بادشاہ ،(فارسی: پادشاہ)حکمران سلطنت کے لیے عالیشان و شاندار شاہی خطاب ہے۔ مختلف شاہی خاندانوں نے شاہ یا بادشاہ کے خطاب کو رائج رکھا۔ قدیم ایران میں شاہِ شاہان یا شہنشاہ کی حیثیت سے رائج تھا۔ ہخامنشی سلطنت سے قبل مسیحی شاہی خاندانوں میں بھی شاہ کا خطاب رائج رہا ہے۔ لفظ پادشاہ جب عربی زبان میں معرب ہوا تو بادشاہ بن گیا جسے سلطنت مغلیہ کے حکمرانوں نے اِختیار کیا۔ سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر پہلے حکمران تھے جنھوں نے بادشاہ بطور خطاب اختیار کیا جبکہ بعد کے مغل حکمرانوں نے شہنشاہ کا خطاب اختیار کیا۔ عثمانی سلاطین نے بادشاہ یا پادشاہ کی بجائے پاشا کا خطاب اپنایا جو بادشاہ کے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔

مغل پادشاہ ظہیر الدین بابر (عہدِ حکومت: 21 اپریل 1526ء تا 26 دسمبر 1530ء
عثمانی سلطان و پادشاہ سلیمان اول (عہدِ حکومت: 30 ستمبر 1520ء تا 7 ستمبر 1566ء

لفظ پادشاہ کا مخرج

ترمیم

پادشاہ لفظ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ کا مرکب ہے یعنی: پاد اور شاہ، پاد کے معنی حاکم یا حکمران یا آقا اور شاہ فارسی زبان میں حکمران کے لیے مستعمل تھا۔ فارسی اصطلاح میں پادشاہ کے معنی سردار یا تاجدار کے ہیں۔ اِس کا مادہ دو الفاظ یعنی پاد سے مشتق ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سردار، شوہر کے ہیں۔ لاطینی زبان میں یہ لفظ potens سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر سنسکرت زبان میں اِس کے معنی شوہر کے لیے جائیں تو پھر اِس کی تانیث پتنی ہوگی جو بیوی کے لیے ہندی زبان میں مستعمل ہے۔ عہدِ اکبری کا مؤرخ ابو الفضل ابن مبارک اکبر نامہ میں لفظ پادشاہ کے متعلق لکھتا ہے کہ:

لفظ پادشاہ کے دو حصے ہیں، پاد یعنی استحکام و تصرف اور شاہ یعنی حاکم و آقا۔ گویا پادشاہ ایسے حکمران کو کہا جاتا ہے جسے کوئی بھی معزول نہ کرسکے، جو سب کچھ ہو، مختارِ مطلق، و مالک وغیرہ۔[1]

پادشاہ بطور خطابِ شاہی

ترمیم

یہ خطاب دراصل مسلمان حکمرانوں اور فرمانرواؤں کے لیے مخصوص تھا جو مرورِ ایام نیز اِس لیے کہ دُولِ یورپ کے ساتھ زمانہ دراز تک تعلقات رہے، بعض یورپی حکمرانوں کے لیے بھی یہ خطاب پسند کیا جانے لگا تھا۔ باب عالی سلطنت عثمانیہ اور یورپی سلطنتوں کی خط کتابت میں غالباً صدرِ اعظم قویوچو مراد پاشا (متوفی 12 اگست 1611ء) نے سب سے پہلے آسٹریا کے حکمران رڈولف ثانی کے لیے پادشاہ کا خطاب استعمال کیا۔ 1737ء میں نیمیرو کانفرنس (Nimirow Confernce) میں روس کے زار پیٹر دؤم نے اپنے لیے اِس خطاب کا مطالبہ کیا تھا اور بعد ازاں بخارسٹ کی فتح کے بعد 1773ء میں بخارسٹ کانفرنس (Bucharest Confernce) کے مذاکرات میں بھی پادشاہ کے خطاب کا مطالبہ کیا تھا۔[2]

 
شہنشاہ مقدس سلطنت روما رڈولف ثانی (عہدِ حکومت: 12 اکتوبر 1576ء تا 20 جنوری 1612ء

سلطنت عثمانیہ میں پادشاہ بطور خطابِ شاہی

ترمیم
 
مغل شہنشاہ شاہ جہاں (1635ء)

تاریخی ماخذ سے یہ معلوم نہیں کیا جاسکا کہ سلطان روم کو کب پادشاہِ آل عثمان کیا جانے لگا؟۔ بہرحال ہمیں یہ خطاب سولہویں صدی عیسوی میں تحریر کی جانے والی ترک دستاویزات میں مختلف ہم قافیہ الفاظ کے ساتھ ملتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پندرہویں صدی عیسوی کے اختتام تک یہ خطاب مستعمل ہو گیا ہو کیونکہ پندرہویں صدی عیسوی میں آل عثمان کے سلاطین ترک خطاب خنکار (از خداوندگار کا اختصار) رائج تھا جو سولہویں صدی عیسوی کے آغاز پر متروک ہو گیا تھا۔ تقریباً یہی کیفیت لفظ سلطان کی بھی ہے جو اولاً صوفی درویشوں کے لیے مستعمل تھا مگر بعد ازاں سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں نے اپنے لیے بطورِ خاص اِسے اِختیار کر لیا۔[3] عثمانی حکمران اولاً غازی فاتح کا خطاب یا لقب استعمال کیا کرتے تھے جیسا کہ سلطنت عثمانیہ کے مؤسس عثمان اول عثمان غازی فاتح کے نام سے یاد کیے جاتے تھے۔ عثمانی سلطان مراد اول کو خداوندگار (ترکی زبان میں خنکار) کہا گیا اور 1389ء میں شہادت کے باعث انھیں شہید کہا گیا۔ بایزید اول نے سلطان روم کا خطاب اختیار کیا۔ مراد ثانی نے پہلی بار سلطان کا شاہی خطاب اختیار کیا۔ سلیم اول نے جب حجاز کی فتوحات مکمل کر لیں تو 1517ء میں مصر پر فتح کے بعد اسلام کے مقدس مقامات پر سلطنت عثمانیہ کی حکومت قائم ہوجانے کے بعد خلیفۃ الاسلام اور خادم الحرمین الشریفین جیسے خطابات اختیار کرلیے۔ سلطان سلیمان اول نے سابقہ سلاطین عثمانیہ کے مقابلہ میں پہلی بار پادشاہ کا شاہی خطاب اختیار کیا لیکن بعد کے سلاطین نے صرف اپنے لیے سلطان کا شاہی خطاب باقی رکھا۔

سلطنت مغلیہ میں پادشاہ بطور خطابِ شاہی

ترمیم

سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر وہ پہلے حکمران تھے جنھوں نے 1526ء میں اپنے لیے پادشاہ بطور شاہی خطاب کے اِختیار کیا تھا۔ گلبدن بیگم نے ہمایوں نامہ میں اپنے والد ظہیر الدین بابر کو بادشاہ کے خطاب سے یاد کیا ہے۔[4] ظہیر الدین بابر کے بعد 1857ء تک تمام مغل حکمران خود کو پادشاہ ہی کہلوایا کرتے تھے۔ علاوہ ازین شاہ جہاں کے عہد سے مغل حکمران کو پادشاہ غازی کے لقبِ خاص سے یاد کیا جانے لگا تھا اور یہ 1857ء تک جاری رہا البتہ ابتدائی خطابات میں شہنشاہ کا اضافہ کر لیا گیا جو شاہی مہر کے ابتدا میں کندہ ہوتا تھا۔سلطنت مغلیہ میں مغل ملکہ کے لیے ایک عہدہ خاص بادشاہ بیگم ہوتا تھا جسے مغل حرم میں نمائندگی حاصل ہوتی تھی۔ اِس عہدہ پر فائز ہونے والی خواتین میں ماہم بیگم (متوفی 28 مارچ 1534ءصالحہ بانو بیگم (متوفی 1620ءملکہ نورجہاں (متوفی 17 دسمبر 1645ءارجمند بانو بیگم (متوفی 17 جون 1631ء) اور بادشاہ بیگم ملکہ الزمانی (متوفی 17 دسمبر 1789ء) نمایاں ہیں۔

ریاست اودھ میں سب سے پہلے نواب غازی الدین حیدر شاہ (متوفی 19 اکتوبر 1827ء) نے پادشاہ کا شاہی خطاب اختیار کیا، حالانکہ اِس سے قبل ریاست اودھ کے حکمرانوں کو صرف نواب، ناظم یا وزیر یا نواب وزیر الممالک کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں نواب محمد علی شاہ (متوفی 7 مئی 1842ء)، نواب امجد علی شاہ (متوفی 13 فروری 1847ء)، نواب واجد علی شاہ (متوفی 21 ستمبر 1887ء) بھی پادشاہانِ ریاست اودھ کہلاتے رہے۔

تخت نشینی

ترمیم

مغل پادشاہوں اور شہنشاہوں کے ہاں نظامِ سلطنت کے واسطے جانشینی یا تخت نشینی کا کوئی باضابطہ قانون یا واضح طریقہ موجود نہیں تھا بلکہ ذریعہ طاقت یا اثر و رسوخ کو ہی اہمیت دی جاتی تھی اور اِسی کے ذریعہ کوئی تخت پر قابض ہو سکتا تھا۔ سلطنت مغلیہ میں بیشتر ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں شہنشاہوں نے تخت پر قبضہ کر لیا اور سابقہ پادشاہ یا شہنشاہ کو نظر بند کیا یا قید کروایا۔ سلطنت مغلیہ کی ابتدا ظہیر الدین بابر کے حملہ ہندوستان یعنی پانی پت کی پہلی جنگ (21 اپریل 1526ء) سے ہوئی۔ ظہیر الدین بابر کے والد عمر شیخ مرزا کا جب انتقال ہوا تو اُس کے بھائی جہانگیر مرزا نے علم بغاوت بلند کیا مگر ظہیر الدین بابر نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کر لیا۔ اِسی طرح ظہیر الدین بابر نے ہمایوںکو ولی عہد نامزد کیا تھا مگر ظہیر الدین بابر کی وفات کے بعد کامران مرزا نے بغاوت کی جس سے ہمایوں کو مشکلات درپیش آئیں اور شیر شاہ سوری نے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت پر قبضہ کر لیا اور ہمایوں کو 15 سال جلاوطنی میں گزارنے پڑے۔ جلال الدین اکبر کے زمانہ میں مرزا حکیم نے بغاوت کی مگر اُسے ختم کر دیا گیا۔ جہانگیر نے اپنے والد جلال الدین اکبر کے خلاف بغاوت کی جو بعد ازاں صلح پر ختم ہوئی۔ جہانگیر کے عہد میں اُس کے بیٹے خسرو نے بغاوت کی تو اُسے قید کروادیا گیا۔ شاہ جہاں نے دارا شکوہ کو ولی عہد بنایا تھا مگر دارا شکوہ کی ناکام صلاحیتوں کے سبب اورنگزیب عالمگیر تخت پر آنے میں کامیاب ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات (3 مارچ 1707ء) کے بعد تخت نشینی کے کسی واضح اُصول و قانون کے مفقود ہونے کے باعث سلطنت مغلیہ کا زوال شروع ہوا جو 1857ء میں انتہا کو پہنچا۔[5]

 
شہزادہ دارا شکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے قریب ایستادہ۔ (1650ء)

تاج پوشی

ترمیم
 
مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے قریب تین مغل شہزادے دارا شکوہ، شاہ شجاع (مغل شہزادہ) اور اورنگزیب عالمگیر ایستادہ ہیں۔ (1628ء)

مغل دربار میں پادشاہ کا مقام و تقدس

ترمیم
 
محمد الامین بے، آخری تیونسی بے، پادشاہِ تیونس 1956ء - 1957ء

مغل دربار میں پادشاہ مرکزی حیثیت کا مالک ہوتا تھا۔ جب وہ تخت پر براجمان ہوجاتا تو وزراء اور اُمراء آداب بجا لاتے اور یہ تمام وزراء اور اُمرا پادشاہ کی موجودگی میں بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ مغل عہد میں سب رکھ رکھاؤ پادشاہ کے احترام کے واسطے تھے، حتیٰ کہ پادشاہ کے تخت پر مغل شہزادوں کو بھی بیٹھنے کی اجازت نہ تھی اور اگر کوئی مغل شہزادہ یہ جرات کربیٹھتا تو اِسے پادشاہ کی موجودگی میں گستاخی سمجھا جاتا تھا۔ تخت پر شہنشاہ کا براجمان ہونا بھی احترام کی نسبت سے تھا لیکن عہد شاہجہانی میں صرف شاہ جہاں ہی دارا شکوہ کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا کرتا تھا۔ عہد شاہجہانی میں شہزادہ دارا شکوہ اکثر مغل شہنشاہ شاہجہاں کے قریب میں کھڑا ہوجاتا تھا، حالانکہ ظہیر الدین بابر سے لے کر مغل بادشاہوں میں یہ رسم یا طور طریقہ گستاخی سمجھا جاتا تھا۔

پادشاہ کے اوصاف

ترمیم

پادشاہ چونکہ کسی بھی ملک یا ریاست کی ایک اعلیٰ و ارفع شخصیت ہوتی ہے، اِس لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ اُس میں چند ایسے اوصاف و کمالات ہوں جو اُسے دوسروں سے ممتاز و نمایاں کرسکیں اور جس سے وہ اپنے فرائض بخوبی سر انجام سے دکے۔ مؤرخ ابن حسن نے پادشاہ کے اوصاف کی تعریف یوں کی ہے:

"اِتنی پر عظمت اور باوقار حیثیت کا مالک ہونے کی وجہ سے پادشاہ کو ایسی خوبیوں سے متصف ہونا چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دے سکے۔"[6]

محدث و مفسر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا قول بابت اوصافِ پادشاہ

ترمیم

محدث و مفسر شاہ ولی اللہ دہلوی (متوفی 20 اگست 1762ء) نے اپنی شاہکار تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں پادشاہ کے اوصاف یوں بیان کیے ہیں کہ:

پادشاہ کے لیے ضروری ہے کہ پسندیدہ اخلاق سے موصوف ہو، ورنہ شہر برباد ہو جائے گا۔ اگر اُس میں شجاعت نہ ہوگی تو وہ اپنے مخالفوں سے پورا مقابلہ نہ کرسکے گا۔ رعیت اُس کو ذِلت کی آنکھ سے دیکھے گی۔ اگر اُس میں علم کی صفت نہ ہوگی تو وہ سطوت سے اُن کو برباد کر دے گا۔ اگر حکیم نہ ہوگا تو مناسب تدابیر کو مستنبط نہ کرسکے گا۔ پادشاہ کو چاہیے کہ عقلمند بالغ آزاد مرد ہو۔ ذِی عقل ہو۔ بینا، شنواء اور گویا ہو۔ لوگ اُس کے اور اُس کے خاندان کے اعزاز کو تسلیم کرتے ہوں۔ اُس کے آبا و اجداد کے عمدہ فضائل کو دیکھ چکے ہوں اور خوب جانتے ہوں کہ پادشاہ مصالح ملکی کی پاسبانی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا۔ یہ سب اُمور عقل کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں اور تمام فرقوں نے اِس پر اِتفاق کیا ہے۔ اُن کے شہروں میں کیسا ہی بُعد کیوں نہ ہو اور وہ کسی ہی مذہب کے کیوں نہ ہوں۔ اِس لیے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ پادشاہ کے مقرر کرنے سے جو مصلحت مقصود ہے، وہ بغیر اُمورِ بالا کے مکمل نہیں ہو سکتی۔ اگر پادشاہ اِن اُمور میں فروگذاشت کرے گا تو لوگ اُس کو خلافِ مقصود جانیں گے اور اُس سے بیزار ہوجائیں گے اور اگر خاموش بھی رہیں گے تو در پردہ اُن کی طبیعتوں میں غصہ بھرا رہے گا اور پادشاہ کو مناسب ہے کہ اپنی رعایا کے دِلوں میں اپنے اعزاز کو پیدا کرے اور پھر اعزاز باقی رکھنے کا اہتمام کرے۔ مناسب تدابیر سے اُن اُمور کا تدارک کرتا رہے جو اُس کی شان کے منافی ہوں اور اُس سے سرزد ہوں۔ جو پادشاہ اپنے جاہ و مرتبے کا قائم رکھنا چاہے، اُس کو چاہیے کہ اُن اعلیٰ ترین اخلاق سے اپنے آپ کو پیراستہ کرے جو اُس کے مرتبہ اور ریاست کے شایانِ شان ہو۔ مثلاً حکمت و شجاعت سے فیاضی سے زیادتی کرنے کی حالت میں معافی کا اہتمام کرے۔

پادشاہ خود بھی بالطبع فیاض ہو۔ فیاضی سے اُس کی غرض لوگوں کو صید کرنا نہ ہو۔ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرے تو اُس کو مناسب ہے کہ ایسا لباس، گفتگو ادب اختیار کرے جس کی جانب لوگوں کے دِلوں کو کشش ہو اور آہستہ آہستہ اُن سے قریب ہوتا جائے۔ اخلاص و محبت کو بغیر لاف و گزاف کے اُن پر ظاہر کرے۔ کوئی ایسا قرینہ نہ ہو جس سے وہ سمجھ جائیں کہ یہ مہربانیاں صرف اُن کے شکار کرنے کو ہیں اور خوب اُن کو دِل نسین کر دے کہ اُس کا مثل اُن کے حق میں ناممکن ہے اور جب تک لوگوں کے دِلوں میں اُس کی فضیلت خوب پیوست نہ ہو جائے، برابر اِسی کوشش میں رہنا چاہیے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کے کہ اُن کے سینوں میں پادشاہی محبت بھرگئی ہے، اُن کے اعضاء میں نیازمندی اور فروتنی سرایت کرگئی ہے، اب پادشاہ کو اُن سب اُمور کی نگرانی چاہیے، کوئی ایسا امر پیش نہ آئے جس کی وجہ سے اُن کی حالت میں کوئی تبدیلی پیدا ہو۔ اگر بالفرض کوتاہی پیش آ جائے تو فوراً اُس کا تدارک کر دے۔ اُن پر لطف و احسان کرے اور ظاہر کر دے کہ جو کچھ عمل میں آیا ہے، بہ تقاضائے حکمتِ عملی آیا ہے، یہ اُن کے فائدے کے لیے ہوا ہے نہ مضرت کے لیے اور اِن سب اُمور کے بعد پادشاہ کو اپنی فرماں برداری ثابت کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سرکشوں سے اِنتقام لے۔ جس شخص کا اُس کو حال معلوم ہو کہ اُس نے جنگ یا خراج وصول کرنے یا کسی اور تدبیر میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام دیا ہے تو اُس پر زیادہ داد و دہش کرے، اُس کے مرتبہ کو بلند کرے اور کشادہ پیشانی کے ساتھ اُس سے پیش آئے اور جس شخص کی خیانت تخلف نافرمانی پادشاہ کو معلوم ہو، اُس کے وظیفہ کو گھٹا دینا چاہیے۔ اُس کے مرتبہ کو کم کردینا چاہیے، اُس سے ترش روئی کرے اور پادشاہ کو یہ نسبتِ عام لوگوں کے زیادہ تونگری کی بھی ضرورت ہے اور پادشاہ کو زیادہ مناسب ہے کہ لوگوں کو زیادہ تنگ نہ کرے۔ مردہ زمینوں کو زندہ کرنے پر اُن کو مجبور نہ کرے اور دور جانب کی حمایت اور حفاظت نہ کروائے اور اگر کسی سے نہایت سخت گیری کرے تو پہلے اہل حل و عقد کو ثابت کر دے کہ یہ اُس کا مستحق ہے۔ مصلحتِ کلی اُسی کی مقتضی ہے اور پادشاہ کو چاہیے کہ اِس میں نہایت فراست کا مادہ ہو۔ دِلوں کے راز سمجھ سکتا ہو۔ اُس میں ایسی زِیرکی ہو کہ اُس کے گماں درست ہوں، جیسا کہ کسی چیز کو دیکھ رہا ہے یا سن رہا ہے۔ پادشاہ کے لیے ضروری ہے کہ ضروری امر کو کل پر نہ چھوڑے اور اگر رعیت میں سے کسی کو ایسا پائے کہ اُس کے دِل میں پادشاہ کی جانب سے عداوت ہو تو جب تک اُس کو برہم نہ کر دے اور اُس کی طاقت کو ضعیف نہ کر دے، اُس کو تسلی نہ ہو۔[7]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. سلطنت دہلی اور مغل نظم مملکت: صفحہ 209۔ مطبوعہ لاہور۔
  2. دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 5، صفحہ 347/348۔ مضمون: پادشاہ۔ مطبوعہ لاہور 1971ء۔
  3. دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 5، صفحہ 348۔ مضمون: پادشاہ۔ مطبوعہ لاہور 1971ء۔
  4. گلبدن بیگم: ہمایوں نامہ، صفحہ 7۔ مطبوعہ لاہور 2005ء۔
  5. تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہوں: تزکِ بابری، ہمایوں نامہ، اکبرنامہ، تزکِ جہانگیری، شاہجہاں نامہ اور منتخب اللباب۔
  6. ابن حسن: سلطنت مغلیہ کا مرکزی نظامِ حکومت، صفحہ 66۔ مطبوعہ انجمن ترقی اردو، دہلی، 1982ء
  7. شاہ ولی اللہ دہلوی: حجۃ اللہ البالغہ، باب 24، صفحہ 89/90۔ مطبوعہ لاہور، 1398ھ/ 1978ء۔