صوبہ (مغلیہ سلطنت)
صُوبَہ جنوب ایشیائی زبانوں میں کسی ملک کے اُس حصّے کو کہتے ہیں جو کئی ضلعوں پر مشتمل ہوتا ہے، بھارت میں صوبہ کے لیے لفظ ریاست (state) بولا جاتا ہے اور عالمِ عرب میں عموماً صوبہ کے لیے لفظ محافظہ (governorate) استعمال کیا جاتا ہے۔ "صوبہ" کو اصلاً مغل سلطنت نے اپنی علاقائی ذیلی تقسیموں اور ریاستوں کے لیے متعارف کیا تھا؛ اور بعد ازاں اسے برصغیر پاک و ہند کی دیگر حکومتوں نے بھی اپنا لیا۔ یہ لفظ عربی اور فارسی سے ماخوذ ہے۔ صوبہ کے والی / حاکم کو صُوبَہ دار[1] کہا جاتا تھا، بعد میں ہندوستانی اور پاکستانی فوجوں کے ایک افسر کے لیے بھی صوبیدار کہا جانے لگا۔ صوبوں کو پادشاہ (شہنشاہ) اکبر نے اپنی 1572ء-1580ء کی انتظامی اصلاحات کے دوران قائم کیا تھا۔ ابتدائی طور پر صوبوں کی تعداد 12 تھی، لیکن فتوحات کے بعد اکبر کے عہدِ حکومت کے اختتام تک صوبوں کی تعداد بڑھ کر 15 ہوگئی۔ صوبوں کو سرکاروں یا اضلاع میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اور سرکاروں کو مزید پرگنوں یا محلوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اکبر کے بعد آنے والے بادشاہوں، خاص طور پر اورنگ زیب نے اپنی فتوحات کے ذریعے صوبوں کی تعداد کو مزید بڑھایا۔ جیسے ہی سلطنت اٹھارہویں صدی کے اوائل میں تحلیل ہونا شروع ہوئی، بہت سے صوبے خود مختار ہو گئے یا مرہٹوں یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرِ تسلط آ گئے۔
موجودہ دور میں صوبہ پاکستان کی ریاستوں کے لیے بولا جاتا ہے، خاص کر پنجابی، بلوچی اور اردو زبان میں۔
تارِیخ
ترمیمابتداءً اکبر کی انتظامی اصلاحات کے بعد مغلیہ سلطنت کو 12 صوبوں میں تقسیم کیا گیا: کابل، لاہور، ملتان، دہلی، آگرہ، اودھ، الہ آباد، بہار، بنگال، مالوا، اجمیر اور گجرات۔ دکن کی فتح کے بعد انھوں نے وہاں مزید تین صوبے کی بنیاد رکھی: برار، خاندیش (ابتداءً سنہ 1601ء میں اس کا نام تبدیل کر کے داندیش رکھا گیا) اور احمد نگر (سنہ 1636ء میں اس کا نام تبدیل کر کے دولت آباد اور پھر بعد میں اورنگ آباد رکھا گیا)۔
جہانگیر نے سنہ 1607ء میں اپنے دور حکومت میں اڑیسہ کو بنگال سے نکال کر صوبوں کی تعداد بڑھا کر 17 کردی۔ شاہ جہاں کے دور میں صوبوں کی تعداد 22 ہو گئی۔[2] عہد حکومت کے 8ویں سال میں شہشناہ شاہ جہاں نے سرکارِ تلنگانہ کو صوبہ برار سے الگ کر کے اسے ایک نیا صوبہ بنا دیا۔ پھر سنہ 1657ء میں اسے صوبہ ظفر آباد (بیدر) میں ضم کر دیا گیا۔ سنہ 1629ء میں آگرہ کا نام اکبر آباد رکھا گیا اور سنہ 1648ء میں دہلی کا نام شاہجہان آباد کر دیا گیا۔[3] کشمیر کو کابل سے، ٹھٹہ (سندھ) کو ملتان سے اور بیدر کو احمد نگر سے الگ کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ تک قندھار مغلیہ سلطنت کے تحت ایک الگ صوبہ تھا لیکن سنہ 1648ء میں یہ صفوی سلطنت کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
اورنگ زیب نے سنہ 1686ء میں بیجاپور کو، سنہ 1687ء میں سِرا کو[4] اور سنہ 1687ء میں گولکنڈہ کو نئے صوبوں کے طور پر شامل کیا۔ ان کے دور حکومت میں 22 صوبے تھے۔[2] ان صوبوں کے نام کابل، کشمیر، لاہور، ملتان، دہلی، آگرہ، اودھ، الہ آباد، بہار، بنگالہ، اڑیسہ، مالوا، اجمیر، گجرات، برار، خاندیش، اورنگ آباد، بیدر، ٹھٹہ، بیجاپور، سِرا[4] اور حیدرآباد (گولکنڈہ) تھے۔[5] اورنگ زیب نے سنہ 1692ء میں آرکاٹ کو مغل صوبہ بنایا۔
مغلیہ سلطنت کے عہد میں پنجاب کا خطہ تین صوبوں پر مشتمل تھا: صوبہ لاہور، صوبہ ملتان، اور صوبہ دہلی کے کچھ حصے۔[6] سکھ سلطنت (1799ء–1849ء) جس نے پنجاب کے خطہ پر حکومت کی، نے اپنے زیر انتظام علاقوں کے لیے بھی صوبہ کی اصطلاح استعمال کی، جن کی تعداد پانچ تھی۔[7]
مغلیہ سلطنت کے صوبہ جات کی فہرست
ترمیماکبر کے اصلاً بارہ صوبہ جات تھے
ترمیماکبر (مغل شہنشاہ) کی انتظامی اصلاحات کے نتیجے میں تشکیل دیے گئے بارہ صوبہ جات:
# | صوبہ | پائے تخت | قیام | خاتمۂ انتظام | خاتمۂ انتظام کا سبب |
---|---|---|---|---|---|
1 | صوبہ کابُل (سرکارِ کشمیر سنہ 1586ء میں شامل کیا گیا) | کابل | 1580ء | 26 نومبر 1738ء | درۂ خیبر کی جنگ کے نتیجے میں نادر شاہ کا قبضہ |
2 | صوبہ لاہور | لاہور | 1580ء | 15 ستمبر 1758ء | احمد شاہ درانی کا قبضہ |
3 | صوبہ ملتان | ملتان | 1580ء | 1752ء | احمد شاہ درانی کا قبضہ |
4 | صوبہ اجمیر | اجمیر | 1580ء | 1758ء | جئے پاجی راؤ سندھیا اور رام سنگھ کا قبضہ |
5 | صوبہ گجرات | احمد آباد | 1573ء | فروری 1758ء | دماجی راؤ گائیکواڑ کا قبضہ |
6 | صوبہ دہلی (صوبہ شاہجہان آباد کے نام سے بھی معروف تھا)[8] | دہلی | 1580ء | 21 ستمبر 1857ء | جارج اینسن کا قبضہ |
7 | صوبہ آگرہ | آگرہ | 1580ء | 12 جون 1761ء | سورج مَل کا قبضہ |
8 | صوبہ مالوا | اُجین | 1568ء | 24 دسمبر 1737ء | باجی راؤ اول اور بالاجی باجی راؤ کا قبضہ |
9 | صوبہ اودھ | فیض آباد، بعد میں لکھنؤ | 1572ء | 26 جنوری 1722ء | سعادت علی خان اول کے ماتحت ہوا |
10 | صوبہ الہ آباد | الہ آباد | 1580ء | 1772ء | تُکوجی راؤ ہولکر اور ویساجی کرشن بِنیوالے کا قبضہ |
11 | صوبہ بِہار | پٹنہ | 1576ء | 1733ء | شجاع الدین محمد خان کے ماتحت ہوا[9] |
12 | صوبہ بنگال | ٹانڈہ (1574ء–1595ء) راج محل (1595ء–1610ء، 1639ء–1659ء) ڈھاکہ (1610ء–1639ء، 1660ء–1703ء) مرشد آباد (1703ء–1717ء) |
12 جولائی 1576ء | 1717ء | مرشد قلی خاں کے ماتحت ہوا |
سنہ 1593ء کے بعد اضافہ کیے گئے صوبہ جات
ترمیمبعد میں جن صوبہ جات کا اضافہ کیے گئے وہ یہ تھے (تاریخ بلحاظ قیام):
# | صوبہ | پائے تخت | قیام | خاتمۂ انتظام | خاتمۂ انتظام کا سبب | شہنشاہ |
---|---|---|---|---|---|---|
13 | صوبہ ٹھٹہ | ٹھٹہ | 28 مارچ 1593ء | 1737ء | نور محمد کلہوڑہ کے ماتحت ہوا | اکبر |
14 | صوبہ برار | ایلچپور | 1596ء | 11 اکتوبر 1724ء | آصف جاہ اول کے ماتحت ہوا | |
15 | صوبہ خاندیش | برہان پور | 17 جنوری 1601ء | 1760ء | بالاجی باجی راؤ کا قبضہ | |
16 | صوبہ احمد نگر (سنہ 1636ء میں نام تبدیل کر کے دولت آباد رکھا گیا) (بعد میں پھر سے نام بدل کر اورنگ آباد رکھ دیا گیا) |
احمد نگر (1601ء–1636ء) دولت آباد اورنگ آباد |
جولائی 1600ء (جون 1636ء میں مکمل فتح ہوا) |
1724ء | آصف جاہ اول کے ما تحت ہوا | |
17 | صوبہ اڑیسہ | کٹک | 1605ء | مارچ 1751ء | رگھوجی بھونسلے اول کا قبضہ | جہانگیر |
18 | صوبہ تلنگانہ | ناندیڑ | 1636ء | 1657ء | صوبہ بیدر میں انضمام | شاہ جہاں |
19 | صوبہ قندھار | قندھار | 1638ء | 1648ء | عباس صفوی دوم کا قبضہ | |
20 | صوبہ کشمیر | سری نگر | 1648ء | 1752ء | احمد شاہ درانی کا قبضہ | |
21 | صوبہ بلخ | بلخ | 1646ء | 1647ء | عبد العزیز خان کا قبضہ | |
22 | صوبہ بدخشاں | قندوز | 1646ء | 1647ء | عبد العزیز خان کا قبضہ | |
23 | صوبہ بیدر | بیدر | 1656ء | 11 اکتوبر 1724ء | آصف جاہ اول کے ما تحت ہوا | |
24 | صوبہ بیجاپور | بیجاپور | 1684ء | 31 جولائی 1724ء | آصف جاہ اول کے ما تحت ہوا | اورنگ زیب |
25 | صوبہ گولکنڈہ (بعد میں نام صوبہ حیدرآباد ہوا) | حیدرآباد | 12 ستمبر 1687ء | 31 جولائی 1724ء | آصف جاہ اول کے ما تحت ہوا | |
26 | صوبہ سِرا | سِرا | 1687ء | 1766ء | مادھو راؤ اول کا قبضہ | |
27 | صوبہ آرکاٹ | جنجی | 1692ء | 1710ء | سعادت اللہ خان اول کے ماتحت ہوا |
نِگار خانَہ
ترمیمحواشی
ترمیم- ↑ y George Clifford Whitworth (2016)۔ An Anglo-indian Dictionary: A Glossary Of Indian Terms Used In English, And Of Such English Or Other Non-indian Terms As Have Obtained Special Meanings In India۔ Palala Press۔ صفحہ: 301۔ ISBN 978-1-354-76411-4
- ^ ا ب Mahajan, V.D. (1991, reprint 2007). History of Medieval India, Part II, New Delhi: S. Chand, آئی ایس بی این 81-219-0364-5, p.236n
- ↑ Habib, I (2003). The Agrarian System of Mughal India 1556-1707, New Delhi: Oxford University Press, آئی ایس بی این 0-19-565595-8, pp.8n, 451
- ^ ا ب Imperial Gazetteer of India: Provincial Series 1908
- ↑ Habib, I (2003). The Agrarian System of Mughal India 1556-1707, New Delhi: Oxford University Press, آئی ایس بی این 0-19-565595-8, p.4
- ↑ Tripta Wahi (2013)۔ Irrigation, State and Society in Pre-colonial India۔ Nehru Memorial Museum and Library۔ صفحہ: 3۔ ISBN 9789383650002
- ↑ Hans Herrli (1993)۔ The Coins of the Sikhs۔ صفحہ: 10
- ↑ Surendra Nath Sinha (1974)۔ Subah of Allahabad Under the Great Mughals, 1580-1707۔ Jamia Millia Islamia۔ صفحہ: 95۔ ISBN 978-0-88386-603-0
- ↑ Merchants, Politics and Society in Early Modern India: Bihar: 1733-1820۔ Brill's Indological Library۔ Brill۔ 2023۔ ISBN 978-90-04-64474-8
حوالہ جات
ترمیم- Keay, John (2000). India: a History. Grove Press, New York.
- Markovits, Claude (ed.) (2004). A History of Modern India: 1480–1950. Anthem Press, London.
مزید پڑھیے
ترمیم- Richard Foltz (1996)۔ "The Mughal Occupation of Balkh 1646–1647"۔ Journal of Islamic Studies۔ Oxford University Press۔ 7 (1): 49–61۔ doi:10.1093/jis/7.1.49