عبدالحمید ثانی
عبد الحمید ثانی رحمۃ اللہ علیہ (عثمانی ترکی: عبد الحمید ثانی، ترکی: II. Abdülhamid؛ 21 ستمبر 1842 - 10 فروری 1918) عثمانی سلطنت کے 34ویں سلطان تھے، جنھوں نے 1876 سے 1909 تک حکمرانی کی۔ وہ عثمانی خلافت کے آخری ایسے حکمران تھے جنھوں نے بکھرتی ہوئی سلطنت پر مؤثر کنٹرول برقرار رکھا۔ ان کا دور حکومت سلطنت کی داخلی اور خارجی بحرانوں سے گھرا ہوا تھا، جن میں بلقان کی بغاوتیں، قومیت پرستی کے ابھرتے رجحانات اور روس کے ساتھ ایک جنگ (1877-78) شامل ہیں۔ ان بحرانوں کی وجہ سے سلطنت کو شدید نقصان اٹھانا پڑا، جس میں مصر اور قبرص جیسے اہم علاقے سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے۔ تاہم، 1897 میں یونان کے خلاف کامیاب جنگ میں سلطان نے فتح حاصل کی،
عبد الحمید ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی حکمرانی کا آغاز نوجوان عثمانی اصلاحات کے دباؤ میں ہوا، جس کے نتیجے میں انھوں نے 1876 میں ترسانے کانفرنس کے دوران سلطنت کا پہلا آئین نافذ کیا۔ یہ آئین ان کے ابتدائی دور میں ترقی پسند سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، ان کی تخت نشینی عظیم مشرقی بحران کے دور میں ہوئی، جب سلطنت کو اپنے قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی کا سامنا تھا اور بلقان میں مسیحی اقلیتوں کی بغاوتوں اور روس کے ساتھ جنگ کے حالات پیدا ہو گئے۔ اس بحران کے بعد عثمانی سلطنت کی بین الاقوامی حیثیت اور بلقان میں حکمرانی میں شدید کمی واقع ہوئی اور مالی بحران اتنا بڑھ گیا کہ سلطنت کی مالی خود مختاری ختم ہو گئی اور مالیات پر عظیم طاقتوں کا کنٹرول قائم ہو گیا
انھوں نے تین دہائیوں تک ایک غیرت مند اور خود مختارحکمران کے طور پر حکومت کی۔ نظریاتی طور پر اسلام پسند , ان کے دور حکومت میں سلطنت کے مختلف شعبہ جات میں جدیدیت اور مرکزیت جاری رہی، جیسے بیوروکریسی کی اصلاحات، ریلوے نیٹ ورک کی توسیع (رومیلین ریلوے، اناطولین ریلوے، بغداد ریلوے اور حجاز ریلوے کی تعمیر) اور آبادی کے اندراج کا نظام۔
ان کے دور میں تعلیمی اصلاحات بھی نمایاں تھیں۔ قانون، فنون، حرفت، انجینئرنگ، ویٹرنری سائنس، زراعت اور لسانیات کے شعبوں میں جدید تعلیم کے لیے کئی ادارے قائم کیے گئے۔ 1898 میں قانون کا پہلا مقامی جدید اسکول قائم ہوا اور سلطنت کے طول و عرض میں پرائمری، سیکنڈری اور فوجی اسکولوں کا جال بچھایا گیا۔
سلطنت میں نسلی اور قومی اقلیتوں نے اپنی علیحدگی پسند تحریکیں شروع کیں
۔ سلطان کے خلاف کئی قاتلانہ حملے کیے گئے، جن میں 1905 میں آرمینی انقلابی تنظیم کے ذریعہ کی گئی یلدز محل کے باہر کی جانے والی ناکام قاتلانہ کوشش مشہور ہے۔
1908 میں، کمیٹی آف یونین اینڈ پروگریس نے نوجوان ترک انقلاب کے ذریعے سلطان کو مجبور کیا کہ وہ پارلیمنٹ کو دوبارہ بحال کریں اور آئین کو نافذ کریں۔ ایک سال بعد، عبد الحمید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اختیارات کو محدود کر دیا، جس کے نتیجے میں 31 مارچ کے واقعے میں آئین پسند فورسز نے انھیں تخت سے برطرف کر دیا۔ ان کے جانے کے بعد نے ایک نئے آئینی دور کی بنیاد رکھی گئی جس نے سلطنت عثمانیہ کو آئینی بادشاہت میں تبدیل کر دیا۔
ابتدائی زندگی
ترمیمعبد الحمید ثانی رحمۃ اللہ علیہ 21 ستمبر 1842 کو توپ قاپی میں پیدا ہوئے۔ وہ سلطان عبد المجید اول کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ کی وفات کے بعد ان کی سوتیلی والدہ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ وہ ایک ہنر مند بڑھئی تھے اور انھوں نے ذاتی طور پر کچھ اعلیٰ معیار کا فرنیچر تیار کیا تھا، جسے آج استنبول کے یلدز محل، سیل کوسکو اور بیلربے محل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ عبد الحمید ثانی کو اوپیرا میں بھی دلچسپی تھی اور انھوں نے ذاتی طور پر متعدد اوپیرا کلاسیکیوں کے پہلے ترک ترجمے لکھے۔ انھوں نے مرکز ہمائیوں (عثمانی مہتران / آرکسٹرا، جو ان کے دادا محمود دوم نے قائم کیا تھا) کے لیے متعدد اوپیرا بھی مرتب کی۔
بہت سے دوسرے عثمانی سلطانوں کے برخلاف، عبد الحمید دوم نے دور دراز کے ممالک کا دورہ کیا۔ تخت سنبھالنے سے نو سال قبل، وہ اپنے چچا سلطان عبد العزیز کے ساتھ کئی یورپی دارلحکومتوں اور شہروں کے دورے پر گئے جن میں پیرس (30 جون تا 10 جولائی 1867)، لندن (12–23 جولائی 1867)، ویانا (28-30 جولائی 1867) شامل ہیں (وہ 21 جون 1867 کو قسطنطنیہ سے روانہ ہوئے اور 7 اگست 1867 کو واپس آئے)۔[13]
تخت نشینی
ترمیمعبد الحمید رحمۃ اللہ علیہ31 اگست 1876 کو اپنے بھائی مراد کے معزول ہونے کے بعد تخت نشین ہوئے۔ آپ کی تخت نشینی کی تقریب بھی باقی عثمانی سلطانوں کی طرح حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مزار پر ہوئی جہاں آپ کو عثمانی تلوار پیش کی گئی۔ زیادہ تر لوگوں کو عبد الحمید ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے آزاد خیال تحریکوں کی حمایت کی توقع تھی، تاہم، انھیں سلطنت کے لیے ایک انتہائی مشکل اور نازک دور میں 1876 میں تخت نشین کیا گیا۔ اقتصادی اور سیاسی انتشار، بلقان میں مقامی جنگیں اور 1877–78 کی روسی-عثمانی جنگ نے سلطنت عثمانیہ کے وجود کو خطرہ بنایا۔
فلسطین پر مؤقف
ترمیمعبد الحمید ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے خط لکھا جس میں اس نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے اور اس کے بدلے ایک سو پچاس ملین پاؤنڈ دینے کی آفر کی۔ خلیفہ عبد الحمید ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا : ” جناب ہرزل کو میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ وہ اس موضوع کے بارے میں نہ سوچیں اس لیے کہ فلسطین میری ملکیت نہیں، میں فلسطین کی زمین کا ایک بالشت بھی نہیں بیچ سکتا، فلسطین سارے مسلمانوں کی ملکیت ہے، اس مٹی کی خاطر میرے آبا و اجداد عثمانیوں نے سیکڑوں سال جہاد کیا اس کی مٹی میں مسلمانوں کا خون شامل ہے جس کی گواہی میری عوام نے دی ہے۔ یہودیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنے پیسے اپنے پاس سنبھال کر رکھیں اور اگر خلافت کا شیرازہ بکھر گیا تو فلسطین کو بغیر قیمت کے لے لیں لیکن جب تک میں زندہ ہوں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ چھری کے ساتھ میرے بطن کو کاٹنا آسان ہے اس بات سے کہ دیار اسلام سے فلسطین کو کاٹا جائے۔ “
معزولی
ترمیمسابق سلطان کو سالونیکا (جسے اب تھیسالونیکی کہا جاتا ہے) میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ 1912 میں، جب سالونیکا یونان کے قبضہ میں آ گیا، انھیں استنبول میں نظر بند کر دیا گیا۔ انھوں نے اپنے آخری دن اپنی بیویوں اور بچوں کی صحبت میں باسفورس میں واقع بے لربے محل میں اپنی یادداشتیں لکھنے، مطالعہ کرنے اور لکڑی کا کام کرتے گزارے جہاں وہ اپنے بھائی سلطان محمد خامس سے چند ماہ قبل 10 فروری 1918 کو فوت ہو گئے۔ انھیں استنبول میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ازواج
ترمیمان کی کثیر تعداد میں شادیاں کیں۔ ان کی ازواج کے نام درجِ ہیں۔
- انھوں نے پہلی شادی استنبول میں جارجیا کی بدرِ فلک سے کی۔
- انھوں نے دوسری شادی قفقاز کی بیدار سے کی۔
- انھوں نے تیسری شادی جارجیا کی دل پسند خانم سے کی۔
- انھوں نے چوتھی شادی آذربائیجان کی مزیدمستان خانم سے کی۔
- انھوں نے پانچویں شادی قفقاز کی پیوستہ خانم سے کی۔
- انھوں نے چھٹی شادی جارجیا کی بہیجہ خانم سے کی۔
- انھوں نے ساتویں شادی صالحہ سے کی۔
اس کے علاوہ بھی انھوں نے تقریباً نو شادیاں کیں۔ لیکن ایک وقت میں چار سے زیادہ کو رشتہ ازدواج میں نہ رکھا اور ان سب سے ان کی کثیر تعداد میں اولاد بھی ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Abdulhamid-II — بنام: Abdulhamid II — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/abd-ul-hamid-abd-ul-hamid-ii — بنام: Abd ül-Hamid (Abd ül-Hamid II.)
- ^ ا ب عنوان : Proleksis enciklopedija — Proleksis enciklopedija ID: https://proleksis.lzmk.hr/6598 — بنام: Abdul Hamid II.
- ↑ عنوان : Hrvatska enciklopedija — Hrvatska enciklopedija ID: https://www.enciklopedija.hr/Natuknica.aspx?ID=84 — بنام: Abdul Hamid II.
- ^ ا ب پ ت Türkiye Diyanet Vakfı İslâm Ansiklopedisi
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118646435 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Абдул-Хамид II
- ↑ عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana — گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0000167.xml — بنام: Abdülhamit II
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118646435 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب پ ت https://islamansiklopedisi.org.tr/abdulhamid-ii
- ↑ مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی
- ^ ا ب پ https://ttk.gov.tr/osmanli-padisahlari/
- ↑ "Sultan Abdul Aziz"۔ اخذ شدہ بتاریخ 8/9/2020
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاریخ رسائی=
(معاونت)
عبدالحمید ثانی پیدائش: 21 ستمبر 1842 وفات: 10 فروری 1918
| ||
شاہی القاب | ||
---|---|---|
ماقبل | سلطان سلطنت عثمانیہ 31 اگست 1876 – 27 اپریل 1909 |
مابعد |
مناصب سنت | ||
ماقبل | خلیفہ 31 اگست 1876 – 27 اپریل 1909 |
مابعد |