محمد پالن حقانی

بھارتی واعظ، مفکر اور مصنف

محمد پالن حقانی (1922–2003ء) گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک بھارتی واعظ، مفکر اور مصنف تھے۔ وہ شریعت یا جہالت، حق اور باطل کی جنگ اور قرآن و حدیث سے باطل کا فیصلہ جیسی کتابوں کے مصنف تھے۔

مبلغ اسلام، داعی حق

محمد پالن حقانی
ذاتی
پیدائش11 نومبر 1922ء
وفات12 مئی 2003(2003-50-12) (عمر  80 سال)
مدفنوانکانیر، راج کوٹ ضلع، گجرات (بھارت)
مذہباسلام
شہریت برطانوی راج
 ڈومنین بھارت
 بھارت
فقہی مسلکسنی، حنفی
تحریکدیوبندی
قابل ذکر کامشریعت یا جہالت، تقاریر حقانی، قرآن و حدیث سے باطل کا فیصلہ، حق اور باطل کی جنگ

ابتدائیی زندگی

ترمیم

محمد پالن حقانی 11 نومبر 1922ء میں سنیچر کے دن پیدا ہوئے۔[1][2] ان کا آبائی وطن سابق ہندوستانی ریاست سوراشٹر (کاٹھیاواڑ) کے موربی ضلع (موجودہ گجرات، بھارت) کا مالن نامی علاقہ تھا۔[3] بچپن میں گاؤں کے مولوی صاحب سے ہلکی پھلکی گجراتی اور اردو پڑھ لی تھی۔[4] بارہ تیرہ سال کی عمر میں ان کی والدہ نے انھیں ان کے ان کے بھائی سمیت احمد آباد کے ایک پارچہ ساز مِل میں کام کے لیے بھیج دیا، اس عرصے میں انھوں نے اچھی آواز ہونے کی وجہ سے شوقیہ باقاعدہ گانا بجانا سیکھا اور پھر حقانی قوال کے نام سے جانے جانے لگے، نعتیہ قوال بھی تھے، اس پیشے کی کمائی کو جائز نہ سمجھ کر تنخواہ واپس کر دیا کرتے تھے۔[5][2] خور و نوش کے لیے مل میں بہ حیثیت مزدور کر لیتے تھے، اس طرح سے زندگی بسر کرتے رہے؛[6] یہاں تک کہ ان کا تعلق ایک مجذوب صفت ولی علی شاہ بابا سے ہو گیا، جن کے پاس حصول برکت اور دعا لینے کے لیے چلے جایا کرتے تھے، ایک بار ان بابا نے انھیں اپنی جھوٹا کھانے کے لیے دیا، انھوں نے کھالیا، جس کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی، غلط پیشے سے متنفر اور نماز روزے کی طرف راغب ہو گئے، خلق خدا کو سیدھے راہ دعوت دینے لگے، [7] اردو اور گجراتی زبان میں فقہ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں خرید کر جمع کرتے، مطالعہ کرتے تھے، علم و کتاب کے ایسے دلدادہ ہوئے کہ آمدنی کا زیادہ تر حصہ تحصیل کتب پر پر صرف کرتے تھے۔[8]

دینی و اصلاحی خدمات

ترمیم

بدعات وخرافات کی راہ سے راہ راست پر آئے تھے تو بھٹکے ہوئے لوگوں کی رشد و ہدایت اور اصلاح و تربیت کے لیے سرگرم ہو گئے، جو کچھ نیا پڑھتے؛ دوسروں سے بانٹتے، شام کو دو گھنٹے بچوں کو، پھر مغرب سے عشاء تک ہم عمر لوگوں کو، اسی طرح مِل سے چھٹی کے بعد مل مزدوروں کو پڑھایا کرتے تھے، ان کی محنتوں سے بہت سے لوگوں راہ راست پر آ گئے، نماز قرآن شروع کر دیا اور بہتوں نے چہروں پر سنت نبوی سجا لیا، [9] رفتہ رفتہ یہ لوگوں کی نظر میں کاٹنا بن کر چبھنے لیے، گھر ہی کے لوگ اسی طرح متعلقین مخالف ہو گئے، شرعی لباس پہننا شروع کیا تو مذاق اڑایا جاتا، لوگوں کو بدعات و خرافات کی حقیقت سمجھاتے تو لوگ مخالف ہو گئے، بائیکاٹ کیا، گالی گلوج کرکے گھر سے نکال باہر کیا، ان کا قائم کردہ مدرسہ بند کروا دیا گیا، خدمت دین کے لیے کرایے پر لیے ہوئے مکان چھین لیا گیا، وہاں دین اور نماز پڑھنا پڑھانا ممنوع کر دیا گیا؛[10] غرض کہ جوں جوں ان کی مخالفت کی گئی خدمت دین کا جذبہ اور زیادہ بڑھ گیا، اپنے محلہ اور گاؤں سے بڑھ کر پورے سوراشٹر، پھر پورے گجرات میں تبلیغ دین کے لیے دورے ہونے لگے اور راہ حق کے طلب گار لوگوں میں خوب مقبول ہونے لگے، وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع ہو گیا، متمول طبقہ کے لوگ بھی ان کی طرف مائل ہونے لگے، پہلے بڑی بڑی کتابیں خریدنا مشکل تھا تو من جانب اللہ غیب سے اس کا بھی انتظام ہو گیا، کسی نے لاوڈ اسپیکر کا بھی انتظام کروا دیا، جب خدمت و تبلیغ دین میں بہت زیادہ منہمک ہوئے تو ملازمت کو بھی خیرباد کہ دیا، کتب بینی اور دین میں تدبر و تفکر میں وقت صرف کرنے لگے۔[2] قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ قرآن کی سینکڑوں آیات کریمہ، صحاح ستہ کی بے شمار احادیث مبارکہ، معتبر اور مستند تفاسیر کے بے شمار حوالے انھیں ازبر ہو گئے تھے، جب تبلیغ دین کرتے تو برجستہ و بر موقع آیت، سورہ اور پارہ نمبر کے ساتھ قرآن کی آیات یوں پڑھتے، ان کا مطلب بتاتے ہوئے تفسیر کی کتابوں کا حوالہ اس طرح ان کے نوک زبان پر ہوتا تھا اور احادیث مبارکہ مع حوالہ جات ایسے سنایا کرتے تھے کہ اس حقیقت حال سے بڑے بڑے علما بھی دنگ رہ جاتے تھے۔ تبلیغ دین کے لیے یوں مشہور ہوئے کہ اخبار میں بھی ان کی خبریں ہوا کرتی تھیں، گجرات سے نکل کر رفتہ رفتہ پورے ملک جیسے ممبئی، کانپور، مہراج گنج، فتح پور، مئو، مرادآباد، حیدرآباد، سکندرآباد، ورنگل، جمشید پور اور کٹک وغیرہ میں تبلیغی و تقریری اسفار ہونے لگے؛ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ لندن و افریقہ جیسے بیرون ممالک میں بھی مشہور و مقبول ہو گئے، لوگ اپنے اپنے علاقوں میں ان کا پروگرام کروایا کرتے اور جوق در جوق ان کا بیان سننے آیا کرتے تھے اور شرک و بدعات والی زندگی سے تائب ہو کر سنت و ہدایت والی زندگی گزارنے لگتے تھے، جس کی وجہ سے اہل بدعت میں ناراضی پیدا ہو گئی تھی اور ان کی طرف سے موصوف پر کئیی قاتلانہ حملے بھی ہوئے، ان کی کتاب شریعت یا جہالت کو نذر آتش بھی کیا گیا۔[2] ان کی تقاریر کا ایک خاص طرۂ امتیاز یہ تھا کہ وہ قرآن و احادیث سے استدلال کرنے کے ساتھ ساتھ لطیفوں اور چٹکلوں کے ذریعے بھی عوام کے دلوں تک بات منتقل کرتے تھے۔[11] حقانی باقاعدہ عالم نہیں تھے؛ لیکن وہ دیوبندی علما سے وابستہ تھے۔ خاص طور پر محمد زکریا کاندھلوی، جنھوں نے حقانی کی کتاب شریعت یا جہالت کی توثیق کی، جو پہلے 1962ء میں گجراتی میں اور پھر 1965ء میں اردو میں شائع ہوئی۔[12]

حیات حقانی پر کتاب

ترمیم

حقانی پر ”حیات محمد پالن حقانی“ کے نام سے گجرات کے ایک عالم مریڈیا سفیان بن محمد امین نے ایک کتاب لکھی تھی، جو 2018ء میں دار العلوم دیوبند کے مہتمم ابو القاسم نعمانی، جامعۃ القراءۃ کفلیہ (گجرات) کے شیخ الحدیث رشید احمد لاجپوری اور جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے استاذ حدیث عبد القیوم راجکوٹی کے تقاریظ اور نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند شاہ عالم گورکھپوری کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی۔[2]

تبصرے

ترمیم

کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند کے نائب ناظم شاہ عالم گورکھپوری ”حیات محمد پالن حقانی“ کے مقدمہ میں حقانی مرحوم کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:[2]

”راقم سطور کی تحقیق کے مطابق ماضی قریب کی تاریخ میں امیر شریعت مولانا عطاء اللّٰہ شاہ بخاری کے بعد کسی کے وعظ و بیان میں اس قدر کثیر مجمع اگر کسی خوش نصیب کو ملا تو وہ مولانا محمد پالن حقانی تھے“۔[13]

مشہور عالم دین نسیم احمد غازی مظاہری (متوفّٰی: 2017ء) سابق شیخ الحدیث جامعۃ الہدیٰ مرادآباد نے حقانی کی کتاب ”قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث“ پر تقریظ لکھتے ہوئے یہ جملے بھی سپردِ قرطاس کرتے ہیں:[2]

”حقانی صاحب امی ہیں، کسی ادارہ سے رسمی فراغت تو در کنار وہ اردو لکھنے پڑھنے پر بھی پوری قدرت نہیں رکھتے، اس کے با وجود حق تعالی نے ان کو قرآن وحدیث اور فقہ و عقائد وغیرہ علوم پر ایسا زبردست عبور دیا ہے کہ وہ اپنے مواعظ و بیانات میں بلا تکلف آیات، احادیث اور مسائل کو مکمل حوالوں، آیت نمبر بقید باب، صفحہ و سطر ذکر کرتے ہیں، قادر مطلق نے ان کو خیرالقرون کا سا مضبوط حافظہ اور ذہنِ رسا عطا فرمائے ہیں، مسائل فقہیہ و مباحث اختلافیہ کو بڑی وضاحت و تحقیق کے ساتھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ مغالطے اور شکوک وشبہات دور ہوتے چلے جاتے ہیں، ان کے بیانات عام فہم، دلوں میں اتر جانے والے اور سامعین میں ایک صالح انقلاب برپا کر دینے والے ہوتے ہیں، طرز بیان ان کا نرالا اور طریقۂ تعبیر انوکھا اور ان کی اپنی زبان جدا گانہ ہے“[14]

ماہنامہ تجلی، دیوبند کے مارچ و اپریل 1964ء کے شمارہ میں زین الدین علوی، حقانی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:[15]

گجرات میں پچھلے تین سال سے محمد پالن حقانی نامی ایک معمولی مل مزدور رد بدعت کی زبردست تحریک لیکر اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے گجرات پر چھا گئے۔ حقانی صاحب نے معمولی سی اردو گجراتی کی تعلیم پائی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس شخص سے اپنے دین کی وہ خدمت لی کہ بڑے بڑے متبحر علماء آج انگشت بدنداں ہیں ان کی تقریر میں وہ جادو ہے کہ سنتے ہی انسان کی قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے۔ اس شخص کی تقریروں کی وجہ سے اب تک سیکڑوں بدکردار مسلمان تائب ہوکر پابندِ صوم و صلوۃ ہو گئے ہیں۔ ان کی تہجد بھی قضا نہیں ہوتی۔ قمار بازی کے اڈے ویران ہوگئے ہیں، ہزاروں جوا کھیلنے والے اور شراب پینے والے مسلمانوں کی اصلاح ہوچکی ہے۔ عورتوں پر تو اس قدر رنگ چڑھا ہے کہ تمام محرمات ہی نہیں؛ چھوٹی موٹی بدعتوں سے بھی تائب ہو کر پنج وقتہ نمازی بن گئی ہیں۔ چوں کہ حقانی خود متقی اور بے لوث انسان ہیں اس لیے ان کی زبان میں بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب تاثیر رکھ دی ہے۔ قرآن مجید کی ہزاروں آیتیں۔ پارہ، سورہ، رکوع اور آیت نمبر کے پختہ حوالوں کے ساتھ، نیر صحاح ستہ اور در مختار، عالمگیری، عین الہدایہ، شرح وقایہ کی سیکڑوں احادیث اور فقہی مسائل انھیں ازبر ہیں اور وہ اپنی تقریر میں کتاب کا نام، جلد، باب اور حدیث نیز اس طرح فقہی مسائل میں بھی پورے پورے حوالے دے کر اس طرح دین کی اصولی باتیں لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ کوئیی بڑے سے بڑا بدعتی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور خوبی کی بات یہ ہے کہ حقانی صاحب کا یہ سارا مطالعہ صرف اردو تراجم تک ہی محدود ہے۔ عربی، فارسی وہ جانتے نہیں ہیں۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالی کیسے کیسے لوگوں سے کیسی کیسی خدمات لے رہا ہے یہ دیکھ کر واقعی حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ یاد آجاتی ہے۔[15]

وفات

ترمیم

حقانی کا انتقال 12 مئی 2003ء بہ روز پیر ساڑھے اکیاسی سال کی عمر میں ہوا اور اپنے علاقہ وانکانیر، ضلع راج کوٹ، گجرات ہی میں سپردِ خاک ہوئے۔[16] حقانی کی تین بیویاں تھیں، جن میں سے پہلی کو چھوڑ کر بقیہ دو سے کل چودہ اولاد ہیں؛ جن میں سے گیارہ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔[17]

تصنیفی خدمات

ترمیم

حقانی نے قرآن و حدیث اور تفاسیر قرآن کے مدلل حوالہ جات کے ساتھ ایسی ایسی کتابیں تصنیف کیں کہ آج بھی اپنی مثال آپ ہیں اور منظور نظرِ خواص و عوام ہیں، جیسے شریعت یا جہالت، تقاریر حقانی، عبادت کر رب کی اور اتباع کر رسول ﷺ کی وغیرہ۔ جب جوانی و قوت کے زمانے میں بہ کثرت ان کے اسفار ہوا کرتے تھے، اس وقت سترہ سال کی محنت و مشقت کے بعد ”شریعت یا جہالت“ نامی کتاب لکھی تھی، پھر عرصۂ دراز تک تالیفی سلسہ موقوف رہا؛ لیکن جب ضعف بہت آگیا تو اسفار کا سلسلہ منقطع یا کم ہو گیا اور تب قلم اٹھالیا اور بقیہ کتابیں لکھیں۔[2][18]

ان کی کتابوں کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:[2][18][14]

  • شریعت یا جہالت
  • انگوٹھی خطرے سے خالی نہیں
  • قرآن و حدیث سے باطل کا فیصلہ
  • حق اور باطل کی جنگ
  • قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث
  • تین جماعتیں جنت میں جائیں گی
  • ضد میں ابلیس سے آگے
  • عبادت کر رب کی اور اتباع کر رسول ﷺ کی
  • جماعت اہل حدیث کا خلفائے راشدین سے اختلاف
  • نعت و سلام
حیات حقانی پر کتاب
  • حیاتِ محمد پالن حقانی از مریڈیا سفیان بن محمد امین
حقانی کی تقاریر و لطائف کے مجموعے
  • تقاریر حقانی
  • لطائفِ حقانی مرتب: محمد معصوم قاسمی منگلوری
شریعت یا جہالت کا انگریزی ترجمہ
  • Shariah, Not Ignorance مترجم: رفیق عبد الرحمن

حوالہ جات

ترمیم
  1. بن محمد امین 2018, p. 47.
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح محمد روح الامین میُوربھنجی (14 جون 2022ء)۔ "تذکرہ داعی اسلام محمد پالن حقانی گجراتیؒ (1922ء - 2003ء)"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2022ء 
  3. بن محمد امین 2018, p. 48.
  4. محمد پالن حقانی (جولائی 1973ء)۔ "پیش لفظ از مولانا سید حبیب الرحمن غزنوی، ایڈیٹر "آبِ حیات"، احمد آباد"۔ شریعت یا جہالت (چھٹا ایڈیشن)۔ لال کنواں، دہلی: ربانی بکڈپو۔ صفحہ: 10-15۔ 16 اگست 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2022 
  5. بن محمد امین 2018, p. 52، 53.
  6. بن محمد امین 2018, p. 53.
  7. بن محمد امین 2018, p. 54، 55.
  8. بن محمد امین 2018, p. 56.
  9. بن محمد امین 2018, p. 57.
  10. بن محمد امین 2018, p. 58.
  11. افضال الحق جوہر قاسمی مولانا (2017ء)۔ "انقلابی خطیب مولانا حقانی"۔ بزمِ کہن (تذکرے اور خاکے) (پہلا ایڈیشن)۔ گھوسی، ضلع مئو، اتر پردیش، بھارت: شعبۂ نشر و اشاعت، مدرسہ دار العلوم رحیمیہ۔ صفحہ: 282-288 
  12. برنن ڈی۔ انگرام (21 نومبر 2018ء)۔ Revival from Below: The Deoband Movement and Global Islam۔ برکلے، کیلیفورنیا: یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس۔ صفحہ: 174۔ ISBN 978-0-520-29800-2 
  13. بن محمد امین 2018, p. 27.
  14. ^ ا ب محمد پالن حقانی۔ "شہادت حق: مولانا نسیم الحق غازی مظاہری"۔ قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث (فروری 2002ء ایڈیشن)۔ لال کنواں، دہلی: ربانی بکڈپو۔ صفحہ: 476-480 
  15. ^ ا ب عامر عثمانی (مارچ و اپریل 1964ء)۔ "بریلوی فتنہ از محمد زین الدین علوی، احمد آباد"۔ ماہنامہ تجلی (ج 16، شمارہ 2 و 3)۔ دیوبند: دفتر تجلی۔ صفحہ: 44-45 
  16. بن محمد امین 2018, p. 132.
  17. بن محمد امین 2018, p. 51، 52.
  18. ^ ا ب بن محمد امین 2018, p. 128-130.

کتابیات

ترمیم
  • مریڈیا سفیان بن محمد امین (2018)۔ حیات محمد پالن حقانی (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مرکز التراث العلمی