دریائے سندھ

ایشیاء میں دریا
(سنده سے رجوع مکرر)

دریائے سندھ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلومیٹر ہے۔ اس کا مجموعی نکاسی آب کا علاقہ 450,000 مربع میل یا 1,165,000 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں سے یہ پہاڑی علاقہ ( قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش) میں 175,000 مربع میل یا 453,000 مربع کلومیٹر بہتا ہے اور باقی پاکستان کے میدانوں میں بہتا ہے۔ چینی علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک زیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل مانسرور ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا نکلتے ہیں۔

دریائے سندھ
The Indus Gorge is formed as the Indus river bends around the نانگا پربت massif, shown towering behind, defining the western anchor of the سلسلہ کوہ ہمالیہn mountain range.
The course and major tributaries of the Indus river
دیگر نامSindhu, Mehran[1]
Countryچین، بھارت، پاکستان
Stateلداخ، پنجاب، پاکستان، خیبر پختونخوا، سندھ، گلگت بلتستان، تبت خود مختار علاقہ
Citiesلیہہ، سکردو، داسو، بشام، Thakot، صوابی، ڈیرہ اسماعیل خان، سکھر، حیدرآباد، سندھ
طبعی خصوصیات
بنیادی ماخذSênggê Zangbo
سطح مرتفع تبت
دوسرا ماخذGar Tsangpo
دریا کا دھانہبحیرہ عرب (primary)، Rann of Kutch (secondary)
Indus River Delta (primary)، کوری کریک (secondary)، پاکستان، بھارت
0 میٹر (0 فٹ)
23°59′40″N 67°25′51″E / 23.99444°N 67.43083°E / 23.99444; 67.43083
لمبائی3,180 کلومیٹر (1,980 میل) as Mapped. 3,249 کلومیٹر (2,019 میل) actual as mentioned in History Books.
نکاس
  • مقام:
    بحیرہ عرب
  • کم از کم شرح:
    1,200 میٹر3/سیکنڈ (42,000 فٹ مکعب/سیکنڈ)
  • اوسط شرح:
    6,930 میٹر3/سیکنڈ (245,000 فٹ مکعب/سیکنڈ)
  • زیادہ سے زیادہ شرح:
    58,000 میٹر3/سیکنڈ (2,000,000 فٹ مکعب/سیکنڈ)
نکاس
(مقام 2)
  • مقام:
    تربیلا بند
  • کم از کم شرح:
    2,469 میٹر3/سیکنڈ (87,200 فٹ مکعب/سیکنڈ)


طاس خصوصیات
طاس سائز1,165,000 کلومیٹر2 (1.254×1013 فٹ مربع)
معاون

ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔ گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔ اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔

ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 میں ولیم مور کرافٹ نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرو نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے سیون ہیڈن 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر سنگی کباب یا سینگے کباب کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی گارتنگ یا گارتانگ ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔

گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔

دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر سکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔

اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ ہے تربیلا ڈیم۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس آٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔

کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔

گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گذر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گذر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔ [2]

اس دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان یا کا نام انڈیا پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں جو ضلع صوابی کے تحصیل چھوٹا لاہور کے ایک گاؤں ہنڈ سے گذرا ہے۔ اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں۔ یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے۔ اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہو سکتے تھے۔ یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔

منبع کی تلاش

ترمیم

یہ دریا جو کیلاش کے قریب سے نکلتا ہے اور اٹھارہ سو میل کا سفر طہ کرکے بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ ہندووَں اور بدھووَں کا کوہ کیلاش کوہ میرو برہما کا نگر ہے اور جن دیوتاؤں اگنی، وایو اور اندر کو وہ پوجتے ہیں ان کا اصل مسکن یہیں ہے۔ اس علاقہ کو جھیلوں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہاں دو بڑی جھیلیں واقع ہیں۔ جن میں مان سرود کو مقدس اور راکش تال کو منحوس خیال کیا جاتا ہے۔

تبتیوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل سے دریائے سندھ اور تین اور دریا برہما پتر، کرنالی (گنگا کا ایک بڑ معاون دریا ) اور ستلج بھی نکلتے ہیں۔ ہندووَں اور بدھوں کا بھی یہی کہنا تھا اور ان کی مذہبی تصویروں میں اس جھیل میں ان چاروں دریاؤں کو چار جانوروں کے منہ سے نکلتے دیکھایا گیا تھا۔ مشرق میں سے برہما پتر گھوڑے کے منہ سے، کرنالی کو جنوب میں مور کے منہ سے، ستلج مغربی جانب سے ہاتھی کے منہ سے اور دریائے سندھ شمال میں ببر شیر یا سنگی کباب سے نکل رہا ہے۔ اس لیے یہ دریا تبت میں سنگی کباب یعنی شیر دریا کہلاتا ہے۔

یورپی جغرافیہ دان تبتوں کی اس روایت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ جھیل مانسرور چار بڑے دریاؤں کا منبع ہے۔ ان کا خیال تھا کہ دریائے سندھ کا منبع کیلاش کے پہاڑی علاقے میں ہے۔ چنانچہ جب 1858ء میں جب برصغیر کے شمال مغرب کے علاقے میں ریلوے لائین تیار کی جارہی تھی تو اس کے لیے جو نقشہ تیار ہوا اس میں دریائے سندھ کو کوہ کیلاش سے نکلتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔ بہرحال انیسویں صدی کی ابتدا تک اس کا منبع مخفی رہا اور سطح مرتفع کے پیچیدہ اور وسیع علاقے کی وادیوں اور چوٹیوں کی نشادہی محض اندازے سے ہوتی رہی۔

انیسویں صدی کے آخر تک کئی یورپین نے جھیل مانسرور کا سفر کیا اور دریائے سندھ کے منبع کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ تبتی احکام کسی یورپین کو اس جھیل کا سروے نہیں کرنے دیتے تھے۔ پھر بھی بہت سے یورپین بھیس بدل کر وہاں پہنچ گئے اور انیسویں صدی کے اختتام تک ستلج (ہاتھی دریا) اور کرنالی (مور دریا) کے منبع تلاش کر لیے گئے۔ یہ پندرہ میل دور جنوب مغرب کی طرف شیطانی یا راکش جھیل سے نکلتے ہیں جو ایک جھوٹی سی ندی کے ذریعہ مانسرور جھیل سے منسلک ہے۔ مگر گھوڑا دریا اور شیر ببر دریا ( برہما پتر اور سندھ ) کے منبع کا اب تک پتہ نہیں چلا تھا اور انھیں ان کے درست منبع کا ابھی تک پتہ نہیں تھا۔

یہ اعزاز ایک سویڈش سیاح سیون ہیڈن کو ملا۔ وہ اس سے پہلے مانسرور سے ساٹھ میل مشرق کی جانب برہما پتر کی ابتدائی ندی دریافت کرچکا تھا۔ وہ سنگی کباب یعنی شیر دریا کے دہانے کی تلاش میں 1907ء میں دوبارہ مانسرور جھیل پہنچا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دریائے سندھ کا منبع جھیل کے کہیں شمال کی جانب ہے اور برہما پتر رکس تال سے نکلتا ہے۔ اس لیے ہیڈن شمال مغرب کی طرف جانا چاہتا تھا۔ اسے۔ تبتی افسر نے بہت اصرار پر اجازت دی۔

بالآخر ہیڈن چند چراوہوں کی مدد سنگی کباب پہنچا۔ وہ پہلا سفید آدمی تھا جس نے سندھ اور برہم بترا کے منبع کے مقام تک پہنچ سکا۔ لیکن حقیقت یہ ہے اس دریا کے کئی منہ ہیں اور اس میں سے کس کو دریائے سندھ کا منبع مانا جائے۔ لیکن چونکہ روایات سنگی کباب کے حق میں اس لیے اسے دریائے سندھ کا منبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

اگرچہ سنگی کباب جھیل مانسرور سے صرف تیس میل دور ہے۔ لیکن تبتی احکام کو یقین تھا کہ دریائے سندھ جھیل مانسرور سے نکلتا ہے۔ کیوں کہ ایک بڑا طاقتور دریا کو اسی مقدس جھیل سے نکلنا چاہیے۔ اگرچہ یہ چارووں دریا اس جھیل سے نہیں نکلتے ہیں مگر اس جھیل سے زیادہ فاصلے پر نہیں نکلتے ہیں۔ اس طرح یہ روایات بہت زیادہ غلط بھی نہیں تھیں اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دریا ایک ہی مقام سے پھوٹ کر مختلف سمتوں میں رخ کرتے ہیں۔

تبت میں دریائے سندھ وہاں سے اپنے ساتھ مختلف ندی نالوں کا پانی لیتا ہوا آگے بڑھتا ہے جہاں بھورے ٹیلے اور برف سے ڈھکے سفید پہاڑ آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور درمیان میں دریائے سندھ نیلے اور اٹھلے پھیلاوَ کے ساتھ بتا ہے۔ اس کا ایک دھارا جو جنوبی سرچشمہ ہے اور کیلاش کے نشیب کے کنارے سے ہوتی ہوئی گارٹنگ اور گیاتیما کے سامنے سے گزرتی ہے اور دوسری یعنی شمالی شاخ جو کیلاش سلسلے کے شمال میں سے نکلتی ہے اور بہتی ہوئی جنوبی شاخ کے ساتھ مل کر اور گلجیٹ کے قریب سے گزرتی ہے۔ یہاں دریائے سندھ کا پہلا معاون دریا گارتنگ ملتا ہے۔ گارتنگ دریا سندھ کے برابر ہی ہے اور ایک کھلی وادی جگہ بہتا ہوا آتا ہے۔ جس کے کنارے مغربی تبت کے صوبہ گارتنگ کا دالحکومت گارتنگ واقع ہے۔ جب کہ دریائے سندھ اپنے منبع کی وجہ سے پہاڑوں میں چکر لگانے پر مجبور ہے۔ یہاں دونوں دریا مل یا گارتنگ اور سندھ میں ارتصال کے بعد دریائے سندھ دس ہزار فٹ کی بلندی پر بہتا ہے اور سفر کرتا ہوا رواں دواں ہوجاتا ہے۔ یہاں اس پس منظر میں پہاڑوں کی سفید چوٹیاں سر نکالے کھڑی ہوئی ہیں۔ یہاں دریا سندھ کا رخ آہستہ آہستہ شمال مغرب کی طرف سے لداخ کا رخ کرتا ہے۔ یہاں تاشی گانگ جو تبت کا آخری گاءوں ہے۔ یہاں پہلے پتھریلے راستہ پر دعائیہ جھنڈے اور مقبرے بنے ہوئے۔ بے تراشیدہ پتھر اور لکڑی کے شہتیروں کے بنے مکانات دریائے سندھ کے ساتھ بنی ایک خانقاہ کے پس منظر میں دب جاتا ہے اور دیکھنے والوں صرف یہ خانقاہ ہی نظر آتی ہے۔

اس کی راہ میں ایسے گاؤں کم ہیں جو سارا سال آباد رہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے پانچ میل سے پچیس میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہ غیر تراشہ پتھروں اور لکڑیوں کی مدد سے بنے ہوئے یہ دیہات عموماً دریائے سندھ کی معاون ندیوں کے کنارے زمین کے چھوٹے چھوٹے قابل کاشت ٹکروں پر آباد ہیں۔ سنگی کباب (دریائے سندھ) چل کر سطح مرتفع تبت کے مغرب میں واقع بلند و بالا وادیوں میں سفر کرتا ہوا شمال مغرب پھر مغرب کا رخ کرتا ہے اور اس نقشے میں دیکھیں تو اس کی شکل وہاں درانتی کا طرح یا ہلال کی شکل بناتا ہے۔ لہذا اس دریا ابتدائی سفر مغربی تبت میں ہوتا ہے۔ دریائے سندھ مغربی تبت کو چراہگاہیں مہیا کرتا ہوا کشمیر کا رخ کرتا ہے۔

یہ میدانوں سے شروع ہوکر چٹانوں سے گذر کر دریا سندھ کے کنارے کنارے اوپر کی سمت جارہا ہوتا ہے۔ جس کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑوں کی دیواریں اور دوسری سمت میں دریائے سندھ کی طرف جاتی ہوئی عمودی کھائیاں اور پھسلتے ہوئے برف کے تودے اور مٹی کی چٹانیں یعنی مسقل خطرہ منڈلا رہا ہوتا ہے۔

جغرافیہ

ترمیم
لیہ، بھارت کے نزدیک دریائے سندھ

ذیلی ندیاں

ترمیم

ارضی تبدیلیاں

ترمیم

کروڑوں سال پہلے یہاں ٹھائیں ٹھائیں مارتا سمندر تھا۔ یہاں سمندری جانوروں اور نباتات کے فوسلز زمین اوپر اور نیچے دونوں طرف پائے گئے۔ جو نشادہی کرتے ہیں کہ یہاں کی زمین کئی مرتبہ زیر آب ہوئی اور بلند ہوئی۔ موجودہ پہاڑی سلسلے کوئی ایک ہزار ملین سال پہلے وجود میں آئے۔ ارضیاتی تبدیلوں کے نتیجے میں وسط ایشیا کی سطح مرتفع جنوب کی جانب برصغیر کی طرف ڈھکیلنا شروع ہوئی۔ ایک ٹھوس گہری جڑوں والی چٹان جو شاید دنیا کی سب سے قدیم چٹان تھی برصغیر کے نیچے ڈبی رہی۔ لاکھوں سال تک شمال کی جانب ایک ناقابل مزاحمت قوت اس میں مسلسل روکاٹ پر ڈباوَ ڈالتی رہی اور آہستہ آہستہ ان کے درمیان میں زمین کی سطح بلند ہونا شروع ہوئی اور اس طرح قراقرم اور ہمالیہ کے سلسلے وجود میں آئے اور سمندر برصغیر کے شمال میں دریا کے پہنچنے کا راستہ بناتے ہوئے مشرق و مغرب کی طرف بہہ گیا۔ جنوب کی سمت میں دباوَ مسلسل جاری رہا اور تقریباً پانچ لاکھ سال پہلے سلسلہ ہمالیہ اور قراقرم کے درمیان میں کیلاش کا پہاڑی سلسلہ ابھرنا شروع ہوا۔ جس نے پہلوں سے نکلنے والے آبی راستوں کو روک کر جنوب اور مشرق کی جانب گنگا اور برہم پتر اور شمال و مغرب کی طرف سندھ اور ستلج دو علحیدہ علحیدہ دریائی نظاموں کو جنم دیا۔

سندھ اور گنگا کے منبع صرف ساٹھ میل کے فاصلے پر ہیں اور دونوں دریا مخالف سمتوں میں بہتے ہوئے دو مختلف سمندورں میں گرتے ہیں جن سے درمیان میں برصغیر کی سرزمین کو مثلث بن جاتی ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ یہاں کبھی سمندر تھا۔ وسط ایشیا کی سطح اب بھی ابھر رہی ہے اور وہ پہاڑ جنھوں نے دریائے سندھ کو گھیر رکھا ہے اب بھی آہستہ آہستہ بلند ہو رہے ہیں اور جنوب کی سے طرف کسک رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے یہاں زلزلے اکثر اور لینڈ سلاءڈنگ ہوتی رہتی ہے۔

یہاں دریائے سندھ کی وادی میں سالانہ تین انچ سے بھی کم بارش ہوتی ہے۔ یہاں پہاڑ بنجر اور کچھ کھلے میدان ریت سے بھرے ہیں اور ہوا خشک اور گرد آلودہ ہے۔ برف باری چھوٹے دانے چنوں کی طرح ہوتی ہے۔ سطح کی چٹانیں ٹوٹی پھوٹی اور ڈراے روں والی ہیں۔ زمین کی سطح رتیلی ہے یا ڈھیلوں کی صورت میں ہے جس کی میں مٹی میں سنگریزے ہیں۔ کٹاوَ کے عمل میں دریائے سندھ اور معاون ندیوں نے ایسے نشانات چھوڑے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی وقت بلند سطح پر بہتے تھے۔ ان کی گذر گاہیں پانی سے گول گئی چٹانوں اور پتھروں پر مشتمل ہیں۔ یہ پرانے گلشیر کی باقیات بھی ہو سکتی ہیں یا گرمیوں کے پانی کے تیز ریلوں میں یہ پتھر لڑک لڑک کر گول ہو گئے ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں کے درجہ حرارت کے بہت زیادہ فرق نے زمین کی سطح کو کمزور کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین کے ٹکروں، گاروں اور چٹانوں کا پھسلنا عام بات ہے۔ بلند و بالا گھاٹیوں میں گلیشر دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں میں گلیشر کے بڑے بڑے ٹکرے شامل کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی گلیشر آگے آکر دریا کو مہینوں کے لیے روک لیتا ہے اور جب دریا کا پانی اسے توڑتا ہے تو یہ سمندری طوفان کی طرح اچلتا چلتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر چیز، دیہاتوں فضلوں اور درختوں کو ملیا میٹ کر دیتا ہے۔

تنگ اور پتھریلی دیواروں کے درمیان میں دریائے سندھ زیادہ تر ڈھلان والی چٹانوں میں پھنسا ہوا بہتا ہے۔ یہاں کے مناظر پرہیبت اور پرشکوہ ہیں۔ عظیم انشان گھاٹیوں کا اس قدر لمبا سلسلہ کرہ ارض پر کہیں اور نہیں پایا جاتا ہے۔ تنگ راستہ پر ایک سمت میں بلند و بالا عمودی چٹانیں اور طرف عمودی گہرائی میں جھاگ اڑاتا بہتا ہوا دریا۔ یہاں دور دور تک کوئی کوئی جھاڑ جھنکار نظر نہیں آتا ہے۔ اس کے عظیم انشان پہاڑ عمودی چٹانوں کے سلسلے، پتھریلی چٹانیں اور تنگ گھاٹیاں، کی بلند و بالا چٹانوں سے گزرنے والوں کو دریا اس وقار اور عظمت کے ساتھ بہتا نظر آتا ہے جس میں صدیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

لداخ کی سرحد کے قریب پہاڑ دریائے سندھ کے قریب آجاتے ہیں اور شمال کا رخ کرتے ہوئے اس کی ڈھلان میں تیزی سے اضافہ شروع ہوجاتا ہے۔ دریا ان عمودی چٹانوں کے درمیان میں بہتا ہوا ہمالیہ اور قراقرم کے درمیان میں سے گزرتا ہے۔ یہاں عظیم انشان سلسلہ ہمالیہ اور سلسلہ قراقرم قریب آجاتے ہیں۔ اس کے اس 350 میل کے سفر میں اس میں بے شمار نالے اور ندیاں گرتے ہیں، نقشہ میں اس کی شکل ایسی ہوتی ہے کہ دریائے سندھ کی نیلی لکیر میں بے شمار دھاگہ شامل ہو رہے ہیں۔

تجارتی راستے

ترمیم

جہاں پہلو میں چلنے والے پہاڑ آہستہ آہستہ درے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور سندھ کی وادیوں اور اس کی ندیوں کے ساتھ شمال مغرب کی طرف جانے والے کاروانوں کے شاہرائیں تھیں۔ ان شاہرا اَں میں کچھ شمال میں وسط ایشیا اور ہندوستان کی جانب جاتی ہیں۔ تاجر خچروں پر سفر کرتے تھے اور ان کا سامان یاکوں اور گدھوں پر بندھا ہوتا تھا۔ یہاں دریائے سندھ پر کوئی پل نہیں تھے اور تند و تیز لہروں میں انسان اور جانور تیر کر یا چل پار کرتے تھے۔ گہرے پانی کی صورت میں یاک اور ٹٹو قدتی تیراک ہیں تیر کر اور انسان ان کی دم پکڑ کر دریا کو پار کرتے تھے۔ بکریاں تیر نہیں سکتی ہیں البتہ بھیڑیں لہروں کے مطابق ترچھے رخ سے دریا کو پار کر لیتی تھیں۔

سردیوں میں اس وادی میں برف باری ہونے سے دریا جم جاتا ہے۔ لیکن برف کے نیچے پانی رواں بلکہ تیزی سے بہہ رہا ہوتا ہے۔ اس لیے جمے ہوئے دریا کو احتیاط سے پار کیا جاتاہے۔ تنگ گھاٹیوں سے برف کے تودے دنداتے ہوئے آتے ہیں اور نوکیلی چٹانوں سے ٹکرا ان کے بڑے بڑے برف کے ٹکرے اڑتے ہوئے دور جاکر گرتے ہیں۔ جن میں اکثر پتھر کے چھوٹے اور بڑے ٹکرے پھنسے ہوتے ہیں۔ گرمیوں میں جب پہاڑوں پر برف اور گلیشر پگھلنا شروع ہوتے ہیں تو دریا کے بہتے ہوئے پانی میں اضافہ کے ساتھ اس کے شور بڑ جاتا ہے۔ وہاں ننگی چٹانیں سورج کی گرمی کو جذب کر بھٹی بن جاتی ہیں۔ لیکن جہاں ڈھوپ نہیں پہنچتی ہے وہاں شدید ٹھنڈی رہتی ہے اور بہت سی ندیاں صرف چند گھنٹوں کے لیے پگھلتی ہیں۔ وہاں کوئی بھی شخص جو ننگے سر دھوپ میں ہو اور اس کے پیر سائے میں وہ بیک وقت ہیٹ اسٹروک اور فراست بائیٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہاں ہر موسم میں وادیوں کے کچھ حصہ میں تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ جو ریت کے گرداب کو اوپر اٹھاتی ہیں۔ یہاں کہیں کہیں دریا اور معاون ندیوں میں کھیت اور درخت ملتے ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے پہاڑ تقریباً ہر دس میل کے فاصلے پر ایک تنگ گھاٹی کی صورت میں پھٹ جاتی ہیں۔ جہاں گرمیوں میں پانی کے دھارے میں سیلابی مٹی کا ریلا پہاڑوں سے پگلی برف اپنے ساتھ بہاکر لاتے ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں۔ جن کے سامنے سیڑھیوں کی طرح بنے ڈھلوان کھیتوں میں کسان ہوا کے ساتھ اڑنے والی مٹی کی کمی پورا کرنے کے لیے ٹوکریاں بھر کر بڑی محنت سے ڈال رہے ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی ان مختصر سی زمینوں کو قائم کرنے کے لیے مسلسل محنت کرنی پڑھتی ہے۔ یہاں جانوروں کا فصلہ جلانے کے لیے اور انسانی فصلہ کھاد میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وادی میں کھیتوں کے علاوہ جو دیہاتیوں نے سخت محنت سے بنا رکھے ہیں اور کسی قسم کی نباتات دیکھنے میں نہیں آتی ہے۔

دریا کے ساتھ ساتھ پگڈنڈیاں جاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ جو عام طور پر دریا سے بہت بلند ہوتی تھیں۔ لیکن بعض مقامات پر اس کے ساتھ چلتی تھیں اور بعض مقامات پر بل کھاتی ہوئی اس سے دور نکل جاتی تھیں۔ کیوں کہ یہاں کی ڈھلانیں اس قدر خطرناک ہیں ہوکہ اس پر بکریاں بھی نہیں چل سکتی ہیں۔ سیکڑوں سالوں سے شمالی ہندوستان کوہ ہندو کش سے برہم پترہ جانے کے لیے پہاڑوں میں گزرنے والے تاجر اور مذہبی زائرین اسی راستے کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ دیہات اور بدھوں کی خانقاہیں ان گزرنے والوں کو قیام گاہیں اور تجارتی مراکز کا کام بھی کرتی تھیں۔ یہ خانقاہیں دشوار گزار چٹانوں یا دریائے سندھ کے اندر ٹیلوں پر واقع تھیں۔ یہاں مختلف علاقوں سے آنے والے راستے دریائے سندھ کے ساتھ چلنے والے راستوں سے مل جاتے تھے۔ اس طرح وسط ایشیا اور جنوب سے آنے والوں کو راستہ مہیا کرتے تھے۔ یہ پگڈنڈیاں اور راستے مختلف علاقوں اور اقوام تعلق رکھنے والے تاجروں اور مذہبی زائرین کی گذر گاہیں تھیں۔ جن کی وجہ سے ان راستوں پر واقع قصبوں اور دیہاتوں میں رونق تھی۔ یہ راستے قراقرام اور ہمالیہ کے اوپر جن دروں سے گزرتے ہیں ان میں چند ایک بہت ہی خطرناک ہیں اور سال میں بہت کم عرصے کے لیے کھلتے ہیں۔ لیکن مشکلات کے باوجود یہ درے کبھی بند نہیں ہوتے تھے۔

شمال میں قراقرم دریائے سندھ کو وسط ایشیا سے جدا کرتا ہے۔ ان پہاڑوں میں بظاہر کوئی راستہ نہیں تھا۔ لیکن یہاں سے کستوری، ریشم اور دوسری تجارتی اشیاء آتی تھیں۔ یہاں کوئی ایسا درہ نہیں ہے اور جو کم دشوار ہو اور راستے بھی اکثر مختلف جنگوں اور دشمنیوں کی وجہ سے بند رہتے تھے۔ اس لیے اکثر قافلوں کو زیادہ دشوار راستے استعمال کرنے پڑتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے راستے ہیں جو استعمال ہوتے رہے مگر وہ پچھلے دو سو سال میں گلشیر کی زرد میں آکر ناقابل استعمال ہو گئے ہیں۔

شمال کی جانب جانے والا سب سے اہم راستہ قراقرم روٹ لداخ سے بل کھاتا ہوا پہاڑوں کے سلسلے پر چڑھ جاتا ہے اور پھر نیچے آکر دریائے شیوک کے ایک خم کو پار کرنے کے لیے خطرناک ڈھالان کی صورت میں نیچے اترتا ہے اور پھر ایک دوسرے پہاڑی سلسلے پر چڑھ جاتا اور پھر نیچے آکر دریائے شیوک کی ایک معاون ندی کو پار کرتا ہوا وسط ایشیا میں داخل ہوتا ہے۔

یہاں گیارہ درے ہیں اور جو اٹھارہ ہزار فٹ تک بلند ہیں۔ برصغیر اور چین کے درمیان میں درہ قراقرم انیس ہزار فٹ بلند ہے اور اسے صرف گرمیوں میں پار کیا جا سکتا۔ یہاں چند ماہ کے لیے برف پگھلتی ہے اور نیچے سے کالی ریت اور کنکروں کا ایک ریگستان نکل آتا ہے۔ یہ بہت بے رحم راستہ ہے۔ اس راستہ پر کسی قسم کی نباتات نہیں اگتی ہے۔ یہاں چار بلند درے ہیں، مگر ان کے ذریعہ جو فاصلہ طہ کرنا ہوتا ہے وہ قراقرام کے راستہ سے زیادہ ہے استعمال کرتے تھے لہذا بالائی سندھ کی وادی سے شمال کو جانے کے لیے قراقرم روٹ ہمیشہ اہم راستہ رہا تھا۔

جنوبی اور دریائے سندھ کے بائیں جانب جانے والی دیوار ہمالیہ قراقرم کی نسبت زیادہ دور ہے اور اس میں قدر آسان درے موجود ہیں۔ ان میں سب سے اہم درہ ذولا ہے جہاں کشمیر کے راستہ برصغیر تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اس کی اونچائی گیارہ ہزار فٹ بلند ہے اور سال کے آٹھ مینے کھلا رہتا ہے۔

لداخ

ترمیم

لداخ کے پاس دریائے سندھ کے باسیوں زندگی بہت سخت ہے۔ یہاں کی اوسط انچائی دس ہزار فٹ سے زیادہ ہے۔ بلندی کی اس لطیف ہوا سے ہم آہنگ ہونے کے لیے لداخی باشندوں کے پھیپڑوں کی کار کردگی عام لوگوں سے زیادہ ہے۔ یہاں رہنے والے یا تو ڑیوڑوں کی دیکھ بھال کرتے تھے یا مکئی کے چھوٹے چھوٹے کھیت کی پرواخت کرتے اور گزرنے والے تاجروں اشیاء کا تبادلہ کرتے تھے۔ کچھ نوجوان زہرنی کا پیشہ بھی اپنا رکھا تھا۔ جو تاجروں کو اور مسافروں کو لوٹا کرتے تھے۔

لداخ کا دار الحکومت لہہ ہزاروں سال سے تجارتی جال کا مرکز رہا ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے شمالی کنارے پر گیارہ ہزار فٹ بلندی پر آباد ہے۔ یہ شہر بنجر پہاڑوں کے نیچے سیلابی مٹی کے بڑے سے طاس جو چار میل تک پھیلا ہوا ہے کے کنارے آباد ہے۔ لیہ کے ساتھ دریائے سندھ اور قدیم تجارتی اور مذہبی روابط کا ایسا تعلق ہے کہ اکثر اسے چھوٹا تبت کہا جاتا ہے۔

یہ علاقہ ہے پتھریلا اور بنجر اور شدید طوفانوں، چٹانوں کے پھسلنے اور گلیشر کے ٹوٹنے سے سیلابوں جیسی قدرتی آفات کا شکار رہتا ہے۔ یہ سخت محنت سے حاصل کی گئی اپنی زمینوں پر زرعی پیداوار کے علاوہ لداخ کی معیشت کا انحصار دریائے سندھ اور اس سے منسلک تجارتی راستوں پر تھا۔ درہ قراقرم اور زوجی لا جو سندھ سے بالترتیب شمال اور جنوب کی جانب والے راستے ہیں لہہ کے قریب واقع ہیں۔ لہہ کے بازروں میں تنگ اور اندھیری دوکانوں کے سامنے وسط ایشیا سے آنے والے پشم اور نمدوں کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔ دوکانوں کے پیچھے اندھیرے کمروں میں سونا چاندی اور کناری چمک رہا ہوتا تھا۔ ترکستان سے آنے والے چھوٹے چھوٹے ٹٹو تیز چلنے والے، سست گام ہلالی سینگوں والے یاک پاس گذر ہے ہوتے تھے۔ سفید رنگت والے یارکندی، پشم کے ڈھیلے ڈھلالے لباس پہنے تبتی نیچے کی جانب لٹکتی مونچھوں والے منگول، صاف ستھرے لباسوں میں ہندوستانی کندھوں سے کندھے رگڑتے ہوئے چوڑی چوڑی سیڑھیوں والی گلیوں میں آ جا رہے ہوتے تھے اور ملی جلی زبانوں میں بات چیت کر رہے ہوتے تھے۔ جب کہ لہہ کے باشندے کرم گسترانہ نگاہوں سے اس ہجوم کا جائزہ لیتے رہتے تھے کہ ان اجنبیوں کی وجہ سے اس بلند و بالا پہاڑوں میں واقع اس شہر میں ان کو روزگار کے مواقع مل رہے ہیں۔ کبھی کبھار ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے ہجوم میں جہاں اختلاف معمولی بات سمجھی جاتی ہے ایک شخص نمایاں نظر آتا ہے جس نے ان جیسا لباس پہن رکھا ہو ایک مغربی باشندہ آن پہنچتا تھا۔

انیسویں صدی میں یورپین باشندے لہیہ میں ایک دو ہفتہ ٹھہرتے اور اپنی مہموں کے لیے قلی، یاک اور کیمپنگ کا سامان خریدتے اور آگے بڑھ جاتے تھے۔ وہ سب دریائے سندھ کی وادی اور اس کے بیابان کے سحر سے میں مبتلا رہتے تھے۔ ان میں سیاح، سرویئر اور جاسوس بھی ہوتے تھے۔ کچھ ان میں شہرت حاصل کرنے آتے تھے۔ ان لوگوں پر بلند و بالا وادی کا سحر طاری رہتا تھا اور انھوں بہت کم اپنی مہم کے بارے میں دنیا کو بتایا ہے۔ مگر کچھ لوگوں نے سفر کے رونگٹے کھڑے ہونے واقعات، جذبات و خیالات بیان کیے ہیں۔

ارد گرد کی طاقتوں نے پہاڑی دروں اور تجارتی راستوں جو دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں اور نالوں کے ساتھ ساتھ چلتے تھے یہاں کی وادیوں اور زمینوں پر قبضہ کرنا تھا۔ یہ خوفناک مشکلات میں گھرے ہوئے لوگ دو ہزار سال سے وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کی ایسی جارحیت کا شکار رہے ہیں جن میں ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں رہا ہے اور یہ جنگیں ہمیشہ ان کے نقصان پر ختم ہوتی تھیں۔ ڈوگرا مہارجہ گلاب سنگھ نے ان پر اپنی بالادستی قائم کرلی۔

برطانیوی برصغیر سے رخصت ہو گئے کے بعد کشمیر کا راجا مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود اس کا فیصلہ نہیں کرسکا۔ اس پر کشمیر اور گلگت میں آزادی کی تحریک بلند ہوئی اور مجاہدین بڑھتے ہوئے گلگت اور بلتستان کو آزاد کرکے لداخ کے قریب پہنچ گئے۔ اس پر بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتاردیں اور مہاراجا کشمیر سے الحاق کی درخواست پر دستخط کروا لیے اور 1947ء برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی لہہ پر ہندوستان کا قبضہ ہو گیا اور مغرب میں اس کے ہمسایہ بلتستان اب پاکستان کا حصہ ہے۔ سندھ کے ساتھ ساتھ مشرق سے مغرب کی طرف جانے والا صدیوں پرانا راستہ بند چکا ہے۔

خطروں کی وادی

دریائے سندھ کی وادی میں لہہ کے فوراً دریائے سندھ فائر بندی لائین کو غبور کرتا ہوا پاکستان کے علاقہ بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔ پاکستانی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے کارگل کا علاقہ ہے۔ یہاں بھی دریا بنجر اور عمودی کھائیوں میں نیچے کی طرف تیزی سے سفر کرتا ہے۔ تنگ گھاٹیاں کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی وادیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ جن میں تھوڑی بہت کھیتی باڑی نظر آتی ہے۔ بتدریخ دونوں طرف پہاڑ بلند ہوتے ہوئے دریا کے قریب آجاتے ہیں۔ قراقرم کے جنوب میں لداخ کا ڈھلوانی اور تنگ پہاڑی سلسلہ دریا کے دائیں کنارے پر ساتھ چلتا ہے۔ جس کے پار دریائے شیوک سندھ کے متوازی بہتا ہوا ڈیڑھ سو میل کے بعد لداخ کا پہاڑی سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو دریائے سندھ میں آن ملتا ہے۔ بیس میل کے بعد سکردو کے قریب قراقرم کی بلندیوں سے آنے والا ایک اور معاون دریا شگر بھی دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔

شیوک، شگر اور بیسوں چھوٹے چھوٹے دریا اپنی وادیوں میں رہنے والے باشندوں کے لیے بقاء کا سامان مہیا کرنے کے ساتھانہیں خطرات سے بھی دوچار کرتے رہتے ہیں۔ پہاڑی ڈھلانوں میں سے اکثر گلیشر خطرناک جنم لیتے ہیں۔ جو تباہی برپا کرتے رہتے ہیں اور وہ زندگی اور املاک کے لیے المناک حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ پہاڑوں میں کوئی بھی ڈھلوان کھائی اچانک گارے اور چٹانوں کی ایک بڑی اور خوفناک مقدار کو نیچے ڈھکیل دیتی ہے۔ جو پھسلتے ہوئے اپنے راستے کی ہر شے کو ملیا میٹ کردیتی ہے۔ کیوں کہ ان پہاڑوں پر کوئی جھاڑ جھنکار یا گھاس وغیرہ نہیں ہے جو ان کی مٹی کو پکڑسکے اور برف کے پگھلنے کے ساتھ مٹی کے یہ عظیم تودے بغیر کسی انتباہ کہ نرم ہوکر نیچے کی جانب پھسلتے ہیں۔ کبھی کبھی یہاں زلزلے بھی آتے ہیں مگر تباہ کن طوفان یہاں برپا ہونا معمول ہیں۔

دریائے سندھ کی بلند و بالا گھاٹیوں میں واقع گلشیر جو قطبی کے علاقوں کے بعد سب سے بڑے گلیشر شمار ہوتے ہیں۔ جو یہاں کے دریاؤں میں برف کے بڑے ٹکرے شامل کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی گلیشر وادی کے فرش سے پگھل کے آگے آجاتا ہے اور اپنے راستے میں آنے والے دریا کو مہینوں کے لیے روک لیتا ہے۔ بالآآخر جب دریا کا پانی اسے توڑتا ہے تو خدا کی پناہ، یہ سمندر کی عظیم طوفانی لہر کی مانند گرجتا ہوا چلتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ دیہاتوں، فضلوں اور درختوں کو ملیامیٹ صفحہ ہستی مٹا دیتا ہے۔ دریائے شیوک طہت بہت خطرناک ہے۔ اس کے بالائی حصہ میں ایک تنگ گھاٹی میں دو بڑے گلیشر واقع ہیں۔ یہ گلیشر دریا کے آگے بار بار بند باندھ کر اسے روک دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سیکڑوں فٹ چوڑی اور کئی میل لمبی جھیل بن جاتی ہے۔ جب یہ بند ٹوٹتا ہے تو نیچے کی جانب واقع وادی برف کے تودوں سے اٹ جاتی ہے جو مکانوں سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور سالوں میں جاکر پگھلتے ہیں۔ یہاں کے باسی اپنے دیہات پہاڑوں کے پہلوں میں بلندی پر بناتے ہیں۔ تاکہ برف کے روکے گئے پانی کے ان بلند ریلوں کی زرد میں نہ آسکیں۔ جو چند سالوں بعد ایک مرتبہ پھر ان کی وادیوں کو بہا کر لے جاتے ہیں۔

یہاں اکا دکا لکڑی کی کشتی بھی نظر آتی ہیں۔ جو پرانے طرز کی چپتے پیندے اور اونچے کناروں والی کشتی ہوتی ہے۔ لیکن دریا پر سفر کرنے کا روایتی سفر کرنے کا طریقہ جو اب سڑک کی تعمیر کے بعد متروک ہو چکا ہے۔ اس میں بکری کی بہت سی کھالوں کو ہوا بھر کر ایک ساتھ باندھ دیا جاتا تھا اور ان کی ٹانگیں اوپر رکھیں جاتی تھیں۔ ڈنڈوَں کو باندھ کر ایک چوبی جال اوپر باندھ دیا جاتا تھا۔ اس پر بہت سے آدمی ہاتھوں لمبے لمبے ڈنڈے لے کر میں اوپر بیٹھ جاتے تھے۔ اس پر سکردو جانے والی سبزیاں اور پھل لاد دیے جاتے تھے۔ بکریوں کی کھال میں سے ہوا نکلتی رہتی تھی۔ اس لیے ٹانگوں کے ذریعے مسلسل ان میں ہوا بھری جاتی تھی۔ دریا کا بہاوَ بہت تیز ہوتا تھا اور ڈنڈوں اور چپوں کے مدد سے اسے بار بار روکنا پڑتا تھا۔ سفر کے اختتام پر اس میں سے ہوا نکال کر اسے خشکی کے راستے واپس لاتے تھے۔ لکڑیوں کی کشتیوں کو بھی واپسی کے لیے ریتیلے کنارے پر کھنچ کر لے جانا پڑتا تھا۔ سڑکیں تعمیر کے بعد اب یہ سارے کھتراک ختم ہو چکے ہیں۔

سکردو

ترمیم

سکردو کے مقام پر وادی سندھ ایک بیضوی پیالے کی مانند ہے جو سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ بلند بیس میل لمبی اور آٹھ میل چوڑی ہے۔ اس کے چاروں طرف ارغونی، سرخ، بھورے اور بادامی رنگ کے پتھریلے پہاڑ جو سترہ ہزار فٹ بلند ہیں گھیرا دالے ہوئے کھڑے ہیں۔ وادی میں پیلے رنگ کی ریت بچھی ہوئی ہے۔ جس میں سردیوں میں سبز اور گرمیوں میں دھندلائی ہوئی چاندی جیسا مٹیالے رنگ کا دریا سندھ کسی سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا ست خرامی کے ساتھ ہوا کی وجہ سے لہروں کی صورت میں بکھری ہوئی ریت میں بہتا ہوا دریا اپنے راستے میں کھڑی تنہا اور عظیم چٹان کے پاس گزرتا ہے۔ جس پر قلعہ سکندر کھڑا ہوا ہے۔ لاکھوں سالوں سے دریا چٹانوں میں اپنا راستہ بناتے ہوئے اور انھیں کاٹتا ہوا گہرائی میں جاپہنچتا ہے۔ مختلف بلندیوں پر بہتے ہوئے دریا نے اس نے وادی کے کنارے پر کھڑی چٹانوں میں جو کاٹ جھاٹ کی ہے وہ آج بھی مختلف بلندیوں پر کہیں سے آگے جھکی ہوئی اور کہیں چبوترے کی صورت میں پھیلی ہوئی سطحوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دور پیچھے خشک اور پتھریلے پہاڑ اپنی نوکیلی ابھری ہوئی چوٹیوں کے ساتھ آگے پیچھے قطاریں باندھیں آسمان میں دھنس رہے ہیں۔ یہاں ہوا اس قدر صاف و شفاف ہے کہ آنکھیں دھوکا کھاتی ہیں۔ جو چیز بہت نذدیک دکھائی دیتی ہے دور بین سے دیکھیں تو بظاہر چند سو گز دور دریا کی دوسری سمت اگی ہوئی جھاڑیاں کم از کم تین میل دور بڑے بڑے درخت نظر آتے ہیں۔ دوسرے کنارے پر پانی سے کھیلتا ہوا بچہ، دریا میں کشتی اتارتا جوان آدمی نظر آتا ہے۔ ہر جگہ ایسے منظر کو پیش کرتی ہے جو نظر کو جکڑ لیتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی اس قدر بے شمار اور مختلف پہاڑ ایک جگہ پر اکھٹے نظر نہیں آتے ہیں۔ کہیں اتنی زیادہ پہاڑیاں بدلتے مناظر، کہیں بھی اس قدر خوبصورت فضا اور شاندار رنگ نظر نہیں آتے ہیں۔

یہاں ہلکے خاکستری، بھورا خاکستری، نیلگوں خاکستری اور پیلا خاکستری رنگ کے پہاڑوں مظر آ رہے ہوتے ہیں۔ جن پر کہیں کہیں سفید دھاریاں نظر آرہی ہوتی ہیں۔ دریائے سندھ کے گرد پھیلی ہوئی سفید ریت ستاروں کی طرح جھلملا رہی ہوتی ہے۔ یہاں رات کا منظر بھی قابل دید ہوتا ہے۔ اگر دریا کے کنارے کھڑے ہوکر اطراف میں نظر ڈالیں تو گہری تاریخی میں مکانوں کی روشنیاں اس طرح نظر آتی ہیں کہ جیسے ستارے زمین پر اتر آئے ہیں۔ گرمیوں میں جب کہ میدانی علاقوں میں شدید گرمی ہوتی ہے تو یہاں کی بنجر ڈھلانوں پر کوئی سایہ نہیں ہوتا ہے اور چٹانیں دھوپ میں بھٹی کی طرح دھک رہی ہوتی ہیں اور دن کی تکلف دہ گرمی رات کو کاٹ کھانے والی سردی میں بدل جاتی ہے۔

یہاں باشندوں کا قدیم مذہب بدھ مت تھا جس کے نقوش چٹانوں پر ملتے ہیں۔ بعد میں یہ لوگ مسلمان ہو گئے۔ آزادی کے بعد لوگوں نے بغاوت کردی اور پاکستان سے انضمام اور مدد کی درخواست کی۔ پاکستان نے درخواست قبول کرکے فضائی راستے سے اسلحہ ساز و سامان کی ترسیل کا انتظام کیا۔ اگرچہ اس دوران میں بھارت نے بلتستان کے مشرقی حصہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور فائر بندی کی وجہ سے اسے خالی نہیں کرایا جاس کا۔ آزادی بعد اس شہر نے بڑے پیمانے پر ترقی کی ہے۔ جس میں سر فہرست موصلانی نظام کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئیں۔ سکردو سے گلگت تک سڑک تو درکنار راستہ تک نہیں تھا۔ کے ٹو اور قراقرم کی دوسری چوٹیوں اور مقامات کی ٹریکنگ کے لیے جانے والی کوہ پیماہ اور ٹی میں اسی شہر سے ہی جاتی ہیں۔ اب قصبہ نہ رہا اور اس علاقہ کا دوسرا بڑا شہر بن چکا ہے۔

قراقرم اور ہمالیہ کے سائے

ترمیم

سکردو کے نیچے بانست لداخ کے راستہ میں زیادہ خوفناک اور کڑک وادیاں ہیں۔ یہاں سے دریائے سندھ عظیم انشان گھاٹیوں میں سے ہو کر گزرتا ہے اور میلوں تک چھاگ اڑاتے پانی اور آسمان کے درمیان میں عمودی چٹانوں کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا ہے۔ یہاں دریا کے کنارے چٹانوں کے ساتھ ایک پیدل راستہ عمودی چٹانوں میں مکڑی کے جالوں کی طرح پھیلی ہوئی غلام گردشوں سے گزرتا تھا۔ جس میں جابجا اوپر اور نیچے جانے کے لیے لکڑی کی سیڑھیاں لگائی گئیں تھیں۔ کہیں اس میں لکڑی کی کھوٹیاں لگی ہوئی تھیں جنہیں پکڑ پکڑ لوگ سفر کرتے تھے۔ ان راستوں پر بلندی پر جو رسے کے پل ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک بید مجنوں رسے جن کے درمیان میں بید مجنوں کی جھومتی ہوئی باریک رسیاں باندھی جاتی ہیں ان جھومتی ہوئی رسیوں پر دریا پار کرنا ہوتا تھا۔ نیچے تی بہتے دریا کو دیکھ کر سر چکرانے لگتا تھا۔

اب یہاں سڑک تعمیر ہو چکی ہے جو ایک پل کے ذریعہ شاہرہ ریشم سے مل رہی ہے۔ اس سڑک پر ہم قراقرم کی دیواروں کے ساتھ سڑک کے دوسری جانب دریائے سندھ پورے تلاطم سے بہہ رہا ہے اور دریا کے پار ہمالیہ کی عمودی ڈھلانیں ہیں۔ جن پر کہیں کہیں سبزہ نظر آتا ہے۔ اس سڑک کا شمار دنیا کے خطرناک راستوں میں کیا جاتا ہے۔ یہاں ہر وقت لینڈ سالیڈنگ کا ہر خطرہ رہتا ہے اور راستہ کھلا رکھنے کے لیے رات دن کام کرنا پڑتا ہے۔ اس سڑک کی تعمیر ایک بڑا انسانی کانامہ اور عجائبات عالم میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ روڈ کافی چوڑی ہے مگر اسے کوئی اچھی سڑک نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سڑک تعمیر کا شاہکار کہلاتی ہے۔ جب یہ بنا شروع ہوئی تو یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ ایک ماہ میں یہ سڑک کتنی میل بنی بلکہ یہ دیکھا جاتا تھا کہ کتنی فٹ بنی ہے۔ یہ اہم سڑک بننے سے پہلے یہاں کسی قسم کا راستہ نہیں تھا بلکہ دریا کے ساتھ کھڑی چٹانیں تھیں۔ ابتدا میں جب یہ سڑک بنائی گئی تو اتنی چوڑی تھی کہ اس پر بمشکل ایک جیپ چل سکتی تھی یا خچر یا مویشی یا صرف پیدل کے لیے تھی۔ مگر بعد میں اسے چوڑا کر دیا گیا جس پر دو گاڑیاں بیک وقت چل سکتی ہیں۔ اس پر جو معلق پل تعمیر کیے گئے ہیں وہ اگرچہ بہت مظبوط ہیں لیکن جب ان پر گاڑی گزرتی ہے تو پل خوفناک آواز میں چرچراتے ہیں۔ جس سے کمزور لوگوں کا دل دہل جاتا ہے۔ مگر اس سڑک کی بدولت سکردو کا رابطہ پورے سال پاکستان کے دوسرے علاقوں رہتا ہے۔

یہاں کچھ اونچے نیچے کھیت نظر آتے ہیں جن ساتھ کچھ کچے مکانات ہیں۔ ورنہ عجیب وحشناک سفر ہے۔ جس میں پہاڑوں کا جاہ و جلال اور دریا کا جوش و تلاطم نمایاں ہے۔ یہ سڑک دریا کے ساتھ چلتی ہے صرف چند جگہوں پر دور ہو جاتی ہے۔ اس طرح بعض جگہوں پر چند فٹ نیچے بہہ رہا ہوتا ہے اور بعض جگہوں پر یہ دریا سے سیکڑوں فٹ بلند ہوجاتی ہے۔ اس کی چڑھائی بھی بعض جگہوں پر اس کا زاویہ پنتالیس ڈگری سے زیادہ زاویہ ہوجاتا ہے۔ یہ سڑک جب شاہرہ رشم سے ملتی ہے تو سامنے کوہ ہندو کش کا پہاڑی سلسلہ اور پامیر کی بلند سطح مرتفع آجاتی ہے۔ شمال کی جانب جانب قراقرم کی دیوار کے ساتھ دو بلند پہاڑ دیو ہراموش اور راکا پوشی کھڑے ہیں۔ جنوب مشرق میں ہمالیہ میں ناگاہ پربت آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ یہ سڑک اسکردو سے دریائے گلگت جہاں دریائے سندھ سے جنگلوٹ کے قریب ملتا ہے وہاں پر اس شاہراہ ریشم میں مل جاتی ہے جو چین سے گلگت ہوتی ہوئی اسلام آباد جارہی ہے۔

عظیم دیو

ترمیم

یہاں دریائے گلگت سندھ میں دائیں جانب سے آکر ملتا ہے۔ ان کا ملاپ انگریزی حروف y کی طرح ہوتا ہے اور یہاں پر پھیلتے ہوئے بہتے ہیں۔ دریائے سندھ میں دریائے گلگت جس جگہ مل رہا ہے وہ عام جگہ یا مقام نہیں ہے۔ یہ مقام ایسا ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں پائی نہیں جاتی ہے۔ یہاں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہند کش آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کی نگہبانی کر رہے ہیں۔ ان کو دریائے سندھ اور دریائے گلگت آپس میں ملنے سے روک رکھا ہے۔

دریائے سندھ تنگ پہاڑوں کے دامن میں پھنسا ہوا اور طاقت کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ اس کے بہاوَ کو نظر بھر کر دیکھنا بھی ہیبت زدہ کردیتا ہے۔ جنگلوٹ سے کالا باغ کا فاصلہ 300 میل سے کم ہے۔ لیکن مغرب کی جانب سے آگے بڑھتے ہوئے کوہ ہندو کش اور جنوب کی سمت سے ناگاہ بربت کی عظیم دیواروں میں گھری ہوئی اس وادی میں یہ دریا موڑ کاٹتا بل کھاتا اپنا راستہ تلاش کرتا تنگ گھاتی سے گزرتا ہے۔ یہ موڑ کاٹتا ایک وادی سے دوسری وادی میں گرجتا چیختا ہوا یہ دو گناہ فاصلے طہ کرتا ہے۔

گلگت

ترمیم

گلگت ایک قدیم علاقہ ہے عیسیٰ کی پیدائش سے سو سال پہلے یہاں بدھ مت پھیلا۔ چین سے آنے والے بدھ زائرین جو پشاور، کشمیر، ٹیکسلا اور دوسری جگہوں پر زیارتوں پر جاتے تھے وہ یہاں سے گزرتے تھے۔ ڈوگرہ قبضہ سے پہلے یہ درستان کہلاتا تھا اور یہاں گلگت، سی، حصورا، پونیال، نگر، ہنزا، بوانجی، اشکومن، گویچال، بدخشاں، دلیل، تنخیر، گور، تہیلجا، سپالس اور استور کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں تھیں۔ جو آپس میں لڑ لڑ کر اپنی طاقت کھو بیٹھیں تھیں۔ مہارا کشمیر گلاب سنگھ نے1851 نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور انھیں ایک ایک کرکے باج گزار بنا لیا یا ان پر قبضہ کر لیا تھا۔

مگر غلامی کو انھوں نے قبول نہیں کیا اور غلامی کا جوا ان کے لیے سخت بھاری تھا۔ اس لیے یہ علاقہ مستقل شورش زدہ رہا۔ یہاں کے قلعے میں مستقل فوج رکھنی پڑتی تھی۔ مگر یہاں کے عوام پر زیادہ سختیاں کی گئیں تو برطانیہ نے 1877ء میں ایک ایجنسی قائم کی۔ وقت کے ساتھ یہاں انھوں نے نیم فوجی دستے بھرتی کیے۔ جسے گلگت اسکاوٹ کا نام دیا گیا۔ اس کا کام امن و امان قائم کرنا اور ارد گرد کے ہمسایوں سے علاقہ کا دفاع کرنا تھا۔ تقسیم کے وقت یہاں کے ہندو گورنر اور دو برطانوی جونیر آفیسر نے گلگت کے مسلمانوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں کے لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے۔

گلگت گلگت بلتستان کا دارحکومت ہے اور ایک مصروف شہر ہے۔ کیوں کہ یہ شاہرہ رشم پر واقع ہے اور چینی تجارت اسی راستہ سے ہونے کی وجہ سے یہاں کے بہت سے شہری تجارت میں مصروف رہتے ہیں چینی سامان کی خرید و فرخت کے لیے چین سے ان کا رابطہ اور آمد و رفت رہتی ہے۔ اس کے بازار چینی سامان سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ شہر سیاحوں کا خصوصی مرکز ہے۔ اس لیے یہاں بہت سے ہوتل ہیں جن میں غیر ملکی نظر آتے ہیں۔ ان غیر ملکیوں کی ٹی میں کوہ پیما، ٹریکنگ اور مختلف مہم کے لیے روانہ ہوتی ہیں۔ اس سے یہاں کے لوگوں کو روزگار کے زراءع بھی میسر ہیں۔

ہم جب آگے چلتے ہیں ایک اور بڑا دریا دریائے سندھ میں اپنا پانی شامل کر رہا ہوتا ہے۔ یہ دریائے استور ہے جس کا مٹیالہ پانی دور تک نمایاں تک دریائے سندھ میں نمایاں رہتا ہے۔

نانگا پربت

ترمیم

گلگت سے دریا کی طرف جاتے ہوئے کہیں کہیں سے نانگا پربت دکھائی دیتا ہے۔ نانگا پربت کوئی واحد پہاڑ نہیں ہے۔ بلند ہوتی گئی پے در پے پہاڑوں اور عمودی چٹانوں پر مشتمل ایک ایک ایسا دیو ہیکل مٹی اور برف کا تودہ ہے جس کی بلندی چھبیس ہزار چھ سو ساٹھ فٹ کے ساتھ بلند برفانی چوٹیوں پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ یہاں دریائے نانگا پربت کے سائے میں دریائے سندھ بہہ رہا ہے۔

نانگا پربت تک پنچنے کے کئی راستے ہیں اور ہر وہ شخص جو نانگا پربت کو قریب سے قریب دیکھنے کی شدید خواہش رکھتا ہے وہ اپنے حوصلے کے مطابق اس کے قریب سے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نانگا بربت دریائے سندھ سے صرف چودہ میل کے فضائی فاصلے پر ہے۔ یہاں نیچے دریا کے قرب میں شدید گرمی اور نانگا پربت کی بلندیوں پر شدید سردی ہوتی ہے۔

اس علاقے میں دریا نے اس قدر گہری کھائیاں کھودی ہیں کہ یہاں صرف چند گھنٹے دھوپ پہنچ پاتی ہے۔ یہ عظیم بلندیوں اور غاروں جیسی پستی والی سر زمین ہے۔ یہ زیادہ تر بدصورت اور پرہیبت ہے اس کو دیکھ کر دل پر عجیب اثر ہوتا ہے۔ یہ عظیم بدہیبت اور دہشتناک سرزمین۔ اس وادی کی وسعت میں یہاں خاموشی اور تیزی کے ساتھ دریائے سندھ نانگا پربت کے دامن میں ایک عظیم اور پر پیچ کھائی میں موڑ کا ٹتا ہوا گزرتا دریا بظاہر سکون سے بہتا ایک تنگ دریا دکھائی دیتا ہے۔ دریا کے کنارے شمال کے میدانوں کی طرف منہ کریں تو ہمارے سامنے ایک ایسا دلفریب منظر ہوگا۔ جس میں تپتے ہوئے صحرا سے دور برفیلے پہاڑ، سبزہ اور ریت سب بیک وقت نمایاں ہوں گے۔ یہ ایک ایک ایسا دلفریب منظر ہوگا جس کے سحر میں انسان کھوجاتا ہے اور اپنے کو کسی اور دنیا میں گم پاتا ہے۔

یہ علاقہ عرب کے صحرا کی طرح بنجر ہے اور اس کی سطح پر بے شمار سیلابوں کی تباہی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ عمودی چٹانوں اور دیواروں سے گھری ہوئی یہ چٹانوں اور گہری کہائیوں کا ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں شاید انسانی قدم کبھی نہیں پڑے ہیں۔ جہاں سبزہ اور نباتات کے نام سے محروم پتھریلے ملبوں کا ایک ایسا ڈھیر اور ان پر چلنا ایسا ہی کہ جسے چاند کے پہاڑوں میں اکیلے تنہا گھومنا پھرنا۔ بہتے ہوئے دریا کے پاتال میں ہمیشہ ایک سیلاب خاموشی سے بغیر رکے رواں ہے اور جب کوئی بڑا بھنور پیدا ہوتا ہے تو اپنے پورے غیظ و غضب کے ساتھ گہری سرسراہٹ کے پانی کو اوپر پھینکتا ہے۔

یہاں بھی انسان آباد ہیں اور یہاں دریا کی لائی ہوئی مٹی سے جو پہاڑوں کے درمیان میں پچھا دیتی ہے تو وہاں ایک بستی بھی آباد ہوجاتی ہے۔ ان میں کچھ دیہات ایسے ہیں جہاں سردیوں کے پورے چھ ماہ تک سورج نظر نہیں آتا ہے اور بعض دیہاتوں میں گرمیوں میں زمین اس قدر گرم ہوجاتی ہے کہ وہاں کے باشندے نقل مکانی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام دیہات ہر وقت برف اور مٹی کے پھسلتے تودوں اور خطرناک سیلابوں کی ذرد میں رہتے ہیں۔

طوفانوں کی سرزمین

ترمیم

یہ علاقے برف اور مٹی کے پھسلتے ہوئے تودے اور خطرناک سیلابوں کی زرد ہوتے تھے۔ جہاں دریائے گلگت اور اسطور سندھ میں ملتے ہیں۔ یہاں پہلے بہت آبادی تھی اور زراعت پھل پھول رہی تھی۔ 1840ء میں ناگاہ پربت کے دامن میں پہاڑی کا ایک تودہ دریائے سندھ کی گھاٹی میں گر کر دریا پر بند باندھ دیا اور ایک بڑی تیس میل لمبی جھیل وجود میں آگئی جو گلگت شہر تک پہنچ رہی تھی۔ پھر اچانک اس جھیل کا بند ٹوٹ گیا اور میلوں تک زراعت مٹ گئی اور درجنوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ یہاں اگرچہ جانی نقصان کم ہوا کیوں کہ لوگوں نے پہلے ہی احتیاطی تذابیز اختیار کر لیں تھیں۔ یہ سب کچھ یہاں کا معمول ہے۔ مثلاً 1885ء میں ایک مٹی کے تودے نے بند باندھ دیا تھا۔ جب پانی نے اسے توڑا تو تین سو میل نیچے اٹک کے مقام پر ایک دن میں ہی پانی کی سطح 09 فٹ بلند ہو گئی تھی۔ حال ہی میں عطا آباد میں ایک ایسی جھیل وجود میں آگئی۔ یہاں کے دیہات میں رہنے والے مسلسل خطرے میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں نظر رکھنے کا ایک انتظام قائم ہے۔

اس علاقہ میں نو ہزار فٹ اونچے پہاڑ ہیں جو یہاں اس گھاٹیوں کی دیوار بنا رہے۔ ان کی عمودی ڈھلانیں شدید گرمی اور شدید سردی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہی ہیں اور مون سون کے علاقہ میں داخل ہوجانے سے یہ مزید خطرناک بن جاتی ہیں۔ مئی سے اکتوبر تک جنوب مغربی ہوائیں بحیرہ عرب سے اٹھ کر بادل کی صورت میں یہاں اپنا بوجھ اتارتی ہیں۔ جو غضبناک ہواؤں اور برف و بارش میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کی سطح پر بہتا پانی نالے کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور ہر نالہ پانی کا ایک غضبناک دھارا بن کر پہاڑوں کے پہلوں سے مٹی اور چٹانوں کو ایک آبشار کی صورت میں گراتا ہے۔ جب مون سون بادل پہنچتے ہیں تو اگر گلیشیروں سے پگھلنے والا پانی بھی بہہ رہا ہو تو پھر دریائے سندھ میں ہزاروں آبشار بن جاتے ہیں جو اپنا پانی شامل کر رہے ہوتے ہیں۔ جس سے دریائے سندھ بپھر کر اپنے کناروں سے باہر نکل آتا ہے اور اپنے اوپر جھکی ہوئی بلند چٹانوں پہ یہ پانی کی پھواریں برساتا ہے اور کناروں کو اپنے ساتھ بہاتا ہوا لے جاتا ہے۔ جس سے کنارے آباد بستیوں کو دریا کے ساتھ ساتھ اوپر پہاڑوں سے آئے ہوئے پانی کے ریلے تباہی مچاتے ہوئے راہ میں آنے والی ہر چیز کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں اور ایسا ہر چند سال بعد یہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہزاروں سالوں سے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی قسم کا راستہ موجود رہا ہے اگرچہ یہ بہت خطرناک تھا۔ چوتھی صدی عیسویں میں بدھ مقدس مقامات کی زیارات کے لیے آنے والے چینی سیاح فاہیان نے لکھا کہ یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔ جس میں جگہ جگہ خطرناک ڈھلوان چٹانیں اور عمودی پتھریلی دیواریں کھڑی نظر آتی ہیں۔ ان تنگ راستوں پر چلنے ہوئے ہزاروں فٹ بلند پہاڑ کی سمت میں محض ایک پتھر کی دیوار ہے۔ جس کے نیچے بہتے دریا اور گہری کھائیوں پر نظر ڈالتے ہوئے نظر چکرا جاتی ہے اور ان راستوں پر پاؤں جمانے کے لیے کوئی بھی یقینی جگہ نہیں ہے۔ نیچے تیز و تند شور مچاتا بل کھاتا دریائے سنتو ہو (سندھ) بہہ رہا ہے۔ یہاں لوگوں نے ان راستوں سے گزرنے کے لیے ان دیواروں میں سوراخ اور بعض جگہوں سیڑھیاں بچھا رکھی تھیں۔ جن کی تعداد تقریباً سات سو کے قریب ہے اور ان کھٹن راستوں گذرنا پڑتا ہے۔ یہاں ہم نے سیڑھیوں سے گزرنے کے بعد ہم نے رسوں کے لٹکتے پل کے ذریعہ دریا کو غبور کیا۔ فاہیان نے بھی ذکر کیا ہے۔

فاہیان کے اس سفر کے بعد اس خطرناک راستہ کی بجائے صدیوں تک تاجر غلاموں کا کاروبار کرنے کے لیے شمال اور جنوب سمت میں جانے والی دریائے سندھ کی معاون ندیوں کے لمبے لیکن اس کی نسبت آسان راستہ کو استعمال کرتے رہے۔ ان راستوں پر جھاگ اڑاتا مغرب کی سمت بہتا دریائے سندھ ہی ایک ایسی رکاوٹ تھی جسے غبور کرنا ہوتا تھا۔

شاہراہ ریشم

ترمیم

اس علاقہ میں برطانیہ نے ایک معلق پل تعمیر کیا تھا۔ تقسیم ہند کے پاکستان کے لیے شمالی علاقوں سے زمینی رابطہ قائم کرنا اہم مسلہ تھا اور اس راستہ کی تعمیر اہمیت کی حامل تھی۔ اس لیے یہاں ایک سڑک کی تعمیر کرنے پر سنجیدیگی سے سوچا گیا اور یہاں ایک سڑک کی تعمیر کا آغٓاذ ہوا اور1968ء تک ایک کچی اور پتلی سی سڑک تعمیر ہو چکی تھی۔ یہ سڑک کچی ہونے کے باوجود انجینئری کا ایک عظیم انشان کارنامہ سمجھی جاتی تھی۔ اب یہ تنگ اور پتلی سڑک اب وسیع اور پکی ہو چکی ہے اور شاہراہ رشم کہلاتی ہے۔ جو چین علاقے سنکیانگ سے شروع ہوتی ہے اور گلگت سے ہوتی ہوئی جہاں اس سے کچھ فاصلہ اسکردو سے آنے والی شاہراہ اس سے مل جاتی اور ناگاہ پربت سے پہلے جہاں دریائے استور درہائے سندھ میں ملتا ہے ایک سڑک استور سے آکر ملتی ہے۔ اس طرح پورے گلگت بلستان کا رابطہ اس سڑک کے ذریعے پورے پاکستان سے قائم ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور اہم سڑکیں اس شاہراہ سے ملتی ہیں، جس میں خیبر پختون خواہ جانے والی کئی سڑکیں شامل ہیں۔

اس سڑک کی تعمیر میں بڑی رکاوٹ چٹانیں عمودی تھیں۔ ان چٹانوں میں بریکٹ بنا کر باہر کو نکلا ہوا راستہ تعمیر کیا گیا۔ اکثر جگہوں پر راستہ بنانے کے لیے چٹانوں کو ڈائنامٹ سے اڑانا پڑا۔ اس سڑک پر آنے والا خرچ شمار سے باہر ہے۔ یہ گلگت سے ہوتی ہوئی درہ خنجر آپ پر چین سے ملتی ہے۔ اس طرح یہ قدیم تجارتی راستہ چین اور وسط ایشیا کے ساتھ جو خطرناک ترین تھا اب محفوظ سفر کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس سڑک کی تعمیر سے اس علاقہ ترقی اور سیاحت و تجارت میں نمایاں ترقی ہوئی۔ قدیم آبادیوں نے ترقی اور دریا کے کنارے کنارے بہت سی نئی آبادیاں وجود میں آگئی ہیں۔

یہ سڑک جب ناگاہ پربت سے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ گزرتی۔ وہ راستہ خود ارضی عجائب خانہ ہے۔ دریا کے ایک طرف سڑک چل رہی ہے اور دوسرے جانب بلند و بالا پہاڑ استعادہ ہیں۔ ان پہاڑوں میں جگہ جگہ گھاٹیاں ہیں۔ جہاں سے پانی کے سفید دھارے شور مچاتے ہوئے تیزی سے دریا میں اپنا پانی شامل کرتے رہتے ہیں۔ اس سڑک پر کئی جگہ قدرت کے عجیب عجوبے ہیں۔ جہاں دریا نے ان پہاڑوں کو اس صفائی سے کاٹا ہے کہ انھیں دیکھ کر لگتا ہے کسی نے کیک کو تیز چھری سے کاٹا ہے اور اس کیک میں مختلف رنگ کی تہ ہوں۔ یہ مختلف رنگوں میں سفید، سیاہ، بھورے اور کھتئی رنگ کی سیدھی دھاریوں کی صورت میں ان پہاڑوں میں نظر آتی ہیں۔ دریا کی جانب کے پہاڑ ایک دیوار کی نظر آتے جس کہیں کیں کوئی راستہ ہے۔ ورنہ بس کھڑی دیوار ساتھ چل رہی ہے۔ جس میں کہیں پہاڑ پھٹ جاتا ہے اور کوئی پانی کا چشمہ شور مچاتا ہوا دریائے سندھ کے پانیوں میں اپنا پانی شامل کر رہا ہوتا ہے۔ ٹھاکوٹ کے مقام پر دریائے سندھ کو یہ خدا حافظ کہہ کر مانسرہ اور ٹیکسلا میں یہ جی ٹی روڈ سے مل کر اسلام آباد پہنچ جاتی ہے۔

پہلی لگام

ترمیم

تھاکوٹ سے شاہراہ ریشم دریائے سندھ کو پار کرکے ہزارہ کے علاقہ میں داخل ہوجاتی ہے۔ مگر دریا اب جس علاقہ سے گذر تا ہے وہ دنیا سے کٹا ہوا علاقہ تھا۔ جس کے بارے میں بہت کم معلو مات تھیں۔ یہاں کہیں کہیں اکا دکا گاؤں ان پہاڑوں کی گھاٹیوں میں نظر آتے تھے اور جہاں زمین ہمواتر ہوتی تھی وہاں اکا دکا کھیت بھی نظر آتے تھے۔ جہاں تھوڑے بہت درختت یا سبزہ نظر آتا تھا۔ ورنہ چاروں طرف بھورے پہاڑ پھیلے ہوئے تھے۔ نیچے پاتال میں بے قابو دریا پوری روانی اور طاقت کے ساتھ بہتا ہوا ماضی کے لامتناہی زمانوں سے چلا جارہا تھا اور اس کے علاقہ میں صدیوں سے بہت کم تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا اسے کوئی طاقت تبدیل نہیں کرسکتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہاں اس قدر تبدیلیاں واقع ہوئیں اور اب یہ علاقہ بہت بدل چکا ہے۔

شمال کی جانب تھوڑے فاصلے پر بائیں کنارے پر ایک چھوتا سا گاؤں تربیلا واقع ہے۔ یہ ریت اور چٹانوں پر مشتمل وسیع ہوا دار علاقہ ہے۔ جس میں مون سون کی بارشوں نے بے شمار گھاٹیاں، کھائیاں اور نالے کھود رکھے ہیں۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی ایک ہزار سے دو ہزار فٹ بلند ہے۔ جہاں سے شمال کی جانب بلند و بالا پہاڑ نظر آتے ہیں۔ مشرق کی جانب یہ سطح مرتفع سندھ گنگا کے میدانوں تک چلی گئی ہے جو کلکتہ تک چلی گئی ہے اور مغرب کی جانب کابل کی وادی میں افغانستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کی زمین سرخی مائل بھوری اور پیلے رنگ کی ہے جس میں جابجا جنگلی گھاس اور جھاڑی دار درخت نظر آتے ہیں۔ یہ علاقہ برائے راست دھوپ اور ہواؤں کی زرد میں ہے۔ یہاں پہنچ کر دریائے سندھ پھیل جاتا تھا۔

تربیلا کے سامنے دریا کے درمیان میں ایک جزیرہ تھا۔ یہ جزیرہ دونوں اطراف سے کشتیوں کے پلوں سے جڑا ہوا تھا۔ یہ پل تنگ اور بھاری و بھرکم کشتیوں کو ایک قطار میں کھڑا کرکے باندھا کر ہر کشتی کو بہاوَ کے خلاف نیچے وزنی پتھروں سے باندھ کر ان پر لکڑی کے تختے رکھ کر مٹی اور گھاس ڈال دی جاتی تھی۔

تقسیم کے وقت زیریں سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر انگریزوں کا تشکیل دیا ہوا آبپاشی کا نظام دو حصوں بٹ چکا تھا۔ پاکستان کو پانی کے حوالے سے بھارت کی بالادستی کا سامنا تھا اور اس کے تمام دریا بھارت کے زیر کنٹرول علاقہ سے گذر کر پاکستان آتے تھے۔ بھارت کا پانی روکنے کی وجہ خشک سالی کا سامنا تھا۔ اس لیے یہ طہ کیا گیا سندھ دریا پر بند باندھ کر اس کے پانی کا ذخیرہ کر لیا جائے تو پانی کا مسلہ بہت حد تک حل ہوجائے گا۔

اس بند کے لیے سکردو کی وادی، بھاشاہ پر بھی غور کیا گیا۔ آخر کار چودہ سال تک اس مسلہ کا بغور جائزہ لینے کے بعد جیالوجسٹ، ہائیڈرولوجست اور اکانومسٹ اس نتیجے پر پہنچے کہ بہاوَ کی سمت میں آخری بلند پہاڑیوں کے فوراً موزوں جگہ تربیلہ ہے۔ یہ اسلام آباد سے صرف چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ بہاوَ کی جانب زیریں علاقہ جات کی نسبت اوپر کی گھاٹیوں کو بھر کر جھیل بنانا زیادہ موزوں ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح کم سے کم زرعی زمین زیر آب ہوگی۔

اس ڈیم کی تعمیر کا مطلب تھا کرہ ارض کے اس حصہ کی ساخت کو تبدیل کرنا تھا۔ ڈیم کا پشتہ تیار کرنے کے لیے نہر پانامہ کے لیے خاکنائے پانامہ سے کھودی گئی مٹی کی مقدار کی دو تہائی مٹی کی درکار تھی۔ یہ پشتہ تقریباً دو میل لمبا اور دریا کی گذر گاہ سے 500 فٹ بلند کرنا تھا۔ اس کے لیے 186 ملین مٹی اور چٹانیں درکار تھیں۔ جس میں سے تقریباً آدھی مٹی سرنگوں اور پانی بہنے کے راستوں کی کھودائی سے حاصل ہونی تھی اور باقی ماندہ اور جگہوں سے کھود کر لانی تھی۔ تین ملین کیوبک گز کنکریٹ کی ضرورت تھی۔ ڈیم کے اوپر دریائے سندھ نے پچاس میل پیچھے تک جہاں اس کی گھاٹی کی چورائی سو گز سے کم ہے جھیل کی صورت اختیار کرتے ہوئے گیارہ ملین پانی کا ذخیرہ کرنا تھا۔ سیلاب کے موسم میں یا جب مون سون بارش کی وجہ سے جھیل کی سطح بلند ہوجائے یا بالائی علاقہ میں کسی گلیشر کے ٹوٹنے سے پانی میں اچانک اضافہ ہوجانے کی صورت میں ذیلی آبی راستے کے اضافی پانی کو ڈیم کے نیچے روایتی گزرگاہ میں پھینک دیں گے۔

تربیلا ڈیم ایک کثیر المقاصد ڈیم ہے جو منگلا بند سے دو گنا، اسوان ڈیم مصر سے تین گنا اور دنیا میں مٹی کی بھرائی کا سب سے بڑا بند ہے۔ اس کے لیے بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک سے فنی و مالی تعاون کی اپیل کی گئی۔ 1967ء میں عالمی بینک نے اس ڈیم کی تعمیر کی منظوری دے دی۔ 1968ء میں تربیلا ترقیاتی فنڈ قائم کیا گیا۔ جس کے لیے عطیات کے علاوہ فرانس، اٹلی، برطانیہ، کینڈا اور عالمی بینک نے قرضے بھی منظور کیے۔ اسی سال تین اطالوی اور تین فرانسیسی کمپنیوں پر مشتمل ایک کنسورشیم تربیلا جائنٹ و نیچر کو بند کی تعمیر کا ٹھیکا دیا گیا۔ 1969ء میں کنسورشیم میں جرمنی اور سوءٹزرلینڈ کی سات کمپنیوں کا گروپ بھی شامل ہو گیا۔ نومبر 1971ء میں یہ بند پایہَ تکمیل کو پہنچا اور 1977ء میں اس نے کام شروع کر دیا تھا۔ تاہم اس کو مکمل تکمیل 1984ء میں ہوئی اور اس کی لاگت 149 بلین ڈالر تھی۔

وادی گندھار

ترمیم

تربیلا سے چل کر دریائے سندھ وادی گندھارا میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں دریائے کابل اس میں گرتا ہے۔ کسی زمانے میں یہ علاقہ جنگلوں سے ڈھکا دلدلی علاقہ تھا۔ جہاں ہاتھی، گینڈے اور شیر بھی پائے جاتے تھے۔ یہاں چار لاکھ سال پرانے ہتھیار اور قدیم جانورں کے نجعرات ملے ہیں۔ جنہیں یہاں کی قدیم پتھریلی عمارتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ خاص کر وادی سون کا علاقہ ان فاصلز سے بھرا ہوا ہے۔ دریا کہ مشرقی کنارے پر نمک کی کانیں ہیں جس میں قدیم زمانے سے نمک مسلسل نکل رہا ہے۔

تربیلہ سے اوپر دریا کے دائیں کنارے پر ایک وسیع علاقہ پر پٹھان آباد ہیں۔ یہاں کا بیشتر علاقہ بیابان اور اجاڑ چٹانوں پر مشتمل ہے۔ جس میں بلند عمودی چٹانوں میں بل کھائی ہوئی جھکی ہوئی چوٹیاں ہیں۔ یہ علاقہ رہزنوں اور قزاقوں کے لیے ایک موزوں علاقہ ہے۔ یہاں قبائلی باشندے عقابوں کی طرح ان چوٹیوں بیٹھ کر کسی بھی فوجی قافلے کا راستہ روک سکتے ہیں۔ انھوں نے باہر سے حملہ آور ہونے والے بڑے بڑے فوجی دستوں کو یہاں بے بس کر رکھا تھا۔ برطانیہ نے 1858ء تا 1881ء کے دوران میں تیس تازیبی کارروائیاں کیں۔ جن کا مقصد اس علاقہ پر اپنی بالادستی قائم کرنا مگر انھیں کبھی مکمل کامیابی ہوئی۔سطح مرتفع پوٹھوار میں پہاڑ دریا سے کچھ دور ہٹ جاتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں کئی درے واقع ہیں اور انھیں دروں میں ہندوکش کے پار سے حملہ آور برصغیر آتے رہے ہیں۔ یہاں جھاگ اڑاتے ہوئے برساتی نالے، جھلسانے والی دھوپ، سرخ چٹانوں پر جابجا جڑی بوٹیاں اگتی ہیں۔ یہاں مغرب کی جانب ے سے دریائے کابل ملتا ہے اور وادی پشاور کو جنم دیتا ہے۔ یہ دریا سندھ میں اپنا پانی بھوری رنگت کا پانی ڈالتا ہے جو کافی دور تک علحیدہ علحیدہ بہتے ہیں اور پھر ایک دوسرے میں مل جاتے ہیں۔ اس دریا سے کچھ دور پشاور کا شہر ہے جہاں قدیم زمانے سے وسط ایشیا سے تجارتی قافلے آتے تھے۔ یہ سیلابوں کی سرزمین رہی ہے یہاں سیلاب آتے رہے ہیں۔ جب بالائی وادی میں کوئی پہاڑی پھسل دریا کا راستہ روکتی تھی اور اچانک دریا کا پانی اپنا راستہ بناتا تھا تو یہاں شدید سیلاب آجاتا تھا۔ 1841ء کی گرمیوں میں دریا کے قریب سکھ فوجیوں کا ایک دستہ ٹہرا ہوا تھا۔ اچانک دوپہر کے وقت پانی کا زبردست ریلا آیا اور پانسو سپاہیوں کو اس طرح بہا کر لے گیا جیسے کسی نے چونٹیوں کو جھاڑو سے صاف کر دیا ہو۔

یہاں ٹیکسلا آباد ہے۔ گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلہ کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی۔ ٹیکسلہ میں ایک عظیم یونیورسٹی اور بہت سے قدیم آثار ہیں اور ان آثاروں کو گندھارا کی گورستانی تہذیب کا نام دیا گیا ہے۔ یہیں سکندنے 327 ق م اوہنڈ کے مقام پر دریائے سندھ کو غبور کیا تھا۔ یہی راستہ جس پر سے وسط ایشیا کہ حملہ آور برصغیر اختیار کرتے تھے۔ اسی راستہ سے غوری اور ترک آئے تھے۔ منگولوں کے حملوں سے بچ کر شہزادہ جلال الدین خوارزم شاہ یہیں ایک بلند چٹان سے جھلانگ لگا فرار ہوا تھا۔ جس پر چنگیز خان نے اسے خراج تحسین پیش کیا تھا۔ جب مغلوں کو زوال نصیب ہوا تو نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی اسی راستہ سے برصغیر حملہ آور ہوئے۔ احمد شاہ ابدالی نے دریائے سندھ کی مغربی کنارے کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ جسے ڈیونڈ لائین کے تحت اس علاقہ کو برصغیر میں دوبارہ شامل کیا۔ احمد شاہ ابدالی نے پنجاب کو حکمران رنجیت سنگھ کو بنا دیا۔ جس نے اپنے مملکت کو وسیع کرتے ہوئے دریا کے مغربی جانب پشاور اور ڈیرہ تک کے علاقہ پر قبضہ کرکے ایک آزاد سکھ حکومت کی بنیاد رکھی جو اس کی موت کے ساتھ ہی مٹ ہو گئی۔ جب سکھوں نے انگریزوں سے شکست کھائی تو انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی اور تقسیم کے بعد یہ علاقہ پاکستان کا حصہ بنا۔ دریا کہ مغربی کنارے کی واپسی کے لیے اکثر افغانستان آواز اٹھاتا رہے ہے۔ مگر اس علاقے کے باشندوں نے اسی کبھی اہمیت دی۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں ان کا مستقبل وادی سندھ کے باشندووں کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہاں دریائے سندھ کے کنارے اٹک کا شہر آباد ہے۔

پشاور کے مشرق میں بالائی میدانوں میں دریائے سندھ پھیل کر اتھلا بہتا ہے۔ اس مقام سے فوراً بعد جہاں دریائے کابل کا اپنا گاڑھا سرخی مائل بھورا پانی مٹیالے رنگ کے سندھ کے پانی میں ڈالتا ہے۔ تھوڑا نیچے جاکر اٹک کے چھوٹے شہر کے پاس سطح مرتفع ختم ہوجاتی ہے اور دریائے سندھ کو ایک مرتبہ پھر سمٹ کر پتھریلی پہاڑیوں کے سلسلے میں ہوکر تنگ راستے میں سے گزرتا ہے۔ اس جگہ جہاں کہ ڈھلوان گھاٹی 200 گز چوڑی ہے۔ یہاں دریا مٹیالا پانی سرخ بھورے پانی کے ساتھ گھل کر مل کر ایک تیز دھارے کی صورت میں بہتا ہے۔ سردیوں میں قدرے سکون کے ساتھ اور گرمیوں میں جب بلند پہاڑیوں پر گلیشر کے بند دروازے کھل جاتے ہیں تو دریا کی سطح میں پچاس فٹ کا اضافہ ہوجاتا ہے تو یہ کسی منہ زور گھوڑے کی طرح گرجتا ہوا چھنٹے اڑتا ہوا، چکر لگاتا ہوا، جھاگ بناتا ہوا، سبزی مائل مٹیالے بھنور پیدا کرتا ہوا اور پہاڑیوں کو کاٹتا ہوا گذر رہا ہوتا ہے۔ یہاں اس کا سفر کا منظر اتنا اثر انگیز ہوتا ہے کہ مقامی لوگ اسے ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔

پہلے یہاں سے دریائے سندھ کو کشیوں کے پل کے ذریعے پار کیا جاتا تھا۔ یہاں بڑے بڑے کالے پتھروں کو ٹکراتی ہوئی لہریں انھیں ٹکروں میں توڑ دیتی ہیں۔ لہروں کی تیزی کی وجہ سے کشتیاں بڑی تیزی سے تیرتی ہوئی پلک چھپکتے ہی دوسرے کناروں پر جالگتی ہیں۔ اس گھاٹ پر کشتیاں اکثر ٹکرا کر پاش پاش بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ خاص کر دو ان دو بڑی بڑی چٹانوں سے جو دائیں کنارے پر واقع ہیں۔ ان چٹانوں کے نام دو کافروں کمالہ اور جلالہ کے نام سے منسوب ہیں۔ جن کو مقامی لوگوں کی روایت کے مطابق اکبر نے یہاں پھکوایا تھا۔ اٹک سے پار دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر ایک چٹان پر برطانیوی رجمٹوں کے نشان کندہ ہیں جو اس علاقہ میں سالا سال جنگوں میں مصروف رہیں ہیں۔ اٹک کے مقام پر اکبر کے بنائے ہوئے قلعہ نے دو سو سال تک اپنا تسلط قائم رکھا۔ لیکن انیسویں صدی کی ابتدا میں سکھوں نے دریا کی دوسری جانب ایک دوسرا قلعہ خیر آباد کے نام سے تعمیر کیا جس کی باقیات اب بھی اکا دکا ہی نظر آتی ہیں۔ یہ دونوں قلعہ آمنے سامنے کھڑے تھے۔ سردیوں میں کشتیوں کا ایک پل دونوں کو ملاتا تھا اور گرمیوں میں جب دریا طغیانی پر ہوتا تھا تو اسے ہٹانا پڑتا تھا۔ اٹک پر دریا کے لیے پل کے لیے بہاوَ کی سمت 24کشتیاں کافی ہوتی تھیں۔ مگر اوپر کی جانب کم از کم 36کشتیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ پل جون سے ستمبر کے درمیان میں کی طغیانی کو براشت نہیں کرسکتا تھا اور ہر دفعہ نیا پل بنانا پڑتا تھا۔

1886ء میں برطانیویوں نے یہاں ایک مستقل پل تعمیر کر دیا۔ یہ پانی سطح سے سو فٹ بلند ہے تاکہ بالائی علاقوں میں کوئی گلیشر یا مٹی کا تودہ پھسلنے کی صورت میں پانی کے دباوَ سے تو اس پل کو نقصان نہیں پہنچے۔ اگرچہ کئی دفعہ یہ پل ڈوبتے ہوئے بچا ہے۔ تربیلا ڈیم کی تعمیر سے یہ یہ خطرہ کم چکا ہے۔ اس پل کے اوپر سے ریل گزرتی ہے اور نیچے سے سڑک گزرتی ہے۔ اس پل کے بننے کے بعد کشتوں کے گھاٹ کی ضرورت نہیں رہی۔ اس پل کے ایک طرف اکبری قلعہ کھڑا مغلوں کی دلولہ انگیزی کی داستان سنا رہا ہے اور دوسری جانب سکھوں کا تباہ شدہ قلعہ کے کھنڈات اپنی تباہی پر نوحہ خواں ہے۔

وادی سون

ترمیم

اٹک اور کالا باغ کے درمیان میں تقریباً سو میل نیچے دریائے سندھ ایک گہری خندق کی تہ میں بہتا ہوا ایک ایسے پتھریلے علاقے سے گزرتا ہے۔ یہ علاقہ اکثر بنجر ہیں لیکن کئی جگہوں پر سرسبزہ نظر آتا ہے۔ مغربی کنارے پر تراہ کی پہاڑیاں جو افغانستان کی بلندیوں سے نیچے اتر رہی ہیں اور زمین پتھریلی ہے۔ یہاں بہار میں سرسوں کے چھوٹے چھوٹے کھیت اور کئی جگہوں پر زمین ہموار ہے۔ لیکن یہاں سخت چٹانیں سر نکالے بھی نظر آتی ہیں۔ مشرقی کنارے پر دور تک پہاڑیوں کا سلسہ پھیلا ہوا ہے۔۔ ماہرین آثار قدیمہ نے یہاں ایک قبل از تاریخ شہر کے آثار دریافت کیے ہیں۔

وادی کابل کے مقابلے میں یہاں آبادی کم ہے اور یہاں دریا کے کنارے گھاٹ اور کشتیاں بھی نظر آتی تھیں۔ یہاں بلند عمارتیں، سٹوپے یا مندروں کے کھنڈر بھی نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی دریائے سندھ اپنے منبع سے ہزاروں میل دور میدانی علاقے میں اکثر بپھر جاتا ہے۔ یہاں اٹک سے نیچے تنگ وادیوں میں دریا بلند اور عمودی چٹانوں میں پھنسا ہوا بہتا ہے اور اس کی تہ میں بے شمار نوکیلی چٹانیں ابھری ہوئی ہوتی ہیں اور کئی مقامات پر اس کی گہرائی تیس فیدم سے زیادہ ہوتی ہے۔ بعض جگہوں پر اچانک ڈیڑھ دو سو فٹ نیچے جاگرتا ہے اور اکثر اوقات دریا پتھریلے راستے سے گزرتا ہے اور یہاں دریا میں بھنور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ جن کی زرد میں آکر اکثر سامان بردار کشتیاں الٹ جاتی تھیں۔ ان تمام خطروں کے باوجود سیکڑوں سالوں سے یہ دریا اٹک سے نیچے کے لیے تجارتی سامان کی ترسیل کا یک طرفہ ذریعہ صدیوں سے تھا۔

دریا کے کنارے خوش حال گڑھ اور اس کے مغرب میں کوہاٹ واقع ہے۔ یہاں انگریزوں کے دور سے فوج کی ایک بڑی چھاءونی تھی۔ جہاں اب پاکستانی فوج تعینات ہے۔ یہاں پہلے ایک کشتیوں کا پل تھا۔ برطانیہ نے یہاں ایک پل تعمیر کرایا۔ یہاں 1907ء ریل اور سڑک کی مستقل آمد و رفت کے لیے ایک نیا پل بنادیا گیا۔ یہاں دریائے سون اس ملتا ہے۔ یہاں ماقبل تاریح حجری زمانے کے پتھر کے اوزار کثرت سے ملے ہیں۔ اس کی چوڑائی سے لگتا ہے کہ یہ اس وادی کا کبھی سب سے بڑا دریا تھا۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ ہمالیہ اور قراقرم کے اوپر آنے یا ابھرنے کے دوران میں کسی ایک مرحلے پر پانی کو جو مغرب کی دھکیلا گیا تھا۔ اس پانی نے نکلنے کے یہ راستہ بنایا تھا۔ آج سون ایک چھوٹی سی ندی ہے۔ بارشیں ہوں تو اس کے پانی کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو جاتا ہے اورا دریائے سندھ کے پانی کو دور تک سرخ کردیتا ہے۔ دریا کے راستے میں دس میل نیچے کی جانب بارشوں کے پانی سے کٹی پھٹی سلسلہ کوہ نمک کی کالے اور بھورے رنگ کی شمالی ڈھلانیں کھڑی ہیں۔ یہ راستہ اس قدر دھلوان اور سلوٹوں سے پر ہے کہ اس میں سے راستہ بناکر گزنا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ یہاں دریائے سندھ اپنی پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے کہ اس کے راستہ میں کوئی چیز زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کرسکتی ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں کالا باغ ڈیم بنانے کی تجویز ہے۔ اگرچہ یہ مقام ڈیم بنے کے لیے آئیڈیل جگہ ہے۔ لیکن اسے اس لیے تعمیر نہیں کیا جاس کا کہ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبے تیار نہیں ہیں۔ یہاں پر ڈیم کی تعمیر کے عالمی بنک اور بین اقوامی مالیاتی اداروں نے تربیلا سے بھی پہلے اس مقام ڈیم کی تجویز پیش کی تھی اور بارہا اس تجویز کو دوہرایا گیا ہے۔ اگرچہ کئی حکومتوں نے یہاں ڈیم کی تعمیر کی کوشش بھی کی ہے اور کچھ کام بھی ہوا ہے۔ مگر پنجاب کے صوبے کے علاوہ خیبر پختون خواہ اور سندھ نے شدید مخالفت کی اور اس کی تعمیر کو روکنا پڑا۔ یہاں دریا کے قریب تعمیرانی مشنری اور دوسرا سامان بکھرا ہوا۔ جو اس ڈیم کی تعمیر کی ابتدائی کوششوں کے لیے لایا گیا تھا اور اب استعمال نہ ہونے کی وجہ سے پڑا زنگ کھا رہا ہے۔

جنوب میں کوہستان نمک کی سرخ اور ارغونی رنگ کی چٹانیں کھڑی ہیں اور یہاں سے دریائے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں مغربی کنارے پر کالا باغ اور مشرقی کنارے پر ماڑی انڈس آباد ہیں۔ اس سے آگے چند سو گز کے بعد ایک میل چوڑا اور ایک میل کے بعد اس کا پاٹ دس میل تک پھیل جاتا ہے۔ یہاں دریا میں کئی جزیرے ہیں اور ان میں مویشیوں کی چراگاہیں اور زراعت ہوتی ہے اور چھوٹے چھوٹے کئی گاؤں بھی آباد ہیں۔ سیلابوں میں یہاں کے لوگ لوگ نقل مکانی کرجاتے ہیں۔ یہاں نرسلوں دور دور تک جنگل نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ دریا جب چڑھتا ہے تو ان جزیرے غائب ہوجاتے ہیں اور جب پانی کا دھارے کا رخ بدلتا ہے تو نئے جزیرے نظر آتے ہیں اور پرانی زمینیں دریا برد ہوتی رہتی ہیں۔

یہاں کرومیم، کوئلے اور چپسم کی کانیں بھی ہیں۔ مگر سب سے اہم معدنیات نمک کی چٹانیں ہیں۔ بعض جگہوں پر یہاں پہاڑیاں ٹھوس نمک کی اور شفاف، سخت اور سرخ رگوں والی ہیں۔ یہاں پیلے ریگستانی بیابانوں جن میں کہیں سفید نمک کی چتکبریاں بکھری ہوئی ہیں۔ جس میں کانٹے دار جھاڑیاں فاصلوں پر کھڑی نظر آتی ہیں۔ دریا کے مغربی کنارے پر صحرا میں تیز آندھیاں چلتی رہتی ہیں۔

کالا باغ سے تیس میل نیچے دائیں کنارے پر آخری قابل ذکر معاون دریا کرم اس میں آکر ملتا ہے۔ یہ افغان سرحد کے عظیم پہاڑوں سے نکل کر آتا ہے۔ اس راستے سے وحشیوں اور جنگجووَں کے جتھے قدیم دور میں مسلسل ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ جو ہر مرتبہ اجنبی نئے لیکن اپنے پیشرووَں کی طرح ظالم ہوتے تھے۔ انگریزوں آمد کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔

دریائے سندھ کے مشرقی کتارے پر میاں والی واقع ہے۔ یہ ایک قدیم مقام ہے اور اس نے بہت سے نام بدلے ہیں۔ ایک چھوٹا سا قصبہ اب ایک بڑا اہم شہر بن گیا ہے۔ یہ علاقہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب کی ثقافت کا سنگم ہے۔ یہاں اگر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوئی شخص ڈھیلی دھالی شوار اور قمیض پہنے ہوئے ہو تو پٹھان ہے اور وہی شخص جب دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر دھوتی باندھ لیتا ہے پنجابی کہلاتا۔

سیلابوں کی سرزمین

ترمیم

یہ سیلابوں کی سرزمین ہے جہاں بہت سے قدیم آثار ملتے ہیں یہیں آریاؤں کا مقدس وید لکھا گیا اور انہی میدانوں میں آریاؤں کی مشہور دس راجاؤں کی جنگ ہوئی تھی۔ سکندر کے سلار سلوکس کو 305 ق م میں چندر گپت موریہ نے اسے انہی میدانوں میں شرمناک شکست دی اور نہ صرف ہندی مقبوضات سے بلکہ کابل، قندھار، ہرات اور بلوچستان سے بھی دستبردار ہو گیا اور بیٹی کی شادی چندر گپت سے کردی۔ چندر گپت نے اسے پانسو ہاتھیوں کا تحفہ بھیجا۔

میاں والی کے قریب یہیں جناح اور چشمہ پیراج بھی واقع ہیں۔ کالا باغ کے نیچے دریائے سندھ کی دونوں جانب ریت پھیلی ہوئی ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے آخری معاون پنجند کے درمیان میں کی نوک مغرب کی جانب ہے ساگر دو آبہ کہا جاتا ہے چلی گئی ہے۔ یہاں ریت بھورے رنگ کی ہے اور پانی کھارا ہے۔

یہاں دریا پھیل جاتا ہے اور یہ انسانوں جانوروں اور فضلوں کو پانی کی صورت میں زندگی عطا کرتا ہے تو وہیں انھیں تباہ کن طغیانی کی صورت میں موت اور تباہی بھی باٹتا ہے۔ یہ کالا باغ کے بعد دیڑوں کے علاقہ تک مسلسل سیلاب کی صورت میں بہتا ہے۔ سردیوں میں یہ تنگ دھاروں کی بھول بھلیوں کی صورت میں بہتا ہے۔ جس میں جابجا چھوٹے چھوٹے ریت کے جزیرے سر اٹھائے نظر آتے ہیں اور سیلاب کے زمانے اس کی وسعت اتنی ہوجاتی ہے کہ ایک کنارے پر کھڑے ہونے والے کو دوسرا کنارا نظر نہیں آتا ہے اور ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اسے بنانے کے لیے دس ہزار ندیاں لپکتی ہوئی نیچے آکر اسے پانی مہیا کرتی ہیں۔

ڈیرے کے علاقے میں رتیلے میدان صرف ریت کے رنگ کے نہیں ہیں۔ یہ پیلے، بھورے اور سرخی مائل اور بعض جگہوں پر برف کی طرح سفید ہیں۔ اس علاقہ میں جہاں کبھی دور تک ریت کے میدان پھیلے ہوئے تھے اور ہر جگہ جانور ہی جانور نظر آتے تھے۔ اب یہاں کا منظر نامہ بہت بدل چکا ہے۔ وقت کے ساتھ ترقی نے یہاں بھی تبدیلی نے قدم جما لیے ہیں۔ یہاں کے چھوٹے قصبہ پھیل کر شہر بنتے جا رہے۔ یہاں کبھی خرگوش، لومڑیاں، تیتر، پہاڑوں پر اڑیال، چرخ اور چیتے بھی پانئے جاتے تھے۔ دریا میں چھوٹے گھڑیال، اودبلاوَ بھی ملتے تھے۔ یہاں کے صحراؤں میں طوطے، الو، بٹیر، تلور، گدھ، کالا تیتر، فاختہ، کبوتر اور بہت سے پرندے جانور عام تھے۔ پہلے جب دریاؤں میں پانی آتا تھا اور یہ پانی پھیل کر نشیبی علاقوں کو بھر دیا تھا تو ان میں مرغابی، سارس، بگلے اور دوسرے بہت سے آبی پرندے جمع ہوجاتے تھے۔ مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور اندھا دھند شکار نے ان کا بالکل خاتمہ کر دیا ہے۔ ورنہ پہلے جب کھیتوں کو پانی دیا جاتا تو مختلف پرندے کیڑے مکوڑے کھانے کے لیے جمع ہوجاتے تھے اور مختلف پرندے ان سرسبز کھیتوں میں نظر آتے تھے۔ لیکن کھیتوں میں صرف وہی پرندے نظر آتے جو جنگلوں میں درختوں میں رہتے ہیں۔ کیوں کہ جب سے زہریلی دوائیں ان کھیتوں میں کیڑے مارنے کے لیے ڈالی جارہی ہیں ان دواءوں نے کیڑوں کے ساتھ ساتھ ان پرندوں کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

1870ء کی ڈھائی میں برطانویوں نے مختلف مقامات پر جہاں سے یہ بڑے دریا پہاڑوں سے نکلتے تھے مشاہداتی اسٹیشن قائم کیے اور یہاں کے پانی کے اخراج کا تفصیلی ریکاڈ مرتب کرنا شروع کیا۔ صرف اس قسم کے کئی سالوں پر محیط ریکاڈ کی مدد سے ہی دریاؤں میں ہونے والی مستقل تبدیلیوں کے بارے میں وثوق کے ساتھ کسی قسم کی پیشنگوئیاں ممکن ہیں۔

سندھ طاس کا میدان

ترمیم

یہاں کھیتوں کے ان سمندر میں ریگستانی جزیرے بھی ملتے ہیں۔ ریت کی پہاڑیاں بھی، بلند بنجر زمین بھی اور جنگل سے ڈھکے ہوئے زمین کے کٹے پھٹے ٹکرے بھی۔ سکھر بیراج سے آگے جہاں وسیع کھلے ہوئے آبی خطہ، جٹی نمک کے میدان یا اس کے بلمقابل شہداد کوٹ کا پٹ جو ہر طرح کی نباتات سے محروم ہے۔ دریائے سندھ میں جب پھر پور سیلاب ہو تو وہ اپنے پشتوں کے درمیان میں بھی دس میل چوڑا پاٹ لیے اور اپنے ڈیلٹے کی بیشر زمین کو اپنی آبی چادر سے ڈھانپے ہوئے قدیم نام مٹھو دریا کا حقیقی وارث نظر آتا ہے۔ روہڑی کے علاقہ میں موٹے گھاس کے میدان جہاں حد نظر تک پھیلے ہوئے دریائی جنگلات اور دھنڈ (جھیل) جن کو گھنے سرکنڈوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہاں کے متضاد منظر جن میں ایک طرف صحرائی شادابی اور دوسری طرف انتہائی بیابانی ہے۔ جہاں آج آبپاشی کے جدید طریقوں سے بارش پر زاراعت کا دارو مدار ہے۔

یہاں سبزہ کے اختلاف سے کچی زمینیں دریائی پانی سے سیراب ہوتی تھی اور پانی نہیں پہنچتا ہے وہ زمین جو اتنی سخت ہے کہ ان پر گھوڑے کے سموں کی ٹاپ دور تک سنائی دیتی ہے۔ اس پہاڑی مٹی سے بنی زمین جو قدر گہرے رنگ کی ہے۔ پکی کا رنگ ہلکا اور اس سخت زمین پر کنڈی کا خار دار درخت، کرڑ یا کیپر کے بغیر پتوں کی جھاڑیاں اور بیر ملتے ہیں جو اور یہ برائے نام بارش پر زندہ ہیں۔ نرم ریت کی زمین یا وار یاسی جس کا رنگ سفید اور باریک ذرات پر مشتمل جس کا غبار لوگوں کے لیے پریشان کن ہوتا ہے۔ اس زمین پر کھپ جس کی پتلی شاخیں ہوتی ہیں، پھوگ اور آک کا پودا ملتا ہے۔ اس زمین کو پانی مل جائے تو بہت سا سبزہ اور زراعت بکثرت ہوتی ہے۔

دریائے کے کنارے کی زمین بہتر ہوتی ہے۔ یہ نمدار مٹی اور ریت کا مرکب ہوتی ہے۔ دریا میں طغیانی کے بعد جو مٹی کے پشتے بن جاتے ہیں وہاں دیکھتے ہی دیکھتے ان پر مختلف درختوں اور جھاڑیوں کی ہریالی چھا جاتی ہے۔ اگر انھیں برسات اور بکریوں سے بچ کر انھیں بڑھنے کا موقع ملے تو کچھ عرصہ بعد چھوٹے درختوں اور جھاڑیوں کا ایک جنگل کھڑا ہوجاتا ہے۔ ذرخیزی میں کچے کی زمین دریا کی لائی مٹی مسلسل تازگی بخشتی ہے۔ بہترین نہری زمین بھی سوائے چاول کی کاشت کے مسلسل فضلیوں سے ناکارہ ہوجاتی ہیں۔

بیس ہزار مربع میل کے علاقے میں پھیلا ہموار میدان دہری ڈھلانیں رکھتا ہے۔ ایک دحلان دریائے سندھ کے بہاوَ کے ساتھ ساتھ طول البد کی حثیت سے اور دوسری ڈھلان دریائے سندھ کے دونوں کناروں سے عمودی زاویہ پر۔ دریا کے سیلابی پانیوں میں مٹی شامل ہوتی اوروہ سیلابی پانی کے ساتھ وادی میں پھیلاتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی آبی گذر گاہ سیلاب کے موقع پر پانی کی نکاسی کے ست عمل سے پانی میں شامل مٹی کو پھیلاتے جاتے ہیں۔ اس مسلسل عمل سے زمین کی سطح دریا کے بہاوَ کی سمت ایک ہلکی ڈھلوان اختیار کرتی رہتی ہے اور دریا اپنے کناروں کے ساتھ ایک وسیع و عریض ڈحلوان پشتہ بناتے رہتے ہیں۔

شمالی مغربی ہندوستان کے میدان اور گنگا کی وادی میں پہلے سمندر تھا۔۔ یہاں پہاڑ نمودار ہوئے تو نئے دریا بھی پرانے دریاؤں کے ساتھ مل کر پیچھے ہٹے ہوئے سمندر سے نئی زمینیں حاصل کیں۔ یہ سمندری علاقہ دریائی مٹی کے ایک عظیم ذخیرہ سے پر ہوکر میدان کی شکل اختیار کرلی۔ یہ دریائی مٹی کئی ہزار فٹ کی تہ کی شکل میں اسی میدان میں موجود ہے۔ جب برفیں پگھلتیں ہیں اور بارشیں ہوتی ہے تو دریاؤں میں طغیانی آجاتی ہے اور سیلاب کی وجہ سے پانی کا اخراج بیس سے چالیس گناہ بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح دریاؤں کا پاٹ دس سے بیس گناہ زیادہ چوڑا ہوجاتا ہے۔ پانی رفتار میں اضافہ اور مٹی کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔ سیلابی پانی یہ تمام نشیب میں پھیل کر وہاں اپنی مٹی پھیلاتا ہے۔ اس سے وہاں کی سطح بلند ہوتی جاتی ہے۔ اور دریا نئے راستے اختیار کرکے وہاں پر بھی زمین کی سطح بلند کا عمل شروع کر دیتا ہے۔

چنانچہ ہزاروں سالوں سے دریا مٹی تہ پھیلا کر سطح کر رہا ہے۔ دریائے سندھ میں شامل مٹی کی کثیر مقدار زیادہ تر راستہ میں بیٹھ جاتی ہے اور چنانچہ طغیانی کے بعد راستہ میں مٹی پھر جانے سے اس کا راستہ بدل جاتا ہے اور دریا اپنی گزرگاہ اور رفتار کو ان کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ جہاں زمین نرم ملتی ہے جو آسانی سے پانی میں شامل ہوجاتی وہاں بتدریح پھیل کر سست رفتاری سے بہتا ہے۔ وہ دریا نیم دائرہ بنالیتا ہے تو راستہ درست رکھنے کے لیے اس کے برابر نیم دائرہ بھی بناتا ہے۔ سیلاب کے پانی کو وہ اپنے پہلووَں سے باہر پھینک دیتا ہے۔ اس طرح سے دریائے جیسے جیسے سمندر کے نذدیک ہوتا جاتا ہے اس میں پانی کا اخراج کم ہوتا جاتا ہے۔

سیلابی کیفیت

ترمیم

دریائے سندھ کے سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے اس کے پشتوں کی تعمیر کیں گئیں۔ عام حالات میں جتنی زیادہ سے زیادہ اوسط مقدار پانی کی سکھر بیراج پر موجود ہوتی ہے۔ سیلاب کے زمانے میں دگنی ہوجاتی ہے۔ ایسے حالات میں پانی کی زیادہ مقدار کا دباوَ بہرحال اثر دکھائے گا۔ 1942ء میں سکھر کے اوپر بند میں دونوں طرف شگاف پڑ گئے اور سیلاب نے آس پاس کے علاقوں کو گھیر کر وہی قدیم ڈراما پیش کیا۔ سکھر اور شکار پور کے شمال میں پانی کا ایک سمندر داخل ہو گیا اور تین چار میل چوڑے علاقے پر مغرب کی طرف پیش قدمی کرتا رہا۔ اس کے بعد جنوب کی طرف مڑ گیا اور اس طرح 180 میل کا سفر طے کرکے منجھر جھیل میں داخل ہو گیا۔ سکھر کے بیگاری بند کی تعمیر سے پہلے یہ سیلاب کا مخصوص علاقہ تھا۔ یہ سیلابی پانی راستہ کا نصف حصہ سارو ڈھنڈ سے آگے وادی کا نشیبی راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دریائے سندھ کے پانیوں میں پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والا پانی ملتا ہے۔ شمال کی طرف قدیم زمانے میں جو سیلاب دریائے سندھ کے دائیں کنارے سے شروع ہوتے تھے وہ بھی قریب قریب ایسا راستہ اختیار کرتے تھے۔ یہ کشمور سے تھوڑا نیچے کی طرف شروع ہوتے تھے۔ یہ عام طور پر کے مغرب میں بہتے تھے اور تقریباً اسی جگہ سے جہاں دریائی اور پہاڑی پانی کا میل ہوتا ہے یہ سیلاب گزرتے تھے۔ موہل کے نذدیک سیلاب اپنا راستہ قدرے تبدیل کرلیتا تھا اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اسی راستے سے باگودیرو اور دوستالی کے درمیان میں جاملتا تھا۔ وہ نشیب جو سیلاب کا آخری نصف کہلاتا تھا کچھ عرصہ پہلے نشیب سندھ کے نام سے مشہور تھا۔ شمالی مغربی سندھ کے یہ دونوں سیلاب شمال اور مغرب میں واقع بہاڑیوں سے بہہ کر آنے والے پانی کے ریلے کی وجہ سے اور بھی وسعت اختیار کرلیتے تھے۔ شدید باریشیں بھی سندھ میں پانی کے کثیر ترین اخراج میں شامل ہوجاتی تھیں۔

1942ء کے انتہائی طغیانی نے روہڑی کے اوپر قاسم پور کے بائیں پشتے میں شگاف ڈال دیا تھا اور نارا وادی کے بالائی حصہ کے تمام علاقے میں سیلاب کا پانی پھیل گیا تھا۔ پہلے وقتوں میں یہ علاقہ بھی کثرت آب کے زمانے میں کنارے سے بہنے والے پانی سے بھر جاتا تھا۔ تمام روہڑی ڈویژن جو دریائے سندھ اور ریگستان کے درمیان میں واقع ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جو ماضی میں مسلسل سیلاب کی زرد میں رہا ہے۔ ماضی میں یہ حقیقت علاقہ کی طبعی شکل سے آج بھی بخوبی عیاں ہے۔ ماضی کے ان سیلابی حادثات میں سب سے اہم اور سب سے دیرپا وہ سیلاب تھا جو دریائے سندھ کو بھاولپور میں غوث پور کے مقام پر ایک ایسے نشیب میں منتقل کر دیا جس میں ایک سو بیس میل تک پانی بہتا رہا۔ سیلابوں کو کنٹرول کرنے اور اس کا ذخیرہ کرنے کے لیے کشمور کے مقام پر ایک ڈیم بنایا گیا۔ اس سے سیلاب کے روک تھام میں مدد ملی۔

آج کے سندھ میں زراعتی زمینیں بہت کم ہیں۔ کیوں کہ پانی بارش دریا کے سیلاب پر منحصر ہوتا۔ بارشیں سندھ میں کم ہوتی تھیں اور سیلاب دریائی علاقوں اور اس کی شاخوں کی نشیبی میں گذر چکا ہوتا تو زراعت کی جاتی تھی۔ اگرچہ دریا سندھ ایک بڑے درخت کی طرح اپنے شاخیں ہر طرف پھیلائے ہوئے تھا اور وہ اپنی شاخوں کے ذریعے زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔ مگر پھر بھی بہت علاقے دریائی پانی کی پہنچ سے دور تھیں۔ سیلاب میں دریا کے کناروں سے نکلنے والا پانی ایک وسیع چادر کی بجائے اپنی سیلابی شاخوں میں سے گزرتا ہے اور ان کناروں سے باہر نکل کر مزید چھوٹی چھوٹی شاخوں میں پھیل جاتا تھا۔ ان کے بل کھاتے ہوئے راستے آج بھی ان قدرتی آبی گزرگاہیں کی نشادہی کرتے ہیں

تنگ نائے

ترمیم

سکھر شہر کی بلند عمارتوں میں جگہ جگہ مینار نظر آتے ہیں اور دریا پار روہڑی واقع ہے۔ یہاں درمیان میں بکھر کا جزیرہ ہے۔ جو ہمیشہ عسکری اہمیت حامل رہا ہے۔ ایک دوسرا جزیرہ جو ہندووَں کے مندر کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے سادھو بیلہ ہے۔ یہاں سے دریائے میں سے سات نہریں نکلتی ہیں۔ سکھر بیراج واقعی متاثر کن ہے۔ لیکن اس زیادہ متاثرکن یہاں دریائے سندھ کا چونے کی چٹانوں سے بنی ہوئی ایک تنگ گھاٹی سے گزرتا ہے جس کی چوڑائی محض آدھا میل ہے۔ سندھ کا قدیم دار الحکومت اروڑ موجودہ دریا کے مشرق میں واقع ہے۔ اس شگاف میں داخل ہونے سے پہلا دریا تقریباً بارہ میل پھیل جاتا ہے۔ مصدقہ شہادت کے مطابق سات سو سال سے یا اس سے بھی طویل زمانہ سے دریائے سندھ نے بکھر کے چولک کے راستہ کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

ارضی مطالعہ میں یہ بات آئی ہے دریائے سندھ مختلف زمانوں سکھر کے شمال اور مغرب میں روہڑی کے جنوب اور مشرق میں بہتا رہا ہے۔ جہاں سے اب سندھ ڈھورو اور سندھ واہ گزرتے ہیں۔ قدیم وادی سندھ کے شہر موہنجودڑو، لوہم جودڑو، جانہوں جودڑو، کوٹ آسور اور ڈجی جی ٹکری کا وجود ثابت کرتا ہے کہ وادی سندھ کی ان بستیوں کے زمانے میں دریائے سندھ کا بڑا چشمہ ضروری نہیں ایک ہی دھارے کی شکل میں بہتا ہو۔

وادی سندھ کی تہذیب

ترمیم

سکھر بیراج سے دریا کچھ آگے بڑھتا ہے تو دریا کے مشرقی کنارے پر خیرپور کی ریاست تھی۔ جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ خیرپور کے سامنے دریا کے پار لاڑکانہ کا شہر آباد ہے۔ اس سے چند میل کے فاصلے پر دنیا کی ایک عظیم انشان تہذیب کے آثار ہیں۔ وسنٹ اسمتھ کا خیال تھا یہاں کانسہ کا دور کبھی آیا ہی نہیں۔ کیوں کہ موریہ عہد سے پہلے کے کوئی آثار دریافت ہی نہیں ہوئے تھے۔ مگر ان آثار کے دریافت ہونے کے بعد سارے نظریے ایک دم بدل گئے۔ 1925 ماہرین آثار قدیمہ نے اس شاندار دریافت کا اعلان کا اعلان کیا جس کا قدیم ادب میں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ جس خاص کھنڈر دو شہروں کے تھے۔ ہر شہر دو اور تین ہزار قبل مسیح کے درمیان میں اپنے عروج کے زمانے میں ایک مربع میل تھے۔ اس میں جنوبی شہر سندھ موہنجوداڑو اور بالائی شہر ہڑپہ پنجاب میں راوی کے کنارے آباد تھے۔ ان شہروں کے مکان کئی منزلہ ٹھوس پختہ اینٹوں بنے تھے۔ ان میں رہائشی سہولتیں مثلاً پانی کی نکاسی غسل خانے اور بیت الخلا تھے۔ آبادی کا نقشہ لاجواب تھا۔ عمارتوں کے400 ضرب 200 گز کے مستطیل سلسلے تھے۔ جن میں وسیع سڑکیں اور عمدہ چھوٹی گلیاں تھیں۔ دنیا میں کہیں اور شہری آبادی ایسا انتظام نہیں ملا جو اس قدر پیچیدہ اور نفیس ہو۔ اتنے قدیم زمانے میں اسے ایک منصوبے کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ مصر کے شہر اس کے حکمرانوں لے کوہ پیکر مقبروں اور عظیم معبدوں کے مقابلے میں فن تعمیر کے لحاظ سے ہیچ تھے۔ سمریا، عکاد بابل کے عظیم شہر بغیر کسی منصوبے کے بنتے چلے گئے۔ ان تمام شہروں کی سڑکیں روم، لندن، پیرس اور بعد کے ہندوستانی شہروں کی طرح بے ترتیبی کا نمونہ تھیں۔ جب کہ اس کے مقابلے وادی سندھ کے شہر ھیرت انگیر شہری منصوبہ بندی کا مظہر تھے۔ زاویہ قائمہ بناتی سیدھی سڑکیں، پانی کی نکاسی کا اعلیٰ نظام جس کا شعور اٹھاویں صدی عیسوی تک یورپ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔

عہد قدیم

ترمیم

سکندر سے پہلے دارا نے یہاں دریائے سندھ کے بارے میں اپنے یونانی سپہ سالار اسکالکس کو دریائے کابل کے راستے روانہ کیا تھا۔ پہلا یونانی مصنف کتیشاس ہے جس نے ایرانیوں کی معلومات کو جو سندھ کے بارے میں تھیں تفصیلی بیان پیش کیا تھا۔ اس میں اکثر بے سروپا باتیں ہیں۔ بعد کے دور میں یعنی سکندر کے مورخین ارسطو بلس، ٹالمی، سوءٹر اور نیرکس نے سندھ پر جو کچھ لکھا ہے وہ بھی باقی نہیں رہا۔ ہم تک جو تحریریں پہنچیں ہیں وہ حوالے ہیں جو یونانی اور رومی حوالے ہیں۔ یہ کافی بہتر ہیں مگر ان میں جغرافیائی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسٹرابو نے بھی سندھ کے بارے سن عیسوی کے ابتدائی بیس سالوں میں لکھا ہے۔

میگاس تھینیز جس نے سکندر کے حملہ کے بیس بائیس سال بعد ہندوستان کا سفر کیا تھا اور چندر گپت کے دربار میں طویل عرصہ تک رہا تھا۔ اس کا بیان ہے کہ دریائے سندھ نے ایک بہت بڑا جزیرہ بنالیا ہے۔ جو پراسیاں کہلاتا تھا۔ دوسرا چھوٹا جزیرہ پٹالہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس جزیرہ کے محل وقوع کے متعلق کریٹکس بیان کرتا ہے کہ میوسی کانس کو زیر کرنے کے بعد سکندر نے ان کے دار الحکومت میں فوج تعینات کردی تھی۔ اس کے بعد پراستھا قبیلے کے ملک میں اس نے پیش قدمی کی پورٹی کانس ان کا راجا تھا۔ پلانی نے اس جزیرے کو پراسیا کے نام سے ذکر کیا ہے۔ پلانی نے دریائے سندھ کی بہت شاخوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک آربیٹا پہاڑ کی طرف جاتی ہے۔ سکندر کے ساتھیوں آریان اور دوسرے لوگوں نے اس شاخ کا زکر نہیں کیا ہے۔ آریان کے مطابق ڈیلٹا سے پہلے پٹالہ کا شہر تھا اور دونوں شاخیں سندھ کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ سکندر نے یہاں کی قلعہ بندی کو مستحکم کیا اور یہ علاقہ کا بے آب و بیان تھا۔

اس زمانے میں ڈیلٹا کی سمندری حدود کیا تھیں ہ میں اس بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ لیکن اس وقت دریا کے بائیں شاخ گنجو ٹکر (حیدرآباد) کے مشرق میں بہتی تھی اور اس علاقہ میں مکلی کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ جس کو دریائی مٹی کی ایک تین میل لمبی پٹی چٹانی زمین سے جدا کرتی ہے۔ جو عام طور پر کراچی اور راس موئز کیپ تک چلی گئی ہے۔ یہی وہ مغربی راستہ ہے جس سے دریائے سندھ گذر کر سمندر تک پہنچتا تھا۔ مکلی کی پہاڑیاں یا پیر پٹھو پہاڑیاں اس کا جنوبی سرا ہیں۔ کلوٹا یہاں شمال مشرق میں واقع ہوگا جو یعنی میرپور پٹھوڑو سے کس قدر جنوب میں ہے۔ اس وقت ڈیلٹا کی حدود مکلی کی پہاڑی اور پیر پٹھو سے آگے نہیں بڑھی تھی اور سمندر کی موجودہ حدود ابھن شاہ کی پہاڑی تھی اور مکلی کی پہاڑیوں کا جنوبی رخ تھا اور بائیں طرف کیچر بھرا ہوا تھا۔ اس جگہ جو دریائی مٹی کا میدان ہے وہ برائے نام سمندر سے بلند ہے اور ہو سکتا ہے دو ہزار سال کی پیداوار ہو۔ یہاں سے دس میل مغرب تک یعنی گھارو وہی میدان پھیلا ہوا ہے۔ یہاں جگہ جگہ مٹی کے ٹیلے اور ریت کی پہاڑیاں ابھری ہوئی ہیں۔ جس کی اوسط بلندی سمندر سے بیس فٹ سے زیادہ بلندی نہیں ہے۔ یونانیوں نے اندوسیتھیا کے نقشہ پر بہت سے شہروں کے نام بتائے ہیں مگر ان کی شناخت ممکن نہیں۔

ٹالمی کے مطابق دریائے سندھ اپنی شاخوں جو بڑا جزیرہ بنا رہا ہے وہ پراسیان ہے۔ چینی سیاح ہوانگ سانگ نے اپنے سفر نامہ میں سندھ کے جن مقامات اور معلومات درج کی ہیں وہ بہت حد تک قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ ان کے نام اور محل وقوع درست نہیں ہیں جس سے پیچیدیگیاں پیدا ہوگئیں ہیں۔

آٹھویں صدی عیسی میں محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا۔ جس نے سندھ کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ ان کا دار الحکومت منصورہ تھا جس کے کھنڈر شہداد پور سے گیارہ میل کے فاصلے پر ملے ہیں۔ بلازری کا بیان ہے اروڑ پہاڑی پر آباد ہے اور اسے وہ بکھرور کے ساتھ بھی بیان کرتا ہے۔ چچ نامہ بھی یہی کہتا ہے کہ بکھرور کا قلعہ مہران کے کنارے اروڑ کے بالکل بلمقابل تھا۔ اسطخری نے بکھرور کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ارضی تبدیلیاں

ترمیم

ارضی تحیقات کے مطابق تیسرے عہد میں سندھ سمیت شمالی ہندوستان کا بشتر علاقہ ٹیتھیا سمندر کے نیچے تھا۔ جس کی لہریں اس کوہ ہمالیہ سے لے کر کوہ وندھیا تک کے ساحل سے ٹکراتی تھیں۔ کسی زمانے میں کوہ ہمالیہ میں خوفناک زلزلے برپا ہونے سے زمین اوپر آگئی اور سمندر پیچھے ہٹ کر بہت دور چلا گیا۔ اس طرح یہاں زمین نمودار ہوئی۔ تیز ہوائیں اور طوفانوں کی بدولت یہاں ریت پھیل گئی۔ برساتوں یہ زمین جمتی گئی اور گرمی کی وجہ سے زمین پختہ ہو گئی۔ ایک طرف برسات اور دوسری دریاؤں کی لائی ہوئی مٹی کی وجہ سے زمین کاشت کے قابل ہو گئی۔ اس علاقہ کو دریائے سندھ نے رونق بخشی ہے۔ اس دریا نے اسی زمین کو پال پوس کر بڑا کیا۔ آج بھی زندگیوں کا مدار اس دریا پر ہے۔ جس کہ بغیر یہ علاقہ صحرا بن جاتا۔

رن کچھ اور تھر سمندر کے نیچے۔ کراچی اور حیدرآباد کے بشتر نشبی علاقے سمندر تلے اور کچھ علاقوں میں دریا بہتا تھا۔ ان میں شاہ بندر، سجاول، جھرک علاقہ تو حال ہی میں پانی سے نمودار ہوا ہے۔ شاہ بندر، ٹھٹھہ اور جھرک کی پہاڑیاں، کوٹی کی طرف سورجانو، حیدرآباد کی گنجو ٹکر اور رنی کوٹ کی پہاڑیاں بھی نہیں تھیں۔ اگر ان میں کچھ ابھر آئیں تھیں تو یہ سمندر میں ایک جزیرے کی مانند تھیں جن کے چاروں طرف پانی تھا۔ اس لیے سندھ کا مغربی پہاڑی علاقہ پہلے آباد ہوا تھا۔ یہ قدیم حجری عہد یا پرانا پھتر والا زمانہ تھا اور اس وقت بشتر علاقوں میں برف جمی ہوئی تھی۔ جہاں کہیں برف نہیں تھی وہاں لوگوں کی آبادی تھی۔ یہ قدیم لوگ جنہیں گھر بنانا نہیں آتا تھا اکثر غاروں میں رہتے تھے۔ یہ لوگ کھیتی باڑی بھی نہیں جانتے تھے۔ یہ لوگ جنگلی اناج، پھل اور جڑی بوٹیاں کھاتے تھے یا شکار پر ان کا گزارہ تھا۔

سرجان مارشل کا کہنا ہے کہ نئے حجری زمانے کے آثار سندھ میں لکی کی پہاڑیاں، کھیرتھر کا پہاڑی سلسلہ اور روہڑی کے پہاڑی علاقہ میں ملے ہیں۔ لگتا ہے ٹھٹھہ سے سمندر پیچھے ہٹ جانے کی یہ میدان ظاہر ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے نئے حجری زمانے میں لوگ یہاں رہنے لگے۔ اس زمانے میں نہ صرف سیوہن کا علاقہ آباد تھا بلکہ سندھ کے مشرق میں موجود پہاڑیاں یعنی ٹھٹہ، جھرک کی بودھی پہاڑیاں اور انٹر پور سے روہڑی تک کی پہاڑیاں آباد تھیں۔

قدیم زمانے میں ٹھٹھہ سجاول کا بشتر حصہ سمندر ٹھا ٹھائیں مار رہا تھا۔ ان دنوں دریائے سندھ نصر پور کے پاس سے گزرتا تھا۔ 1758ء میں دریا نے اپنا راستہ تبدیل کرکے موجودہ راستہ اختیار کیا۔ اس سے پھیلیلی کے راستہ بہنا بند ہو گیا۔ لیکن جب دریانے یہاں رخ تبدیل کیا تو یہ میدان نمودار ہوا۔

پیر پٹھو سے جنوب مشرق میں ڈیڑھ میل لمبے اور آدھا میل چوڑے ٹکرے میں پہاڑیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ ان میں اونچی پہاڑی جو ابن شاہ کے نام سے مشہور ہے صرف پچتر فٹ بلند ہے۔ یہ سندھ کے جنوب کی یہ آخری چٹان ہے اور اس میں کھڑدرے ریت کے پتھر موجود ہیں۔ سو سال سے زیادہ عرصہ گذرا ہے کہ دریائے سندھ پیر پٹھو اور ابن شاہ پہاڑیوں کے درمیان میں سے بہہ رہا تھا اور اس کا ڈیلٹا ابن شاہ سے چند میل کے فاصلے پر شروع ہوتا ہے۔

کلہوڑوں نے سندھ میں کئی شہر بسائے مگر وہ دریا کی نظر ہو گئے۔ 1768ء میں حیدرآباد کا شہر آباد کیا گیا۔ اس وقت تک دریا نے اپنی نئی گزرگا میں گنجو ٹکر کے مغرب میں مستقل طور پر بہنا شروع کر دیا۔ جب کہ حیدرآباد سے چند میل پہلے دریا کی ایک اور شاخ حیدرآباد کے مشرقی سمت سے گزرتی تھی اور یہ پھلیلی کے نام سے مشہور ہے۔ سترویں صدی میں اس ڈیلٹے کی بالائی نوک شاید موجودہ حیدرآباد سے تقریباً بیس میل جنوب مشرق میں بائیں شاخ جو رین ندی کے نام سے مشہور تھی۔ وہ گونی کنال کے راستے بدین سے ہوتی ہوئی رن کچھ کے مغربی سرے سے سمندر میں گرتی تھی۔ مشہور نہریں کلری، بگھاڑ، پنیاری اور ستو ماضی میں مختلف اوقات میں دریائے سندھ کی وہ شاخیں تھیں۔ جس نے دریائے سندھ کا زائد پانی سمندر میں پہنچتا تھا۔

1819ء کے بعد دریائے سندھ کے بہاوَ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اگرچہ مقامی طور پر دریا دائیں یا بائیں چار پانچ میل ہٹتا رہا ہے۔ جس سے تھوڑے فاصلے تک علاقے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ البتہ آخر نصف زمانے میں جو تبدیلیاں واقع ہوئیں وہ انسانی کوششوں کا نتیجہ تھیں۔

ڈیلٹا

ترمیم

عرب جغرافیہ دانوں کا کہنا ہے کہ دیبل بندگارہ اور ایک سمندری کھاری کے کنارے آباد تھا۔ یہاں دریائے سندھ کی سب سے بڑی شاخ گرتی ہے ہے۔ المسودی کے بیان کے مطابق دریائے سندھ دو شاخوں میں منقسم ہوکر سمندر میں گرتا تھا اور دونوں شاخیں ایک دوسرے سے بہت فاصلہ پر واقع تھیں۔ ایک دہانہ شہر لوہرانی کے پاس اور دوسری کچھ کی سرحد کے قریب۔ جہاں یہ سندھ ساگر کے نام سے مشہور تھی۔

البیرونی نے لکھتا ہے کہ ساحل ہند مکران کے مرکزی شہر تیز سے شروع ہوتا ہے۔ اس شہر اور دیبل کے درمیان میں خلیج توران (سون میانی) واقع ہے۔ خلیج کے بعد چھوٹا دھانہ آتا ہے اس بعد بڑا دہانہ آتا ہے۔ ان سے گذر کر بوارج آتا ہے اور رن کچھ کے سمندری قزاقوں سے گذر کر سومناتھ آتا ہے۔ یہاں صاف ظاہر ہے کہ دریائے سندھ کی دریائے سندھ کی مغربی یعنی داہنی شاخ چھوٹی اور مشرقی دوسری شاخ کی نسبت بڑی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ منصورہ کے قریب دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور سمندر میں دو راستوں سے داخل ہوتا ہے۔ ایک شہر لوہانی کے قریب اور دوسرے مقام پر مزید مشرق کی طرف کچھ کے صوبہ میں سندھ ساگر کے نذدیک۔

چودھویں صدی کے وسط میں دریائے سندھ کی غربی شاخ دو حصوں میں منقسم تھی جو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے۔ اس کا دایاں حصہ مکلی پہاڑیوں کے شمال میں موجودہ کلری کینال کے راستے بہتا ہوگا اور بگھاڑ کنال کی گزرگاہ کو اختیار کیے ہوئے تھا۔ آگے چل کر دونوں حصہ متحد ہوکر ایک ہی شاخ بن جاتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان میں جزیرہ گیا تھا ہو تقریباً ایک سو مربع میل کے رقبہ پر مشتمل تھا اور اس میں پہاڑیوں کا ایک پورا سلسلہ موجود تھا۔ یہاں تعلق آباد کا قلعہ، ساموئی اور اس کے بعد ٹھٹھہ تعمیر ہوئے ہیں۔ دریائے سندھ کی کلری شاخ دو سو سال تک آبی نظام کا جزو بنی رہی اور 1519ء تک دریائے سندھ کا پانی اسی راستہ سے گزرتا تھا اس کے بعد بگھاڑ نے اہمیت حاصل کرلی۔

اٹھاویں صدی کے وسط میں دریائے سندھ کے بہاوَ میں تبدیلی کے نتیجے میں کلری شاخ ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گئی۔ اس کے فوراً بعد بگھاڑ شاخ جس سے دریائی پانی کا بڑا حصہ گزرتا تھا ریت اور کیچر سے بھر کر پایاب ہو گئی اور چشمے کی زیادتی کے ساتھ جنوبی بھاوَ اختیار کر لیا اور بہت سی ایسی شاخیں جو بگھاڑ کے بائیں کنارے پر نکلتی تھیں انھیں کاٹتا ہوا بہتا تھا۔ یہ واضح نہیں آبی صورت حال میں یہ تبدیلی کیسے واقع ہوئی۔ شاید اس کا سبب 1819ء کا زلزلہ تھا جس نے کچھ کے علاقے میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ اس کے نواحی علاقے میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ کوری کریک جو پران اور ہاکڑ کے گرنے کی جگہ تھی اور بہت عرصہ سے پانی سے محروم تھی۔ لیکن زلزلہ نے اسے کافی گہرا اور چوڑا کر دیا تھا اور رن کچھ کا مغربی حصہ ایسی حثیت اختیار کرگیا کہ اس میں پہلے کی نسبت سمندری پانی زیادہ مقدار میں پہنچنے لگا۔ دریائے سندھ جب سمندر میں گرتا ہے تو یہ کئی شاخوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور سمندر میں پھیل کر گرتا ہے۔ اصل میں ڈیلٹا وہ عمل ہے جس میں دریا سمندر سے زمین حاصل کرتا ہے اور دریا کی شاخیں اس عمل نشادہی کرتی ہیں

دریا نے اپنی مٹی کو پھیلانے کے عمل سے ساحل سمندر کی زمین انچی کردی اور سمندر کو پیچھے دکھیل دیا ہے۔ چنانچہ سندھ کا پورا میدان ہی اس عمل سے وجود میں آیا ہے۔ سندھ دریا ڈیلٹا کی نمود اس وقت شروع کرتا ہے کہ جب سمندر کا پانی دریا کے پانی کے بہاوَ کی رفتار سست کو دیتا ہے اور جس کی وجہ سے دریا ساحلی علاقے میں وہ دو شاخوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ خیال رہے یہ سست رفتاری کا اثر ایک سو میل لمبی شاخوں سے زیادہ نہیں ہو سکتا ہے۔ میدانی علاقوں کی طرح دریائے سندھ ڈیلٹا کے علاقہ میں بھی اپنی گزرگاہوں کو بلند کرنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ یعنی یہ اپنی مٹی کو آخری مرحلہ میں کناروں پر پھیلاتا رہتا ہے اور یہ عمل خاصی تیزی سے جاری رہتا ہے۔ یہ عمل صرف سیلاب کے زمانے میں نہیں عام موسم میں بھی جاری رہتا ہے۔

اس لیے ڈیلٹا کی تخلقی پیش قدمی کے متعلق یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ کہ دریا کے دہانہ کے سامنے جتنا سمندر ہے وہ ہر مقام پر تھوڑا تھوڑا آگے بڑھ رہا ہے۔ صحیح صورت حال یہ ہے کہ مرکزی دہانہ کے سامنے زمین تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہے۔ جب کہ شاخوں میں یہ پیش قدمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ جتنا ساحلی حصہ ہے اور یقینا بیشتر وہی حصہ ہے۔ وہ اپنی جگہ قائم ہے یا مقامی طور پر زمین کے اندر تھوڑا بہت گھس جاتا ہے۔ اس کے بعد دریا اپنی مٹی کو اگلنے کے لیے دوسرا دھانہ استعمال کرنے لگتا ہے۔ دہانے کی اس تبدیلی سے پیش قدمی کا محل بدل جاتا ہے۔

نئی زمینوں کی تخلیق

ترمیم

دریائی ڈیلٹاؤں کے تخلقی عمل کو دلچسپی اور توجہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ میں سیلاب کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ اخراج سالانہ چار لاکھ مکب فٹ فی سکینڈ ہے۔ سیلابی زمانے میں اس پانی کے اندر ملی ہوئی مٹی کا پانی میں تناسب ایک اور دو سو سیتس ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دریائے سندھ طغیانی کے ایک سو ایام مین تقریباً گیارہ کروڑ نوے لاکھ مکب گز مٹی سمندر تک لے جاتا ہے۔ یہ مقدار ارتیس مربع زمین کے لیے کافی ہوتی ہے۔ بشرطیکہ وہ ایک گز گہری ہو۔ لیکن بحیرہ عرب کا رد عمل جو مانسون کے زمانے ڈیلٹا کی تخلق میں بڑی حد تک اعتدال پیدا کر دیتا ہے۔ دس سال کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اس عرصہ میں دریا نے ایک میل تک بڑھ سکتا ہے لیکن دریا کی شاخوں کے اضافہ سے وہ اضافہ نہ ہونے کے برابر کہا جا سکتا ہے۔

اس بات کی شہادت موجود ہے کہ نسبتاً تھوڑے زمانے میں زمین نے سمندر کے خاصے حصے پر قبضہ جمالیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ1873ء اور 1904ء کے درمیانی حصہ میں دریائے سندھ کے دھانے پر ستانوے مربع میل کا نیا علاقہ زمین میں شامل ہوا ہے اور اس اضافہ کا مرکزی حصہ وہ مرکزی جگہ ہے جو سمندر کے مقابل ہے۔ یہاں ابھی دریا کی وہ شاخیں سمندر میں گرتی ہیں جن سے دریا کے پانی کی بیشتر مقدار خارج ہوتی ہے۔ گھارو اور کوری کریک کے درمیان یہ نئی زمین ڈیلٹا کے ساحلی نصف دائرے سے نمایاں طور پر آگے نکلی ہوئی ہے۔ سمندر کی لہریں جو مسلسل زمین سے ٹکراتی رہتی ہیں وہ یقناً دریا کی نرم مٹی کو سخت اور مظبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کا میدان مجموعی طور پر دریائے سندھ کے عمل سے کس رفتار سے بلند ہوتا رہا ہے۔

دریائے سندھ کے میدان کا رقبہ مٹھن کوٹ میں پانچوں دریاؤں کے سنگم سے آخر تک بشمول ڈیلٹا کم از کم بیس ہزار مربع میل ہے۔ سندھ کا دیلٹا دریائے نیل سے بہت چھوٹا ہے۔ دریائے سندھ کے پانی میں ملی مٹی دریائے نیل کی مٹی سے تین گناہ زیادہ ہے۔ اس طرح دریائے نیل کا سیلابی اخراج سندھ کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ ہے۔ لہذا سندھ کا میدان جو دریا کی مٹی سے بنا ہے دگنا ہے۔ سندھ کا ڈیلٹا ہر صدی میں سات انچ بلند ہوتا رہا ہے۔ موہن جوڈورو کی کھدائی کے دوران میں اس بارے میں بہت مفید معلومات حاصل ہوئیں اور اب قیاس کی جاتا ہے کہ میدان کا وسطی حصہ جس میں گذشتہ پانچ ہزار سالوں سے دریائے سندھ نے اپنا بہاوَ جاری رکھا ہوا ہے تقریباً تیس فٹ بلند ہوا ہے۔ یعنیٰ ہر صدی میں اوسطاً سات انچ بلند ہوا ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ دریا سے ملحقہ علاقہ میں جہاں تقریباً سو سال سے مسلسل بہہ رہا ہے یہ سو سالہ بلندی تقریباً ایک فٹ ہے۔ دریا سے زیادہ فاصلہ پر یہ اوسط بتدیخ کم ہوتا جائے گا۔

سمندر میں دور تک دس میل کے فاصلے پر بھی دریائے سندھ کا پانی سرخی مائل بھورے پانی کی وجہ سے بحرہ عرب کے سبزی مائل نیلگوں پانی کا رنگ بدلا نظر آتا ہے۔ پانی کے نیچے ساحلی ریت کی دیواروں کے فوراً بعد ایک کھائی جسے سواچ کہا جاتا ہے وہ دریا کی گزرگاہ کو تقریباً پچاس میل براعظمی تہ کے اختتام تک جاتی ہے۔ اس کے دونوں طرف اتھلا سمندر ہے جو اس کی ابتدا میں صرف 100 فٹ گہرا ہے اور بتدریح گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ سواچ کا پیندا تقریباً 2000 نیچے ہے۔ ہو سکتا ہے یہ کسی زلزلے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو۔ لیکن اس سے ملحقہ ہمالیائی علاقوں میں بھی زلزلے آتے رہتے ہیں۔ وہاں کوئی ایسا اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس ساحل پر یہ سواچ ایک منفرد حثیت رکھتی ہے۔ دریائے سندھ جو دنیا کہ عظیم پہاڑوں کو کاٹ کر ہے اس نے سمندر کی تہ میں ایک بڑی گہری گھاٹی کھود ڈالی ہے۔

اختتام

ترمیم

دریائے سندھ جو تبت میں سنگی کباب سے شروع ہوتا ہے اور تبت کی بلند و چھت قراقرم کے پہاڑوں سے ہوتے ہوئے دوسرے دریا اور نالوں کا پانی لیتا ہوابحیرہ عرب پہنچتا ہے۔ یہ زندگیوں کا سامان بھی پیدا کرتا ہے اور اپنے راہ میں آنے والوں پر موت بھی بخشتا ہے۔ اس نے نہ صرف شہروں کو بلکہ تہذیبوں کو بھی ملیامیٹ کر دیا۔ یہ وجہ ہے اسے کہیں سمندر، کہیں دیوتا، کہیں اڈرول لال اور کہیں یہ دریاؤں کا باپ کہلاتا ہے۔ اس نے اپنے سینے میں صدیوں کے سفر میں بہت سے راز پہناں رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک جب سمندر کے پاس پہنچتا ہے تو بھی اس کی سرکشی ختم نہیں ہوتی ہے۔ یہ اپنی لائی مٹی سے سمندر سے زمین چھین کر سمندر کو پیچجے دھیل دیتا ہے اور سمندر میں اپنا راستہ بناتا ہوا بالآخر اس میں سماجاتا ہے۔

درہائے سندھ کا سفر جو اس نے تبت کہ سنگی کباب سے شروع کیا اور اٹھارہ سو میل کا سفر طہ کرکے بخیرہ عرب کے پانیوں میں اپنا اختتام کیا صدیوں سے جاری ہے اور صدیوں تک جارہی رہے اور یہ اپنا کام اچھی طرح جارہی رکھا ہوا ہے، لوگوں کی زندگیوں کی بقا کا باعث بن رہا ہے۔

تصاویر

ترمیم
فائل:Blind dolphin.jpg
انڈس ڈولفن جو صرف دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے
 
1861 میں بنایا گیا دریائے سندھ پر اٹک کے مقام پر کشتیوں کا ایک پل۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. سندھو دریا کی قدیم گزرگاہیں۔ پروفیسر شیر خان سیلرو
  • سندھ ایک عام جائزہ۔ ایچ ٹی لیمبرگ
  • قدیم پاکستان۔ یحیٰٰ امجد
  • چچ نامہ۔ حامد اللہ کوفی
  • دریائے سندھ۔ جین فیر لی
  • مغربی تبت۔ چاریس شیرنگ

سانچہ:بھارت Rivers