عارف گیاوی

بھارتی دیوبندی قاری، عالم اور شاعر

سید حسین احمد قاسمی (تخلص: عارف گیاوی؛ 1941ء - 2020ء) ایک ہندوستانی دیوبندی حافظ، قاری، عالم اور شاعر تھے۔ انھوں نے ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ کی مرکزی جامع مسجد میں ستائیس سال امامت و خطابت کے فرائض انجام دیے۔


سید حسین احمد قاسمی (عارف گیاوی)
امام و خطیب جامع مسجد ساکچی، جمشید پور
برسر منصب
1983ء تا 2010ء
ذاتی
پیدائش
سید حسین احمد

7 فروری 1941ء
موضع نگاواں، ضلع گیا، صوبہ بہار،  برطانوی ہند (موجودہ بہار، بھارت)
وفات26 فروری 2020(2020-20-26) (عمر  79 سال)
مدفنساکچی قبرستان، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ
مذہباسلام
قومیتبھارتی
اولادمحمد اعظم ندوی
محمد زاہد حسین ندوی
محمد خالد ندوی قاسمی
فقہی مسلکحنفی
تحریکدیوبندی
اساتذہمحمد فخر الدین گیاوی، سید فخر الدین احمد، محمد ابراہیم بلیاوی، محمد سالم قاسمی
مرتبہ

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

عارف گیاوی 10 محرم الحرام 1360ھ بہ مطابق 7 فروری 1941ء کو موضع نگانواں، نزد جہان آباد، ضلع گیا، صوبہ بہار، برطانوی ہند (موجودہ بہار، بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد مسلم (متوفی: 1944ء) حافظ قرآن تھے۔ ان کی رسمِ بسم اللّٰہ چار سال اور چار ماہ کی عمر میں ان کے نانیہال دیورہ، ضلع گیا کے مکتب میں ہوئی۔ سات سال کی عمر میں ان کے بڑے بھائی ضیاء الدین قادری مظاہری (متوفی: 4 مئی 1993ء) انھیں اپنے ہمراہ مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا لے گئے، جہاں انھوں نے دوبارہ قاعدہ بغدادی سے شروع کیا، جب چھ پارہ تک ناظرہ پڑھ لیا تو انھیں پڑھتے پڑھتے پہلا پارہ زبانی یاد ہو چکا تھا، ان کی ذہانت دیکھ کر ان کا حفظ شروع کروا دیا گیا، 1952ء کو تین سال کے عرصے میں بارہ سال کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا، حفظِ قرآن کی دستار بندی حسین احمد مدنی کے ہاتھوں ہوئی۔[1][2]

محمد فخر الدین گیاوی حفظ کے ساتھ ان کو قراءت کی مشق کروایا کرتے تھے۔ حفظ کے بعد مدرسہ قاسمیہ ہی میں رہ کر پانچ سال کے عرصے میں فارسی سے شرح جامی تک کی کتابیں پڑھیں۔ 1377ھ بہ مطابق 1958ء میں، اٹھارہ سال کی عمر میں ان کا داخلہ دار العلوم دیوبند میں ہوا اور مختصر المعانی، شرح الوقایہ، سلم العلوم اور نور الانوار؛ یہ ساری درسی کتابیں ملیں اور پانچ سال وہاں رہ کر[1] 1383ھ (بہ مطابق 1963ء) کو دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ ان کے شرکائے دورۂ حدیث میں سید ارشد مدنی بھی شامل تھے۔[1][3] انھوں نے دار العلوم دیوبند میں صحیح البخاری؛ سید فخر الدین احمد سے، جامع ترمذی جلد اول اور صحیح مسلم (از ابتدا تا کتاب الایمان)؛ محمد ابراہیم بلیاوی سے، جامع ترمذی جلد ثانی، شمائل ترمذی اور سنن ابی داؤد؛ سید فخر الحسن مراد آبادی سے، صحیح مسلم (از کتاب الطہارۃ تا ختم کتاب) اور سنن ابن ماجہ؛ نصیر احمد خان بلند شہری سے، سنن نسائی؛ ظہور احمد دیوبندی سے، شرح معانی الآثار؛ مہدی حسن شاہجہاں پوری سے، موطأ امام مالک؛ محمد طیب قاسمی سے اور موطأ امام محمد؛ عبد الاحد دیوبندی سے پڑھی۔[4] ان کے دیگر اساتذۂ دار العلوم میں محمد سالم قاسمی بھی ہیں، جن سے انھوں نے ہدایہ پڑھی۔ نیز حفظ الرحمن پرتاب گڑھی، صدر القراء دار العلوم دیوبند ان کے تجوید و قرات کے استاذ تھے۔[1]

تدریس اور دیگر خدمات

ترمیم

عارف گیاوی نے فراغت کے بعد مدرسہ جامعہ اسلامیہ برنپور، آسنسول، ضلع مغربی بردوان، مغربی بنگال سے تدریس شروع کیا، تین سال وہاں مدرس رہے، پھر ان کے استاذ محمد فخر الدین گیاوی نے انھیں مدرسہ قاسمیہ، گیا، بہار بلالیا اور ترجمہ قرآن، مختصر المعانی، شرح الوقایہ اور نفحۃ العرب کی تدریس ان کے ذمے کردی۔ عارف گیاوی نے مذکورۂ بالا مدرسوں کے علاوہ ڈالٹین گنج، ضلع پلاموں، جھارکھنڈ میں بھی امامت وتدریس کے فرائض انجام دیے، جب وہ مدرسہ قاسمیہ، گیا میں مدرس تھے تو اس وقت وہاں جمعیت علمائے ہند (میم) کے سابق صدر محمد عثمان منصور پوری بھی مدرس تھے۔ 1983ء میں اہل ساکچی کے قابل امام و خطیب کی طلب پر محمد فخر الدین گیاوی نے انھیں جامع مسجد، ساکچی، جمشیدپور کا امام وخطیب بناکر بھیجا تھا، جہاں انھوں نے 1983ء تا 2010ء ستائیس سال امامت وخطابت کے فرائض انجام دیے، بالآخر ضعف کی بنا پر فرائض امامت سے سبکدوش ہوکر جمشید پور سے قریب ایک قصبہ ہلدی پوکھر، ضلع مشرقی سنگھ بھوم میں منتقل ہو گئے۔[1]

بیعت و ارشاد

ترمیم

1965ء میں مدرسہ قاسمیہ کی تدریس ہی کے زمانے میں محمد فخر الدین گیاوی کے حکم سے اسعد مدنی سے بیعت ہوئے، محمد فخر الدین گیاوی سے بھی سلوک میں سبق لیتے رہے، اس کے بعد سید اسعد مدنی نے انھیں محمد ازہر قاسمی رانچوی (متوفّٰی: 13 مئی 2017ء)، سابق رکنِ مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند سے منسلک کر دیا، بعد میں محمد ازہر رانچوی نے اسعد مدنی کے حکم سے، عارف گیاوی کو اجازتِ بیعت سے نوازا۔[1]

شاعری

ترمیم

عارف گیاوی ایک نعت گو شاعر بھی تھے۔ شاعری میں نعت گوئی ان کا خاص میدان تھا۔ انھوں نے غیر منقوط نعت بھی کہی ہے۔ ان کا اِک مجموعۂ کلام ”نعتِ محمدی“ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے شائع ہو چکا ہے اور دوسرا مجموعۂ کلام ”اَفرادِ عارف گیاوی: ایک شعر، ایک مضمون“ کے نام سے زیرِ طباعت ہے۔[1]

وفات و پس ماندگان

ترمیم

عارف گیاوی کا انتقال؛ 2 رجب 1441ھ بہ مطابق 26 فروری سنہ 2020ء، رات 10 بجے، قبلہ رخ کلمہ پڑھتے ہوئے ہوا، انتقال کے وقت مرحوم کی عمر 79 سال تھی، نمازِ جنازہ 27 فروری کو نمازِ عصر کے بعد آم بگان مسجد، ساکچی، جمشید پور کے میدان میں ادا کی گئی، نمازِ جنازہ عارف گیاوی کے بڑے بیٹے محمد اعظم ندوی، استاذ المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد و مصنفِ کورونائی ادب نے پڑھائی اور ان کی وصیت کے مطابق؛ ساکچی قبرستان، جمشید پور میں تدفین عمل میں آئی۔[1][5][2]

پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹیوں کے علاوہ تین بیٹے ہیں: (1) محمد اعظم ندوی، استاذ المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد، (2) محمد زاہد حسین ندوی، امام و خطیب محمدی مسجد، ہلدی پوکھر، مشرقی سنگھ بھوم، جھارکھنڈ و خلیفہ سید عبد اللہ حسنی، (3) محمد خالد ندوی قاسمی۔[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح محمد روح الامین میُوربھنجی (27 فروری 2022ء)۔ "تذکرہ مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2022 
  2. ^ ا ب پ ایس ایم اجمل فرید، ایس ایم طارق فرید، مدیران (1 مارچ 2020ء مطابق 5 رجب المرجب 1441ھ)۔ "سید عارف حسین گیاوی کا ٹاٹا میں انتقال"۔ قومی تنظیم پٹنہ۔ پٹنہ: دفتر قومی تنظیم۔ 59 (60): 5 
  3. محمد طیب قاسمی ہردوئی۔ دار العلوم ڈائری: تلامذۂ فخر المحدثین نمبر (2017 ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود۔ صفحہ: 34–35 
  4. محمد تسلیم عارفی مظفر نگری، عبد اللہ شیر خان سہارنپوری۔ "الاجازة المسندة لسائر الكتب التالية و الفنون المتداولة من الشيخ السيد أرشد المدني حفظه اللّٰه"۔ أساتذة دار العلوم و أسانيدهم في الحديث (بزبان اردو و عربی) (1444ھ بہ مطابق 2023ء ایڈیشن)۔ دیوبند: دار الکتاب۔ صفحہ: 42–43 
  5. سعید الرحمن اعظمی ندوی، مدیر (شوال 1441ھ بہ مطابق جون 2020ء)۔ "الشيخ السيد عارف حسين الغياوي إلى رحمة اللّٰه: سعید الرحمن اعظمی ندویالبعث الاسلامى (بزبان عربی)۔ ٹیگور مارگ، لکھنؤ: شعبہ صحافت و نشریات۔ 66 (3): 96