محمد نفس الزکیہ عباسی دور کے ایک فاطمی سادات کے امام تھے۔ جنھوں نے المنصور کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔[2] تحریک عباسی کے دوران میں عباسیوں۔ فاطمیوں اورعلویوں نے مل جل کر کام کیا۔ فاطمیوں کو یقین تھا کہ کامیابی کے بعد خلافت ان کے سپرد کر دی جائے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور عباسیوں نے کامیابی کے بعد اپنی خلافت کا اعلان کر کے سفاح کو پہلا خلیفہ نامزد کر دیا۔ اس پر فاطمیوں کو بڑی مایوسی ہوئی۔[3] اس وقت فاطمی سادات میں سے دو شخصیات نہایت اہم تھیں۔ اولاً حضرت امام جعفر صادق جو حضرت امام حسین کی اولاد میں سے چھٹے امام تھے اور اپنے زہد و اتقاء اور روحانی کمالات کی بدولت عوام میں بہت مقبول تھے وہ بڑے درویش صفت انسان تھے۔[4] انھوں نے خلافت کی کبھی تمنا نہیں کی تھی اور اپنے پیروکاروں کو بھی اس سے منع کرتے رہتے تھے۔ لیکن دوسری شخصیت امام محمد نفس الزکیہ کی تھی جو حضرت حسن کی چوتھی پشت میں سے تھے ۔[5] وہ اپنی پاکبازی اور پرہیزگاری کی بدولت عوام میں بڑی قدرومنزلت اور مقبولیت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ امام جعفر صادق کی خاموشی کے مقابلہ میں وہ خلافت کے لیے پرجوش تھے اور ابوجعفر منصور ان کی شخصیت اور عزائم کی بنا پر ان سے سخت خائف تھا اور انھیں اپنا مدمقابل سمجھتا تھا۔[6]

{{{نام}}}
ولادت 100ھ
وفات 14 رمضان، 145ھ (763ء)
محترم در اسلام[1]
نسب محمد النفس الزكیہ بن عبد اللہ كامل بن حسن المثنى بن حسن السبط بن علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن كلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان

اہل مدینہ کی بیعت

ترمیم

بنو امیہ کے خلافت کے آخری ایام میں جب عباسی دعوت کی کامیابی کے امکانات روشن نظر آنے لگے تو مدینہ منورہ میںبنو ہاشم کے سرکردہ لوگوں کاایک اجتماع ہوا تھا جس میں السفاح اورابوجعفر منصور دونوں شامل تھے۔[7] یہ اصول تسلیم کر لیا گیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں امام محمد نفس الزکیہ خلیفہ ہوں گے اس موقع پر اہل مدینہ کے صائب الرائے لوگوں نے بھی اس بات کی تائید کر دی تھی۔ لیکن جونہی عباسی بامراد ہوئے انھوں نے اس فیصلے کو پس پشت ڈال کر عبد اللہ السفاح کو منصب خلافت پر فائز کر دیا۔ لہذا امام محمد نفس الزکیہ نے السفاح کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ اہل مدینہ نے اپنے پرانے موقف پر قائم رہتے ہوئے امام محمد کی بیعت کرکے ان کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ سفاح نے اس موقع پر حکمت عملی سے کام لیا اور امام محمد نفس الزکیہ پر اپنے احسانات جتا کر انھیں اپنے ارادے باز رکھنے کی درخواست کی چنانچہ امام محمد نے سفاح کے عہد تک اس معاملہ میں خروج سے گریز کیا۔[8]

گرفتاری کی کوششیں

ترمیم

منصور نے مسند خلافت پر فائز ہونے کے فوراً بعد حاکم مدینہ زیاد بن عبد اللہ کو تاکید کی کہ وہ نفس الزکیہ کی حرکات و سکنات کے بارے میں اسے باخبر رکھے۔ زیاد نے اسے یقین دہانی کرائی کہ وہ بہت جلد انھیں گرفتار کرکے مرکز خلافت روانہ کر دے گا لیکن وہ ایسا کرنے پر قادر نہ ہو سکا لہذا منصور نے اسے معزول کرکے قید میں ڈال دیا۔[9] نئے گورنر محمد بن خالد بھی انھیں قابو میں لانے میں ناکام رہا تو اس کی جگہ رباح بن منصور کو گورنر مدینہ مقرر کرکے اسے نفس الزکیہ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ رباح نے نفس الزکیہ کے والد محترم اور ان کے تمام قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرکے بغداد روانہ کر دیا۔ لیکن اپنی تمام کوششوں کے باوجود جب بھی نفس الزکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم جو نفس الرضیہ کے لقب سے مشہور تھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے تو اس نے ان کے قریبی رشتہ داروں کو قتل کرنا شروع کر دیا جس میں ان کے چچا عباس بن حسن۔ ابراہیم بن حسن اور چچا زاد بھائی محمد بن ابراہیم بھی شامل تھے۔[10]منصور کے جاسوس ان کی تلاش میں حیران و سرگردان پھرتے رہتے تھے لیکن وہ ان کی رہائش گاہ کا پتہ چلانے میں ناکام رہے۔ روپوشی ابوجعفر منصور ان کے بارے میں بڑا فکر مند تھا لہذا حج کی نیت کرکے مکہ مکرمہ پہنچا تاکہ اس دوران میں وہ خود ان کی تلاش کر سکے اس پر نفس الزکیہ اور اب رہیم بصرہ میں جا کر روپوش ہو گئے منصور ان کے تعاقب میں بصرہ جاپہنچا لیکن دونوں بھائی وہاں سے نکل کر عدن چلے گئے منصور مایوس ہو کر بغداد واپس لوٹ گیا۔ اس دوران میں وہ عدن چھوڑ کر سندھ میں روپوش ہو گئے کچھ عرصہ بعد وہاں سے ہٹ کر کوفہ چلے گئے۔ دوسری بار منصور 757ء میں دوبارہ حج کے لیے مکہ معظمہ آیا تو نفس الزکیہ اور اب رہیم وہاں موجود تھے ان کے والد مکرم اور دیگر تیرہ ہاشمی جنہیں قید کرکے بغداد لے جایا جا رہا تھا تو وہ اس وقت بھی درمیان موجود تھے لیکن منصور پھر بھی ان کا سراغ نہ لگا سکا۔ یہاں تک کہ دوران میں سفر دونوں بھائی بھیس بدل کر اپنے والد اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ آگے پیچھے چلتے رہے۔ انھوں نے اپنے والد مکرم سے خروج کی اجازت چاہی۔ لیکن انھوں نے کسی موزوں وقت تک خروج ملتوی رکھنے کی تاکید کی اس پر نفس الزکیہ مدینہ منورہ لوٹ گئے اور ابراہیم کو عراق میں اپنی دعوت اشاعت کے لیے بھیج دیا[11]

دونوں بھائیوں کی مستعدی اور باخبری کا یہ عالم تھا کہ ایک بار وہ بھیس بدل کر منصور کے دستر خوان پر اس کے ساتھ کھانا کھانے میں شریک ہوئے اور دوسری بار جب منصور بغداد کی تعمیر کے دروان اس کا معائنہ کرنے آیا تو دونوں بھائیوں نے وہاں موجود ہونے کے باوجود منصور اور ان کے جاسوسوں کو اس کا علم نہ ہونے دیا۔[12]

اعلان خلافت

ترمیم

خلیفہ منصور نے جب ان کے قتل کی ٹھانی تو بالاخر نفس الزکیہ 762ء، 145ھ میں اپنے 250 جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ میں ظاہر ہو گئے۔ لوگوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔[13] آپ نے ان کے ساتھ مشاورت کرکے باقاعدہ اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ اس مقدس شہر کی کثیر تعداد نے ان کی بیعت کر لی۔[14] لیکن جب خود ان کے خاندان کے بعض نامور افراد نے ان کی بیعت نہ کی اور خاموش رہے تو لوگوں کو اس پر بڑی مایوسی ہوئی۔ عراق میں ان کے بھائی ابراہیم نے عراق میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ امام محمد نفس الزکیہ نے درالامان پر قبضہ کرکے گورنر مدینہ رباح کو گرفتار کر لیا اور اپنے حامی قیدیوں کو جیل توڑ کر رہا کرا لیا۔ مدینہ شریف کے بعد جلد ہی بقیہ حجاز اور یمن کے لوگوں نے آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔۔[15]

خروج کی ابتدا

ترمیم

امام محمد نفس الزکیہ نے مدینہ میں اپنے خروج کا آغاز کر دیا لیکن بدقسمتی سے ابراہیم عین وقت پر بیمار پڑ گئے جس کی وجہ سے عراق میں طے شدہ پروگرام کے مطابق خروج کا آغاز نہ ہو سکا۔[16]مدینہ منورہ کا انتظام سنبھالنے کے بعد انھوں نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار محمد بن حسن کو مکہ کی نظامت عطا کی۔ اہل مکہ نے بھی ان کی خلافت تسلیم کر لی۔ یمن میں قاسم بن اسحاق کو گورنر مقرر کیا گیا۔ حجاز کے علاوہ یمن اور شام میں بھی انھیں خلیفہ تسلیم کر لیا۔[17]

دنیائے اسلام کے دو یگانہ روزگار ہستیوں یعنی امام مالک اورامام ابوحنیفہ نے عراق میں ابوجعفر منصور کی بجائے امام محمد نفس الزکیہ کی حمایت کا اعلان کر کے دنیائے اسلام میں ایک تلاطم برپا کر دیا اس سے محمد نفس الزکیہ کو بڑی تقویت حاصل ہوئی۔[18][19]

امام نفس الزکیہ اور منصور کے درمیان میں خط کتابت

ترمیم

ابوجعفر منصور کو جب نفس الزکیہ کے اعلان خلافت کا علم ہوا تو اس نے انھیں ڈرانے دھمکانے کے انداز میں لکھا کہ میرے اور تمھارے درمیان میں اللہ اور رسول کا عہد و میثاق ہے اور ذمہ ہے کہ اگر تم اپنے ارادے سے باز آ جاؤ تو تمھیں تمھارے خاندان اور تمھارے پیرکاروں کو جان و مال و اسباب کی امان دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ جو کوئی اور حاجت بھی تمھارے ہوگی وہ پوری کی جائے گی۔ جس شہر میں تم چاہو گے تمھیں قیام پزیر ہونے کی اجازت ہوگی اور تم اور تمھارے لوگوں سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ اس سب کے لیے اگر تم عہد نامہ لکھوانا چاہتے ہو تو وہ بھی لکھا جا سکتا ہے۔[20][21] یہ خط جب امام نفس الزکیہ کے پاس پہنچا تو انھوں نے جواب میں تحریر کیا کہ ہم تمھارے لیے ایسی امان پیش کرتے ہیں جیسی تم نے ہمارے لیے پیش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ہمارا یعنی بنو فاطمہ کا حق ہے۔ تم ہمارے سبب سے اس کے مدعی ہوئے اور ہمارے ہی گروہ والے بن کر حکومت حاصل کرنے کو نکلے اور اسی لیے کامیاب ہوئے۔[22] پھر بنو فاطمہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مزید لکھا کہ میں بہ اعتبار نسب بہترین ہاشمی ہوں۔ میرے باپ یعنی حضرت علی بنی ہاشم کے مشاہیر میں سے ہیں مجھ میں کسی عجمی کی آمیزش نہیں اور نہ مجھ میں کسی لونڈی باندی کا اثر ہے۔ اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں تم کو تمھاری جان و مال کی آمان دیتا ہوں۔ میں عہد پورا کرنے والا ہوں تم نے مجھ سے پہلے بھی لوگوں کو امان اور قول دیا تھا پس تم مجھے کونسی امان دیتے ہو آیا ابان بن ہیرہ کی یا امان اپنے چچا عبد اللہ کی یا امان ابومسلم خراسانی کی۔[23]

اس خط کے جواب میں ابوجعفر منصور نے نفس الزکیہ کے لیے نہایت سخت اور نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے آپ کے استحقاق خلافت کو رد کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ چنانچہ عباسی اور ہاشمی خاندان کا موازنہ کرتے ہوئے اس نے بنو عباس کو اعلیٰ و افضل قرار دیا اور دلائل سے یہ بات ثآبت کرنے کی کوشش کی۔ اس نے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی وارث ہم ہی ہیں کیونکہ وارث ہونے کے لیے عورتوں کی قرابت داری کوئی بنیاد ہی نہیں بلکہ حق مردوں کے لیے مخصوص ہے کیونکہ ان سے لوگوں کا نسب چلتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے چچا کو آپ کا قائم مقام بنایا اور انھیں قریب ترین ماں پر مقدم کیا۔ لہذا رسول اللہ کے وصال کے وقت چونکہ حضور صلم کی کوئی اولاد نرنینہ زندہ نہ تھی اور حضرت عباس اس وقت زندہ تھے اس لیے ان کے صحیح وارث آپ کے چچا تھے نہ کہ آپ کی بیٹی کی اولاد۔ نیز ظہور اسلام سے قبل چاہ زمزم کی تولیت حضرت ابوعباس کے پاس تھی نہ کہ حضرت ابوطالب کے پاس اس لیے فاطمیوں کے مقابلہ میں خلافت پر عباسیوں کا حق فائق ہے۔[24]

اس خط کتابت کے بعد فریقین کے درمیان میں سوائے جنگ کے کوئی راہ کھلی نہ رہ گئی تھی۔ مدینہ منورہ پر چڑھائی سے بیشتر منصور نے کوفہ اور خراسان جانے والی تمام شاہراہوں کی ناکہ بندی کر دی کیونکہ اسے اس بات کا احساس تھا کہ اگر جنگ کی کوئی خبر ان علاقوں میں پہنچ گئی تو وہاں فوراً بغاوت ہونے کے امکانات ہیں۔ دوسری جانب اس نے اپنے بھتیجے عیسی بن موسی کو چار ہزار سوار اور دو ہزار پیدل فوج کی کمان دے کر مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔ لیکن اسے یہ تاکید کر دی کہ گرفتاری کی صورت میں نفس الزکیہ کو قتل نہ کیا جائے اور اگر وہ روپوش ہو جائیں تو اہل مدینہ کی گرفتاریاں کرنا کیونکہ وہ ان کے احوال سے بخوبی واقف ہوں گے۔ آل فاطمہ میں سے جو تمھیں ملنے آئے اس کا نام پتہ لکھ دینا اور جو اطاعت نہ کرے اس کا مال و اسباب ضبط کر لینا۔ عیسی کی روانگی کے بعد محمد بن قحطبہ کی قیادت میں اس کے لیے مزید امدادی فوج بھی روانہ کر دی۔[25]

نفس الزکیہ نے عباسی فوج کی آمد کی اطلاع پاکر مجلس مشاورت منعقد کی۔ ساتھیوں کے مشورہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی خندق کو دوبارہ صاف کیا۔ طے یہ پایا کہ جنگ مدینہ منورہ کے اندر رہ کر لڑی جائے گی۔ عباسی جرنیل نے شہر کا محاصرہ کر لیا اور ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر اہل مدینہ کو ہتھیار ڈال دینے کا مشورہ دیا جسے امام نفس ذکیہ نے رد کر دیا اور جواب میں پیغام بھجوایا کہ میں تم کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور اس کے انتقام سے ڈراتا ہوں۔ خدا کی قسم میں اس وقت تک اپنے دعوی سے دست بردار نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے اللہ سے نہ مل جاؤں۔ تمھیں اس حالت سے بچنا چاہیے کہ خدا کی طرف بلانے والا شخص ہی تمھیں قتل کرے اور تم اسے قتل کرو گے تو اس کا وبال تم پر ہوگا۔[26]

شہادت

ترمیم

جنگ کے شروع ہونے سے قبل نفس الزکیہ نے ایک بہت بڑے اجتماع میں اعلان کیا کہ جو کوئی ان سے الگ ہونا چاہتا ہے اسے اجازت ہے۔ یہ ان کی غلطی تھی جس کے نتیجے کے طور پر بہت سے لوگ جنگ سے کنارہ کش ہو کر اردگرد کے پہاڑوں پر چلے گئے۔ یہ پہلا دھچکا تھا جو انھیں لگا۔ جو لوگ باقی رہ گئے وہ تعداد میں بہت کم تھے۔ لیکن اس کے باوجود نفس الزکیہ اپنی باقی ماندہ فوج کو لے کر نکلے۔ عیسی بن موسی نے مبارزت طلب کی جس پر نفس الزکیہ کا سپہ سالار ابو قلمش عثمان الفاروقی آگے بڑھا اور اپنے مد مقابل عباسی کا کام تمام کر دیا۔ بعد ازیں عام مقابلہ شروع ہو گیا۔ نفس الزکیہ نے خوب داد شجاعت دی۔ عباسیوں کے بہت سے فوجی کام آئے لیکن بہ حیثیت مجموعی عباسیوں کا پلہ بھاری رہا۔

دوسرے دن جب جنگ کا آغاز ہوا تو نفس الزکیہ کے ساتھ صرف تین سو تیرہ جان نثار باقی رہ گئے۔ امام محمد نفس الزکیہ اس قلیل تعداد کے ساتھ جم کر لڑے لیکن اسی اثناء میں دشمن کے کچھ سپاہیوں نے خندق پھلانگ کر اور شہر کی حدود میں داخل ہو کر ایک اونچی جگہ پر عباسی علم لہرا دیا۔ اس پر نفس الزکیہ کے ہمراہی سراسیمہ ہو گئے۔ مگر امام محمد نفس الزکیہ بنفس نفیس میدان میں ڈٹے رہے لیکن بالاخر 14 رمضان المبارک 6 دسمبر سنہ 763ء، 145ھ کو بروز اتوار بعد از نماز عصر شہید ہو گئے۔ ان کے کٹے ہوئے سر کو لوگوں کو ڈرانے اور عبرت کے لیے شہر میں تشہیر کرائی گئی۔ عیسی نے ان کے شہید ساتھیوں کو مدینہ منورہ اور ثنیۃ الوداع کے مقام پر سولی پر لٹکائے رکھا۔ نفس الزکیہ کی ہمشیرہ کی درخواست پر ان کے بے سر جسد مبارک کو جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا۔

امام محمد نفس ذکیہ نے جنہیں امام مالک اور امام ابوحنیفہ جیسے صلحائے امت کی تائید حاصل تھی اپنی دعوت کو کتاب اللہ اور سنت رسول کی بنیاد پر اٹھایا تھا۔ آپ کی رحلت کے بعد اہل مدینہ اور عالم اسلام کو ان جیسے نیک نام اور پاکیزہ سیرت انسان کی خدمات پھر میسر نہ آ سکیں۔[27]

ابراہیم نفس الرضیہ کی شہادت

ترمیم

دونوں بھائیوں کے درمیان میں طے یہ پا چکا تھا جس دن نفس الزکیہ مدینہ منورہ میں علم جہاد بلند کریں گے اسی دن ابراہیم بصرہ میں خروج کا اعلان کر دیں گے۔ لیکن عین موقع پر ابراہیم چیچک جیسے مہلک عارضہ میں مبتلا ہو گئے۔ لہذا وہ بروقت جنگ کا آغاز نہ کر سکے۔ بہرحال انھوں نے صحت یاب ہو کر بصرہ سے اہواز تک کے علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ بصرہ میں مکمل قبضہ کے بعد فاتح لشکر نے صوبہ فارس کے عباسی گورنر اسماعیل بن علی عباسی اور اس کے بھائی عبد الصمد کو شکست دے کر فارس پر اپنا کنٹرول مکمل کر لیا۔ شام ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ کوفی بھی ابراہیم نفس رضیہ کے منتظر تھے لیکن تقدیر نے بنی بات بگاڑ دی۔ امام محمد نفس الزکیہ کی شہادت کی خبر ابراہیم تک پہنچی تو انھوں نے عید گاہ کے میدان میں ایک عام اجتماع میں اس کا اعلان کر دیا۔ جس سے ان کی صفوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی اور شکست خوردہ عباسی فوج میں ایک ولولہ تازہ پیدا ہو گیا۔ ابراہیم نے اپنی فوج کی ہمت بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور بصرہ میں اپنے بیٹے حسن کو قائم مقام کر کے خود ایک لاکھ فوج کے ساتھ کوفہ کی راہ لی۔ دوسری جانب عیسی بن موسی اپنی فتح مندانہ فوج کے ساتھ بغداد واپس لوٹ آیا۔ چنانچہ منصور نے فوراً اسے بصرہ کے محاذ پر بھیج دیا اور اپنے بیٹے مہدی کو فارس پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ کوفہ سے سو میل دور عیسی بن موسی اور ابراہیم کی افواج کے درمیان میں خونریز جنگ ہوئی عباسی مقدمۃ الجیش شکست کھا کر بھاگ نکلا۔ لیکن عباسیوں کی خوش قسمتی کہ عین اس عالم میں منصور کے چچا زاد بھائیوں جعفر اور محمد کی قیادت میں تازہ دم عباسی فوج آ پہنچی جس کے فورا بعد علویوں کے عقب پر حملہ کر دیا گیا۔ عیسی بن موسی نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور واپس پلٹ کر ہاشمیوں کی فوج پر اچانک حملہ کر دیا۔ اب ابراہیم عباسی فوج کے نرغے میں آ گئے۔ صرف چار سو جان نثار ان کے گرد جمے رہے باقی فوج سراسیمگی کی حالت میں بھاگ نکلی۔ اس دوران میں اتفاقاً ایک تیر جناب ابراہیم نفس رضیہ کے گلے میں آ کر لگا۔ ساتھیوں نے انھیں گھوڑے سے اتار لیا لیکن عباسی فوج کے ایک شخص حمید بن قحطبہ نے بڑھ کر ابراہیم کا سر کاٹ کر عیسی بن موسی کو پیش کر دیا۔[28] یہ سانحہ 25 ذوالقعدہ 145ھ، 763ء 14 فروری کو پیش آیا۔ آپ کی شہادت نے عباسی مخالفین کا خاتمہ کر دیا اور عباسی خلافت کو مستحکم سے مستحکم تر بنا دیا۔[29]

حوالہ جات

ترمیم
  1. البخاری : التاريخ الكبير ،1/139
  2. ابن اثير : الكامل میں التاريخ ،ج5/24
  3. الاصفهاني : مقاتل الطالبيين ،ص 206
  4. العمري : المجدي، أنساب الطالبيين ،ص 38
  5. ابن سعد : الطبقات،7/535
  6. ابن كثير : البداية والنهاية ،10/314
  7. ابن حزم : المحلى : 4/129
  8. الذهبي : تاريخ ،3/964، الميزان ،4/155 ،6/210، الكاشف ،4/138
  9. احمد بن حنبل : المسند، تحقيق الشيخ شعيب الأرنؤوط۔
  10. الدارمي : المسند، تحقيق : حسين اسد
  11. أبي يعلى الموصلي : المسند، تحقيق : حسين أسد ،11/416
  12. الدارقطني : السنن، تحقيق : شعيب الأرنؤوط
  13. البغوي : شرح السنة
  14. البيهقي : السنن الكبرى۔
  15. النسائي : السنن الكبرى
  16. ۔ الطحاوي : شرح مشكل الاثار
  17. ابي داود : السنن، تحقيق شعيب الأنؤوط
  18. الترمذي : الجامع الكبير : تحقيق : بشار عواد
  19. الترمذي : الجامع الكبير، تحقيق : شعيب الأنؤوط
  20. الصفدي الوافي بالوفيات ،3/242
  21. ابن عنبة : عمدة الطالب، ص103
  22. ابن الطقطقي الحسني : الاصيلي میں انساب الطالبيين، ص69
  23. اليماني الموسوي : النفحة العنبرية، ص118
  24. ابی القاسم الزياني : جمهرة التيجان اور فہرست ا لياقوت والمرجان، ص70
  25. الفتوني العاملي : تهذيب حدائق الألباب : ص148
  26. مرتضى الزبيدي :الروض الجلي، میں أنساب آل باعلوي ،ص130
  27. ابن حجر : التہذیب 5/152، تقریب، ترجمہ و تشریح 6754
  28. شبانی ادریسی : مصابیح البشریہ ،ص84
  29. ابن زیدان علوی :المنزع اللطیف ، ص38