سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی فہرست
پیش نظر فہرست منتخب بنائے جانے کے لیے امیدوار ہے۔ منتخب فہرستیں ویکیپیڈیا کی بہترین کارکردگی کا نمونہ ہیں چنانچہ نامزد کردہ فہرست کا ہر لحاظ سے منتخب فہرست کے معیار پر پورا اُترنا ضروری ہے۔ براہ کرم اس فہرست |
سلطنت عثمانیہ، کی حکومت جولائی 1299ء میں قائم ہوئی اور یکم نومبر 1922ء تک برقرار رہی۔ ان623 برسوں تک 36 عثمانی سلاطین نے فرماں روائی کی۔ آل عثمان کے آخری سلطان عبدالمجید ثانی تھے جنھیں رسماً خلیفہ مقرر کیا گیا تھا اور 3 مارچ 1924ء کو بالآخر انھیں معزول کر دیا گیا۔ ان کی معزولی پر سلطنت عثمانیہ کا عہد ختم ہو گیا۔ اپنے دور عروج میں سلطنت عثمانیہ نے شمال میں ہنگری سے لے کر جنوب میں یمن تک اور مغرب میں الجزائر سے لے کر مشرق میں عراق تک حکومت کی۔ سلطنت عثمانیہ کا سب سے پہلا دار الحکومت 1280ء میں سوغوت اور پھر 1323ء یا 1324ء تک بورصہ رہا۔ 1363ء میں سلطنت کے دار الحکومت کو ادرنہ (ایڈریانوپل) کی فتح کے بعد مراد اول نے ادرنہ منتقل کر دیا تھا۔ اور 1453ء میں محمد ثانی کی فتح قسطنطنیہ کے بعد قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں منتقل کر دیا گیا۔[1]
سلطان سلطنت عثمانیہ | |
---|---|
سابقہ بادشاہت | |
Imperial | |
شاہی نشان | |
بہترین معروف صاحب منصب سلیمان اول 30 ستمبر 1520 – 6 ستمبر 1566 | |
اولین بادشاہ/ملکہ | عثمان اول (c. 1299–1323/4) |
آخری بادشاہ/ملکہ | محمد وحید الدین (1918–1922) |
انداز | شاہی عظمت والا خاندان |
سرکاری رہائش گاہ | استنبول میں محلات:
|
تقرر کنندہ | عثمانی خاندان |
بادشاہت کا آغاز | ء1299 |
بادشاہت کا آختتام | 1 نومبر 1922 |
سلطنت عثمانیہ 13ویں صدی کے آخر میں وجود میں آئی اور اس کا پہلا حکمران عثمان اول تھا۔ عثمان کا تعلق اوغوز ترکوں کے قائی قبیلہ سے تھا۔ [2] عثمان نے عثمانی خاندان کی بنیاد رکھی وہ 36 سلطانوں کے ادوار میں چھ صدیوں تک قائم رہی۔ سلطنت عثمانیہ مرکزی طاقتوں کی شکست کے نتیجے میں ختم ہو گئی، جن کے ساتھ اس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحاد کیا تھا۔ فاتح اتحادیوں کے ذریعہ سلطنت کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں ترکی کی آزادی کی جنگ اور 1922ء میں سلطنت کے خاتمے اور جدید جمہوریہ ترکی کی پیدائش کا باعث بنی۔[3]
القابات
ترمیمسلطان کو پادشاہ بھی کہا جاتا تھا۔ عثمانی استعمال میں لفظ "پدیشا" عام طور پر استعمال ہوتا تھا سوائے اس کے کہ "سلطان" کا براہ راست نام لیا جائے۔ [4]
نسلی اقلیتوں کی زبانوں میں سلطان کے نام : [5]
- عربی : کچھ دستاویزات میں "پادشاہ" کی جگہ " ملک " ("بادشاہ") [6]
- بلغاریائی : پہلے ادوار میں بلغاریائی لوگ اسے " زار " کہتے تھے۔ 1876 کے عثمانی آئین کے ترجمے میں زار کی بجائے "سلطان" اور "پدیشاہ" (پدیسیکس) کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ [6]
- یونانی : پہلے ادوار میں یونانی بازنطینی سلطنت کے طرز کا نام " باسیلیوس " استعمال کرتے تھے۔ 1876 کے عثمانی آئین کے ترجمے میں اس کی بجائے "سلطان" یا "سلطانوز" اور "پدیشاہ" (پدیسیکس) کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ [6]
- عبرانی ہسپانوی : پرانی دستاویزات میں، ("ال رے") لفظ بادشاہ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ [6]
سلطنت عثمانیہ کا ریاستی نظام
ترمیمسلطنت عثمانیہ ایک مطلق بادشاہت تھی۔ پندرہویں صدی تک سلطان کے تحت سیاسی، فوجی، عدالتی، سماجی اور مذہبی صلاحیتوں میں کام کیا جاتا تھا۔ [a] وہ نظریاتی طور پر صرف خدا اور خدا کے قانون (اسلامی شریعت کے لیے ذمہ دار تھا) جس کے وہ چیف ایگزیکٹو تھے۔ [7] بادشاہ کی طرف سے ہر قانون فرمان کی صورت میں جاری کیا جاتا تھا۔ تمام بادشاہ سپریم ملٹری کمانڈر تھے۔ [8] عثمان (وفات 1323-4) ارطغرل کے بیٹے عثمانی ریاست کا پہلا حکمران تھا، جس نے اپنے دور حکومت میں بازنطینی سلطنت کی سرحد پر واقع بتھینیا کے علاقے میں ایک چھوٹی سلطنت قائم کی۔ 1453ء میں محمد فاتح کی فتح قسطنطنیہ کے بعد، عثمانی سلاطین نے خود کو رومی سلطنت کا جانشین ماننا شروع کیا اور وہ کبھی کبھار قیصر روم کا لقب استعمال کرتے تھے۔ عثمانی سلاطین اپنے لیے شہنشاہ [9][10][11] اور خلیفہ کا لقب بھی استعمال کرتے تھے۔ [b] نئے تخت نشین عثمانی حکمرانوں کو عثمان کی تلوار دی جاتی تھی، یہ ایک اہم تقریب تھی جو یورپی بادشاہوں کی تاجپوشی کے مترادف تھی۔ [12][13]
اگرچہ نظریہ اصولی طور پر مطلق العنان تھا، لیکن عملی طور پر سلطان کے اختیارات محدود تھے۔ سیاسی فیصلوں میں خاندان کے اہم ارکان، افسر شاہی اور فوجی اداروں کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنماؤں کی رائے اور رویوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا تھا۔ [14] سولہویں صدی کی آخری دہائیوں کے آغاز سے، سلطنت میں عثمانی سلاطین کا کردار کم ہونا شروع ہوا، اس دور کو عثمانی سلطنت کی تبدیلی کا دور کہا جاتا ہے۔ وراثت میں تخت حاصل کرنے سے روکے جانے کے باوجود [15] شاہی حرم کی خواتین خاص طور پر حکمران سلطان کی والدہ، جو والدہ سلطان کے نام سے جانی جاتی تھیں نے پردے کے پیچھے رہ کر ایک اہم سیاسی کردار ادا کیا اور اپنے دور میں سلطنت پر مؤثر طریقے سے حکمرانی کی۔ ا س دور کو سلطنت عثمانیہ کی خواتین کی سلطنت بھی کہا گیا۔ [16]
آئینی بادشاہت عبدالحمید دوم کے دور میں قائم کی گئی تھی، جو اس طرح سلطنت کا آخری مطلق العنان حکمران اور پہلا آئینی بادشاہ بن گیا۔ [17] اگرچہ عبد الحمید دوم نے 1878ء میں ذاتی حکمرانی میں واپس آنے کے لیے پارلیمنٹ اور آئین کو ختم کر دیا تھا، لیکن انھیں 1908ء میں دوبارہ آئین سازی کو بحال کرنے پر مجبور کیا گیا اور انھیں معزول کر دیا گیا۔ 2021ء میں عثمانی خاندان کے سربراہ ہارون عثمان ہیں، جو عبدالحمید ثانی کے پڑپوتے ہیں۔ [18]
عثمانی سلاطین کی فہرست
ترمیمنیچے دی گئی جدول میں عثمانی سلطانوں کے ساتھ ساتھ آخری عثمانی خلیفہ کی بھی ترتیب میں فہرست دی گئی ہے۔ طغرا وہ خطاطی کی مہریں یا دستخط تھے جو عثمانی سلاطین استعمال کرتے تھے، جو وہ تمام سرکاری دستاویزات کے ساتھ ساتھ سکوں پر بھی آویزاں کرتے تھے اور سلطان کی شناخت میں اس کی تصویر سے کہیں زیادہ اہم تھے۔ "جائزہ اور مختصر واقعات " کالم میں ہر سلطان کی ولدیت اور دور حکومت کے بارے میں مختصر معلومات موجود ہیں۔ مؤرخ کوارٹرٹ کے مطابق : جب ایک سلطان وفات پا جاتا تھا، تو اس کے بیٹوں کو تخت کے لیے ایک دوسرے سے لڑنا پڑتا تھا جب تک کہ کوئی فاتح سامنے نہ آئے۔ لڑائی جھگڑوں اور متعدد برادرانہ قتلوں کی وجہ سے اکثر سلطانوں کی وفات کی تاریخ اور جانشینی کی تاریخ کے درمیان وقت کا فرق ہوتا تھا۔[19] 1617ء میں جانشینی کا قانون بدل کر ایک ایسے نظام میں تبدیل کر دیا گیا جسے سنیارٹی ( اکبریت ) کہتے تھے۔ جس کے تحت تخت خاندان کے سب سے پرانے مرد کے پاس چلا جاتا تھا۔ 17 ویں صدی کے بعد سے ایک متوفی سلطان کا جانشین اس کا بیٹا ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر چچا یا بھائی یا بھتیجا ہوتے تھے۔[20] اس فہرست میں عثمانی مداخلت کے دوران دعویدار اور شریک دعویدار بھی درج ہیں، لیکن وہ سلطانوں کی رسمی تعداد میں شامل نہیں ہیں۔
شمار | اسمائے سلاطین سلطنت عثمانیہ مع خطابات و القابات | تصویر | تاریخ تخت نشینی | دستبرداری | تاریخ پیدائش و وفات | جائزہ اور مختصر واقعات | طغرا | سکے |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | عثمان اول
غازی فاتح |
جولائی 1299ء | 1324ء
(25 سال حکمرانی کی ) |
1258ء –
اگست 1327ء |
|
|||
2 | اورخان اول
غازی فاتح |
9 اگست 1327ء | مارچ 1362ء
(38 سال حکمرانی کی ) |
1281ء–
مارچ 1362ء |
|
|||
3 | مراد اول
سلطان اعظم خداوندِگار شہید |
مارچ 1362ء | 15 جون 1389ء
(27سال اور 03 ماہ حکمرانی کی ) |
29 جون 1326ء–
15 جون 1389ء |
|
|||
4 | بایزید اول
سلطان روم بایزید یلدرم |
16 جون 1389ء | 8 مارچ 1403ء
(13سال اور 65 دن حکمرانی کی ) |
1354ء–
8 مارچ 1403ء |
|
|||
زمانہ تعطل (20 جولائی 1402ء– 5 جولائی 1413ء) اس وقفے کے دوران میں کوئی سلطان تخت پر نہیں بیٹھا کیونکہ اس وقفے کے دوران میں عثمانی شہزادوں کے درمیان میں تخت و تاج کے لیے آپس میں جنگیں ہو رہی تھیں لیکن دو یا تین شہزادے تخت پر ضرور بیٹھے تھے۔) | ||||||||
- | عیسی چلبی
(سلطان مقبوضہ جاتِ مغربی اناطولیہ) |
8 مارچ 1403ء | 1406ء
( 03 سے 05 ماہ تک حکمرانی کی ) |
1380ء–
1406ء |
|
|||
- | امیر
سلیمان چلبی (اول سلطان روم ایلی) |
20 جولائی 1402ء | 17 فروری 1411ء
(8سال اور 212 دن حکمرانی کی ) |
1377ء–
17 فروری 1411ء[25] |
|
|||
- | موسی چلبی
(دؤم سلطان روم ایلی) |
18 فروری 1411ء | 5 جولائی 1413ء
(2سال اور 137 دن حکمرانی کی ) |
وفات: 5 جولائی 1413ء | ||||
- | محمد چلبی
(سلطان اناطولیہ) سلطان مشرقی مقبوضہ جاتِ اناطولیہ 1403ء- 1406ء سلطان اناطولیہ 1406ء- 1413ء |
5 جولائی 1413ء | 26 مئی 1421ء
(10 سال حکمرانی کی ) |
1381ء–
26 مئی 1421ء |
| |||
سلطنت عثمانیہ کا عروج (5 جولائی 1413ء– 29 مئی 1453ء) | ||||||||
5 | محمد اول
سلطان محمد اول قرشچی چلبی |
5 جولائی 1413ء | 26 مئی 1421ء
(7سال اور 325 دن حکمرانی کی ) |
1381ء–
26 مئی 1421ء |
|
|||
6 | مراد ثانی
سلطان سلطنت عثمانیہ |
پہلے دورِ حکومت کا آغاز:
26 مئی 1421ء دوسرے دورِ حکومت کا آغاز: ستمبر 1446ء |
پہلے دورِ حکومت کا اختتام: اگست 1444ء
دوسرے دورِ حکومت کا اختتام: 3 فروری 1451ء (27سال اور 07 ماہ حکمرانی کی ) |
جون 1404ء–
3 فروری 1451ء |
|
|||
7 | محمد ثانی
سلطان محمد فاتح، سلطان سلطنت عثمانیہ |
پہلے دورِ حکومت کا آغاز:
اگست 1444ء دوسرے دورِ حکومت کا آغاز: 3 فروری 1451ء |
پہلے دورِ حکومت کا اختتام: ستمبر 1446ء
دوسرے دورِ حکومت کا اختتام: 3 مئی 1481ء (32سال اور 04 ماہ حکمرانی کی ) |
30 مارچ 1432ء–
3 مئی 1481ء |
|
|||
8 | بایزید ثانی
سلطان سلطنت عثمانیہ، ولی |
22 مئی 1481ء | 26 مئی 1512ء
(30سال اور 342 دن حکمرانی کی ) |
3 دسمبر 1447ء– 26 مئی 1512ء |
|
|||
9 | سلیم اول
خلیفۃ الاسلام، امیرالمومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان سلیم یَاوُز |
24 اپریل 1512ء | 22 ستمبر 1520ء
(8سال اور 149 دن حکمرانی کی ) |
1470ء–
22 ستمبر 1520ء |
|
|||
10 | سلیمان اول
سلطان سلطنت عثمانیہ، سلطان سلیمان عالیشان، القانونی، محتشم |
30 ستمبر 1520ء | 7 ستمبر 1566ء
(45سال اور 341 دن حکمرانی کی ) |
6 نومبر 1594ء–
7 ستمبر 1566ء |
|
|||
11 | سلیم ثانی
سلطان سلطنت عثمانیہ، سلطان سلیم ثانی ساری |
7 ستمبر 1566ء | 15 دسمبر 1574ء
(8سال اور 77 دن حکمرانی کی ) |
28 مئی 1524ء–
15 دسمبر 1574ء |
||||
12 | مراد ثالث
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مراد ثالث |
15 دسمبر 1574ء | 16 جنوری 1595ء
(20سال اور 20 دن حکمرانی کی ) |
4 جولائی 1546ء–
16 جنوری 1595ء |
|
|||
13 | محمد ثالث
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمد ثالث عدلی |
16 جنوری 1595ء | 22 دسمبر 1603ء
(8سال اور 340 دن حکمرانی کی ) |
26 مئی 1566ء–
22 دسمبر 1603ء |
|
|||
14 | احمد اول
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان احمد الاول بختی |
22 دسمبر 1603ء | 22 نومبر 1617ء
(13سال اور 335 دن حکمرانی کی ) |
18 اپریل 1590ء–
22 نومبر 1617ء |
|
|||
15 | مصطفٰی اول
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مصطفٰی الاول دعلی |
پہلے دورِ حکومت کا آغاز:
22 نومبر 1617ء دوسرے دورِ حکومت کا آغاز: 20 مئی 1622ء |
پہلے دورِ حکومت کا اختتام: 26 فروری 1618ء دوسرے دورِ حکومت کا اختتام: 10 ستمبر 1623ء (1سال اور 209دن حکمرانی کی ) |
24 جنوری 1591ء–
26 فروری 1618ء |
|
|||
16 | عثمان ثانی
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عثمان الثانی جنک شہید |
26 فروری 1618ء | 20 مئی 1622ء
(عثمان ثانی کے بعد مصطفٰی اول برسرِ تخت آیا۔) (4سال اور 82 دن حکمرانی کی ) |
3 نومبر 1604ء–
20 مئی 1622ء |
|
|||
17 | مراد رابع
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مراد الرابع صاحبِ قِرآں، فاتح بغداد، غازی فاتح |
10 ستمبر 1623ء | 8 فروری 1640ء
(16سال اور 151 دن حکمرانی کی ) |
26 جولائی 1612ء–
8 فروری 1640ء |
|
|||
18 | ابراہیم اول
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان ابراہیم الاول، دعلی، فاتح کریٹ، شہید |
9 فروری 1640ء | 8 اگست 1648ء
(8سال اور 181 دن حکمرانی کی ) |
5 نومبر 1615ء–
18 اگست 1648ء |
|
|||
19 | محمد رابع
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمد الرابع، اوچی، غازی فاتح |
8 اگست 1648ء | 8 نومبر 1687ء
(39سال اور 92 دن حکمرانی کی ) |
2 جنوری 1642ء–
6 جنوری 1693ء |
|
|||
20 | سلیمان ثانی
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان سلیمان الثانی، غازی |
8 نومبر 1687ء | 22 جون 1691ء
(3سال اور 226 دن حکمرانی کی ) |
15 اپریل 1642ء–
22 جون 1691ء |
|
|||
21 | احمد ثانی
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان احمد الثانی، خان غازی |
22 جون 1691ء | 6 فروری 1695ء
(3سال اور 229 دن حکمرانی کی ) |
25 فروری 1643ء–
6 فروری 1695ء |
|
|||
22 | مصطفٰی ثانی
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مصطفٰی الثانی، غازی |
6 فروری 1695ء | 22 اگست 1703ء
(8سال اور 197 دن حکمرانی کی ) |
6 فروری 1664ء–
22 اگست 1703ء |
|
|||
23 | احمد ثالث
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان احمد الثالث، غازی |
22 اگست 1703ء | یکم اکتوبر 1730ء
(27سال اور 40 دن حکمرانی کی ) |
دسمبر 1673ء–
یکم اکتوبر 1730ء |
|
|||
24 | محمود اول
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمود الاول، غازی گوزپشت |
20 ستمبر 1730ء | 13 دسمبر 1754ء
(24سال اور 72 دن حکمرانی کی ) |
2 اگست 1696ء–
13 دسمبر 1754ء |
|
|||
25 | عثمان ثالث
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عثمان الثالث صوفو |
13 دسمبر 1754ء | 30 اکتوبر 1757ء
(2سال اور 321 دن حکمرانی کی ) |
2 جنوری 1699ء–
30 اکتوبر 1757ء |
|
|||
26 | مصطفٰی ثالث
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مصطفٰی الثالث ینال اِیکچِی |
30 اکتوبر 1757ء | 21 جنوری 1774ء
(16سال اور 83 دن حکمرانی کی ) |
28 جنوری 1717ء–
21 جنوری 1774ء |
|
|||
27 | عبدالحمید اول
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد الحمید الاول، اصلاحتچِی، غازی |
21 جنوری 1774ء | 7 اپریل 1789ء
(15سال اور 76 دن حکمرانی کی ) |
20 مارچ 1725ء–
7 اپریل 1789ء |
|
|||
28 | سلیم ثالث
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان سلیم الثالث، بستیکار، نظامی، غازی |
7 اپریل 1789ء | 29 مئی 1807ء
(18سال اور 52 دن حکمرانی کی ) |
24 دسمبر 1761ء–
29 جولائی 1808ء |
|
|||
29 | مصطفٰی رابع
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مصطفٰی الرابع، غازی |
29 مئی 1807ء | 28 جولائی 1808ء
(1سال اور 60 دن حکمرانی کی ) |
8 ستمبر 1779ء–
16 نومبر 1808ء |
|
|||
30 | محمود ثانی
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمود الثانی، انقلاپچِی، غازی |
28 جولائی 1808ء | یکم جولائی 1839ء
(30سال اور 338 دن حکمرانی کی ) |
20 جولائی 1784ء–
یکم جولائی 1839ء |
|
|||
31 | عبد المجید اول
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد المجید الاول، انتظاماتچِی، غازی |
یکم جولائی 1839ء | 2 جون 1861ء
(21سال اور 359 دن حکمرانی کی ) |
25 اپریل 1823ء–
2 جون 1861ء |
|
|||
32 | عبد العزیز اول
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد العزیز الاول، بخت سیز، شہید، غازی |
2 جون 1861ء | 30 مئی 1876ء
(14سال اور 340 دن حکمرانی کی ) |
9 فروری 1830ء–
30 مئی 1876ء |
|
|||
33 | مراد خامس
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مراد الخامس، غازی |
30 مئی 1876ء | 31 اگست 1876ء
(93 دن حکمرانی کی ) |
21 ستمبر 1840ء–
29 اگست 1904ء |
|
|||
34 | عبدالحمید ثانی
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد الحمید الثانی، اول السلطان خان عبد الحمید، غازی |
31 اگست 1876ء | 27 اپریل 1909ء
(32سال اور 239 دن حکمرانی کی ) |
21 ستمبر 1842ء–
10 فروری 1918ء |
|
|||
35 | محمد خامس
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمد الخامس، الرشاد، غازی |
27 اپریل 1909ء | 3 جولائی 1918ء
(9سال اور 67 دن حکمرانی کی ) |
2 نومبر 1844ء–
3 جولائی 1918ء |
|
|||
36 | محمد سادس (وحید الدین)
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمد السادس، وحید الدین |
4 جولائی 1918ء | یکم نومبر 1922ء
(4سال اور 120 دن حکمرانی کی ) |
14 جنوری 1861ء–
16 مئی 1926ء |
|
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کے خلیفہ
ترمیمشمار | نام | تصویر | تخت نشینی | دستبرداری/ وفات | تاریخ پیدائش و وفات |
---|---|---|---|---|---|
37 | عبدالمجید ثانی
خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد المجید الثانی آفندی |
یکم نومبر1922ء | 3 مارچ 1924ء
(1سال اور 106 دن حکمرانی کی ) |
30 مئی 1868ء– |
بعد از خاتمہ سلطنت عثمانیہ
ترمیم- عبد المجید ثانی (1926ء تا 1944ء)
- احمد چہارم نہاد (1944ء تا 1954ء)
- عثمان چہارم فواد (1954ء تا 1973ء)
- محمد عبد العزیز ثانی (1973ء تا 1977ء)
- علی واسب (1977ء تا 1983ء) *
- محمد ہفتم اورخان (1983ء تا 1994ء)
- ارطغرل عثمان پنجم (1994ء تا 2009 )
- بایزید عثمان (2009 تا حال)
عثمانی شجرہ نسب
ترمیمعثمان اول 1258-1299-1326 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
اورخان اول 1284-1326-1359 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مراد اول 1326-1359-1389 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بایزید یلدرم 1357-1389-1403 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
محمد اول 1387-1403-1421 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مراد دوم 1404-1451 r. 1421-44, 1446-51 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
محمد فاتح 1432-1481 r. 1444-46, 1451-81 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بایزید دوم 1448-1481-1512 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
سلیم اول 1466-1512-1520 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
سلیمان اول 1494-1520-1566 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
سلیم دوم 1524-1566-1574 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مراد سوم 1546-1574-1595 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
محمد ثالث 1566-1595-1603 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
احمد اول 1590-1603-1617 | مصطفی اول 1591-1639 r. 1617-18, 1622-23 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عثمان دوم 1604-1618-1622 | مراد چہارم 1612-1623-1640 | ابراہیم 1615-1640-1648 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
محمد چہارم 1642-1693 r. 1648-1687 | سلیمان دوم 1642-1687-1691 | احمد ثانی 1643-1691-1695 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مصطفی دوم 1664-1695-1703 | احمد سوم 1673-1736 r. 1703-1730 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
محمود اول 1696-1730-1754 | عثمان سوم 1699-1754-1757 | مصطفی سوم 1717-1757-1774 | عبدالحمید اول 1725-1774-1789 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
سلیم سوم 1761-1808 r. 1789-1807 | مصطفی چہارم 1779-1807-1808 | محمود دوم 1785-1808-1839 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عبد المجید اول 1823-1839-1861 | عبد العزیز اول 1830-1861-1876 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مراد پنجم 1840-1904 r. 1876 | عبدالحمید دوم 1842-1918 r. 1876-1909 | محمد پنجم 1844-1909-1918 | محمد سادس 1861-1926 r. 1918-1922 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مزید دیکھیے
ترمیمترقیم
ترمیم- a2 : عثمانی حکمران کا مکمل انداز پیچیدہ تھا، کیونکہ یہ کئی عنوانات پر مشتمل تھا اور صدیوں میں تیار ہوا۔ سلطان کا لقب تقریباً شروع سے ہی تمام حکمرانوں نے لگاتار استعمال کیا۔ تاہم، چونکہ یہ مسلم دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی، اس لیے عثمانیوں نے اپنے آپ کو کم حیثیت کے دوسرے مسلم حکمرانوں سے الگ کرنے کے لیے اس کی مختلف حالتوں کو اپنایا۔ مراد اول، تیسرا عثمانی بادشاہ، نے خود کو سلطان اعظم (سلطان اعظم، سب سے اعلیٰ سلطان) اور ہوداویندیگر (خداوندگار، شہنشاہ) کے القابات سے موسوم کیا، جو بالترتیب اناطولیہ سلجوقیوں اور منگول الخانیوں کے ذریعہ استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بیٹے بایزید اول نے روم کا سلطان طرز اپنایا، روم سلطنت روم کا پرانا اسلامی نام تھا۔ عثمانیوں کے اسلامی اور وسطی ایشیائی ورثے کے امتزاج نے اس لقب کو اپنایا جو عثمانی حکمران کا معیاری عہدہ بن گیا: سلطان [نام] خان۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ مغربی دنیا میں سلطان کا لقب اکثر عثمانیوں کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، ترکی میں لوگ عموماً عثمانی خاندان کے حکمرانوں کا حوالہ دیتے ہوئے پادشاہ کا لقب زیادہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔
- (ب): سلطنت عثمانیہ کے حکمران کا مکمل اعزازی لقب تاریخ کے سب سے پیچیدہ اعزازی لقبوں میں سے ایک تھا، کیونکہ یہ کئی دیگر عنوانات پر مشتمل تھا اور وقت کے ساتھ ارتقا پزیر ہوا۔ سلطان کا لقب سلطنت عثمانیہ کی سلجوق سلطنت روم سے آزادی کے بعد سے عثمانی حکمرانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور سب سے عام لقب تھا اور ان میں سے متعدد کو قاہرہ میں مقیم عباسی خلیفہ نے اسلامی قوم کے لیے ان کی عظیم خدمات کے اعتراف میں "سرکاری طور پر" معزول کر دیا تھا اور عباسی خلیفہ سے یہ لقب حاصل کرنے والے سلطانوں سے: مراد اول اور محمد فاتح۔ تاہم، چونکہ یہ لقب اسلامی دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا تھا، عثمانیوں نے خود کو باقی اسلامی ریاستوں اور خاندانوں سے ممتاز کرنے کے لیے "سلطان" کے لقب کے علاوہ دیگر لقب شامل کیے، خاص طور پر اس وقت جب ان کی امارت بکھری ہوئی عباسی ریاست کی جانشینی کے لیے سب سے مضبوط امارت امیدوار بن گئی اور بالآخر خلافت کا لقب حاصل کیا۔ عثمانی خاندان کے تیسرے حکمران مراد اول نے خود کو "عظیم سلطان" اور "خداوندگر" کے لقب سے معزول کر دیا، (مؤخر الذکر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی سے حکمران تھا یا خدا کے حکم سے، وہ "مراد اللہ" ہے) اور یہ اعزازی لقب پہلے بالترتیب سلجوق ترکوں اور منگول الخانیوں کے ذریعہ استعمال کیے جاتے تھے۔ بایزید اول بن مراد نے رومیوں کے سلطان کا لقب نقل کیا ہے اور رومیوں سے مراد "رومیوں کا ملک" ہے، یعنی اناطولیہ، جو صدیوں تک بازنطینی رومیوں کا ملک تھا، لہذا یہ مسلم مؤرخین کو بھی معلوم تھا اور یادداشت اور لوک داستانوں میں محفوظ رہا۔ عثمانیوں کی قدیم اسلامی اور ترک ثقافتی وراثت کے امتزاج کی وجہ سے عثمانی خاندان کے تمام سلطانوں کا منفرد لقب ابھرا جو ریاست کے زوال تک ان کے ساتھ تھے: سلطان [فلاں] خان۔ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ "سلطان" کا لقب مغربی اور یہاں تک کہ عرب دنیا میں لوگوں میں عام تھا اور ریاست کے حکمرانوں کا حوالہ دیتا تھا، عثمانی ترکوں نے حکمران کو "پدیشاہ" کہا، جس کا مطلب بادشاہ یا بادشاہ ہے۔ سلطانوں کا پورا لقب وہی بن گیا جو اوپر ذکر کیا گیا تھا اور یہ ریاست کی سرحدوں کے استحکام کے بعد وہی بن اس عنوان کے کچھ حصے کی عربائزیشن کا ذکر کتاب "عثمانی اٹک ریاست کی تاریخ" میں کیا گیا تھا، جو سلطنت عثمانیہ پر عربی میں لکھی گئی سب سے اہم تاریخی حوالہ جات میں سے ایک ہے، اس کے مصنف، وکیل پروفیسر محمد فرید بے اور سلطان سلیمان کے فرانکوئس اول کو لکھے گئے خط میں موجود عنوان کی عربائزیشن۔ فرانس کے بادشاہ مندرجہ ذیل ہیں:[64]
"میں سلطانوں کا سلطان ہوں، خواکین کا ثبوت ہوں، بادشاہوں کا تاج ہوں، دونوں ممالک میں خدا کا سایہ ہے، بحیرہ اسود کا سلطان، بحیرہ اسود، اناطولیہ، رومیلی، قرمان الروم، ذوالقریعہ کی ولایت، دیارباقر، کردستان، آذربائیجان، عجم، لیونت، حلب، مصر، مکہ، مدینہ، یروشلم اور تمام عرب ممالک۔ یمن اور بہت سی سلطنتیں جنھیں میرے آباء و اجداد نے فتح کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کی قوت سے ان کی نشانیوں کو روشن کیا۔ اور بہت سے دوسرے ممالک کا افتتاح میرے ہاتھ سے کیل کی تلوار سے کیا گیا، میں سلطان سلیمان خان بن سلطان سلیم خان ہوں، سلطان بایزید خان کے بیٹے۔
- b2 : خلافت عثمانیہ ان کی روحانی طاقت کی علامت تھی، جب کہ سلطنت ان کی دنیاوی طاقت کی نمائندگی کرتی تھی۔ عثمانی تاریخ نویسی کے مطابق، مراد اول نے اپنے دور حکومت (1362 تا 1389) کے دوران خلیفہ کا لقب اختیار کیا اور سیلم اول نے بعد میں 1516-1517 میں مصر کی فتح کے دوران خلیفہ کی اتھارٹی کو مضبوط کیا۔ تاہم، جدید علما کے درمیان عام اتفاق ہے کہ عثمانی حکمرانوں نے مصر کی فتح سے پہلے خلیفہ کا لقب استعمال کیا تھا، جیسا کہ مراد اول (1362-1389) کے دور حکومت میں تھا، جس نے بلقان کے بیشتر علاقوں کو عثمانی حکمرانی کے تحت لایا اور قائم کیا۔ 1383 میں سلطان کا لقب۔ فی الحال اس بات پر اتفاق ہے کہ خلافت ڈھائی صدیوں کے لیے "غائب" ہو گئی تھی، اس سے پہلے کہ 1774 میں سلطنت عثمانیہ اور روس کی کیتھرین دوم کے درمیان معاہدہ Küçük Kaynarca کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو گیا تھا۔ یہ معاہدہ انتہائی علامتی تھا، کیونکہ اس نے خلافت کے عثمانیوں کے دعوے کو پہلی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا تھا۔ اگرچہ اس معاہدے نے سلطنت عثمانیہ کے کریمیائی خانات کے نقصان کو باضابطہ بنا دیا، لیکن اس نے روس میں مسلمانوں پر عثمانی خلیفہ کے مسلسل مذہبی اختیار کو تسلیم کیا۔ 18ویں صدی کے بعد سے، عثمانی سلاطین نے یورپی سامراج کو گھیرنے کے سلسلے میں سلطنت کے مسلمانوں میں پان اسلامسٹ جذبات کو ابھارنے کے لیے خلیفہ کے طور پر اپنی حیثیت پر تیزی سے زور دیا۔ جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو سلطان/خلیفہ نے 1914 میں سلطنت عثمانیہ کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کی کال جاری کی، جس میں فرانسیسی، برطانوی اور روسی سلطنتوں کی رعایا کو بغاوت پر اکسانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ عبد الحمید ثانی عثمانی سلطان تھے جنھوں نے اپنے خلیفہ کے عہدے کا سب سے زیادہ استعمال کیا اور بہت سے مسلم سربراہان مملکت نے اسے خلیفہ کے طور پر تسلیم کیا، حتیٰ کہ سماٹرا تک بھی۔ اس نے 1876 کے آئین (آرٹیکل 4) میں شامل عنوان پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Stavrides 2001, p. 21
- ↑ Kafadar 1995, p. 122. "یہ کہ ان کا تعلق Oğuz کنفیڈریسی کی Kayı برانچ سے تھا، لگتا ہے کہ پندرہویں صدی کے نسب پرستی میں ایک تخلیقی "دوبارہ دریافت" ہے۔ یہ نہ صرف احمدی میں بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یحیی فقیہ-آقپازادے داستان میں غائب ہے، جو نوح کے پاس واپس جانے والے ایک وسیع شجرہ نسب کا اپنا ورژن پیش کرتا ہے۔ اگر Kayı نسب کا کوئی خاص دعویٰ ہوتا تو یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یحیی فقیہ نے اس کے بارے میں نہ سنا ہوگا۔ ." Lowry 2003, p. 78. "ان چارٹروں کی بنیاد پر، جن میں سے سبھی 1324 اور 1360 کے درمیان تیار کیے گئے تھے (تقریباً ایک سو پچاس سال قبل عثمانی خاندان کے خرافات کے ظہور سے ان کی شناخت ترک قبائل کی Oguz فیڈریشن کی Kayı شاخ کے ارکان کے طور پر کی گئی تھی)۔ ..." Lindner 1983, p. 10. "درحقیقت، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کس طرح بھی کوشش کی جائے، ذرائع محض ایک خاندانی درخت کی بازیابی کی اجازت نہیں دیتے جو عثمان کے سابقہ کو اوز قبیلے کے کائی سے جوڑتا ہے۔ ایک ثابت شجرہ نسب کے بغیر یا یہاں تک کہ ایک ہی نسب کو پیش کرنے کے لیے کافی دیکھ بھال کے ثبوت کے بغیر تمام عدالتی تاریخ نگاروں کو پیش کیا جائے، ظاہر ہے کہ کوئی قبیلہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح، ابتدائی عثمانی تاریخ میں قبیلہ ایک عنصر نہیں تھا۔"
- ↑ Glazer 1996, "War of Independence"
- ↑ Strauss 2010, pp. 21–51.
- ↑ Strauss 2010, pp. 21–51.
- ^ ا ب پ ت Strauss 2010, pp. 21–51.
- ↑ Findley 2005, p. 115
- ↑ Glazer 1996, "Ottoman Institutions"
- ↑ Findley 2005, p. 115
- ↑ Toynbee 1974, pp. 22–23
- ↑ Stavrides 2001, p. 20
- ↑ Quataert 2005, p. 93
- ↑ d'Osman Han 2001, "Ottoman Padishah Succession"
- ↑ Glazer 1996, "Ottoman Institutions"
- ↑ Quataert 2005, p. 90
- ↑ Leslie Peirce۔ "The sultanate of women"۔ Channel 4۔ 03 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2009
- ↑ Glazer 1996, "External Threats and Internal Transformations"
- ↑ "Last heir to Ottoman throne passes away at 90"۔ Daily Sabah۔ 19 January 2021
- ↑ Quataert 2005, p. 91
- ↑ Quataert 2005, p. 92
- ↑ "Sultan Osman Gazi"۔ وزارة الثقافة والسياحة (تركيا)۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan Orhan Gazi"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan Murad Hüdavendigar Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan Yıldırım Beyezid Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ Nicholae Jorga: Geschishte des Osmanichen (Trans :Nilüfer Epçeli) Vol 1 Yeditepe yayınları, İstanbul,2009,ISBN 975-648017 3 p 314
- ↑ Jorga 2009, p. 314.
- ↑ Prof. Yaşar Yüce-Prof. Ali Sevim: Türkiye tarihi Cilt II, AKDTYKTTK Yayınları, İstanbul, 1991 p 74-75
- ↑ Joseph von Hammer:Osmanlı Tarihi cilt I (condensation: Abdülkadir Karahan), Milliyet yayınları, İstanbul. p. 58-60.
- ↑ "Sultan Mehmed Çelebi Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Chronology: Sultan II. Murad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2009
- ↑ "Fatih Sultan Mehmed Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 10 أكتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan II. Bayezid Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Yavuz Sultan Selim Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Kanuni Sultan Süleyman Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan II. Selim Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan III. Murad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan III. Mehmed Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan I. Ahmed"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan I. Mustafa"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan II. Osman Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan IV. Murad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan İbrahim Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan IV. Mehmed"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan II. Süleyman Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan II. Ahmed Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan II. Mustafa Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan III. Ahmed Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan I. Mahmud Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan III. Osman Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan III. Mustafa Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan I. Abdülhamit Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan III. Selim Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan IV. Mustafa Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan II. Mahmud Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan Abdülmecid Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan Abdülaziz Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan V. Murad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan II. Abdülhamid Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 06 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan V. Mehmed Reşad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ "Sultan VI. Mehmed Vahdettin Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009
- ↑ As̜iroğlu 1992, p. 13
- ↑ As̜iroğlu 1992, p. 17
- ↑ As̜iroğlu 1992, p. 14
- ↑ تاريخ الدولة العليّة العثمانية، تأليف: الأستاذ محمد فريد بك المحامي، تحقيق: الدكتور إحسان حقي، دار النفائس، الطبعة العاشرة: 1427 هـ - 2006 م، صفحة: 209-210ISBN 9953-18-084-9
کتابیات
ترمیم- Orhan Gâzi Aşiroğlu (1992)۔ Son halife, Abdülmecid۔ Tarihin şahitleri dizisi (بزبان ترکی)۔ Istanbul: Burak Yayınevi۔ ISBN 978-9757645177۔ OCLC 32085609
- Carter V. Findley (2005)۔ The Turks in World History۔ New York: Oxford University Press US۔ ISBN 978-0-19-517726-8۔ OCLC 54529318۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2009
- Caroline Finkel (2007)۔ Osman's Dream: The History of the Ottoman Empire.۔ Basic Books۔ ISBN 978-0-465-00850-6
- Glassé, Cyril، مدیر (2003)۔ "Ottomans"۔ The New Encyclopedia of Islam۔ Walnut Creek, CA: AltaMira Press۔ ISBN 978-0-7591-0190-6۔ OCLC 52611080۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2009
- Steven A. Glazer (1996)۔ "Chapter 1: Historical Setting"۔ $1 میں Helen Chapin Metz۔ A Country Study: Turkey۔ Library of Congress Country Studies (5th ایڈیشن)۔ Washington, D.C.: Federal Research Division of the Library of Congress۔ ISBN 978-0-8444-0864-4۔ OCLC 33898522۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2009
- Nicholae Jorga (2009)۔ Geschishte des Osmanichen۔ 1۔ Translated by Nilüfer Epçeli۔ Istanbul: Yeditepe yayınları۔ ISBN 975-6480-17-3
- Cemal Kafadar (1995)۔ Between Two Worlds: The Construction of the Ottoman State۔ Berkeley, CA: University of California Press۔ ISBN 978-0-520-20600-7۔ OCLC 55849447۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2009
- Hakan T. Karateke (2005)۔ "Who is the Next Ottoman Sultan? Attempts to Change the Rule of Succession during the Nineteenth Century"۔ $1 میں Itzchak Weismann، Fruma Zachs۔ Ottoman Reform and Muslim Regeneration: Studies in Honour of Butrus Abu-Manneb۔ London: I.B. Tauris۔ ISBN 978-1-85043-757-4۔ OCLC 60416792۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2009
- Rudi Paul Lindner (1983)۔ Nomads and Ottomans in Medieval Anatolia۔ Indiana University Press
- Heath Lowry (2003)۔ The Nature of the Early Ottoman State۔ SUNY Press۔ ISBN 0-7914-5636-6
- Nadine Sultana d'Osman Han (2001)۔ The Legacy of Sultan Abdulhamid II: Memoirs and Biography of Sultan Selim bin Hamid Han۔ Foreword by Manoutchehr M. Eskandari-Qajar۔ Santa Fe, NM: Sultana Pub۔ OCLC 70659193۔ 05 جنوری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2009
- Leslie P. Peirce (1993)۔ The Imperial Harem: Women and Sovereignty in the Ottoman Empire۔ New York: Oxford University Press US۔ ISBN 978-0-19-508677-5۔ OCLC 243767445۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2009
- Donald Quataert (2005)۔ The Ottoman Empire, 1700–1922 (2nd ایڈیشن)۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-83910-5۔ OCLC 59280221۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2009
- Theoharis Stavrides (2001)۔ The Sultan of Vezirs: The Life and Times of the Ottoman Grand Vezir Mahmud Pasha Angelović (1453–1474)۔ Leiden: Brill Publishers۔ ISBN 978-90-04-12106-5۔ OCLC 46640850۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2009
- Johann Strauss (2010)۔ "A Constitution for a Multilingual Empire: Translations of the Kanun-ı Esasi and Other Official Texts into Minority Languages"۔ $1 میں Herzog, Christoph، Malek Sharif۔ The First Ottoman Experiment in Democracy۔ Würzburg: Orient-Institut Istanbul۔ 11 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2023 } (info page on book آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ menadoc.bibliothek.uni-halle.de (Error: unknown archive URL) at Martin Luther University) // CITED: pp. 43–44 (PDF pp. 45–46/338).
- Peter F. Sugar (1993)۔ Southeastern Europe under Ottoman Rule, 1354–1804 (3rd ایڈیشن)۔ Seattle: University of Washington Press۔ ISBN 978-0-295-96033-3۔ OCLC 34219399۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2009
- Binnaz Toprak (1981)۔ Islam and Political Development in Turkey۔ Leiden: Brill Publishers۔ ISBN 978-90-04-06471-3۔ OCLC 8258992۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2009
- Arnold J. Toynbee (1974)۔ "The Ottoman Empire's Place in World History"۔ $1 میں Kemal H. Karpat۔ The Ottoman State and Its Place in World History۔ Social, Economic and Political Studies of the Middle East۔ 11۔ Leiden: Brill Publishers۔ ISBN 978-90-04-03945-2۔ OCLC 1318483۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2009
- Ali Uğur (2007)۔ Mavi Emperyalizm [Blue Imperialism] (بزبان ترکی)۔ Istanbul: Çatı Publishing۔ ISBN 978-975-8845-87-3۔ OCLC 221203375۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2009
- Joseph von Hammer۔ Osmanlı Tarihi cilt I۔ condensed by Abdülkadir Karahan۔ Istanbul: Milliyet yayınları