اکرم کنجاہی

اردو زبان کے شاعر، نقاد، محقق، بنک کار

اکرم کنجاہی (پیدائش: 12 مارچ 1965ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے شاعر، نقاد، محقق، ادبی مقرر اور بنک کار ہیں۔ وہ اگرچہ پیشے کے اعتبار سے ایک بڑے پاکستانی بنک میں اہم عہدے پر کام کر رہے ہیں مگر علم و ادب کی خدمت ان کی زندگی کا اہم حصہ اور ان کا نہایت سنجیدہ مشغلہ ہے۔ وہ ایک پاکستانی ٹیلی وژن چینل پر ادبی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں[1]۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے سلسلے میں وہ سنگاپور، ملائشیا، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، جاپان، امریکا، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغیزستان، آزر بائیجان، بنگلہ دیش، بحرین اور سعودی عرب کا سفر بھِی کر چکے ہیں۔ اکرم کُنجاہی کی اب تک 32 کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی کتاب غزل کہانی پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے 2020ء کی جانب سے بہترین کتاب کا ایوارڈ دیا تھا۔[2]

اکرم کنجاہی

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: محمد اکرم بٹ ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 12 مارچ 1965ء (59 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنجاہ ،  گجرات ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ زمیندار کالج، گجرات
جامعہ پنجاب
انسٹیٹیوٹ آف بنکرز پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  بینکار ،  ادبی نقاد ،  مدیر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل غزل ،  نعت ،  حمد ،  تنقید ،  ادارت   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت بینک دولت پاکستان ،  نیشنل بینک آف پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

خاندانی پس منظر

ترمیم

اکرم کنجاہی کا تعلق ضلع گجرات کی کشمیری بٹ خاندان سے ہے۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا مگر وہ گجرات کے ایک گاؤں دھارو کوٹ میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ 1947ء کے قریب ان کے والد محمد عبد اللہ بٹ اور چچا خوشی محمد بٹ تاریخی، علمی و ادبی قصبہ کنجاہ کے محلہ پختہ تالاب میں آ کر آباد ہو گئے۔ بعد ازاں یہ خاندان محلہ عید گاہ میں قیام پزیر ہوا جہاں 12 مارچ 1965ء کو محمد اکرم بٹ (اکرم کنجاہی) کی ولادت ہوئی۔ ان کے زیادہ تر رشتہ دار اب بھی وہیں مقیم ہیں ۔[3]

تعلیم

ترمیم

اکرم کُنجاہی نے گورنمنٹ پبلک ہائی اسکول کنجاہ سے 1981ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ اسکول کی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور بہترین مقرر بھی تھے۔ 1984ء میں گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات سے انٹرمیڈیٹ سائنس کے مضامین میں کیا، وہ کالج کی ادبی تنظیم بزم اقبال کے جنرل سیکریٹری اور بہترین مقرر تھے۔ 1987ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج بھمبر سے بی کام کیا۔ وہ کالج کی ادبی تنظیم اور کامرس سوسائٹی کے صدر اور آزاد کشمیر کے بہترین طالب علم مقرر تھے۔ بعدا زاں لا کالج جامعہ پنجاب سے ایف ای ایل اور 1991ء میں آئی بی اے (جامعہ پنجاب) سے ایم بی اے کیا۔ وہ آئی بی اے کی اسٹوڈنٹ یونین کی عہدے دار بھی تھے اور جامعہ پنجاب میں متعدد بار بہترین مقرر قرار پائے۔ ملازمت کا آغاز کرنے کے بعد 1994ء میں بنک کاری میں ڈپلوما ادارہ بنک کاران پاکستان (Institute of Bankers Pakistan) سے حاصل کیا۔

ملازمت

ترمیم

اکرم کُنجاہی نے 1993ء میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان، کراچی سے بطور آفیسر گریڈ 11 ملازمت کا آغاز کیا، اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے مگر قومی بنک میں ملازمت اختیار کر لی 2016ء ء میں انھیں بنک میں سندھ اور بلوچستان کا آڈٹ چیف متعین کیا گیا۔[4] اس دوران انھیں پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک میں بھیجا گیا۔ یوں انھیں مختلف تہذیبوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس ذمے داری کے دوران انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے بنک کاری کے لٹریچر میں بہترین اضافہ کیا۔ انٹرنل اڈٹ ان بنکس اور این ان سائٹ ان ٹو دی بنکنگ فراڈز کے نام سے دو کتب بھی تحریر کی ہیں۔

تصانیف و تالیفات

ترمیم

فنِ تقریر

ترمیم
  • فنِ خطابت(1996ء) الحمد پبلی کیشنز، لاہور
  • اصولِ تقریر (1997ء) الحمد پبلی کیشنز، لاہور

شعری مجموعے

ترمیم
  • ہجرکی چتا (1996ء) الحمد پبلی کیشنز، لاہور
  • بگولے رقص کرتے ہیں (2001ء) الرزاق پبلی کیشنز، لاہور
  • محبت زمانہ ساز نہیں (2004ء) راغب مُراد آبادی اکادمی کراچی
  • دامنِ صد چاک (2017ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • شاہِ کونین ﷺ! کرم (2023ء) اُردو سخن، چوک اعظم، لیہ
  • عکسِ رخِ باطن (2024ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • الوداع (2024ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی

ترتیب و تدوین

ترمیم
  • امن و امان اور قومی یکجہتی بہ اشتراک راغب مُراد آبادی (2003ء)
  • رضیہ فصیح احمد کے افسانوں کا تجزیاتی جائزہ (2017ء)
  • جوہرِ عروض (2021ء)

تحقیق و تنقید

ترمیم
  • راغب مُراد آبادی، چند جہتیں (2001ء) اور (2020ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • نسائی ادب اور تانیثیت (2020ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • لفظ، زبان اور ادب (2020ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • غزل کہانی (2020ء پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ یافتہ) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • ما بعد جدیدیت اور چند معاصر متغزلین (2020ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • محاسنِ فکر و فن (2021ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • غنیمت کے اختصاریے (2021ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • لاشعور سے شعور تک شاعری (2021ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • پسِ جدیدیت: لہجے اور اسلوب (2021ء) کتاب ورثہ، اُردو بازار لاہور
  • تصریحاتِ نعت (2022ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • افہام و تفہیم (2022ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی
  • معروضات (2022ء) اُردو سخن، چوک اعظم، لیہ
  • دبستانِ فلم کے نعت نگار (2023ء) نعت ریسرچ سنٹر کراچی[5]
  • نعت گوئی: ہیئت، اسلوب اور موضوع (2023ء) اُردو سخن، چوک اعظم، لیہ
  • تقسیمِ ہند کے بعد نعت نگاری (2023ء) اُردو سخن، چوک اعظم، لیہ
  • نسیم سحر کی تخلیقی جہات (2023ء) اُردو سخن، چوک اعظم، لیہ
  • معاصر پاکستانی غزل (2024ء) اُردو سخن، چوک اعظم، لیہ
  • معاصر حمد و نعت مسائل اور رجحانات (2024ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی

پیشہ ورانہ کتب

ترمیم
  • Internal Audits in Banks (2021ء) حرا فاؤنڈیشن پاکستان کراچی
  • An Insight Into The Banking Frauds (2020ء) رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی

زیرِ ادارت شائع ہونے والے رسائل اور جرائد

ترمیم
  • غنیمت (سہ ماہی ادبی جریدہ، کراچی اور گجرات )

ٹی وی چینل سے وابستگی

ترمیم

2006ء سے 2008ء تک کراچی سے پنجابی ٹی وی چینل اپنا سے پہلے پنجابی شاعر سے لے کرجدید دور تک کے تمام ادبا و شعرا کا تاریخ وار جائزہ۔یہ سولو پروگرام تھا۔

اکرم کنجاہی پر ہونے والے جامعاتی سطح پر تحقیقی کام

ترمیم
  • اکرم کُنجاہی کے شاعرانہ افکار: تحقیقی و تنقیدی جائزہ ، مقالہ برائے ایم فل اردو، سیشن 2020ء-2022، مقالہ نگار:مریم عظمت، نگران مقالہ: ڈاکٹر کوثر یاسمین، سیالکوٹ یونیورسٹی، سیالکوٹ
  • اکرم کُنجاہی کے شعری مجموعہ دامن صد چاک کا فکری و فنی جائزہ، مقالہ برائے بی ایس اردو، سیشن 2014ء - 2018ء، مقالہ نگار:عائشہ اصغر بٹ، نگران مقالہ: ڈاکٹر سعدیہ بشیر، گورنمنٹ کالج برائے خواتین یونیورسٹی،لاہور

اکرم کنجاہی کے فکر و فن پر خصوصی شمارے

ترمیم

معروف ادبی جریدے رنگِ ادب کراچی، مدیر اعلیٰ شاعر علی شاعر نے 2021ء میں 500 صفحات پر مشتمل اکرم کنجاہی نمبر شائع کیا۔[6]

اعزازات

ترمیم
  • 2020ء - پاکستان رائٹرز گلڈ

تنظیموں /اداروں کی نمائندگی

ترمیم
  • رکن، آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی
  • رکن، گجرات جم خانہ، گجرات
  • چیئر مین، گجرات ادبی فورم

نمونۂ کلام

ترمیم

نعت

کوئی خواہش ہی نہیں شمس و قمر ہو جاؤں دل یہ چاہے رہِ طیبہ کا شجر ہو جاؤں
مجھ زمیں زاد کا اجرامِ فلک سے کیا کامنخل شاداب بنوں شیریں ثمر ہو جاؤں
اتنا خوش بخت بنا دے مرے خالق مجھ کوایک زائر کا میں خوش باش سفر ہو جاؤں
ایک خادم کی مجھے عمر بنا دے مولااور خواہش ہے مدینے میں بسر ہو جاؤں
کاش بن جاؤں کبھی آپؐ کی چوکھٹ کا گدامیری اوقات کہاں بام کہ در ہو جاؤں
دیکھ کر وہ شبِ اسرا کی فضیلت شاہاؐہر فرشتہ بھی کہے کاش بشر ہو ہو جاؤں
وہ مدینہ کی فضا میں ہیں جو اڑتے طائرکاش ربّا میں کسی پنچھی کا پر ہو جاؤں
سامنے روضے کے مانگوں، تو میں بخشش مانگوںاک دعا بن کے ذرا زود اثر ہو جاؤں
بات اتنی ہے فقط اور نہیں کچھ لوگوگر وہ نسبت ہو تو میں زیر، زبر ہو جاؤں [7]

غزل

کانچ دکھ درد کے دل اور جگر کاٹتے ہیںزیست مشکل ہی سہی لوگ مگر کاٹتے ہیں
پھول پھل اور پرندوں کے بھی گھر کاٹتے ہیںلوگ کب سوچتے ہیں جب وہ شجر کاٹتے ہیں
چھین سکتے ہی نہیں ہیں وہ ارادوں کی سَکَتکتنے خوش فہم ہیں پنچھی کے جو پر کاٹتے ہیں
زندگی ساری بصد شوق محبت والےبس محبت ہی کے ہم زیرِ اثر کا ٹتے ہیں
قد نکلتا ہے یہاں شہرِ عداوت، کس کااب تو دستار کے ہم ساتھ ہی سر کا ٹتے ہیں
روح پرور، سا یہ منزل، ہے تصور، ایساہم کہ خوش خوش بھی یہ عمروں کا سفر کا ٹتے ہیں
سحر یہ حسن کا سر چڑھ کے جو اب بو لتا ہےکھیل کر جان پہ ہم اس کا اثر کا ٹتے ہیں
یہ جو مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تیرا زندگی لوگ ترے زیر و زبر کا ٹتے ہیں
جنگ جو لے کے نکلتے ہیں سبھی تیغ و تبرجن کے بازو میں سَکَت ہے وہ سپر کا ٹتے ہیں [8]

اکرم کنجاہی کے فن و شخصیت پر اہلِ علم کی رائے

ترمیم

اکرم کُنجاہی حالیہ دور کے شاعر ہیں، اِس لیے وہ ہمہ اقسام کے خطرات میں گھرے ہوئے انسان نظر آتے ہیں۔لیکن اُن کا عقبی دیار چوں کہ کُنجاہ ہے، اِس لیے اُن کی شاعری میں ایک مخصوص نوع کی رجائیت بھی نظر آتی ہے۔یہ رجائیت ترقی پسند نوع کی اشتہاری رجائیت سے با لکل مختلف ہے۔ یہ اُن کے تیقّن اور اعتقادات کا نتیجہ ہے۔چناں چہ انہیں پوری بستی زلزلے میں منہدم نظر آتی ہے تو وہ صرف ایک مکان کو سلامت دیکھ کر زمان و مکان کے تسلسل کا یقین دلاتے ہیں۔[9] ڈاکٹر انور سدید


تنقید اور تحقیق میں جس فکری عمق (Profundity) کی ضرورت ہے وہ بہت کم ناقدین میں نظر آتی ہے۔فی زمانہ تنقید کے نام پر لکھی ہوئی بیشتر تحریریں مدلل مداحی کی غماز لگتی ہیں، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس عہد میں بھی اکرم کنجاہی جیسے صاحبانِ علم اور ناقدینِ فن موجود ہیں۔ اکرم کنجاہی کی کتابیں دیکھ کر احساس ہوا کہ موصوف، علمی موضوعات پر لکھنے اور اپنے مافی الضمیرکو تنقیدی شعور کے ساتھ بھرپورانداز سے اظہار کی حدوں تک لانے پر قادر ہیں۔ اُن کے موضوعات متنوع ہیں اور ہر موضوع پر اُن کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہ اسی موضوع کے متخصص ہیں۔ اُن کا مطالعہ وسیع، مشاہدہ گہرا اور اظہاری اُسلوب دل نشین ہونے کے ساتھ ساتھ منطقی استدلال سے مزین ہے۔[10] ڈاکٹر عزیز احسن


تخلیقی جوہر سکوت کے مدار میں نشوونما پاتا ہے۔ وقت کی وافر مقدار اس کی غذا ٹھیری، سو، اتاولا پن، غوغا اور نمائش ذات کے مشتہرین کم از کم ادب کی دنیا میں پائیدار نقش سے لازماً تہی رہ جاتے ہیں! جناب اکرم کنجاہی اس شور و شغب کے جہان سے خود کو ایک مناسب سے بھی زیادہ فاصلہ دے کر رقبہ ء ادب کو وسیع و وقیع کرنے میں پیہم منہمک ہیں۔ غنیمت کے نام سے ادبی جریدے کی ادارت اکرم صاحب کی پہچان ضرور ہے لیکن ان کی اصل شناخت وہ کتب ہیں جن میں تخلیقی نگارشات، تنقیدی مضامین اور تحقیقی مقالات اپنے پورے علمی رعب کے ساتھ خود کو منوا رہے ہیں۔ مقدار و معیار کے اعتبار سے انھوں نے متاثر کن مثال قائم کی ہے، اسی لیے اردو ادبیات میں انھیں قابل رشک توقیر میسر آئی ہے۔[11] پروفیسر جمیل احمد عدیل


اکرم کنجاہی ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ شاعر، نقاد، محقق، مبصر، خطیب اوربینکر کے علاوہ ایک سہ ماہی ادبی جریدے غنیمت کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔انہوں نے تنقید کے میدان میں جس تیزی سے ترقی کی وہ باعثِ مسرت ہی نہیں، قابلِ رشک بھی ہے۔ ان کی تنقید با تحقیق ہوتی ہے۔ یہ وصف بھی بہت کم نقادوں میں پایا جاتا ہے۔کسی بھی فن پارے پر ان کی گفتگو اتنی مربوط ہوتی ہے جیسے مقالہ پڑھ رہے ہوں۔ وہ بغیر دلیل کے کوئی بات نہیں کرتے۔ بلاشبہ کراچی کے ادبی منظر نامے کو اکرم کنجاہی کی صورت ایک صاحبِ نظر نقاد مل گیا ہے۔ شاعری، تنقید اورتحقیق کے حوالے سے ان کی کتب کو مملکت ادبِ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔[12] اختر سعیدی

حوالہ جات

ترمیم
  1. اکرم کنجاہی نمبر، رنگِ ادب کراچی : کتابی سلسلہ 58۔59، مدیر: شاعر علی شاعر، ص 475
  2. پاکستان رائٹرز گلڈ کا خط: حوالہ نمبر 1261، تاریخ اجرا 18 مئی 2022ء
  3. اکرم کنجاہی کے شاعرانہ افکار کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (مقالہ برائے ایم فل)، مقالہ نگار: مریم عظمت،سیالکوٹ یونیورسٹی، اگست2022ء، ص 1
  4. اکرم کنجاہی نمبر، رنگِ ادب کراچی، ص 473
  5. نسیم شاہد (15 اپریل2023ء)۔ "کتابیں ہیں چمن اپنا"۔ روزنامہ پاکستان لاہور 
  6. اختر سعیدی (29 مئی 2022ء)۔ "اکرم کنجاہی رنگ ادب کا خصوصی نمبر"۔ روزنامہ جنگ کراچی 
  7. اکرم کنجاہی، شاہِ کونین! کرم، اردو سخن، چوک اعظم، لیہ، ص 39
  8. اکرم کنجاہی نمبر، رنگِ ادب کراچی، ص 401
  9. مشمولہ: دامنِ صد چاک (اکرم کنجاہی)، رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی، 2017ء
  10. لاشعور سے شعور تک: شاعری ایک انتقادی زاویہ از ڈاکٹر عزیز احسن، مشمولہ رنگ ادب کراچی، اکرم کنجاہی نمبر، ص 13
  11. تبصرہ:پروفیسر جمیل احمد عدیل، مشمولہ رنگ ادب کراچی، اکرم کنجاہی نمبر، ص 13
  12. روز نامہ جنگ کراچی،29 اگست 2021ء