قربانی (یہودیت)

یہودیت میں قربانی
سلسلہ مضامین
یہودیت

  

باب یہودیت

قربن ( عبرانی: קָרְבָּן، عربی: قربان، انگریزی: korban) مذہب یہود میں قربانی پیش کرنے کو کہتے ہیں۔ احکام تورات میں بیان اور واجب شدہ تمام قربانیوں ( جنس، جانور وغیرہ ) کو قربن ہی کہا جاتا ہے۔ قربن کی جمع قربانوت ہے۔ زیادہ تر قربانی جانوروں کی دی جاتی ہے جسے زی واہ ( عبرانی: זֶבַח، انگریزی: zevah ) اس کے علاوہ قربن عولہ ( عبرانی: קָרְבַּן עוֹלָה، انگریزی: korban olah) اور زی واہ ہا شیلامیم ( عبرانی: זֶבַח הַשְּׁלָמִים‬، انگریزی: zevah hashelamiym) بھی قربانی ہی کی اقسام ہیں جن کے طریقہ اعمال میں فرق ہیں۔

ایک کاہن بکری کی قربانی پیش کرتے ہوئے

قربن عموماً ایک حلال جانور ہوتا تھا جیسے بیل، بھیڑ، بکری یا فاختہ جسے یہودی روایات کے مطابق قربان کیا جاتا تھا۔ بسا اوقات جنس کی شکل میں بھی قربانی ادا کی جاتی تھی مثلاً اناج، کھانے، سرکہ اور خوشبو وغیرہ۔[1][2][3] اکثر اوقات قربانی کو پکایا بھی جاتا تھا جس کا زیادہ حصہ قربانی کرنے والا ہی کھاتا جبکہ کچھ حصہ کاہنوں کو دیا جاتا اور تھوڑا سا حصہ یروشلیم میں بیت المقدس کی قربان گاہ پر جلایا جاتا تھا۔ چند مخصوص مواقع یا اعمال کی صورت ساری قربانی کو صرف خدا کے لیے مخصوص کیا جاتا تھا جیسے کبش الفداء ( تورات کے مطابق کبش الفداء اس جانور کو کہتے تھے جس پر کسی کے گناہ لاد کر اسے جنگل کی طرف ہانک دیا جاتا تھا )۔[4][5]

تورات عبرانی کے مطابق خدا نے بنی اسرائیل کو بہت سارے مواقع پر قربانی کرنے اور کرتے رہنے کا حکم دیا ہے۔ ان قربانیوں کی ادائیگی صرف کاہنوں کے ہاتھوں ہی سر انجام پا سکتی ہے۔ ہیکل یروشلیم کی تعمیر سے پہلے جب بنی اسرائیل صحرا میں تھے، اس دوران میں قربانیاں صرف خیمہ اجتماع میں ہی ادا کی جاتی تھیں۔ ورود کنعان کے بعد قربانی کا اصل مرکز شیلوہ تھا جبکہ بتشمہ[6]، مصپہ[7]، رامہ[8] اور گیلگال[9] میں بھی قربانیاں گزاری جاتی تھیں۔ جبکہ ساؤل کے تحت گھرانوں اور قبیلوں [10] کی قربانیوں کا مرکز نوب تھا[11]۔ اگرچہ نجی قربانیوں کا سلسلہ شیلوہ میں ہی جاری رہا۔[12] داؤد نے اراوُناہ کے میدان مزرع میں ایک نیا مذہبی مرکز تعمیر کیا[13] اور سلاسل کو وہاں منتقل کر دیا۔[14][15] تورات عبرانی کے مطابق ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد تمام قربانیاں وہیں گزاری جاتی تھیں۔[16] ہیکل سلیمانی کی تباہی کے بعد ہیکل دوم کے قیام پر قربانیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تاوقتیکہ ہیکل دوم بھی 70 مسیح میں تباہ ہو گیا۔ ہیکل دوم کی تباہی کے بعد قربانیاں ممنوع قرار پائیں کیونکہ ہلاخا کے مطابق قربانیاں صرف ہیکل میں ہی گزاری جا سکتی ہیں۔ قربانیوں کی ادائیگی کا سلسلہ دوسری صدی عیسوی میں یہود-رومن جنگ کے دوران میں پھر سے شروع ہوا اور کئی حلقوں میں بعد ازاں بھی جاری رہا۔[17][18][19]

ادوار قدیم میں قربانیاں 613 احکامات کی اطاعت و پیروی میں گزاری جاتی تھی۔ اور اب اس عہد جدید میں جب کہ ہیکل و کاہن نہیں ہیں موجودہ وقت کے یہودی صدقہ و خیرات کی صورت یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔[20]

یہودیت میں قربانی کی نوعیت اور اعمال 613 احکامات، الہیات اور ہلاخا پر مبنی ہیں۔ توضیح و تحسیس یہود کے مطابق آمد مسیح سے 613 احکامات کی تنسیخ نہیں ہوگی۔[21] اکثر قدامت پسند یہودی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہیکل سوم کی تعمیر کے ساتھ ہی جانوروں کی قربانی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جبکہ دوسرے مکتب فکر کے یہودی سمجھتے ہیں کہ صدقہ و خیرات ہی کافی ہوں گے۔

اشتقاقیات

ترمیم

قربن اور قرب

ترمیم

سامی زبانوں میں قرب ( مادہ و مخرج ) نزدیک ہونے کے معنی دیتا ہے۔[22] اور اس مادے سے تخلیق شدہ دیگر الفاظ جیسے ‘ قرو ‘ بمعنی قرب خاص اور ‘ قیروویم ‘ بمعنی رشتہ داری، برادری وغیرہ کے معنی و مفہوم ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح عبرانی میں بھی لغت اکادیہ سے مادہ ‘ اَقرِبتُ ‘، پیش کرنے کے مفاہیم میں مستعمل ہے۔ اور یہ پیش کرنا قربانی، نذر اور نیاز کے تناظر میں ہے۔عبرانی لفظ قربن ( جمع : قربانوت ) کا اولین ذکر تورات میں احبار 1:2 میں ملتا ہے۔ اور مخطوطات الماسورتيہ میں 40 مرتبہ اس کی تکرار ہے۔ 40 بار احبار میں، 38 بار گنتی میں اور 3 بار عزرا میں بیان ہوا ہے۔ اور اس سے متعلقہ لفظ قربان کتاب نحمیاہ میں 10:35 میں ملتا ہے۔ روایتی، لغوی اور مذہبی اعتبار سے لفظ قرب اور اس کے متعلقات کے معانی بندے کو خدا کے قریب لانے کے ہیں۔[23][24]

ترجمہ ہفتاد میں اس اصطلاح کو عموماً δῶρον “تحفہ”، θυσία “ قربانی “ یا προσφορά “ پیش کرنا” لکھا گیا ہے۔

غرض و غایت

ترمیم

کچھ مسیحی گروہوں کے عقائد کے مطابق پرانے عہد نامہ سے متعلق عام مذہبی اور روحانی نظریے کے برعکس یہودیت میں قربانی ( قربونوت) گناہوں کا کفارہ تھی اور اس کے اعمال بہت ہی پیچیدہ تھے۔ اور چند ایسی قربانیاں بھی تھیں جو مخصوص و محدود حالات کے تحت سہواً سرزد گناہوں کے کفارے سے متعلق تھیں اور ان کا اطلاق اس بات کا متقاضی تھا کہ قوانین اور روایات کے تحت اگر ان گناہوں کے کفارے کی ضرورت یا وجوب صادر ہوجائے۔اس استثنی کے علاوہ قربانی پیش کرنے کے دیگر اسباب و مواقع بھی تھے جو عموماً غیر متوقع، اچانک، حادثاتی اور مخصوص و محدود حالات و احکامات کے تابع تھے۔ قربانیاں خالصتاخدا کا قرب حاصل کرنے اور بالخصوص اس کا شکر ادا کرنے کے لیے ادا کی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ مخصوص گناہوں کے لیے بھی یہودیت میں قربانی رائج تھی۔ یہودیت میں گناہوں کی اقسام بلحاظ شدت مختلف ہیں؛

  • ہلکا ترین گناہ حت، حتاہ یا حتات کہلاتا ہے ( معانی : “ نقص “، “ کوتاہی “، “ لغزش “)، کسی الہامی فرمان کی وجود ذات معنوی یا اشتباہ تفہیم لفظی کی بوجہ جہالت و کم علمی روگردانی کرنا۔
  • گناہ کی دوسری قسم آوون کہلاتی ہے۔ کسی خفیف فرمان کی نافرمانی جو اس کے نزول و وجود اور مفاہیم و تفسیر کا علم رکھتے ہوئے کی جائے ( بیمیزید)۔
  • گناہ کی قبیح ترین قسم پیشا یا میرد کہلاتی ہے۔ احکام خداوندی کے خلاف گستاخانہ، باغیانہ اور سرکش و متمردانہ رویہ اور اعمال اس گناہ میں شامل ہیں۔ اور اس کی بدترین شکل کو ریعشا کہتے ہیں۔ اور اس میں اعمال کو بطرز شیطان انجام دینا بھی شامل ہے۔

زبور میں ان اصطلاحات کے ضمن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ' ہم نے اور ہمارے باپ دادا نے گُناہ کیا۔ ہم نے بدکاری کی۔ ہم نے شرارت کے کام کیے۔ ' زبور 106:6 [25]

چند استثنائی صورتوں میں قربونوت صرف اوّل الذکر گناہان کے لیے بطور کفارہ ادا کی جا سکتی تھی جب کہ یہ واضح ہو کہ کہ فعل و عمل محض گناہ سہو تھا اور یہ جس سے سرزد ہوا ہو اسے قطعیت سے اس کے گناہ ہونے کا علم نہ ہو۔ [26] مزید یہ کہ جب تک قربانی پیش کرنے والا اپنے گناہ پر تہ دل سے نادم نہ ہو اور یا مظلوم و متاثرہ یا حق تلف شدہ سے باقائدہ اور بے اکراہ و برغبت و ندامت معافی نہ مانگ لے اور آئندہ کے لیے تائب نہ ہو تو ایسی صورت میں نہ تو قربانی قبول ہے نہ ہی وہ پیش کار گناہ سے پاک ہوگا۔ [27] کتاب حزقی ایل کے مطابق مسیح موعود یروشلیم کے تیسرے معبد میں نادانستہ گناہوں کے لیے مزید کفارے بیان کریں گے جو ممکنہ طور پر قربانیاں یا اضافی نمازیں اور عبادات ہوں گی۔

عبرانی تورات

ترمیم

کتاب پیدائش میں اعمال قربانی مذکور ہیں، لیکن تورات کے بعد کی چار کتابوں میں ان کی اصل، تاریخ و مواقع کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ [28]

ہیکل سلیمانی اور ہیکل ثانی کے دور میں اعمال قربانی ہیکل اور خیمہ اجتماع میں ادا کیے جاتے رہے تاوقتیکہ 70 عہد میں یہوداہ، یروشلیم اور ہیکل ثانی رومی سلطنت کے ہاتھوں مکمل طور پر تار اج ہو گئے۔ [29]ہر عام یوم السبت اور مختلف یہودی تہواروں کے الگ الگ اعمال قربانی تھے۔ [30]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Straight Dope Science Advisory Board (17 اپریل 2003)۔ "Why do Jews no longer sacrifice animals?"۔ The Straight
  2. Rabbi Michael Skobac. "Leviticus 17:11"۔ Jews for Judaism. اخذکردہ بتاریخ 27 اگست 2017.
  3. "Archived copy"۔ Archived from the original on 2015-01-29. اخذکردہ بتاریخ 2015-01-29
  4. Rich, Tracey R. (1998–2011)۔ "Qorbanot: Sacrifices and Offerings"۔ Judaism 101. اخذکردہ بتاریخ 27 اگست 2017
  5. Morris Jastrow; et al. (1906)۔ "Azazel"۔ JewishEncyclopedia.com. اخذکردہ بتاریخ 27 اگست 2017.
  6. Samuel 6:14–15
  7. Samuel 7:9
  8. Samuel 7:17; 9:11–24
  9. Samuel 10:8; 11:15;13:
  10. 1 Samuel 16:2–5
  11. 1 Samuel 21:1 and the following verses.
  12. 2 Samuel 15:12
  13. Also known as Ornan; 1 Chron. 21:23–26
  14. 2 Samuel 6:17–18; 1 Chronicles 16:2, 40
  15. Encyclopaedia Judaica | second edition | vol 17 | sacrifice | pg 645 | Anson Rainey
  16. Gail R. O'Day، David L. Petersen (28 اپریل 2009)۔ Theological Bible Commentary۔ Westminster John Knox Press۔ ISBN 978-1-61164-030-4 
  17. Tracey R. Rich (1998–2011)۔ "Qorbanot: Sacrifices and Offerings"۔ Judaism 101۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2017 
  18. Straight Dope Science Advisory Board (17 اپریل 2003)۔ "Why do Jews no longer sacrifice animals?"۔ The Straight Dope۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2017 
  19. "آرکائیو کاپی"۔ 27 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2019 
  20. Anita Diamant (2007)۔ Choosing a Jewish Life: A Handbook for People Converting to Judaism and for Their Family and Friends۔ Knopf Doubleday Publishing Group۔ ISBN 978-0-8052-1219-8 
  21. Robert W. Jenson، Eugene Korn (2012)۔ Covenant and Hope: Christian and Jewish Reflections۔ Wm. B. Eerdmans Publishing۔ ISBN 978-0-8028-6704-9 
  22. G. Johannes Botterweck، Helmer Ringgren، Heinz-Josef Fabry (9 جنوری 2004)۔ Theological Dictionary of the Old Testament۔ Wm. B. Eerdmans Publishing۔ صفحہ: 136۔ ISBN 978-0-8028-2337-3 
  23. Solomon Schechter in Understanding rabbinic Judaism, from Talmudic to modern times ed. Jacob Neusner p229 "Hence the injunction to bring a Korban (sacrifice) even in this case; the effect of the Korban, as its etymology (Karab) indicates, is to bring man back to God, or rather to facilitate this approach."
  24. Judaism in biological perspective: biblical lore and Judaic practices Rick Goldberg – 2008 "The traditional etymology of korban is of a valuable object "brought near to God " (through the sacrificial act)۔"
  25. Jewish Encyclopedia — SIN
  26. Judaism 101: Qorbanot
  27. Judaism 101: Qorbanot
  28. Michael Carasik (2009)۔ מקראות גדולות: Leviticus۔ Jewish Publication Society۔ ISBN 978-0-8276-0897-9 ، page 3 "The majority of Leviticus deals with the offerings: how they are to be made, by whom, and where, as well as the ancillary rules that go along ۔.۔."
  29. Baruch A. Levine In the presence of the Lord: a study of cult and some cultic terms 1974 Page 99 "The Bible gives evidence of two modes of sacrifice in ancient Israel: 1) Altar sacrifices, of which at least some part was consumed by the altar fire, or was burnt as incense, and 2) Offerings placed before the deity and ۔.۔"
  30. James E Smith The Pentateuch Page 392 2006 "Leviticus 23 presents in chronological order a list of "the Lord's appointed feasts. … Special offerings were presented each day of the feast."