محمد عبداللہ غازی
شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ غازی (ولادت: 1 جون 1935ء- وفات: 17 اکتوبر 1998ء) ایک پاکستانی اسلامی اسکالر جو رویت ہلال کمیٹی، پاکستان کے سابقہ چیئرمین اور لال مسجد اور جامعہ فریدیہ کے بانی تھے۔
محمد عبد اللہ غازی Muhammad Abdullah Ghazi | |
---|---|
چانسلر جامعہ فریدیہ | |
قلمدان سنبھالا 1971 – 17 اکتوبر 1998ء | |
پیشرو | نیا عہدہ |
جانشین | عبد العزیز غازی |
چیرمین رویت ہلال کمیٹی، پاکستان | |
قلمدان سنبھالا 1993 – 17 اکتوبر 1998ء | |
پیشرو | نیا عہدہ. |
جانشین | مفتی منیب الرحمان |
خطیب لال مسجد | |
قلمدان سنبھالا 1965 – 17 اکتوبر 1998ء | |
پیشرو | نیا عہدہ. |
جانشین | عبد العزیز غازی |
مہتمم جامعہ سیدہ حفصہ | |
قلمدان سنبھالا 1992 – 17 اکتوبر 1998ء | |
جانشین | عبد العزیز غازی |
ذاتی | |
پیدائش | 1 جون 1935 بستی عبد اللہ بلوچستان، برطانوی راج |
وفات | 17 اکتوبر 1998 | (عمر 63 سال)
مذہب | اسلام |
قومیت | پاکستان |
اولاد | مولانا عبد العزیز غازی مولانا عبد الرشید غازی |
شہریت | برطانوی ہند (1935–1947) پاکستان (1947–1998) |
دستخط | |
مرتبہ | |
استاذ | علامہ سید یوسف بنوری مفتی محمود |
مولانا عبدالرشید غازی اور مولانا عبدالعزیز کے والد تھے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیممحمد عبد اللہ بن غازی یکم جون 1935 میں ضلع راجن پور کے ایک گاؤں بستی عبد اللہ میں غازی محمد کے خاندان میں پیدا ہوئے جو بلوچستان کے مزاری قبیلے کے سدوانی تھے۔ ان کے والد سماجی اور قبائلی طور پر متحرک تھے، جس وجہ سے انھیں انگریزوں نے گرفتار کر کے 8 سال جیل میں ڈال دیا۔ جیل میں وہ مذہبی ہو گئے اور اپنے بیٹے عبد اللہ کو گاؤں کے قریب ایک مقامی مدرسے میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔[1]
سات سال کی عمر میں، مولانا عبد اللہ نے حفظ قرآن مکمل کرنے کے لیے رحیم یار خان کے مدرسہ خدام القرآن میں داخلہ لیا۔[2]
ابتدائی تعلیم کے بعد، مولانا عبد اللہ مزید تعلیم کے لیے ملتان کے جامعہ قاسم العلوم میں پڑھنے گئے، جہاں انھوں نے 5 سال تک تعلیم حاصل کی جہاں پر وہ مفتی محمود کے شاگرد تھے۔[3]
اس کے بعد وہ کراچی چلے گئے اور جامعہ العلوم الاسلامیہ، کراچی میں داخلہ لیا، جہاں سے 1957 میں درس نظامی کی تکمیل کی اور آپ کا شمار علامہ سید یوسف بنوری کے اعلیٰ شاگردوں میں ہوتا ہے۔[4]
لال مسجد
ترمیمجب دار الخلافہ اسلام آباد منتقل ہوا تو یہاں کی پہلی مرکزی جامع مسجد کے لیے صدر ایوب خان نے اس وقت کے علامہ سید یوسف بنوری کی سفارش پر مولانا عبد اللہ کو جی سکس فور میں بننے والی اس جامع مسجد کا خطیب مقرر کر دیا۔ [5]
اس وقت اسلام آباد کی کل آبادی لال مسجد کے قرب و جوار میں مقیم تھی۔ شہر کے اکابرین اسی مسجد میں آتے جاتے تھے۔ وقت گزرنے ک ساتھ مولانا عبد اللہ نے اپنے مدّاحوں کا ایک حلقہ بنا لیا جن میں افسر شاہی کے ارکان بھی تھے اور سیاست دان بھی۔[6]
فیصل مسجد کی تکمیل سے قبل لال مسجد, اسلام آباد کی پہلی اور واحد مرکزی مسجد تھی اور صدر محمد ضیاء الحق اس مسجد کا باقاعدہ دورہ کیا کرتے تھے اور جب بھی کوئی غیر ملکی وفد آیتا تو وہ سب لال مسجد کا دورہ بھی کرتے تھے۔[7]
فیصل مسجد کی تکمیل کے بعد، ضیاء الحق نے مولانا عبد اللہ کو فیصل مسجد میں اس کے پہلے امام کی حیثیت سے جگہ دینا چاہا لیکن مولانا نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔[8]
جامعہ فریدیہ
ترمیم1966 میں مولانا عبد اللہ نے لال مسجد میں ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا جس میں حفظ کلاس کے لیے تقریباً 20 سے 25 طلبہ تھے۔ کچھ عرصہ بعد اس مدرسے کو چلانے کے لیے ایک بڑی جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو جگہ دی جا سکے۔ چنانچہ 1971 میں شہر کے پرائم سیکٹر E-7 میں مارگلہ پہاڑیوں کے میدانوں میں ایک جگہ، اپنے کئی قریبی دوستوں خاص طور پر سیٹھ ہارون جعفر (Jaffer Brothers Pakistan)، حاجی اختر حسن (او ایس ڈی کشمیر افیئر اینڈ فنانس سیکرٹری آزاد کشمیر) اور ایڈمرل محمد شریف کے تعاون سے حاصل کی[9] اور مدرسے کو E7 میں منتقل کر دیا گیا۔ اور اس کا نام "جامعہ فریدیہ" رکھا گیا اور بعد میں "الفریدیہ یونیورسٹی" کے نام سے مشہور ہوا۔[10]
1992 میں انھوں نے جامعہ حفصہ کی بنیاد رکھی جو بعد میں ایشیا کا سب سے بڑا مدرسہ بن گیا، مولانا 1998 میں اپنے قتل تک دونوں مدرسوں کے چانسلر رہے۔[10]
سیاسی افق
ترمیمسیاسی افق پر مولانا عبد اللہ اور ان کی لال مسجد تحریک ختم نبوت کے وقت نمودار ہوئے جب یہ مسجد اسلام آباد میں ہونے والی ختم نبوت تحریک کے جلسوں اور جلوسوں کا مرکز بن گئی۔ تحریک کے روح رواں مفتی محمود مولانا کے استاد تھے۔ اس تحریک کے دوران یہ تعلق سیاسی نوعیت اختیار کر گیا اور آنے والے دنوں میں وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک میں بھی لال مسجد نے اہم کردار ادا کیا۔[11]
بن لادن سے ملاقات
ترمیم1998 میں ان کے قتل سے چند ماہ قبل مولانا عبد اللہ اور ان کے دوست مولانا ظہور احمد علوی (بانی جامعہ محمدیہ) اور کچھ دوسرے علما افغانستان گئے۔ وہ اپنے بیٹے عبدالرشید غازی کو خاص طور پر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس وفد نے ملا عمر اور اسامہ بن لادن سے ملاقات کی۔[12]
قتل
ترمیمان کے سوانح نگار ریاض منصور لکھتے ہیں کہ مولانا کاہر روز کا معمول تھا کہ وہ لیکچر دینے کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر E-7 میں واقع اپنے مدرسے جامعہ فریدیہ جاتے، دوپہر کو ظہر کے وقت جب وہ واپس آئے تو مسجد کے دروازے کے سامنے کھڑے ایک شخص نے بندوق نکالی اور ان کے طرف فائرنگ کی ، جس سے مولانا بری طرح زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد اس نے قریب ہی موجود مولانا عبدالعزیز پر فائرنگ کی جو بمشکل جان بچا سکے۔ قاتل مسجد کے باہر کار میں بیٹھے ساتھی کی مدد سے فرار ہو گیا۔ مولانا عبد اللہ ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔[13]
پاکستانی صدر رفیق تارڑ نے ایک خط میں مولانا عبد اللہ کے قتل پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ "مولانا عبد اللہ غازی نے اپنی پوری زندگی اسلام کے لیے صرف کی اور علمائے کرام کی روایت کو زندہ رکھا، ان کی جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا"۔[14]
مولانا عبد اللہ کو جامعہ فریدیہ، اسلام آباد کے صحن میں دفن ہیں۔ جامعہ کی مسجد کا نام ان کی یاد میں "جامع مسجد عبد اللہ غازی شہید" دکھا گیا۔[15]
ان کے یاد میں ان کے آبائی علاقے کا نام بھی "بستی عبد اللہ" رکھا گیا اور 2002 میں وہاں ایک نیا مدرسہ تعمیر کیا گیا، جس کا نام بھی "مدرسہ عبد اللہ بن غازی" ہے، اسی علاقے کے قریب ایک ریلوے اسٹیشن کا نام بھی ان کے یاد میں رکھا گیا ہے۔ یہ علاقہ 2007 میں اس وقت دنیا بھر میں مشہور ہوا جب مولانا کے بیٹے عبدالرشید غازی کو مدرسے کے صحن میں دفن کیا گیا.[16]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "شہیداسلام مولانا عبداللہ شہید شخصیت و کردار۔۔۔تحریر مولاناتنویراحمداعوان"۔ Shaffak۔ 2016-10-18۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2021
- ↑ "شہیداسلام مولانا عبداللہ شہید شخصیت و کردار۔۔۔تحریر مولاناتنویراحمداعوان"۔ Shaffak۔ 2016-10-18۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2021
- ↑ Riaz Mansoor (2006)۔ Hayat Shaheed E Islam (حیات شہید ای اسلام)۔ مکتبہ فریدیہ۔ صفحہ: 57
- ↑ Riaz Mansoor (2006)۔ Hayat Shaheed E Islam (حیات شہید ای اسلام)۔ Maktaba Faridia۔ صفحہ: 57
- ↑ "Lal Masjid: a history"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2021
- ↑ "Lal Masjid: a history"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2021
- ↑ "Lal Masjid: a history"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2021
- ↑ "Profile: Islamabad's Red Mosque" (بزبان انگریزی)۔ 2007-07-27۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2021
- ↑ جامعۃ العلوم الاسلامیہ الفریدیہ۔ "تعارفِ جامعہ فریدیہ - جامعہ فریدیہ | Jamia Faridia"۔ تعارفِ جامعہ فریدیہ - جامعہ فریدیہ | Jamia Faridia۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2022
- ^ ا ب "Lal Masjid: a history"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2021
- ↑ Lal Masjid : A Brief History
- ↑ Lal Masjid : A Brief History
- ↑ Lal Masjid : A Brief History
- ↑ جامعۃ العلوم الاسلامیہ الفریدیہ۔ "تصاویر مولانا محمد عبد اللہ شہید - جامعہ فریدیہ | Jamia Faridia"۔ تصاویر مولانا محمد عبد اللہ شہید - جامعہ فریدیہ | Jamia Faridia (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2021
- ↑ "شہیداسلام مولانا عبداللہ شہید شخصیت و کردار۔۔۔تحریر مولاناتنویراحمداعوان"۔ Shaffak۔ 2016-10-18۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2021
- ↑ Nasir Iqbal (2007-07-12)۔ "Burial after arrival of relatives: SC"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2021