جلال الدین سیوطی
امام جلال الدین سیوطی (پیدائش: 2 اکتوبر 1445ء– وفات: 17 اکتوبر 1505ء) اصل نام عبد الرحمان، کنیت ابو الفضل، لقب جلال الدین اور عرف ابن کتب تھا۔ ایک مفسر، محدث، فقیہ اور مورخ تھے۔ آپ کی کثیر تصانیف ہیں، آپ کی کتب کی تعداد 500 سے زائد ہے۔[3] تفسیر جلالین اور تفسیر درمنثور کے علاوہ قرآنیات پر الاتقان فی علوم القرآن علما میں کافی مقبول ہے اس کے علاوہ تاریخ اسلام پر تاریخ الخلفاء مشہور ہے۔
امام | |
---|---|
جلال الدین سیوطی | |
(عربی میں: عبد الرحمٰن بن أبي بكر بن مُحمَّد الخضيري السيوطي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 اکتوبر 1445ء [1] قاہرہ |
وفات | 17 اکتوبر 1505ء (60 سال)[1] قاہرہ |
فرقہ | اہل سنت و جماعت |
فقہی مسلک | شافعی |
عملی زندگی | |
استاذ | جلال الدین محلی ، محیی الدین کافیجی ، ابو عباس شمنی ، حافظ ابن حجر عسقلانی |
تلمیذ خاص | محمد بن عبد الرحمان العلقمی ، ابن ایاس ، ابو حسن علی منوفی |
پیشہ | محدث ، مورخ ، جغرافیہ دان ، مفسر قرآن |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [2] |
شعبۂ عمل | تفسیر قرآن ، فقہ ، اصول فقہ |
کارہائے نمایاں | تفسیر جلالین ، الخصائص الكبرٰی ، تاریخ الخلفاء ، الدر المنثور ، الاتقان فی علوم القرآن ، رسائل سیوطی ، الحاوی للفتاوی ، Ṭabaqāt al-mufassirīn |
تحریک | سلسلہ شاذلیہ |
درستی - ترمیم |
ولادت اور نسب
ترمیمقرون وسطیٰ کے مسلمان علما میں علامہ جلال الدین سیوطی اپنی علمی خدمات کی وجہ سے بے انتہا مشہور و مقبول ہیں۔ علامہ سیوطی کی ولادت ہفتہ یکم رجب 849ھ بمطابق 2 اکتوبر 1445ء کو مصر کے قدیم قصبے اَسْیُوط میں ہوئی، اسی نسبت سے آپ کو سُیُوطِیْ کہا جاتا ہے ان کا اصلی نام عبد الرحمٰن۔ کنیت ابو الفضل، لقب جلال الدین اور عرف ابن الکتب ہے۔ سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا جاتا ہے "عبد الرحمٰن بن کمال الدین ابی بکر بن محمد بن سابق الدین بن فخر الدین بن اصلاح ایوب بن ناصر الدین محمد بن ہمام الحضیری الاسیوطی الشافعی"۔ آپ کے والد کمال الدین ابی بکر نے عباسی خلیفہ المستکفی باللہ کے انتقال کے صرف چالیس روز بعد محرم 855ھ میں خلیفہ قائم بامراللہ کے عہد میں وفات پائی۔
تعلیمی سفر
ترمیم8 سال کی عمر میں شیخ کمال الدین ابن الہمام حنفی کی خدمت میں رہ کر قرآن حفظ کیا۔ اس کے بعد شیخ شمس سیرامی اور شمس فرومانی حنفی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ان دونوں حضرات سے بہت سی کتب پڑھیں۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ شہاب الدین الشار مسامی اور شیخ الاسلام عالم الدین بلقینی، علامہ شرف الدین النادی اور علامہ محی الدین کافیجی قابل ذکر ہیں۔ علامہ سیوطی کا یہ اشتغال علمی 864ھ سے شروع ہوتا ہے، فقہ اور نحو کی کتب ایک جماعت شیوخ سے پڑھیں۔ علم فرائض شیخ شہاب الدین الشار مسامی سے پڑھا۔ 866ھ کے آغاز میں ہی آپ کو عربی تدریس کی اجازت مل گئی اور اسی سال آپ نے سب سے پہلے شرح استعاذ اور شرح بسم اللہ تصنیف کی اور ان دونوں کتب پر آپ کے استاد خاص شیخ عالم الدین بلقینی نے تقریظ لکھی تھی۔ مختلف شیوخ سے علوم و فنون کی تکمیل کے بعد 871ھ میں افتاء کا کام شروع کیا۔ 872ھ میں آپ کو دورہ حدیث کا شرف بھی حاصل ہو گیا۔
علمی تبحر
ترمیمحسن المحاضرہ میں علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ: حق تعالیٰ نے مجھے سات علوم یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، نحو، معانی بیان اور بدیع میں تبحر عطا فرمایا ہے، آپ نے کہا ہے کہ حج کے موقع پر میں نے آبِ زمزم پیا اور اُس وقت یہ دعا مانگی کہ علم فقہ میں مجھے علامہ بلقینی اور حدیث میں علامہ ابن حجر عسقلانی کا رتبہ مل جائے، چنانچہ آپ کی تصانیف اور آپ کا علمی تبحر اِس کا شاہد ہے کہ آپ کی یہ دعا بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہو گئی۔ آپ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم تھے، آپ نے خود فرمایا کہ : "مجھے دو لاکھ احادیث یاد ہیں اور اگر مجھے اس سے زیادہ ملتیں تو ان کو بھی یاد کرتا شاید اس وقت اس سے زیادہ نہ مل سکیں"۔ شیخ شاذلی سے منقول ہے کہ آپ سے جب دریافت کیا گیا کہ آپ سرور ذیشان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار بجہتِ آثار سے کتنی بار مشرف ہوئے تو آپ نے فرمایا : ستر بار سے زائد۔
طبیعت
ترمیمدنیوی مال و دولت کی طرف سے آپ کی طبیعت میں اس قدر استغناء تھا کہ امرا واغنیاء آپ کی زیارت کو آتے تھے اور تحائف، ہدایہ و اموال پیش کرتے مگر آپ کسی کا ہدیہ قبول نہ کرتے تھے۔
وفات
ترمیمعلامہ سیوطی نے 61 سال 10 مہینے 18 دن اِس عالم ناپائیدار میں گزار کر ایک معمولی سے مرض، ہاتھ کے ورم میں شبِ جمعہ بوقت سحر 19 جمادی الاول 911ھ بمطابق 17 اکتوبر 1505ء میں وفات پائی۔ اس وقت مصر میں عباسی خلیفہ المستمسک باللہ کا عہد خلافت تھا۔ تاریخ الخلفاء کے اختتام پر خود فرماتے ہیں کہ : "اللہ تعالیٰ سے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ نویں صدی ہجری کا فتنہ نہ دِکھائے اور اُس سے پہلے اپنے حبیب لبیب ہمارے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طفیل اپنے جوارِ رحمت میں بلالے"
تصانیف
ترمیمعلامہ سیوطی کثیر التالیف علما میں سے تھے، اپنی نادر روزگار 500 سے زائد تصنیفات کا گراں قدر مجموعہ اپنے پیچھے چھوڑا جن کی فہرستیں مختلف لوگوں نے ترتیب دی ہیں۔ (1) مولوی عبد الحلیم چشتی نے فوائد جامعہ بر عجالا نافعۃ، میں 506 کتب کی فہرست ترتیب دی، (2) اسماعیل پاشا بغدادی نے ایک فہرست ترتیب دی ہے۔ (3) حسن المحاضرہ میں سیوطی نے خود 300 تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ آپ کے ہم عصر علما میں سے کسی ایک کی بھی تصانیف کی تعداد اِس قدر نہیں ہے۔
- إسعاف المبطأ برجال الموطأ
- الآیۃ الکبری فی شرح قصۃ الاسراء
- الأشباہ والنظائر
- بدائع الزھور فی وقائع الدھور
- الاتقان فی علوم القرآن
- جامع الصغیر و زیادتہ
- جامع الکبیر
- الحاوی للفتاویٰ
- إحیاء المیت بفضائل اہل البیت
- الحبائک فی اخبار الملائک
- الدر المنثور فی تفسیر بالمأثور
- الدرر المنتثرة فی الأحادیث المشتہرة
- الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج
- الروض الأنیق فی فضل الصدیق
- العرف الوردی فی أخبار المہدی
- الغرر فی فضائل عمر
- الفیۃ السیوطی (الفیۃ الحدیث): (علم الحدیث کے باے میں)
- الکاوی علی تاریخ السخاوی (سخاوی سے عداوت میں لکھی تھی)
- اللآلئ المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ
- المَدْرَج إلی المُدْرَج
- المزھر فی علوم اللغۃ و انواعھا
- المہذب فیما وقع فی القرآن من المعرب
- أسباب ورود الحدیث
- أسرار ترتیب القرآن
- انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب
- إرشاد المہتدین إلی نصرة المجتہدین
- إعراب القرآن
- إلقام الحجر لمن زکی ساب أبی بکر وعمر
- تاریخ الخلفاء
- تحذیر الخواص من أحادیث القصاص
- تحفۃ الأبرار بنکت الأذکار النوویۃ
- تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی
- تبییض الصحیفہ بمناقب ابی حنیفہ
- تزیین الممالک بمناقب الامام مالک
- تمہید الفرش فی الخصال الموجبۃ لظل العرش
- تنویر الحوالک شرح موطأ مالک
- تنبیہ الغبیّ فی تبرئۃ ابن عربی
- حسن المحاضرة فی أخبار مصر والقاہرة
- در السحابۃ فیمن دخل مصر من الصحابۃ
- ذم المکس
- قوت المغتذی على جامع الترمذی
- شرح السیوطی علی سنن النسائی
- شرح الصدور
- البدور السافرۃ فی احوال الآخرۃ
- صفۃ صاحب الذوق السلیم
- طبقات الحفاظ
- طبقات المفسرین
- عقود الجمان فی علم المعانی والبیان
- عقود الزبرجد علی مسند الإمام أحمد فی إعراب الحدیث
- عین الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ
- کشف المغطی فی شرح الموطأ
- لب اللباب فی تحریر الأنساب
- لباب الحدیث
- لباب النقول فی أسباب النزول
- ما رواہ الأساطین فی عدم المجیء إلی السلاطین
- مشتہی العقول فی منتہی النقول
- مطلع البدرین فیمن یؤتی أجرہ مرتین
- مفتاح الجنۃ فی الاعتصام بالسنۃ
- مفحمات الأقران فی مبہمات القرآن
- نظم العقیان فی اعیان الاعیان
- ہمع الہوامع شرح جمع الجوامع
- الفارق بین المصنف و السارق: (یہ کتاب حقوق تالیف کے بارے سب سے پہلی تحریر ہے۔)
- قطر الدرر
- شمائل کبریٰ (جلد 1 جلد 2)
تاریخ الخلفاء پر ایک نظر
ترمیمآپ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مورخ بھی تھے، خلفائے ملت اسلامیہ پر آپ کی تصنیف تاریخ الخلفاء ہے جو حضرت ابوبکر کی خلافت سے لے کر بغداد کے آخری خلیفہ المستعصم باللہ کے عہد خلافت تک تاریخ وار لکھی گئی ہے، جبکہ بعد ازاں خلفائے عباسیہ کے مصرمیں منتقل ہونے پر دوبارہ خلفاء کا تقرر ہونے لگا جس پر آپ نے خلیفہ المستمسک باللہ العباسی کی ولی عہدی تک حالات کو بیان فرمایا ہے۔ کتاب کے آخرمیں دولت اُمویہ جو ہسپانیہ میں قائم ہوئی، دولت عبید یہ، حکومت بنی طباطبا العلویہ الحُسینیہ، دولت طبرستان کے متعلق مختصرتاریخ بیان کی ہے۔ مزید یہ کہ ہر خلیفہ کے عہد میں وفات پانے والے علما کا بھی ذکر اور اُس خلیفہ سے روایت کی گئیں احادیث کو بھی بیان کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ 892 قمری سالوں (11ھ سے 903ھ تک) خلفاء کے عہد خلافت پر ایک نایاب تصنیف ہے۔ تاریخ الخلفاء کے مآخذ کے متعلق خود علامہ سیوطی فرماتے ہیں :
"میں نے کتاب کی تصنیف میں حوادثات کے متعلق تاریخ الذہبی سے مواد لیا ہے جس میں 700ھ تک کے حالات مندرج ہیں، پھر تاریخ ابن کثیر سے جس میں 738ھ تک کے واقعات قلمبند ہیں، پھر مسالک سے جس میں 773ھ تک کے حالات موجود ہیں، پھر ابناء العمر (تصنیف ابن حجر) سے لیے گئے ہیں جس میں 850ھ تک کے واقعات لکھے ہیں۔ حوادث کے علاوہ اور باتوں میں حسبِ ذیل تواریخ سے اِقتباس کیا گیا ہے، تاریخ بغداد (تصنیف خطیب) 10 جلدیں، تاریخ دمشق (تصنیف ابن عُساکر) 57 جلدیں، اوراق (تصنیف صولی) 7 جلدیں، طیورات 3 جلدیں، حُلیۃ ابو نُعَیم 7 جلدیں، مجالس (تصنیف دینوری)، کامل (تصنیف مبرد) 2 جلدیں، امالی ثعلب 1 جلد، و دیگر کتب تواریخ وغیرہ۔"
تاریخ الخلفاء حوادثِ زمانہ کے سبب سے بہت مشہور ہے۔ اِس کتاب میں علامہ سیوطی نے کئی ایسے حوادث بیان کیے ہیں جو نہایت ہی عجیب واقع ہوئے، اقتباسات دیکھیے :
" اُس کے (والئ مصر الظاہر عبید ی کے زمانہ میں مصر میں قحط کی صورت حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے) دوران میں سلطنت میں مصر کے اندر ایسا قحط پڑا جس کی نظیر سوائے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کے اور کسی زمانہ میں نہیں ملتی، یہ قحط سات سال تک رہا، بعض آدمیوں نے دوسرے آدمیوں کو کاٹ کاٹ کر کھالیا۔ ایک ایک روٹی پچاس پچاس دینار میں فروخت ہو گئی"۔
"330ھ میں بغداد میں اِس قدر قحط ہوا کہ ایک بوری گیہوں کی قیمت 316 دینار کی ہو گئی، اتنا سخت قحط ہو گیا کہ لوگوں نے مردار چیزیں تک کھالیں۔ اِس سے پہلے بغداد میں اِتنا سخت قحط کبھی نہیں پڑا تھا ۔"
"اِس سال (465ھ) مصر میں بدستور قحط قائم رہا حتیٰ کہ ایک عورت نے ایک خمیری روٹی ہزار دینارکی خرید کر کھائی۔"
"اِسی سال (323ھ) جمادی الاول کے مہینے میں آندھی آئی، دنیا سیاہ ہو گئی، عصر سے مغرب تک سخت اندھیرا رہا۔ ذو القعدہ میں تمام رات بڑے بڑے ستارے ٹوٹتے رہے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ٹوٹے تھے۔"
"328ھ میں دجلہ میں اِتنا پانی چڑھا کہ 19 ہاتھ چڑھ آیا، جس کی وجہ سے بغداد غرق ہو گیا، آدمی اور چوپائے ڈوب گئے، مکانات منہدم ہو گئے۔"
"344ھ میں مصر میں ایک سخت زلزلہ آیا جس کی وجہ سے بہت سے مکانات منہدم ہو گئے۔"
"478ھ میں بغداد میں کالی آندھی آئی۔ بجلی اور کڑک بے اِنتہاءتھی، ریت مٹی آسمان سے بارش کی طرح برس گئی۔ کئی جگہ بجلی گری، لوگوں نے خیال کر لیا کہ قیامت آگئی مگر تین ساعت کے بعد عصر کے پیچھے یہ حالت جاتی رہی۔"
انگریزی ترجمہ
ترمیمتاریخ الخلفاء پہلی بار انگریزی میں "History of the Caliphs " کے نام سے 1881ء میں کلکتہ سے اور دوسری بار انگریزی میں اورئینٹل پریس سے 1970ء میں شائع ہوئی تھی۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب مصنف: اینڈریو بیل — عنوان : Encyclopædia Britannica — ناشر: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انک.
- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/027152278 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 مئی 2020
- ↑ عبد الحلیم چشتی، فواہد جامعہ برعجالا نافعۃ، کراچی۔1964، صفحہ 165 تا 180 (506 کتب کی فہرست مرتب کی ہے، جو حتمی نہیں ہے)