شاہ جہاں بیگم

ریاست بھوپال کی حکمران اور بیگم بھوپال

سلطان شاہ جہاں بیگم (30 جولائی 1838ء16 جون 1901ء) ریاست بھوپال کی دسویں حکمران اور تیسری بیگم بھوپال تھیں۔ مرکزی ہندوستان کی نوابی شاہی ریاست بھوپال کی تقریباً 57 سال تک حکمران رہیں جس میں 32 سال تک عنانِ حکومت اُن کے ہاتھوں میں رہی۔ شاہ جہاں بیگم کے عہدِ حکومت میں ریاست بھوپال ایسٹ انڈیا کمپنی کے دائرہ اقتدار میں تھی جبکہ ریاست کا مکمل انتظام سلطنت اُن کے پاس رہا۔ 1844ء میں اپنے والد نواب جہانگیر محمد خان بہادر کے انتقال کے بعد وہ کم عمری میں ہی ریاست بھوپال کی بیگم قرار پائیں مگر انتظامِ سلطنت اُن کی والدہ نواب سکندر بیگم کو تفویض کر دیا گیا۔ نومبر 1868ء میں نواب سکندر بیگم کے انتقال کے بعد وہ بیگم بھوپال بن گئیں اور تادمِ آخر بحیثیتِ حکمران ریاست بھوپال اِسی عہدے پر فائز رہیں۔ 16 جون 1901ء کو انتقال ہوا۔

شاہ جہاں بیگم
 

معلومات شخصیت
پیدائش 29 جولا‎ئی 1838ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اسلام نگر، بھوپال   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 جون 1901ء (63 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بھوپال ،  ریاست بھوپال   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سرطان   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات نواب صدیق حسن خان (8 مئی 1871–26 مئی 1890)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد سلطان کیخسرو جہاں، بیگم بھوپال   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ نواب سکندر بیگم   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سلطان ،  مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سلطان شاہ جہاں بیگم–1872ء

پیدائش اور ابتدائی حالات ترمیم

شاہ جہاں بیگم کی پیدائش بروز پیر 6 جمادی الاول 1254ھ/ 30 جولائی 1838ء کو قلعہ اسلام نگر، بھوپال میں ہوئی۔ اُس وقت اُن کے والد نواب جہانگیر محمد خان بہادر نواب بھوپال یعنی حاکم ریاست بھوپال تھے۔ شاہ جہاں بیگم کی ہر قسم کی تربیت نواب سکندر بیگم نے خود کی، اگرچہ تربیت کا طریقہ کار آج کل کی جدید تربیت جیسا تو نہیں تھا مگر جو ماحول بہتر سے بہتر میسر آیا، شاہ جہاں بیگم کو ویسی ہی تربیت دی جاتی رہی۔ قدرت کی جانب سے غیر معمولی ذہانت، استقلال و قابلیت اور بیدار مغزی کا حصہ انھیں ودیعت ہوا تھا۔ نواب سکندر بیگم نے تربیت خانہ داری کی تعلیم اپنے ذمہ رکھی جبکہ کتابی اور دینی تعلیم کے لیے اُس زمانہ کے ممتاز علما کو مقرر کیا۔ علاوہ ازیں اسپ سواری اور نشانہ بازی کی مشقیں بھی کروائی جاتی تھیں۔ شاہ جہاں بیگم نے خداداد صلاحیت و ذہانت، جودتِ طبع اور شوق و دلچسپی میں یہ تمام مراحل بہت جلد طے کرلیے۔[2]

تخت نشینی ترمیم

9 دسمبر 1844ء کو شاہ جہاں بیگم کے والد اور نواب بھوپال نواب جہانگیر محمد خان بہادر کا انتقال ہوا تو قاعدہ تخت نشینی کے تحت شاہ جہاں بیگم نواب بھوپال مقرر ہوئیں۔ اُس وقت شاہ جہاں بیگم کی عمر محض 6 سال تھی، ایسٹ انڈیا کمپنی نے اُن کی والدہ نواب سکندر بیگم کو بحیثیتِ نائب السلطنت مقرر کر دیا۔ نواب سکندر بیگم دسمبر 1844ء سے 30 اکتوبر 1868ء تک بیگم بھوپال کے عہدے پر فائز رہیں اور شاہ جہاں بیگم نے پاس صرف رسمی طور پر عنانِ حکومت تھی۔ 30 اکتوبر 1868ء کو نواب سکندر بیگم کے انتقال کے بعد بروز پیر یکم شعبان 1285ھ/ 16 نومبر 1868ء کو وہ بحیثیت بیگم بھوپال تخت نشیں ہوئیں۔ 1844ء میں تخت نشینی کی یہ رسم اِس طرح قابل قبول پائی تھی کہ جب وہ شادی کر لیں گی تو اُن کے شوہر کو رئیس ریاست بھوپال کا خطاب دیا جائے گا۔

ازدواج و اولاد ترمیم

جب شاہ جہاں بیگم سن شعور کو پہنچیں تو اُن کی شادی کے لیے بہت تلاش و جستجو اورغورو خوض کے بعد بخشی باقی محمد خان نصرت جنگ، سپہ سالار ریاست بھوپال (مکمل نام: نصیر الدولہ نواب باقی محمد خان بہادر امراؤ الدولہ نصرت جنگ) کاانتخاب کر لیا گیا جن میں موروثی و ذاتی طور پر رئیس و ریاست بھوپال کی وفاداری کے اعلیٰ جوہر موجود تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے منظوری ہوجانے کے بعد کہ وہ برائے نام نواب یا رئیس ریاست بھوپال ہوں گے، یہ شادی 26 جولائی 1855ء کو طے پائی۔[3] اُس وقت شاہ جہاں بیگم کی عمر 16 سال 11 ماہ 26 دن شمسی تھی۔ جمعہ 9 جولائی 1858ء کو شاہ جہاں بیگم کے ہاں سلطان کیخسرو جہاں، بیگم بھوپال کی پیدائش ہوئی۔ 26 نومبر 1860ء کو نواب سلیمان جہاں بیگم کی پیدائش ہوئی جو محض 5 سال کی عمر میں 8 جون 1865ء کو فوت ہوئی۔26 جولائی 1867ء میں شوہر باقی محمد خان نصرت جنگ بہادر نے انتقال کیا۔

باقاعدہ تخت نشینی ترمیم

26 جولائی 1855ء کو شادی کے بعد شاہ جہاں بیگم کو یہ اختیار حاصل ہو گیا تھا کہ وہ اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔ مگر اِس سے قبل نواب سکندر بیگم نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے یہ منظور کروا لیا کہ ریاست بھوپال پر اُن کی فرماں روائی و حکومت اُن کا خاندانی حق ہے جسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے تسلیم کر لیا۔ 1855ء میں یہ مشکل پیدا ہو چکی تھی کہ نواب سکندر بیگم بحیثیت بیگم بھوپال بھی موجود تھیں اور شاہ جہاں بیگم اقتدار حکومت کو اپنی تحویل میں لینے کی قانونی وارث بھی موجود تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اِس مشکل کے حل کا فیصلہ نواب سکندر بیگم کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ شاہ جہاں بیگم نے فراخدلی سے کام لیا اور اپنی والدہ نواب سکندر بیگم کو بحیثیتِ بیگم بھوپال کے عہدے پر فائز رہنے دیا اور خوشی سے استحقاقِ حکومت سے دستبردار رہیں۔ 30 اکتوبر 1868ء کو نواب سکندر بیگم نے انتقال کیا تو شاہ جہاں بیگم بحیثیتِ نواب بھوپال و بیگم بھوپال 16 نومبر 1868ء کو ایوانِ موتی محل میں نواب شاہ جہاں بیگم کے نام سے تخت نشیں ہوئیں۔

نکاحِ ثانی ترمیم

شاہ جہاں بیگم کا عقدِ اول 1855ء میں باقی محمد خان نصرت جنگ بہادر سے ہوا تھا جو 1867ء میں فوت ہوئے۔ 1867ء میں شاہ جہاں بیگم 29 سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں اور 3 سال تک تنہا زندگی بسر کرتی رہیں۔ دسمبر 1869ء میں جب وہ ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ الفریڈ، ڈیوک سیسکوبرگ گوتھا سے ملاقات کو کلکتہ گئیں تو گورنر جنرل ہند کے ایجنٹ کرنل رِچرڈ ہیڈ کے مشورہ پر نکاحِ ثانی پر آمادہ ہوگئیں کیونکہ اُمورِ حکمرانی میں ایک قابل اعتماد مشیر اور مددگار کی ضرورت تھی اور عمر کے مطابق یہ لازم تھا کہ ایسا مشیر یا مددگار شوہر ہی ہو سکتا ہے۔ صاحب مدارالمہام ریاست بھوپال مولوی جمال الدین کے اور ریاسی وزراء کے مشورہ پر نواب صدیق حسن خان کا انتخاب کیا گیا اور 8 مئی 1871ء کو یہ نکاح قرار پایا۔[4] شاہ جہاں بیگم کی کوشش سے نواب صدیق حسن خان کو برطانوی حکومت کی جانب سے نواب والا جاہ امیر الملک کا خطاب اور خلعت مرحمت ہوئی اور اُن کا رتبہ نوابانِ بھوپال کے مثل تسلیم کر لیا گیا۔ یکم جنوری 1877ء کو دہلی دربار کے موقع پر 17 فائر سلامی کے مقرر کردیے گئے۔ 26 مئی 1890ء کو نواب صدیق حسن خان انتقال کر گئے تو شاہ جہاں بیگم 52 سال کی عمر میں دوسری بار بیوہ ہوئیں۔

اصلاحات ترمیم

شاہ جہاں بیگم اپنی ولی عہدی کے زمانہ میں اگرچہ ریاست بھوپال کے مختلف امو رہائے حکومت کو انجام دیا کرتی تھیں جو انھیں نواب سکندر بیگم کی جانب سے تفویض ہوتے تھے۔ جب نواب سکندر بیگم حج کے لیے گئیں تو قائمقام کونسل ریاست بھوپال کے انتظام کے لیے مقرر کی گئی جس میں شاہ جہاں بیگم مستقل صدر تھیں۔ 1868ء میں جب وہ باقاعدہ حکمران مقرر ہوئیں تو ہر ملکی و سیاسی کام کا تجربہ رکھتی تھیں اور تمام جزوی و کلی امو رہائے ریاست کا انھیں علم تھا۔ فطرتاً بیدار مغز اور عادتاً جفاکش محنتی تھیں۔ علمی قابلیت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ نواب سکندر بیگم کے ہمراہ مختلف سفروں میں ساتھ رہا کرتی تھیں اور سیاسی شخصیات سے میل ملاقات رہتی تھی۔ نواب سکندر بیگم کے اواخر زمانہ حکومت میں جو امو رہائے ریاست ادھورے رہ گئے تھے، انھیں شاہ جہاں بیگم نے انجام دیا۔ جدید اصلاحات کیں، ہر ضلع کے متعدد بار دورے کیے۔ بہت سے ٹیکس معاف کردیے۔ قوانین ریاست کو جدید طرز پر منضبط کیا۔ قوانین کی اصلاح کی گئی۔ وضع قوانین کے لیے ایک مستقل محکمہ بنام تنظیماتِ شاہجہانی قائم کیا۔ عدالتی اختیارات کی تقسیم کی گئی۔ امن و حفاظتِ عامہ سے متعلق وسیع پیمانے پر انتظامات کیے گئے۔ حفظانِ صحت کے متعلق خاس توجہ دی۔ ہر تحصیل میں ایک سرکاری طبیب مقرر کر دیا گیا۔ حسبِ ضرورت طبی شفاء خانے قائم کیے گئے۔ شہر بھوپال میں ایک بڑا شفاء خانہ ہز رائل ہائینس پرنس آف ویلز کے نام سے اور خواتین کے لیے ایک مخصوص شفاء خانہ لیڈی لینسڈون کے نام سے قائم کیا گیا۔ زِچہ و بچہ کی حفاظت و نگرانی کا خاص انتظام کیا گیا۔ چیچک کے ٹیکہ کا باقاعدہ انتطام ہوا اور ترغیبِ عامہ کے باعث جو بچوں کو ٹیکہ لگوائیں، اُن کو ریاست کی جانب سے انعام دینے کا اعلان کیا گیا۔ رعایا کے اطمینان کی خاطر اپنی نواسی بلقیس جہاں بیگم کو چیچک سے بچاؤ کا ٹیکہ لگوایا۔ سیہور میں جذامیوں کے لیے شفاء خانہ تعمیر کروایا۔ مدرسہ سلیمانیہ جو نواب سلیمان جہاں بیگم کی یاد میں تعمیر ہوا، اُس کو ترقی دی اور ہائی اسکول کے بعد یونیورسٹی سے الحاق کروایا۔ والد کے نام پر مدرسہ جہانگیریہ قائم کیا جس میں صرف قرآن مجید کی تعلیم خاص تھی۔ بلقیس جہاں بیگم کی یاد میں لاوارث اور یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے مدرسہ بلقیسی قائم کیا۔

دینی خدمات ترمیم

امورِ مذہبی کا ایک جدید محکمہ قائم کیا گیا۔ کئی لاکھ روپے صرف کرکے شہر کی اکثر مساجد کو پختہ کروایا۔ تمام ریاست میں ہر ایک مسجد میں امام، مؤذن اور جاروب کش مقرر کیے گئے جو نمازِ پنجگانہ کے اہتمام کے ذمہ دار تھے۔ مساجد میں روشنی اور جائے نمازوں کا اور سردی کے مومس میں گرم پانی کے واسطے ہر مسجد میں لکڑی فراہم کیے جانے کا انتظام کیا گیا۔ شہر کی تمام مساجد کی نگرانی کے لیے ایک محکمہ بنام مہتمم مساجد قائم کیا اور ضروری عملے کا تقرر کیا گیا۔ ماہِ رمضان میں حفاظ قرآن کے لیے جو تراویح میں قرآن مجید تلاوت کریں، کے لیے انعام اور شیرینی اور طعام مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا اور اُن کے دیگر مصارف کا جو مسجد کے لیے ضروری ہیں، ریاست کی جانب سے عطاء کیا جانا منظور کیا گیا۔ نواب سکندر بیگم کے عہدِ حکومت (1844ء1868ء) میں جو امدادی وظائف حرمین شریفین کے غرباء کو بھجوائے جاتے تھے، اُس میں توسیع کی اور اُس کے انتظام کے واسطے ایک مستقل محکمہ قائم کر دیا گیا اور ہر سال ایک قافلہ سرکاری خرچ پر حج پر جانے لگا۔ حصولِ ثواب اور ردِ بلا کی خاطر ایک ختم خانہ قائم کیا جس میں متعدد اشخاص قرآن مجید کی تلاوت کی خاطر ملازم رکھے گئے۔ یہ اشخاص حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم بھی دیتے تھے۔[5]

دینی کتب کی اشاعت ترمیم

شاہ جہاں بیگم علم کی قدرشناس تھیں، علمی کاموں میں ایسی ہی فراخدلی دکھائی کہ تمام بیگمات بھوپال کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک محکمہ بنام مطبع شاہجہانی قائم کیا گیا جس میں قرآن مجید کی طباعت کی جاتی تھی اور یہ قرآن مجید عوام میں بلا ہدیہ تقسیم کیے جاتے تھے۔ نیل الاوطار، فتح البیان، تفسیر ابن کثیر، روضۃ الندیہ، نزل الابرار، جلا العینین، فتح الباری شرح صحیح البخاری جیسی نایاب و نادر کتب کو شائع کروایا اور اِس میں زرِ کثیر صرف ہوا۔ فتح الباری پہلی مرتبہ مطبع شاہجہانی سے ہی شائع ہوئی تھی۔ سائینٹفک سوسائٹی علی گڑھ کی سرپرست تھیں۔

تعمیرات ترمیم

 
تاج المساجد، بھوپال

تاج المساجد ترمیم

شاہ جہاں بیگم ریاست بھوپال کی اُن حکمران بیگمات میں سے ایک ہیں جنھوں نے فن تعمیر کو بھی عروج دیا۔ تاج المساجد جو بھوپال کی عظیم ترین جامع مسجد ہے، کی بنیاد اُنہی کے حکم سے رکھی گئی۔ اُس وقت دہلی میں مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی حکومت قائم تھی، البتہ اس مسجد کا سنہ بنیاد معلوم نہیں ہو سکا۔ اِس مسجد کی تعمیر کا کام جنگ آزادی 1857ء کے دنوں میں تعطل کا شکار ہو گیا تھا، بعد ازاں یہ مسجد جدید طرز پر 1971ء میں مکمل ہوئی۔ مسجد کا اندرونی رقبہ 4,300,000 مربع فٹ (400,000 مربع میٹر) ہے جس میں 175,000 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ تاج المساجد ایشیا کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔

 
شاہ جہاں مسجد، ووکنگ، لندن، مملکت متحدہ

شاہ جہاں مسجد، ووکنگ ترمیم

یہ مسجد انگلستان میں پہلی باضابطہ عبادت گاہ تھی جو نواب شاہ جہاں بیگم کے جزوی اخراجات سے 1889ء میں ووکنگ میں تعمیر کی گئی۔ اِس مسجد کی تعمیر کا اصل مقصد ووکنگ میں مقیم اورینٹل انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ کے لیے عبادت گاہ کا قیام تھا۔ اورینٹل انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد 1881ء میں گوٹ لیئیب ویل ہیلم لیئیٹنر نے رکھی، جس کے لیے یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ اس نے ووکنگ، انگلستان میں سابقہ رائل ڈرامیٹک کالج کی عمارت خرید کر مشرقی ادب کے فروغ کے لیے ادارہ قائم کیا تھا۔ یہاں سے جامعہ پنجاب، لاہور سے ڈگری عطا کی جاتی تھی۔ ملکہ وکٹوریہ جب قلعہ ونڈسر میں ہوتی تو اس کے ہندوستانی ملازم اور ہندوستانی سیکرٹری منشی عبد الکریم اس مسجد کو استعمال کرتے تھے۔

تاج محل، بھوپال ترمیم

 
تاج محل، بھوپال

اِس محل کا اصل نام راج محل ہے۔ تاج محل، بھوپال کی تعمیر کا آغاز 1871ء میں ہوا اور اِس کی تکمیل 13 سال بعد 1884ء میں ہوئی۔ اِس کی تعمیر پر 30 لاکھ روپے لاگت آئی۔ یہ محل اپنے زمانے میں تعمیر کیے جانے والے بہترین محلات میں سے ایک تھا۔ محل کے طرزِ تعمیر میں اسلامی طرز تعمیر، برطانوی طرز تعمیر، فرانسیسی طرز تعمیر، ہندو طرز تعمیر اور مغلیہ طرز تعمیر کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

تصانیف ترمیم

شاہ جہاں بیگم مصنفہ بھی تھیں۔ مشہور تصانیف میں تہذیب النسواں، خزینۃ اللغات ہیں۔ ایک مذہبی کتاب تصنیف کر رہی تھیں لیکن وہ مکمل نہ ہو سکی۔ شاعری بھی کرتی تھیں جس میں تاجور اور شیریں تخلص تھے۔ فارسی زبان میں شعر کہا کرتی تھیں۔ مثنوی صدق البیان، تاج الکلا اور دیوانِ شیریں اُن کی یادگار ہیں۔ اِن تینوں کتب سے متعلق سلطان کیخسرو جہاں، بیگم بھوپال نے لکھا ہے کہ:

"اِن کے دو مطبوعہ دیوانوں میں کچھ غزلیں وغیرہ اُن کی ہیں، اِس میں شک نہیں کہ وہ شاعرہ تھیں، لیکن نہ ایسی فرصت تھی اور نہ طبیعت کا یہ رنگ تھا کہ ایسے عامیانہ مذاق میں جو اِن دیوانوں میں جابجاء پایا جاتا ہے، وہ شعر و سخن کہیں۔ اُن کی تہذِب کا معیار نہایت اعلیٰ تھا۔ اُن کے ہر فعل و قول میں کامل متانت بھری ہوئی تھی، وہ کوئی سوقیانہ بات کبھی منہ سے نہیں نکالتی تھیں۔ یہ صحیح ہے اور بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے کہ بعض درباری لوگوں نے جو رسوخ یافتہ تھے، اُن کے نام سے ایسی غزلوں اور اشعار کو مستزاد کرکے طبع کروایا اور سرکارِ عالیہ نے اپنی خلقی مروت و چشم پوشی سے خاموشی اختیار کی یا اُن کے ملاحظہ میں دِیوان پیش نہ ہوئے۔[6]

وفات ترمیم

اواخر ماہِ اکتوبر 1900ء میں شاہ جہاں بیگم کو مرض سرطان (کینسر) لاحق ہوا جو بائیں رخسار کے اندر نمودار ہوا۔ اِس مرض میں گیارہ مہینے مبتلا رہیں۔[7] بروز اتوار 28 صفر 1319ھ/ 16 جون 1901ء کو 62 سال 5 ماہ 17 دن شمسی کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ دوپہر چار بجے باغ نشاطِ افزاء میں تدفین کی گئی۔ گورنر جنرل ہند لارڈ جارج کرزن سمیت ہندوستان کے نوابانِ ریاست اور دیگر امرائے ہند نے تعزیت کا اظہار کیا۔

خطابات شاہی ترمیم

  • 1838ء–1844ء: نواب زادی سلطان شاہ جہاں بیگم صاحبہ۔
  • 1844ء– 1860ء: عالی جاہ نواب سلطان شاہ جہاں بیگم صاحبہ، نواب بیگم دارالاقبالِ بھوپال۔
  • 1860ء–1868ء: ولی عہد بہادر نواب زادی سلطان شاہ جہاں بیگم صاحبہ۔
  • 1868ء–1872ء: عالی جاہ نواب سلطان شاہ جہاں بیگم صاحبہ، نواب بیگم دارالاقبالِ بھوپال۔
  • 1872ء–1878ء: عالی جاہ نواب سلطان شاہ جہاں بیگم صاحبہ، نواب بیگم دارالاقبالِ بھوپال، گرینڈ کمانڈر آف اسٹار آف انڈیا۔
  • 1878ء– 16 جون 1901ء: عالی جاہ نواب سلطان شاہ جہاں بیگم صاحبہ، نواب بیگم دارالاقبالِ بھوپال، گرینڈ کمانڈر آس اسٹار آف انڈیا، نائٹ کمانڈر، کراؤن آف انڈیا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Collective Biographies of Women ID: http://cbw.iath.virginia.edu/women_display.php?id=19203 — بنام: H.H. Nawab Sultan Jahan Begam, G.C.S.I., G.C.I.E. — عنوان : Collective Biographies of Women
  2. محمد امین مارہروی: بیگمات بھوپال، صفحہ 73۔ مطبوعہ بھوپال 1337ھ۔
  3. محمد امین مارہروی: بیگمات بھوپال، صفحہ 74۔ مطبوعہ بھوپال 1337ھ۔
  4. محمد امین مارہروی: بیگمات بھوپال، صفحہ 75۔ مطبوعہ بھوپال 1337ھ۔
  5. محمد امین مارہروی: بیگمات بھوپال، صفحہ 80/81۔ مطبوعہ بھوپال 1337ھ۔
  6. محمد امین مارہروی: بیگمات بھوپال، صفحہ 95/96۔ مطبوعہ بھوپال 1337ھ۔
  7. محمد امین مارہروی: بیگمات بھوپال، صفحہ97۔ مطبوعہ بھوپال 1337ھ۔
شاہ جہاں بیگم
شاہی القاب
ماقبل  بیگم بھوپال
9 دسمبر1844ء15 نومبر 1868ء (رسمی طور پر)
16 نومبر 1868ء16 جون 1901ء (باقاعدہ طور پر)
مابعد