تقریبوں کے وقت گانے کی محفلیں منعقد کرتے تھے اور رقص میں خود بھی شریک ہوتے تھے۔ اسلام میں رقص مصوری اور موسیقی کی طرح اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن جب اسلامی حکومت پھیلی اور بنو امیہ اور خاص طور پر بنو عباس کے دور میں سلطنت چین سے لے کر اسپین تک پہنچ گئی تو اسلامی سلطنت کے تحت ایران اور ترکستان کے کچھ علاقے بھی آئے جن کی فنون لطیفہ کی اپنی روایات تھیں۔ خاص طور پر ایران میں رقص کافی ترقی یافتہ تھا اس کا اثر اس نئی سلطنت کے حکمرانوں اور خاص طور پر امرا پر پڑنا لازمی تھا۔ اس کے علاوہ عہد بنو عباس میں یونانی اور بازنطینی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ نے بھی اسلامی ریاست کے مختلف شعبوں کو بے حد متاثر کیا۔ عراق میں کھدائی کے دوران میں بنو عباس کے دور کے محل سامرہ میں ملے ہیں۔ محلوں کی دیواروں پر ناچتی ہوئی عورتوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان امرا کی محفلوں میں موسیقی کے ساتھ ساتھ رقص بھی بہت مقبول تھے اور عورتیں اس فن کو سیکھتیں اور خلفا اور امرا کو محظوظ کرتی تھیں۔ اس زمانے میں خلیفہ کے دربار میں ایک جشن ہوتا تھا جسے قرہ کہا جاتا ہے۔ اس میں رقص و موسیقی کا ایک پروگرام پیش کیا جاتا تھا۔ زمانہ قدیم کی بہت ساری مصور کتابوں میں بھی رقص کی مختلف اقسام کی تصویریں موجود ہیں۔ جلال الدین رومی کی مثنوی کا ایک مصور نسخہ لندن کے برٹش میوزیم میں موجود ہے۔ یہ نسخہ 1295ء کا ہے۔ اس میں بہت ساری تصویریں ہاتھ کی بنائی ہوئی ہیں۔ ایک تصویر میں ایک رقاصہ کو چند رئوسا کے سامنے ناچتے ہوئے دکھلایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ دف اور بربط بجانے والے بھی ہیں۔ رؤسا کے چاروں طرف مرد اور عورتیں ہاتھ باندھے یا کھانے پینے کا سامان لیے کھڑی ہیں۔ اس زمانے میں لوک ناچ کا بھی رواج تھا جن کا مقصد اگرچہ تفریح تھا لیکن اس سے اس زمانہ کی کچھ سماجی جھلک بھی ملتی ہے۔ یہ ناچ کسی خاص بال میںیا باہر ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ موسیقی بھی ہوتی تھی۔ بہت سے رقاص خاص طور پر مرد نقالی کے بھی ماہر ہوتے تھے۔ بعض وقت یہ ناچ عشق و محبت، شکار وغیرہ کے بارے میں بھی ہوتے۔ اس کا رواج ترکی میں خاص طور پر تھا۔ اس قسم کے ناچ ایران کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی رائج تھے۔ ترکی ناچ ادنٰی لوگوں کا پیشہ سمجھا جاتا تھا اس لیے زیادہ تر ناچنے والوں کا تعلق اقلیتی لوگوں مثلاْ یونانیوں، یہودیوں اور آرمینیوں سے ہوتا تھا۔ اس طرح انیسویں صدی تک مصر میں ناچنے والیاں طوائفوں سے کچھ ہی بہتر سمجھی جاتی تھیں۔ ابھی کچھ عرصے تک یہی حال دوسرے ملکوں اور خود ہندوستان میں بھی تھا۔ ترکی میں نیم عریاں رقص ایک زمانے سے مقبول رہا ہے۔ جو بیلی ڈانس کہلاتا ہے۔ ترکوں کے اثر سے یہ عرب ملکوں میں پھیلا ور آج بھی تفریح کا ایک مقبول ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایران میں اسلام سے پہلے رقص کو ایک فن سمجھا جاتا تھا۔ قدیم برتنوں، دیواروں اور سکوں وغیرہ پر ناچنے والوں کی تصویریں ملتی ہیں۔ مشرق وسطی کے مسلمانوں میں خالص رقص کی ایک شکل تیرہویں صدی عیسوی سے چلی آرہی ہے۔ یہ درویشوں کا رقص کہلاتا ہے اور آج یہ مشرق وسطی کے نائٹ کلبوں میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ درویش ایک حلقہ بنا کر بیٹھتے نظم پڑھنا یا گانا شروع کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ کھڑے ہو کر مشرق سے مغرب کی طرف حلقے میں حرکت کرنا شروع کرتے ہیں اور جیسے جیسے سازوں کی دھن تیز ہوتی جاتی ہے ان کی مستی اور حرکت بھی تیز ہوتی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں رقص سے دلچسپی کم نہیں ہوئی ہے۔ سعودی عرب کو چھوڑ کر بہت سے عرب شہروں میں بے شمار کلب ہیں جن میں بیلی رقص اور مغربی طرز کے رقص پیش کیے جاتے ہیں اور اکثر اوقات حاضرین تالیاں بجا کر اور بعض اوقات اسٹیج پر پہنچ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن اکثر قبیلوں میں ان کے اپنے مخصوص ناچ ہیں۔ اکثر میں صرف مرد حصہ لیتے ہیں بعض میں مرد اور عورتیں دونوں مثلاْ لبنان کے دیہات میں ایک ناچ دبک بہت مقول ہے۔ لبنان کے قبیلے دروز میں بھی ان کا اپنا فوس ناچ بہت مقبول ہے۔ مصر، شام، لبنان، عراق وغیرہ میں حکومتوں کی سرپرستی میں باقاعدہ گروپ بنائے گئے ہیں جو لوک رقص کی بنیاد پر پروگرام تیار کرتے اور پیش کرتے ہیں۔ اس میں مغربی بیلے کی تکنیک سے مدد لی جاتی ہے۔ ترکی میں لوک رقص بار بہت مقبول ہے یہ مختلف علاقوں میں چالیس طریقے سے ناچا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بیلے اور آپرا کی بھی تربیت کا انتظام ہے۔ ایران میں بھی لوک ناچ بہت مقبول ہے اس کے علاوہ دوسری جنگ عظیم کے بعد حکومت کی مدد سے ایک ایران بیلے کمپنی قائم کی گئی ہے جس نے قدیم اور لوک رقص کو زندہ کیا ہے اور ان میں نفاست پیدا کی گئی ہے۔ اس میں فارسی شاعری سے اور اسٹیج کی سجاوٹ کے لیے قدیم مصوری، بت تراشی سب ہی سے کام لیا گیا ہے۔
رقص ہندوستانی
ترمیمرقص یا ناچ ہندوستان کی مذہبی اور سماجی زندگی کا اہم جز رہا ہے۔ رگ وید میں رقص (نرتی) اور رقاصہ (نرتو) کا ذکر ملتا ہے۔ ایک خوبصورت لباس میں ملبوس رقاصہ کا مقابلہ صبح سے کیا گیا ہے۔ اکثر جگہ موسیقی اور رقص دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر آیا ہے۔ قدیم کلاسیکی و مذہبی کتابوں میں جگہ جگہ اس دنیا اور جنت میں رقص کا ذکر ملتا ہے۔ بھارت کی مشہور کتاب ناٹیہ شاستر میں اس فن کی اور اس کے ساتھ موسیقی اور ڈرامے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس کے مطابق ناچ کے دو خاص اسٹائل تھے۔ ایک مردانہ ناچ جو شیو ناچتے تھے، ٹانڈو کہلاتا ہے اور دوسرا نازک اور حسین جس کا تعلق پاروتی سے ہے لاسیا کہلاتا ہے۔ مانڈو کے 108 کرنا (پوز) اور لاسیا میں دس یا بارہ محبت کے نقشے (Motifs) پیش کیے جاتے ہیں۔ رقص کے اس کلاسیکی اسٹائل کے علاوہ لوک اور جدید رقص بھی عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ ان کلاسیکی اور لوک رقص کو ڈرامے سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ان میں ایک رقاص یا رقاصہ کوئی کہانی اپنے ہاتھوں، انگلیوں، گردن، آنکھوں اور پیر کی جنبش کی مدد سے پیش کرتی ہے اس قسم کے کلاسیکی رقص بھرت ناٹیئم، کتھاکلی، کچی پوڑی وغیرہ مشہور ہیں۔
بھارت کے ناٹیہ شاستر کے مطابق ایک رقاصاپنے ڈرامے کے مقاصد کو چار طرح سے پیش کرتا ہے جسے ابھی نئی کہتے ہیں۔ پہلا ہے اگنیگا یعنی جس کے مختلف حصوں یعنی ہاتھ، انگلیوں، آنکھوں وغیرہ کی مدد سے ہر قسم کے جذبہ یا خیال کو پیش کرنے کے لیے اصول مقرر ہوتے ہیں۔ دوسرے وسیکا یعنی تقریر، گیت اور الفاظ کے اتار چڑھائو اور ادائیگی کے فرق کی مدد سے۔ تیسرے آھاریا یعنی بنائو سنگار اور کپڑوں کی مدد سے اور چوتھے ستویکا یعنی جذبات کے مکمل نفسیاتی اظہار ذریعہ۔ کلاسیکی ہندوستانی رقص کے چار مسلمہ اسکول ہیں۔ بھرت ناٹیم، کتھاکلی، کتھک اور منی پوری۔ بھرت ناٹیم کا نام بھرت کی ناٹیہ شاستر سے آیا ہے اور اس میں بنیادی اسٹائل لاسیا کا ہے۔ اس کا مرکز تمل ناڈو ہے۔ کتھاکلی بنیادی طور پر ٹانڈو اسٹائل کا ہے، یہ ایک قسم کا ڈرامائی رقص ہے۔ اس میں چہرے خاص طریقے پر بنائے جاتے ہیں۔ اس کا گھر ریاست کیرالہ ہے۔ کتھک میں لاسیا اور ٹانڈو دونوں کا امتزاج ہے اور ہر تال پر پیروں کی جنبش خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہ شمالی ہند میں مقبول ہے۔ منی پوری ناچ بنیادی طور پر لاسیا ہے۔ اس میں کمر کی جنبش پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور یہ مشرقی ہند کی منی پور ریاست میں بہت مقبول ہے۔ بھرت ناٹیم قدیم زمانے میں مندروں کا رقص تھا جسے دیوداسیاں ناچتی تھیں۔ جب دیوداسیاں ختم ہو گئں تو ان کے ساتھ بھی ختم ہو گیا۔ پچھلے سو سال میں فن کے شوقینوں نے اسے پھر زندہ کیا اور آج یہ ہندوستان کا انتہائی خوبصورت رقص سمجھا جاتا ہے، ہندوستان کے علاوہ مغرب میں بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ کتھاکلی کے معنی ہیں کہانی کی پیش کش۔ یہ سترہویں صدی عیسوی سے کیرالہ میں شروع ہوا۔ اسے راجا کوٹارا کارا کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس میں خاص قسم کا بنائو سنگھار ہوتا ہے، کپڑے بھی خاص قسم کے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پہلے عام طور پر اس کے ذریعہ مہابھارت اور راماین کی کہانیاں پیش کی جاتی تھیں لیکن اب جدید سیاسی اور سماجی موضوعات پر بھی رقص پیش ہوتے ہیں۔ زبان چونکہ ملیالی استعمال ہوتی ہے اس لیے کیرالہ میں اسے لوک فن کی بھی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کے بنیادی اصول ناٹیہ شاستر پر مبنی ہیں۔ مشہور ملیالم کوی ولاٹھول نے اس کو زندہ کرنے اور مقبول بنانے میں بڑا حصہ لیا۔ کتھک رقص ہندو مسلم کلچر کے امتزاج کی ایک حسین یادگار ہے جسے مغل بادشاہوں اور ان کے بعد آزاد صوبوں کی اور خاص طور پر واجد علی شاہ کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ کتھک رقص میں آج بھی مغل دور کا لباس استعمال ہوتا ہے اور رادھا اور کرشن کی محبت کو پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس رقص میں لاسیا اور ٹانڈو دونوں کا ملاپ ہے اس لیے اس کی مقبولیت بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ ناچ اکثر ٹھمری، دادرا اور غزل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ منی پوری ناچ ایک زمانے میں ساری دنیا سے کٹا ہوا تھا صرف ریاست منی پور کے اندر پایا جاتا تھا۔ 1920 میں رانبدرناتھ ٹیگور نے اس کے مشہور گرو ٹومبی سنگھ کو شانتی نکتین بلایا تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کو اس کی تعلیم دے سکیں۔ اس کے بعد یہ ملک کے اور حصوں میں بھی مقبول ہونے لگا۔ منی پوری رقص لاسیا رقص ہے۔ اس میں عورتیں خاص رقاصائیں ہوتی ہیں۔ رقص کی حرکتیں بہت آہستہ ہوتی ہیں۔ یہ ایک قسم کا گھاگرا پہنتی ہیں اور چہرہ باریک ململ یا ریشمی دوپٹے سے ڈھکا ہوتا ہے۔ مرد صرف دھوتی پہنتے ہیں اور بڑے ڈھول لیے انھیں بجاتے مست ہو کر ناچتے ہیں۔ کلاسیکی رقص میں کچی پوڑی (آندھرا) اور اوڑیسی (اوڈیشا) بھی بہت مشہور ہیں۔ کچی پوڑی میں مرد اور عورتیں دونوں حصہ لیتے ہیں اور اس میں ابھی نئے کے چاروں حصے یعنی ناچ، گانا، لباس اور نفسیاتی عنصر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس میں حصہ لینے والے گاتے بھی ہیں۔ اوڑیسی دو ہزار سال سے مقبول ہے اور ان کا دعوی ہے کہ انھوں نے اصل معنی میں ناٹیہ شاستر کی صحیح پیروی کی ہے۔ یہ بھرت ناٹیم سے بہت مشابہ اور اسی کی طرح بے حد حسین ہے۔ ان کے علاوہ تمل ناڈو اور کیرالہ وغیرہ اور بھی قسمیں رائج ہیں جو کتھاکلی اور بھرت ناٹیم سے بہت قریب ہیں۔
لوک ناچ
ترمیمہندوستان کے ہر صوبہ میں اور بے شمار قبائلیوں میں بے شمار لوک ناچ مقبول ہیں لیکن انھیں موٹے طور پر چار قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک سماجی ہے جو کسانوں، فصل کے بونے، جوتنے، کاٹنے وغیرہ کے بارے میں یا مچھلیوں یا جانوروں کے شکار وغیرہ سے متعلق ہیں۔ دوسرے مذہبی، تیسرے رسومات کے بارے میں، چوتھے نقاب یا مکھوٹے لگا کر کرنے والے ناچ۔ کونکن کا کولیاچا، راجستھان کے جھومر اور کچی گھوڑی، پنجاب کا بھانگڑہ، آندھرا کے لمباڑی ناچ سماجی ناچوں کی تعریف میں آتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے قبائلیوں کے موریہ رقص جن میں ایک ایک سو مرد عورتیں حصہ لیتے ہیں اور سروں پر سینگ لگاتے ہیں۔ وہ بھی اس صنف میں آتے ہیں۔ مہاراشٹر کے ڈنڈی اور کلا ناچ، گجرات کے گربہ، مذہبی ناچوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تمل ناڈو کے کراکرم ناچ اور کیرالہ میں تھرایائم تہوار کے موقع پر مذہبی رسومات کے ساتھ ناچ ہوتے ہیں۔ ہماچل پردیش میں کئی طرح کے ناچ رائج ہیں جن میں لوگ چہرے (ماسک) لگاتے ہیں۔ ان کے علاوہ لداخ، کشمیر، آسام کے ناچ اور بہار کا چائو رقص بھی اس ذیل میں آتے ہیں۔ قدیم زمانے میں راجائوں کے درباروں میں سنسکرت ڈراموں اور ناٹکوں کی بڑی سرپرستی ہوتی تھی۔ بعض راجا خود ڈرامہ نگار تھے۔ انگریزی راج میں دیسی رجواڑے بھی ان کی سرپرستی کرتے تھے۔ نواب واجد علی شاہ اور ٹراونکور اور کوچین کے رجواڑوں کے خاندان ان کی سرپرستی کے لیے مشہور ہیں۔ ناچ اور موسیقی ہندوستان کی مذہبی زندگی کا ایک جزو رہے ہیں۔ ہر مذہبی تہوار کے وقت ناچ گانے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہولی، دیوالی، دسہرہ وغیرہ کے موقع پر رام لیلا اور کرشن لیلا شمال کے گاؤں گاؤں میں کھیلے جاتے ہیں۔ تمام تقریبیں کھلے میدان میں ہوتی ہیں اور ہزاروں لوگ ان میں حصہ لیتے ہیں۔ کوئی ناچ کلاسیکی یا لوک ایسا نہیں جس میں مختلف قسم کے ڈھول اور ساز نہ استعمال ہوتے ہوں۔ مغرب میں تھیٹر، موسیقی اور رقص نے الگ الگ ترقی کی ہے لیکن ہندوستان میں ہمیشہ سے ان کا گہرا باہمی تعلق رہا ہے اور اس کا اثر آج بھی فلموں میں اچھی طرح نظر آتا ہے۔ آزادی کے بعد بے شمار اسکولوں اور کالجوں میں نہ صرف کلاسیکی موسیقی اور رقص کو پھر سے زندہ کیا جارہا ہے بلکہ لوک آرٹ کو بھی ترقی دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور کچھ لوگوں نے اس میں نیا رنگ بھرنے اور بیلے بھی تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے اودے شنکر نے جدید تکنیک استعمال کرکے کلاسیکی آرٹ پر مبنی بیلے پیش کیے۔ اس کے بعد عوامی تھیٹر، شانتی بودھن، سچین شنکر، نیشنل تھیٹر، نرندر شرما، میرالتی، سارابھائی، رام گوپال، رنوکا دیوی وغیرہ نے اس سلسلے میں نہایت کامیاب کوششیں کیں جو اب بھی جاری ہیں۔
نگار خانہ
ترمیمویکی ذخائر پر رقص سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ اردو انسائیکلوپیڈیا/جلد 2، صفحہ 213