کچھی زبان
کچھی : پاکستان ، بھارت کے گجرات علاقے اور دنیا کے کئی ممالک میں بولی جانے والی زبان ہے۔ علاقہ رن کچھ میں بھی بولی جاتی ہے اس لیے اسے کچھی زبان یا کچھیؔ کہتے ہیں۔ اکثر اس زبان کو میمن ، گجراتی بھی بولتے ہیں۔
کچھی زبان | |
---|---|
کچھی/કચ્છી/Kutchi | |
مقامی | سندھ، پاکستان اور گجرات، بھارت۔ دنیا کے مختلف حصے میں بھی تارکین وطن، ہانگ کانگ، سلطنت عمان، فلپائن، انڈونیشیا، سنگاپور، متحدہ عرب امارات، مملکت متحدہ، ریاستہائے متحدہ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، چین، فرانس، جاپان، ملائیشیا، سعودی عرب، قطر، ملاوی، کینیا، زمبابوے، تنزانیہ |
علاقہ | دنیا |
مقامی متکلمین | 12 ملین (2015) |
عربی، دیوناگری، کچھی اکھر ہجے، پاکستانی کچھی، سندھی، گرمکھی | |
زبان رموز | |
آیزو 639-3 | kfr |
گلوٹولاگ | kach1277 [1] |
" کچھی " بنیادی طور پر ایک ہند آریائی زبان ہے۔ ہند آریانی زبان میں بہت سارے لہجے شامل ہیں۔ اور ہند آریائی کا ہر لہجہ ایک زبان شمار ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جو خاص کر کچھی علاقے یا کچھ سرزمین پر بولی جاتی ہے۔ کچھ کا علاقہ زیادہ انڈیا کیساتھ ہے لیکن کچھی زبان سندھ پاکستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ خاص کر شہر کراچی اور کراچی کے مخصوص تین جزائر پر۔ جیسے بھابھا – بھٹ اور منوڑہ [2]
کچھ کا علاقہ گجرات اور سندھ کے وسط میں ہے۔ بر صغیر کی تقسیم پر اور حالیہ دور میں 90 فیصد کچھی بولنے والوں کا علاقہ انڈیا کیساتھ اور صرف 10 فیصد پاکستان کے پاس صوبہ سندھ میں موجود ہے۔ کچھی زبان تقریباََ 11 ملین ( یہ اعداد وشمار 10 سال پیشتر کے ہیں ) سے زیادہ دنیا بھر میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والے پاکستان، انڈیا، افریقہ، انگلینڈ اور امریکا کے علاوہ دنیا کے کافی ممالک میں بستے ہیں[3]
کچھی زبان کی لغوی اور معنوی وضاحت :
ترمیمیہ بات واضح ہے کہ کچھی زبان کا لہجہ سندھی اور کئی مواقع پر گجراتی زبان سے ملتا جلتا ہے۔ کچھی زبان کی گرامر سندھی زبان سے زیادہ قریب اور تقریباََ اس کا ذخیرہ الفاظ سندھی کے قریب ہے لیکن ان لفظوں کے لہجوں میں بڑا فرق بھی واضح ہے۔ اور یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ کچھی خود ایک زبان ہے۔ اس زبان ( کچھی زبان ) میں خود بھی بہت سارے لہجے موجود ہیں۔ " کچھی زبان " کا لغوی اور معنوی مطلب ہے " کچھ سے تعلق رکھنے والی زبان " یعنی کچھ میں بولنے والے وہ تمام لہجے " کچھی زبان ہی کہلائیں گے۔[4]
یہ زبان خاص طور پر جس طرح بولی جاتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک منفرد زبان ہے۔ اس زبان کے کئی الفاظ سندھی، سرائیکی، پنجابی اور مارواڑی ( راجھستانی ) زبانوں کے الفاظ سے ملتے جلتے ہیں۔ اس زبان میں عربی کے بھی کافی الفاظ ملتے ہیں۔ یہ زبان صرف کچھ سے اور سندھ سے تعلق رکھنے والے کچھی ہی بولتے ہیں چاہے وہ دنیا کی کسی بھی حصے میں ہوں اب تک اپنی زبان کو بھولے نہیں ہیں۔[3]
پاکستان اور بھارت میں یہ زبان کئی علاقوں اور کئی خاندانوں میں بولی جاتی ہے :
ترمیمجیساکہ بھارت ( انڈیا ) میں :
ترمیمراجپوت خاندان | جدیجہ خاندان | بھانو سالش خاندان | لوہانہ خاندان | برہمن خاندان بھوج | کچھی راج گڑھ | کچھی گنایاتھی |
رباڑی خاندان | بھاٹیا خاندان | میگھوال ( مہیشوری – میگھوار ) | ویسا اساول | ڈاسا اساول ( اوشاول ) | ست پانتھ پیروکار | جین مت پیروکار |
بہت سارے مسلمان خاندان ( بھارتی ) اور بہت سارے کچھ کے مسلم علاقوں میں بھی رہائش پزیر ہیں۔ جیساکہ پاکستان میں بھی موجود دور حاضر میں اسپیشلی کراچی شہر میں کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔ کراچی شہر میں بعض خاندانوں کی تیسری اور چوتھی نسل چل رہی ہے۔ حتیٰ کہ بعض خاندانوں کی آٹھویں پیری، آئیے درجہ ذیل موجود خاندانوں کا جائزہ لیتے ہیں :
کچھی پٹھان ( کچھی مغل ) | کچھی چھانچھی ( چھاچھی ) | کچھی میمن | گجراتی | میمن | بانٹوا میمن | دھوراجی میمن | کتیانہ میمن | ہالاری میمن | اوکھائی میمن | |
کچھی بخاری، ( اہل بیت ) | کچھی جونیجو ( جونیجہ ) | کچھی کھتری | کچھی سیرو | کچھی ہنگورا | کچھی سومرہ | کچھی سنگھار | کچھی سوٹا | کچھی جت | کچھی بھٹی | |
کچھی سید، ( اہل بیت ) | کچھی چوانڑ ( چوہان ) | کچھی کمھار | کچھی نوڑے | کچھی نوریجہ | کچھی نوتیار | کچھی گیڑائی | کچھی سوڈے | سندھی میمن | کچھی گجراتی | |
کچھی خوجے ( اسماعیلی ) | کچھی میانجی ( ملاں ) | کچھی پنجارا | کچھی مندرہ | کچھی وریا | کچھی کیر | کچھی ترک | کچھی بائر بھٹی | کچھی ُفلانی | کچھی ہنگور جا | |
کچھی راہمے ( کچھی راحماں ) | کچھی واطیر( واتیر ) | کچھی دل | کچھی وروانی | کچھی جانوانی | کچھی سما | کچھی سمیجا | کچھی بڈالہ | کچھی کوریجہ | کچھی واگیڑ | |
کچھی خلیفہ، ( کچھی حجام ) | کچھی رانڑا ( رانا ) | کچھی سیرات | کچھی لاکھا | کچھی لاکھیر | کچھی لاکھیجا | کچھی بجری | کچھی میانڑاں | کچھی چاؤلہ | کچھی بھنبھرو | |
گھانچی جونا گڑھ والے | کچھی چاکی سومرہ | کچھی تیرائی | کچھی جبڑا | کچھی خیرات | کچھی دھاندل | کچھی راجپوت | کچھی رباڑی | کچھی رشی | کچھی ساٹی | |
کچھی میگھوار (مہیشواری ) | کاٹھیاواری میمن | کچھی قریشی | کچھی سولنگی | کچھی خاصخیلی | کچھی سونارا | کچھی شاھ | کچھی شیعہ | کچھی عبد اسی | کچھی ابدالی | |
کچھی بقالی ( بکالی- بقالی ) | کچھی قاصائی (قصائی) | کچھی انجاری | کچھی مانڈوی | کچھی ناریجا | کچھی پڑھیار | کچھی منگریا | کچھی کہر | کچھی ناگھیہ | کچھی شیخ | |
کچھی شیدی ( کچھی حبش خاندان) | کچھی ملاح ( ماہی گیر ) | کچھی گھانچی | کچھی موہانڑاں | کچھی ابڑو( کچھی ابھرو) | کچھی آربانی ( کچھی عربانی) | کچھی منجھوٹھی | ||||
کچھی لنگھاہ ( کچھی گائیک، مراثی ) | کچھی آگری- آگاریہ | کچھی لوہار واڈا |
اور خاص کر کچھی موہانڑاں (ملاح - ماہی گیر ) جو کراچی کے تینوں جزائر پر آباد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری ذاتیں۔۔۔ وغیرہم۔۔۔
کچھی زبان سے قریبی زبان :
ترمیمیہ واضح مسلمہ حقیقت ہے کہ کچھی زبان سے بہت زیادہ قریب سندھی زبان ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھی بھی ایک زبان کا نام ہے۔ دوسری زبان میمنی کا رشتہ بہت قریب ہے اور تیسری گجراتی زبان کا بہت عمل دخل ہے۔ اوریہ لہجوں کے رشتے کی بنیاد " رن کچھ " ہے۔[5]
ماہر لسانیات کہتے ہیں :
ترمیمکہ "انڈو آریان " زبان کا تعلق بہت پرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آریان زبان کی شاخیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آریان زبان ہزاروں صدیوں کی زبان ہے اور " کچھی زبان " کا تعلق بھی آریان زبان سے ہے۔ ہم اس امکان کو بالکل رد نہیں کرسکتے کہ لسانی مماثلت کی منتقلیوں کا نتیجہ ہے جو صحراؤں کی طرح صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ آج یہی صدیوں کا صحرا " سوراشتر " سے سندھ پاکستان تک اور کچھ سے مشرق کیساتھ ساتھ راجستھان تک پھیلا ہوا ہے۔ بہت سارے کچھی اس وقت بھی انڈیا میں آباد ہیں جو دو لسانی یا سہ لسانی حکمتی لہجہ بولتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گجرات کے ہمسایہ ہونے پر ان کے لہجے میں گجراتی اثر ہے جبکہ وہ پاکستانی کچھی دولسانی یا سہ لسانی حکمتی لہجہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں سندھ کے ہمسائے ہیں۔ کچھی اردو پاکستانی فونٹ میں بھی لکھی جاتی ہے اور زیادہ تر کراچی میں بولی جاتی ہے۔ "[6] ( اقتباس : )
کچھی زبان کا انڈوآریان سے تعلق اور درجہ بندی :
ترمیمایک اور جگہ لکھا گیا ہے کہ : کچھی زبان کی ابتدا کی کوئی مخصوص وجہ سمجھ میں نہیں آتی اگرچہ یہ پرانی ہند آریان زبان کہلاتی ہے۔ اور یہ سندھی زبان کی جڑواں بہن ہے۔ بعض لوگ اسے سندھی، گجراتی اور راجھستانی زبان کا مکسچر بھی کہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کا تعلق انڈو آریان سے ہی ہے۔ زبان کے درجات میں ہم کچھی زبان کو مندرجہ ذیل خانے میں پاتے ہیں۔ کچھی زبان کی جڑوں کو سمجھنے کے لیے ہم زبان کے خاندانی شجرے کو دیکھتے ہیں[7]
انڈو ایرانین
ترمیمشمالی مغربی
ترمیم- سندھی زبان
- کچھی زبان
( اقتباس : )[7]
ماہر لسانیات، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی۔ گواہاتی – انڈیا :
ترمیماس کے بعد محترمہ پریتی رائے چودھری ( ماہر لسانیات، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی۔ گواہاتی – انڈیا ) کا کہنا ہے کہ : " کچھی زبان " 100 فیصد " انڈو آریان زبان ہے۔ انڈو آریان جو یورپی زبان کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ تو اگر آپ انتہائی نزاد اور پاریک بینی میں جانا چاہتے ہیں تو پھر اس کی شاخ جاکے" پیش بند انڈو یوریپین " سے جا ملتی ہے اور بد قسمتی سے وہ ہمیں میسر نہیں ہے۔ مگر یہ زبان کی شاخیں ماہر لسانیات ہی کی کوششوں سے دوبارہ تعمیر کی گئی ہیں۔ اگر آپ کچھی کا واضح اور غیر مبہم ذریعہ یا دلیل چاہتے ہیں تو پھر آپ سیدھا سنسکرت کو لے لیں جو زبان آج تک محفوظ ہے۔ کچھی زبان دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ سنسکرت کی شاخ ہے۔ جس طرح کہ سنسکرت سے ساری انڈو آریان زبانوں کا تعلق بنتا ہے۔ کچھی زبان کی سندھی اور گجراتی سے طویل قربت رہی ہے اسی وجہ سے کچھی زبان میں گجراتی اور سندھی کا لہجہ ملتا ہے۔ اس زبان میں واقعی سندھی زبان کے لہجے کی خصوصیات ملتی ہیں مگر اس زبان کا اپنا ایک لہجہ ضرور ہے جو اسے یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ خود ایک زبان ہے۔ اور اس کا اپنا ایکاسکرپٹ اور گرامر ہے۔ " ( محترمہ پریتی رائے چودھری – ماہر لسانیات )۔[7]
خلاصہ :
ترمیممیں محترمہ پریتی رائے چودھری کا شکریہ ادا کروں گا کہ جن کی جامع تفصیل سے میں بہت ہی مطمئن ہو گیا اور بات واضح ہو گئی کہ " کچھی زبان " لہجہ نہیں بلکہ خود ایک زبان ہے۔ اور زبان سے ہی قوم کا وجود بنتا ہے۔ جزاک اللہ - ڈاکٹر ہانی کچھی
دنیا کے مختلف ملکوں میں :
ترمیم[8]یہ زبان " کچھی " دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ جیساکہ ملاوی، تنزانیہ اور انڈوپاک میں :
ملاوی Malawi :
ترمیمKacchi | Language name |
Blantyre, Lilongwe, Nkhata Bay, and Zomba districts; Mzuzu and urban centers | Location |
Cuchi, Cutch, Kachchi, Kachi, Katchi | Alternate Names |
6a (Vigorous)۔ | Status |
Most Asians in Malawi | Language Use |
Non-indigenous. & Muslim. | Other Comments |
تنزانیہ Tanzania :
ترمیمKacchi | Language name ۔. |
Widespread. | Location |
Cutchi, Kachchi, Kachi, Katchi | Alternate Names |
6a (Vigorous)۔ | Status |
All ages. | Language Use |
Non-indigenous. Hindu, Muslim.۔ | Other Comments |
پاکستان Pakistan :
ترمیمKacchi – Kutchi | Language name |
Sindh province: notably in Karachi. | Location |
Cuchi, Cutch, Kachchhi, Kachchi, Kachi, Katch, Katchi, Kautchy, Kutchchi, Kutchie | Alternate Names |
6a (Vigorous)۔ | Status |
Most of Muslims | Language Use |
Non-indigenous | Other Comments |
500,000 (1998) | Population |
کچھی زبان کی تاریخ و تمدن سکندراعظم کے زمانے سے :
ترمیم" کچھ " لفظ کا لغوی مطلب ( رن کچھ )
ترمیملفظ " کچھ " کا مطلب بغلی حصہ ہے اس لفظ کا تعلق " سنسکرت زبان " سے ہے، [9]رن کچھ پاکستان کے صوبہ سندھ اور بھارت کی ریاست گجرات کے درمیان میں صحرائے تھر میں واقع ایک دلدلی علاقہ ہے۔ رن ہندی زبان میں "دلدل" کو کہتے ہیں( رن ہندی میں تو دلدل کو کہتے ہیں لیکن سنسکرت یا کچھی زبان میں رن کا مطلب " صحرا یا ریگستان کے ہیں : ڈاکٹر ہانی کچھی ) جبکہ "کچھ" اس ضلع کا نام ہے جہاں یہ واقع ہے۔ رن کچھ خلیج کچھ اور دریائے سندھ کے ڈیلٹائی علاقے کے درمیان میں تقریباً 10 ہزار مربع میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ بھارتی ریاست راجستھان کا دریائے لونی رن کے شمال مشرقی علاقے میں گرتا ہے۔ مون سون کے دوران میں بارشوں کا پانی یہاں کے بیابانی و دلدلی علاقے میں جمع ہو جاتا ہے اور سرد علاقوں سے آنے والے پرندوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ مون سون کے دوران میں زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ کی صورت میں مغرب میں خلیج کچھ اور مشرق میں خلیج کھمبے آپس میں ایک ہوجاتی ہیں۔ یہ علاقہ قدرتی گیس اور دیگر معدنیات سے مالا مال سمجھا جاتا ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان میں سر کریک جیسے سرحدی تنازعات کا سبب بھی ہے۔ یہ دو اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ کچرچھ کی عظیم رن اور کچرچھ کے لٹل رن۔ یہ مکمل طور پر سندھ کے حصے کے طور پر پاکستان کی طرف سے دعوی کیا جاتا ہے۔ یہ سائز میں 7،505.22 مربع کلومیٹر ( 2،897.78 مربع میل) ہے اور دنیا میں سب سے بڑا نمک صحرا کے لیے مشہور ہے۔ کچرچھ کے رن کچھی لوگوں کے آباؤاجداد کا وطن ہے۔
جغرافیہ
ترمیمرن کچھ سندھ پاکستان کے صوبے میں کچھ حصوں کے ساتھ گجرات میں تھر صحرا میں واقع ہے۔ یہ ایک موسمی دلدلی علاقے، لفظ رن، "نمکیاتی دلدل " کا مطلب میڈک، پودوں کا اگنا ہے جہاں ملک کی بلند ٹکڑوں کے ساتھ ردوبدل ہے۔ کچرچھ فی الحال گجرات میں ضلع (مغربی بھارت ) کا نام ہے، لیکن سندھ کے حصے کے طور پر اس خطے میں واقع ہے جہاں۔ مارش کے ارد گرد 10،000 مربع میل کا ایک بہت بڑے علاقے پر محیط ہے اور کچرچھ کی خلیج اور جنوبی پاکستان میں دریائے سندھ کے منہ (دہانے) کے درمیان میں پوزیشن میں واقع ہے۔ کچرچھ کے رن کے شمال مشرقی کونے میں ساکا اسٹین سے شروع، لونی دریائے جھوٹپر ختم ہوتا ہے۔[9]
متنازع سرحد
ترمیمیہ قدرتی گیس سے مالا مال مہمان نمکین فلیٹ ہے، اپریل 1965 میں، 1965. بعد میں اسی سال بھارت پاکستان جنگ اور برطانیہ کے وزیر اعظم نے اہم کردار ادا کیا، بھارت اور پاکستان کے درمیان میں بارہماسی سرحدی تنازعات میں سے ایک منظر ہمارے سامنے ہے ہیرالڈ ولسن نے دشمنی کے خاتمے اور علاقائی تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک ٹریبونل قائم کرنے کے لیے جنگجوؤں کو قائل کیا۔ اس فیصلہ میں پاکستان کو 9،100 مربع کلومیٹر ( 3،500 مربع میل) کے اس دعوی کا صرف10٪ فیصدحاصل ہوتے دیکھا گیا اور 1968 میں فیصلہ کیا گیا تھا۔ بھارت ابھی تک اس خطے کے 100٪ کا دعویدا رہے اگرچہ 90٪، بھارت کو دیا گیا تھا۔ ان کے درمیان یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے تو کشیدگی میں ایک بار پھر تیزی آسکتی ہے۔[9]
ماحولیاتی اہمیت
ترمیمکچرچھ کے رن علائقے کے پورے ہند Malayan کی خطے میں صرف بڑے سیلابی گھاس زون ہے۔ جبکہ حقیقت یہ علاقے ایک طرف ریگستانی ہے اور دوسری طرف سمندر مینگرو اور صحرا پودوں سمیت پارستیتیکی نظام کی ایک قسم، کے ساتھ کچرچھ کے رن دلدلی زمین فراہم کرتا ہے۔ چراہگاہ اور کچرچھ کے رن کے ریگستان اس وسیع علاقے کے اکثر سخت حالات کے مطابق ڈھل چکے ہیں کہ جنگلات کی زندگی کے قدرتی فارم کے لیے موضوع جگہہ ہے۔ یہ ستانکماری اور خطرے سے دوچار جانوروں اور پودوں پرجاتیوں پر شامل ہیں۔ مارش کے ارد گرد 25،000 مربع کلومیٹر (9،700 مربع میل) کے علاقے پر محیط۔ اس کچرچھ کی خلیج اور جنوبی پاکستان میں دریائے سندھ کے منہ ( دہانے ) کے درمیان میں واقع ہے۔[9]
ہستشلپ
ترمیمکچرچھ کے منفرد ہستشلپ دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ خواتین اور نوجوان لڑکیوں میں سے ایک بہت اعلیٰ کڑھائی کے کپڑے کی مختلف اقسام کی فروخت کی ابھی تک اس ثقافت میں زندہ ہے۔ کڑھائی کی اقسام جیساکہ Rabari، اہیر، سندھی، سے Banni، Mutwa، ایری اور Soof طور پر مختلف شیلیوں کی ہے - اور کچھ شیلیوں کا عکس یا مالا جڑنا شامل ہے۔[9]
کچھی زبان کا کچھ سے تعلق
ترمیماسی نسبت سے کچھی زبان کا تعلق سنسکرت کے بعد رن کچھ سے بھی ہے، دور حالیہ میں کچھی زبان کی تعریف اس کا مخصوص لہجہ ہے جس میں شامل میمنی اور گجراتی زبانیں بھی ہیں۔ کچھی زبان کا مطلب وہ ساری زبانیں جن کا تعلق رن کچھ، گجرات اور راجستھان سے ہوں۔[10]
خطہ " کچھ " اور اس کی تاریخ
ترمیمکچھ کی تاریخ
ترمیمکچھ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ انڈس ویلی تہذیب کے نشانات وادی سندھ کی تہذیب (3000 ق م تا 1500 ق م) کے نشانات بھی ڈھولاواڑہ – کچھ میں دریافت ہوئے ہیں۔ جب الیگزینڈرا اعظم 325 قبل مسیح میں ان حصوں پر پہنچے تو سمندر کا ایک بازو نہیں تھا۔ سندھ کے مشرق کی طرف "رن" کے حصے کو خود اس نے ایک تازہ پانی کی جھیل میں تبدیل کر دیا۔[11]
گجرات، کچھ کے موریا سلطنت کو توڑ دیا اورسندھ کو یونانیوں کے قواعد کے تحت 140-120 قبل مسیح میں باختریا کے حوالے کر دیا۔ باختریا حکومت کے قوانین گجرات، کاٹھیاوار اور کچھ پر لاگو رہے اور اخر کار ساکاس کے قوانین پہلی صدی کے دورِ حکومت سے تیسری صدی تک جاری رہے۔ اس کے بعد سمندرا گپتا نے ساکآس پر حملہ کر دیا اور ساکاس حکومت کے قوانین ختم ہو گئے۔
سہاراس آف سندو
ترمیمچھٹی صدی عیسوی کے اختتام پر عظیم فاتح بادشاہ سہاراس آف سندو نے کچھ کو بڑی آسانی سے فتح کر لیا۔ ایک چینی سیاح کا ثبوت(قدیم چینی سفر نامہ ) ظاہر کرتا ہے کہ بدھ مت کی اس وقت حقیقت نہیں تھی اور زمینی حقیقت پر جین مت کچھ، کاٹھیاواڑ اور سندھ میں پھیلا ہوا تھا۔ ساتویں صدی عیسوی کے اختتام پر عربوں نے سندھ فتح کیا۔ سما راجپوت ہندو قبیلے کے افراد کچھ میں بس گئے تھے۔ سرداروں میں سے کئی سردار سندھ میں بھی بس گئے تھے اور عربوں کی طرف سے خود مختار حکمران ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
لاکھو گھرآرو کی موت
ترمیمنویں صدی عیسوی کے شروع میں لاکھو گھرآرو، جس کی دو بیویاں تھیں اس قبیلے کا سردار بنا تھا۔[12] لاکھو گھرآرو، کی موت کے بعد، اس کے سب سے بڑے بیٹے " یون ناڈ " ( یُناد، ینناڈ ) کامیاب رہا مگر " یون ناڈ " کے سوتیلے دو بھائی " مود" اور " منائی " نے " یون ناڈ " کے خلاف سازشی منصوبہ بنایا اور اسے قتل کر دیا۔ تھوڑے عرصے بعد مود اور منائی نے ایک اور باطل منصوبہ باندھا اور اپنے چچا " واگام چاؤدا " کو قتل کر دیا اور اس علائقے میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ " پاٹ گڑھ " قبیلے نے واگام کا بدلہ لینے کی دھمکی دی یاد رہے یہ قبیلہ سندھی قبیلہ " سات سندس " یعنی سات بھائیوں کا پایہء تخت تھا، مود اور منائی سات سندس کے ہاتھوں قتل ہوئے اور یہ علائقہ اس کے ماتحت علائقوں میں شاامل ہو گیا۔
یاد رہے کہ اس وقت : " دہران واگیڑہ " ان علاقوں میں سے ایک علاقے کا حکمران تھا، مود نے اس کے ساتھ دوستی کی ہوئی تھی اور مود نے اپنے بیٹے" سُد" کی شادی" دہران واگیڑہ " کی بہن سے طے کروائی تھی۔ نویں صدی عیسوی میں مود اور منائی کی موت نے مود کے بیٹے " سُد" کی پوزیشن کو کافی کمزور کر دی تھی۔ اس وقت : " دہران واگیڑہ " نے مود کے بیٹے " سُد" کو قتل کر دیا اور " سُد" کے چھ ماہ کے بیٹے " فل " کو بھی قتل کرنا چاہتا تھا لیکن وہ محفوظ رہا۔ فل دہران کا بھانجا تھا ! " فل " جو اب جوان ہو چکا تھا اس نے اپنے دادا مود اور باپ " سُد" کا بدلہ لینا چاہتا تھا اس نے " دہران واگیڑہ " کو نپٹنے کے لیے للکارا ! اس وقت " دہران واگیڑہ " ایک عمر رسیدہ شخص تھا اسنے امن قائم کرنے کے لیے اپنی ایک بیٹی کی شادی " فل " سے کروادی۔ لیکن " فل " کبھی بھول نہ سکا کہ " دہران واگیڑہ " نے اس کے باپ اور دادا کو قتل کیا تھا !
چند سال بعد : فل نے دہران کو آخر کار قتل کر دیا اور تاریخ سے یہ سننے میں آیا ہے کہ فل کی بیوی نے خودکشی کرلی تھی اور اس وقت وہ حاملہ تھی اور زندہ نوزائیدہ بچہ اس کی لاش سے نکالا گیا تھا۔ اس کا نام " گہاؤ " ( یعنی پیدائش کا زخم ) رکھا گیا، اس واقعہ کے بعد فل نے اپنا دار الخلافہ تبدیل کیا اور اسے " انگور گڑھ " نزد " ہابائی " لے آیا۔ اور فل نے اپنی دوسری شادی " سونالی " سے کی جس کا تعلق " رباڑی " قبیلے سے تھا۔ " سونالی " جس نے فل کے ایک بیٹے کو 920 عیسوی میں جنم دیا اور جس کا نام " لاکھو " رکھا گیا۔ یاد رکھیں ان 2 سوسا لوں ( 7 سے 9 صدی عیسوی) میں عربوں کی وجہ سے کافی کچھیوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا۔
لاکھو فلانی
ترمیمفل کا بیٹا لاکھو قدآور شخصیت کا مالک بنا جوان ہو کر اور اپنے باپ سے محبت کی بنا پر اپنا نام فلانی کہنے، بلانے یا پکارنے پر بہت خوش ہوتا تھا اور اپنے نام کیساتھ ہمیشہ فلانی لکھتا تھا " لاکھو فلانی "۔ یاد رہے کہ کراچی پاکستان میں رہنے والے کافی کچھی خاندانوں کی ذات میں کچھ شاخوں میں جسے کچھی میں " نکھ " کہتے ہیں، وہ لفظ " فلانی " ہے اور جس سے مراد فل کی نسل ہے۔ آج بھی ہمارے مسلم کچھی خاندانوں کی ذات میں شاخ کا نام " فلانی " موجود ہے۔ اس کے علاوہ کچھیوں میں موجود خاندان اور بھی ہیں جو " لاکھو"، " لاکھا "۔ "لاکھیر"، " لاکھیرا " اور " لاکھیرجا " مشہور ہیں۔ لاکھو فلانی بہت طاقتور بادشاہ بنا، وہ کچھ اور گجرات میں بڑا مشہور تھا۔ اس نے اپنا دار الخلافہ " کیرا " میں منتقل کیا ( کیرا کے رہنے والے مسلم کچھی ابھی تک " کیر " کہلواتے ہیں ) اور وہاں پر اپنا قلعہ تعمیر کروایا جس کے آثار اب بھی ملتے ہیں، آپ گوگل پہ فورٹ کیرا کچھ لکھ کر سرچ کر سکتے ہیں : Fort Kera Kutch [13] یہ وہ قلعہ ہے جسے لاکھو فلانی کچھی نے تعمیر کروایا تھا۔ لاکھو فلانی اپنے ایک دوست کیساتھ دشمنوں سے جنگ لڑتے ہوئے مارا گیا۔ لاکھو فلانی کی جنگ میں موت کے بعد اس کے بھتیجے " جام پنوارو( کچھی) حزب اختلاف کے بغیر کامیاب ہوا اور تخت کا بادشاہ بنا۔ اس نے بھی ایک قلعہ تعمیر کیا اور وہ قلعہ " پد ر گڑھ " کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ قلعہ " نکھت رانا " کے قریب ہے۔ تاہم " جام پنوارو " اتنا ظالم تھا کہ لوگ اس کے ظلم کی وجہ سے اس سے عداوت رکھتے تھے۔ " جام پنوارو " اسی نفرت اور عداوت کی وجہ سے مارا گیا اور اسے " جاکھس " نے قتل کیا۔ " جام پنوارو " کی موت کے بعد " سولانکاس " اور چاؤداس" نے کچھ، گجرات اور سندھ پر حکومت کی جس کی حکومت دور حاضر کے سندھ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ " جام پنوارو" کے ظلم ہی کی وجہ سے کئی کچھی خاندان ( مسلم کچھی ) دور حاضر کے سندھ میں آکر بس گئے اور اس وقت اندرون سندھ میں اور کراچی میں کئی آباد خاندان " جام پنوارو" کے دور کے ہجرت کیے ہوئے کچھی مظلوم خاندان ہیں۔ ( یہاں لفظ کئی استعمال ہوا ہے سب خاندان نہیں ) " بارہویں صدی " کے وسط میں " لاکھو " (یاد رہے یہ ایک اور لاکھو ہے ) نامی ایک سما شہزادے نے اپنی قسمت کو " رن کچھ " میں آزمانے کا فیصلہ کیا ! اور اس " لاکھو" کو " جدیجہ " نامی ایک سما چیف ( جو بے اولاد تھا ) نے بچپن میں گود لیا تھا اور اسے اپنا بیٹا بناکر پال پوس کر بڑا کیا۔ اس کے علاوہ لاکھو کا ایک جڑواں بھائی بھی تھا جس کا نام " لاکھیر " تھا یہ سما چیف جدیجہ بھی کچھی اسپیک تھا۔ اور " لاکھو " بھی کچھی زبان بولا کرتا تھا۔ 1147 ء ( یعنی پاکستان کے وجود میں آنے سے 800 سال قبل ) یہ لاکھو سما اپنے جڑواں بھائی لاکھیر سمیت رن کچھ پہنچا، چنانچہ ! اس وقت "چاؤداس" کی حکومت کی طاقت پرانی اور کمزور ہو چکی تھی، ان دونوں بھائیوں یعنی لاکھو اور لاکھیر نے اپنا ایک نیا دار الحکومت ترتیب دیا جسے تاریخ میں " لاکھیر وارہ " کہا گیا ہے۔ یہ دار الحکومت پرانے اور خستہ حال و تباہ حال قلعہ " پد ر گڑھ " سے صرف 20 میل کی دوری پر واقع تھا۔ اور اس کی باقیات آج بھی نظر آتی ہیں۔
لاکھو کی موت
ترمیم[11]لاکھو کی موت کے بعد " رتو ردھن" تخت پر بیٹھا اور حکومت کی بھاگ ڈور سنبھال لی۔ تھوڑے بہت وہاں " جت قبائلی " ( کچھی جت ) جو لاکھو اور لاکھیر کے آنے سے پہلے ہی رن کچھ میں آباد تھے انھوں نے لاکھو کی موت کے بعد نئے آنے والے " رتو ردھن" کو کافی پریشانیاں دیں اور تنگ کرتے رہے، سینٹ غریب ناتھ کی مدد سے " رتو ردھن" نے بہت جلد جت قبائیلیوں کو مغلوب کر دیا اور اسی خوشی میں " دینو دھر خانقاہ " کی زمین تحفتا "غریب ناتھ " کو دی، دینو دھر خانقاہ کے آثار آج بھی قائم ہیں۔ 1215 ء میں " رتو ردھن" کی موت کے بعد اس کی حکومت اور علاقہ اس کے چاروں بیٹوں میں تقسیم ہو گیا :
- ڈیڈا
- اودھا
- گجن ( گجنڑ )
- ہوتھی
رتو ردھن کی موت
ترمیم1215 ء میں " رتو ردھن" کی موت کے بعد اس کی حکومت اور علاقہ اس کے چاروں بیٹوں میں تقسیم ہو گیا،
- سب سے بڑے ڈیڈا ( دیدا) کوحکومت کے لیے " کنٹھ کوٹ " سونپا گیا تھا۔
- دوسرے بیٹے اودھا ( اودا ) کو حکومت کے لیے " لاکھیر وارہ " سونپا گیا تھا۔
- تیسرے بیٹے گجن ( گجنڑ) کو حکومت کے لیے " باڑہ " سونپا گیا تھا۔
- چوتھے اور آخری بیٹے ہوتھی کو حکومت کے لیے " 12 گاؤں " دیے گئے جو " پوناڈی " کے قریب تھے۔
راؤ کھنگر جی
ترمیم1510 ء عیسوی تک " راؤ کھنگر جی " کا خاندان " راؤ حکومت کے نام سے حکومت کرتا رہا احمد آباد کے سلطان کی منظوری سے۔ ہم یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے مختصر الفاظ سے گفتگو کو بڑھائیں گے۔۔ اور اگلے 438 سال تک " جدیجہ خاندان " کی حکومت اور احکامات لاگو رہے 1947–1948 تک اور جدیجہ خاندان انڈین یونین میں ضم ہوکر بھی" کچھ " پر حکومت کرتے رہے۔ ( تفصیل نیچے درج ہے ) اسی طرح 1947 میں ہندوستان کی تقسیم پر پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر ابھرا، تقسیم کے وقت کچھ کا 90 فیصد حصہ گجرات کیساتھ رہ گیا اور 10 فیصد حصہ سندھ کیساتھ رہ گیا۔ اور ملتان (جبکہ ملتان سندھ کا حصہ تھا ) پنجاب میں شامل ہو گیا جبکہ سندھ مختصر ہو کر موجودہ صوبہ سندھ کی شکل اختیار کر گیا۔ ( تفصیلات آئندہ صفحات میں ) 1965ء میں ایک تنازع پر پاک بھارت سرحد عظیم رن کچھ کے مغربی سرے کی طرف اٹھا۔ مقابلہ اپریل میں شروع ہوا اور ختم بھی ہوا تب صرف برطانیہ حکومت نے ایک لائن بندی کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی مداخلت کی۔ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ پر اس تنازع کو ایک بین الاقوامی ٹریبونل کہا گیا، جو 1968 میں بھارت کے لیے پاکستان کے سرحدی علاقے کے تقریباً 10 فیصد اور تقریباً 90 فیصد سے انڈیا کو نوازا دیا گیا ہے۔ 1969 ء میں تقسیم کا اثر ہوا ہے۔ ( تفصیلات انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں ) {{نامکمل}}
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ہرالڈ ہیمر اسٹورم، رابرٹ فورکل، مارٹن ہاسپلمتھ، مدیران (2017ء)۔ "Kachchi"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری
- ↑ https://en.wikipedia.org/wiki/Manora,_Karachi
- ^ ا ب "Kutchi Language – Kutchi Maadu"۔ 08 جون 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولائی 2023
- ↑ https://en.wikipedia.org/wiki/Kutchi_language
- ↑ https://www.quora.com/How-close-are-Sindhi-and-Gujarati
- ↑ "Kutchi – Khoja Wiki"۔ 02 جون 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2018
- ^ ا ب پ https://www.quora.com/Where-did-the-kutchi-language-originate-from
- ↑ https://www.ethnologue.com/language/kfr
- ^ ا ب پ ت ٹ https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B1%D9%86_%DA%A9%DA%86%DA%BE
- ↑ https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%85%D9%86
- ^ ا ب "History of Kutch – My Kachchh Panjo Kutch"۔ 13 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولائی 2023
- ↑ http://www.kachchh.webs.com/historyofkutch.htm
- ↑ ↑ https://images.search.yahoo.com/search/images;_ylt=A0SO8xqOSsxYWE4AxwtXNyoA;_ylu=X3oDMTEybWU2ZGp1BGNvbG8DZ3ExBHBvcwMxBHZ0aWQDQjM2MTFfMQRzZWMDc2M-?p=Fort+Kera+Kutch&fr=yfp-t-s#id=31&iurl=http%3A%2F%2Fwww.onefivenine.com%2Fimages%2FDistrictMaps%2F608.jpg&action=close
]]