القادر باللہ

خلافت عباسیہ (بغداد) کا پچیسواں خلیفہ جس نے 991ء سے 1031ء تک حکومت کی
(قادر باللہ سے رجوع مکرر)

القادر باللہ (پیدائش: 947ء— وفات: 29 نومبر 1031ء) خلافت عباسیہ کا پچیسواں خلیفہ تھا جس نے 991ء سے 1031ء تک حکومت کی۔اُس کے بعد سب سے زیادہ طویل مدت تک حکمرانی خلیفہ الناصر لدین اللہ نے کی۔

القادر باللہ
(عربی میں: أبو العباس أحمد القادر بالله ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

مناصب
عباسی خلیفہ (25  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1 نومبر 991  – 29 نومبر 1031 
طائع للہ  
حمزہ القائم بامر اللہ  
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 947ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 29 نومبر 1031ء (83–84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد حمزہ القائم بامر اللہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان بنو عباس   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ خلیفہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

نام و نسب

ترمیم

نام احمد بن اسحاق، کنیت ابوالعباس اور لقب القادر باللہ تھا۔ نسب یوں ہے:

القادر باللہ احمد بن اسحاق بن المقتدر باللہ بن المعتضد باللہ بن الموفق باللہ بن المتوکل علی اللہ بن المعتصم باللہ بن ہارون الرشید بن المہدی باللہ بن ابو جعفر المنصور بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) بن عباس بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ)۔

 
جامع التواریخ میں موجود سلطان محمود غزنوی کو خلیفہ القادر باللہ کی جانب سے خلعت شاہی موصول ہونے کی ایک شبیہ - (1307ء)

پیدائش

ترمیم

قادر باللہ کی پیدائش غالباً 336ھ مطابق 947ء میں بغداد میں خلیفہ المطیع للہ کے عہدِ حکومت میں ہوئی۔قادر باللہ کی والدہ کا نام تمنیٰ تھا جبکہ بعض نے نام دمنہ لکھا ہے۔ تمنیٰ اسحاق بن المقتدر باللہ کی کنیز تھی۔

تعلیم و علوم

ترمیم

شاہی گھرانے کا فرد ہوتے ہوئے اُسے آبا و اجداد سے علم ورثہ میں عطا ہوا تھا۔ وہ فقیہ بھی تھا یہاں تک کہ اُس کو تفقہ میں علامہ ابی بشر الہروی الشافعی پر ترجیح دی جاتی تھی۔[2]

عہد حکومت

ترمیم

خلیفہ ابوالفضل عبدالکریم الطائع للہ العباسی کی دستبرداری کے بعد یکم نومبر 991ء کو قادر باللہ کو خلیفہ مقرر کیا گیا۔ چونکہ قادر باللہ اُس وقت بطیحہ نامی ایک مقام پر مقیم تھا اور بغداد میں موجود نہ ہونے کے سبب سے عوام میں حاضر نہ ہو سکا۔ 10 رمضان 381ھ مطابق 20 نومبر 991ء کو قادر باللہ بغداد پہنچا اور سریر آرائے خلافت ہوا۔ شعرا نے اُس روز دربارِ خلافت میں اُس کے لیے تہنیتی قصائد پڑھے۔[3]

خلیفہ ابوالفضل عبدالکریم الطائع للہ العباسی کے عہدِ خلافت میں ایک بار قادر باللہ نے اُسے خلافت سے معزول کرانے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے طائع للہ نے اُس کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تھا۔ وہ بغداد سے بطیحہ میں مہذب الدولہ ابو الحسن کے پاس چلا گیا۔ ابو الحسن نے اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور تعظیم و تکریم سے پیش آیا۔ طائع للہ کی معزولی کے بعد امرائے بغداد نے قادر باللہ کو بحیثیتِ خلیفہ نامزد کیا۔ بہاؤالدولہ وزیر اعظم نے اپنے خواص کو قادر باللہ کے لینے کے لیے بطیحہ بھیجا۔ مہذب الدولہ نے شاہانہ سازو سامان کے ساتھ قادر باللہ کو بغداد روانہ کیا اور بہت بڑی رقم ساتھ کی۔ 12 رمضان 381ھ کو قادر باللہ بغداد پہنچا جہاں بہاؤالدولہ وزیر اعظم اور تمام امرائے سلطنت استقبال کے لیے نکلے۔ نہایت تزک و احتشام کے ساتھ دربار میں لایا گیا اور خلافت کی بیعت لی گئی۔[4]

عہد خلافت کے نمایاں واقعات

ترمیم
  • مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین الذہبی نے لکھا ہے کہ: ماہِ شوال 381ھ مطابق دسمبر 991ء میں قادر باللہ نے عام دربار منعقد کیا جس میں قادرباللہ خلیفہ وقت اور بہاؤ الدولہ وزیر اعظم نے باہمی معاہدہ وفاداری کیا۔ بعد ازاں قادرباللہ نے اپنے خاص محل کے علاوہ تمام مملک وغیرہ بہاؤ الدولہ کے انتظام میں کردی۔
  • 381ھ مطابق 991ء میں گورنر مکہ ابوالفتوح حسن بن جعفر العلوی نے اپنی خود مختاری خلافت کا اعلان کر دیا اور راشد باللہ کا لقب اِختیار کر لیا۔اِس اقدام سے شاہِ مصر کی مکہ معظمہ پر حکومت ختم ہو گئی لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد ابوالفتوح کی حکومت میں کمزوری پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے اُس نے دوبارہ شاہِ مصر کی بالادستی کو قبول کر لیا۔
  • 382ھ مطابق 992ء میں وزیرمملکت ابونصر سابور اَردشیر نے کرخ میں ایک محل تعمیر کروا کر اُس کا نام دارالعلم تجویز کیا۔ اِس کے لیے بیش قیمت کتب خرید کر وہاں رکھیں جو تعداد میں بہت زیادہ تھیں۔ یہ پورا کتب خانہ علما کے لیے وقف کر دیا گیا تھا۔
  • 384ھ مطابق 994ء میں عراق کے باشندے حج کی ادائیگی کو نہ جاسکے اور راستے سے ہی واپس عراق کو چلے گئے کیونکہ اصیغر اعرابی نے بغیر محصول وصول کیے انھیں حجاز میں داخل نہ ہونے دیا۔ اِس طرح یمن اور بلاد الشام کے باشندے بھی حج اداء نہ کرسکے، البتہ اہالیانِ مصر نے حج اداء کر لیا۔
  • 387ھ مطابق 997ء میں سلطان فخرالدولہ کا انتقال ہو گیا اور اُس کا چار سالہ بیٹا رستم رَے شہر کا بادشاہ تسلیم کر لیا گیا جس کا لقب القادر مجدالدولہ تھا۔
  • 394ھ مطابق 1004ء میں بہاؤالدولہ نے شریف ابو احمد حسین بن موسیٰ الموسوی کو قاضی القضاۃ، امیرالحجاج اور مطالبہ کرنے والوں کا مندوب مقرر کر دیا۔ علامہ شیراز بھی اِن کے ماتحت تھے لیکن خلیفہ قادر باللہ نے اُن کی منظوری نہ دِی، اِس لیے شریف ابو احمد برسرکار نہ ہو سکے۔
  • ابو علی المنصور الحاکم بامر اللہ (خلیفہ عبیدیہ) نے مصری علما کو زبردستی قید کرواکر قتل کروایا جو خلفائے راشدین کی عظمت کا اِظہار کیا کرتے تھے۔ ابو علی المنصور الحاکم بامر اللہ نے مساجد کے دروازوں اور شہر کی دیواروں پر خلفائے ثلاثہ کے نام پر تبرا کروایا اور عوام میں اِن فعل شنیعہ کا رواج کیا۔ قاہرہ شہر میں کتوں کو مار ڈالا گیا۔ تمام ایسی شرابوں کی اِقسام جن میں بھرپور نشہ نہیں ہوتا، کو بند کروا دیا گیا۔ بغیر چھلکے والی مچھلی فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی۔
  • 396ھ مطابق 1006ء میں ابو علی المنصور الحاکم بامر اللہ نے حکم دیا کہ مصر و حرمین الشریفین میں جب الحاکم کا نام سنا جائے تو سب لوگ خواہ وہ بازار میں ہو یا جلسوں میں، تو فوراً کھڑے ہوجائیں اور سجدہ کریں۔
  • 398ھ مطابق 1008ء میں بغداد میں شیعی سنی فساد ہوا۔ اِس میں شیخ احمد فرائینی قتل ہونے سے بال بال بچ گئے۔ شیعہ بغداد میں الحاکم بامر اللہ اور یامنصور کے نعرے بلند کرتے رہے۔خلیفہ قادر باللہ نے سنی حضرات کی امداد کی غرض سے شہر میں اَمن و اَمان قائم کرنے کے اپنے گھڑسواروں کو متعین کیا جس سے یہ فساد ختم ہو گیا۔
  • 398ھ مطابق 1008ء میں ابو علی المنصور الحاکم بامر اللہ نے بیت المقدس نے مشہور گرجا قمامہ کو منہدم کروا دیا۔ مصر کے دیگر گرجا خانے مسمار کردیے گئے۔ عیسائیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گلے میں ایک ہاتھ لمبی اور پانچ ہاتھ رطلی مصری وزن کی صلیب پہنے رکھیں اور یہودیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گلے میں پانچ رطلی مصری وزن کی لکڑی کی ساخت کا قُرمہ ڈالے رکھیں اور لازمی طور پر سیاہ عمامہ باندھیں۔
  • 399ھ مطابق 1009ء میں بصرہ کے قاضی ابوعمرو کو معزول کرکے اُن کی جگہ ابو الحسن بن شوارب کو قاضی مقرر کر دیا گیا۔
  • 399ھ مطابق 1009ء میں ہسپانیہ میں اندلس کی بنو اُمیہ کی بادشاہت کمزور ہونے لگی اور نظم و نسق میں کوتاہیاں ثابت ہوئیں۔
  • 400ھ مطابق 1010ء میں دریائے دجلہ میں زبردست طوفان کے باعث زیادہ نقصانات ہوئے جس کے سبب لوگوں نے بڑے بڑے جزیرے کرائے پر لے لیے اور وہاں جاکر اپنی جانیں بچائیں۔
  • 402ھ مطابق 1012ء میں شاہِ مصر حاکم بامر اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے درختوں کی فروخت پر پابندی عائد کی اور انگور بیچنے کی بھی ممانعت کردی۔
  • اِس طرح انگوروں کے باغات تباہ کردیے گئے۔
  • 404ھ مطابق 1014ء میں حاکم بامر اللہ نے خواتین کو ممانعت کردی کہ وہ دن یا رات کے کسی حصے میں بھی سڑکوں پر نہ نکلیں اور یہ تمام احکام حاکم بامر اللہ کی وفات تک بحال رہے۔
  • 13 فروری 1021ء کی شب کو حاکم بامراللہ کو کسی نے مصر کے علاقہ حلوان میں قتل کر دیا۔ اُس کے بعد اُس کا فرزند علی تخت نشین ہوا جس نے لقب الظاہر لاعزاز دین اللہ اختیار کیا۔[5]
  • 30 اپریل 1030ء کو سلطان یمین الدولہ محمود غزنوی، شاہِ غزنہ کا انتقال ہوا۔

وفات

ترمیم

خلیفہ قادر باللہ نے بروز پیر 11 ذوالحجہ 422ھ مطابق 29 نومبر 1031ء کو 87 سال (قمری) کی عمر میں بغداد میں اپنے محل میں انتقال کیا۔ اُس کی مدت خلافت 41 سال 3 مہینے تھی۔[6]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/1020771674 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 جولا‎ئی 2021
  2. تاج الدین السبکی: طبقات الشافعیہ،   جلد 3،  صفحہ 1۔
  3. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 389۔
  4. مفتی انتظام اللہ شہابی و مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی: تاریخ ملت، جلد 2، صفحہ 527۔
  5. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 391/392۔
  6. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 392۔
القادر باللہ
پیدائش: 947ء وفات: 29 نومبر 1031ء
مناصب سنت
ماقبل  خلیفۃ الاسلام، خلیفۃ العباسیہ
یکم نومبر 991ء29 نومبر 1031ء
مابعد