حیات بعد الموت (life after death) سے مراد ایک ایسے تخیل یا نظریے کی لی جاتی ہے جس کے مطابق جسمانی موت کے بعد فطری یا مافوق الفطری وسیلوں سے مرنے والے جاندار کا شعور اور اس کی عقل یعنی دنیاوی زندگی کے دوران میں اس کی یاداشتیں زندہ رہتی ہیں؛ یہاں شعور اور عقل کا ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ حیات بعد الموت میں کم و پیش ہمیشہ ہی اس دنیا کے گوشت پوست کے جسم سے الگ ایک روحانی شکل میں نئی زندگی پانے کا رجحان یا تصور موجود ہوتا ہے یعنی موت کے بعد نئی زندگی میں گو دنیاوی جسم سے تو جدائی حاصل ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عقل و شعور زندہ رہتا ہے گویا وہ شخصیت ایک نئی صورت میں زندگی پا لیتی ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حیات بعد الموت کے نظریے کے مطابق جانداروں (انسانوں) میں ان کے جسم کے کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جو کبھی مرتے نہیں۔ مرنے کے بعد کی صورت حال بیان کرنے کے لیے مذہبی، نفسیاتی اور سائنسی ماہرین اپنے اپنے الگ الگ نظریات رکھتے ہیں۔ متعدد مذاہب عالم کے نظریات میں ایک بات بکثرت اور مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد مرنے سے قبل کی حالت کی نسبت نئی اور زیادہ صلاحیتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے کے بعد کی زندگی میں اس مرنے والے کے مسکن کے بارے میں بھی متعدد نظریات ملتے ہیں جن میں جنت اور دوزخ دو مشہور ترین مقامات بیان کیے جاتے ہیں لیکن ان دو مشہور مساکن کے علاوہ بھی مرنے کے بعد والی زندگی کے مقام کی دیگر مذاہب (بالخصوص غیر ابراھیمی مذاہب) میں مختلف وضاحتیں ملتی ہیں۔ اگر نفسیاتی نقطۂ نظر دیکھا جائے تو تمام تر اختلافات کے باوجود ان تمام نظریات اور وضاحتوں کا منبع ایک ہی سامنے آتا ہے یعنی ؛ بعد از موت قبل از موت کی حالت سے بہتر ہوگی یا بدتر ہوگی۔

موت پر روح کے جسم سے نکل جانے کے تصور کا شکلی اظہار۔ (ایک فنکار کا تخیل)

عمومی بیان

قدیم اقوام زندگی اور موت میں فرق نہیں سمجھتی تھیں۔ بلکہ موت کو طویل نیند سے تعبیر کیا جاتا تھا اور مردے کے ہمراہ اس کی روزمرہ ضروریات کا سارا سامان دفن کر دیا جاتا تھا۔ کہ جاگنے کے بعد اسے کھانے پینے کی تکلیف نہ ہو۔ قدیم مصر، وادئ سندھ، سومیری اور اشوری قوموں کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا سے جانے کے بعدانسان کو ملکہ ظلمات کے روبر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ لوح محفوظ کی مدد سے انسان کے اعمال کا محاسبہ کرتی ہے۔ اگر اعمال نیک ہوئے تو پھر انسان کو جنت میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ورنہ جہنم میں جھونک دیا جاتا ہے۔ ہندو آواگون ’’تناسخ‘‘ کے قائل ہیں جس کے مطابق آتما امر ہوتی ہے اور اعمال کے مطابق جون بدلتی رہتی ہے۔ آخر کار دیوتا بن جاتی ہے۔بدھ مت حیات بعد الممات کو نہیں مانتا بلکہ نروان کا قائل ہے۔ جو انسان کو اپنی خواہشات اور خدمات پر قابو پانے سے حاصل ہوتا ہے۔ حیات بعد الممات اسلامی کے بنیادی ارکان میں شامل ہے۔ قرآن شریف کے مطابق سب لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور خدا کے حضور پیش ہوں گے۔ خدا ان کے اعمال کے بموجب اور سزا دے گا۔ عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی قریب قریب یہی عقیدہ ہے۔ اکثر فلاسفہ اور سائنس دان حیاب بعد الممات کے منکر ہیں ۔

مذاہب اور حیات بعد الموت

توحیدیت (monotheism) پر قائم ہوں یا مشرکیت (polytheism) پر، دنیا کے کم و پیش تمام مذاہب میں دنیاوی موت کے بعد بھی کسی نا کسی قسم کے تسلسل کے جاری رہنے کا تصور ملتا ہے۔ ابراھیمی ادیان میں یہ تصور بنیادی طور پر روح کے ساتھ مربوط ہوتا ہے اور پھر یوم آخرت پر جزا و سزا کے بعد جنت یا دوزخ کی جانب چلے جانے کا بیان ہوتا ہے۔

اسلام

 
اسلام میں ایمان کے اجزا (بالائی سرخ لکیر) کو بیان کرنے والا ایک مشہور کلمہ جسے ایمان مفصل کہا جاتا ہے؛ ساتواں جز انبعاث کے بارے میں ہے۔

اسلام میں حیات بعد الموت کا تذکرہ یوم آخرت جس کو بکثرت قیامت بھی کہا جاتا ہے سے منسلک ہوتا ہے اور یہ آخرت کا تصور قرآن و حدیث دونوں میں ملتا ہے۔ ایمان مفصل میں جو اجزائے ایمان بیان ہوتے ہیں ان میں ساتواں جزء والبعث بعد الموت کا ہے جہاں والبعث کا لفظ بعث سے بنا ہے اور اسی سے انبعاث (resurrection) بنایا جاتا ہے جو حیات بعد الموت کی موجودگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلامی نظریات کے مطابق جسمانی زندگی کے بعد روح کی زندگی کا تصور یوں ملتا ہے کہ موت کے وقت عزرائیل  مرنے والی شخصیت پر خود کو ظاہر کریں گے اور اس کے جسم سے روح کو الگ کر لیں گے یا نکال لیں گے۔ اس جسمانی موت کے بعد قبر کی حالت اور پھر آخرت کے قیام پر جنت دوزخ کے فیصلے تک کے مختلف مراحل اسلامی دستاویزات میں بیان کیے جاتے ہیں جو اس متعلقہ مضمون کے دائرے میں شامل نہیں لیکن بوقتِ مرگ جسم اور روح کا الگ ہونا اور پھر اس الگ ہونے والے حصے یعنی روح کا قبر اور بعض قرآنی تشریحات کے مطابق برزخ میں عرصۂ قیام ؛ حیات بعد الموت کے اسلامی تصور کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں۔

بدھ مت

بدھ مت میں حیات بعد الموت کی اصطلاح کی وضاحت ایک پیچیدہ موضوع ہے جس کی ایک سب سے بڑی وجہ جغرافیائی اعتبار سے ملک ملک میں بدھ مت کی موجود اس کی مختلف اشکال ہیں۔ بنیادی طور پر ہندو مت سے متاثر ہونے اور حیات مکرر (rebirth) یعنی تناسخ (reincarnation) کے نظریے کی وجہ سے موت کے بعد زندگی کے اختتام کا امکان تو باقی نہیں رہ جاتا لیکن روح کے واضح تصور کی بجائے قدیم بدھ مت میں انسان کے پانچ اجزاء (سکاندھا) بیان کیے جاتے ہیں جسم، احساسات، آگاہی، ارادہ اور فکر (شعور) ۔[1] موت کے بعد دوبارہ پیدا یا حیات مکرر کا عمل وقوع پزیر ہونے یا نا ہونے کا انحصار اس شخص کے اعمالِ زندگی پر ہوتا ہے ؛ اور وہ موت کے اننچاس (49) (یا اس کم) دنوں تک ایک درمیانی حالت (جو روح نہیں تصور کی جاتی) میں رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر حیات مکرر (rebirth) سے دوچار ہو سکتا ہے یا پھر وہ نروان کو پا کر حیات مکرر (سمسار) سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔[2] ہینایانا بدھ مت کے برعکس ماہایانا بدھ مت میں ایک سے زیادہ جنت اور دوزخ نما مقامات کا ذکر بھی پایا جاتا ہے۔

شنتو مت

اسلام، بدھ مت اور یہودیت وغیرہ جسے مذاہب کے برخلاف شنتو کو کسی ایک مرکزی ہستی کی جانب منسوب کرنا تاریخی اعتبار سے ممکن نہیں گو کہ متعدد افسانوی شخصیات کے نام بہرحال سامنے آتے ہیں۔ قبل از تاریخ آبی حدود پار کر کے چین، کوریا اور منگولیا وغیرہ سے آنے والوں کے لیے جاپانی جزیروں کی قدرتی ساخت اور انکا حسن مسحور کن رہا ہوگا اور یہیں سے اس نئی وجود میں آنے والی جاپانی قوم میں، زندگی اور فطرت کی آپس میں پیوستگی اور یکجائی کے شدید احساسات کا آغاز ہوا ہوگا، ان کے لیے فطرت کے شاہکار چشمے، آبشاریں، پہاڑ اور چٹانیں ہی اس دنیا کو جاری و ساری رکھنے والی قوتیں (یا یوں کہہ لیں کہ خدا) بن گئی ہوں گی [3] اور فطرت کے انہی شاہکاروں کو کامی کہا جانے لگا۔ گو آج کل اس جاپانی لفظ کامی کا ترجمہ خدا کر دیا جاتا ہے لیکن قدیم شنتو میں خدا کا کوئی واضح تصور نہیں ملتا بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شنتو دیگر مذاہب کی طرح کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک فطری راستہ ہے۔ زندگی اور فطری حسن کی پیوستگی نے ہی شنتو میں موت اور حیات بعد الموت کے تصور کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور موت کے بعد مرنے والی شخصیت کے بھی اسی فطرت میں ضم ہو جانے (یعنی کامی بن جانے) کے خیالات پائے جاتے ہیں۔

مسیحیت

مسیحیت میں بنیادی طور پر حیات بعد الموت اور پھر روز قیامت پر جنت یا دوزخ کی جانب چلے جانے کا نظریہ موجود تو ہے لیکن اپنا ایک تاریخی سفر رکھتا ہے اور اس حیات بعد الموت کے مسیحیت میں داخل ہونے کے متعدد نظریات بیان کیے جاتے ہیں ۔[4] موجودہ بائبل کے عہد قدیم (old testament) کی تحریر کے مطابق ابتدا میں، حیات بعد الموت میں روح کی لافانیت کی بجائے دنیاوی زندگی کے دوران میں جیسے جسمانی تسلسل کا ذکر بھی ملتا ہے اور دنیاوی موت کے بعد سے یوم القیامت پر انبعاث (resurrection) کے وقت تک ایک درمیانی کیفیت میں رہنے کا تصور بھی پایا جاتا ہے ۔[5] بہرحال مختصر یہ کہ خواہ یہ تصورات مسیحیت میں کہیں سے بھی آئے ہوں، اس بحث کا مقام الگ، یہ بات ثابت ہے کہ مسیحیت کے مذہب میں حیات بعد الموت کی تعلیمات موجود ہیں۔

یہودیت

اسلام کے برخلاف اور مسیحیت کے براتفاق، یہودیت میں بھی حیات بعد الموت کا تصور ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے اور ترتیب زمانی کے لحاظ سے اس کا ارتقا دیکھا جا سکتا ہے ۔[6] عہد الآباء اثناعشریہ (Testaments of the twelve patriarchs) میں حضرت یعقوب  کے بارہ فرزندوں میں ایک، یہودا  سے اپنی قوم میں دوبارہ ظاہر ہونے کا بیان منسوب ہے اور یہاں انکا یہ انبعاث جنت میں نہیں بلکہ دوبارہ اسرائیل میں ہونا آتا ہے۔ یہودیوں کے بزرگوں (آباء) کے بارے میں اور ان کی اولاد کے بارے میں بعض تشریحات میں یہ بھی آتا ہے کہ ان کی موت، موت نہیں ہوگی بلکہ وہ خدا کے ساتھ ایک درمیانی حالت میں اس وقت تک رہیں گے جب تک دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے (انبعاث) کا وقت نا آجائے ۔[7] تورات میں بھی اس قسم کے بیانات ملتے ہیں جس میں پاکباز لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اپنے عزیزوں سے مل سکیں گے؛ اس طرح سے یہودیت میں موت اور اس کے بعد کی صورت حال اور روح کے بارے میں متعدد افکار پائے جاتے ہیں جو مجموعی طور پر حیات بعد الموت کے تصور کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔[8]

مافوقی نفسیات اور حیات بعد الموت

مافوقی نفسیات (paraphychology) وہ شعبۂ نفسیات ہے جو حیات بعد الموت جیسے مافوق الفطرت (بادی النظر ہی میں سہی) نظریات کی انسانی نفسیات کی روشنی میں تشریح کی کوشش کرتا ہے۔ حیات بعد الموت کا تصور قائم ہونے کی ایک بڑی وجہ (مادہ پرست افراد کی جانب سے ) موت کے بعد سب کچھ ختم ہو جانے (یا خود موت کا) خوف بیان کی جاتی ہے۔ نفسیات کی رو سے یہ بات طے ہے کہ ایک انسان (یا جاندار) جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو اس کے دماغ میں موجود ہو[9] ؛ دماغ میں موجود یہ خیالات جو انسان کے رویے کی تشکیل کرتے ہیں خالص جبلی (یا خلقی) بھی ہوتے ہیں اور حصولی بھی ؛ ان ہی سے موت کا خوف اور اپنے مذہب (یا اجداد کی تعلیمات) پر یقین پیدا ہوتا ہے۔

تجربۂ بیرون جسم

بعض مافوقی نفسیات کے ماہرین تجربات بیرون جسم (out of body experiences) کی بنیاد پر یہ نظریہ بھی قائم کرتے ہیں کہ جب یہ مظاہر بوقتِ مرگ نظر آسکتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ بعد از مرگ بھی جاری رہتے ہوں اور اس کو حیات بعد الموت کی ایک شہادت بھی سمجھا جا سکتا ہے؛ لیکن اس بارے میں ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ خروج الجسم تجربات یا مظاہر اس وقت ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں جب (ابھی) دماغ کی موت واقع نا ہوئی ہو اور امکان یہ ہے کہ ان کے لیے ایک زندہ دماغ (یعنی زندگی) کا ہونا لازم ہو اور ایسا بعد از موت ممکن نہیں ۔[10] یہ خروج الجسم مظاہر جو بوقت مرگ کسی کو نظر آتے ہیں فی الحقیقت عصبونات کی وہ شاذ (abnormal) تحریک ہو سکتی ہے جو استقلابی نظام میں اضطراب کے باعث نمودار ہوتی ہے اور ان میں action potential کے پیدا ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔

روشن بینی

تجربۂ بیرون جسم کو حاصل کرنے والے اشخاص کے علاوہ روحانی، صوفی اور اسی قسم کے دیگر، مذہب یا کسی جنون میں ڈوبے ہوئے اشخاص کی جانب سے بیان کیے جانے والے (انتقال شدہ افراد کی دنیا کے ) ایسے واقعات کہ جن کو عام انسان کی پانچ حسوں میں سے کوئی بھی محسوس نا کرسکتی ہو تو ان کو بھی حیات بعد الموت کی ایک اور شہادت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ان گہرے یا ڈوبے ہوئے اشخاص کو مستبصر (بصارت بیان کرنے والا یعنی بصیرت رکھنے والا) اور ان کی باتوں کو روشن بینی (clairvoyance) قرار دیا جاتا ہے [11] جسے اردو میں بسا اوقات بصیرت یا استبصار بھی کہتے ہیں لیکن آخر الذکر دونوں اصطلاحات مراقبہ کے لیے بھی مستعمل ہیں۔

تجربۂ قریب الموت

مذکورہ بالا تجربات بیرون الجسم (OBE) کی طرح تجربات قریب الموت (near death experiences) کو بھی حیات بعد الموت کے حق میں پیش کیا جاتا ہے لیکن عمومی طور پر سائنس دان ان تجربات کو حیات بعد الموت کی شہادت تسلیم نہیں کرتے۔ تجربات قریب الموت سے گذرنے والے اشخاص کی بیانات میں ؛ اپنے جسم سے خود کو الگ ہوتے ہوئے دیکھنا، ایک طویل سرنگ سے گذرتے ہوئے روشنی کی جانب سفر، اپنی زندگی کے دوران میں کے واقعات کا خلاصہ نظر آنا اور اپنے سے پہلے مر جانے والے اشخاص سے ملاقات کرنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔[12] ان تجربات سے گذرنے والے ایسے افراد بھی جو زندگی سے مایوس (خودکشی پر مائل) تھے خاصے تبدیل ہوتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ؛ ان کے مطابق وہ موت کے بعد کی دنیا دیکھ کر انکا زندگی سے متعلق نظریہ مثبت ہو گیا۔

سائنس اور حیات بعد الموت

حیات بعد الموت کے ہونے یا نا ہونے کے سوال نے انسان کو ہمیشہ سے الجھائے رکھا ہے، مذہبی اعتقادات ایک طرف، جہاں تک رہی بات اس بارے میں سائنسی شواہد کی تو وہ یا تو حقیقتاً دستیاب ہی نہیں یا ہیں بھی تو واضح اور تجرباتی لحاظ قابلِ تکرار نہیں یعنی scientific repeatability سے محروم ہیں۔ سائنسی ماہرین، ان شہادتوں کو جنہیں عام طور پر حیات بعد الموت کی سائنسی شہادتوں کے طور پیش کیا جاتا ہے ایسی وجوہات کے مظاہر قرار دیتے ہیں کہ جن کو ابھی تک ہونے والی موجودہ سائنسی ترقی کے باوجود آشکار نہیں کیا جاسکا [13] یعنی سائنسی لحاظ سے کہا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ

حیات بعد الموت کے شواہد اصل میں حیات قبل الموت سے متعلق ان پہلوؤں کے مظاہر ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئے

روح کا وزن

بعض اوقات چند تجربات کو جو سائنس کی بجائے کاذب سائنس سے زیادہ نزدیک ہیں، حیات بعد الموت کی شہادت پر پیش کیا جاتا ہے۔ 1906ء میں Duncan MacDougall نے بستر المرگ سمیت قریب المرگ افراد کا وزن کیا اور یہ مشاہدہ بیان کیا کہ ان کا وزن قریباً 21 گرام، موت کے بعد کم ہو گیا یعنی روح نکل گئی تو اپنے ساتھ اپنا وزن بھی لے گئی! یہ واقعات ایک تو یہ کہ تجرباتی طور پر اپنی تکرار نہیں رکھتے اور دوسرے یہ کہ اگر یہ درست بھی ہوں تو بھی حیات بعد الموت کا ثبوت فراہم نہیں کرتے کیونکہ کہ روح کا ثبوت وزن کم ہونے سے مل گیا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ روح، جسم سے نکلتے ہی فنا ہو گئی یا اس کو ایک نئی حیات (بعد الموت) مل گئی ۔[14] مذکورہ بالا محقق نے ساتھ ہی کتوں کے ساتھ بھی یہی تجربہ دہرایا اور معلوم کیا کہ وزن میں کوئی کمی نہیں آتی! یعنی کتوں میں روح نہیں ہوتی ۔[15] وزن کی یہ کمی فی الحقیقت خون کی گردش رک جانے اور پھیپھڑوں میں ٹھنڈا نا ہوسکنے کی وجہ سے بڑھنے والے درجۂ حرارت اور (پسینے کے مساموں سے ) اس کی وجہ نکلنے والے بخارات کی وجہ ممکن ہے؛ کتوں میں (انسانوں کی طرح) پسینے کے مسام نہیں ہوتے اور یہ ان کا وزن تبدیل نا ہونے کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔

روح کی آواز

برقیاتی صوتی مظہر (electronic voice phenomena) کو بکثرت حیات بعد الموت کی دنیا میں رہنے والوں کی آواز کہہ کر حیات بعد الموت کی سائنسی شہادت کہا جاتا ہے اور اسے مخصراً بصم یا انگریزی میں evp بھی کہتے ہیں۔ اس مظہر پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے ایسی آوازوں کو سجل (record) کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ ان برقیاتی صوتی مظاہر میں سجل کی جانے والی آوازوں کا تجزیہ کرنے کے لیے شمارندوں کی مدد بھی لی جاتی ہے اور کمپیوٹر کے معیار سے (جاندار کی) آواز نما محسوس ہونے والی آوازوں کو بار بار سنا جاتا ہے؛ آج کل اس قسم کے متعدد نمونے روح کی آوازوں کے، آن لائن بھی دستیاب ہو جاتے ہیں ۔[16]

  • برقی صوتی مظہر (بصم) میں آنے والی ان آوازوں کے بارے میں متعدد نظریات دیکھنے میں آتے ہیں۔
  1. یہ جسمانی موت پر زندہ رہ جانے والے شعور (یعنی حیات بعد الموت) کی آوازیں ہیں
  2. یہ موجودہ دور کے برقیاتی آلات اور ان میں استعمال ہونے والی لہروں کا شور ہے
  3. یہ تحقیق کرنے والے کے اپنے ذہن اور اس کی نفسیاتی کیفیات ہیں جن کو وہ روح کی آوازیں سمجھ لیتا ہے
  4. بعض ماہرین نفسیات ان آوازوں (جو صرف تحقیقدان کو آتی ہوں) کو خطاہائے حس (hallucinations) میں بھی شمار کرتے ہیں [17]

سجل کی جانے والی ان آوازوں میں متعدد خصوصیات انھیں عام زندوں کی آوازوں سے الگ کرنے کو استعمال کی جاتی ہیں جن میں 1- ادائگی الفاظ میں سرعت 2- تعدد میں اختلاف 3- تحقیقدان کی زبان میں ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ روحوں کی ان آوازوں پر ایسے تحقیقدان بھی ہیں جو متعدد اعتراضات اٹھاتے ہیں؛ ان کے مطابق یہ آوازیں فی الحقیقت طرزیاتی اختراعات سے ہونے والے اصطناعین (artifacts) ہیں یا آسان الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں یہ روح کی آواز سمجھی جانے والی آوازیں اصل میں موجودہ دور میں استعمال کیے جانے والے متعدد برقی آلات اور ان سے متعلق موجوں سے پیدا ہونے والا شور ہے۔[18]

روح کی شکل صورت

 
حیات بعد الموت اور روح سے متعلق ایک مشہور تاریخی تصویر جسے captain provand نے 1936ء میں اتارا؛ تصویر حیات بعد الموت کی شہادت ہے یا نہیں ایک طرف، کہا جاتا ہے کہ یہ lady dorothy townshend کی روح ہے

روح کی شکل و صورت عام طور پر وہی فرض کی جاتی ہے کہ جو موت کا جام نوش کرکے اس دنیا سے رخصت ہونے والے/والی کی ہو لیکن سائنسی طور پر جب انسان نے تصاویر محفوظ کرنے کا فن (بذریعۂ عکاسہ) میں ترقی حاصل کی تب سے جن، بھوت اور روحوں کو عکسی کاغذ پر قید کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں اور ان تصاویر کو حیات بعد الموت کے سائنسی ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس قسم کی کوششوں کا آغاز اٹھارہویں صدی کے وسط سے دیکھنے میں آیا لیکن ان میں نا صرف یہ کہ متعدد تصاویر کے بحق ہونے کے بارے میں کوئی ٹھوس شہادت دستیاب نہیں بلکہ ان تصاویر میں مافوق الفطرت اجزاء شامل کرنے کے واسطے مختلف اقسام کے طریقۂ کار دانستہ طور پر استعمال ہونے کی شہادتیں ملتی ہیں جن سے ان کے فریب ہونے کا پتا چلتا ہے۔[19]

دیندان مطمئن، سائنس دان پریشان

تجربات بیرون جسم اور تجربات قریب الموت کی وہ شہادتیں جو باقاعدہ طبی عملے کی موجودگی میں اور شفاخانوں وغیرہ میں مشاہدہ کی گئیں ان سے ایک دیندان یا مذہبی شخص تو شاید اطمینان محسوس کرے لیکن دنیا بھر میں، محض کیمیائی عناصر کے سوا کچھ حقیقت نہیں، کے اصول پر یقین رکھنے والے سائنس دان؛ جسم اور شعور کی اس جدائی کی سائنسی و مادی وجوہات کی تلاش میں یقیناً سرگردان و پریشان ہیں ۔[20] جامعہ Kentucky کے طبی عملے نے مرتے ہوئے افراد کے دماغ میں آلات کی مدد سے برقی فعالت کی موجیں تسجیل کیں اور اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ موت کے وقت دماغی عصبونات جب oxygen کی کمی کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں برقی تحریک (فعال جہد (action potential)) نمودار ہو سکتا ہے اور یہ برقی تحریک ہی ان افراد کے دماغ میں تجربات بیرون جسم (OBE) جیسے تجربات کی بنیاد بنتی ہے ۔[21] سائنسدانوں نے اس مادی وجہ کی تلاش میں یہ نظریہ پیش کیا کہ سونے کے دوران میں جو حالت سریع حرکات العین (rapid eye movements) کا مرحلہ آتا ہے اور جس میں خواب نظر آیا کرتے ہیں؛ فی الحقیقت یہ سریع حرکات العین کے دوران متحرک ہونے والے دماغ کے حصے ہی ہیں جو تجربات قریب الموت (NDE) کا سبب بنتے ہیں اور دماغی موت کی حالت میں بھی ان تجربات کے واقع ہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ اس عمل میں حصہ لینے والا دماغ کا حصہ نچلی جانب جذع الدماغ (brain stem) ہوتا ہے اور یہ بالائی یا اعلٰی دماغ کی موت کے باوجود بھی اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے [22]۔

موت کا فیصلہ کون کرے

تجربات بیرون جسم اور قریب الموت دونوں ہی کو حیات بعد الموت کی سائنسی شہادت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے اور دونوں ہی کو حیات قبل الموت کی شہادت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے؛ اول الذکر کے دعویداروں میں دیندار (مذہبی) اور بعد الذکر کے دعویداروں میں دنیا دار (سائنسی) اشخاص بکثرت ملتے ہیں۔ وہ افراد جو حیات بعد الموت کی سائنسی شہادتوں کے متلاشی ہیں وہ ان تجربات (قریب الموت اور بیرون جسم) کو بطور سائنسی شہادت پیش کرتے ہیں؛ ایک اہم منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں اقسام کے تجربات کیا واقعی مرنے کے بعد واقع ہوئے؟ اگر ہاں میں جواب ہو تو پھر دو ممکنہ باتیں سامنے آتی ہیں

  1. اگر ہاں تو پھر تو واقعی ان کو حیات بعد الموت کی سائنسی شہادت کہا جا سکتا ہے
  2. اگر ہاں تو پھر ان کو بیان کس نے کیا؟ جن پر یہ تجربات گذرے؟ تو پھر وہ ابھی مرے کہاں؟

وہ افراد جو حیات بعد الموت پر دلائل دیتے ہیں ان کے لیے تو ان دونوں اقسام کے تجربات کو اپنے مقصد میں استعمال کرنے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی شخصیت اگر اپنے تنفس و دھڑکن سے محروم ہو جائے تو اسے موت قرار دے دیں اور وہ دوبارہ سانس لینا شروع کر دے تو موت سے واپسی قرار دے دیں۔ لیکن طبی اور سائنسی لحاظ سے موت کا فیصلہ اس قدر آسان نہیں ہوا کرتا؛ طب کی تاریخ میں کسی شخصیت کو مردہ قرار دینا اور موت کی تعریف بیان کرنا ایک بہت اہم میدان تحقیق رہا ہے۔ قدیم طب میں بھی تنفس اور دھڑکن رک جانے کو موت قرار دیا جاتا تھا، پھر آنکھ کی پتلیؤں کے روشنی پر رد عمل اور نبص بند ہوجانے کے باوجود دل کی ممکنہ بقا یا حقیقی فنا کا یقین کرنے کے لیے سماعہ سے مدد لی جانے لگی۔ پھر مزید ترقی ہوئی تو برقی قلبی تخطیط کے جاری رہنے تک زندگی جاری قرار دی جانے لگی؛ موت کی یہ قلبی اور تنفسی تشخیص قلبی رئوی احیاء کی ٹیکنالوجی پر ختم ہو گئی کیونکہ قلبی رئوی احیاء کی مدد سے نبص و تنفس سے محروم افراد کے بھی دوبارہ اٹھ بیٹھنے واقعات سامنے آئے۔ اور یوں کسی بھی شخصیت کو مردہ قرار دے کر دفنانے یا جلانے سے قبل واقعی موت کی تشخیص کا اجرا دماغ کی مدد سے کیا جانے لگا اور دماغی موت (brain death) کی اصطلاح سامنے آئی۔

حیات؟ کونسی موت کے بعد؟

حیات بعد الموت کے تصور میں بات ہوتی ہے ' موت کے بعد کی ' اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسی موت کے بعد؟ وہ موت جو ایک عام انسان کو موت محسوس ہو؟ وہ موت جس میں سانس اور دل رک گیا ہو؟ وہ موت کہ جب برقی قلبی تخطیط ختم ہو جائے؟ وہ موت کہ جب دماغ مر جائے؟ جیسا کہ اوپر مضمون میں بیان ہوا، موت کی تشخیص کرنا ایک نہایت نازک معاملہ ہے اور یہ معاملہ اس وقت اور بھی نزاکت اختیار کرلیتا ہے کہ جب اس تشخیص کو بنیاد بنا کر حیات بعد الموت جیسے تصور کی تشریح کی جائے۔ موت اور زندگی کے آپس میں کسی مقام پر مدغم ہونے یا تراکب (overlap) کرنے کا کوئی تصور نا تو مذہب میں ملتا ہے اور نا ہی سائنس میں بلکہ موت اور زندگی دو الگ الگ واقعات ہیں اور ان کی موجودگی کبھی ایک ساتھ نہیں ہو سکتی؛ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر حیات بعد الموت کی بات کی جائے گی تو پہلے یہ معلوم کرنا اہم ہوگا کہ زندگی کب ختم ہوئی اور موت (واقعی) کب واقع ہوئی ۔[23] وہ انسانی (بلکہ تمام جانداروں کی) موت جو نظر آتی ہے وہ ایک مرحلہ وار عمل ہوتا ہے کیونکہ انسان کا جسم ابتدائی درجے میں خلیات پھر انسجہ اور پھر اعضاء اور پھر ان سے بننے والے نظامات پر مشتمل ہوتا ہے؛ ایسا نہیں ہوتا کہ یہ تمام درجاتِ زندگی یکلخت مر جائیں یا کسی برقی بدیل کی طرح off ہو جائیں۔ اب اگر کوئی شخص دل کی حرکت رک جانے پر مردہ قرار دے دیا جائے پھر قلبی رئوی احیاء کے بعد دل کی حرکت دوبارہ برقرار ہو جائے اور وہ شخص مردوں سے ملاقات کے واقعات بیان کرے تو ظاہر ہے کہ ان کی سائنسی حیثیت کچھ تسلیم نہیں کی جائے گی کیونکہ وہ فی الحقیقت مرا ہی نہیں تھا۔

طبی سائنس مرتے ہوئے انسانوں کو بچا تو سکتی ہے لیکن مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتی!

لہٰذا کوئی شخصیت اگر مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے اور حیات بعد الموت کے واقعات بیان کرے، اپنے مرے ہوئے رشتہ داروں سے ملاقات بیان کرے اور جنت یا دوزخ کا نقشہ بیان کرے تو اس کی باتوں کو حیات بعد الموت سے متعلق نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ وہ شخصیت مری ہی نہیں تھی بلکہ محض موت جیسی کیفیت کا شکار ہوئی تھی۔ اور اس میں کسی نا کسی درجے پر زندگی باقی تھی خواہ وہ خلیاتی سطح پر ہو یا اعضاء کی سطح پر یا نظاموں کی سطح پر۔ گویا سائنسی نقطۂ نگاہ سے اس شخصیت کی موت اصل میں موت نہیں بلکہ ایک شدید موت نما بیماری تھی۔

مذہب اور سائنس میں جنگ؟

سائنس ظاہر ہے کہ اپنی فطرت میں کسی بھی ایسی بات کو تسلیم نہیں کرتی جو اسلوب علم (scientific method) کے معیار پر نا اترتی ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ سائنس، حیات بعد الموت کے تصور کی نفی چاہتی ہے؛ معاملہ صرف اتنا ہے کہ اگر سائنسی مشاہدات اور تجربات سے کوئی ایسی واضح شہادت دستیاب ہو جائے جو حیات بعد الموت سے متعلق ہو تو یہ تصور سائنسی طور پر تسلیم ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر سائنس میں کوئی شہادت حیات بعد الموت کے متعلق ایسی دریافت نہیں کی جاسکی جو متفقہ طور پر اسلوب سائنس سے مطابقت رکھتی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ حیات بعد الموت کا تصور غلط ثابت ہو جائے بلکہ یہاں بات انسان کی سائنس میں موجودہ ترقی کی استعداد پر آ کر ختم ہوتی ہے اور مستقبل میں سائنسی ترقی کے ساتھ ایسی شہادتوں کا سامنے آنا ناممکنات میں شامل نہیں۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. Religions for today by roger whiting
  2. Death and the afterlife in Japanese buddhism by Jacqueline Ilyse, Mariko Namba Walter
  3. Shinto meditations for revering the earth by Stuart Picken, Yukitaka Yamamoto
  4. The rise and fall of the afterlife: by Jan N. Bremmer
  5. Death and afterlife: a theological introduction by Terence nichols
  6. Life after death in early Judaism by Casey deryl elledge
  7. Resurrection of the son of God by Wright
  8. The everything judaism book by Richard D. bank
  9. A student's guide to A2 religious studies for the edexcel specification by Peter freeman
  10. Parapsychology in the twenty-first century by Michael thalbourne, Lance storm
  11. Handbook to the afterlife by Pamela heath, jon Klimo
  12. Suicide: what really happens in the afterlife? by Pamela, Jon Klimo
  13. Pseudoscience and extraordinary claims of the paranormal by Jonathan smith
  14. The physics of encounter by Roderick boes
  15. Stalking darkness by Brian schill
  16. روح کی آوازوں پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے کا ویب گاہ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ghostpix.com (Error: unknown archive URL)
  17. A Dictionary of hallucinations by Jan dirk blom
  18. There is no death and there are no dead by Tom Butler
  19. Ghost images: cinema of the afterlife by Tom ruffles
  20. Spiritual awakenings: insights of the near-death experience by Barbara harris
  21. Spiritual transformation in america: what it means to all of us by Carol Green
  22. Brain/mind bulletin, Volume 6 Interface press 1980
  23. Light and Death by Michael sabom, Michael B. sabom